سرائیکی دھرتی اور زبان سے اردو کے رشتے
ڈاکٹر نصر اللہ خاں ناصر
انسانی تہذیبی ارتقاء کا سفر تنگ و تاریک غاروں سے نکل کر کاشت کاری کی دریافت اور پھر تانبے ، کانسی کے عہد تک پہنچا تو انسانی تمدّن نے دریاؤں اور آبی گزر گاہوں کے کناروں پر چند عظیم تہذیبوں کی بنیادیں قائم کیں ۔ ان ہم عصر اور ہم پلہ تہذیبوں میں دریائے نیل کے کنارے مصری تہذیب ، دریائے دجلہ و فرات کے دو آبے میں میسو پوٹیمیا کی تہذیب اور دریائے سندھ کے کنارے وادئسندھ کی عظیم تہذیب وجود میں آئی ۔ وادئ سندھ کی یہ تہذیب تقریبًا ایک ہزار مربع میل میں پھیلی ہوئی تھی اور اس کے دو بڑے تہذیبی مراکزایک دوسرے سے چار سومیل کے فاصلے پر ہڑّپہ اورموہن جو دڑو کی صورت میں موجود تھے ۔ ان دوشہروں کے درمیان کا پورا خطّہء زمین ہزاروں برس پہلے سے آج تک سرائیکی دھرتی اور سرائیکی تمدّن کی تہذیبی اسطور کا مرکزی و محوری حصّہ ہے ۔
عہدِقدیم میں ملتان ، ملوہا کے نام سے جبکہ سندھ ، دلمون اور مکران ، ماگان کے نام سے موسوم تھے ۔ ہڑّپہ اور اس کے قرب و جوار سے روانہ ہونے والے تہذیبی و تجارتی کارواں ملوہا ، دلمون اور ماگان سے ہوتے ہوئے برّاعظم افریقہ تک چلے جاتے تھے اور یہ تجارتی رابطے صدیوں تک قائم رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہاولپور کے دیہات میں کھجور کے پتّوں سے بننے والے برتنوں پر میسو پوٹیمیا کا علامتی نشان آرائشی انداز میں بنایا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ قدیم عراق کی کھدائیوں میں وہاں سے ’’ گِل گامش ‘‘ کی دنیا کی سب سے قدیم ترین داستان پر مبنی ہزاروں برآمد ہونے والی لوحوں میں ملتان کے حوالے سے تجارتی معاملات پر مبنی لوحوں کے ساتھ ایک ایسی لوح بھی دریافت ہوئی ہے جو ابتدائی سومیری رسم الخط میں ملوہا یعنی ملتانِ قدیم کی زبان کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے ۔ نامور ماہرِ اثری باقیات مرزا ابنِ حنیف نے اپنی کتاب ’’ سات دریاؤں کی سرزمین ‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لوح کے الفاظ میں ’’شوای بال لی شوامی ملوہیہ‘‘ یعنی ’’امی بال ایک عراقی جہاز ران ہے اور وہ ملوہیہ کی زبان کا مترجم بھی ہے ۔‘‘ ماہرین اس لوح کا زمانہ ۲۳۳۴ ق م سے ۲۱۹۳ ق م قرار دیتے ہیں ۔ اس ابتدائی سو میری دور کی لوح کی دریافت کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ برّ صغیر کی کسی بھی زبان کے بارے میں تقریباً چار ہزار سال پہلے کا سب سے قدیم مستند حوالہ ہے ۔ اسی طرح قدیم وادئ سندھ کا رسم الخط اور قدیم ملتانی رسم الخط کے حروف اور اشکال میں جو مماثلت اور اشتراک ہے وہ سرائیکی وسیب کے وسیع لسانی جغرافیے کی تائید کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں ملتانی اور دراوڑی کھنڈرات سے برآمد شدہ رسم الخط کی مہروں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ موہن جودڑی اور ملتانی خط اشاراتی زبان سے ترقی کر کے ہِجّائی حروف اور تصویری دور میں داخل ہو چکے تھے اور بقول ڈاکٹر مہر عبدالحق یہ دکن سے برآمدہونے والے نشانات سے حیرت انگیز طور پر مشابہہ تھے ۔
ماہرینِ لسانیات ، وادئ سندھ میں آریاؤں کی آمد سے قبل تین بڑے لسانی خاندانوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ پہلا پہاڑی زبانیں یعنی تبّتی اور برمی ، دوسرا منڈاری گروہ اور تیسرا دراوڑی زبانیں ۔ سرائیکی زبان کے دراوڑی زبانو ں سے رشتے کی ایک انمٹ بنیاد وہ پانچ سے سات اضافی صوتیات ہیں جو ابھی تک برّصغیر کی صرف دو زبانوں سندھی اور سرائیکی میں موجود ہیں اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں زبانوں نے ابھی تک اپنے دراوڑی مزاج اور لسانی ڈھانچے کے ساتھ رشتہ کو برقرار رکھا ہے اور ہزاروں برسوں سے اس امتیاز کی امین ہیں ۔ اس کے علاوہ تامل ، تلگو ، کناری براہوی اور منڈاری گروہ کی دیگر زبانوں کے ساتھ لفظی اشتراک کا وسیع ذخیرہ ان میں موجود ہے جس کی تفصیل عین الحق فرید کوٹی کی بلند پایہ تحقیقی کتاب ’’ اردو زبان کی قدیم تاریخ ’’ میں موجود ہے ۔ نمونے کے صرف چند الفاظ دیکھئے :
اَن ، گَٹا ، تونبا ، کِراڑ ، آلسی ، پوچا ، سلھ ، کَچھ ، تند ، گانی وغیرہ ۔
