گمشدہ جنگل
جوھینری جینسن
ترجمہ: نیئر عباس زیدی
کورا (Korra)ایک ایسے شخص کا نام ہے جو کاشت کاری کرتا تھا۔ محنت و مشقت کرنے کے بعد جب اس نے خاصی رقم اکٹھی کر لی تو وہ ایک غلام خریدنے کی غرض سے ایک چھوٹے سے شہر پہنچ گیا۔ دلال نے اُسے کئی غلام دکھائے لیکن کسی پر بھی وہ مطمئن نہیں ہوا۔
ٍ دوپہر تھی اور تمام کے تمام غلام سوئے ہوئے تھے۔ دلال نے چڑ کر کہا، ’’میرا خیال ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں ان سب غلاموں کو آپ کے سامنے لے آؤں‘‘۔
کورا نے بڑی سادگی سے جواب دیا، ’’میں کسی اور جگہ بھی جا سکتا ہوں‘‘۔
’’
ٹھیک ہے ٹھیک ہے!’’دلال نے زنجیریں کھینچیں اور تمام غلام غنودگی کی حالت میں ہی باہر آگئے۔ کورا نے ان تمام کا بغور جائزہ لیا۔
دلال نے ایک غلام کو کورا کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا، ’’اسے دیکھیں! یہ ایک صحت مند شخص ہے، آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ ایک مضبوط سینہ نہیں رکھتا؟ اس کے سینے پر ہاتھ مار کر دیکھیں اس کی کلائیاں دیکھیں؛ اس کی نسیں ستار کی تاروں کی طرح ہیں۔ (پھر غلام سے مخاطب ہو کر بولا)، اپنا منہ کھولو !‘‘
اس دلال نے اپنی ایک انگلی غلام کے منہ میں دے کر اس کا منہ روشنی کی طرف کر دیا اور شیخی بھگارتے ہوئے کہا، ’’اب آپ کو اس کے چند دانت نظر آئے ہوں گے۔ اس نے چاقو کا دستہ غلام کے دانتوں پر پھیرتے ہوئے کہا، ’’دیکھیں! یہ دانت لوہے کی طرح ہیں اور یہ دانت کیل چبا کر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘‘۔
کورا نے تھوڑی دیر کے لئے سوچا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ اس غلام کی طرف بڑھایا اور اپنی انگلیوں سے اس کے پٹھے دبائے تا کہ یہ دیکھ سکے کہ وہ کتنے مضبوط ہیں۔ بالآخر اس کا ارادہ بن گیا کہ وہ اسے خرید لے، اس نے غلام کی قیمت غصے بھرے انداز سے ادا کی، غلام کی زنجیریں کھولائیں اور اپنے ساتھ لے گیا۔
تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ یہ غلام بیمار پڑ گیا اور رنجیدہ رہنے لگا۔ اب جبکہ وہ اس بازار میں موجود نہیں تھا جہاں وہ بکنے کے لئے آیا تھا بلکہ مستقل بنیادوں پر ایک جگہ قیام پذیر تھا، اس لئے اس نے ان جنگلوں میں جانے کی خواہش کا اظہار کرنا شروع کردیا جہاں سے وہ آیا تھا۔ یہ ایک بہترین نشانی تھی اور کورا اس علامت سے بھی بخوبی واقف تھا۔ ایک دن جب وہ غلام لیٹا ہوا مایوسی کی گفتگو کر رہا تھا تو کورا نے بڑے بھر پور انداز میں اس سے کہا، ’’گھبراؤ نہیں! تم ان ہی جنگلوں میں واپس چلے جاؤ گے جہاں سے تمہارا تعلق ہے، یہ میرا تم سے وعدہ ہے، میرے وعدے کا اعتبار کرو، ابھی تم کم عمر ہو، اگر تم دلجمعی اور محنت شاقہ سے کھیتوں میں کام کرو، تو میرا تم سے وعدہ ہے کہ ٹھیک پانچ سال بعد میں تمہیں آزاد کردوں گا، باوجود اس کے کہ میں نے تمہیں خریدنے کے لئے رقم ادا کی ہے۔
’’
پانچ سال، کیا یہ ایک سودا ہے؟ ‘‘
