شہناز مزمل ایک قابلِ قدر شاعرہ

عاصمہ اقبال

محترمہ شہناز مزمل ایک قابلِ قدر شاعرہ ہیں۔ گو شاعری ورثہ میں ملی، گھر کے ماحول سے شعری مزاج کی تربیت ملی۔ والد حشر القادری صاحب ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن اس شعری مزاج میں شہناز صاحبہ کے مزاج کی انفرادیت ملتی ہے۔ وہ دراصل لوحِ دل پر وارد ہو رہے ہیں۔ ان کے اشعار میں علم کی گہرائی، پختہ لہجہ لیکن اسلوب انتہائی سادہ ،فلسفہ بھرنے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ تجربات اور مشاہدہ خود بخود اشعار میں عیاں ہوئے جاتے ہیں۔
زندگی سے کیا ڈرنا آگہی سے ڈرتی ہوں
تیرگی کے موسم میں روشنی سے ڈرتی ہوں
پتھروں کی بستی میں آئینے اٹھا لائی
کانچ کانچ جذبوں کی نازکی سے ڈرتی ہوں
بہت کم خواتین کاکتاب سے اتنا گہرا تعلق دیکھنے میں آتا ہے اور شادی شدہ زندگی کے ساتھ ساتھ اپنا علمی سفر جاری رکھنا، ایک انتہائی مشکل عمل ہے۔ دوست احباب میں مسز کتاب کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اس بات میں سچائی اس طرح دکھائی دیتی ہے کہ پندرہ شعری مجموعے چھپ چکے ہیں اور سات نثری کتب پانچ کتابیں زیر طبع ہیں:
(۱)نورِ کل(۲)بعد تیرے(۳)قرضِ وفا(۴)عشق تماشا(۵)میرے خواب ادھورے ہیں(۶)جادۂ عرفان(۷)موم کے سائبان(۸)عکس دیوار پہ تصویر(۹)جرأت اظہار(۱۰)جذب و حرف(۱۱)پیامِ نو(۱۲)شہناز مزمل کے منتخب اشعار(۱۳)عشق دا دیوا(۱۴)کھلتی کلیاں مہکے پھول(بچوں کی نظمیں)(۱۵)عشق سمندر۔
مطبوعہ نثری کتب
(۱)کتابیات اقبال(۲)کتابیات مقالہ جات(۳) لائبریریوں کا شہر لاہور(۴)فروغ مطالعہ کے بنیادی کردار (۵)عکسِ خیال(۶)دوستی کا سفر(سفر نامہ)(۷)نماز (بچوں کے لیے)
محترمہ شہناز مزمل صاحبہ ایک ادبی پروگرام ’’ادب سرائے ‘‘کے نام سے اپنی رہائش گاہ پر کرتی ہیں۔ اس پروگرام میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور بڑی بڑی ادبی شخصیات اس پروگرام میں حصہ لیتی ہیں اسی کے ساتھ ساتھ ماڈل ٹاؤن لائبریری کی منتظم کے فرائض انجام دئیے قائد اعظم لائبریری کی منتظمِ اعلیٰ کے فرائض بھی انجام دئیے۔ محترمہ کو گولڈن جوبلی سال کے موقع پر تیئس ۲۳ مارچ کو Puna نے سلمیٰ تصدق ایوارڈ تین پاکستانی خواتین کو دیا ان میں ایک نام شہناز مزمل صاحبہ کا ہے۔
محترمہ کی شاعری متوازن اور خوبصورت الفاظ اور جذبے کا امتزاج ہے بلکہ ان کی شخصیت اور اندازِ گفتگو اپنی تحریر کی مانند ستھرا اور پاکیزہ ہے۔ عملی طور پر تو دکھ درد بانٹنے والی ہیں اُن کے شعر بھی لوگوں کے غموں کا مداوا کرتے ہیں۔ تخلیق کو اعلیٰ مقام پر لے جانے کے لیے اپنی شخصیت کی تحلیلِ نفسی اختیار کرنا ہے۔ اعلیٰ شاعری تب ہی وجود میں آتی ہے جب آپ اپنی ذات کا احتساب کرتے ہیں:
؂سبز رُت میں گلاب جھلسے ہیں
بیتے موسم کا زخم گہرا ہے

