حالت رفت

تسنیم منٹو

 

محترمہ تسنیم منٹو اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ان کی ایک اور پہچان ملک کے ممتاز وکیل ، دانشور اور سیاست دان عابد حسن منٹو کی اہلیہ ہونا ہے۔ محترمہ تسنیم منٹو کا زیر نظر افسانہ ان کے افسانوں کی کتاب ’’ذرا سی بات‘‘سے لیا گیا ہے جس کا پہلا ایڈیشن۲۰۰۲ء میں ملٹی میڈیا آفیئر لاہور نے شائع کیا اور اس کتاب کی مقبولیت کے باعث اب دوسرا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔محترمہ تسنیم منٹو کے افسانوں میں ہماری عام گھریلو اور معاشرتی زندگی کا ایسا احساس پایا جاتا ہے جسے ہم اکثر محسوس ہی نہیں کر پاتے۔
تسلسل کیوں ٹوٹتا ہے؟۔۔۔ عمارت کیوں ڈھے جاتی ہے؟ یقیناً تسلسل جس تار سے بندھا ہوتا ہے بے عملی کے عمل سے کسی جوڑ پہ وہ تار زنگ آلود ہو جاتی ہے اور اگر عمارت ڈھے جاتی ہے تو بھی کسی کا ریگر کے ہاتھ کی کجی یا ناقص میٹریل کا استعمال عمارت کے وجود کو ختم کر دیتا ہے۔۔۔ میری عادت ہے کہ میں بات یا حالات کی تہہ تک پہنچنا چاہتا ہوں اگرچہ اس کا نہ تو کچھ خاص فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی ضرورت۔۔۔ بہرحال میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ زمین جو کہ اوپر سے بہت ہموار ہے۔ اس کے نیچے کیا ہے؟ کیا یہ زمین نرم خُو ہے یا تُند خو، کیا اس کے نیچے نرم کرنے والی نمی ہے کہ شور ہے؟۔۔۔۔۔۔ مجھے میرے دادا کا نام معلوم ہے۔ ایک ڈھلکے شملے والی پگڑی والا قبول صورت شخص، جس کی قمیض کے اوپر کے دو بٹن کھلے ہیں لیکن اس شخص کی پگڑی کے ڈھلکے شملے کی وجہ سے کوئی اس تصویر کو ایک نظر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا جبکہ اسی تصویر کے ساتھ ذرا ہٹ کر دیوار پر میرے بابا کی تصویر بھی ہے۔ جس میں وہ اپنے اعلیٰ منصب کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں۔ گھر میں آنے والے مہمان چلتے چلتے رُک کر بابا کی اس تصویر کو دم بھر رُک کربغور دیکھتے اور مسکرا کر آگے قدم بڑھا دیتے ہیں ۔اکثر یہ بھی میری نظروں کے سامنے ہوتا ہے کہ میری چھوٹی پُھپھو ڈھلکے شملے والی تصویر کے پاس لحظہ بھر کو رُکتی ہیں۔ ان کے چہرے پہ ایک سایہ سا لہراتا ہے لیکن ان کے چہرے کا یہ تأثر کبھی کوئی حرف نہیں بنا پاتا کہ میں اُس حرف کو پڑھ سکتا لیکن میں یہ جاننے پہ مُصر ہوں کہ میرے پردادا کون تھے۔ ان پہ زمانے نے کیا اُفتاد ڈالی کہ وہ ناپید ہو گئے ۔ اُن کی شناخت کس آشوب کی نذر ہوئی؟
وجاہت حسین گردن کو دونوں ہاتھوں کے پیالے کی گرفت میں سنبھالے بابا، ماما کے بیڈ روم میں رکھے صوفے پہ نیم دراز تھا اور شناخت کی الجھی گُتھی اس کے ذہن کو پریشان کر رہی تھی۔ پہچان کے اس گم شدہ سِرے کے بارے میں وجاہت نے بابا سے بھی پوچھا تھا۔ بابا نے غور سے اس کی جانب دیکھا تھا، وجاہت کو محسوس ہوا کہ بابا کی نگاہ میں وجاہت کے لیے ملامت اور ہلکے پن کا شائبہ تھا لیکن انھوں نے کہا تھا کہ سب کچھ موجود میں ہے حاضر میں۔ جو گزر گیا وہ بھی اور جو آنے والا ہے، سب موجود میں ختم ہوتا چلا جاتا ہے۔ موجود ہی ہمارا ماضی بن جاتا ہے اور موجود ہی تمہارا کل ہے۔ کیا جو موجود ہے وہ ہمیں مطمئن نہیں کرتا؟
وجاہت حسین کی اس ذہنی کیفیت میں شدت کچھ اس وجہ سے بھی دَر آئی تھی کہ اس کے بابا کا روزمرہ کا شیڈول سکڑتا جا رہا تھا اور اب وہ کچھ ڈھیلے ڈھالے رہنے لگے تھے۔ بابا کی زندگی دوستیوں ، رفاقتوں ، محبتوں، شناسائیوں اور رواداریوں کا لہلہاتا باغ تھی۔ خلق خدا سے بابا کے یہ رشتے بہت گہرے تھے لیکن اب بابا نے اس وسیع باغ سے ایک کیاری منتخب کر لی تھی کہ اس قدر وسیع باغ کو سینچنے کی سکت نہیں رہی تھی۔ زندگی بابا کے لیے، وَن ڈے کرکٹ میچ تھی۔ اس میچ کے وہ کپتان بھی تھے اور کھلاڑی بھی۔ زندگی بھر یہ کوشش رہی کہ یہ گیم فیئر کھیلی جانی چاہیے ۔