اس طرح کے بے شمار مماثل الفاظ آج بھی سرائیکی زبان میں مستعمل ہیں ۔ اسی طرح سرائیکی اور دراوڑی خاندان کی یادگار براہوی زبان میں قواعد کے علاوہ مشترک الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے مثلاً ادا ، اَگاڑی ، امنب، بھان ، چَٹ ، دڑا ، چنبڑ ، چٹی ، دگ ، دروہی ، ہکل ، چونڈی ، چخ ، بوہاری وغیرہ ۔ اس کے علاوہ اسمائے ضمیر ، سابقے ، لاحقے اور افعال کا اشتراک بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ ان زبانوں کے خاندانی زمرے ایک ہیں ۔ عین الحق فرید کوٹی اس ضمن میں کہتے ہیں کہ :
’’
اسمائے ضمیر اور دوسرے اشتراک سے دراوڑی اور پاکستانی زبانیں خاص کر سندھی اور ملتانی کے ساتھ مطابقت اور سنسکرت سے اختلاف بالکل واضح ہے۔ ’’
یہاں اس دلچسپ حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ عین الحق فرید کوٹی نے اپنی کتاب میں جن الفاظ کو پنجابی کے زمرے میں شامل کیا ہے انھیں ان الفاظ کے ساتھ وضاحت کے لیے ان کے معنی بھی درج کرنے پڑے ہیں ، جبکہ وہ تمام الفاظ آج بھی اپنی اصلی حالت میں سرائیکی زبان میں مستعمل اور رائج ہیں ۔
پھر روئے زمین کے اس حصّے پر تاریخ ایک اور کروٹ لیتی ہے اور یہاں عظیم وادئ سندھ کے زوال کے بعد ۱۵۰۰ ق م میں آریائی دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ اسی عہد میں آج سے تقریبًا پونے چار ہزار سال پہلے دنیا کا قدیم ترین ’’ ویدک ادب ‘‘ تخلیق اور مرتب ہوا۔تاریخ کا حُسن اتفاق دیکھیے کہ ’’ ویدک ادب ‘‘ کی سب سے قدیم اور پہلی دستاویز ’’ رگ وید ‘‘ میں صرف بہاول پور کی وادئ ہاکڑہ اور وادئ ستلج کے دریاؤں ’ ہاکڑہ ‘ جسے آریاؤں نے عقیدت سے سرسوتی کا نام دیا ۔ شتادرو یعنی ستلج ، بیاس یعنی و پاش اور سندھ ساگر کا نہ صرف تواتر سے ذکر ہے بلکہ ان دریاؤں کی تعریف و توصیف کے قصیدوں سے رِک ویدبھرا ہوا ہے ۔ اس لیے ویدک ماہرین کا خیال ہے کہ آج سے پونے چار ہزار سال پہلے تخلیق ہونے والا دنیا کا نایاب ادبی ورثہ بہاول پور کے انہی دریاؤں کے کناروں پر تخلیق ہوا ۔ ویدک ادب کی جرمن ماہر خاتون میڈم راگوژن جن کی تحقیقی کتاب ’’ ویدک ہند ‘‘ ۱۹۲۳ء میں جامعہ عثمانیہ دکن میں ترجمہ اور شائع ہوئی، لکھتی ہیں ۔
’’
اس مقام کو پنجاب قرار دینا درست نہیں بلکہ یہ وہ مرکزی علاقہ ہے جہاں ایک طرف شتا در و یعنی ستلج بہتا تھا تو دوسری طرف سندھو اور تیسری طرف سرسوتی یعنی ہاکڑہ تھا ۔ ‘‘
اسی طرح یہ مقام بہاول پور کا صحرائے چولستان ثابت ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ ایوبی دور کے ون یونٹ سے پہلے بہاول پور کبھی بھی پنجاب کا حصّہ نہیں رہا ۔ اسی عہد میں سنسکرت کو ایک مقدس زبان کا درجہ دیا گیا تو دیگر پراکتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ، برِصغیر کی پراکتوں میں کیکئی پراکرت ، وراچڈہ اور پشاچی کو ملتانی یا موجودہ سرائیکی زبان کی مائیں تسلیم کیا جاتا ہے ۔ رام چندر جی کی سوتیلی ماں رانی کیکئی جن کی وجہ سے انھیں بن باس ملا ، شادی سے پہلے شور کوٹ ، جھنگ اورملتان کی حکمران تھی ۔ اسی نسبت سے اس علاقے کو اس وقت کیکئی دیس اور یہاں کی پراکرت کو کیکئی پراکرت کا نام ملا ۔ اس کے علاوہ براچڈہ اور پشاچی کا سارا لسانی جغرافیہ صوبہ سندھ تک موجودہ سرائیکی دھرتی اور زبان کا احاطہ کرتا ہے۔ مزید برآں اس وقت سنسکرت کے ساتھ یہ ہمدوش پراکرتیں بھی ارتقائی منازل طے کرتی رہیں اور قیاس ہے کہ اس عہد میں بھی سنسکرت ان دیگر پراکرتوں سے الفاظ حاصل کرتی رہی ہو گی اور یہ عوامی بولیاں سنسکرت کے مذہبی زبان بننے سے پہلے کا حاصل شدہ لفظیات کا سرمایہ استعمال میں لاتی رہی ہوں گی ، یہی وجہ ہے کہ دوسری کئی زبانوں کی طرح سرائیکی اور سنسکرت ، دونوں زبانوں میں ابھی تک دخیل الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے اور اگر ہم ہند آریائی زبانوں کے حوالے سے سرائیکی زبان کے مآخذات کی جستجو کریں تو تقریباً تمام بڑے ماہرین لسانیات نے اس زبان کو ایک قدیم اور نمائندہ زبان کی حیثیت سے اہمیت دی ہے ۔
