اُردو میں تراجم: نئی ضروریات اور مسائل


قاسم یعقوب

ایک وقت تھاجب زبانیں نسلی امتیاز کی نمائندگی کرتی تھیں، ایک گروہ اپنے مخصوص تحفظات کے تحت اپنے اظہار کے مخصوص سانچے بنا لیتا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک زبان میں موجود تہذیبی نظام دیگر زبانوں سے مختلف ہوتا مگر رفتہ رفتہ اقوام عالم کو ایک دوسرے پر انحصار کی عادت پڑی تو بہت سا تہذیبی سرمایہ ایک قوم کے ورثے سے نکل کر دوسری اقوام تک پہنچنا شروع ہوا۔ یوں اظہار کے طریقے بدلے یا ان میں تنوع آیا، مگر کئی زبانیں اپنے خول میں بند رہنے کی وجہ سے جدید تہذیبی اقدار کا ساتھ نہیں دے پائیں۔
اُردو کے بارے میں بھی کچھ ایسی آراء پائی جاتی ہیں۔ کیا اُردو اپنے اظہار میں مکمل زبان کہلائی جا سکتی ہے؟ دیگر زبانوں کے تراجم اُردو کی وسعت میں سما سکتے ہیں؟ اُردو میں تراجم کی ضرورت ہے یا ہمیں کسی اور زبان کو Lingua Francaکے طور پر اپنا لینے سے علمی و ادبی و تخلیقی اظہار کے مسائل سے نجات مل سکتی ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات کی اس نہایت ترقی یافتہ دور میں ایک دفعہ پھر ضرورت پڑ گئی ہے۔ انہی ضروریات کے پیشِ نظر جہاں سرکاری ادارے اُردو میں ذخیرہ تراجم اکٹھا کر رہے ہیں وہاں کاروباری پبلشرز حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں، اُنھوں نے اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے اپنے اپنے کاروبار کی وسعت کے لیے اہم ذریعہ سمجھا۔ نام نہاد مترجم چند پیسوں کے عوض ڈھیروں کتابوں کے تراجم کرنے لگے۔ دھڑا دھڑ کتابیں شائع ہونے لگیں اور لائبریریوں کی زینت بننے لگیں۔مترجم ہونا باقاعدہ ایک پیشہ بن گیا چونکہ اہلِ اُردو کا ایک بڑا طبقہ انگریزی سے واقف نہیں لہٰذا موضوعات کی دستیابی نے ایسی کتب کی مانگ میں اضافہ کیا۔ ترجموں کے معیارات کو پرکھنے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے تخلیق کاروں اور مصنفین کے نہایت اعلیٰ علمی و ادبی سرمایہ کو مسخ شدہ حالت میں اُردو میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ان تراجم سے ایک اور سنجیدہ بحران کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے کہ وضع اصطلاحات کے سلسلے میں (جو کام علی گڑھ تحریک کے زیر اہتمام شروع ہوا تھا جس میں جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ اور انجمن ترقی اُردو ہند نے نمایاں خدمات انجام دیں) سرکاری سطح پر ہونے والے کام سے میل نہیں کھاتا۔ جس سے ایک ہی لفظ کے کئی کئی تراجم میں کسی جگہ حوالے دئیے بغیر ترجمہ تلخیص میں بدل دیا جاتا ہے جس سے اوریجنل ٹیکسٹ سے دوری پیدا ہو جاتی ہے۔
