مرزا مچھو بیگ عاشق لکھنوی
مولانا صلاح الدین
مرزا محمد مرتضیٰ نام ، عاشق عرف مرزا مچھو بیگ ، قدیم باشندہ ء لکھنؤ ۔ مرزا نسیم کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ کے مورث اعلی مرزا عطاء اللہ بیگ معروف بہ نواب حسین علی خاں بہادر اٹک سے لکھنؤ تشریف لائے تھے۔ آپ کے نانا مرزا اسد علی بیگ بادشاہ اودھ کی فوج میں کمیدان تھے۔ مرزا صاحب بچپن سے بائیس سال کی عمر تک نانا ہی کے ہمراہ رہے اور اس وقت تک بجز سپاہ گری اور کوئی مشغلہ نہیں رہا۔
بائیس سال کی عمر تک معمولی درسیات اور قرآن پاک کے سوا مرزا صاحب نے اور کچھ نہیں پڑھا۔ مرزا اسد علی بیگ شورہ پشت زمینداروں کی سرکوبی اور ان سے مالگزاری وصول کرنے کی غرض سے جو مہمیں لے جایا کرتے تھے ان میں عموماً مرزا مچھو بیگ بھی شامل ہوتے تھے اور ظاہر ہے کہ اس قسم کے مشاغل جنگ و جدال کو کسب علم و ہنر سے کوئی واسطہ نہ ہو سکتا تھا۔ لیکن آخر کار مرزا مرحوم کی فطری استعداد موانکات ظاہری پر غالب آئی اور انھوں نے ۵۷ کے بعد بطورِ خود کافی علمی لیاقت پیدا کر کے مشغلہ شعرو سخن کی جانب بھی توجہ شروع کی اور رفتہ رفتہ اس فن شریف میں بھی اس قدر قدرت بہم پہنچائی کہ آپ کی زندگی ہی میں آپ کا نام اردو زبان کے اِساتذہ و محققین کی فہر ست میں داخل ہو گیا تھا۔
دراز قامت ، فربہ اندام ، صحیح و شدید القوی ، جسم وقوت کے اعتبار سے شاعروں میں ناسخ ثانی کے نام کے مستحق تھے۔ رنگ البتہ ناسخ کے خلاف گندمی تھا کھلتا ہوا۔ دوپلی ٹوپی ، انگر کھا لکھنؤ کی معموملی وضع آپ کو بھی مرغوب تھی۔ لیکن آخر عمر میں کبھی کبھی کوٹ پتلون بھی پہن لیتے تھے۔ لطیف و ظریف ، خوش بیان ، خوش گفتار آپ چھوٹوں سے بھی ظرافت کو دریغ نہ رکھتے تھے، آپ کی گفتگو کا ایک خاص انداز تھا۔ جس کی شیرینی پر ہر شخص فریفتہ ہو جاتاتھا۔ جس طرح وضع لباس کے باب میں آپ طرز قدیم و جدید کے جامع تھے، اسی طرح آپ کے حلقہ ء احباب میں بھی جہاں ایک جانب منشی اشرف علی مرحوم اشرف اور منشی امیر اللہ تسلیم پرانی وضع کے لوگوں کو درجہ ء امتیاز حاصل ہے ، وہیں دوسری طرف بابو جوالا پر شاد برق ،ڈپٹی محمد حسین مرحوم ، مسٹر حامد علی خاں بیرسٹر اور منشی سجاد حسین صاحب اڈیٹر اودھ پنج کی موجودگی سے نئی روشنی کا بھی جلوہ صاف نظر آتا ہے۔ آپ کے صلح کل اور مرنجاں مرنج ہونے کی یہ حالت تھی کہ آخر وقت تک بلکہ مرنے کے بعد بھی لوگوں کو آپ کے مذہب کی اصلیت متحقّق نہ ہوئی کہ آپ شیعہ تھے یا سُنّی ۔ مرزا صاحب کے آباد اجداد بے شک سُنّی المذہب تھے، لیکن خود ان کی بعض تحریروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت کا میلان شیعہ مذہب کی جانب زیادہ تھا۔ واللہ اعلم۔ پچاس سال کے سن میں آپ نے ایک وصیت نامہ تحریر کیا تھا کہ میری نمازِ جنازہ شیعہ ، سنّی دونوں فریق پڑھیں۔ سوم ، دہم ، چہلم وغیرہ کچھ نہ ہو، البتہ خیرات جتنی ہو سکے بہ اوقات مختلف کی جائے ۔ عورات کی مہمان داری نہ ہو ۔ منشی بالکند گپتا اڈیٹر اخبار بھرات متر کلکتہ بھی آپ کے خاص شاگرد اور ایک حیثیت سے آپ کی بے تعصبی اور ہر دل عزیزی کے زندہ یادگار تھے۔ افسوس کہ ان کی عمر نے وفا نہ کی ورنہ انھوں نے اردو معلی میں اپنے استاد کی مفصل سوانح عمری لکھنے کا وعدہ فرمایا تھا۔