اور اس غلام نے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس نے وہ تمام کام سنبھال لیا اور کسی جن کی طرح محنت کرنا شروع کر دی۔ کورا اپنے گھر کے سامنے بیٹھ کر اسے کام کرتا دیکھ کر لطف اندوز ہوتا اور اس کی سیاہ کھال کے نیچے پٹھوں کو حرکت میں دیکھنا اس کے لئے باعث افتخار ہوتا، کورا گھنٹوں بیٹھا اسے دیکھتا رہتا کیونکہ وہ غلام مسلسل کئی گھنٹوں تک محنت کرتا جب کہ کورا کے کرنے کے لئے کوئی کام نہیں تھا، اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ اس (غلام) کا جسم ایک خوبصورت اور آنکھوں کو بھانے والی شئے ہے۔
وہ غلام پانچ سال تک ایک چیز گنتا رہا کہ سورج نے کتنے دورِ شمسی طے کر لئے ہیں۔ کیا ان کی تعداد اس کی پانچ انگلیوں جتنی ہو گئی ہے۔ سورج کو دس مرتبہ (اپنی جگہ پر) لوٹ آنا پڑا۔ ہر شام وہ سورج کو غروب ہوتا دیکھتا اور (غروب ہونے کی ) اس تعداد کا شمار پتھروں سے لکیریں کھینچ کر کرتا۔ جب سورج اپنا دورِ شمسیِ مکمل کر کے پہلی مرتبہ لوٹا تو اس نے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے پر اس کی گنتی کی تھی۔ اگلے دور شمسی کے اختتام پر اس نے اپنی انگشت شہادت کو آزاد تسلیم کیا۔ وہ اپنی ان دو انگلیوں کو دیگر تین انگلیوں پر فوقیت دیتا تھا کیونکہ اس کی باقی تین انگلیاں ابھی اس کی غلامی کی علامت تھیں۔
لہٰذا دنوں کی گنتی اور وقت گزرنے پر نشان لگانا ہی اس غلام کا مذہب، اس کے اندر کی دولت اور اس کا روحانی خزانہ تھا جسے کوئی بھی اس سے چھین نہیں سکتا تھا اور نہ ہی اس سلسلے میں بحث کر سکتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اعداد و شمار پھیلتے چلے گئے، وسیع تر ہوتے چلے گئے اور ان میں گہرائی آنا شروع ہو گئی۔ لا محدود قسم کی ان سمجھی چیزوں کے ساتھ وقت گزرتا چلا گیا جو اس کی پکڑ میں نہیں تھا: ہر روز سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی اُمید مضبوط تر ہوتی چلی جاتی اور اس کا اعتقاد بھی مزید تقدیس اختیار کرتا چلا جاتا۔ وقت ،جو زمانۂ حال میں گزر رہا تھا، لا متناہی نظر آنے لگا، کبھی وہ (وقت) زمانۂ ماضی کا حصہ تھا، اور اب اسے مستقبل بہت دور دکھائی دے رہا تھا۔
ایسی صورت حال میں اس غلام کی روح اور اس کے جذبات گیرائی اور گہرائی اختیار کرنے لگے۔ جیسے اس کی آزادی کی خواہش وقت گزرنے سے تعلق رکھتی تھی ،جو لا محدود تھا، اسی طرح اس کی دنیا بھی لا محدود ہونا شروع ہو گئی اور اس کے خیالات بھی حدود و قیود سے آزاد ہو گئے۔ ہر شام وہ غلام مغرب کی سمت میں بڑے غور و فکر کرنے کے انداز سے دیکھتا اور سورج غروب ہونے کا ہر منظر اس کی روح میں اترتا چلا جاتا۔
بالآخر پانچ سال کا عرصہ گزر گیا۔ الفاظ کی صورت میں یہ کہنا انتہائی آسان ہے۔ اس غلام نے اپنے آقا کے پاس آکر اپنی آزادی کا مطالبہ کیا اور اپنی آزادی کے بعد جنگل میں واقع اپنے گھر جانے کی خواہش بھی کی ۔