سرجارج گریئرسن کے مطابق سندھی اور لہندا یعنی ملتانی پہلے آباد آریاؤں کے بیرونی دائرے کی زبان ہے ۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زورموجودہ ہند آریائی زبانوں کی تقسیم کرتے ہوئے زبانوں کی لسانی اور ترکیبی خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہیں ۔ انھوں نے شمال مغربی گروہ میں سرائیکی ، لہندا اور ملتانی کو الگ الگ شامل کیا ہے ۔ خاص طور پر ڈاکٹر زور سندھی بولیوں میں علیحدہ سے سرائیکی کا ذکر کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر سینتی کمار چٹر جی ہند آریائی زبانوں کی جتھے بندی کرتے ہوئے اس زبان کو اُتر پچھّم جتھّے میں سندھی کے ساتھ جگہ دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر مسعود حسین خان لہندا اور سندھی کو شمال مغربی ہندوستان کی بولیوں میں شمار کرتے ہیں اور اس تقسیم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’
لہندا مغربی پنجاب کی زبان ہے۔ لہندا پر درد یاپشاچ زبانوں کا اثر زیادہ ہے ۔ مغربی پنجاب میں کیکئی دیس بھی شامل ہے جہاں قدیم زمانے میں پشاچی پراکرت ، براچڈہ اپ بھرنش ، بولی جاتی تھی ۔ لہندا مغربی پنجابی ، جاٹکی ، ہندی یا اوچی کے نام سے مشہور ہے اور اپنے گرام اور فرہنگ کے اعتبار سے مشرقی پنجابی سے مختلف ہے ۔ ‘‘
اسی طرح ڈاکٹر مسعود حسین خان اپنے اس بیان میں وسیع تر سرائیکی زبان کی تعریف کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر سدھیشور راؤ ور مالہندی کو پنجابی سے علیحدہ ایک بولی کی جگہ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری پراکرتوں کے حوالے سے ہند آریائی زبانوں کے زمرے بناتے ہوئے لہندا اور سندھی کو پشاچی یا دردی زمرے کا حصّہ مانتے ہیں ۔
ڈاکٹر سہیل بخاری پوٹھوہاری ، لہندی ، ملتانی ، سندھی اور سرائیکی کو شور سینی یا پچھمی مخی نون کی بولیوں کا حصّہ مانتے ہیں ۔ جارج گریئرسن ملتانی اور لہندا دونوں کو لہندا قرار دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :
’’
اگر لسانی شہادت کی کوئی قیمت ہے تو اس میں ذرابھی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ کسی وقت ایک زبان جو اس لہندا کے ساتھ قریبی رشتہ رکھتی تھی وہ اس سارے علاقے میں بولی جاتی تھی لٰہذا یہ قدیم شکل پھیل کر دریائے سرسوتی کے کنارے تک پہنچی اور یہ اب بھی پنجابی کی بنیاد ہے ۔ ‘‘
ممتاز روسی محقّق ایس یوسمرنوف اپنی کتاب ’’ لہندا لینگوئج ‘‘ میں تقریبًا دس اہم لسانی شواہد و قواعد مثالوں کے ساتھ بیان کر کے کسی اور زبان کا لہجہ تسلیم کرنے کی بجائے سرائیکی کو ایک الگ مکمل زبان کا درجہ دیتے ہیں ۔ لندن یونیورسٹی کے استاد اور ماہرِ لسانیات ڈاکٹر کرسٹو فر شیکل بھی پوری طرح سرائیکی زبان کی جداگانہ حیثیت کے حامی ہیں ۔ اس ساری تفصیل کا مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ تمام ماہرینِ لسانیات نے کہیں لہندا ، کہیں مغربی پنجابی ، سندھی ، جٹکی ، اوچی اور ملتانی کہہ کر سرائیکی زبان کو ایک مکمل اور دوسری زبانوں کے ہم پلّہ ایک الگ بڑی زبان کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے ۔ پراکرتوں کے عہد سے لے کر عہدِ اکبری تک یہ برّصغیر کی ایک اہم زبان کی حیثیت کی حامل رہی ہے ۔ اسی لیے آئینِ اکبری میں بھی اہم زبانوں کی فہرست میں اسے شامل کیا گیا ۔ اس زبان کا پھیلاؤ اور لسانی جغرافیہ اتنا وسیع تھا کہ ممتاز محقّق ڈاکٹر شہباز ملک کو یہ ماننا پڑا کہ :
’’
پنجابی زبان ایک قدیم زبان ہے اور یہ آئینِ اکبری میں ملتانی کے نام سے شامل ہے ۔ ‘‘
آئیے اب سرائیکی زبان کے اردو سے لسانی روابط کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں ۔
اردو جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کی تہذیبی و تمدّنی اسطور ، ثقافتی تشخض کی علامت ، سماجی اقدار کی سب سے بڑی آئینہ دار ہے۔ اس کی روح میں برِّصغیر کی تمام زبانوں کی ابلاغی معنویت سانس لیتی ہے ۔ اس زبان کے مآخذات اور رشتے سرائیکی زبان اور دھرتی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ سید سلیمان ندوی اردو کے مآخذات کی بابت لکھتے ہیں :
’’
اس زبان کا ارتقاء تفوجی سے ہوا نہ برج بھاشا اور ہریانی سے ، بلکہ برج بھاشا کے مقابلے میں پنجابی بالخصوص ملتانی سے (۱۹۶۲ء سے جس کا نام سرائیکی ہے ) اردو زبان مماثلتِ قریہ رکھتی ہے ۔ ‘‘
سید شہاب دہلوی فرماتے ہیں کہ :
’’
یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ جس کو ملتانی یا سرائیکی کہا جاتا ہے وہ کافی وسیع علاقہ پر محیط ہے اور اردو کی بناوٹ اور تخلیق میں جن زبانوں نے حصّہ لیا ہے ان میں اس کا بھی بنیادی کردار ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اردو اور سرائیکی لسانی رشتے کی تشریح کرتے ہوئے محمود شیرانی تاریخی تناظر میں بھی اس کا جائزہ یوں لیتے ہیں :