اپنے نانا صاحب کے وقت میں مرزا صاحب بھی شاہی توپ خانے میں ملازم تھے۔ ایک تلوار اور ایک بندوق ، ہمیشہ پاس رکھتے تھے۔ نشانہ آپ کا بہت کم خطا ہوتا تھا۔ لیکن زوجہ ، ثانی نواب حسینی بیگم سے عقد کے بعد پھر آپ نے کہیں ملازمت نہیں کی ، نہ اس کی ضرورت لاحق ہوئی نواب علی حسن خاں خلف نواب صدیق حسن صاحب مرحوم کے طلب کرنے پر دوبارہ آپ بھوپال تشریف لے گئے۔ لیکن نوکری وہاں بھی نہیں کی۔ نو لکشور مرحوم کا بھی ہمیشہ اصراررہا مگر آپ کبھی رضا مندی نہیں ظاہر کی۔
یہ ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ آغاز عمر میں مرزا صاحب کو فنون سپاہ گری کے مقابلے میں شعر و سخن تو درکنار معمولی نواشت وخواند کی جانب بھی کچھ زیادہ توجہ نہ تھی۔ آپ کے نظم و نثر کے تمام کارنامے ہنگامہ ۵۷ء کے بعد کے ہیں۔ مرزا نسیم مر حوم بھی اسی زمانے میں علی گڑھ سے لکھنؤ تشریف لائے تھے۔ ان کی صحبت اور شاگردی نے سمند ناز پر تازیانے کا کام کیا اور آپ کے ادبی مذاق کے خوبیوں نے روز افزوں ترقی کے ساتھ پایاں کار وہ مرتبہ حاصل کیا کہ آپ نثر نگاری میں یکتائے روز گار اور سخن سنجی میں استاد قرار پائے ۔ لکھنؤ کے مشہور ظریف اخبار اودھ پنج میں اس کی ابتدا ء سے لے کر اپنی آخری عمر تک ۳۳ سال برابر ’’ستم ظریف ‘‘ کے فرضی نام سے ایسے دل چسپ مضامین لکھتے رہے جن کا ادبی اور تنقیدی حیثیت سے بے مثل و نظیر ہونا آج تک اہل قلم کے حلقے میں مسلّم سمجھا جاتا ہے۔ تذکرہ ء شعرا کے مانند جب کبھی اردو زبان کے نثر نگاروں کے حالات بھی مرتب کیے جائیں گے اس وقت حضرت عاشق کا نام یقیناًطبقہ اول کے انشا پر دازوں کی فہرست میں ممتاز نظر آئے گا۔ لکھنؤ کی زبان اور محاورں کی جتنی تحقیق مرزا مرحوم کو تھی اس کا اندازہ ان کی مشہور تالیف ’’بہارِ ہند ‘‘ کے دیکھنے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ ملک نے اس لغت کی کافی قدر نہ کی ورنہ اگر اس کے باقی تین حصے بھی چھپ جاتے تو اردو زبان کی اصطلاحوں اور محاوروں کا ایک لاجواب مجموعہ مرتب ہو جاتا۔ مولوی حکیم الدین وکیل نے علم وادب کے متعلق اودھ پنج سے آپ کے بعض مضامین کو نقل کر کے ’’ چشمہ ء بصیرت ‘‘ نام ایک کتاب کی صورت میں چھپوا دیا تھا مگر وہ اب کمیاب ہے۔ گلزار نجات، میلاد شریف اور مثنوی نیر نگِ خیال معروف کے علاوہ آپ کا ایک ضخیم دیوان مشتمل بر جملہ اصناف سخن آپ کے خلف رشید مرزا محمد صدیق صاحب صادق کے پاس موجود ہے۔
مرزا صاحب نے تین شادیاں کیں ۔ پہلی بیوی سے مرزا محمد صدیق صاحب صادق اور تیسری بیوی سے علی جعفر نواب جانی اس وقت تک موجود ہیں۔ پہلی بیوی سنّی اور دوسری اور تیسری شیعہ مذہب تھیں ۔ آپ کے متعدد شاگردوں میں سے مرزا محمد صدیق صادق حافظ عبدالاحد ماہ خلف عبداللہ خاں مہر مرحوم اور شیخ اصغر حسین صاحب اصغر تعلقدار گنڈارہ زیادہ مشہور ہیں۔ مولوی معصوم علی محشر اڈیٹر تحفہ ء عشاق ۔ امیر مرزا صاحب امیر، عبدالباقی خاں بقا، محمد بشیر بشیر اور منشی بال مکند گپتااڈیٹر بھارت مترکو بھی آپ ہی سے تلمذ تھا۔
سادگی اور صفائی زبان حضرت عاشق کا خاص جوہر ہے، جس کی سلاست میں اردو محاوروں کو آپ اکثر دل پذیری کی اس بے تکلف شان کے ساتھ جلوہ گرکرتے ہیں کہ انصاف کی نظر داد دینے پر مجبور ہو جاتی ہے ،مثلا :
کیا جانیے مزاج کو اس بت کے کیا ہوا
اتنی سی بات منہ سے نکالی گلا ہوا