لیٹے لیٹے وجاحت حسین ہاتھ کی گھڑی پہ نگاہ ڈالتا ہے اور اوہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ دروازے پہ بیل ہوتی ہے وجاہت حسین دروازے کی جانب جاتا ہے۔ واپس آتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے۔ اس پہ نظر یں جمائے آہستہ آہستہ چلتا ہوا لاؤنج میں رکھے صوفے کے بائیں طرف آ کر رُک جاتا ہے۔ صوفے کے انتہائی دائیں جانب وجاہت حسین کے بابا سرمئی رنگ کے پشمینے کا دُھسہ اور پینٹ لیدر کی بُو والی گرگابی پیروں میں ڈالے ناشتے کے انتظار میں اخبار پڑھ رہے ہیں۔ وجاحت حسین کو کھڑے دیکھ کر گردن گھماتے ہیں اور ابرو کے اشارے سے وجاحت کے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے بارے میں پوچھتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔یہ۔۔۔بابا وہی عامر کا چوتھا ای میل ہے۔ بس یہی تکرار ہے کہ آ جاؤ۔ Athicaبے حد خوبصورت مقام ہے اور ذہن و نظر کے لیے یہاں پہ بہتیرا رومانس ہے۔ میدان خالی ہے کہ بچے اور ان کی اماں پاکستان گئے ہیں۔ بس میں اکیلا ہوں، خوب گپ لگے گی۔ جلدی سے آ جاؤ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کیا قباحت ہے؟
تو چلے جاؤ نا! رکاوٹ کیا ہے۔ مقدموں کی اگلی تاریخیں لے لو۔ دوستوں سے مل بیٹھنے کے مواقع کبھی مت کھونا۔ یہ میری زندگی کا تجربہ ہے۔ جاؤ لیکن آپ جو ان دنوں مضمحل سے رہنے لگے ہیں! وجاہت سوال کرتا ہے۔
میرا اضمحلال وقت کی جفا ہے۔ وقت کی اکائی سے الگ ہو جانے کا عمل ہر ایک کے لیے متعین ہے۔ اس میں آنکھ چرانے کی گنجائش نہیں ہوتی ۔تھوڑی دیر کی خامشی کے بعد پھر بولے وہ دیکھوکچھ ایسا کرو، یعنی کوئی ایسی ایئرلائن ڈھونڈو جو تمہیں استنبول میں کچھ گھنٹوں کا سٹاپ دے تاکہ تم سلیمان مسجد اور چرچ دیکھ سکو۔ میری بڑی تمنا تھی کہ میں، مہتاب بیگم اور تم اکٹھے استنبول دیکھتے خیر ایک دو روز میں تم اپنی تیاری کر لو اور جاؤ اگر دوست ہوں اور وہ محبت بھی کرتے ہوں تو اس سے بڑی خوش بختی کیا ہوگی؟ یہ محض اتفاق تھا کہ وجاہت حسین کو ترکش ایئرلائن سے استنبول میں چند گھنٹوں کا سٹاپ اُو مل گیا۔
وجاہت حسین گھر سے رخصت ہونے لگے تو بابا نے انھیں اپنی پسند کی دو کتابیں دیں کہ اچھے ماحول میں اچھی کتاب زیادہ لطف دیتی ہے اور ہاں یہ بھی کتاب میں رکھ لو۔ کبھی فرصت میں آرام سے دیکھ لینا۔ بابا نے براؤن رنگ کا ایک لفافہ وجاہت حسین کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا! وجاہت حسین جہاز میں بیٹھے تو کچھ بے چین سے تھے اور جھنجھلا رہے تھے کہ نہ معلوم بابا نے مجھے کیوں اتنا مجبور کیا کہ آخر کار میں گھر سے چل ہی پڑا۔ وجاہت کو غصہ آ رہا تھا اور انھیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے من کو ، اپنے دھیان کو گھر پر ہی بھول آئے ہیں ۔لمبا سفر تمام ہوا۔ استنبول اترے تو یوں محسوس ہوا کہ بابا قدم بہ قدم ان کے ساتھ چل رہے ہیں۔ کبھی ان کا بازو، وجاہت کے بازو کے کلاوے میں ہے۔ کبھی وجاہت ان کے ہاتھ کا نرم و گداز لمس اپنے کندھوں پہ محسوس کرتا ہے۔ ذہن کی ایسی ہی بھول بھلیوں جیسی کیفیت میں گرفتار مسجدِ سلیمان کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں ۔وجاہت حسین نے کہیں قریب سے بابا کو آواز دی ۔بابا! میں استنبول میں ٹرانزٹ میں ہوں، میرے پاس چند گھنٹے ہیں اور میں سلیمان مسجد میں کھڑا اس کے دبیز ماحول کی پہنائیوں میں گم اور حیرت زدہ ہوں۔ عظیم الشان ہونے کے لیے، قد آور ہونا ضروری ہے اور عالیشان ہونے کا تعلق ایسی وسعت سے ہے جو ایک نظرمیں پوری نہ سما سکے۔ یہ دونوں صفات مسجد اور چرچ کی ساخت میں موجود ہیں۔ مسجد کے پہلو میں چرچ ایستادہ ہے۔ مسجد کے وجود میں پھیلاؤ اور وسعت ہے جبکہ چرچ کی ایستادگی اور تمکنت سے میں سرشار ہوں۔ تمام ماحول بہت سحر زدہ ہے جبکہ میری نگاہ کوتاہ ہے اور میرا ذہن جیسے سکڑتا جا رہا ہے۔محسوس ہوتا ہے جیسے میرے اندر اکتساب کی طاقت سلب سی ہو رہی ہے۔ یہ وقتِ شام ہے اور وقتِ اذان بھی، چہار سو حیّٰ الالفلاح کی دعوت ہے۔ پورے ماحول پہ ہلکے بادلوں جیسا سایہ سا ہے۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پہ پاؤں رکھتا ہوں کہ ایک دم اذان کی گھمبیر اور گہری آواز کا سحر مجھے عجیب سے خوف اور اضطراب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میں ساکت اور پتھر بنا سیڑھیوں پہ کھڑا رہتا ہوں اور برسوں دور بابا اور اپنی جنم بھومی میں نکل جاتا ہوں۔
بمشکل تین چارسال کا ہوں، ہمارے محلے میں ایک جامع مسجد ہے۔ ہر جمعہ کو میرے بابا اور میری دادی اس مسجد میں نماز کے لیے جاتے ہیں۔ میں سفید شلوار کرتہ پہنے ہمیشہ بابا کی انگلی پکڑے ساتھ ہوتا ہوں۔ بابا مردانہ حصے میں چلے جاتے ہیں جبکہ دادی اور میں زنانہ حصے میں، جو کہ چند سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا ہوتاہے ۔۔۔ نماز کے بعد چندے کی اپیل ہوتی ہے اور میری دادی اپنے کلف لگے چھبی کی ململ کے دوپٹے کے پلّو سے کچھ پیسے باندھ کر پلو نیچے لٹکا دیتی ہیں۔ نیچے کھڑا کارکن دوپٹے کی گرہ کھولتا ہے اس کے لبوں سے جزاک اللہ نکلتا ہے اور پیسے صندوقچی میں ڈال دیتاہے۔ میں ہر جمعہ کو یہ عمل دیکھتا ہوں۔ میں اسے کھیل شمار کرتا ہوں اور ہر جمعہ کو اس کھیل کو پہلے روز والے انہماک سے دیکھتا ہوں۔
وجاہت حسین کی زندگی بابا کی شخصیت سے سر تا پا مربوط تھی۔ اسے ایک واقعہ یاد آیا جو بابا کی زندگی پر محیط تھا۔ اس واقعہ کے بارے میں بابا کا رد عمل اس قدر منفرد تھا کہ وجاہت حسین آج بھی اس رویے پر اکثر غور کرتا لیکن گو مگو میں مبتلا رہتا۔
بابا کے بیڈ سائیڈ پر رکھے بُک شیلف کی کتابوں کو وجاہت حسین ترتیب سے رکھ رہا تھا۔ ایک موٹی کتاب کو اس نے کپڑے سے صاف کیا اور اس کے ورقوں کو چٹکی میں لے کر چھوڑنے لگا تو ایک تصویر زمین پر گری۔ وجاہت نے یہ تصویر اٹھائی، غور سے دیکھا۔ تصویر ایک خوش شکل خاتون کی تھی۔ تصویر کے پچھلی جانب بابا کے دستخطوں کے ساتھ فارسی کا یہ شعر لکھا تھا:
در نمازم خمِ ابروئے تو چوں یاد آمد
حالتے رفت کہ محراب بہ فریاد آمد
وجاہت حسین نے چور نگاہی سے بابا کی جانب دیکھا اور خود کو پر اعتماد بنایا اور استفہامی نظروں سے تصویر بابا کو تھما دی اور ہلکی آواز میں استفسار کیا۔ بابا خوبصورت خاتون کون ہیں۔بابا نے تصویر کو ایک لحظہ دیکھا اور بے حد مضبوط لہجے میں بولے۔ یہ خاتون تابندہ جدون ہیں۔وجاہت حسین کو ماں کا خیال آیا اور ہمت کر کے سوال کر ڈالا لیکن بابا یہ تو میری پیدائش سے بہت بعد کی تصویر ہے۔ بابا گویا ہوئے۔ تمہارا یہ ماجرا ماہتاب بیگم کے علم ہے۔ ایسے ہوتا ہے ایک نیاvenu آپ ہی آپ ، آپ کی زندگی میں شامل ہو جاتا ہے۔ باہمی ستائش کا۔ باہمی فہمائش کا۔ اس میں جواں عمری کے بھرپور جذبوں کا ہونا ضروری نہیں ۔ بس پہچان کا ایک رستہ کہیں سے آ نکلتا ہے ۔ ایسے ہو جاتا ہے، میرے بچے۔ یہ اتھل پتھل یہ جل تھل ہوتا ہے۔ بابا نے گہری نظروں سے میری جانب دیکھا! دوبارہ گویا ہوئے! ایسی کیفیت میں جسم گنگ ہوتا ہے ذہن کا ذہن سے مکالمہ جاری رہتا ہے۔ یعنی وجود نہیں ملتا لیکن خیال لبالب ہوتا ہے۔ زندگی کے سامنے موسموں میں محبت کی زرخیزی موجود رہتی ہے۔ بس من کی تال پر یہ دھن ، یہ گن آپ ہی آپ بجنے لگتی ہے لیکن یہ راستہ بہت مختصر مدت کا ہوتا ہے اور پھر آپ ہی آپ اس کا نشاں وقت کے قدموں تلے دب جاتا ہے۔ مٹتا نہیں۔ ہرگز نہیں مٹتا۔ بابا نے اپنی انگشت شہادت سے وجاہت کو سمجھانے کی کوشش کی۔ پھر گویا ہوئے! یاد رہتی، آج بھی یاد ہے۔ وہ ادا، وہ ذہانت، وہ دانش۔ وہ شکل ، وہ صورت۔۔۔ بابا نے وجاہت حسین کو اعتراف سے بھرپور نگاہ سے دیکھا۔ بہت ہلکا سا مسکرائے۔ بستر پہ دراز ہوئے۔ جیسے وہ اپنے اس لمبے ذہنی سفر سے تھک گئے ہوں۔ دائیں بازو کو آنکھوں پہ رکھا اور قدرے بلند آواز سے تصویر پہ لکھے شعر کو دہرایا:
در نمازم خمِ ابروئے تو چُوں یاد آمد
حالتے رفت کہ محراب بہ فریاد آمد
حالتے رفت
حالتے رفت
حالتے رفت
بابا کا دائیں پاؤں کا انگوٹھا اور اس کے ساتھ کی انگلی باہم دست و گریباں تھے۔ وجاہت حسین نے اپنے بابا کی تمام تر سچائی کو بڑے احترام سے دل میں سمیٹا۔ اسے قبول کیا۔ قدرے ششدر ہوا اور آہستگی سے کمرے سے نکل گیا ۔
سب مسافر جہاز میں بیٹھ چکے تھے۔ وجاہت حسین نے سیفٹی بیلٹ باندھی کہ جہاز کی اُڑان کے اعلانات ہو رہے تھے ۔اس وقت وجاہت یکسر بند ذہن کے نرغے میں تھا لیکن پھر بھی اس کے دماغ میں بابا اور ان کا آس پاس اس قدر رچ بس گیا تھا کہ تقریباً ہمہ اوست کا معاملہ بن گیا تھا۔
’’میں بہت چھوٹا تھا لیکن مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں بابا کے ذہن میں یہ بیٹھ گیا تھا کہ وجاہت کو بکری کا دودھ پلایا جانا چاہیے۔ سہ پہر کے قریب بکریوں والا ہمارے محلے میں سے بکریوں کے ریوڑ کو ہانکتا ہوا گزرتا۔ بابا کے کانوں تک اس کی ہانک پہنچتی تو وہ لپک کر ملازم کو بلاتے کہ دودھ لے لو‘‘۔ ملازم نہ ہوتا توجلدی میں خود ننگے پاؤں دروازے کی جانب چل دیتے۔ یہ ہر روز کا معمول تھا اور ایک عرصہ تک اس پر عمل ہوتا رہا۔
وجاہت حسین مزید خود سے گویا ہوا۔ اس کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی وہ بابا کی ہی سالگرہ کی بات ہے۔ میں نیا نیا یونیورسٹی گیا تھا اور میں نے اپنی نئی بنی دوستوں کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ بیٹھتے وقت میری ایک دوست کو احساس ہوا کہ اس کی پشت بابا کی طرف ہے تو وہ معذرت کرتے ہوئے اپنی جگہ سے تھوڑا سا کھسکنے لگی۔ بابا کھڑے ہو گئے، میری دوست کے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا ! بیٹھو بیٹا! ’’گل پشت ندارد‘‘۔ میری دوست کچھ حیران ہوئی۔ شاید اسے بابا کی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی لیکن جب اسے سمجھ آئی تو وہ بے حد خوش ہوئی۔۔۔
نیو یارک ایئر پورٹ پر پاسپورٹ اور ویزا کی چیکنگ کے دوران وجاہت نے باہر جھانک کر دیکھا تو شیشے کے اس پار اسے عمران نظر آیا ۔ وجاہت حسین کو کمال تشفی ہوئی۔ اسے خدشہ تھا کہ نہ معلوم اس نے چیک کیا ہو کہ نہیں۔
گھر پہنچے۔ عمران نے وجاہت کا سامان ٹھکانے لگایا۔ وجاہت گھر میں گھوما۔ اسے یہ چھوٹا سا گھر نرم اور گرم جوش لگا۔ اس نے عمران کو آواز دے کر کہا! یار عمران تمہاری بیوی بہت Creativeہے۔ پورا گھر ایک Antiqueسا لگ رہا ہے۔
ہاں یار! وہ تو ہے۔ عمران کی آواز میں خوشی اور فخر تھا۔ عمران کافی کے مگ پکڑے وجاہت کو آواز دیتا ہوا مختصر سی لاؤنج میں آ گیا۔
یار! وہ حسیب کیا کر رہا ہے؟ عمران نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا!
ڈی سی بن گیا ہے۔ سرکاری جیپ پہ دورے کرتا رہتا ہے۔ وجاہت نے مگ میں چمچ چلاتے ہوئے جواب دیا!
اور اعجاز!
