غزلیات
غزل
دور سے جیسے یہ مہتاب مجھے دیکھتا ہے
آنکھ کھلتے ہی ترا خواب مجھے دیکھتا ہے

کشتئ جاں میں تجھے خود بھی ڈبو سکتا ہوں
جس محبت سے یہ گرداب مجھے دیکھتا ہوں

ماسوائے مرے اپنے ہی ہرے زخموں کے
کب کوئی منظرِ شاداب مجھے دیکھتا ہے

دشتِ بے آب تجھے آنکھوں سے گیلا کر کے
کوئی سوکھا ہوا تالاب مجھے دیکھتا ہے

حالتِ جنگ میں امداد طلب نظروں سے
کبھی رستم کبھی سہراب مجھے دیکھتا ہے

ہنسنے لگتا ہوں تو مسعود کہیں اندر سے
سسکیوں آہوں کا سیلاب مجھے دیکھتا ہے
۔۔۔۔۔۔مسعود احمد
غزل
تمہاری ذات مری ذات سے جڑی ہوئی ہے
یہ روشنی کی کرن رات سے جڑی ہوئی ہے


مری کہانی، کہانی ہے وہ محبت کی
جو سارے ارض و سماوات سے جڑی ہوئی ہے

کسی کے ہاتھوں نہیں دل کے ہاتھوں کھائی ہوئی
شکست کتنی فتوحات سے جڑی ہوئی ہے


نئی جہت کسی صورت قبول کرتی نہیں
عاشقی بھی روایات سے جڑی ہوئی ہے

یہ سلطنت، یہ قلمرو، یہ مملکت دل کی
کسی فقیر کی خیرات سے جڑی ہوئی ہے

بتون کے گہرے مراسم ہیں کعبۂ دل سے
کہاں کی بات ہے کس بات سے جڑی ہوئی ہے
۔۔۔۔۔۔مسعود احمد
غزل
بشر سے تھا نہ خدا سے مرا معاملہ تھا
میں تھا خلا میں خلا سے مرا معاملہ تھا

فریبِ ریگِ تپید ہ سے آشنائی تھی
اور عزمِ آبلہ پا سے مرا معاملہ تھا

برس رہا تھا مسلسل خود اپنے آپ پہ میں
عجیب سیلِ بلا سے مرا معاملہ تھا

جگر کو چاک نہ کرتا تو کیا رفو کرتا
جمالِ رنگِ حنا سے مرا معاملہ تھا

دمِ شگفت مرے آس پاس تھی شبنم
اور ایک بادِ صبا سے مرا معاملہ تھا

ہر اک وجود میں اگنے کی چاہ تھی مجھ کو
میں جانتا تھا قضا سے مرا معاملہ تھا

نشیبِ دشتِ تمنّا تھا میرے پیروں میں
فرازِ کوہِ انا سے مرا معاملہ تھا

سفر میں ریگِ رواں پر نشان تھے سارے
میں کھو گیا کہ ہوا سے مرا معاملہ تھا

میں اس کے ہونٹ تو سر کر چکا تھا شامِ وصال
اب اس کے بندِ قبا سے مرا معاملہ تھا

وہ پوچھتے ہیں سماعت گنوائی ہے کیسے
حضور کوہِ ندا سے مرا معاملہ تھا

پڑے ہوئے تھے مرے در پہ رضیاں لے کر
فقیر و شاہ و گدا سے مرا معاملہ تھا

فنِ قصیدہ نگاری کی آبیاری سے
نہ مرغِ باد نما سے مرا معاملہ تھا

کئی وجود میسر تھے اوڑھنے کے لیے
مگر جو اس کی ردا سے مرا معاملہ تھا


سنائیے تو کہاں تک معاملاتِ جنوں
ورائے ارض و سما سے مرا معاملہ تھا


طلب بھی موت تھی آکاش اجتناب بھی موت
یہ کس طرح کی دوا سے مرا معاملہ تھا
۔۔۔۔۔۔امداد آکاش
غزل
قدم قدم سے مزاج اشنا مری مٹی
کبھی تو پُوچھ ، مرا مدعا مری مٹی

یہ بے سبب نہیں مجھ سے ترا خفا ہونا
نہ کر سکوں گا ترا سامنا مری مٹی

چمن غبرہوا ہے وہ خاک اڑتی ہے
کہاں کی سیر کو جاؤں، پتا مری مٹی

مرا ہی عکس اُبھرتا ہے سامنے میرے
بنی ہوئی ہے مرا آئینہ مری مٹی

کئی دنوں سے سُناہے یہاں نہیں مہدی
کہیں اُس کا پتہ ڈھونڈوں مری مٹی
۔۔۔۔۔۔شوکت مہدی
غزل
فرات وقت چھلک کر جسے سلامی دے
مرے خدا مجھے وہ زعم تشنہ کامی دے

رواں دواں ہے لہو میں محبّتوں کی مہک
زباں کو بھی سرِ محفل صبا خرامی دے

جو میرے ساتھ فنا ہو وہ کمتری بہتر
جو میرے بعد فزوں ہو وہ نیک نامی دے

مقام جس کے مدارج کو رشک سے دیکھیں
مقیم فرش کو ایسی بلند بامی دے

میں آ دمی ہوں مجھے آدمی ہی رکھ مولا
حریم خاص میں فکر ونظر عوامی دے


جو دل کے ساتھ کریں ہاتھ سے مدد میری
میں سو ئے کو فہ روانہ ہو ں ایسے حامی دے
۔۔۔۔۔۔شہاب صفدر
غزل
مجنوں بھی نہ پاتا حدِّ شہرت کو ہماری
صحرا نہ ملا کام کا وحشت کو ہماری