’’
واقعہ یہ ہے کہ سندھ کے بعد سرائیکی بولنے والا خطّہ ہی پہلے پہل مسلمان حملہ آوروں کی زد پر آیا اور معاشرتی ضرورت کے تحت اس زبان نے باہر سے آنے والوں کی زبان کے اثرات قبول کیے ۔ گویا ہندوستان میں باہر سے آنے والے قبائل اور خاندانوں کے میل جول سے معّرض وجود میں آنے والی زبان اردو کا عملِ تحقیق پہلے پہل وہاں سے شروع ہوا جہاں سرائیکی بولی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اردو اپنی صرف و نحو میں ملتانی زبان کے بہت قریب ہے ۔ ‘‘
ڈاکٹر محی الدین زور ’’ اردو زبان کے آغاز ‘‘ میں کہتے ہیں :
’’
پروفیسر شیرانی نے جو مواد پیش کیا ہے وہ نہایت ہی مفید ہے اور اردو کی تخلیق اور آغاز سے متعلق نتیجے پر پہنچنے کے لیے کافی معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔ اردو نہ تو پنجابی سے نکلی ہے ، نہ کھڑی بولی سے بلکہ اس زبان سے جو ان دونوں کا مشترکہ سر چشمہ تھی ۔ ‘‘
اسی بناء پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ملتان میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اردو کے ماخذات سرائیکی زبان میں تلاش کیے جائیں ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ابتدائی اردو کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہ زبان جہاں جہاں پہنچی وہاں علاقائی اثرات کو جذب کر کے اپنی شکل بناتی رہی۔ اس کا ایک ہیولا سندھ اور ملتان میں تیار ہوا ۔ ‘‘
اُردو زبان کے ان ممتاز ماہرینِ لسانیات کی ان تشریحات سے اردو اور سرائیکی کی لسانی قرابت داری پوری طرح واضح ہو جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اردو اور سرائیکی زبانوں میں سے ایک دوسرے کے خالص الفاظ کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے ۔ اگر اردو زبان کے قدیم ادب کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ سرائیکی زبان کے بے شمار الفاظ اور محاورے اردو زبان کے کلاسیکی شعراء کی تخلیقات کا حصّہ ہیں ۔ ان میں امیر خسرو ، ولی دکنی ، علی عادل شاہ ، مبارک شاہ آبرو ، محمد امین ، عبداللہ قطب شاہ ، ابراہیم عادل شاہ،نصرتی ، غواصی ، وجہی ، بھگت کبیر اور میر جعفر ز ٹلی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔
خصوصاً قدیم دکنی شعراء اور وجہی کی ’’ سب رس ‘‘ میں سینکڑوں الفاظ کی موجودگی اس دعوے کو ثابت کرتی ہے کہ اردو کا ابتدائی ماخذ سرائیکی زبان ہے ۔ اسی طرح قیامِ ملتان اور اوچ کے دوران میں ’’ کتاب الہند ‘‘ کو مرتب کرتے ہوئے البیرونی نے جو لغات بیان کی ہے اس کے بیشتر الفاظ سرائیکی زبان کے ہیں ۔ ڈاکٹر مسعود حسین خان اپنی کتاب ’’ مقدمہ تاریخ زبانِ اردو ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’
البیرونی کی تحریروں سے جو الفاظ ہم تک پہنچے ہیں وہ سنسکرت کی بجائے عام بول کی اس زبان کے ہیں جو اس وقت مغربی پنجاب سے لے کر ملتان اور سندھ تک رائج تھی۔ چونکہ دورانِ سیاحت اس کا قیام عرصہ تک ملتان میں رہا اس لیے بہت سارے الفاظ یہاں کی زبان کے ہیں ۔ اعداد خالصتاًمغربی پنجابی یعنی ملتانی کے ہیں ۔ ‘‘
’’
کتاب الہند ‘‘ میں درج اعداد اور دوسرے الفاظ ملاحظہ کریں : برکت بمعنی ایک( سرائیکی علاقوں میں گنتی کا آغاز آج بھی برکت کہہ کر شروع کیا جاتا ہے ) بیہہ ، تریہہ ، پنجی ، ست ، نوں د مر وغیرہ ، مہینوں کے نام ، چیتر ، بیساگ کارتک ، پوش ، ماگھ ، پھاگن ، دیگر الفاظ دیکھیں : لون ، کھیر ، سر ، گنڈھ ، بھا ، شرو وغیرہ ۔
اسی طرح تیرہویں صدی کے ممتاز صوفی شاعر امیر خسرو کے ہندوی کلام میں ملتانی الفاظ و تراکیب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔ اس کے علاوہ ’’ خالق باری ‘‘ کی لفظیات بھی سرائیکی اور اردو کے انتہائی قریبی تعلّق کی آئینہ دار ہے ۔ سرائیکی زبان کے نامور محقق ڈاکٹرمہر عبدالحق نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں ایسے الفاظ و تراکیب کی ایک وسیع فہرست پیش کی ہے ، مثلاً : آیٹھ ، شینہہ ، کوکڑی ، توں ، ڈٹھا، نہر ، وانگ وغیرہ ۔