؂زلزلے تو ذات کی دہلیز پر آتے رہے
ناقۂ خواہش ہوا سے رابطہ کیسا رہا
محترمہ کی شاعری میں شعور اور لاشعور کا رابطہ قائم ملتا ہے:
دئیے میں انا کے جلانے لگی ہوں
میں سورج نیا ساتھ لانے لگی ہوں
ایک شاعر یا تخلیق کار ذہنی طور پر عام انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی طورمعاشرے کی روح کی مضبوطی چاہتے ہیں اور اخلاقی اقدار کو معاشرے کی روح جانتے ہوئے ان کو معاشرے میں زندہ رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں اور سماجی انحطاط اور سماجی بیماریوں کی نشاندہی اور تحریر سے کرتے ہیں اور لوگوں کے ذہن میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں جگنو کا ذکر ملتا ہے۔ جگنو اندھیروں میں امید کا پیغام دیتے ہیں آپ کی شاعری ہمت کا سبق دیتی ہوئی شاعری ہے۔
دمِ رخصت اسے جینے کی دعا دی ہم نے
اور پھر آخری کشتی بھی جلا دی ہم نے
گہرے تیز پانی سے کشتیاں بچانے کو
ساحلوں پہ موجوں نے کیا عذاب جھیلے تھے

تارے کی طرح شب کے اندھیرے میں چمک کر
جگنو کبھی چڑیا کو بھٹکنے نہیں دیتا
فکر ومشاہدہ کی گہرائی شعور کو روشن کرتی ہے اور شاعری میں جب تک کوئی پیغام نہ ہو شاعر کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ وہ انسانیت سے محبت کرنے والی اور آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے والی شاعرہ ہے۔مستقبل کی خوبصورت آس اور زمانے کی پیش رفت کے ساتھ بدلتے اذہان و خیالات کا ادراک رکھتی ہے۔ زمانے کے دکھ کو ذاتی سمجھ کر شاعری میں سمو دیا
میرا مذہب ہے محبت، میرا مشرف ہے وفا
خامشی ہے میری احساسِ ادب کی شاہد
کون کہتا ہے نہیں جرأتِ اظہار مجھے
وفا پرست نہیں جو وفا شعار نہیں
وہ شخص کیا جسے انسانیت سے پیار نہیں
عارفانہ کلام پر مشتمل شعری مجموعہ ’’جادۂ عرفان‘‘ کے نام سے شائع ہوا
درحقیقت مالک ہر شے خدا است
ایں امانت چندروزہ نزد ما است

یہ تھی ادا جو شان کریمی کو بھا گئی
اس کی تجلیات میں جس کا اثر گیا
میں بیکراں محیط میں مثلِ گہر گیا
یہ ذات اس کی ذات میں تحلیل ہو گئی
اس طرح میری ذات کی تکمیل ہو گئی
ایک خاتون کی حیثیت سے اگر اپنی شاعری میں حقوقِ نسواں کی بات نہ کریں کیسے ممکن ہے بلکہ وہ تو وکالت کرتی ہیں:
غلط سمجھا تھا میری سوچ پہ پہرے بٹھا دو گے
غلط سمجھا تھا میری فکر کو بنجر بنا دو گے
غلط سمجھا تھا کٹ پتلی بنا کر تم نچا دو گے
غلط سمجھا تھا ناممکن کو ممکن سے مِلا دو گے

دام میں یوں الجھا لیتے ہیں اپنی شام سجا لیتے ہیں
عورت کو عورت ہونے کی اتنی سخت سزا دیتے ہیں
****