اس بے وقوف نے ایک تو شادی کر لی اوپر سے بچہ بھی پیدا کر لیا۔ نوکری کوئی ڈھنگ کی ہے نہیں۔ وجاہت نے جواب دیا ’’یہ تو کوئی اچھی بات نہیں۔ تم کچھ اس کی ہیلپ کرو نا تمھیں پتہ تو ہے کہ وہ تھوڑا سا لائی لگ ہے‘‘۔
ہاں ہم دو ایک دوست اس کے لیے بہتر جاب کی کوشش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
باقی حسیناؤں کیا حال ہے؟
بس شادیوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ یار عمران ، ایک بات بہت اچھی ہوگئی ہے کہ اب بہت سی لڑکیوں کو ٹرالیاں سجا کر اپنا بردکھوا نہیں کرنا پڑتا۔ کلاس فیلو کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، ملتے ملاتے انڈر سٹینڈنگ بن جاتی ہے۔ والدین کو بھی سمجھ آ گئی ہے وہ بھی کوئی رخنہ رکاوٹ نہیں ڈالتے۔ لہٰذا مزے سے شادی ہو جاتی ہے۔
یار! یہ تو بہت آسان کام ہو گیا!
اور ہاں وہ گل پشت ندارد، کیا کر رہی ہیں۔ تم اس میں دلچسپی رکھتے تھے نا!
وہ بس ایسے ہی یار! کچھ نہیں ! ہمارا اوراُن کے ماحول میں بہت فرق تھا۔ ویسے بھی وہ لوگ کچھ اوپرے اوپرے سے لگتے ہیں تو اب میرا خیال ہے کہ آرام کیا جائے۔ تم بھی changeکرو اور فریش ہو جاؤ۔ عمران نے ایک لمبی انگڑائی لیتے ہوئے فیصلہ سنایا۔
وجاہت کو پاکستان سے آئے آج چوتھا روز ہے۔ فون پہ بابا سے مختصر سی بات ہو چکی ہے۔ عمران آج دو دن بعد یونیورسٹی گیا ہے۔ Ithicaمیں تقریباً دن کے گیارہ کا عمل ہے۔ وجاہت کے دل کو یہ جگہ بہت بھائی ہے۔ اس وقت بھی وہ گھر سے باہر لکڑی کے بنے جنگلے پر ہاتھ لگائے چاروں طرف پہاڑی پر بنے اس شہر کا نظارہ کر رہا ہے۔ وہ بہت شگفتہ موڈ میں ہے۔ یکا یک اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ اس خوابناک قصے کی ساری فضا میں کسی حد تک بابا کو بھی شامل کرے۔ وجاہت گنگناتا ہوا گھر کے اندر آ جاتا ہے۔
Ithica!
میرے بابا، میری ماما!
آداب!!
بابا! بڑے افسوس کی بات ہے کہ میرے تمام سفر کے دوران آپ مستقلاً مداخلت کرتے رہے۔ خیر وہ تو واپس آ کر میں آپ سے حساب بے باق کر لوں گا۔ میرا دل اس وقت Ithicaکی مسحور کن فضا کو آپ سے shareکرنے کو چاہ رہاہے۔
بابا!!Ittica نیو یارک سٹی سے ۳۰۰ میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ جہاز سے ۲۵ منٹ اور سڑک سے ساڑھے چار گھنٹے کا سفر نیو یارک سینٹ سے شمال کی جانب ہمیں Ittica لے کر جاتا ہے۔ یہی رستہ شمالی امریکہ کی مشہور فنگر لیک سے ہوتا ہوا بتدریج نیا گرا فالز اور کینیڈا کے بارڈر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ براستہ سڑک نیو یارک سٹی سے چلنے کے بعد تقریباً ۳ گھنٹے تک یہ گمان نہیں ہوتا کہ ہم کس قدر بلندی کی جانب گامزن ہیں۔ ایئر پورٹ سے گھر تک کا تمام راستہ اندھیرے میں گم تھا جس سے یہ صاف ظاہر تھا کہ یہ شہر عمارتوں اور مصنوعی روشنیوں کا شہر تو قطعی نہیں۔ باقی رہ گئے لوگ تو ان سے ملاقات ہوتی رہے گی۔
۱۷؍اگست (میرے پہنچنے کے دوسرے دن) Ittica کا موسم خوشگوار تھا بلکہ تھوڑا خنک ہی تھا۔ دن کے دن سورج میں نکلیں تو کچھ گرمی سی لگے۔ مگر شامیں بہت آرام دہ۔ وقفے وقفے سے بارش ہوتی ہے۔ پہلی بارش پر تو ایسا لگا کہ اب خزاں اور سردیوں کی آمد آمد ہے لیکن عامر نے مزید معلومات یوں بہم پہنچائیں کہ یہ تو موسم کی ادا ہے ورنہ خزاں تو اپنے آنے کا اعلان کچھ اور ہی رنگ میں کرتی ہے۔ ستمبر کے آخر تک ہمارے چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ ہوتا ہے۔ ہرا بھرا گالف کورس، جنگل سبزے کا ڈھیر اور ہمارا سیب کا درخت پھلوں سے لدا پھندا۔ ستمبر کے خاتمے کے ساتھ ہی درختوں کے پتے آہستہ آہستہ رنگ بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ زرد، کچھ زعفرانی، کچھ ساوے اور کچھ بالکل سرخ، بچے کھچے سبزے کے ساتھ مل کر آگ کے تمام رنگ پورے ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کبھی اس طرح ان درختوں کے پاس کھڑے ہوں کہ سورج ان کے پیچھے غروب ہو رہا ہو تو اس کی کرنیں کس طرح ان رنگین پتوں والی پھنگنوں میں آگ لگاتی ہیں۔ اس کا اندازہ آپ بخوبی کر سکیں گے۔