ممتاز محقق ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’ امیر خسرو کا ہندوی کلام ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ امیر خسرو ملتان میں کئی برس رہے ۔ کہا جاتا ہے کہ موسیقی میں نام بھی انھوں نے وہیں پیدا کیا ۔ یہ نا ممکن ہے کہ امیر خسرو جیسے طبّاع شخص نے وہاں کی اَپ بھرنش کے علاقائی خصائص کا اثر قبول نہ کیا ہو جو امیر خسرو کی پہیلی میں ان اثرات کی صوتی گونج ’’ ڈٹھی ‘‘ میں سنی جا سکتی ہے ۔
نقارہ
نرناری کی جوڑی ڈِٹھی
جب لاگے تب لاگے مٹھی
اک نہائے اک تا پن ہارا
چل خسرو کر کوچ نقارہ
امیر خسرو کی دیگر پہیلیوں میں کئی پہیلیاں اور ایسی موجود ہیں جو آج بھی ہو بہو سرائیکی زبان اور اس کے لوک ورثے کا حصّہ ہیں ۔ مختصر یہ کہ متروکاتِ سخن کی شمشیر زنی کے باوجود آج بھی دونوں زبانوں کے دخیل الفاظ کی ایک دوسرے کے ہاں موجودگی دونوں زبانوں کے ہم رشتہ ہونے کا بیّن ثبوت ہے ۔ اگر صرف مرکزی اردو بورڈ لاہور کی مرتّب کردہ کتاب ’’ اردو کے خوابیدہ الفاظ ‘‘ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اردو کی قدیم لفظیات کا ایک بڑا حصّہ جو اب اہلِ اردو کے روز مرہ سے متروک ہو چکا ہے وہ آج بھی مروّج اور فعال حیثیت میں سرائیکی زبان کو عظیم ابلاغی اثر پذیری مہیا کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایسے صرف چند الفاظ پیش ہیں :
النا ، الکسی ، اَڈ ، اَٹیرن ، اُسارنا ، اَگاڑی ، بالن ، بانہہ ، بُرکی ، بِرلا ، بُکل ، بوکا ، پٹھ ، پرلا ، پُننا ، پولا ، تتڑی ، تریڑ ، ٹپنا ، ٹنڈا ، جنا ، ٹبا ، جوگا ، چمچچڑ ، چنگیر ، چھتر ، دھی ، ڈب ، ڈراوا ، ڈوڈا ، ڈیٹھنا ، رَجنا ، رُسانا ، سوبھا اور سیس وغیرہ ۔
سرزمین ملتان ہو ، خطہء بہاول پور یا قریہء عظمت نشاں اوچ شریف ، ان علمی و ادبی مراکز کے ادبی رشتے اردو زبان کے ادبی تہذیبی مراکز کے ساتھ ہمیشہ قائم رہے ۔ سرائیکی زبان کے ایک کلاسیکی شاعر علی حیدر ملتانی فرماتے ہیں :
علی حیدر آ تیڈے شعر کنوں
اے چوتڑہ دلی تے آگرہ اے
ان ادبی روابط کی نوعیت ہمیشہ بہت گہری اور دو طرفہ رہی ۔ برِّ صغیر میں ملتان اور لکھنؤ ، دو ایسے مرکزی شہر تھے جہاں ذاکری اور مرثیہ کو کمال عروج حاصل ہوا اور ملتان کے مرثیہ گو شعراء تو اتر کے ساتھ لکھنؤ جانے لگے تو یہ رابطے اور مستحکم ہوئے جس کے نتیجے میں اردو کے تقریباً تمام تذکروں میں کہیں نہ کہیں سرائیکی مرثیہ گو شعراء کا ذکر ضرور موجود ہے جن میں میر تقی میر کے تذکرہ ، ’’ نکات الشعراء‘‘نواب مصطفی خان شیفتہ کے ’’ گلشنِ بے خار ‘‘ مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ آبِ حیات ‘‘ رام بابو سکسینہ کی ’’ تاریخِ ادبیات اردو ‘‘ جان گلکراسٹ کے مرّتب کرائے گئے تذکروں اور میر حسن کے تذکرہ میں میر عاصمی ، درخشاں ، قادر ، غلام سکندر ، فدوی ، میاں مسکین ملتانی وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔
اسی طرح ملتان کے محلہ آغا پورہ کی قدیم دت قوم کی باقیات جنھیں ’’ حسینی برہمن ‘‘ کہا جاتا تھا ۔ واقعہ کربلا سے متعلق اپنے کبت قدیم اردو اور ملتانی ملواں زبان میں گا کر پیش کرتے تھے ۔ عین الحق فرید کوٹی کے مطابق :
’’
یہ ’’ جنگ نامہ ‘‘ پہلی صدی ہجری کی ساتویں دہائی یعنی ساتویں صدی عیسوی کے اواخر عہد سے تعلق رکھتا ہے ۔
لسانی لحاظ سے یہ ’’ جنگ نامہ ‘‘ قدیم اسماعیلی داعیوں اور بیسویں صدی عیسوی کے ناتھ جوگیوں کی زبان سے مطابقت رکھتا ہے ۔ اس لیے اس کی قدامت سے انکار ممکن نہیں ۔ اس لحاظ سے یہ برصغیر میں منقبتِ حسین کی سب سے پہلی شہادت ہے ‘‘۔
اسی طرح امیر خسرو سے بھی بہت پہلے ۴۶۲ھ میں مشہور اسماعیلی داعی پیر نورالدین عرب سے ہجرت کر کے سومرہ عہد میں سندھ آئے ۔ آپ کے گنان : گجراتی ، سندھی ، ہندی ، اردو اور ملتانی ملواں زبان میں ملتے ہیں ۔ ان کے بعد چھٹی اور ساتویں صدی ہجری میں شاہ شمس سبزواری ثم ملتانی ، سید صدر الدین ، پیر حسن کبیر نے اپنے گنان اردو اور سرائیکی ملواں زبان میں تبلیغی مقاصد کے لیے پیش کیے ۔ پانچویں صدی ہجری کے پیر نورالدین ست گرنورکاگنان ملاحظہ کریں :
اے بھئی نام نبیﷺ دا مٹھا ہے
جیہا شکر وچ دودھ
اے بھئی نام نبی ﷺ دا مٹھا ہے
جیویں لو بھی کوں مٹھا لگے دام
اے بھئی کلمہ کہو دل سچ سوں
تو باندھو شفاعت مول
