صبا بتول رندھاوا
سوگ میں لپٹی جوانی

چھا تھا ٹھہر جاتے اگر تم بھی ذرا اور
(ایک خوبرو اور زندہ دل نوجوان کی یاد میں جو زندگی میں صرف ایک بازی ہارا تھا۔ زندگی کی بازی)
صبا بار بار دروازے کے پاس جاتی اور ناکام واپس لوٹ آتی ۔ ہر آہٹ اور ہر گاڑی کی آواز اسے اُن کے آنے کی آس دلا جاتی پھر اک دم باہر گلی میں بہت سی گاڑیاں رکنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی گاڑیوں کے دروازے بند ہوئے ۔ کچھ شناسا آوازیں آنے لگیں۔ لائونج میں لگے کلاک پر رات کے دس بج چکے تھے لیکن وہ آواز ابھی تک نہ آئی تھی جسے سننے کے لیے صبا بے چین تھی پھر ایک دم بڑی گاڑی کے رکنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی کوئی غم، جوش اور حوصلے سے ملے ہوئے جذبات کے ساتھ سب سے مل رہا تھا تو صبا نے بھاگ کر دروازہ کھول دیا۔ سارا بازار گاڑیوں اور لوگوں سے بھرا ہوا تھا لیکن صبا کی نظر جس کو دیکھنا چاہتی تھی وہ ابھی تک نظر نہیں آیا تھا۔ اسی ہنگامے میں ایمبولینس میں لیٹا ہوا وہ نوجوان شہزادہ جس کے منہ پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا وہ پوری ہمت سے سٹریچر سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور صبا نے اُس کو دیکھ لیا ۔ لوگوں کا سارا ہجوم ایمبولینس کے گرد اُسے محبت اور جوش و جذبے سے پکار رہاتھا اور وہ بیس سال کا خوبصورت نوجوان سب کو ہاتھ اٹھا کر میں ٹھیک ہوں کا اشارہ کر رہاتھا ۔وہ انتہائی مشکل سے سانس لے رہاتھا ۔ یہ سب نظارا دیکھ کر صبا کی آنکھوں میں وہ سب مناظر گھونے لگے جب آج سے تین ماہ پہلے ضیا کو علاج کے لیے اسلام آبا دلے جایا جا رہاتھا۔ ڈاکٹر وں نے کہا تھا کہ اس کے جسم سے (WBC)وائٹ بلڈ سیلز ختم ہو گئے ہیں اور اس کا خون نہیں بنتا اس کی Bone marroنے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ اسے فوراً CMHراولپنڈی بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹر لے جائیں۔ CMH کے ڈاکٹروں نے کہا کہ اس بیماری کا واحد علاج Bone Marro Transplantہے اور یہ صرف بہن بھائیوں کی میچ کرتی ہے۔ ضیا کے بہن بھائیوں صبا، اقصیٰ اور عطا الرحمن کے (KRL)کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری اسلام آباد سے بلڈ ٹیسٹ کروائے گئے لیکن جب رپورٹس ملیں تو اس کے بہن بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ اس کی Bone Marroمیچ نہ ہوئی اور ڈاکٹروں نے آخری علاج Last life saving drugs injectionتجویز کیے۔ اتنی بڑی بیماری لگ جانے کے باوجود ضیا کے حوصلوں اور زندہ دلی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ جب اس کے وائٹ سیل اور بلڈ کم ہو جاتا تو اس کے ناک اور منہ سے خون بہنے لگتا ۔ ہر چار دن بعد بلڈ اور وائٹ سیل لگوا کر وہ پھر سے ایسے ہی تروتازہ ہو جاتا جیسے اسے کوئی بیماری نہ ہو۔ اپنے علاج کے لیے ضیا راولپنڈی جانے کی تیاریاں کرنے لگا ۔ اسے صبح پانچ بجے راولپنڈی کے لیے روانہ ہونا تھا ۔ ضیا کی امی ضیا کے لیے نئی پینٹ شرٹس اور ٹرائوزر خرید کر لائی تھیں۔ وہ ہر رنگ اور ہر لباس میں شہزادہ ہی دکھتا تھا۔ آخری لمحے اس نے اپنے موبائل پر اپنے گھر کے ہر کونے اور ہر در ودیوار کے پاس کھڑے ہو کر اپنی تصویریں بنائی تھیں۔ چھ فٹ کا نوجوان جب اپنی ماں کے گلے لگا تو اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر آئیں جیسے کہہ رہی ہوں ''ماں میں ضرور لوٹ کر آئوں گا'' اور اپنی پینٹ کی جیب میں موجود تمام پیسے نکال کر اپنی ماں کو پکڑا دیے کہ یہ کسی غریب کو دے دیجیے گا ۔ تو جب اُس کی امی نے کہا کہ بیٹا کچھ جیب میں رکھ لو ضرورت پڑ سکتی ہے تو اُس نے جواب دیا کہ مجھے اب ان کی ضرورت نہیں۔ اپنے بھائی اور بہنوں سے مل کر وہ پُروقار انداز سے چلتا ہوا گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور آج جب اُسے ایمبولینس سے نکالا جا رہاتھا اُس کا آکسیجن سلنڈر پہلے سے کمرے میں سیٹ کر دیا گیا تھا ۔ اُس کے سٹریچر کو ایک طرف سے اس کے تایا زاد یا سر اور دوسری طرف سے ماموں زاد شکیل نے اٹھایا تھا۔ پورا خاندان بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس کے استقبال میں کھڑا تھا اور وہ اپنی پوری آنکھیں کھول کر سب کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس کو ہر ممکن حد تک جراثیموں سے بچانا ہے۔ اس کے پاس ہر کوئی ماسک پہن کر جائے اور لوگوں کا ہجوم اس کے گرد جمع نہ ہونے پائے لیکن ضیا ہر کسی سے ملنا چاہتا تھا، ہر کسی کو دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ سب مناظر دیکھ کر صبا کا دل تڑپ اٹھا تھا کہ ضیا ہم نے تمہیں ایسے تو نہیں بھیجا تھا۔ تم تو اپنے قدموں پر چل کر گئے تھے تمہیں تو ٹھیک ہونے کے لیے بھیجا تھا۔ آج تم کس حالت میں واپس آئے ہو۔ صبا نے کتنا رو رو کر اسلام آباد اقصیٰ کو فون کیا تھا کہ ضیا بھائی کو واپس ضرور لے کر آنا۔ اقصیٰ آج ضیابھائی کو لے آئی تھی لیکن یہ وہ والا ضیا بھائی کب تھا جو کسی کو کرکٹ میچ جیتنے نہیں دیتا تھا جو ہر کسی کو لاجواب کر دیتا تھا۔ آج وہ کتنا بدل گیا تھا۔ اس کی سانسیں اُسے دغا دے رہی تھیں اور ضیا کی امی مسلسل رو رہی تھیں۔ سب رشتہ دار انھیں حوصلہ دے رہے تھے۔ وہ سب کو بتا رہی تھیں کہ وہ کن کن حالات کو سہہ کر آج گھر واپس آئی ہیں۔ ضیا کی زندگی بچانے کے لیے اُسے CMHہسپتال داخل کرایا گیا تھا۔ اُسے Last life saving injection لگائے گئے تھے۔ تب اُس کی زندگی کی بہت امید تھی ۔ انجکشن کا کورس پورا ہونے کے بعد ڈاکٹر نے کہا تھا کہ آپ ابھی اسے واپس فیصل آباد نہیں لے جا سکتے۔ اسے ابھی اسلام آباد میں رکھیں اور ہر جمعہ اور سوموار اس کا چیک اَپ کروائیں۔ ضیا کے امی ابو نے اسلام آباد گھر کرائے پر لے لیا اور دن رات ضیا کی زندگی بچانے کی کوششوں میں لگ گئے۔ ضیا آہستہ آہستہ صحت یاب ہونے لگا ۔ وہ اپنی امی اور بہنوں سے بے پناہ پیار کرتا تھا۔ اس کی امی اس کی فرمائش کے کھانے بناتی رہتیں اور وہ اُن سے ہنسی مذاق میں مصروف رہتا اور بار بار ایک ہی سوال پوچھتا کہ امی ابوآپ اپنے بچوں میں سب سے پیارا کون لگتا ہے اور اُس کی امی ہر بار کہتیں مجھے ضیا سب سے زیادہ پیارا لگتا ہے اور وہ معصوم بچے کی طرح خوش ہو جاتا۔ پھر ایک رات اُسے شدید بخار ہوا اور اُسے دوبارہ ہسپتال داخل کرا دیا گیا ۔ ضیا کے ابو اور تایا ابو سارا سارا دن اپنے بوڑھے وجود وں کا وزن اٹھائے اپنے جوان بیٹے کی سانسیں بڑھانے کی فکر میں لگے رہتے۔ قطرہ قطرہ زندگی جمع کرنے کی دُھن انھیں مزید بوڑھا کرتی جا رہی تھی۔ ہر وقت کرکٹ کھیلنے والا ضیا زندگی اور موت کی بازی کھیلتا رہا اور اُس کے حوصلے ہمیشہ سب کو حیران کرتے رہے۔ جب اسے ۱۰۵ بخار ہوتا تو وہ تھرمامیٹر ہلا کر ٹمپریچر گِرا دیتا تاکہ اُس کے ابو پریشان نہ ہوں اور اپنے بھائی عطا سے کہتا کہ ابو کو ہسپتال نہ آنے دیا کرو مجھ سے ابو کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔ اُس کا سارا بدن تکلیف سے تڑپتا لیکن وہ چہرے سے مسکراہٹ سجا کر میں ٹھیک ہوں کہتا رہتا۔ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹ کربھی اسے اپنے گھر کی فکر لگی رہتی۔ عطا کو فیصل آباد فون کرتا کہ اے سی کی ٹیوننگ کروا لینا ۔ کبھی فون کرتا کہ صفائی والی سے کہناکہ وہ بیسن کے اوپر لگی ٹائیلوں کو ہاتھ نہ لگائے نہیں تو وہ گر جائیں گی۔ ضیا باہر سے شیر کی مانند دکھائی دیتا جیسے اُسے کوئی دکھ چھو کر نہیں گزرا۔ اُس کی ظاہری وجاہت دیکھ کر ڈاکٹر حیران رہ جاتے کہ یہ کیسے بیمار ہو سکتا ہے ۔ سینئر ڈاکٹر اُسے دیکھ کر رو پڑتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس جان لیوا بیماری سے کوئی نہیں بچ پایا لیکن ضیا کا ایمان کبھی نہیں ڈگمگایا تھا۔ ضیا پر امید تھا کہ وہ ایک دن ضرور ٹھیک ہو جائے گا اور اپنے گھر فیصل آباد جائے گا وہ بڑی سے بڑی تکلیف کو معمولی سمجھتا اور بہادری سے جھیل جاتا۔ اُس کے بہن بھائی کزن پورا خاندان اُسے فون کرتے ، Messageپر دعائیں دیتے اور وہ ہر پل اپنی امی اور چھوٹی بہن اقصیٰ کے ساتھ ہنسی مذاق میں مصروف رہتا ۔ ضیا کے ابو اور تایا ابو روز بروز جیسے بوڑھے ہوتے جا رہے تھے۔ اُن کی نمازیں اور سجدے کچھ طویل ہو گئے۔ اُن کے بدن سے یہ آہیں اُبھرتی تھیں کہ وہ جوان بیٹے کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا نہیں سکیں گے۔ ایک دن وہ دونوں ضیا کے ساتھ ہسپتال کے دروازے پر کھڑے تھے۔ضیا کے قدم لڑکھڑانے لگے اور چھ فٹ کا ضیا ایسے نیچے گرا جیسے ایک خوبصورت دروازے کو گُھن اندر ہی اندر سے کھا کر یکدم گرا دیتا ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ضیا کے گردے ختم ہو گئے ہیں۔ضیا کے جگر میں سوزش ہو گئی ہے۔ اگلے دن ضیا کے پھیپھڑے جواب دے گئے اور اسے آکسیجن لگ گئی۔ آئی سی یو میں مشینوں پر مصنوعی سانس لیتے ہوئے بھی ضیا پورے ہوش و حواس کے ساتھ ہر دکھ جھیلتا رہا۔ سب کے دل تو تب دہل گئے جب ڈاکٹر نے کہا کہ یہ تین دن ضیا کے لیے بہت اہم ہیں۔ اگر یہ تین دن ضیا بیماری سے لڑ گیا تو یہ خطرے سے باہر آ جائے گا نہیں تو کوئی ایک لمحہ بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ آپ ذہنی طو رپر کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں اور صرف دعا کریں ۔ جب ڈاکٹر دوا سے دعا پر آ جائیں تو سمجھیں زندگی ہار چکی ہوتی ہے۔ اپنی پوری متاع حیات الٹتے دیکھ کر بھی ضیا کے ابو کے حوصلے پست نہ ہوئے اور انھوں نے ڈاکٹر سے کہا کہ آپ علاج کریں مجھے اپنے رب پر پورا بھروسا ہے۔ میرا رب مجھے خسارے والوں میں شامل نہیں کرے گا۔ وہ ساری ساری رات ضیا کے سرہانے کھڑے ہو کر گزار دیتے۔ ایک دن ضیا اپنے ابو سے کہنے لگا کہ ابو میرے ساتھ لیٹ جائیں تو ضیا کے ابو کہنے لگے کہ ضیا تم تو مجھ سے بھی لمبے ہو میں تمہارے ساتھ لیٹا ہوا اچھا نہیں لگوں گا تو ضیا نے کہا کہ وہ سامنے والے بیڈ پر بھی تو مریض کے ساتھ اس کے ابو لیٹے ہوئے ہیں تو ضیا کے ابو نے کہا کہ وہ تو بچہ ہے تو ضیا کہنے لگا کہ ابو میں بھی تو آپ کا بچہ ہوں۔ ضیا کے ابو نے ضیا کے ساتھ لیٹ کر اسے پیار کیا ۔ ضیا کی حالت دیکھ کر اس کی امی کا دل دہل گیا۔ پورا خاندان دعائوں کے پلندے باندھ کر آسمان کی طرف اچھالتا رہا۔ ضیا کی زندگی ہر رنگ میں مانگی گئی۔ آنسوئوں سے، آہوں سے، صدائوں سے ، دل سے، چیخ کر، پکار کر، کعبہ کا طواف کر کے، صدقے دے کر، خیرات کر کے، غرض کہ کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ ضیا کے بہن بھائیوں کو فیصل آباد فون کر دیا گیا کہ آ کر آخری بار ضیاکو مل جائیں۔ ضیا کے بہن بھائی اسلام آباد پہنچ گئے۔ بے ہوش ضیا کو دیکھ کر وہ درودیوار کو پکڑ کر روتے رہے۔ کوئی بھی تو اس قابل نہ رہا تھا کہ کسی دوسرے کو کوئی دلاسا دے پاتا لیکن اسلام آباد سے واپسی پر ضیا نے اپنے ابو کو بڑی امید اور حوصلے سے کہا تھا کہ ابو ضیاالرحمن کا مطلب تو رحمن کی روشنی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی روشنی کو کبھی نہیں بجھائیں گے۔ ضیا کو کچھ نہیں ہو گا اور آخر کار خطرے کے تین دن ٹل گئے اور ضیا کو ہوش آ گیا ہوش میں آتے ہی ضیاالرحمن نے فیصل آباد جانے کی رٹ لگا دی لیکن اس کی سب ٹیسٹ رپورٹیں اس کی موت کی خبر سنا رہی تھیں۔ ضیا ہسپتال کے بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اپنے کزن یاسر سے کہا جائو جا کر ڈاکٹر کو بتا دو کہ ضیا الرحمن اپنے قدموں پر چل رہا ہے۔ آپ اسے ہسپتال سے چھٹی دے دیں۔ ضیا ہر صورت اپنے گھر جانا چاہتا تھا۔ اس کی ضد سے مجبور ہو کر جب ضیا کے ابو نے ڈاکٹر سے کہا کہ ضیا گھر جانے کی ضد کر رہا ہے تو تمام ڈاکٹرضیا کی رپورٹیں ہاتھ میں پکڑے جمع ہو گئے اور ضیا کے امی ابو کو بلا کر کہا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کر لی ہے لیکن ہم ضیا کو نہیں بچا پائے۔ اگر ضیا کی گھر جانے کی خواہش ہے تو آپ اسے لے جائیں۔ ضیا کی رخصتی پر تمام ڈاکٹر اور ہسپتال کا عملہ رو پڑا اور آج ضیا اپنے گھر آ چکا تھا ۔ چہرے پر آکسیجن ماسک چڑھائے مشکل سے سانس لیتے ہوئے وہ سب کو تک رہا تھا۔ اس کا گلا بالکل بند ہو چکا تھا۔ کمرے کی گھڑی رات کا ایک بجا رہی تھی۔ سب رشتہ دار صبح سویرے دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ اسی دوران صبا منہ پر ماسک چڑھائے اپنے لاڈلے بھائی سے ملنے کمرے میں داخل ہوئی۔ تو ضیا نے اپنی بہن کو دیکھتے ہی منہ سے آکسیجن ماسک اتار دیا۔ اس کی آنکھوں میں ایسی حسرت تھی جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ میں اس گھر کو اور تم سب کو دیکھے بغیر کیسے مر جاتا۔ صبا بہت ساری باتیں سوچ کر کمرے میں داخل ہوئی تھی لیکن ضیا کی حالت اور اُس کی آنکھوں کی حسرت دیکھ کر وہ ساکت کھڑی رہ گئی بڑی مشکل سے اس نے کہا ضیا ماسک لگالو ۔ تمہیں سانس نہیں آ رہا۔ ضیا نے فوراً ماسک لگا لیا۔ ضیا بستر مرگ پر لیٹے ہوئے بھی زندگی کے حسین خواب دیکھ رہاتھا۔ اس کے کمرے کے ٹی وی پر کرکٹ میج لگا تھا۔ وہ کبھی اُٹھ کر صوفے پر بیٹھ جاتا اور کبھی شہزادوں کی طرح بیڈ پر لیٹ جاتا اور اپنے کزن یاسر سے کہنے لگا کہ صبح جلدی آ جانا اور مجھے لیپ ٹاپ لا دینا۔ ضیا بڑی بڑی گاڑیوں اور خوبصورت گھر کے خواب دیکھتا تھا ۔ وہ ہر وقت اپنے گھر کو سجانے سنورنے میں لگا رہتا تھا۔ ابھی تو اس کی زندگی عروج پر تھی ۔ وہ اس گلاب کی مانند تھا جو کھلنے کو بے تاب تھا۔ ابھی تو اس نے جوانی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تھا۔ اس کی بڑی بڑی نوشیلی آنکھیں، گلابی ہونٹ، چوڑا سینہ اور معصوم چہرے پر ہلکی سے داڑھی اسے اور بھی خوبصورت بنا دیتی تھی۔
رات کا ایک بج چکا تھا جب ضیا کی امی نے کہا کہ اب سوجائو تین بجے سحری کے لیے بھی جاگنا ہے۔ ابھی سب سو رہے تھے کہ ضیا پونے تین بجے نیند سے جاگ گیا جیسے وہ سب سے پہلے سحری کر لینا چاہتا ہو او راپنی امی سے کہا کہ مجھے جوس لا دیں ۔ جب ضیا کی امی جوس لائیں تو وہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ سے جوس پینے لگا۔ ابھی ایک گھونٹ باقی تھا کہ اس کے ہاتھ کپکپانے لگے۔ ضیا کی امی نے فوراً اس کے ہاتھ سے گلاس پکڑ لیا اور ضیا پیچھے کی طرف بستر پر گر گیا، اسی لمحے ضیا کے ابو نے ضیا کے بہن بھائیوں اقصیٰ، صبا اور عطا کو آوازیں دیں کہ جلدی اٹھو تمہارے بھائی کو سانس نہیں آ رہا ۔ سب ضیا کے گرد جمع ہو گئے۔ اونچی اونچی آیات، سورتیں اور کلام پاک کی تلاوت کرنے لگے۔ ضیا کو فوراًاٹھا کر گاڑی میں ڈالا۔ چھ فٹ کا شیر جتنا ضیا کسی سے بھی اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔ ضیا کے ابو، کزن شکیل، بڑا بھائی عطا اور تایا ابو شاہد اُسے ہسپتال لے گئے۔ ضیا کی امی اور بہنیں قرآن پڑھنے لگیں ۔ پوری مسلم امہ سحری کھا کر فجر کی نماز ادا کر رہی تھی۔ سارا خاندان نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر ضیا کی زندگی مانگ رہا تھا۔ اسی لمحے ضیا نے ہسپتال کے بستر پر پوری آنکھیں کھول دیں۔ ایک نظر بھر کر اپنے ابو کی طرف دیکھا یکدم اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور نور ابھر آیا تو ضیا کے ابو نے چیخ کر کہا ضیا نے آنکھیں کھول دی ہیں۔ اب میرے بیٹے کو آکسیجن ملنے لگی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ضیا نے منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں ۔ چھ اگست کا سورج طلوع ہو رہا تھا اور عبدالصمد کے گھر کا سورج غروب ہو گیا۔ ضیا کے ابو کہہ رہے تھے او میرے شیرا آنکھیں کھول میں گھر جا کر تیری ماں کو کیا جواب دوں گا۔ ضیا کی امی کو ہارٹ اٹیک ہو گیا جب ضیا کی موت کی خبر سنائی گئی تو ہر زبان ضیا کے لیے دعا میں مصرو ف تھی۔ ضیا کے خوبصورت گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ ضیا کی چار پائی لا کر صحن میں رکھ دی گئی ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ضیا کے گھر کی دیواریں بھی جیسے ماتم کر رہی تھیں۔ دیواریں بھی جیسے خون کے آنسو بہا رہی تھیں جن پر یہ شہزادہ بچپن میں ننھے ننھے ہاتھوں سے چھوٹی چھوٹی گاڑیاں چلایا کرتا تھا۔ ایسے معلوم ہورہا تھا کہ وہ سب ضیا کے ساتھ ہی مر جائیں گے۔ ضیا کی امی، ابو، بھائی، بہنیں اسے مسلسل پکار رہے تھے۔ اُن کی چیخ پکار دل دہلا رہی تھی کہ کوئی ہمارے ضیا بھائی کو جگا دے۔ ضیا صرف ایک بار اُٹھ جائو ضیا کے ابو کہہ رہے تھے۔ اٹھو ضیا جوس پی لو! اٹھو میرے شہزادے تمہارے کسٹرڈ کھانے کاٹائم ہو گیا ہے! سارے پنکھے چلا دو میرے بیٹے کو بڑی گرمی لگتی ہے! میرے شیر مجھے معاف کر دینا میں تمہیں موت سے نہیں بچا سکا! اسی صحن میں ضیا کا جسدِ خاکی پڑا تھا جہاں سات ماہ پہلے ضیا کے بڑے بھائی عطاالرحمن کی منگنی کا فنکشن کیا گیا تھا۔ ایسے ہی سارا خاندان جمع تھا تب بھی سب کی خوشی اور نگاہوں کا مرکز صبا کا بڑا بھائی تھا اور آج بھی ہر اشکبار آنکھ کا سبب صبا کا چھوٹا بھائی تھا۔ ایک ہی ماں باپ سے جنم لینے والے دونوں بھائی کیسی کیسی قسمت لائے تھے۔ ایک کی خوشیوں کی سیج سجی تھی تو ایک کی صف ماتم بچھی تھی بالکل ایسے ہی جیسے کچھ پھولوں کی پتیاں گلے کا ہار بنتی ہیں اور کچھ قبروں کا مصرف۔ ضیا کے آخری سفر کے لیے اسے آبائی گائوں لے جایا گیا۔ چھ اگست کی شدید گرمی، رمضان کا پانچواں روزہ اور ضیا کی موت کا صدمہ پورے گائوں میں جیسے قہر ہی تو مچا تھا۔ ضیا کو دفنانے کی تیاریاں ہونے لگیں ۔ ضیا کے ابو مسلسل دعا کر رہے تھے کہ یا اللہ! میرے بیٹے کے مہمان آئے ہیں رحمت فرما دے ابھی ضیا کا جنازہ پڑھایا جا رہا تھا کہ آسمان پرگہرے بادل چھا گئے۔ پہلے صرف ضیا کی چارپائی پر پھوار پڑی اور پھر اتنے زوروں کی بارش ہوئی ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان پر ضیا کے استقبال کے جشن منائے جا رہے ہیں۔ ضیا کے لیے مانگی گئی دعائیں اس کی آخرت کے لیے آسانیاں بن گئی تھیں۔ضیا کو لحد میں اتار کر لوٹتے ہوئے ضیا کے ابو کہہ رہے تھے ضیا ''دیکھ ہماری بے وفائیاں'' اور کائنات کا ہر ذرہ کہہ رہاتھا کہ جب اولاد کے کندھوں پر والدین کے جنازے جاتے ہیں تو اس کا نام زندگی ہے اور جب بوڑھے ماں باپ کے کندھوں پر جوان اولاد کے جنازے جاتے ہیں تو اس کا نام موت ہے۔٭٭