الفاظ کے اخلاقی انحطاط کا نفسیاتی پس منظر
پروفیسر غازی ولم الدین
زبان کسی قوم کا پیمانۂ اخلاق ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کے ساتھ زبان بھی عُلُوّ مرتبت پر فائز اور اخلاقی انحطاط کاشکار رہتی ہے۔ الفاظ اخلاقی اور غیر اخلاقی حقائق کے شاہد ہوتے ہیں جو انسان کے اخلاقی انحطاط اور عروج کی داستان سناتے ہیں۔ جس طرح انسان عروج و زوال کی منزلیں طے کرتا ہے اُسی طرح الفاظ بھی سرگرمِ سفر رہتے ہیں۔
الفاظ و محاورات اپنے اندر سماجی رس لیے ہوتے ہیں کیوں کہ یہ تہذیب کا جھنڈ ا اور تاریخ کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اکثر الفاظ و محاورات اور کہاوتیں سماجی اور تہذیبی واقعات کی ہی پیدا وار ہوتی ہیں۔ قوموں کی ثقافت، معاشرت ، تاریخ، رسوم و رواج، ترقی اور تنزّل انہی الفاظ اور ان کے استعمال سے ہی مترشح ہوتے ہیں۔
زبان کے اخلاقی تنزّل و انحطاط میں برصغیر کے طبقاتی پس منظر کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ۔ پیٹ کے مسائل نے پیشوں کو جنم دیا اور پیشوں نے عوامی روّیہ کے الفاظ جنم دیئے۔ انہی الفاظ سے محاورات اور کہاوتیں بنیں جو اس وقت کے معاشرے کی سوچ کی عکاس ہیں۔ اُمراء اور حکم ران طبقے کی خوش آمد اور منت و سماجت کے لئے الفاظ وضع کیے گئے۔ ذات پات، اونچ نیچ اور متعصبانہ رویوں کے اظہار کے لئے بھی اردو زبان و ادب کی لغت کو ’’مالا مال‘‘ کیا گیا۔ طاقت ور اور کم زور کو مدّ مقابل لا کر حفظِ مراتب، نفرت کے اظہار اور غیبت کی عادت جیسے رذیل رویّے تخلیق کیے گئے ۔ حق بات کہنے کی جرأت کے فقدان کے پیشِ نظر رمز و ایماء اور اشاروں کنایوں پر مبنی ذومعنی الفاظ و محاورات کا استعمال انسان کی نفسیاتی، معاشرتی اور اخلاقی پستی کی واضح دلیل ہے۔
زبان کے اخلاقی انحطاط کے پس منظر میں ہمیں بھوک ،ننگ ،افلاس،ناداری ، کمزوری، جہالت ، نفرت و حقارت اور ایسی کئی کہانیاں اور جذبات نظر آئیں گے ۔ معاشی ناہمواری نے غریب اور مفلس کو مجبور کر دیا کہ وہ امیر طبقے کے کمّی بنیں اور نمک حلالی کرنے کے لئے ان کی تفریح طبع کے لئے اُوٹ پٹانگ باتیں اور اخلاق سے گری حرکتیں کریں۔ کئی مستعمل الفاظ و محاورات ان واقعات کی تصدیق کرتے ہیں۔ مجبور و مقہور عوام بے بس تھے۔ الفاظ کی حد تک نفرت و انتقام کے جذبات رکھتے اور اپنی بھڑاس نفرت کے خمیر سے بنے محاورات کے ذریعے نکالتے تھے۔
بارک اللہ : اس کا لفظی معنی ہے اللہ برکت دے،
لیکن اس کااستعمال کسی شخص کی مذّمت اور ہجو کے لئے بھی ہوتاہے۔ درحقیقت یہ ایک دعا ہے۔ بارک اللہ کی ترکیب شعائرِ اسلام میں اس طرح شامل ہے جیسے السّلام علیکم، الحمدللہ ، ماشا ء اللہ، سبحان اللہ اور ان شاء اللہ وغیرہ۔ ہجو اور مذّمت کے معنی میں اس کا استعمال یقیناشعائرِ اسلام کی توہین کے زمرہ میں آتاہے۔
بسم اللہ ہی غلط : اس سے مراد ابتدا ہی غلط ہوجانا یا چھوٹتے ہی غلطی کا ارتکاب کرناہے۔
اس محاورے کے پس منظر میں انسانی اخلاقی انحطاط ، ذہنی خباثت اور دینِ اسلام کے خلاف سازش واضح اور عیاں ہے ۔
جنم جنم کا ساتھ دینا : اس محاورے کا مفہوم ہے وفاداری کو مرتبۂ کمال تک پہنچانا۔