ہمارے ہاں انگریزی دان طبقہ اُردو زبان کی کم مائیگی کا راگ الاپ رہا ہے اور پھر ایسے غیر معیاری تراجم ان کے لیے لوہار کی آخری ضربوں کا کام دے رہے ہیں ۔ زبانیں بنیادی طور پر کسی کلچر کے نمائندہ افراد کے ثقافتی اظہار کا سانچہ ہوتی ہیں۔ انگریز کلچر کیونکہ دنیا بھر میں مسلط رہا ہے جس وجہ سے انگریزی میں دیگر اقوام کے جذباتی و تخلیقی اظہار کے اثرات بھی موجود ہیں۔ لفظ ایک دال ہے جو کلچر میں موجود سرگرمی کے نتیجے میں تصور کو اجتماعی عمل سے سونپا جاتا ہے یہ تصور یعنی مدلول اپنے کلچر میں عمل آراء افراد کے باہم فطری رابطوں کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے چنانچہ جتنےIcon,Indexیا Signایک زبان میں عمل کر رہے ہوتے ہیں وہ مدلول کے نمائندہ دال کے باہمی اشتراک سے معنی خیزی پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ نئے مدلول نئے دال کی تخلیق کا باعث ہوتے ہیں۔ نئے دال زبان میں اپنی اہمیت کے پیش نظر اسی طرح جگہ بنا لیتے ہیں جس طرح سمندر میں کوئی نیا دھاراآ کے مل جائے اور کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ سمندر میں کتنا پانی زیادہ ہو چکا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ کہ زبان نئے تصورات کو قبول کرے۔ جب نئے تصورات زبان میں آئیں گے تو یہ فطری عمل ہے کہ پہلے سے موجود ذخیرہ ان کے اظہار کے لیے ناکافی ہو گا۔ لہٰذا نئے دال تلاش کیے جائیں گے یوں نئےIcon یا Sign زبان میں فطری عمل سے شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اُردو زبان اس حوالے سے نئی نہیں۔ عربی اور فارسی سے آنے والے الفاظ کو نہایت معصومانہ انداز سے ہم اُردو کا حصہ بنا لیتے ہیں مگر انگریزی سے آنے والے الفاظ ایک مدت تک زبان میں شامل نہیں کرتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اُردو اور انگریزی کی تفریق نے برصغیر میں دوہرا معیار قائم رکھا ہے۔ انگریزوں نے اپنے دورِ اقتدار میں اُردو کی ترقی کے لیے بہت کچھ کیا۔ انگریزی کی بالادستی پہ کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ ہوئے یوں طبقۂ اشرافیہ انگریزی کی طرف نسلی امتیازی تفریق کی بنا پر راغب ہوا۔ متوسط مقامی لوگوں نے انگریزی الفاظ کو اُردو میں تفریقی بنیادوں پر قائم رکھا۔ مثلاً سکول، کالج، ٹیوب لائٹ، بلب، روڈ،اسٹیشن اُردو میں بلا تفریق انگریزی اُردو بولے جاتے ہیں مگر یہ الفاظ انگریزی کے ہی سمجھے جاتے ہیں ، حالانکہ ان کا مکمل خمیر اُردو میں موجود ہے۔ سکول کا متبادل کیا ہو گا؟ کالج اور اسٹیشن کا متبادل کیا ہوگا اور کیوں ہو؟ من و عن لفظوں کو اپنا لینے میں کوئی حرج ہے؟ کیا نئے تصورات نئے الفاظ ساتھ نہیں لاتے ۔ یہاں ڈاکٹر صدیق شبلی کا کوٹ شدہ اقتباس بے محل نہ ہو گا جو ایک اقرار نامے سے لیا گیا ہے:
’’سیکٹرG-8میں واقع پلاٹ نمبر ۲ بہ رقبہ ۳۰x۷۰ میرا خرید کردہ خود بلا شرکت غیرے ہے اور کوئی امر مانع انتقال نہیں ہے چنانچہ اب مظہر نے سالم پلاٹ مذکورہ بالا بعوض ایک لاکھ بارہ ہزار روپے نصف جن کے مبلغ۵۶ ہزار ضرب دولت پاکستان ہوتے ہیں، بدست و بحق فلاں ولد فلاں ساکن ۔۔۔۔۔۔ اسلام آباد بیع قطع و دائمی کر دیا۔ مظہر نے سالم زرِ ثمن ازاں مشتری مذکورہ وصول پایا ۔ اقرار نامہ ہذا بقائمی ہوش و حواس خمسہ و برحنا درغبت خورسنداً لکھ دیا ہے۔‘‘ ۱؂