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
مگر بقول عمران یہ سب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
پھر اکتوبر کا سارا مہینہ اپنے رنگ بکھیرنے بلکہ اپنا رنگ جمانے کے بعد ایک سرد صبح آپ کو یہ تمام پتے انھیں درختوں کے قدموں میں گرے نظر آئیں گے جیسے رات کے کسی پہر پیڑوں نے جھرجھری لی اور تمام رنگ زمیں بوس ہو گئے، یہ ایک اور ہی نظارہ ہے کہ حد نگاہ تک ٹنڈ منڈ درخت دہکتے رنگوں کی چادر پر اداس کھڑے ہیں پھر پتے اڑنے شروع ہوتے ہیں۔ کچھ مشینوں کے ذریعے اور کچھ ہواؤں کے زور پر۔ تیرے، میرے دالانوں میں۔۔۔ بابا! آخر ی جملے پر عمران کی آواز بھراگئی تھی۔ میں نے حیران ہو کر اس کی جانب دیکھا تو اس نے بتایا کہ یار! میں جب بھی اپنی امی سے فون پر بات کرتا ہوں۔ وہ مجھ سے بات نہیں کر سکتی رونا شروع کر دیتی ہیں۔ بس میں ڈھے جاتا ہوں۔ پر میں کیاکر سکتا ہوں۔ ہم سب رزق کے قیدی ہیں۔ کیا ترے بابا! ماما بھی تجھے اتنا ہی چاہتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ بابا اب میں عمران کو کیا بتاؤں کہ میرے بابا ماما چاہت میں میرا کیا حشر کرتے ہیں۔
اچھا بابا! یہ تو میں نے تھوڑا سا عمران کی وساطت سے آپ کی پہچان کے لیے، لکھ دیا ہے۔ باقی سب کچھ آ کر بتاؤں گا۔ ماما کو بے حد پیار اور آداب۔
امید ہے پدر سوختہ، عزیز کافی صحیح بنا رہا ہو گا ۔
آپ کا وجاہت

وجاہت کو عمران کے پاس آئے دو ہفتے ہو چکے ہیں۔ دونوں دوستوں نے کالج کے زمانے سے لے کر اب تک کی گزری تمام زندگی کھنگال ڈالی ہے۔ لڑکپن کی بے وقوفیاں۔ ڈرامے، مباحثے، لڑکیوں کے تعاقب ، کچے پکے رومانس اور ان کی ناکامیوں پر پچھتاوے۔یہ سب دہرا کر دونوں کبھی بے وقوفوں کی طرح ہنستے ہیں اور کبھی دل گرفتہ ہوتے ہیں۔
آج کا پروگرام ہے کہ دوپہر میں عمران کالج سے آئے گا اور پھر دونوں جنگلوں اور پہاڑیوں کی آوارہ گردی کو نکلیں گے اور ہرنوں کو سڑک کے آر پار جاتے ہوئے دیکھیں گے۔وجاہت حسین نے پیتل کے بٹنوں والا بلیو بلیزا اور گرے پینٹ پہنی ہے۔ اس نے شیشے میں اپنے سراپا پہ نگاہ ڈالی ہے۔ جوانِ رعنا!! طفل خوش اندام! دور سے یہ آواز اس کے کانوں میں آئی۔
اونچی قامت، پیچھے کی جانب بغیر مانگ کے سنوارے بال، صحت مند سرخی مائل سفید رنگت۔ ہلکی سی خمیدہ ناک اور بچپن میں کھِلے بلور یں بنٹوں جیسی چمکیلی آنکھیں، خود کو شیشے میں دیکھ کر وہ مسرور ہوا۔اس نے گھڑی دیکھی۔ طے شدہ وقت سے کچھ پہلے وہ تیار ہو چکا تھا۔ اسے یکا یک خیال آیا کہ مصروفیت میں وہ بابا کی دی ہوئی کتابوں کو تو چھو ہی نہیں پایا اور ہاں ایک لفافہ بھی تو بابا نے دیا تھا۔ اس نے سوٹ کیس میں سے کتابیں نکالیں ۔ براؤن رنگ کا لفافہ اس کے ہاتھ میں تھا۔
چلو پہلے اسے دیکھ لیتے ہیں۔ وہ صوفے پہ نیم دراز ساہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے لفافہ چاک کیا۔ تہہ شدہ کاغذ کو کھولا۔ لکھا تھا۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ اپنے شعور اور لاشعور میں موجود، سانس لیتی واردات کو ، ہمیں، یعنی میں اور تم کہ تم میرے دوست اور بیٹے ہو کہہ سن لینا چاہیے، کہ زندگی میں کچھ خلاء ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمہ تن عاجزی اور نیک نیتی کے باوجود انسان انھیں پُر نہیں کر سکتا۔ تمہیں شاید یاد ہو کہ تمہاری ساتویں سالگرہ کا دن تمہاری ماما کے ذہن سے محو ہو گیا تھا۔ جبکہ تم سالگرہ کی صبح کو یہ امید رکھتے تھے کہ ماما حسب معمول تمہیں چومیں گی، پیار کریں گی اپنے ساتھ لگائیں گی۔ تمہارے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سنواریں گی اور پوچھیں گی کہ ’’جناب آج کس کی سالگرہ ہے اور جواب میں تم لاڈ سے زور سے بولو گے ، ’’وجاہت حسین کی‘‘ لیکن خدا جانے اس سال ماہتاب بیگم یہ سب کیوں بھول گئیں۔ تم دن بھر کھسیائے کھسیائے سے پھرتے رہے اور آخر دن ڈھلے تم نے خود ہی ماما سے پوچھا کہ ماما! آج کیا ہے؟ آپ کو کچھ معلوم ہے؟ نہیں تو، مجھے تو نہیں معلوم۔ ماما نے عام سے لہجے میں کہا تھا آپ بتاؤ، کیا ہے؟
