حافظ اورغالب، انداز بیاں کے تناظر میں
قور الدین خورشید
فارسی شاعری میں حافظ کو جو مقام حاصل ہے وہی مقام اردو شاعری میں غالب کو بھی حاصل ہے۔ فارسی شاعری میں مقبولیت کے حوالے سے چار شاعر سامنے آتے ہیں : فردوسی، خیام، سعدی اور حافظ۔ فردوسی کا شاہنامہ، خیام کی رباعیات، سعدی کی گلستان و بوستان فارسی ادب کے شہ پارے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں لیکن غنائیت میں حافظ کی شاعری ان عظیم شعراء کی شاعری سے آگے نکلتی نظر آتی ہے اور یہی شعری غنائیت حافظ کو مقبولیت میں ان شعراء سے آگے لے جاتی ہے۔
اردو شاعری میر تقی میر کے ارد گرد گھومتی نظر آتی رہی، مگر اپنے کو اور سودا کو پورا شاعر گردانتے تھے، خواجہ میر درد کو آدھا اور میر سوز کو پونا، بعد کے شاعروں نے بھی میر کو استاد مانا جن میں غالب بھی شامل ہیں :
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں

ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

لیکن پھر یہی غالب آگے جا کر کہہ اُٹھے :
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
حافظ بھی اپنے بارے میں یہ کہہ چکے ہیں :
من و سفینۂ حافظ کہ جُز درایں دریا
بضاعتِ سخن دُرفشاں نمی بینم
دیوانِ حافظ اور دیوانِ غالب کا مطالعہ کریں تو اکثر موضوعات میں بھی دونوں کے ہاں مطابقت نظر آتی ہے جو اہلِ نظر کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی جس کی چند مثالیں دی جا رہی ہیں :
سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر، نالۂ دل
ایں ہمہ از اثرِ لطفِ شما می بینم

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا وہ پریشاں نکلا
ہر چند پیر و خستہ دل و ناتواں شدم
ہرگہ کہ یاد روئے تو کردم جواں شدم
اُن کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

آفریں بر دلِ نرمِ تو کہ از بہرِ ثواب
کشتۂ غمزۂ خود را بنماز آمدۂ
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا

جامِ جمشید بمن رہ کہ نیر زد بر من
گنجِ قاروں بجو و ملک سلیماں دُبدوجَو
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں !
در چمن ہر ورقے دفترے حالے دگرست
حیف باشد کہ زکارِ ہمہ غافل باشی
یہ تو مطابقت کی بات ہو گئی جس کی مثالیں بھی پیش کر دی گئیں۔ اب آئیے دونوں کے اندازِ بیان کے بارے میں بھی کچھ بات ہو جائے، اس کے لیے بھی اوپر دیے گئے اشعار کا ہی جائزہ لیتے ہیں: حافظ کے پہلے شعر کو لیتے ہیں اور پھر ساتھ ہی درج شدہ غالب کا شعر دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انداز بیاں کے حساب سے غالب کا شعر حافظ سے آگے نکلتا نظر آتا ہے۔
غالب کو اپنے انداز بیان کے بارے میں کما حقہ‘ ادراک تھااور ایسا ادراک کہ میر جیسے شاعر کو بھی چیلنج کر دیا ۔ یہ الگ بات کہ تاحیات وہ اپنے ہم عصروں کی طعن و تشنیع کا نشانہ بنتے رہے لیکن پھر بھی انھیں اپنی شاعری اور اپنے انداز بیان کی اوّلیت کا پورا اندازہ، یقین کی حد تک تھا۔ غالب کو جو ماحول ملا تھا اس ماحول میں اُن کا یہ یقین، اللہ اکبر ۔ یہاں تک کہ اُن کے اپنے ہمدرد بھی اُن کے شعری رویے اور انداز بیان سے مطمئن نہیں تھے اور یہاں تک ہوا کہ اُن کے اردو دیوان کی قطع و بُرید کر ڈالی۔ وہ تو شکر ہے کہ اُن کا باقی ماندہ کلام دست بردِ زمانہ سے محفوظ رہا ورنہ آج ہم غالب کے اردو کلام کے بقیہ حصے سے محروم رہتے جو غالب کے ساتھ بے انتہا زیادتی ہوتی۔ غالب کی فارسی شاعری کا اپنا مقام ہے لیکن غالب کو بڑا بلکہ عظیم شاعر اُس کے اردو کلام نے بنایا، ایک زمانہ اُس کا مخالف تھا اور اس مخالفت میں حد کا عنصر غالب تھا، ایسے حالات تھے لیکن پھر بھی غالب شعر کہتے رہے :
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہے مرے اشعار میں معنی نہ سہی
یہ جو اوپر مثالیں دی گئی ہیں۔ مطابقت کی، اندازِ بیان کی یہ مشتے از خروارے‘ ہے۔ میری نظر میں یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے، مطابقت بھی اور انداز بیان بھی بلکہ اصل موضوع میری رائے میں انداز بیان ہے۔ مطابقت تو اس کا ایک جُزوی حصہ ہے، یہ انداز بیان ہی ہے جو کسی شاعر کے کلام کو نیا پن دیتا ہے اور مجھے اس حوالے سے غالب منفرد نظر آتے ہیں اور اس سلسلے میں اب میں جو مثال دینے والا ہوں اس سے میری اس بات کی تصدیق ہو جائے گی۔ تھامس گِرے کی ایک مشہور نظم ہے
Elegy Written in a Country Churchl yard
یہ ایک طویل نظم ہے جو ۱۲۸ لائنوں پر مشتمل ہے ۔
اب دیکھیے رفتگان کے بار ے میں غالب کیا کہتے ہیں :
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
کتابیات :
۱۔ دیوان حافظ، چاپ دوم، موسہ چاپ و انتشارات امیر کبیر، سال یک ہزار و سیہ صد و سی و ہفت۔
۲۔ دیوان غالب اردو (نسخۂ عرشی) مرتبہ امتیاز علی خان عرشی، مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۹۲ء
3. Poetry Electival, ed. john Bellenbindire, Dell, 1966
۴۔ دیوانِ حافظ (مترجم)، مولانا قاضی سجاد حسین (دہلوی)، مشتاق بک کارنر، لاہور۔
۵۔ آبِ حیات، محمد حسین آزاد، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، اردو بازار لاہور۔