اللہ ہے جو حشر کو ہو یہ حساب پاک
اعمالنامہ دونوں طرف ہے لپا ہوا

کچھ منہ سے بول وصل میں، اب تو خدا کو مان
بیٹھا ہے کیوں سکوت میں پتھر بنا ہوا

تیری نہیں نے شیشہ ء دل چُور کر دیا
ساقی مرا تمام نشا کر کرا ہوا

گو بے نشاں ہے پر کہیں مل جائے گاپتا
عاشق مکان یار کو چل پوچھتا ہوا
O
مژدہ میخواری کا لائے بادل
اے لو وہ آئے، وہ آئے بادل

کیسی پھولی ہے شفق نارنجی
رنگ کچھ اور نہ لائے بادل

آج بدلی ہے نہائی دھوئی
کس غضب کے نکھرائے بادل

زہر لگتی ہے یہ ٹھنڈی گرمی
مینہ نہ برسا تو نہ آئے بادل

بھیگ جائیں تیرے میکش ساقی
آج بے برسے نہ جائے بادل
O
دل و جاں کھو کے رخ یار کا جلوہ دیکھو
آج گھر پھونک کے عاشق یہ تماشا دیکھو

عرض مطلب پہ دیا آپ نے کیا خوب جواب
حال یہ، حوصلہ یہ اور تماشا دیکھو

جان دینے لگے دشمن مری دیکھا دیکھی
جو نہ دیکھا تھا کبھی اب وہ کرشمہ دیکھو
مجھ سے ملنے میں بُرائی ہے بھلا فرض کیا
استخارہ تو غلط راہ نہ دے گا، دیکھو

وقت کی بات ہے عاشق اسے ہم جانتے ہیں
دم نکلنے کا نہیں زہر بھی تم کھا دیکھو
O
بلبل کا فصلِ گُل میں نشیمن یہیں تو تھا
صحرا ہے جس مقام پہ گلشن یہیں تو تھا

بلبل کی بُھول موسم گل میں ہے یادگار
کہتی ہے ہر شجر پہ نشیمن یہیں تو تھا

پہلو سے ان کے اُٹھتے ہی دل کا پتا نہیں
عاشق، وہ میری جان کا دشمن، یہیں تو تھا
O
سب میں عاشق ترے مشہور ہیں ہم
کیا کریں نام سے مجبور ہیں ہم