لیکن محاورے کے الفاظ اور اس کی ترکیب میں آواگون کے مذہبی نظریے کو واضح کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ دراصل یہ عقیدۂ تناسخ اور حُلولِ باری کا اظہار ہے۔ آواگون کو Incarnationاور Transmigration of Soulبھی کہتے ہیں۔ یہ اسلامی نظریۂ حیات و ممات اور آخرت کی ضد ہے۔ اردوزبان و ادب میں اس کے استعمال سے ایک مشرکانہ اور کافرانہ نظریے کی ترویج ہوتی ہے جس کا عام اردو بولنے والے ادراک نہیں رکھتے۔
حِکمتی : اس سے مرادچالاک، مکاراور عیّار شخص ہے۔
یہ حکمت جیسے مقدس لفظ کی توہین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ مَن یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً (۲۱) (اور جسے حکمت ملی، اسے حقیقت میں خیر کثیر یعنی بڑی دولت مل گئی )
خدمتی : اس سے مراد نوکر چاکر ہے۔
اس لفظ کے مفہوم کے تعیّن اور استعمال کے پس منظرمیں ذات پات ،اونچ نیچ اور طبقاتی سوچ کا رفرما ہے۔اسلام کی نظر میں خدمت کرنے والے انسان کی عظمت مسلمہ ہے۔ فرمانِ رسول ﷺ ہے۔ سَیّدُِ القَومِ خَادِمُھُم (۲۲)(قوم کا سردار درحقیقت اپنی قوم کا خدمت گار ہی ہوتاہے )
داڑھی نوچ ڈالنا : ذلیل و رسوا کرنا۔
کسی کو ذلیل کرنے اور دھوکا دینے کے لئے داڑھی پر ہاتھ صاف کرنا اور اُسے نجاست سے آلودہ کرنا معاشرتی اخلاقی پستی کا مظہر ہے ۔داڑھی جو شعائرِ اسلام میں شامل اور ایمان کی علامت ہے، کس توہین آمیزطریقہ سے اسے محاوروں میں استعمال کرکے اردو زبان و ادب کو ’’ثروت مند‘‘ اور ’’مزیّن ‘‘ کیا گیاہے۔
رِیشِ قاضی : لفظی معنی ہے قاضی کی داڑھی۔
لیکن اصطلاحاً شراب کی بوتل کے ڈاٹ (ڈھکن) اور بھنگ چھاننے کے کپڑے کو کہاجاتاہے۔
ریِشِ بابا : لفظی معنی ہے بابا کی داڑھی۔
لیکن اصطلاحاً شراب بنانے کے لئے انگور کی ایک قسم کو کہاجاتاہے۔
شیخ چِلّی : بے وقوف، مسخرا اور احمق۔
شیخی باز : مغرور، ڈینگیں مارنے والا اور گھمنڈ کرنے والا۔
شیخی بگھارنا : بڑائی ظاہر کرنا، نمودونمائش کرنا۔
شیخی جھڑنا : نیچا دکھانا۔
شیخی مارنا : اِترانا
یہ الفاظ و محاورات شیخ کی نسبت سے تشکیل پائے ہیں۔ عربی میں شیخ کا معنی علم و عُمر اور مرتبہ کے اعتبار سے بلند شخص کے ہیں۔گویا شیخ جو عزت و احترام اور تقدس کا حامل لفظ ہے، اُسے بے وقوفی، تکبرّ ، بُرائی ، عزّت و آبرو کو پامال کرنے ،نمود و نمائش اور غرور جیسے خصائل سے متصف کیا گیاہے۔ معاشروں کی خفّتِ عقل اور ضُعفِ ایمان کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس مقدس لفظ کو ذلیل حرکتِ انسانی سے وابستہ کر دیا گیا۔
صَفاًّ صَفاَّ : بے نام و نشان، منہدم اور ویران
صَفاًّ صَفاّ کرناَ : نیست و نابود کرنا، استیصال کرنا۔
صَفاًّ صَفاَّہونا : ویران ہونا، تہس نہس ہونا۔
صَفاًّ صَفاّکی ترکیب قرآنی آیت کا حصّہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَجَاء رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً (۲۳) (اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے )۔
صَفاًّ صَفاّکا ترجمہ صف در صف اور منظم ہے جب کہ محاورے میں اس کا بالکل الٹ معنی کردیا گیاہے۔ ان محاورات کی تشکیل کے پس منظر میں جہاں قرآنی الفاظ کی تضحیک ہے وہاں اسلام کے اُصولِ عمل ، نظم و ضبط اور ڈسپلن پر زد پڑتی ہے۔
صلوات سنانا : کوسنا، دشنام دینا، بُرا بھلا کہنا۔
علیک سلیک : مراد ہے معمولی ملاقات، محض جان پہچان اور واجبی شناسائی۔
السلام علیکم جو امنِ عالم کے قیام کے لئے اسلام کا منشور ہے، ایک دوسرے سے پیار ، محبت اور خلوص میں اضافے کا موجب ہے، اُسے لفظی طورپر بگاڑ کر انتہائی سطحی معنوں میں استعمال کیا گیاہے۔