ماما! ماما! آج وجاہت حسین کی سالگرہ ہے۔ آج میرا ہیپی برتھ ڈے ہے اور تم دکھ سے بلکتے ہوئے اپنی ماما سے لپٹ گئے تھے۔ ماہتاب بیگم پہ جیسے شرمساری کا گھڑوں پانی پڑ گیا اور وہ نتیجتاً تیز بخار میں مبتلا ہو گئیں۔ میں بھی ان دنوں بوکھلایا بوکھلایا پھرا۔ یہ زخم آج بھی میرے اور تمہاری ماما کے دل پر جوں کاتوں ہے۔ بعض باتیں نقش بر آب ثابت ہوتی ہیں لیکن یہ واقعہ ایسا ہے کہ جیسے ایک کوزہ گر اپنے چاک پہ بڑی احتیاط اور نفاست سے اپنے کام کی اپنے خیال کی تکمیل کر رہا ہے کہ سہواً، انجانے میں، کمال بے خبری میں، اس کی انگلیوں یا انگوٹھے کی پوربرتن کو چاک سے اتارنے میں چھو جاتی ہیں اور ہلکا سا دباؤ برتن پہ آ جاتا ہے۔ کوزہ گر اس حادثے سے اور اس کی سنگینی سے بے خبر اطمینان سے برتن کو تنورمیں رکھنے کے لیے چاک سے اتار لیتا ہے لیکن جب برتن پک کر تیار ہوتا ہے تو انجانے میں لگا پور کا دباؤ نمایاں ہو جاتاہے۔ بعینہٖ تمہاری سالگرہ کا واقعہ آج بھی میرے اور تمہاری ماما کے ذہن کے پردوں پر ایک پچھتاوے کی صورت میں مرتسم ہے۔
وجاہت حسین! میرے بیٹے۔ میں خود پہ گزری ایک واردات آپ کو سنانا پسند کروں گا ’’ برسوں پہلے کی بات ہے کہ میرے مالی نے ایک گملے میں پھولوں کی پنیری لگائی۔ گملا یقیناً تنگ تھا اور بیج زیادہ۔ لہٰذا مالی بطریقِ احسن اس پنیری کی بڑھوتی نہ کر پایا۔ میں کہ خود کو با شعورو عا قل سمجھتا تھا۔ اس مردِ عاجز ومسکین ‘‘پر تند خُو ہوا اور سمجھایا کہ تنگ گملے میں زیادہ پنیری نہیں پھلتی پھولتی۔ میرے اس رویے سے وہ مسکین دکھی ہوا۔ منہ سے کچھ نہ بولا۔ فقط ایک نگاہ مجھ پہ ڈالی۔ اس نگاہ میں چیلنج تھا۔ انتباہ تھا۔ بہت کچھ تھا۔ جسے میں نے برسوں محسوس کیا خیر پھر ایک کھلے گملے میں مَیں نے خود پنیری لگائی لیکن پنیری میں بڑھوتی شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک رات میں اس کو جالی سے ڈھانپنا بھول گیا۔ سو صبح دم اس گملے کی تمام پنیری چڑیاں چک گئیں۔ میں اپنی خواہش کے ناتمام رہ جانے پہ رنجیدہ و مایوس ہوا۔ میری اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے میرے ایک دوست نے میری راہنمائی کی اور میرے دل کو یوں شاد کیا کہ ایک پھلتی پھولتی پنیری والا گملا مجھے دے دیا اور میں شاد کام ہوا۔ بامراد ہوا۔
وجاہت حسین کر سی سے اٹھا۔ سامنے والی دیوار پہ لگے آئینے نے اس کے قدم پکڑ لیے۔ وجاہت نے اپنے سراپا پہ نگاہ ڈالی۔ اسے اپنا آپ بے ہنگم اور بے ڈول نظر آیا۔ گرے دھاری دار سوٹ ڈھیلا ڈھالا ہو چکا تھا۔ محرون ٹائی کی ناٹ لٹکی ہوئی تھی۔ اسے اپنا سارا وجود بے گانہ لگا جیسے وہ کسی پارٹی میں جانے کے لیے لنڈے کے اَن فٹ کپڑے پہن کر تیار ہوا ۔ وہ عجیب سی بے بسی اور گھبراہٹ میں باہر کولپکا۔ اس کا دم گھٹا جا رہا تھا۔ باہر کھلی فضا میں کھنگار کر اور لمبی لمبی سانسیں لے کر اس نے خود کو شانت کرنے کی کوشش کی۔ اس نے یوں محسوس کیا کہ ماما ، بابا اور گھر ذہنی طو رپر اس کے لیے معدوم ہو چکے ہیں اور وہ خود فضا میں معلق ہے۔
اسے لگا کہ وہ کور بینی میں مبتلا ہو گیا ہے اور تمام فضا ایک دبیزاندھیرے کی زد میں ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ اس نے کتنا وقت ، کہاں گزارا۔ تھکا ہارا وہ عمران کے گھر میں داخل ہوتا ہے۔ عمران جو اس وقت اس کے شدید انتظار میں ہے وجاہت کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے۔ یار!کیا بات ہے۔ یہ تمہارے چہرے پہ ہوائیاں کیوں اُڑ رہی ہیں؟ تم ٹھیک تو ہو نا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ کوئی ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوا؟ عمران ایک ہی سانس میں سب سوال پوچھ گیا۔
ایکسیڈنٹ۔۔۔ ایک ۔۔۔سی۔۔۔ڈنٹ۔۔۔وجاہت زیر لب بُڑبڑایا۔ وہ تو ہو چکا۔ عمران کو سمجھ نہیں آئی کیونکہ وہ ایک دوسری الجھن سے پریشان تھا۔
یار عمران تم مائینڈ نہ کرو تو میں گھر جانا چاہتا ہوں بس ایک دم ہی کچھ اداس سا ہو گیا ہوں!
