لیری ڈائمنڈ
ترجمہ: اعزاز باقر
جمہوری دور کی صبح کا طلوع
دانشورانہ قنوطیت کی حدود سے آگے
۱۹۷۰ء کی دہائی کے وسط تک آپ کو اس بات پر یقین کرنے کے لیے کہ اگلی چوتھائی صدی کے دوران دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوریت کا راج ہوگا یاتو خبطی ہونا چاہیے تھا یا رومان پسند۔ علما اور دانشوروں میں جمہوریت کے تقابلی جائزے کا رجحان کم ہوگیا تھا اور ۱۹۷۰ء کی دہائی کے دوسرے وسط میں جمہوریت کے حوالے سے سب سے اہم کام جمہوری حکومتوں کی ناکامی پر تھا۔ (۶ ) صرف چھ برس قبل، اپنی شاہکار کتاب "Polyarchy" (شائع کردہ ۱۹۷۱ء) میں ییل (Yale)کے ممتاز سیاسی سائنسدان اور جمہوری نظریہ ساز رابرٹ ڈاہل نے پولی آرچی کے حوالے سے ، جس سے اس کی مراد ایک معقول حد تک جمہوری سیاسی نظام تھی، یہ قنوطیانہ (Pessimistic) نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس میں ماسوائے معمولی درجے کی پیش رفت (Incremental Progress) کے کوئی اور امکانات نظر نہیں آتے۔ سیاسی مسابقت کے محدود دور کی جمہوری ترقی اور ’’سیاسی مخالفتوں کو برداشت کرنے کی روایات‘‘ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ڈاہل نے یہ تبصرہ کیا :
’’
اس صورت میں یہ فرض کرنا کہ جمہوری سیاسی نظاموں (Polyarchies) کی تعداد میں ایک یا دونسلوں کے پروان چڑھنے تک کوئی ڈرامائی تبدیلی آجائے گی بعیداز حقیقت ہوگا جیسا کہ بہت سی چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس نسل کے وقت سے ملک کی حکومت کے حوالے سے سب سے زیادہ یقینی توقع یا اُمید یہی لگائی جا سکتی ہے کہ یہ کچھ حد تک مختلف ہوئی مگر آج کے حساب سے کوئی زیادہ بنیادی تبدیلی کی حامل نہیں ہوگی۔ ‘‘
۱۹۸۴ء میں ، حتیٰ کہ جب جمہوری عمل کی نئی مگر ابھی تک گمنام لہر زور پکڑ رہی تھی، سیمیوول پی ہٹنگٹن نے بھی یہی تشخیص پیش کی تھی۔ اپنے مشہور زمانہ مضمون ’’کیا اور ممالک میں بھی جمہوریت آئے گی؟ ‘‘ (Will More Countries Become Democratic?) ہٹنگٹن نے رائے دی کہ مختصر طورپر یہی کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ میں نہیں۔ موافقِ جمہوریت اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے، اُس نے پیشین گوئی کی تھی کہ تبدیلی صرف لاطینی امریکہ اور شاید مشرقی ایشیا کے چند ایک زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں آئے گی۔
جمہوریت مخالف حکومتوں کی وقیع طاقت (خاص طورپر سوویت یونین) ، بہت سی اہم ثقافتی روایات کی جمہوریت سے عدم مطابقت، دنیا کے بڑے بڑے خطوں سے غربت کے خاتمے کی راہ میں حائل مشکلات اور بہت سے معاشروں میں بڑے پیمانے پر تشدد کی کارروائیاں اور اختلافات کی وسیع تر ہوتی ہوئی خلیج ، یہ سب اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ چند ایک استثنیات کے علاوہ دنیا میں جمہوریت کا پھیلاؤ اپنی حدوں کو چھو رہا ہے۔
محض سات برس بعد ہٹنگٹن نے اپنی کتاب جس کا نہ صرف نام بلکہ کام بھی یہ نشان دہی کرنا تھا کہ دنیا میں جمہوری تبدیلی کی حیران کن ’’تیسری لہر ‘‘ اُبھر رہی ہے۔
اُس زمانے میں قنوطیت یا مایوسانہ رویے کے پس پردہ کچھ حد تک جدت کے عمل (Modernization) کے نظریے کی برتری کا محرک بھی کارفرما تھا جس کے تحت جمہوریت اور اقتصادی ترقی کی سطح کے مابین ایک طاقتور ربطِ باہمی پایا جاتا ہے۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی کے شروع میں دنیا کی زیادہ تر جمہوریتیں صنعتی ترقی سے مالا مال مغربی ممالک پر مشتمل تھیں۔ چنانچہ اس نظریے کے مطابق ان ممالک میں جمہوریت اس لیے پائیدار تھی کیونکہ وہاں تعلیم اور شخصی آمدنیوں کا معیار بلند تھا اور درمیانے طبقے کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ چنانچہ ترقی کی ان خصوصیات کے نتیجے میں عام لوگوں میں سیاسی شعورپیدا ہونے اور ان کی طرف سے سیاسی عمل میں شرکت کرنے، اختلاف رائے اور مخالفانہ نقطۂ نظر کو برداشت کرنے، سیاسی اعتدال پسندی اور ضبط و تحمل، آزادی اور جوابدہی کے عمل کی خواہشیں اور خود مختار تنظیموں/ اداروں کی تشکیل اور ان میں شرکت کا رجحان پیدا ہونے سے ہی جمہوریت ممکن ہو سکی۔ جمہوریت کی یہی وسیع سیاسی روایات میں جو جمہوریت کی روح کے بنیادی پہلو کی تشکیل کرتی ہیں۔ مشہور سیاسی ماہر سماجیات سیمور مارٹن لپسیٹ (Seymour Martin Lipset) نے ان اقتصادی، سماجی اور ثقافتی عوامل کو جمہوریت کے معاشرتی تقاضوں کا نام دیا تھا، اور اگرچہ اُس کے نزدیک یہ کوئی اتنی لازمی یا ناگزیر شرائط بھی نہیں تھیں مگر ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں میں دانشوروں اور پالیسی سازوں نے انھیں ناگزیر ہی گردانا۔ چنانچہ کسی ملک میں اقتصادی ترقی کو جمہوریت کی پیشگی شرط قرار دے دیا گیا۔ لہٰذا یہ منطق سامنے لائی کہ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مطلق العنان حکومتوں کی حمایت کے ساتھ ہی ان میں سرمایہ کاری کی جائے ۔۔۔ تائیوان میں چیانگ کائی شیک، جنوبی کوریا میں پارک چنگ ہی، سنگاپور میں لی کوآن یو، انڈونیشیا میں سوہارتو، فلپائن میں فرڈیننڈمارکوس، برازیل اور چلّی میں جرنیلوں اور ایران میں شاہ کی حکومت پر ۔۔۔ اور یوں ترقی کے نتیجے میں جمہوریت بھی آ جائے گی۔ پالیسی کے نقطۂ نظر سے اس منطق کو فروغ دینے میں اس حقیقت کی بنا پر آسانی رہی کہ یہ سارے کے سارے آمر سردجنگ میں امریکہ اور مغرب کے حلیف تھے۔ ان آمروں کی حمایت کرنے کے لیے اب ہمارے پاس جمہوری اقدار کے فروغ کا جواز بھی تھا: یہ عبوری حکومتیں تھیں، نہ کہ مستقل اور یہ جزوی آمریتیں تھیں، نہ کہ کمیونسٹ تحریکوں کی طرح جن سے ان کو خطرہ تھا مکمل طور پر مطلق العنان حکومتیں اور یہ کہ وہ اقتدار میں ان تحریکوں کے خاتمے کے لیے ہی آئے تھے۔ لہٰذا آزادی کے دفاع اور پیش قدمی کے لیے ہم نے جمہوریت کی روح کو نظرانداز کر دیا۔
اُس دور میں ثقافتی بنیاد پر قنوطیت کی ایک گہری شکل موجود تھی۔ لہٰذا ایک دلیل کے مطابق یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ جمہوریت اپنی یہودی ۔ عیسائی اور روشن خیالی کی حامل ثقافتی روایات کے ساتھ زیادہ تر مغربی ممالک میں ہی منظر عام پر آئی۔ اس دور میں غیر مغربی جمہوریتیں زیادہ تر ایسے ممالک میں پائی جاتی تھیں جہاں مغرب کی آزادانہ ثقافتی روایات سرایت کر چکی تھیں، مثال کے طورپر بھارت، سری لنکا اور جمیکا کی سابق برطانوی نوآبادیات ، یا جاپان جس کو امریکہ نے جنگ عظیم دوم کے بعد فتح کرکے قبضے میں لے لیا تھا۔ دوسری جگہوں پر امکانات بہت ہی کم لگ رہے تھے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے وسط میں لاطینی امریکہ کے ایک ممتاز امریکی دانشور نے اعلان کرتے ہوئے کہا ’’لاطینی امریکہ کے رہنما اس وقت جس سماجی اور ثقافتی سلسلے یا صورت حال کے اندر کام کرتے رہے ہیں وہ ایسی ہے کہ اس کے اندر چند ایک حقیقی استثنیات کو چھوڑ کر ایک مؤثر اور مقبول نمائندہ جمہوریت کوئی قابل عمل متبادل نہیں ہے۔ ایک اور کے مطابق سپین، پرتگال اور خاص طورپر لاطینی امریکہ کے کیتھولک ممالک مغربی طرز کی جمہوریت کے لیے ’’غالباً ناموزوں‘‘ تھے یا تو اس لیے کہ ان پر کیتھولک چرچ کی درجہ بند اور آمرانہ روایات کے اثرات تھے یا پھر اس لیے کہ ان کا جمہوریت کا تصور روسو کے نظریات کی حامل روایات پر مبنی تھا جن کے تحت ایک وقت میں بہت زیادہ نظریات کے پھیلاؤ اور آزادی (Pluralism) سے احتراز کرنے کے علاوہ شرکتِ عمل کو زیادہ تر ’’سالمیاتی، اجتماعی اور گروہی‘‘ حوالے سے دیکھا جاتا بہ نسبت انفرادی شکلوں کے جنھیں مغرب میں فتح حاصل ہو چکی ہے۔ کچھ اور لوگوں کے نزدیک ایشیائی ’’ثقافت یا اسلامی ثقافت جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھی کیونکہ اس کے تحت آزادی پر نظم و ضبط کو، مقابلے پر اتفاق رائے کو انفرادی پر اجتماعی کو ترجیح دی جاتی تھی۔
ایک ایسی دنیا جو ۱۹۷۵ء میں اتنے فطری اور ناگزیر انداز میں آمریت کے راستے پر چل رہی تھی۔ ۱۹۹۵ء میں کس طرح اتنے نمایاں طریقے سے جمہوریت کی سمت اختیار کر گئی ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے زیادہ سماجی سائنسدان اور خارجہ پالیسی کے ماہرین اتنی غلط رائے رکھتے ہوں؟
جمہوریت کی لہر پسپا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس کا آغاز، میرے استدلال کے مطابق ۱۹۹۹ء میں پاکستان میں ہونے والی فوجی بغاوت سے ہوا جو اس امر کی علامت تھی کہ بہت سی نئی جمہوریتیں ترقی، سماجی امن اور اچھے نظم و نسق کے حوالے سے عمدہ کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوگئی تھیں۔ اس وقت سے لے کر اب تک بہت سی بااثر ریاستوں مثلاً روس، وینزویلا، نائیجریا اور تھائی لینڈ میں جمہوریت کو کافی دھچکے لگ چکے ہیں، اور دوسرے بڑے بڑے ممالک مثلاً فلپائن اور بنگلہ دیش میں جمہوریت کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ صدر جارج بش کی طرف سے پہلے صدر صدام کا تختہ اُلٹ کر اور پھر عراق میں آمریت کی جگہ جمہوریت لا کر مشرق وسطیٰ کے اندر تبدیلی لانے کی جرأت مندانہ مہم کا بالکل اُلٹا اثر ہوا ہے، اور ملک انتشار کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ پورے خطے میں اسلام پسندوں کے سیاسی اور اکثر و بیشتر انتخابی غلبے کے باعث بش انتظامیہ بھی اپنے جمہوری لائحہ عمل سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں عرب جمہوریت پسند خود کو چوٹ کھایا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ پوری دنیا میں جمہوریت کے فروغ کی عالمی کوششوں کے خلاف سخت ردّعمل ظاہر کیا جا رہا ہے جس میں ، روس اور تیل کی دولت سے مالا مال علاقائی طاقتیں وینزویلا وغیرہ پیش پیش ہیں۔
بہت سے مبصرین کو اس انحطاط میں جمہوری امکانات کی فطری حدود نظر آتی محسوس ہو رہی ہیں۔ امریکہ کی عراق میں حد سے بڑھی ہوئی سامراجی سرگرمیوں کی راکھ سے حقیقت پسندانہ سوچ کی نئی چنگاریاں اُبھر اُبھر کر ایک بار پھر امریکہ کو للکار رہی ہیں کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور دنیا سے حقیقت کی بنیاد پر معاملات طے کرے نہ کہ اپنی خواہشات کی بنیاد پر۔ عراق اور ممکنہ طورپر افغانستان میں امریکی مداخلت جیسے جیسے جنگ کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے، اس طرح کی نئی حقیقت پسندی (Neorealism) کو مضبوط بنیادیں فراہم ہو جائیں گی۔ تفکر، بردباری، اعتدال و شائستگی اور صورت حال کا نئے سرے سے جائزہ لینے کے لیے حقیقی اسباب موجود ہیں مگر جمہوری نظریے سے مایوسی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ جیسا کہ میں اس کتاب میں دنیا میں جمہوری منزل کی جانب پیش رفت کے لیے خاطر خواہ مخفی قوتِ محرکہ اور امکان پایا جاتا ہے۔ جمہوری اقدار اور آرزوئیں آفاقی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہیں بلکہ زیادہ وسیع طور پر مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے مفروضہ غیر دوست ممالک میں بھی مقبول ہو رہی ہیں اور ان عالمی جمہوری روایات کی جھلک علاقائی اور بین الاقوامی اداروں اور معاہدوں میں ہمیشہ سے کہیں زیادہ نظرآتی ہے۔ اگر ہم دنیا میں ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر جمہوریت کے پھیلاؤ کے اسباب کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جمہوری سرگرمیوں میں تیزی کا باعث بننے والے عوامل ابھی بھی بہت حد تک متحرک ہیں۔ اہم آزمائشیں یہ ہیں کہ آیا یہ نئی جمہوریتیں اپنے عوام کی ترقی اور قانون کے مطابق مہذبانہ حکمرانی جیسی توقعات پر پورا اُتر سکتی ہیں اور آیا کہ امیر اور مستحکم جمہوری نظام رکھنے والے ممالک جمہوریت کے فروغ کے حوالے سے کی جانے والی اپنی کوششوں کو نیا رُخ دینے اور قائم رکھنے کے لیے عزم اور دانش مندی کا مظاہر ہ کر سکتے ہیں۔
لاطینی امریکہ ، کمیونزم کے دور کے بعد کا یورپ ، ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ۔ میں جمہوری پیش رفت اور امکانات میں پائی جانے والی وسیع تر تفریقات پائی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی بدعنوانی کے خلاف جنگ کرنے اور ریاستوں کی قانون کی حکمرانی قائم کرنے اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک موافق ماحول فراہم کرنے کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ تاہم اس کے باوجود جہاں ایک طرف جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں وہاں دوسری طرف مواقع بھی دستیاب ہیں۔ حتیٰ کہ ایران اور چین جیسے ممالک میں بھی جو ابھی عالمی جمہوری لہر سے اتنے محفوظ و مامون نظر آ رہے ہیں، اگلے دو سے تین عشروں میں جمہوری نظام نافذ ہونے کا بھرپور امکان پایا جاتا ہے اور اگر چین میں جمہوریت آ سکتی ہے تو پھر باقی ماندہ دنیا میں کیوں نہیں؟
میرے خیال میں صرف مستحکم و مضبوط جمہوری نظام کے حامل معاشرے ہی اپنی پالیسیوں اور اجتماعی عزم کے ذریعے ایک واضح تبدیلی لا سکتے ہیں۔ آخری تین عشروں کے دوران، خاص طورپر غریب ممالک میں جمہوری میدان میں پیش رفت کے حوالے سے بہت زیادہ اُمیدیں اور توقعات پیدا ہوئی ہیں۔ اب دنیا میں صرف جمہوریت ہی حقیقی معنوں میں حکومت کی ایک وسیع قانونی شکل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جمہوریت کے دُشمن ۔۔۔ مثلاً کچھ عالمی تحریکیں اور بنیاد پرست طاقتیں صرف اُس صورت میں ہی غالب ہو سکتے ہیں اگر جمہوریت پسند نفرت و تکبر، ہٹ دھرمی، نااہلیت اور ہوس کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اپنے ہاتھوں ہی اپنی تباہی کا سامان پیدا کر دیں گے۔ تاریخ میں انسانی فطرت کی ان خصوصیات کی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنھوں نے ماضی میں جمہوریت کی شکست و ریخت اور ناکامی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر انسانی ترقی اپنی ناکامیوں سے سیکھنے اور آگے بڑھنے کی اہلیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ طویل عرصے میں عالمی اقتصادی اور سیاسی ترقی کے مخفی عوامل/ محرکات اور عالمی ثقافت اور اداروں میں پائے جانے والے وسیع تر رجحانات جمہوری عمل کے لیے مثبت ثابت ہوں گے۔ مستحکم و دیرپا جمہوریتوں کی دانائی اور بصیرت سے بھرپور پالیسیاں ہیں، مگر ایک بہت ہی منظم اور گرمجوش انداز میں، امریکی رہنمائی حاصل ہو، عالمی جمہوری تحریک میں ایک بار پھر جان ڈال سکتی اور اسے پائیدار بنا سکتی ہیں۔ اس طرح طویل مدت کا منظر اس حد تک تبدیل ہو سکتا ہے کہ جہاں اب سے چند عشروں کے بعد پوری دنیا جمہوریت کی روح سے لطف اندوز ہو سکے۔
****