لندن یونیورسٹی کے استاد اور افریقی و مشرقی زبانوں کے ماہر ڈاکٹر کرسٹوفرشیکل نے ایک مسلمان شاعر عبدالرحمن ملتانی کی ایک قدیم طویل نظم کا انڈیا آفس لائبریری میں مخطوطہ دریافت کیا جو موجودہ سرائیکی کی اپ بھرنش میں رقم ہے ۔ یہ طویل نظم جس کا سنسکرت ٹائٹل ’’ سندھیساراسکا ‘‘ یا ’’ سندھیس راسک ‘‘ ہے ۔ ڈاکٹر سی شیکل کے مطابق یہ نظم شمالی ہندوستان اور موجودہ سرائیکی زبان کی مورث زبان میں لکھی گئی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد نے کچھ عرصہ پہلے اس طویل نظم کو نئے سرے سے ترجمہ اور مرتّب کیا ہے اور اس قدیم نظم سے قدیم ملتان کے رشتے کو ثابت کیا ہے ۔ اس شعری دستاویز میں ملتان کا نمایاں ذکر اور مقامی حوالے درج ہیں ۔
محمد بن قاسم کی قیادت میں اسلامی لشکر ۹۲ھ میں دیبل کی بندرگاہ پر اترا اور چار سال میں ملتان تک کا علاقہ فتح کر کے اس خطّہ زمین کو اسلام کے فیوض و برکات سے منّور کر دیا ۔ مسلمانوں نے اپنے اس مفتوحہ علاقہ میں چار شہروں کو اسلامی تہذیبی مراکز کی حیثیت دی ۔ ان میں دو شہر منصورہ اور محفوظہ سندھ میں اور اوچ و ملتان سرائیکی علاقہ میں واقع تھے ۔ اوچ شریف کی علمی اور ادبی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ برِّصغیر میں اسلامی لشکر کی آمد اور فتوحات کے حوالے سے پہلی مستند تاریخی کتاب ’’ چچ نامہ ‘‘ ہے ۔ اس کے مصنف علی بن حامد بن ابوبکر کو فی اس کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ جب بغداد میں میرے حالات اس قدر خراب ہو گئے تو میں نے اوچ مبارک کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا جبکہ اس وقت بغداد دنیا کا سب سے بڑا تہذیبی مرکز تھا ۔ اسی طرح حضرت صفی الدین گازرونیؒ نے برِصغیر میں تصوّف کی پہلی خانقاہ اور دارالعلوم ’’ مدرسہ فیروزہ ‘‘ کے نام سے یہاں قائم کیا ۔ مشہور مؤرّخ اور ’’ طبقاتِ ناصری‘‘ کے مصنّف علامہ منہاج سراج اس کے صدر مدرس رہے ۔ اوچ شریف کے اسی علمی و ادبی گہوارہ میں اٹھارویں صدی کا ایک بڑا صاحبِ اسلوب شاعر مخدوم الملک شمس الدین گیلانی خامس پیدا ہوا ۔ مخدوم صاحب اردو ، سرائیکی اور فارسی کے ایک بلند پایہ شاعر تھے ۔ زمانی اعتبار سے مخدوم الملک سید ولی دکنی ، شاہ مراد ، شاہ مبارک آبرو ، ظہورالدّین حاتم ، کے فوراً بعد کے زمانے کے شاعر تھے ان کے ہم عصر شعراء میں میر سوز ، میر حسن ، خواجہ حیدر علی آتش ، نواب مصطفی خان شیفتہ ، ابراہیم ذوق ، مومن خان مومن ، مصحفی اور ناسخ جیسے شعراء شامل ہیں ۔ مخدوم صاحب کی عمر ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے وقت ۹۰ برس تھی ، وہ اوچ جیسے دور افتادہ قصبہ میں بیٹھ کر ایسی بلند پایہ سخنوری کر رہے تھے ، ملاحظہ فرمائیں :
یہ تیرے عشق کی تاثیر ہے اللہ اللہ
رات بھر نالہء شب گیر ہے اللہ اللہ
۔۔۔۔۔۔
تیری فرقت میں اے گلِ خنداں
بن گیا جسم خار کی صورت
سن کے آمد تیری ہوا سیّد
سوبسو انتظار کی صورت
۔۔۔۔۔۔
ظلم پہ ظلم جاں پے سہتے ہیں
اف بھی کرتے نہیں ترے ڈر سے
ان کے علاوہ بہاول پور کے ایک اور اردو اور سرائیکی کے ممتاز شاعر مولوی محمد اعظم ( پ ۱۷۶۹ء ) غالب ، مومن ، آتش و ناسخ کے ہم عصرشاعر تھے ۔ ان کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو :
خود ثنائی نہ کر خدا سے ڈر
خود نمائی نہ کر خدا سے ڈر
تجھ سے رکھتا ہوں میں اُمیدِ وفا
بے وفائی نہ کر خدا سے ڈر
اسی طرح بہادر شاہ ظفر کی اردو آمیز سرائیکی شاعری ملاحظہ فرمائیں :
میں بھی تیڈے سنگ چلوں گی بیٹھ کے ایک بوریا وچ
راوی پار نہ جاویں چھڈ کے ساکوں دلبرجانی
بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا احمد اختر اور ان کے اتالیق خواجہ حسن نظامی کا بہاول پور میں قیام اور علم و ادب کے چراغ روشن کرنا ، بہاول پور کے نواحی قصبے بونگا رمضان ڈیرہ بکھا کے سکونتی قاضی محمد عارف متوفی ۱۸۹۰ء کا اردو میں پہلا منظوم سفر نامہ لکھنا ، حضرت خواجہ فرید کا اردو دیوان اور اس عہد میں ملتان اور بہاولپور کے دیگر کئی شعراء کا سرائیکی کے علاوہ اُردو کو ذریعہ بنانا ، خود سابق ریاست بہاول پور کے حکمرانوں کا اردو زبان کی سرپرستی کرنا اور اسے ریاست بہاول پور کی سرکاری اور دفتری زبان قرار دینا ، دونوں زبانوں کی ترقی اور ترویج کے لیے ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے ۔