کورا نے بڑے سچے اور کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا،’’تم ایک وفادار غلام ہو، مجھے بتاؤ تمہارا گھر کہاں ہے؟ کیا تمہارا گھر مغرب کی طرف ہے؟ میں نے اکثر تمہیں اس طرف دیکھتے پایا‘‘۔
’’
جی! میرا گھر مغرب کی سمت میں ہی ہے۔ ‘‘
کورا کہنے لگا،’’تو پھر یہ خاصے فاصلے پر ہوگا‘‘۔
’’
جی خاصے فاصلے پر‘‘۔
’’
اور تمہارے پاس کوئی پیسہ نہیں، یا پیسے ہیں؟ ‘‘
غلام خاموش ہو گیا اور بڑی مایوسی سے کہا، ’’ہاں ، یہ بات درست ہے کہ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں‘‘۔
’’
دیکھو تم پیسے کے بغیر کہیں بھی نہیں جا سکتے۔ اگر تم میرے لئے مزید تین سال تک کام کرو- چلودو سال تک-تو میں تمہارے سفر کی خاطر اچھی خاصی رقم تمہیں دے دوں گا۔ ‘‘
اس غلام نے اپنا سر جھکایا اور دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس نے ان دنوں میں کام تو بہت اچھا کیالیکن پہلے کی طرح، گزرنے والے ایام کا شمار نہیں کیا۔ اس کے برعکس اس نے تصورات اور تخیلات کا سلسلہ بھی بند کر دیا۔ کورا نے اسے سوتے میں بڑ بڑاتے بھی سُنا۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ دوبارہ بیمار پڑ گیا۔
کورا اس کے قریب بیٹھ گیا اور بڑی دلچسپی کے ساتھ گفتگو کرنی شروع کر دی۔ اس کی تمام گفتگو دانائی سے بھرپور تھی کہ جیسے وہ حقیقی تجربات کا نچوڑ ہو، اس نے کہا، ’’دیکھو! میں ایک بوڑھا شخص ہوں، اپنی جوانی میں، مَیں بھی مغرب کی طرف جانے کی تمنا کرتا تھا؛ بڑے جنگل مجھے بھی لبھاتے تھے۔ لیکن میرے پاس بھی سفر کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ میں اب کبھی وہاں نہیں جاؤں گا۔ کبھی بھی نہیں تا وقتیکہ میں وفات پا جاؤں اور میری روح وہاں پہنچ جائے۔ تم ابھی جوان ہو اور کام کاج کرنے کی بھر پور سکت رکھتے ہو ، تم انتہائی محنت سے کام کر سکتے ہو لیکن تم اتنے طاقت ور اور محنتی نہیں ہو جتنا میں اپنی جوانی میں ہوتا تھا۔ ان تمام چیزوں پر غور کرو اور ایک بوڑھے شخص کی نصیحت پر غور کرو اور یہی سوچ کر دوبارہ صحت مند ہو جاؤ۔ ‘‘
آہستہ آہستہ وہ غلام رو بصحت ہو گیااور جب اس نے دوبارہ کام کاج سنبھال لیا تو اس کا جوش و ولولہ پہلے جیسا نہیں تھا۔ وہ اب نسبتاً سہل پسند ہو گیا تھا۔ اس کا مقصد اوراس کا ولولہ اب جاتا رہا تھا، اور اب وہ کام کے دوران سو جانا بھی پسند کرتا تھا ۔پھر ایک دن کورا نے اس کو مارا۔ یہ اس کے لئے بہتر ہوا وہ زار و قطار رویا۔ الغرض دو سال بھی بیت گئے۔
دو سال بعد کورا نے اس غلام کو واقعی آزاد کر دیا۔ وہ مغرب کی سمت چل پڑا؛ لیکن چند ماہ بعد واپس آگیا اور اس کی حالت قابل رحم تھی ۔ وہ اپنے جنگل تلاش کرنے میں ناکام رہا تھا۔
کورا اس صورت حال پر بولا، ’’تم نے دیکھ لیا، کیا مَیں نے تمہیں اس بات سے آگاہ نہیں کیا تھا؟ لیکن کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تمہارے ساتھ ٹھیک رویہ نہیں رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ پھر کوشش کرو اور اس بار مشرق کی طرف جاؤ، ہو سکتا ہے تمہارے جنگل اس سمت میں ہوں‘‘۔