مذکورہ عبارت پڑھ کر اتنا سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ عبارت ہنسنے پر مجبور کر رہی ہے۔ایک چیز کی سمجھ نہیں آتی کہ وضع اصطلاحات کے ضمن میں یہ کس نے سرٹیفکیٹ دے دیا کہ آپ انگریزی کے ہر لفظ کا ترجمہ کریں اور وہ بھی عربی یا فارسی کے مستعار لفظوں سے ۔۔۔ کیا عربی یا فارسی غیر زبانیں نہیں؟ ان کے الفاظ اُردو من و عن قبول نہیں کر رہی ؟ کیا ان کے الفاظ اُردو میں نہیں کھٹکتے؟
زبانیں تیزی سے ثقیل انداز ترک کرتی جا رہی ہیں۔ کلیاتی (Totality) اظہار سے جزویاتی (Partial) اظہار کی ضروریات زبانوں کو آسان پیرائے میں غیر استعاراتی (Non - Figurative)انداز اپنانے پر مجبور کر رہی ہے۔ ادب جو ہمیشہ استعاراتی (Figurative) ہوتا ہے (اور کبھی[Under one Meaning]یک معنیاتی ہو بھی نہیں سکتا)بھی ان اثرات کا شکار ہو رہا ہے۔ راشد کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے کہا تھا کہ راشد کی شاعری اپنی بھاری بھرکم فارسی تراکیب، محاورات اور تہذیبی اثرات کی بنا پر آج کے جدید اسالیب و موضوعات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ ۲؂ لہٰذا نئی اصطلاحات نئے فکری تناظر کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
شعری عمل چونکہ مسلسل تہذیبی سطح پر جاری رہنے والا عمل ہے اسی وجہ سے کسی بھی زبان کے شعری اظہار میں تنوع نظر آتا ہے۔ پاکستان کے علاقائی ادب کی مثال بالکل سامنے ہے ۔صوفیاء نے جذباتی سطحوں کو فکری گداز کے ساتھ ملا کر حیران کن تجربات پیش کیے ہیں مگر یہ زبانیں اپنے ہی خول میں رہنے کی وجہ سے علمی و سائنسی اظہار کے خارجی پیرا ڈائمز (Paradigms) سے ناآشنا رہیں۔ اُردو برصغیر میں مختلف نسلیاتی جمیعتوں کی نمائندہ ہونے کی وجہ سے اپنے اندر مختلف وسیع تجربات کے اظہار کا مادہ رکھتی ہے مگر سائنسی و علمی ضروریات سے پیدا شدہ تشنگی کا احساس بھی دامن میں لیے ہوئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مقامی اہلِ فکر نے ان میدانوں میں حال ہی میں اپنے آپ کو پیش کیا۔ سائنس اپنے فکری خدوخال میں جمہوری نہیں ہر سال نئے مباحث نئے علمی دروا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اُردو کو از سر نو مرتب کر کے اس میں تخلیقی سائنسی اظہار ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بن گیا ہے بات وہی ہے کہ ہم نے بہت دیر کر دی۔ لہٰذا آج کا طالب علم اس اذیت ناک تکلیف سے دوچار ہوتے ہوتے بالآخر انگریزی کے حصول میں جلاب سے نجات کے بعد ملنے والی تسکین کا مزہ لیتا ہے۔
اس سلسلے میں علمی و فکری حلقوں کو سب سے پہلے تو مندرجہ ذیل باتوں کو مان لینا چاہیے کہ
