عارفہ شمسہ
بکھری بکھری یادیں

سروش، سعید مغل، سیمامغل، نوید مغل(امداد کی بھانجی،اس کے شوہر اور بیٹا) اور میں واشنگٹن ڈی سی گئے وہاں میری دوست صفیہ کاظم اورشہناز عزیز وائس آف امریکہ سے منسلک ہیں ، شہناز ایرپورٹ پر لینے آئی ہوئی تھیں، میں ان کی محبت اور خیال رکھنے کے والہانہ انداز کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی وہ اور ان کے شوہر عزیز ان کے بچے سب ہی میرے دل کے قریب ہیں،ہم صفیہ کے گھر اترے ، جنہوں نے ا پنی سہولت کے سبب اپنے دفتر کے پاس گھر لیا ہوا ہے، صفیہ کا تعلق ریڈیو کی نسبت نہیں بلکہ ہمارے بہت گہرے گھریلو مراسم ہیں۔ ان کی والدہ زاہدہ آپا (بیگم خلیق الزماں ) کی نہایت عزیز دوست تھیں ، زاہدہ آپا کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی ناہید خلیق الزماں نے اپنے آخری ایام صفیہ کے ہاں گزارے ، صفیہ کی بڑی بہن بجو(ڈاکٹر زہرہ کاظم) اور خاص طور پر صفیہ کی بیٹی مونا سے ان کو بہت لگائو تھا ، ہاں تو جناب ہمارے پہنچنے سے پہلے حشمت بھائی وہاں موجود تھے جو کینیڈا سے یہ پتہ چلنے پر کے میں آرہی ہوں،آ گئے تھے ، عرصہ بعد ان کو دیکھ کر ناقابل بیان خوشی ہوئی، حشمت بھا ئی کراچی یونیورسٹی میں سوشیالوجی میں ایم اے کرنے کے بعد آنرز کے اسٹوڈنٹس کو پڑھانے لگے تھے، گھریلو تعلقات تھے ان کے بڑے بھائی علی ساجد نقوی کو ہم بڑے بھیا کہتے تھے، بڑا وضع دار خاندان تھا، ایک بہن نایاب ہم سب کو بہت پیاری تھی، ان کے والد نے مجھے بیٹی کہا تو نبھایا بھی، بڑے بھیا اپنے بڑے جوان بیٹے باقر رضاکے ایکسیڈنٹ سے ہونے والی موت کے بعد ہِل ہی نہ پائے، ان کے ماشاء اللہ چار بیٹوں کے بعد اب تین بیٹے ہیں ، کئی سال پہلے نایاب بیماری کی نذر ایسی ہوئی کہ اسے بھی اللہ نے اپنے پاس بلالیا، پھر بھابی بھی چٹ پٹ ہوگئیں ، ہمارے یونیور سٹی کے زمانہ میں ہی حشمت بھائی اسکالر شپ پر کینیڈا گئے تھے، جو وہیں کے ہورہے۔ وہاں شادی بھی کرلی بیوی کینیڈین تھیں ،دو بچے ہیں ، بیگم سے علیحدگی ہوگئی ، چند سال پہلے کویت کی خاتون عزیزہ سے نکاح کیا، یہ دونوں ہم کو واشنگٹن میں ملے تو سمجھ لیں کتنی خوشی ہوئی ہوگی، ویسے تو صفیہ کاظم نے براڈکاسٹر ہونے کا پوراپورا ثبوت دیا تھا اور تمام دوست احباب کو ہمارے آنے کی خبر کردی گئی تھی، وہاں زاہدعلی بابر ، اقبال زبیری بھی موجود تھے جوطویل عرصہ سے وہاں ہیں ، زاہد ،ایک بھائی ایک بہن، محمودہ اپنے والد کے ساتھ کراچی میں ناظم آباد ہی میں رہتے تھے۔ میری محمودہ سے بھی دوستی تھی۔ محمودہ نے بھی بڑی قربانیاں دیں۔ ہم بہت اچھے دوست تھے، زاہد اور اقبال دونوں اب واشنگٹن میں اسپرنگ فیلڈ میں جہاں شہناز عزیز ہیں وہیں اقبال اور زاہد بھی رہتے ہیں ،زاہد علی بابر کراچی یونیورسٹی المنائی کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ انہوں نے امریکہ اور کینیڈا میں کراچی یونیورسٹی کے طلباء کے لئے زبر دست پلیٹ فارم مہیا کیاہے۔