ہاں! ہاں! وہ تو ہے۔ وہ تو کوئی بات نہیں۔ یہ ۔۔۔ یہ۔۔۔ تمہارے بہنوئی کی ای میل ہے۔ عمران نے پیچھے کیا ہوا بازو آگے کیا اور ایک کاغذ وجاہت کے ہاتھ میں تھما دیا۔
میں تمہاری پیکنگ کرتا ہوں۔ عمران چوروں کی طرح وجاہت کے سامنے سے کھسک گیا۔
وجاہت حسین!
سب مجھے منع کر رہے ہیں کہ تمہیں اطلاع نہ دی جائے لیکن میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے تمہیں مطلع کر رہا ہوں کہ آج دس روز ہوئے تمہارے بابا کو تیز بخار ہوا اور بخار میں ہی وہ قومے میں چلے گئے۔ ڈاکٹرز کھل کر کچھ نہیں بتا رہے کہ ریکوری کب ہو گی اور ہو گی بھی تو کیا وہ ذہنی طور پہ نارمل ہوں گے۔ مسئلہ وہی ہے کہ وہ جو زندگی بھر ان کی ایک ہجوم سے راہ و رسم تھی۔ وہ ذہنی طور پر اس ہجوم سے بچھڑ چکے ہیں۔ احساس تنہائی دیمک کی طرح ان کے ذہن میں چپک گیا ہے۔
تمہاری ماما بے حد مضطرب ہیں۔ رات کو ہاسپٹل میں ہوتی ہیں لیکن دن بھر اپنی مخصوص جگہ پر تمہارے بابا کی کالی بُو والی گرگابی صوفے کے پاس رکھے بیٹھی رہتی ہیں اور باہر سے آنے والے ہر شخص کو سوالیہ لیکن سہمے ہوئے انداز میں دیکھتی ہیں۔ کچھ Responseنہ پا کر کسی نہ کسی کو فون کرنے لگ جاتی ہیں یا اخبارات الٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں۔ یہ صورت حال بہت المناک ہے تم فوراًآ جاؤ۔ تمہارے آنے سے صورت حال یقیناً بہتر ہو سکتی ہے۔
نیویارک سے وجاہت حسین جب جہاز میں بیٹھا تو گویا وہ ایک لمبی اونگھ سے جاگا۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ جہاز تک پہنچنے کا عمل کیونکر اور کیسے مکمل ہوا لیکن ایکدم سے اسے ایسے محسوس ہوا کہ بابا حسب معمول اس کے ساتھ آن بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاتھ کا لمس وجاہت حسین کے دل کو چھو گیا۔ بابا سمجھانے کے انداز میں سرگوشی سے اس سے ہمکلام ہوئے،وجاہت میرے بچے! سنو۔ غور سے سنو دھیان دو! :’’واردات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے لیکن ہر واردات دل کی گلی میں سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہ تمام وارداتیں ، یہ وقت کی سوغاتیں، یہ ظالمانہ اتھل پتھل اپنی قبولیت کے لیے ، آپ کو بے بس کر دیتی ہیں۔ گزرتا وقت تمہارے قابو سے باہر ہوا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ جان پدر! جو ہے اسے ویسا ہی سمیٹ لو۔ اس کیفیت اور اس اذیت سے خود کو بچا لو، اس دم گھونٹنے والے حصار سے باہر نکل آؤ۔
وہ وقت جس کے بیشتر موسم ہر یاول اور سرمئی بادلوں کے سے تھے، ایک بے کراں ریگستان میں ڈھل گیا تھا اور اس ریگستان میں وجاہت حسین موجود وقت کے درمیان چک پھیریاں لے رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ موجود وقت اور اس کے اپنے زمانے کی تمام شادابیوں پہ ریت کی کرکری تہہ جم گئی ہے۔ ایئر ہوسٹس سیٹ بیلٹ باندھنے اور دوسرے حفاظتی تدابیر کے عمل کو سبق کے انداز میں بتا رہی تھی۔۔۔ اور چھ فٹ دو انچ کے وجاہت حسین کی بنٹوں ایسی سیرت ایک ڈھیر کی صورت میں بیٹھانے کے شیشوں جیسی رنگت والی بند آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں کو گیلا کر رہے تھے اور انھیں بند آنکھوں کے اندر ہی اندر برسوں پہلے گزرا وقت وجاہت حسین سے نظریں دو چار کر رہا تھا کہ بابا مضمحل سے لیٹے ہیں۔ ایک پاؤں مسلسل ہلا رہے ہیں بڑے صاف لہجے میں۔ تحت اللفظ:
در نمازم خمِ ابروئے تو چوں یاد آمد
حالتے رفت کہ محراب بہ فریاد آمد
حالتے رفت
حالتے رفت
حالتے رفت
****