ممتاز محقق سید شہاب دہلوی کی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں اردو کو ۱۸۳۵ء میں باقاعدہ دفتری زبان کا درجہ دے دیا گیا تھا ۔ ریاست بہاولپور میں بھی انیسویں صدی کے وسط میں سرکاری دفاتر میں اردو کا عمل دخل ہو گیا تھا چنانچہ ۱۸۶۶ء میں نواب صادق محمد خان رابع کی تخت نشینی کے بعد یہی زمانہ اردو کے سرکاری سطح پر اثر و نفوذ کا ہے ۔ کچھ عرصہ بعد نواب صاحب نے اپنی معائنہ رپورٹیں بھی شعوری طور پر اردو میں لکھنی شروع کر دی تھیں ۔ ان کے بعد نواب صادق کے جانشین نواب محمد بہاول خان نے اردو کی ریاست میں ترویج اور ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے ۔ اسی طرح بہاولپور سے اردو میں تصنیف و تالیف ہونے والی پہلی کتاب تاریخِ مراد ہے جو ۱۸۶۷ء اور ۱۸۷۵ء کے دوران لکھی گئی ۔ ریاست بہاولپور میں سرکاری پریس کا قیام ۱۸۶۶ء میں ہوا جس کے نتیجے میں تصنیف و تالیف اور کتابوں کی اشاعت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ اس اشاعتی سلسلے کی سب سے اہم پیش رفت ریاستی حکومت کی طرف سے ۱۸۶۷ء میں ’’صادق الاخبار ‘‘ کا اجراء ہے جس سے ریاست بہاولپور میں اردو زبان کے فروغ میں بیش قیمت اضافہ ہوا ، جس سے سرائیکی علاقے اور زبان کے اردو سے لسانی و ادبی روابط کی نئی روایت اور تخلیقی سطح پر ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ یہ بات بھی ہمارے لیے باعثِ افتخار ہے کہ سرائیکی دھرتی کی فضاؤں میں اپنی قومی زبان اردو سے محبت ہمیشہ بے مثل رہی ہے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہندوستان سے ہجرت کر کے سرائیکی علاقوں میں آنے والے اہل اردو اور علمی و ادبی شخصیات نے سرائیکی دھرتی کو اپنا وطن سمجھ کر ہمیشہ اس سے بے پناہ محبت کی ہے اور یہاں کی سرائیکی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترقی و ترویج میں ہمیشہ مقامی آبادی سے بڑھ کر حصّہ لیا جس سے ان علاقوں میں قومی یک جہتی کو بے حد فروغ حاصل ہوا ۔ تواتر کے ساتھ اردو سرائیکی مشاعروں کا انعقاد ، لسانی عصبیتوں سے پاک ، ادب کے لیے سازگار ماحول کے نتیجے میں سرزمینِ سرائیکی ایک علمی و ادبی گہوارے کی حیثیت اختیار کر گئی ۔
یہی وجہ ہے کہ شوکت صدیقی نے اپنے ناول ’’ جانگلوس ‘‘ میں بکثرت سرائیکی الفاظ کا استعمال کر کے اردو اور سرائیکی زبان کے انمٹ رشتوں کو ایک شناخت اور تعلقِ قدیم کے احیاء کو سند عطا فرمائی ہے :
حوالہ جاتی کتب
۱ ) ’’ سات دریاؤں کی سر زمین ‘‘ ، ابن حنیف ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ، ۱۹۸۷ء
۲ ) ’’ ویدک ہند ‘‘ ، میڈم زیڈ اے راگوژن ، ترجمہ : مولوی حمید احمد انصاری ، دارالطبع جامعہ عثمانیہ ، دکن ، ۱۹۲۳ء
۳ ) ’’ اردو کا روپ ‘‘ ، ڈاکٹرسہیل بخاری ، آزاد بک ڈپو لاہور ؍ سرگودھا ، ۱۹۷۱ء
۴ ) ’’ ہندوستانی لسانیات ’’ ، ڈاکٹر محی الدین قادری زور ، ناشر : نسیم بک ڈپو ، لکھنوء، ۱۹۶۰ء
۵ ) ’’ مقدرہ تاریخِ زبانِ اُردو ‘‘ ، ڈاکٹر مسعود حسین خان ، اردو مرکز ، لاہور ، ۱۹۶۶ء
۶ ) ’’ اردو زبان کی قدیم تاریخ ‘‘ ، عین الحق فرید کوٹی ، اورینٹ ریسرچ سنٹر ، لاہور ، ۱۹۷۹ء
۷ ) ’’ پنجاب میں اردو ‘‘ ، حافظ محمود شیرانی ، آئینہ ادب ، لاہور ۱۹۷۲ء
۸ ) ’’ العتیق ، العتیق ‘‘ علامہ عتیق فکری ، ( جلد اول ) سرائیکی ادبی مجلس ، بہاول پور
۹ ) ’’ بہاول پور میں اردو ‘‘ ، مسعود حسن شہاب ، اردو اکادمی ، بہاول پور ۱۹۸۳ء
۱۰ ) ’’ بہاول پور کا ادب ‘‘ ، ڈاکٹر نواز کاوش ، چولستان علمی و ادبی فورم ، بہاول پور ،مئی ۲۰۱۰ء
۱۱ ) العزیز ، شمارہ نمبر ۲، ۲۰۱۰ء مدیر : ڈاکٹر شاہد حسن رضوی ، اردو اکادمی بہاول پور
۱۲ ) ’’ کتاب الہند ‘‘ ، البیرونی ، ترجمہ : سید اصغر علی ، الفیصل ناشران و تاجران کتب ، اردو بازار ، لاہور
۱۳ ) ’’ امیر خسرو کا ہندوی کلام مع نسخہ برلن ‘‘ ، گوپی چند نارنگ ، سنگ میل پبلیکیشنز ، لاہور ، ۱۹۹۰ء
۱۴ ) ’’ اردو کے خوابیدہ الفاظ ‘‘ ، ناشر اشفاق احمد ، مرکزی اردو بورڈ ، لاہور
۱۵ ) ’’ ملتانی زبان ، اور اس کا اردو سے تعلق ‘‘ ، ڈاکٹر مہر عبدالحق ، اردو اکادمی ، بہاول پور ۱۹۶۷ء
۱۶ ) ’’ سرائیکی شاعری دا ارتقاء ‘‘ ، ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر ، سرائیکی ادبی بورڈ ، ملتان ۲۰۰۷ء
۱۷ ) ’’ خطہء پاک اوچ ‘‘ ، مسعود حسن شہاب ، اردو اکادمی ، بہاول پور ۱۹۶۷ء
۱۸ ) ’’ ارمغان اوچہ ‘‘ ، مخدوم الملک سید شمس الدین گیلانی مرتبہ : بریگیڈیر سیدنذیر علی شاہ ، سرائیکی ادبی مجلس ، بہاول پور ، ۱۹۶۶ء
انگریزی زبان میں دعوت ناموں کا رواج
سید اسحاق نقوی