زاہد بابر اوراقبال زبیری سے میرا بڑا دیرینہ اور قلبی تعلق ہے، ہم لوگوں کے آپس میں خاندانی مراسم رہے ، جمیل زبیری (نامور ادیب، کنٹرولر ریڈیو پاکستان) اور معین زبیری، بہنوں میں نسیمہ آپا، میری ساتھی شمسہ ،اور ثریا۔سیما(اس کی بیگم)شادی سے قبل سے ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ہم نے ساتھ پڑھا ہے، بی اے آنرز، ایم اے تک ساتھ آتے جاتے رہے ، یہ اس وقت کی بات ہے جب کراچی یونیورسٹی نئی نئی بن رہی تھی۔مشن روڈ سے شفٹ ہوکر اب جس جگہ ہے منتقل ہورہی تھی، گلشن اقبال ایرو کلب تک ہم پیدل آتے، باتوں میں نہ فاصلوں کا پتہ چلتا نہ وقت کا،کراچی یونیورسٹی ، شہر سے بارہ میل پرے ہے۔ ایک البیلی بستی یونیورسٹی، جہاں گزارے زندگی کے انمول برسوں پرجتنا بھی لکھوں کم ہے۔
خانم گوہر اعجاز ،ایک نامور شخصیت بھی اس زمانے میں صفیہ کے پاس آئی ہوئی تھیں ، ان سے بہت باتیں رہیں۔ کراچی یونیورسٹی المنائی کی طرف سے ڈنرپر بلایا گیا۔ ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِمدیحہ میری پیاری سی دوست نیر محمود کی صاحبزادی بھی شادی ہوکر واشنگٹن گئی تھیں وہ اور ان کے شوہر کاشف بھی ملنے آئے، کل کی بات لگ رہی تھی کہ نیرّ نے فون پر کہا تھا کہ مدیحہ کا گرینچ یونیورسٹی میں داخلہ ہونا ہے ، مجھے یادہے امداد اسلام آباد سے فلائی کرکے کراچی گئے اور کمال میاں (امداد کے بھانجے) سے کہہ کر فوری طور پر داخلہ کروایا تھا،وقت کس قدر تیزی سے گزر گیا ۔نیلوفر عباسی اور قمر علی عباسی صاحب کا فون آگیا کہ نیویارک آجائو، میں صرف تین ہفتوں کے لئے پاکستان سے نکلی تھی، پہلے عمرہ کیا، پھر لندن گئی، اپنی جیٹھانی نسیمہ بھابی، ان کے بیٹے وجاہت علی ، صباحت علی ،راحت علی اور بہت چاہنے والی پیاری سی بیٹی شینل جو اب ماشا ء اللہ تین بچوں کی ماں ہے کے پاس رہی۔ بھابی جو خود بہت اچھی شاعرہ ہیں بہت محبت کرتی ہیں ، وجاہت کی نئی نئی شادی پیاری سی بچی ردہ سے ہوئی تھی،لندن میں میری بات فون پر صاحب قزلباش سے ہوئی، وہ بیمار تھیں کہنے لگیں ابھی تم نہ آنا مجھے انجکشن لگنا ہے میری فلائٹ تھی میں نے ان سے کہا کہ انشاء اللہ اگلی دفعہ آپ سے ملوں گی، اب تو میں صفیہ کے پاس جارہی ہوں ، ہنس کر اپنے منفرد انداز میں بولیں ارے تم دونوں تو میری باتیں کروگے، میں نے کہا ہاں غیبت کریں گے، مجھے کیا معلوم تھا کہ میں صفیہ کے پاس ہی ہوں گی جب وہ ہمیں چھوڑ کر سدھار چکی ہوں گی، میں اور صفیہ لیٹے باتیں کر رہے تھے کہ ان کے بھانجے کا فون آیا۔ صاحب ہم سے جداہوگئیں ، واہ صاحب واہ، غیبت کا بھی موقع نہ دیا۔
٭٭٭٭