*۔۔۔ محض اصطلاحات کے دفتر پہ دفتر قائم کر دینے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ( اور وقت نے ثابت بھی کیا)
*۔۔۔ اُردو زبان میں سائنسی و علمی اظہار کی وسعت موجود ہے مگر اس بحرِ بیکراں کو کوزے میں بند کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ اس اہم نکتے کو پرانے طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے ہاں انگریزی دان طبقہ حصولِ انگریزی کی با آسانی دستیابی کے بعد یہ سوال اُٹھا رہا ہے کہ اُردو کے لیے اتنی بھاگ دوڑ کیوں کی جائے؟ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں مائیک آگے کر دینے سے آپ براہ راست گفتگو میں شریک ہو جاتے ہیں۔ یہ تو خوش آئند بات ہے کہ دنیا قریب آنے کے لیے مجموعی کلچر میں ڈھل رہی ہے۔ میرے خیال میں اس سے بھی زیادہ جان دار سوال یہ ہے کہ اُردو کیوں نہیں؟کیا ایک لینگوافرینکا کے اظہاراتی کلچر میں شامل ہونے کے لیے اپنا تہذیبی سرمایہ وقف کرنا ضروری ہے؟ کیا انگریزی میں سائنس پڑھنے سے دیگر زبانیں ختم ہو جانی چاہیءں؟ کیا ایک غیر مقامی زبان سیکھنے کے لیے دیسی اظہارکے طریقے ترک کرنے ضروری ہیں؟ چنانچہ یہ ایک لسانیاتی مسئلہ (Linguistic Problem) سے زیادہ سیاسی مسئلہ ہے۔ انگریزی آتے ہی اُردو میں بات کرتے گھبرانا یا مقامی زبانوں کے ختم ہونے کے عالمانہ بیانات کا اخراج ہمارے ہاں عام رواج بن گیا ہے، حالانکہ ایک بڑی زبان کے اثرات سے مقامی زبانیں زیادہ اثرات قبول کرتی ہیں اس سلسلے میں ایک بڑی ہی دلچسپ بات ہے کہ ایک صاحب مار کسی فکر پر مدلل انداز میں گفتگو فرما رہے تھے۔ انھیں اُردو دان طبقے سے شکایت تھی کہ وہ مارکس کی تحریروں کو اُردو میں پڑھ کر مارکسی بنے بیٹھے ہیں انھیں اوریجنل ٹیکسٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو انگریزی میں موجود ہے۔وہ اس قدر معصومانہ انداز میں مخاطب تھے کہ انھیں یہ خبر ہی نہیں رہی کہ مارکس نے تمام بنیادی کام جرمن میں کیا تھااور بیشتر کام مارکس کی وفات کے کئی سالوں بعد انگریزی میں چھپا اور وہ جن کتابوں کے حوالے دے رہے تھے، وہ مارکس کی کتابوں کے تراجم نہیں بلکہ انگریزی میں مختلف مارکیسوں کی مارکس کے فلسفیانہ مفاہیم کی ذاتی تشریح تھی۔ یہی حال ساختیاتی فکر کا اُردو میں ہے ہر صاحب انگریزی کے ٹیکسٹ کو اوریجنل سمجھ کر صحیفے بنا کر پڑھتا ہے اور بعد میں پتہ چلتا ہے یہ نہایت ابتدائی معلومات تو وقت کا ضیاع تھیں ۔ اُردو میں ڈاکٹر آغا فہیم اعظمی، محمد علی صدیقی، ناصر عباس نئیر، عاشق ہرگانوی، قمر جمیل، ضمیر بدایونی اور ڈاکٹر نارنگ نے دقیق اور بہت کامیاب مباحث کی داغ بیل ڈالی ہے جو مجموعی فکری نظام کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ساختیات ، پسِ ساختیات اور نئی تھیوری پر جتنا بھی پرائمری اور سیکنڈری مواد ملتا ہے وہ انگریزی میں ترجمہ شدہ یا مرتب شدہ حالت میں ہے۔ پائلو کولو کے ناولوں کو بھی ایک طبقہ انگریزی ناول سمجھ کر پڑھ رہا ہے مگر اس برازیلین ناول نگار کی اصل بُنت برازیلین زبان میں ہے۔ یہی حال سائنسی کتب کا ہے دنیا کی تمام بڑی زبانوں کا سائنسی لٹریچر منظر عام پر آتے ہی انگریزی میں ٹرانسلیٹ ہو جاتا ہے اور ہمارے ہاں انگریزی کتب کے طور پر ہی پڑھا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں پہلی کاوش انگریزی کی احمقانہ بالادستی کو ناقبولنے کی ہے۔ عربی اور فارسی حتیٰ کہ فرانسیسی اور جرمن زبان میں مہارت حاصل کرنے کے بعد بھی ایسی صورت حال نہیں ہوتی جتنے مضر رساں نتائج انگریزی سیکھنے کے بعد آتے ہیں۔
اُردو کو علمی و سائنسی زبان بنانے کا سب سے زور آور ذریعہ دنیا بھر کی زبانوں سے تراجم کی شکل میں اُردو میں منتقلی ہے مگر یہ تبھی سود مند ہو سکتا ہے جب ترجموں کے مجموعی کلچر کو نافذ کیا جائے۔اصطلاحات بنانے تک تمام کوششیں بے کار ہیں۔ اصطلاحات کے قائم کر لینے سے زبان میں وسعت نہیں آ سکتی، بلکہ ان اصطلاحات کے مخصوص نفسیاتی و تہذیبی کلچر کو اپنانے سے نئی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں دی جا سکتی ہیں۔اسلام آباد میں سیکٹرز کی وسطی مارکیٹ کو ’’مرکز‘‘ کہا جاتا ہے یہ لفظ اپنے استعمال میں انگریزی کے کسی لفظ سے میل نہیں کھاتا اس کے مدِ مقابل انگریزی لفظ (Cente) انتہائی بھونڈا دکھائی دیتا ہے۔ حال ہی میں رائج ایک اور لفظ ’’ناظم‘‘ بھی اپنی نئی جہات کے ساتھ تخلیقی اظہار کا حصہ بنا ہے جبکہ اس کے مقابل انگریزی کا کوئی لفظ اس کے تہذیبی پسِ منظر کو سمیٹے ہوئے نہیں ہے۔
اسی طرح Lunch اور Dinner کے مقابل ہمارے ہاں ظہرانہ اور عشائیہ بولے جاتے ہیں جو انگریزی لفظوں کی پامالی کے سامنے شاندار رعب کے ساتھ قائم لگتے ہیں۔ فرق صرف ان کے ایک معیار پر استعمال کا ہے۔ مقتدرہ، جامعہ کراچی اور جامعہ پنجاب کے دارالترجمہ کا وسیع کام محض کتابوں میں بند پڑا ہے۔ ترجمہ شدہ کتابوں کو پڑھانے کے لیے ایک مخصوص فضا کا تیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ سائنسی و علمی ذخیر�ۂ علم اتنا زیادہ مقدار میں ہو چکا ہے کہ ہماری زبان ایک دم اس نہایت مختلف کلچر کو اپنانے کی متحمل نہیں ہے۔ یہ تدریجی کام ہے جو تکنیکی ہونے سے نہیں بلکہ اس سارے منظر نامے کو پہلے سمجھنے کا عمل ہے۔ ترجموں کی اہمیت کا ادراک پہلا عمل ہے پھر بتدریج ان کے ذریعے زبان کے فکری خدو خال کو اپنے بولنے والوں تک ان کے نفسیاتی اظہار کا حصہ بنانے کی باری آتی ہے۔ ہم جس کی طرف نظریں چرائے بیٹھے ہیں۔ ہمارا تہذیبی ورثہ اپنی زبان سمیت غرقِ دریا ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی سنجیدگی کی ضرورت تھی ،اتنی ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا۔نہایت بھونڈے انداز میں ترجموں کی روایت عام ہو گئی ہے۔ علمی و تحقیقی اداروں کے رائج کردہ اصطلاحاتی نظام سے آشنا ہوئے بغیر ترجمے کیے گئے جس سے اس اہم ضرورت کو نقصان پہنچا۔***