بار غم کا متحمل نہیں دل
اب تو بیگار کے مزدور ہیں ہم

جلوۂ عارض جاناں کے حضور
شمعیں کہتی ہیں بے نور ہیں ہم

جلوہ افگن ہے جو وہ برق جمال
بام دیتا ہے صدا، طُور ہیں ہم

دل خطا وار محبت ہے حضر
عذر اتنا ہے کہ معذور ہیں ہم

حیف بوسہ ء لب میں عاشق
اب تو مرتے ہیں لب گور ہیں ہم

مجبور و مشہور کے ساتھ گور کا قافیہ مرزا نسیم کی شاگردی کے اثر سے ہے۔ وہ مرحوم نور، دور وغیرہ کے ساتھ غزل میں گورومور کے قافیوں کو بلا تکلف نظم کرتے تھے۔

جان لینے پر تلے ہیں خوبصورت آج کل
ڈھیریوں بکتا ہے سودائے محبت آج کل
میں ہوں ایک دنیا میں قیس و کو کہن کی یادگار
عاشقوں کا نام ہے میری بدولت آج کل
مضمون ٹیکس کے ضمن میں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ مرزا صاحب پالیٹکس سے بھی بیگانہ نہ تھے۔ آپ مرحوم انڈین نیشنل کانگریس کے کئی جلسوں میں بحیثیت ڈیلی گیٹ شریک ہوئے اور آخر تک حریت کے طر فدار رہے اور حق یہ ہے کہ شاعر اگر بے تعصّب اور آزادی پسند نہ ہو تو اس کی شاعری پر حیف ہے۔
جگر میں اٹھتی ہے رہ رہ کے ٹیس کیا ہوگا
کچھ آج کل سے بھی ہے در بیس کیا ہو گا

مزاج آگ کا پتلا رقیب کی صحبت
وہ بد مزاج بھلا اب سلیس کیا ہوگا
مرزا صاحب کی غزلوں میں استاد نسیم کی شاعری کا طرز بہت کم بلکہ نہیں پایا جاتا البتہ قصائد کی تشبیب و مثنوی نیر نگ خیال کے اکثر اشعار اسی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو :
از قصیدہ مشتمل بر اظہار تباہی شہر و دیار و دعائے مراجعت ۱۸۹۰ء
ہو گیا صَرفِ خزاں وقف جفائے آسماں
ہائے وہ گلزار کہتے تھے جسے جنت نشاں

مغبچے بیکار، سناٹے میں مے فروش
بند مثل دیدۂ بیہوش ساقی کی دکاں

ساقیوں کو بادہ نوشوں سے ہوا اجتناب
میکشوں کو انحراف بیعت پیرِ مغاں
از قصیدہ دیگر در مدح جنرل اعظم الدین خاں ۱۸۸۹ء

ہوتا ہوں ترے صدقے اے ساقئ جاں پرور
اللہ غنی اب تو ملتے ہی نہیں تیور

یہ سب قصائد مرزا محمد صدیق کے پاس موجود ہیں جن کی ظاہر ی شان کو منشی وزیر علی انجم لکھنوی نے مطلّا کر کے اور بھی دلکش بنا دیا ہے ۔ مثنوی کے بھی چند شعر بطور نمونہ ملاحظہ ہوں :

اے رنگ طراز نقش ہستی
اے جلوہ فروز اوج و پستی
ہے نار میں سوز نور میں ضو
شعلے کی چمک چراغ کی لو
ملتا نہیں یوں تو جستجو سے
ہے پاس مگر رگ گلو سے

اے ساقی دستگیر ہشیار
اب رخصت ہوش ہے خبردار

یا رب دل پر جنوں عطا کر
ہر اشک کو رنگ خوں عطا کر

ہو جس کی مراد نامرادی
سمجھے غم دہر کو جو شادی

الفت کا نہ چھٹنے پائے پیشہ
دیوانہ بنا رہوں ہمیشہ

عالم میں رہے الہی آباد
فرماں فرمائے حیدر آباد

حیرت کی شبیہ تھا جو قصّا
نیر نگ خیال نام رکھا
(
رسالہ اردو ئے معلی : نومبر ۱۹۱۰ء ، صفحات ۳ تا ۸ )
نعتِ رسولؐ
تری نعت لکھنے کے سب قرینے ہیں سوچ میں
تری مدحتوں کے سبھی مدینے ہیں سوچ میں