ہم لوگ تو ہتھیار ہیں محتاج محّرک
بازو کوئی درکار ہے قوت کو ہماری

اندھیر کہ سورج بھی کفالت نہیں کرتا
کافی تھی کبھی شمع ضرورت کو ہماری

رکھ یاد، زمانے ہوئے ہم اس لیے پسپا
احباب ترستے تھے ہزیمت کو ہماری

مٹی میں ہمیں آج ملانے پہ ہیں مامور
کل چاند لگائیں گے جو عظمت کو ہماری

رکھا ہے بڑی دیر خلاؤں میں مُعلق
اک اورمحبت نے محبت کو ہماری

نایابئ اسباب تعّیش نے کم و بیش
اسباب مہّیا کیا ہجرت کو ہماری

مہلت سے شہابؔ آئی قضا ٹال رہے ہیں
آنا ہے ابھی حُر کوئی نصرت کو ہماری
۔۔۔۔۔۔شہاب صفدر
غزل
بلندوپست کو ہموار کرنے آیا ہوں
چہار سُو چمن آثار کرنے آیا ہوں

ہے شہرِ جور مری تیغِ عدل کی زد پر
تمام قصّہء دربار کرنے آیا ہوں

کھلےِ گا شاخِ تہی پر شگوفہء توفیق
میں بانجھ پیڑ ثمر دار کرنے آیا ہوں

ہے پیش ہونی یہاں داستانِ سنگ دِلی
مگر میں پھُول کا کردار کرنے آیا ہوں

کیا تھا جس نے مری بے کسی کو خاک بسر
میں اُس کلاہ پہ اک وار کرنے آیا ہوں

اجل اجل ہے مگر ایک موجِ مستی میں
یہ بحرِدردو الم پار کرنے آیا ہوں

کوئی نہیں ہے جو روکے انا کشی سے مجھے
سبھی کو ذات سے بیزار کرنے آیا ہوں

علاوہ اس کے بھلا کیا ہے محشرو میزاں
حساب اپنا سرِدار کرنے آیا ہوں

ہنر سے باز نہ آؤں، جزا ملے نہ ملے
سخن گساروں کو سرشار کرنے آیا ہوں

پھر اس کے بعد کہاں دیکھ پاؤں گا خود کو
میں اپنا آخری دیدار کرنے آیا ہوں
۔۔۔۔۔۔شہاب صفدر
غزل
تلخ ہو، سادہ و رنگیں ہو مگر بات تو ہو
دل جلانے کو سہی، پھر بھی ملاقات تو ہو

بن بلائے نہ سہی، جب بھی بلائیں، آؤ
تم سے خاطر نہ سہی، ہم سے مُدارات تو ہو


چاندنی چار ہی دن محوِ تکلم ہو، مگر
میرے گھر میں مرے آنگن میں یہ سوغات تو ہو


تشنگی کیوں کسی صحرا کا مقدر ٹھہرے
جب گھٹا چھائے، یہ لازم ہے کہ برسات تو ہو


ظلمتِ شب بھی اگر سینہِ سپر ہے تو رہے
ایک سورج کے مقابل میں کوئی رات تو ہو
۔۔۔۔۔۔سیدہ عطیہ
غزل
چچل، شوخ بیانی جیسی
سُندر، بہتے پانی جیسی

اُس کا حُسن فسانوں کاسا
اُس کی یاد، کہانی جیسی


اُس کی قُربت کیا بتلاؤں
حوشبو رات کی رانی جیسی

جاؤ یارو ڈھونڈ کے لاؤ
پھر کوئی چیو جوانی جیسی
۔۔۔ڈاکٹر اشفاق احمد ورک
غزل
میں جانتا تھا کبھی یاد کر کے روئے گا
وہ ایک روز مجھے آنکھ بھر کے روئے گا

سنا ہے فصلِ چمن اب کے خوف بوئے گی
گلاب موسمِ گُل میں نکھر کے روئے گا

زمیں نژاد کو اس کی خبر نہ تھی معلوم
وہ آسمان سے نیچے اتر کے روئے گا
۔۔۔۔۔۔اعجاز دانش
غزل
گھنٹیاں بجنے سے پہلے، شام ہونے کے قریب
چھوڑ جاتا میں ترا گاؤں، مگر، میرے نصیب

دُھوپ نکلی تو کہا دیوار نے جُھک کر مجھے
مل گلے میرے مسافر، میرے سایے کے حبیب

لوٹ آئے ہیں شفق سے لوگ بے نیلِ مرام
رنگ پلکوں سے اُٹھا لائے مگر تیرے نجیب

میں وہ پردیسی نہیں، جس کا نہ ہو پُرساں کوئی
سبز باغوں کے پرندے میرے وطنوں کے نقیب
۔۔۔ علی اکبر ناطق
صدیوں پہلاں
جگ تے ایناں رَولا نئیں سی
قدم قدم تے چَوَلا نئیں سی
بندہ ایناں ہَولا نئیں سی
۔۔۔ڈاکٹر اشفاق احمد ورک