ڈاکٹر محمد آصف

اقبال کا بین الاقوامی تہذیبی رویہ

اقبال کے تمام تر شعری و نثری سرمائے کو مدِ نظر رکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے اپنی سیاسی و فکری بصیرت کی بنا پر آنے والی استعماری آہٹوں کو محسوس کر لیا تھا۔ چنانچہ پیام مشرق کے دیباچے میں جہاں انہوں نے مغربی تہذیب میں امریکہ کے ابھرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱) وہاں ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘(۲) اور’ ’پیغام افغانی با ملت روسیہ‘‘ (۳)میں سرمایہ داری اور اشتراکیت کی کشمکش کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔ اقبال نے اشتراکیت کو ایک مکمل نظام معیشت کے طور پر تو قبول نہیں کیا تھا البتہ ان کے نزدیک اس کے بعض بنیادی افکار اسلام سے ہم آہنگ ہیں۔ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی کشمکش کا آغاز اقبال کے دور ہی میں ہو گیا تھا اور اقبال نے محسوس کر لیا تھا کہ چونکہ اشتراکیت بھی سرمایہ داری کے مقابلے میں عروج حاصل کرتی جا رہی ہے اس لیے اس کی مخاصمت سرمایہ دارانہ نظام سے لازمی ہے۔ ادھر اسلام کی انقلابی فکر ملائیت، خانقاہیت اور ملوکیت کی وجہ سے مسموم ہو کر رہ گئی ہے۔ اسلام کے پاس اب ایسی کوئی قوت نہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کی قوت سے مقابلہ کر سکے۔ لیکن ابھرتی ہوئی روسی طاقت کے لیے ممکن تھا کہ کلیسائیوں کے لات و منات کو پاش پاش کر ڈالے چنانچہ اقبال نے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اس فکری ارتقا یعنی اشتراکیت کا مطالعہ کریں اور اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور مغربی سامراج کی غلامی سے آزادی کے لیے اس کے صحت مند پہلوؤں سے استفادہ کریں۔ اس کے تین پہلو اقبال کے لیے بڑی کشش رکھتے تھے یعنی۔
لا سلاطین، لا کلیسا، لا الہٰ(۴)
اقبال چاہتے تھے کہ ایک طرف تو مسلمان ’’ترکِ فرنگ‘ ‘کر کے اشتراکیت سے استفادہ کریں۔ دوسری طرف وہ چاہتے تھے کہ اشتراکی روس بھی اپنی ’’ایام‘ ‘کو ’’ایامِ شرق‘‘ سے وابستہ کرے۔ اور ’لا‘ کے بعد ’الّا‘ کا پہلو اپنے اندر پیدا کرے۔ (۵)لیکن انہوں نے ملانیت، ملوکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی سازشوں کے تحت یہ خطرہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ کہیں اس کے برعکس نہ ہو جائے۔ یعنی اشتراکیت فرنگ کی جھولی میں نہ جاگرے اور مسلمان اپنی تنگ نظری کی بنا پر سرمایہ داری کے غلام نہ بنا جائیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہی ہوا جس کا اقبال کو خطرہ تھا۔ اور جس کا اظہار انہوں نے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ اور’ ’پیغامِ افغانی باملتِ روسیہ‘‘(جاویدنامہ) میں کیا ہے۔(۶) یعنی مغربی استعمار نے اسلام اور اشتراکیت دونوں کے گرد جال بننے کا بندوبست کر لیا۔ اس سلسلے میں مغرب نے ملوکیت (جس کو اقبال نے ’’مریدانِ فرنگ‘‘ اور ’’لردان فرنگی‘‘ (۷) کے نام سے یاد کیا ہے) ملائیت، خانقاہیت، نو آبادیاتی دور کے اداروں اور بورژوا طبقے کی سرپرستی، بنیاد پرستی اور شدت پسندی کے حربے استعمال کیے۔ اشتراکیت کو ایک نظامِ معیشت کے بجائے ایک لا دینی نظام کے طور پر پیش کیا گیا اس کے لیے ’جہاد‘ کے حربے کو استعمال کیا گیا۔ مذہبی جذبات کو ابھارا گیا چنانچہ کور ذوق ملائی ذہنیت کے حامل مسلمانوں نے اشتراکیت کے خلاف اس قدر شور مچایا کہ عام مسلمان بھی اشتراکیت کو ایک اقتصادی ڈھانچے کے طور پر جانچنے سے محروم رہے وہ اقبال کی طرح غیر متعصب ہو کر سوچ ہی نہ سکے اور مغربی تہذیب کی پراکسی وار میں استعمال ہوتے رہے۔ اس طرح مغرب اسلام ہی کے ذریعے اپنی بنیادوں کو مستحکم کرتا رہا۔ پچھلے ۵۰۔۶۰ سال کی سیاست جو معیشت کے گرد گردش کرتی رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اور اسلام کو اشتراکیت کے خلاف محاذ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسلام میں ملوکانہ اور ملائی عناصر نے مسلمانوں میں تنگ نظری کے جذبات پیدا کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اقبال کی خواہش کے باوجود مغربی استعمار سے نجات کے لیے اسلام اور اشتراکیت نہ ایک دوسرے کو پہچان سکے، نہ مصلحت اور وقت کی ضرورت کے تحت ایک دوسرے کے قریب آسکے ،نہ عالم اسلام ’ترک فرنگ‘ کر سکا، اور نہ ہی روس اپنے ’مقدر‘ کو ’ایام مشرق‘ سے وابستہ کر سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اشتراکیت کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اب مغرب براہِ راست اسلام کے مقابلے میں ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ اقبال کے ہاں ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ ابلیس کو اشتراکیت سے نہیں اسلام سے خطرہ ہے (یہ اشارہ آئندہ سطور میں آتا ہے) چنانچہ آج اشتراکی روس، اشتراکیت کا لیڈر امریکہ کا اتحادی بن چکا ہے۔ نیٹو جو امریکہ و یورپ نے روس کے خلاف بنائی تھی اب اس میں خود روس بھی شامل ہے اور مغرب اسلام سے براہ راست متصادم ہے۔ چنانچہ اقبال کا یہ مصرع عہد حاضر کی ایک بہت بڑی صداقت کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی تناظر میں اسے دیکھنا بھی چاہیے:
مزدکیت فتنہ فردا نہیں،اسلام ہے
(ابلیس کی مجلسِ شوریٰ)
اور یہ شعر بھی:
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
(ابلیس کی مجلسِ شوریٰ)
تاہم اقبال ان مفکرین یا ان ’مسلمین‘ میں سے نہیں ہیں جنہیں مغرب میں ’ابلیس ‘کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اقبال نہ مغرب کو کلیۃ رد کرتے ہیں اور نہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کے قائل ہیںَ ان دونوں رویوں کو وہ مسلمانوں کے لیے ضرر رساں خیال کرتے ہیں۔ وہ جہاں مغرب کے سامراجی کردار کے دشمن ہیں وہاں مغربی علوم و فنون کو مسلمانوں کا گمشدہ مال سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ضروری ہے کہ مغرب کے استعماری کردار اور نو آبادیاتی تصورات کو رد کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے صحت مند اثرات قبول کیے جائیں اور اپنی اقدار کے ساتھ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں (یعنی علوم و فنون سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی، جمہوری رویے، آزادی، آئینی ادارے) سے مطابقت تلاش کی جائے۔ دوسرے لفظوں میں اپنی تہذیب کی بنیادی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے مغرب کے زندہ عناصر کو جذب کر لیا جائے۔ (یہی رویہ اقبال کا اشتراکیت کے ساتھ بھی تھا اور یقیناًتہذیبوں کے متعلق یہ رویہ مکالمے کا رویہ ہے)۔
یہ نظریہ عاریت (Borrowing theory) ہے۔ جس میں تہذیبیں دوسری تہذیبوں سے چیزیں مستعار لیتی ہیں اور ان کو بدل کر، ڈھال کر اپنی تہذیبی اساس کو مستحکم کرتی ہیں اور دوسری تہذیبی اقدار کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہیں۔(۸) اگر خطباتِ اقبال(تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ) کے خطبہ اول، خطبہ پنجم اور ششم ہی کو ملاحظہ کرلیا جائے تو صاف محسوس ہوجاتا ہے کہ اقبال اسی ’ثقافتی مستعاریت‘ کے قائل ہیں (۹)اقبال مغرب سے بیزار نہیں اندھی مغربیت کے خلاف ہیں۔ اقبال مغرب کی فکری یلغار میں مغرب کو بجنسہٖ ماڈل بنانے کے خلاف ہیں (ان کے نزدیک یہ مغربیت ہے) لیکن مغربی علم و حکمت کی ترقی، انفرادیت پر زور، آزادی کے تصور اور انسان دوستی جیسے عناصر کے قائل ہیں۔ اس حوالے سے وہ مغربیت کے نہیں جدیدیت کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک مغربیت یہ ہے کہ مغربی تہذیب کو جوں کا توں قبول کر لیا جائے یعنی مغرب کی اندھی تقلید۔ اور جدیدیت یہ ہے کہ اپنی بنیادی اقدار بھی قائم رہیں اور مغرب کے زندہ عناصر بھی جذب کر لیے جائیں۔ یہ جدیدیت یا نظریہ عاریت یا ثقافتی مستعاریت ہے۔ اسی کے اقبال قائل ہیں۔ اس طرح اقبال تہذیبی تکثیریت کے قائل ہیں۔ لیکن یہ تہذیبی تکثیریت ہنٹنگٹن کی طرح تصادم پر مبنی نہیں(۱۰) بلکہ اس تصور میں تمام تہذیبیں ایک دوسرے کی شخصیت کو قبول کرتی ہیں یوں تصادم کے بجائے مکالمے اور مفاہمت کی ایک مسلسل فضا قائم رہتی ہے۔ یہ تصور ان کے تصور خودی کے عین مطابق ہے جس میں نہ صرف اپنی خودی کو مستحکم کیا جاتا ہے بلکہ دوسروں کی خودی کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔ یہی احترام آدمیت ہے۔
آدمیت احترام آدمی
با خبر شو از مقامِ آدمی
(جاوید نامہ/کلیاتِ اقبال فارسی، ۲۰۵/۷۹۳)
اقبال کے یہ نظریات اسلام کے عین مطابق ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ’’اسلام کا مقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے عالم بشریت کو متحد کرنا ہے‘‘(۱۱)چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے اپنے ’خطبات (۱۲)میں مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کی توسیع قرار دے کر دونوں کے درمیان ایک پل یا رابطہ یا مکالمہ استوار کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں دونوں کے اشتراکات کو بھی ابھارا ہے تاکہ وہ مکالمے اور بحث و مباحثے کے ذریعے اپنے بنیادی اختلافات کو حل کر سکیں۔
--------------------------
اس وقت موجودہ عالمی منظر نامے پر ایک سر سری نظر ہی ڈال لی جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ساری دنیا کس قدر سیاسی و سماجی اور فکری انتشار کا شکار ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس وقت اسلام وقت کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے۔ آج اسلام اور عالمِ اسلام کو اپنی کلیدی اقدار کی شناخت کے لیے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے بالخصوص سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے اسلام مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے بالمقابل ایک نئے نظریاتی چیلنج کی حیثیت سے موجود ہے (خود مغرب کی نظر میں) ۔ مغرب امریکہ کی سر پرستی میں ’تہذیبوں کے تصادم‘ ، ’آفاقی تہذیب‘ ، ’تاریخ کا خاتمہ‘ ، ’نیا عالمی نظام‘ کے سامراجی اور نو آبادیاتی تصورات کو فروغ دے رہا ہے۔ ایک طرف مغرب کے لبرل ازم، جمہوریت، روشن خیالی، تہذیبی تکبر اور ’خبط عظمت‘ پر مبنی تصورات ہیں، مغرب کی سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کا عروج ہے تو دوسری طرف دنیائے اسلام کی بحرانی صورتحال، سیاسی و معاشی غلامی اور پسماندگی ہے۔ مغرب خرد افروزی و جمہوریت ،روشن خیالی ،آزادی اور اسلام قدامت پرستی و آمریت کی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کی طرف سے اسلام کو انسانی وجمہوری اقدار کے لیے خطرہ تصور کیا جانے لگا ہے۔ اِن تمام حالات میں ضروری ہے کہ اسلام کی صحیح جمہوری و انقلابی روح کو اجاگر کیا جائے۔ ان تمام حالات میں ہم یقیناً فکر اقبال سے مدد لے سکتے ہیں۔ جن سے اسلام کی صحیح حرکی روح بھی اجاگر ہوتی ہے، حقیقی جمہوریت بھی متشکل ہوتی ہے اور مساوات پر مبنی ایک معاشی نظام بھی تلاش کیا جا سکتا ہے بلکہ اسلام اور مغرب کے درمیان مکالمے کی راہ کو بھی ہموار کیا جا سکتا ہے۔ آج بلاشبہ انسانیت تباہی کے دھانے پر کھڑی سسک رہی ہے۔ اور دنیا کے امن پسند مفکرین اور عوام الناس ایک ایسی دنیا کی تلاش میں ہیں جہاں امن و امان ہو۔ اقبال نے اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے حوالے سے ایک ایسا تجز یہ پیش کیا ہے جس میں غیر معمولی توازن اور گہرائی ہے۔ چنانچہ آج کی پیچیدہ صورتحال میں اقبال کے افکار بے حد اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے اقبال کے افکار کی روشنی میں اس تمام پیچیدہ صورتحال کو سمجھا جائے۔ آج ہمیں تہذیبی تکثیریت کے اُسی لچکدار تصور اور رویے کی ضرورت ہے جو اقبال کے افکار سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
تہذیبی تکثیریت کا یہی وہ تصور ہے جس میں تہذیبیں اپنا وجود بھی برقرار رکھتی ہیں اور دوسری تہذیبوں کے وجود کو بھی پنپنے کا موقع دیتی ہیں اور اس تکثیریت میں بھی ایک اتحاد کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح اقبال کے ہاں خفیف ترین سطح پر بھی تصادم کا اشارہ نہیں ملتا۔ ان کے مطالعے کا ہر زاویہ ایک دوسرے سے استفادے اور مکالمے کی طرف رُخ کرتا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے تہذیبوں کا تجزیہ سیاسی یا ہنگامی بنیادوں پر نہیں کیا بلکہ اصولی سطح پر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ایک دوسرے سے استفادے اور افہام و تفہیم کا یہی لچکدار رویہ اتحادِ اقوام کی فضا پیدا کر سکتا ہے اور مشترکہ منصفانہ عالمی نظام کی تخلیق کر سکتا ہے۔(۱۳) شاید اسی لیے اقبال نے اسرارِ خودی میں مردِ کامل کو پکارا تھا:۔
اے سوارِ اشہبِ دوراں بیا
رونق ہنگامۂ ایجاد شو
شورشِ اقوام را خاموش کن
خیز و قانونِ اخوت ساز دہ
باز در عالم بیار ایامِ صلح
حواشی و حوالہ جات
۱۔اقبال لکھتے ہیں:
’’یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کردیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کررہی ہے۔۔۔۔۔۔ یورپ نے اپنے علمی اخلاقی اور اقتصادی نصب العین کے خوفناک نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن افسوس ہے کہ اس کے نکتہ رس مگر قیامت پرست مدبرین اس حیرت انگیز انقلاب کا صحیح اندازہ نہیں کرسکے جو انسانی ضمیر میں اس وقت ہورہا ہے۔ خالص ادبی اعتبار سے دیکھیں تو جنگِ عظیم کی کوفت کے بعد یورپ کے قوائے حیات کا اضمحلال ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کی نشو و نما کے لیے نامساعد ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ اقوام کی طبائع پر وہ فرسودہ، سست رگ اور زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والی عجمیت غالب نہ آجائے جو جذباتِ قلب کو افکارِ دماغ سے ممیز نہیں کرسکتی۔ البتہ امریکہ مغربی تہذیب کے عناصر میں ایک صحیح عنصر معلوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ ملک قدیم روایات کی زنجیروں سے آزاد ہے اور اس کا اجتماعی وجدان نئے اثرات و افکارکو آسانی سے قبول کرسکتا ہے‘‘۔ (اقبال، دیباچۂ پیامِ مشرق/کلیاتِ اقبال فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۷۵ء، ص۱۲/۱۸۲)
۲۔ اقبال، ’’ارمغانِ حجاز/کلیاتِ اقبال اردو‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۹تا ۲۰/۷۰۱/۷۱۲
۳۔ ؍؍ ؍؍ ’’جاوید نامہ/کلیاتِ اقبال فارسی‘‘، ص۷۸ تا۸۲/۶۶۶تا ۶۷۰