کچھ عرصہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ شادی اور دیگر تقریبات کے دعوت نامے انگریزی زبان میں رواج پا رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی افسوس ناک صورت حال ہے۔
مغلوب، مفتوح اور محکوم قومیں بے بس ہونے کی بنا پر فاتح کی زبان، لباس اور تہذیب اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جبکہ زندہ قومیں اپنی زبان، لباس اور تہذیب کو فراموش نہیں کرتیں۔ ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کیے ہوئے ۶۳ برس ہو چکے ہیں۔ ہم ایک آزاد، خود مختار ملک و ملت کے افراد ہیں اور ایک زندہ قوم ہیں۔ اسلام ہمارا دین، پاکستان ہمارا وطن اور اردو ہماری قومی زبان ہے۔ ہماری تہذیب و ثقافت اسلامی تعلیمات پر استوار ہے جو اردو زبان ہی کی مرہون منت ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کا ترجمہ، تفسیر، تشریح اور دیگر دینی و عصری علوم کی تعلیمات و تشریحات ہمیں اپنی قومی زبان اردو ہی مہیا کر رہی ہے کیونکہ اردو ہی ہمارا ذریعہ تعلیم ہے۔ درس و تدریس تعلیم و تعلم، وعظ و نصیحت اور ابلاغ عامہ کا فریضہ اردو ہی کے سہارے انجام پذیر ہو رہا ہے۔ ہمارے اخبارات اردو زبان میں ہیں جن کے ذریعے ہم ملک کے حالات و واقعات سے باخبر ہوتے ہیں اور اپنے مسائل حکومت تک پہنچاتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے فرامین اور قراردادوں سے بھی اردو زبان کی اہمیت و وقعت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اردو ملک بھر میں بسنے والے لوگوں کے لیے رابطے کی زبان کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ اگر ہم تمام ہم وطن پاکستانی و کشمیری اردو زبان بولنے، لکھنے ، پڑھنے اور سنوارنے پر اکٹھے ہو کر سرگرم عمل ہو جائیں تو بہت سے مسائل اور الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے۔ علاقائی، لسانی، قبیلائی ، صوبائی اور دیگر اختلافات کو اردو زبان کے فروغ اور ترویج کے ذریعے مٹایا جا سکتا ہے۔
اردو محبتوں کی زبان ہے جو دلوں کو ملاتی ہے۔ قربتوں کے فاصلوں کو قریب تر اور نفرتوں کے فاصلوں کو دور تر کرتی ہے۔ اس زبان میں وہ طاقت ہے جو چھوٹے چھوٹے اختلافات اور تعصبات کو ختم کر سکتی ہے اس زبان میں یکجہتی کا پیغام ہے جو وطن عزیز میں بسنے والوں کو احساس ذمہ داری سے روشناس کراتاہے۔ اردو زبان بولنے اور اختیار کرنے سے بہت سی بے بنیاد نفرتیں ختم ہو سکتی ہیں۔ سر سید احمد خان، علامہ اقبالؒ ، قائداعظمؒ اور دیگر اکابرین تحریک پاکستان کی کاوشوں اور محنتوں نے اردو زبان کو بڑی ترقی اور عروج بخشا۔
ہمارے لوگ اپنی نجی زندگی اور گھریلو ماحول میں اپنی مادری زبان استعمال کرتے ہیں جبکہ تقریبات، محافل، مجالس، سیمینار، جلسے جلوس، مذاکروں اور کانفرنسوں میں اردو بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ اطلاع، ابلاغ اور رابطے کے لیے دعوت نامہ ارسال کیا جاتا ہے اور اس کا آسان وسیلہ قومی زبان ہے لیکن تعجب و تأسف ہے ۔ ان پڑھے لکھے لوگوں اور اداروں پر جو قومی زبان کو نظر انداز کر کے غیر ملکی زبان انگریزی میں دعوت نامے تیار کرتے ہیں۔ کئی بار دیکھنے میں آیا کہ جس گھر میں کوئی انگریزی خواں نہیں وہ دعوت نامہ پڑھوانے کے لیے کسی دوسرے کے دست نگر ہوئے یا پھر شامل دعوت نہ ہوئے۔ ہاں اگر کسی انگریز کو دعوت نامہ دینا مقصود ہو تو اسے دونوں زبانوں اردو اور انگریزی میں دیاجائے تاکہ اپنی زبان کا وقار بھی بحال رہے اور اسے اطلاع بھی ہو جائے۔ انگریزی میں دعوت نامے تیار کرنے والے اور ارسال کرنے والوں کا یہ اقدام تین طرح سے درست نہیں :
۱۔ وہ اپنی قومی زبان کو کم تر اور انگریزی کو برتر سمجھنے میں احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔
۲۔ اپنی خود نمائی اور قابلیت دکھاتے ہیں، یہ تکبر و غرور کی علامت ہے۔
۳۔ انگریزی کو ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں جو غلامانہ ذہنیت کی علامت ہے۔
ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اردو دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کا رسم الخط جاذب نظر اور آسان ہے۔ اردو کا دامن بڑا وسیع ہے۔ اردو ہمارا قومی ورثہ ہے۔ زندہ قومیں اپنے ورثہ کی حفاظت کرتی ہیں۔ یاد رکھیے!جو قوم اپنی زبان، اپنا لباس اور اپنی تاریخ فراموش کر دیتی ہے وقت بھی اسے فراموش کر دیتاہے :
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے