بلوچوں میں اردو شاعری کا مستقبل اور امکانات
ڈاکٹر آغا ناصر
بلوچستان میں اردو شاعری کے اولین نمونوں کو وسطی بلوچستان کی ریاست قلات کے وزیر اعظم ملا محمد حسن براہوئی کے کلام سے وابستہ کیا جائے تو کم وبیش یہ دو صدیوں کی تاریخ ہے۔ جس میں گدّ وڈوم ، تاج محمد تاجلؔ ، غلام حیدر فقیر ؔ ، میر مولا داد بنگلزئی ، ملا مزار بنگلزئی ، زرک خان لاشاری زیرکؔ جیسے شعراء نے اپنی مادری زبانوں یعنی بلوچی اور براہوئی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ملا محمد حسن براہوئی کے کلام کے علاوہ انیسویں صدی کے دیگر شعراء کے کلام کا ایک بہت ہی مختصر حصہ دست بُردِزمانہ سے محفوظ رہ سکے لیکن بلوچستان میں اُردو شاعری کی ابتداء کے متعلق یہ شواہد اور اشارے بہت اہم ہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز پر بلوچستان میں اُردو شاعری اپنے روایتی انداز اور رنگ روپ میں برٹش بلوچستان کے ایک نہایت ہی دُور دراز علاقے لورالائی اور بعد میں کوئٹہ میں جلوہ افروز ہوتی ہے۔ جہاں سردار محمد یوسف پوپلزئی ، عابد شاہ عابد ؔ اور فتح چند نسیم ؔ باقاعدہ مشاعروں کا آغاز کرتے ہیں۔ ان مشاعروں میں نہ صرف سرکاری اہلکار اور پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوتی ہے بلکہ طرحی مصرعوں پر طبع آزمائی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد کا سراغ ملتا ہے۔ ان ادبی سرگرمیوں نے ’’ قندیلِ خیال ‘‘ کو بھی متعارف کیا جو بلوچستان میں اُردو زبان کا پہلا جریدہ تھا۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی کا دوربلوچستان میں اردو شاعری کے حوالے سے اس لیے بھی ایک تاریخ ساز دور کہلائے گا کہ ۱۹۱۵ء میں کوئٹہ کے نواحی علاقے کلی کرانی کے سید عابد شاہ کا مجموعہ کلام ’’ گلزار عابد ‘‘ دیوبند سے شائع ہوا۔ یہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی اُردو شاعر کا پہلا مجموعہ تھا جو زیور طباعت سے آراستہ ہوا۔ اس میں اُردو کے علاوہ فارسی اور براہوئی کے اشعار بھی تھے۔
ٍ بیسویں صدی کی تیسری، چوتھی اور پانچویں دہائیاں بلوچستان میں اُردو شاعری کے حوالے سے اہم ترین دور قرار دی جاسکتی ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں یہ تحریکِ آزادی کا دور تھا جس میں علامہ اقبال مولانا ظفر علی خان ، جوش ملیح آبادی جیسے شعراء اپنے کلام کے ذریعے بیداری کی مہم میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ بلوچستان میں اردو شاعری کے ذریعے تحریک آزادی کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کا یہ عظیم عمل نواب یوسف عزیز مگسی نے انجام دیا۔ ۱۹۲۰ء کے بعد اُردو شاعری کو مشاعروں اور ادبی محافل سے عوامی سطح پر پہنچانے اور اس کے ذریعے اہل بلوچستان کو بیدار کرنے اور جدوجہد آزادی میں شامل کرنے کا سہرا نواب یوسف عزیز مگسی اور ان کے رفقاء کے حصے میں آیا۔ اس دور کی ابتداء اور انتہا سردار یوسف عزیز مگسی سے ہوئی جن کے ساتھ میر محمد حسین عنقاؔ اور گل خان نصیر ؔ جیسے ذوللسان شعراء نے نہ صرف آزادی اور بیداری کی تحریک کو اُردو شاعری کے ذریعے تیز کیا بلکہ سماجی اور معاشرتی برائیوں کے خلاف بھی اُردو شاعری کو استعمال کیا۔ اسی زمانے میں شاعر ہشت زباں نواب گل محمد خان زیب مگسی بھی اُردو کے علاوہ عربی ، فارسی، ہندی ، سندھی ، سرائیکی پنجابی اور بلوچی میں اپنے دیوان مرتب کر رہے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد یوپی ، سی پی ، پنجاب اور ہندوستان کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین بلوچستان پہنچتے ہیں اور اُردو شاعری کی وہ فضا جو مقامی سطح پر قدرتی انداز میں نشو ونما پارہی تھی ایک اور رنگ اختیار کرتی ہے اور مقامی شعراء کی بجائے ہندوستان سے آنے والے شعراء بلوچستان کی اردو شاعری کے افق پر نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں آغا صادق حسین نقوی ، محشر رسول نگری، ماہر افغانی ، عیش فیروز پوری ، ڈاکٹر ناشط صدیقی ، نبی بخش اسد ؔ جیسے نامور شعراء بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر عبدالحمید کاکڑ ، عین سلام ، عطا شاد، عابد شاہ عابد، ظفر مرزا، پروفیسر ربنواز مائل ، مقامی شعرا میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ دور ادبی گروہ بندیوں اور تکنیکی اور فنی لحاظ سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا تھا۔ اس دوران عبدالحمید عدم، صادق نسیم قابل اجمیری جیسے شعراء اپنی ملازمتوں کے سلسلے میں برسوں کوئٹہ میں مقیم رہے اور یہاں کی ادبی زندگی میں بھرپور شریک رہے۔ اس عرصے میں جشن کوئٹہ کے سالانہ مشاعروں کے علاوہ سبی میلے کے مشاعروں نے بھی اُردو شاعری کے فروغ میں حصہ لیا۔
۱۹۷۰ء میں جب بلوچستان کو صوبے کی حیثیت ملی تو بہت سے سرکاری اہلکار اور اساتذہ بلوچستان سے دیگر علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور مقامی اُردو شعراء ایک بار پھر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان میں عین سلام ، ماہر افغانی ، عطا شاد ، عابد شاہ عابد، ربنواز مائل ،سعید گوہر ، سرور سودائی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جبکہ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن سنٹر کے ظفر خان نیازی، اعظم خورشید، نےئر اقبال کے علاوہ حیدر آباد، یونیورسٹی آف بلوچستان کے سید وارث اقبال اور اوریا مقبول جان ادبی سرگرمیوں میں برابر شریک نظر آتے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے بعد نوجوانوں کا ایک اور گروہ سامنے آیا۔ جس میں آغا محمد ناصر ، بیرم غوری ، عرفان احمد بیگ ، ناصر شیرازی ، ڈاکٹر منیر رئیسانی ، پروین لونی ، نادرہ ضمیر، صدف چنگیزی ، زاہد آفاق اور حنیف کاشف نمایاں تھے۔ ان دو صدیوں کی اس مختصر تاریخ کا جائزہ لینے کے بعد جب ہم آج بلوچستان میں اُردو شاعری پر نظر ڈالتے ہیں تو پرانے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ نئے شعراء کی ایک بڑی تعداد تخلیقی عمل میں مصروف نظر آتی ہے۔ ان نوجوان اُردو شعرا کو ان کی مادری زبانوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان میں بلوچی ، براہوئی ، پشتو ، فارسی، سندھی اور سرائیکی بولنے والے سبھی شامل ہیں اور ان کا تعلق صرف کوئٹہ سے نہیں بلکہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں مکران ، مری ، بگٹی ، لورالائی ، گلستان ، ژوب، پشین ، سبی، ڈیرہ مراد جمالی اور مستونگ سے ہے۔ا فضل مراد ، علی کمیل قزلباش ، عصمت درانی ، صادق مری ، محمد بقابگٹی ، محسن بالاچ ، مظہر اقبال گوہر، سید مصطفےٰ شاہد، صلاح الدین صلاح، صائمہ جبریل ، جویریہ حق، مسلم علی ، نذر شہاب ، نوشین قنمبرانی ، طلعت زہرا زیدی ، طالب حسین طالب ؔ ، محسن چنگیزی ، فاضل طالب ، ڈاکٹر سمیعہ ، علی بابا اور سید شیدازیدی جیسے ان نوجوان شعراء نے نہ صرف بلوچستان بلکہ عالمی سطح پر اپنی شناخت کروانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ادبی حلقوں میں بلوچستان کو روشناس کرانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔
پچھلے دس پندرہ برسوں میں مختلف اخبارات ورسائل اور شعری مجموعوں میں شائع ہونے والے بلوچستان کے شعراء کے کلام کا جائزہ لیا جائے اور اس کا تقابلی جائزہ پچھلی دو صدیوں کی شعری میراث سے کیا جائے تو بلوچستان میں اُردو شاعری کے روشن مستقبل کے بارے میں وثوق سے پیشنگوئی کی جاسکتی ہے۔ ۱۹۹۰ء کے بعد تقریباً چالیس شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بزرگ شعراء کے ساتھ ساتھ نوجوان شعراء کی ایک بڑی تعداد سخن گوئی میں مصروف ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں بلوچستان سے شائع ہونے والے شعری مجموعوں کاجائزہ لیا جائے تو نہایت امید افزا صورتحال سامنے آتی ہے۔ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۵ء تک شائع ہونے والے شعری مجموعوں کی تفصیل کچھ یوں ہے :

 

اخترزیدی ، نطق جبریل ، (قطعات (

اطہر زیدی ، سرو چراغاں ،

امداد نظامی ، زرسنگ

امداد نظامی ، سنگ ورنگ ،

امداد نظامی ، عین النعیم

امداد نظامی ، سورج تھا سو ڈوب گیا

استاد رشید انجم ، بیاباں کا سکوت

استاد رشید انجم ، بقائے معرفت

بقا محمد بگٹی، صحراہماری آنکھ میں

بیرم غوری، آدھی نیند

حسن جاوید، خیمہ حرف

حاوی اعظم ، تندوکند

حاوی اعظم ، سورج اور سمندر

رشید حسرت ، سوکھے پتوں پہ قدم

سلطان ارشد، رتجگوں میں خواب

سید مصطفی شاہد ، ایک قطرے میں سمندر ڈھل گیا

سرور جاوید ، سرمحبسِ شب

سعید گوہر ، پ س دیوار

فارس مغل ، ہجر کا پہلا چاند

ماہر افغانی ، کن فیکون    

فاروق فیصل ، جادۂ کہکشاں

زاہد آفاق، خواب جزیرہ ، گوشہ ادب

محسن چنگیزی ، سرآب جاں

محسن شکیل ، آنکھ بھر حیرت

مظہر اقبال سلیمان ، اداسی سوچتی ہوگی

عطا شاد، سنگاب

عطا شاد ، برفاگ ناشاد

عین سلام ، چکیدہ ، قلات

ناگی عبدالرزاق خاور ؔ ، قندیل

ناگی عبدالرزاق خاورؔ ، آبگینہ

عصمت درانی ، آئینے میں چراغ

عظمیٰ جون ، خزاں کی ریت سنہری ہے

عباس غزالی ، رقص طاؤس

صلاح الدین صلاح ، گل بے نام خزینہ

وارث اقبال ، نئی صورتیں

وقار احمد وقار، کلام وقار

ربنواز مائل، پتھر کی میلی آنکھ

یوسف ثانی ، آئینہ

کرنل فضل اکبر کمال ، حریم حجاب

اعظم خورشید ، لفظ چہرے

اعظم خورشید ، لفظ ہالے

اعتبار ساجد، دستک بند کواڑوں پر

اور یا مقبول جان ، قامت

محمد ہمدم ، آداب سفر

ناشط صدیقی ، ندائے ناشط

بشیر فاروقی ، بوئے عمل

 

 



اکیسویں صدی میں ابھرنے والے ان نوجوان شعرا نے نہ صرف کوئٹہ اور بلوچستان میں اُردو شاعری کے فروغ میں اہم حصہ ڈالا ہے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی پہنچان کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان نوجوان شعراء نے نہ صرف پرانے رشتوں اور رابطوں کو بحال کرنے کا کام انجام دیا ہے بلکہ اُردو زبان وادب کے حوالے سے نئے رشتے بھی استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گوپی چند نارنگ ، ڈاکٹر جمیل جالبی ، سحر انصاری، منیر نیازی ، جون ایلیا، احمد ندیم قاسمی ، ڈاکٹر وزیر آغا ، محسن احسان ، ضیاء جالندھری اور دیگر اہم شخصیات سے ازسرنو روابط استوار کیے۔
مشاعروں ، اخبارات اور ادبی جرائد میں چھپنے کے علاوہ دس پندرہ برسوں میں بزرگ اور کہنہ مشق شعراء کے علاوہ نوجوان شعراء میں محسن شکیل ، عصمت درانی ، علی کمیل قزلباش ، محسن چنگیزی ، رشید حسرت ، بیرم غوری ، طالب حسین طالب ، سرور جاوید ، حسن جاوید ، صلاح الدین صلاح ، مظہر اقبال سلمان ، عظمیٰ جون ، فاروق فیصل ، سلطان ارشد ، سید مصطفی شاہد ، فارس مغل ،عباس غزالی ، یوسف ثانی اور بقا محمد بگٹی کے مجموعوں نے قومی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہے۔ بلوچستان کے ان نوجوان شعراء نے جس قلیل مدت میں اردو شاعری میں اپنا مقام پیدا کیا ہے اس کی بنیاد پر انھیں بلوچستان میں اردو شاعری کا مستقبل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اکیسویں صدی میں ابھرنے والے ان شعراء کا تعلق صرف کوئٹہ سے نہیں بلکہ علمی اور ادبی مراکز سے دُو ر مختلف زبانیں بولنے والے ان نوجوان شعراء کا تعلق مکران سے ژوب تک ہر علاقے سے ہے۔

اعجاز صدیقی
ترانۂ اُردو
ہندو ہوں یا مسلماں، عیسائی ہوں کہ سکھ ہوں
اردو زبان کے ہم ہیں، اردو زباں ہماری
مرنا بھی ساتھ اس کے ، جینا بھی ساتھ اس کے
ہم اس کے ہیں محافظ، یہ پاسباں ہماری
خسرو، کبیر و تلسی، غالب کی ہے امانت
کیا بے نشان ہو گی پیاری زباں ہماری
قند و نبات سے ہے بڑھ کر مٹھاس اس کی
ہر دور میں رہی ہے یہ دلستاں ہماری
اس میں ٹنکے ہوئے ہیں کتنے حسین ستارے
قوموں کی کہکشاں ہے اردو زباں ہماری
پھر چاہتاہے اس کو دور جہاں مٹانا
ہو گی رقم لہو سے پھر داستاں ہماری
ہیں جان سے بھی زیادہ ہم کو عزیز دونوں
تقلید کر رہا تھا ہر کارواں ہماری
ہم تو ہر اک زباں کو دیتے ہیں پیار اپنا
پھر کس لیے مٹائے کوئی زباں ہماری
اعجاز مل کے گائیں اردو کا سب ترانہ
گونجے فضا میں ہر سو اردو زباں ہماری
بشکریہ: ماہ نامہ شاعرممبئی، جلد ۳۸، شمارہ ۷۔۵، ۱۹۶۷ء
****