۴۔ ؍؍ ؍؍ پس چہ باید کردااے اقوامِ شرق/کلیات اقبال فارسی، ص۱۹/۸۱۵
۵۔ ؍؍ ؍؍ جاوید نامہ، (پیغامِ افغانی با ملتِ روسیہ)/کلیاتِ اقبال فارسی، ص۷۹، ۸۰
۶۔ ؍؍ ؍؍ ارمغانِ حجاز/ کلیاتِ اقبال اردو، ص ۹ تا ۲۰/ ۷۰۱ تا ۷۱۲؛
؍؍ ؍؍ جاوید نامہ/کلیاتِ اقبال فارسی، ۷۸تا۸۲/۶۶۶ تا ۶۷۰
۷۔ ؍؍ ؍؍ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق/کلیاتِ اقبال فارسی، ص۲۴/۸۲۰
۸۔ تفصیل کے لیے دیکھئے:۔
i- Spenglar, "Decline of the West", (Vol-II), AA Knopf, New York, 1928, P-50;
ii- Bozeman, "Civilization under stress", Verginia Quarterly Review 51, (Winter 1975), P-5;
iii- Hunttington, Samiuel, P., "The Clash of Civilizations and the remaking of world order", Touch Stone, New York, 1997, P-76
۹۔اقبال، ’’تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘، (خطبہ اول/ششم)، ترجمہ، نذیرنیازی، سید، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۹۴ء، ص۱۱/۱۹۷
مثلاً خطبۂ اول ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘، کی یہ عبارت ملاحظہ کیجئے۔
’’پچھلے پانچ سو برسوں سے الٰہیاتِ اسلامیہ پر جمود کی کیفیت طاری ہے۔ وہ دن گئے جب یورپ کے افکار دنیائے اسلام سے متاثر ہوا کرتے تھے۔ تاریخِ حاضرہ کا سب سے زیادہ توجہ طلب مظہر یہ ہے کہ ذہنی اعتبار سے عالمِ اسلام نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس تحریک میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں کیونکہ جہاں تک علم و حکمت کا تعلق ہے، مغربی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلوؤں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اس تہذیب کی ظاہری آب و تاب کہیں اس تحریک میں حارج نہ ہوجائے اور ہم اس کے حقیقی جوہر، ضمیر اور باطن تک پہنچنے سے قاصر رہیں‘‘۔(تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ، ص۱۱)
اسی طرح خطبۂ ششم ’’اجتہاد فی الاسلام‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جما سکتے ہیں تو دوامی (اصولوں) کی بدولت لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہوجائے۔ اسلام کی ہیئت ترکیبی میں وہ کو نسا عنصر ہے جو اس کے اندر حرکت اور تغیر قائم رکھتا ہے۔ اس کا جواب ہے اجتہاد‘‘ (تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ، ص۲۲۷، ۲۲۸)
خطبۂ ششم ہی میں لکھتے ہیں:۔
’’ہم اس تحریک کا جو حریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے، دل سے خیرمقدم کرتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بھی خطرہ ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنما حریت اور آزادی کے جوش میں، بشرطیکہ اس پر کوئی روک عائد نہ کی گئی، اصلاح کی جائز حدود سے تجاوز کرجائیں۔‘‘ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص۲۵۱، ۲۵۲)
اسی طرح خطبۂ پنجم کی یہ سطور دیکھئے:۔
’’تہذیب جدید کے بعض اہم پہلوؤں کو دیکھئے تو ان کا ظہور بھی اسی (اسلامی تہذیب و ثقافت) کا مرہونِ منت ہے۔‘‘(تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص۱۹۷)
۱۰۔ ہنٹنگٹن کے خیالات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے:۔
Hungtington, "The Clash of Civilizations", See part IV, PP-258, 268
۱۱۔اقبال، ’’مقالاتِ اقبال‘‘(جغرافیائی حدود اور مسلمان)، مرتبہ، عبدالواحد معینی، سید، ۲۶۶
۱۲۔مثلاً ملاحظہ کیجئے حاشیہ نمبر۹
۱۳۔تہذیبی تصادم، تہذیبی مفاہمت، آفاقی تہذیب، نیا عالمی نظام، تہذیبی تکثیریت، تہذیبی آفاقیت، عصری کشمکش، ثقافتی مستعاریت، اشتراکیت اور سرمایہ