وفیات

پنجابی ادب کے معروف شاعر شفقت تنویر مرزا انتقال کر گئے
معروف پنجابی شاعر ، صحافی اور دانشور شفقت تنویر مرزا لاہور میں انتقال کر گئے۔ شفقت تنویر مرزا کو منگل کی شام لاہور میں سپردخاک کر دیا گیا۔ مرحوم نے پنجابی ادب میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ آپ صحافی ادیب، نقاد اور شاعر تھے۔ شفقت تنویر مرزا نے متعدد کتابیں لکھیں جو عوام میں بے حد مقبول ہوئیں جن میں ’’پنجابی ادب راہیں پنجابی دی تاریخ‘‘، ’’تحریکِ آزادی وچ پنجاب داحصہ‘‘ ، ’’لہو سہاگ‘‘ (لور کا کے ڈراموں کا پنجابی ترجمہ) ’’بوہاکوئی نہ‘‘ (سارتر کے ڈراموں کا پنجابی ترجمہ) ’’ہاشم شاہ‘‘(انتخاب و اردو ترجمہ)’’ کوک‘‘ (علی حیدر کے شعروں کا انتخاب اور ترجمہ) ’’سروادیِ کشمیر‘‘ (کشمیر پر اردو نظمیں)’’کلیاتِ خواجہ فرید‘‘، ’’آکھیا سچل سرمست نے‘‘ ۔ مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں انہیں حکومت پاکستان سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی بھی دیا گیا۔ مرحوم ملک کے مشہور روزناموں جن میں تعمیر، راولپنڈی، ہفتہ وار الہلال راولپنڈی، روزنامہ امروز اور روزنامہ مساوات سے وابستہ رہے اور آج کل ڈان اخبار سے منسلک تھے۔ ڈائریکٹر جنرل ، ادارہ فروغِ قومی زبان ، ڈاکٹر انوار احمد نے کہا کہ شفقت تنویر مرزا کی وفات سے دنیائے ادب میں جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ پورا نہیں ہو سکے گا اور ان کا کام پنجابی ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے ۔ اللہ مرحوم کی مغفرت کرے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
معروف ناول نگار ، کالم نگار رضیہ بٹ انتقال کر گئیں
ان کے مشہور ناولوں میں ’’معاملے دل کے، رابی، بانو، عاشی‘‘شامل ہیں۔معروف ناول نگار، کالم نگار رضیہ بٹ گذشتہ روز ۸۹ سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ان کے مشہور ناولوں میں ’’معاملے دل کے، امریکی یاترا، قربان جاؤں، اسپین کا سفر، بیٹا، چاہت، رابی، بانو، عاشی، صاعقہ، ہمسفر، ناجیہ اور آدھی کہانی‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے ۵۱ ناول اور ساڑھے تین سو کے قریب کہانیاں لکھیں۔ ان کی کہانیوں اور ناولوں پر لالی وڈ میں کئی کامیاب فلمیں بنیں۔رضیہ بٹ کے پچاس سے زائد ناولوں اورسینکڑوں افسانوں نے انہیں ایک مشہور کہانی نگار بنا دیا۔ رضیہ بٹ کے بہن بھائیوں کی تعداد دس تھی۔ وہ بچپن میں سونے سے پہلے بہن بھائیوں کو کہانیاں سنایا کرتیں۔ پانچویں جماعت میں تھیں جب ایک مضمون ’’ریل کا سفر‘‘ لکھ کر اساتذہ سے داد پائی۔ نہم جماعت میں آئیں تو ’’محبت‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا۔ ۱۹۴۰ ء میں خواتین کے مقبول پرچے ’’حور‘‘ میں ’’لرزش‘‘ کے نام سے پہلی کہانی لکھی۔ پچاس کی دہائی میں ریڈیو کے لیے ڈرامہ ’’ساس بہو‘‘ لکھا۔ ان کی کہانیاں حور، زیب النساء، اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ میں چھپتی رہیں۔رضیہ بٹ کاپہلا ناول ناہید تھا۔ دوسرا ناول نائلہ اور پھر ’’نمو‘‘،’’نورین‘‘ ، ’’انیلہ‘‘ اور صاعقہ کے نام سے ناول لکھے۔ اس دور میں پاکستانی فلم انڈسٹری سے بہت سی ذہین اور محنتی شخصیات وابستہ ہو رہی تھیں۔ رضیہ بٹ کے ناول ’’نائلہ‘‘ پر بڑے بجٹ کی رنگین فلم بنائی گئی۔رضیہ بٹ عصری ادبی ماحول میں رچ بس نہ سکیں۔ انہوں نے اپنے قارئین کی ایک الگ کلاس پیدا کر لی تھی۔ وہ کلاسیکی اور فکری رجحانات سے ایک فاصلہ رکھ کر کہانیاں لکھ رہی تھیں۔ گھرداری اور گھریلو ماحول نے انہیں محبت کے ان پہلوؤں تک محدود کئے رکھا جو تابعدار اور فرمانبردار گھریلو لڑکیوں کی زندگی میں مسائل پیدا کرتے ہیں۔ وہ محبت کرنے والی ہر لڑکی کو مظلوم بنا کر پیش کرتی رہیں۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی تنہائی میں اضافہ ہوگیا۔ ان کی وفات نے چلمنی ادب کا ایک کشادہ دریچہ بند کر دیا ہے۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعرہ ثمینہ راجہ کے انتقال پُر ملال