ایک مرتبہ پھر وہ غلام روانہ ہوا لیکن اس دفعہ اس کا منہ ابھرتے ہوئے سورج کی طرف تھا، کافی عرصہ تک جہاں گردی کرنے کے بعد وہ اپنے جنگلوں میں پہنچ گیا۔ لیکن وہ ان جنگلوں سے مانوس نہیں ہوسکا۔ تھک ہار کر اور شکست خور دہ ہو کر اس نے اپنا چہرہ مغرب کی طرف کیا اور اپنے آقا کے پاس پہنچ گیا اور اسے بتایا کہ اگرچہ وہ ان تمام چھوٹے بڑے جنگلوں تک تو پہنچ گیا تھا، لیکن وہ جنگل اس کے اپنے نہیں تھے۔
کورا نے کھانستے ہوئے، ’’ہونہہ! ‘‘کیا۔
پھر بڑے پیار سے کہا،’’تو پھر تم میرے ساتھ رہو، جب تک میں زندہ ہوں اس زمین پر تم اپنے لئے گھر کی تمنا نہیں کرو گے اور جب میں اپنے والدین سے جا ملوں گا تو تمہاری دیکھ بھال کی ذمہ داری میرے بیٹے پر ہو گی‘‘لہٰذا اس غلام نے اس جگہ پر دوبارہ رہنا شروع کر دیا۔
کورا مزید بوڑھا ہو گیا لیکن اس کا غلام ابھی جوان تھا۔ کورا اپنے غلام کی غذا کا خاص خیال رکھتا تا کہ وہ طویل زندگی پائے، اُسے صاف ستھرا رکھتا کہ وہ صحت مند رہے اور مناسب وقفوں سے اس کی پٹائی بھی کرتا تھا تاکہ اس میں عاجزی و انکساری برقرار رہے۔ وہ اُسے آرام کرنے سے بھی نہیں روکتا تھا؛ ہر اتوار اسے اس بات کی اجازت ہوتی تھی کہ وہ پہاڑی پر جا کر بیٹھ جائے اور مغرب کی طرف دیکھتا رہے۔ کورا کے کھیتوں میں اب اچھی فصل اگنے لگی تھی۔ اس نے جنگل خریدے، انہیں صاف کروایااور قابل کاشت بنایا تا کہ اس کا غلام اس میں کام کر سکے، اس غلام نے بڑی رغبت اور محنت سے اس جگہ لگے ہوئے درخت کاٹے۔ کورا انتہائی امیر کبیر انسان بن گیا اور ایک دن ایسا ہو اکہ اس نے (اپنے غلام کے لئے) ایک کنیز بھی خرید لی۔
وقت گزرتا چلا گیا اور کورا کا گھر چھ غلام زادوں سے بھر گیا۔ وہ سب کے سب بھی، اپنے باپ کی طرح مضبوط اور توانا تھے ۔اور انہوں نے بھی انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ ان کا والد انہیں بتاتا کہ وقت اسی صورت گزرتا ہے جب کوئی کام میں مصروف رہے ۔ اور جب (اسی انداز میں ) وقت گزر کر ماضی کا حصہ بن جائے تب ہی ہم لافانی قسم کے جنگلوں کے اہل ہو سکتے ہیں۔ آرام والے دن وہ اپنے بیٹوں کو پہاڑی پر لے جاتا۔ انہیں غروب ہوتا سورج دکھاتا اور انہیں تمنا کرنے، آرزو کرنے اور (کسی چیز کا) انتظار کرنے کا ڈھنگ سکھاتا۔
کورا اب خاصا بوڑھا اور لاغر ہو گیا تھا۔ بوڑھا تو وہ پہلے ہی تھا مگر اب وہ زندگی کے دن گن کر گزار رہا تھا۔ اس کا بیٹا مضبوط و توانا تو نہیں بن سکا لیکن اسے اس بات سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے گھر میں موجود غلام زادوں میں سے ہر ایک اتنا مضبوط اور لحیم تھا کہ وہ صرف ایک مکے کی ضرب سے کسی بھی شخص کو گرا سکتا تھا۔ وہ انتہائی طاقت ور تھے؛ان کے پٹھے لوہے کی مانند تھے اور ان سب کے دانت شیر کی طرح تھے۔ اور ان کے پاس ابھی وقت بھی بہت تھا۔ وہ غلام زادے اپنی کلہاڑیاں چلاتے اور جنگلوں کے درخت کاٹتے رہے۔