نہ تو معتبر یہ زباں مری نہ بیاں مرا
مرے حرف و معنی کے سب نگینے ہیں سوچ میں

ترا در ملے تو یہ سب اثاثے لُٹاؤن میں
مرے جان و دل کے سبھی خزینے ہیں سوچ میں

مجھے عشقِ احمد نے اوج ہے وہ عطا کیّا
کہیں پیچھے رفعت کے سارے زینے ہیں سوچ میں

میں حضورؐ ہر گھڑی ہوں بُلاوے کا منتظر
مرے سال، ساعتیں، دن، مہینے ہیں سوچ میں

میں ہوں معصیت کے بھنور میں کب سے گھرا ہوا
تری رحمتوں کے کہاں سفینے ہیں سوچ میں

میںیہ ہاں اشکوں کے نذر کر دوں حضورؐ کی
کہ جلیل کب سے یہ آبگینے ہیں سوچ میں
۔۔۔۔۔۔ احمد جلیل
گوری اور گاگَر
اَلَّھڑ، چَنَچل، پَنگھَٹ رانی
تن البیلا، من سیلانی
اپنے سے خود کھینچا تانی
لٹ میں تُلتی رین کہانی
گھٹ میں کُھلتی بال کمانی
آہاہا، چِت چورجوانی ۔۔۔اوہو، ہو، گھنگھور جوانی
O
نیچے اِنڈوا، اوپر گاگر
آگ بدن میں ،پانی سر پر
آنچِیں، اندر، سرخی باہر
چتون، جیسے گہرا ساگر
پاؤں بہکتے، چال، دِوانی
آہاہا، چِت چورجوانی ۔۔۔اوہو، ہو، گھنگھور جوانی
O
گاہ سراب و گاہے جَیحوں
گاہے لیلیٰ، گاہے مجنوں
پَل میں ’’آہا‘‘، پَل میں ’’اونہوں ‘‘
وقتِ اِیفاء ، رشکِ قاروں
وقت پیماں، حاتمِ ثانی
آہاہا، چِت چورجوانی ۔۔۔اوہو، ہو، گھنگھور جوانی
O
کالی زُلفیں، جَھل جَھل کنگن
کورا پنڈا، پاپی جوبَن
مکھ پر چُبھتی، دل کی دھڑکن
پل میں چہلیں، پل میں اَن بَن
پَل میں شوم، اَور پَل میں دانی
آہاہا، چِت چورجوانی ۔۔۔اوہو، ہو، گھنگھور جوانی
O
چھاتی کوٹیں، تو مسکائے
دور رہیں، تو نیں ملائے
پاس جو آئیں، تو گھبرائے
آنکھ ملے ، تو سَر نیہوڑائے
ہات بڑھے، تو آناکانی
آہاہا، چِت چورجوانی ۔۔۔اوہو، ہو، گھنگھور جوانی
O
دہکی چھاتی ، جلتی ہیکل
بھنکتی پلکیں، چُبھتا کاجَل
کومل ، سندر، چاتُر، چنچل
اہلی گہلی، الھڑ، اچپل
گُم سُم، تیکھی، چُپ، اَگھمانی
آہاہا، چِت چورجوانی ۔۔۔اوہو، ہو، گھنگھور جوانی
O
بائیں چمپا، دہنے بیلا
جُوہی لونڈی، گیندا چِیلا
مستی کا وہ مُکھ پر ریلا
سندر بَن میں جیسے میلا
میلا، جیسے بھور سُہانی
آہاہا، چِت چورجوانی ۔۔۔اوہو، ہو، گھنگھور جوانی
O
تال کے بَر میں جَھل جَھل زیور
لَے میں بہتی موجِ کوثر
سُر کے سَر پَر، آڑا جُھومَر
پُل ہے دَھَنک کا، دُھن کے اوپر
بولی میٹھی، چولی دھانی
آہاہا، چِت چورجوانی ۔۔۔اوہو، ہو، گھنگھور جوانی
O
آبی آنچل، سرخ شلوکا
جوڑا کالا، مکھڑا لوکا
رنگ سنہرا، اَنگ بَھبوکا
بال کُھلے، تو جنگل کوکا
بات جو کی تو برسا پانی
آہاہا، چِت چورجوانی ۔۔۔اوہو، ہو، گھنگھور جوانی
۔۔۔۔۔۔ جوش ملیح آبادی