اردو زبان کی معروف شاعرہ اور کئی کتابوں کی مصنفہ ثمینہ راجہ ۵۱ سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں ۔ انھیں ۳۰؍ اکتوبر بدھ کے روز اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں دفن کیا گیا۔ انھیں دو قومی اعزازات ’’پرائم منسٹر ایوارڈ اور رائٹرز ایوارڈ‘‘ کے لیے نامزد کیا گیا تو انھوں نے معذرت کے ساتھ انکار کر دیا کہ یہ اعزازات مستحق لوگوں کو ملنے چاہئیں۔ ثمینہ راجہ نے اپنی شاعری کا آغاز ۱۹۷۳ء میں کیا اور اب تک ان کی ۱۲ تخلیقات شا ئع ہو چکی ہیں جن میں ہویدا (۱۹۹۵ء) ،شہر صبا (۱۹۹۷ء) اور وصل(۱۹۹۸ء) ، خواب نئے(۱۹۹۸ء)، باغ شب(۱۹۹۹ء)، بازدید(۲۰۰۰ء) ، ہفت آسمان (۲۰۰۱ء)، پری خانہ (۲۰۰۲ء) ، عدن کے راستے پر (۲۰۰۳ء)، دل لیلا(۲۰۰۴ء)، عشق آباد(۲۰۰۶ء) اور ہجر نامہ (۲۰۰۸ء) شامل ہیں۔ آپ کی دو کلیات اور ایک مجموعہ کلام بھی شائع ہو چکا ہے۔ آپ نے نیشنل بک فاؤنڈیشن میں کنسلٹنٹ کی حیثیت سے ۱۹۹۸ء میں شمولیت اختیار کی اور ماہانہ خبرنامہ ’’ کتاب‘‘ کی ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۵ء تک ادارت کی اس کے علاوہ ماہانہ ادبی رسالہ ’’مستقبل ‘‘ (۱۹۹۴ء۔۱۹۹۱ء) ، ’’آثار‘‘(۲۰۰۴ء۔ ۱۹۹۸ء)، ’’خواب گر‘‘ کی اپنے انتقال تک ایڈیٹر رہیں۔ آپ نے مقتدرہ قومی زبان میں ماہر مضمون کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ آپ نامور شاعر احمد فراز پر ’’خواب گر‘‘ کا خصوصی ایڈیشن نکالنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن موت نے آپ کو یہ مہلت نہ دی۔ جڑواں شہر کے علاوہ پاکستان بھر سے آپ کے اچانک انتقال پر نہایت افسوس کا اظہار کیا گیا۔ (بشکریہ : روزنامہ ’’ڈان‘‘ یکم نومبر ۲۰۱۲ء)
ممتازادیب، صحافی، دانشور، ڈرامہ نگار اور ناول نگار اصغر بٹ انتقال کر گئے
ممتازادیب، صحافی، دانشور، ڈرامہ نگار اور ناول نگار اصغر بٹ انتقال کر گئے۔جناب محمد اصغر بٹ روزنامہ ’’دی نیشن‘‘ لاہور سے منسلک تھے اور ’’دی نیشن‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر ، ایڈیٹوریل کے طور پر بھی کام کرتے رہے ۔ بیماری کی لپیٹ میں آجانے کے بعد وہ آخری سانس تک ’’دی نیشن‘‘ کے لیے کالم نگاری بھی کرتے رہے وہ اردو دنیا میں لکھنے والے پہلے ڈرامہ نگار تھے۔ جناب اصغر بٹ ایک انتہائی خوشگوار شخصیت کے مالک تھے وہ وفاقی سیکرٹری کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ۱۹۵۰ء میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کیا اور پھر وہ ریڈیو پاکستان کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر رہے۔ بعد ازاں وہ وزارتِ سیاحت و ثقافت میں چلے گئے جہاں سے وہ بطور جوائنٹ سیکرٹری ریٹائر ہوئے وہ اپنی سرکاری ملازمت کے دوران ’’پاکستان ٹائمز ‘‘ میں ثقافت پر مضامین بھی لکھتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ انھوں نے سٹیج اور ٹی وی ڈرامے لکھے، ان کے لکھے ہوئے ’’ون ایکٹ پلیز ‘‘ اُس وقت ان کی پہچان بن گئے تھے، جبکہ پاکستان میں سٹیج پلے کا آغاز ہی نہیں ہو سکا تھا۔ ان کا ناول ’’ٹوٹی کہاں کمند‘‘ حال ہی میں شائع ہوا اور ناول کے باب میں بھی ایک نیا درکھول گیا۔جناب اصغر بٹ کے ورثاء میں اُن کی بیوہ محترمہ نثار عزیز بٹ اور دو بیٹے ڈاکٹر احمد عزیز بٹ اور جناب اشعر عزیز بٹ شامل ہیں۔جناب اصغر بٹ سابق وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر امور خارجہ جناب سرتاج عزیز کے بہنوئی اور ایم ڈی نوائے وقت گروپ جناب مجید نظامی کے برادرِ نسبتی تھے۔واضح رہے جناب محمد اصغر بٹ اور محترمہ نثار عزیز بٹ میاں بیوی تھے اور دومثالی لکھاریوں کی مثالی جوڑی تھی۔یہ جوڑی قدرت کے امر سے ٹوٹ گئی ہے۔
ہندکواسکالر ڈاکٹر الٰہی بخش اعوان انتقال فرما گئے
ممتاز ہندکو اسکالر اورماہر لسانیات ڈاکٹر الٰہی بخش اعوان بد ھ کے روزپشاور میں انتقال فرماگئے۔ آپ کی نماز جنازہ گلبہار میں پڑھانے کے بعد داب گڑھی میں تدفین کی گئی۔آپ کی نماز جنازہ میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نامور افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔آپ نے اپنی مادری زبان ہندکو کے علاوہ اُردو زبان میں کئی کتابیں تحریر کیں۔مرحوم ڈاکٹر الٰہی بخش اعوان نے ہندکو زبان کے ادبی و علمی ذخیرہ کو محفوظ بنانے کے لیے بے شمار مضامین اور کتب کی تدوین و تحریر کی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ کئی مقامی اور بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کیں جن میں ہندکو کے علاوہ دیگر زبانوں کے ماہرین شرکت کرتے تھے۔آپ نے ۱۹۵۹میں ’’بزم شعور ہندکو‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس میں ہندکو زبان کی شاہکارادبی تخلیقات کو پیش کیاجاتاتھا۔آ پ نے مختلف شعراء کے کلام کا ایک مجموعہ۱۹۶۰میں شائع کیا جس میں استادغلام رسول غیل بھی شامل تھے۔آپ ہندکو شاعروں اور ادیبوں کے لیے ادبی نشستوں کا اہتما م بھی کیاکرتے تھے تاکہ اس زبان کی ترقی و ترویج ہوسکے۔ڈاکٹر الٰہی بخش اعوان۱۹۶۰میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان چلے گئے۔آ پ نے ۱۹۷۴میں لندن یونیورسٹی سے لسانیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور ہندکو زبان کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا۔وطن واپسی پر آپ نے ہندکو زبان کے مختلف پہلوؤں پر اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔آپ نے ہندکوزبان کی جامع لغت کے علاوہ دیگر کتب بھی تصنیف کیں جن میں ہندکو اور اُردو کے ساتھ ساتھ پشتو کا تقابل اور موزانہ بھی شامل ہے۔آپ نے اس زبان کے ابتدائی قاعدے ،گرائمر کی کتابیں اور لسانی موضوعات پر بہت سے مقالات تحریر کیے جن سے اس زبان کی اہمیت اور افادیت اجاگر ہوتی ہے۔آپ نے اُردو زبان کے اہم پراجیکٹوں میں بحیثیت ماہر لسانیات خدمات انجام دیں ۔آ پ مقتدرہ قومی زبان کی شہرہ آفاق ’’قومی انگریزی اُردو لغت‘‘کی تدوین میں بھی شامل رہے۔اسی طرح آپ نے اُردو لغت بورڈ کراچی میں بھی خدمات انجام دیں جہاں آپ نے اُردو لغت کی بیس سے زائد جلدوں کے لیے لسانی کام کیا۔آپ نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر منعقدہ کانفرنسوں میں اپنے تحقیقی مقالات پیش کیے ۔ ہندکو زبان و ادب کے علاوہ دیگر زبانوں کے ماہرین لسانیات، شاعروں اور ادیبوں نے آپ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیاہے۔ (بشکریہ ’’The News‘‘)
معروف شاعر اور صحافی پروفیسر اطہر ناسک انتقال کر گئے
معروف شاعر ، صحافی اور دانشور اطہر ناسک طویل علالت کے بعد اتوار کے روز میوہسپتال لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر ۵۳سال تھی اور وہ گزشتہ تین برس سے کینسر کا شکار تھے۔ اطہر ناسک کی میت لاہور سے ملتان لائی گئی۔ ان کی نماز جنازہ اتوار کی شب ۹ بجے جنازہ گاہ جلال باقری قدیر آباد ملتان میں اداکی گئی ۔ پروفیسر اطہر ناسک کا اصل نام سید اطہر رضا تھا۔ وہ ۷؍ اکتوبر ۱۹۵۹ء کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ کم عمر ی میں ہی صحافت کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے ملتان اور لاہور کے مختلف اخبارات میں نیوز ایڈیٹر، میگزین ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ اس کے علاوہ لاہور سے روزنامہ حکومت اور ملتا ن سے بچوں کے رسائل ’’بچوں کا گلاب‘‘ اور ’’گل بہار‘‘ کابھی اجراء کیا۔ زکریا یونیورسٹی سے اردو میں ایم ۔ اے کرنے کے بعد ۱۹۸۶ء میں محکمۂ تعلیم کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ بطور استاد انھوں نے صادق آباد ،بھائی پھیرو، چوکی، لاہور اور روجھان میں خدمات انجام دیں۔ آج کل وہ گورنمنٹ کالج خانیوال میں تعینات تھے۔ ۱۹۸۸ء میں وہ لیکچرر سلیکشن بورڈ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ’’داستان ساحر‘‘ کے نام سے ساحر لدھیانوی فن اور شخصیت پر ان کی کتاب بھی منظر عام پر آئی۔ تاہم ان کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہ ہوسکا۔ڈاکٹر انوار احمد ڈائریکٹر جنرل، ادارہ فروغِ قومی زبان(مقتدرہ قومی زبان) اسلام آبادنے اطہر ناسک کی وفات پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔ ملتان اوردیگر شہروں کے ادیبوں ، شاعروں اور ادبی تنظیموں نے بھی ان کی وفات پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔
پشتو کے معروف شاعر ڈاکٹر محمد اعظم اعظمؔ انتقال کر گئے
پشتو زبان و ادب کے معروف سکالر، ادیب اور شاعر ڈاکٹر محمد اعظم اعظمؔ گذشتہ روز انتقال کر گئے۔ ڈاکٹر محمد اعظم اعظمؔ پشتو زبان میں غزل کہتے تھے۔ وہ اکادمی ادبیات پاکستان، پشاور سینٹر کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر تھے۔ انھوں نے پچاس برس سے زائد علم و ادب کی خدمت کی۔ انھوں نے پشتو زبان و ادب پر کئی تنقیدی کتب بھی تحریر کی ہیں۔ وہ پشتو غزل میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر انوار احمد ، ڈائریکٹر جنرل ، ادارہ فروغ قومی زبان نے ڈاکٹر محمد اعظم اعظمؔ کی وفات پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا اور کہا کہ ڈاکٹر محمد اعظم اعظمؔ کی وفات سے پشتو ادب ایک استاد سے محروم ہو گیا ہے۔ ان کی تدفین چارسدہ کے نواح میں ان کے آبائی قصہ راجڑ میں کی گئی۔ ان کی نمازِ جنازہ میں علم وادب سے تعلق رکھنے والے کثیر افراد نے شرکت کی۔ مرحوم کے پسماندگان میں چار بیٹیاں، ایک بیٹا اور ایک بیوہ ہیں۔
سائنسی صحافت کا ایک بے مثل چراغ بجھ گیا
عظمت علی خاں سدھار گئے
عوامی سائنسی ابلاغ اور جدید سائنسی معلومات کو عام فہم انداز میں اردو داں طبقے تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دینے والے سائنسی صحافت کے معروف استاد عظمت علی خاں ۲۲؍ اکتوبر کو وفات پاگئے۔ ۔ عظمت صاحب ۵ ؍ جون ۱۹۳۱ء کو رامپور میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم ذوالفقار سکول (رامپور) اور اعلیٰ ثانوی تعلیم رضا انٹر کالج رامپور سے حاصل کی۔ ۱۹۵۰ء میں گریجویشن کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا یہاں سے ۱۹۵۴ء میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ پاکستان آنے کے بعد اُردو سائنس کالج کے تدریسی عملے میں شامل ہوگئے ۔ انہی دنوں اراضیات کا مضمون اعلیٰ ثانوی سطح پر متعارف کروایا گیا اگرچہ عظمت علی خاں کی وابستگی کالج کے شعبہ کیمیا سے تھی لیکن علی گڑھ سے بی ۔ایس۔ سی (آنرز) میں ان کا ایک مضمون اراضیات بھی تھا ۔ انھوں نے اراضیات کی تدریس کے لیے اپنی خدمات پیش کی اور یوں عظمت خان پورے پاکستان میں اراضیات کا مضمون پہلی بار اُردو زبان میں پڑھانے والے استاد بن گئے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اردو ڈکشنری بورڈ حکومت کی عدم توجہی کے باعث تباہی کا شکار
انگریزی اور جرمن زبان کے بعد پاکستان میں اردو زبان میں پہلی مرتبہ ’’الف‘‘ سے لے کر ’’ے‘‘ تک ۲۲ جلدیں چھاپ کر علمی اور ادبی کارنامہ انجام دینے والا قومی ادارہ ’’اردو ڈکشنری بورڈ‘‘ وفاقی وزارت قومی ورثہ ویکجہتی کی عدم توجہ کے باعث تباہی سے دو چار ہے، دو سال گزرنے کے باوجود مستقل چیف ایڈیٹر کا تقرر نہیں کیا جا سکا ہے۔چیف ایڈیٹر کے بجائے مزار قائد کے ریذیڈنٹ انجینئر محمد عارف کو اردو ڈکشنری بورڈ کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ میں آخری مستقل مدیر اعلیٰ فہمیدہ ریاض تھیں جن کا دو سالہ کنٹریکٹ دوسال قبل جون کو ختم ہو گیا تھا۔ بعد ازاں مقتدرہ قومی زبان کے سیکرٹری سرفراز طارق کو اردو ڈکشنری بورڈ کے چیف ایڈیٹر کا اضافی چارج دے دیا گیا اوروہ گذشتہ ماہ ریٹائر ہو گئے۔ وفاقی حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے اردو ڈکشنری بورڈ کی چھپائی کی مشینیں خراب پڑی ہیں، کاغذ ختم ہو گیا ہے ، خریداری کے لیے رقم موجود نہیں، بیشتر کمپیوٹر خراب ہیں جس کی وجہ سے لغت پر نظر ثانی کا کام سست روی کا شکار ہے۔ بورڈ کے چیف ایڈیٹر کی اسامی خالی پڑی ہے ۔ اردو ڈکشنری بورڈ پہلے خود مختار ادارہ تھا جسے بعد میں وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت کر دیا گیا ۔ گذشتہ سال فروری میں اسے کیبنٹ ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا اور اب یہ نئی وفاقی وزارت نیشنل ہیریٹج اینڈ انٹی گریشن کے ماتحت ہے۔ (بشکریہ : روز نامہ جنگ، راولپنڈی )
کیا سب سے بڑی یتیم ہماری قومی زبان ہے؟
میرے خیال میں دین متین کے علاوہ دوسری سب سے بڑی یتیم ہماری قومی زبان ہے۔ یہ وہ زبان ہے جسے ہمارے قائد نے ہی قومی زبان قرار دیا تھا۔ کیا ان پینسٹھ سالوں میں یہ زبان صحیح معنوں میں قومی زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ کیا اس زبان میں ہمارے سارے ادارے، سرکاری دفاتر روزمرہ کے کام و کاروبار سر انجام دے رہے ہیں؟ کیا ہمارے تمام تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ان کا نصاب ایک ہے؟ سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ سرکاری سکولوں یعنی اُردو میڈیم میں پڑھنے والے بچے تو ویسے ہی احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو انگلش میڈیم میں پڑھنے والوں سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔
آج انگلش میڈیم میں پڑھنے والے بچوں کے منہ سے یہ الفاظ سن کر کہ اُردو بھی کوئی زبان ہے ،اگر امتحان میں اس میں دو چار نمبر نہیں آئیں گے تو کیا فرق پڑھ جائے گا؟ میں نے حیرانی سے پوچھا آپ لوگوں کو کس نے کہا کہ یہ کوئی زبان نہیں ہے؟ وہ بولے کہنا کس نے ہے، نہ ہمیں پڑھائی جاتی ہے اور نہ کبھی ہم نے اپنے اساتذہ کو اُردو میں بات کرتے سُنا ہے۔
راحت بھٹی
(بشکریہ : روز نامہ نوائے وقت ، راولپنڈی)