مخدوم الطاف حسین اویسی
اسسٹنٹ پروفیسر،پوسٹ گریجویٹ کالج، خانیوال

قومی و صوبائی زبانیں اور خود ساختہ تضادات

زبان کسی بھی قوم کی تہذیب وثقافت یا تمدن کی روح ہوتی ہے۔ اسی میں بزرگوں کے اقوال، مفکروں کے افکار اور نظریاتی اساسات پوشیدہ ہوتی ہیں۔
اردو زبان کے خلاف یورپ بشمول انگریزوںنے اپنی سامراجیت کو مسلط کرنے کے لیے ایک زبردست سازش بین الاقوامی لسانی پالیسی کے تحت کی جو کہ کامیاب ہوئی۔ برصغیر کے مسلمانوں کے علاوہ مسلم امہ من حیث القوم اس کا ہدف بنی اور یوں اس سازش کے ذریعے دنیا کی ایک تہائی آبادی کی تہذیب وثقافت کو گدلا کردیا گیا۔ عملی اور تحقیقی طورپر پورے برصغیر میں صرف علامہ اقبال نے نہ صرف اس سازش کا ادراک کیا بلکہ ایسی مزاحمت کی کہ یورپ چیخ اُٹھا کہ اقبال کا پیغام جارحانہ ہے۔ ہماری اکثریت ابھی تک اس سازش کے سحر میں گرفتار ہے اور اس سازش نے خود ساختہ تضاد کوجنم دیا۔ جس کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور ملک کی سا لمیت کے حوالے سے نظریاتی اساسات کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ ملک کو انتشار اورانارکی سے بھی بچایاجاسکتا ہے۔
انگریزوں نے اپنی سازشی لسانی پالیسی کے حوالے سے آریا نسل کا خود ساختہ اور بے بنیاد تصور گھڑا اور اسی نسل کے لیے سنسکرت زبان جو کہ مردہ تھی کے تن مردہ میں روح ڈال کر اس کے ساتھ مخصوص کردیا۔ تحقیقی وتاریخی طورپر آریا نسل کا وجود ثابت نہیں جبکہ سنسکرت زبان البیرونی کے دور سے پہلے یعنی گیارہ سو سال قبل مردہ ہوچکی تھی۔ اس طرح پوری دنیا کو گمراہ کیا گیا اور اس جھوٹے نظریے اور تصور پر خود ساختہ اور من گھڑت تحقیق کو بروئے کار لایاگیا۔ سنسکرت زبان وادیٔ سندھ کی قدیم زبان سے مصنوعی طورپر اخذ کی گئی تھی۔ جسے ہندوستان کے باشندے بڑے عرصے سے ہندی زبان کے نام سے موسوم کرتے چلے آرہے ہیں۔ جس کا جدید روپ اردو ہے۔ وادیٔ سندھ کی قدیم زبان اور موجودہ اردو اپنی ہیئت میں سامی النسل زبان ہے۔ قدیم دور میں یہی زبان پورے ہندوستان کی لنگوافرینکا تھی اور اب بھی لنگوافرینکا ہے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق اپنی تصنیف قواعد اردو کے صفحہ نمبر۳ پر لکھتے ہیں ''بیرونی زبانوں کا اثر صرف اسماء وصفات پر ہوا ہے ورنہ زبان کی بنیاد یہیں کی زبان پر ہے۔ تمام حروف فاعلی ومفعولی ۔اضافت نسبت ربط وغیرہ ہندی ہیںـ'' ہندی زبان کے ساتھ خوشہ چینی کرنے والی زبانیں قدیم سومیری ، زند اوستا، سنسکرت، یونانی، عربی، ترکی اور جدید فارسی ہیں۔ ان میں سے کئی سرکاری زبانیں بھی بنیں۔ مگر وقت کی دھول میں اپنی افادیت کھوبیٹھیں اور ہندی زبان (اردو) خود روپودے کی طرح نشوونما اور ترقی پاتے ہوئے آج اردو کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔اس کی ترقی ونشوونما کا تسلسل صدیوں ہی نہیں کئی ہزارسالوں پر محیط ہے اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔اردو زبان کی ترقی ونشوونما میں غالب حصہ مقامی زبانوں کا ہے۔اس کے علاوہ عربی وفارسی زبانوں نے بھی اس پر بہت گہرا اثرڈالا ہے۔ ہندی زبان کبھی اپ بھرنش کہلائی۔ اس سے آگے کے زمانے میں اس کو وی بھاشا، وی بھرشٹ کا نام دیا گیا۔ ویدوں کے زمانے میں یہ اسر بھاشا کہلاتی تھی۔ ویدوں سے بھی آگے کے زمانے میں اسی زبان کو سومیر(عراق) میں سوبیری زبان کے نام سے یادکیاجاتا تھا اوریہ زمانہ۳۵۰۰قبل مسیح کا ہے۔ یعنی ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے یہ اس وقت بھی مکمل زبان تھی۔
یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنا نسلی تفاخر توعربوں ترکوں اورایرانیوں سے جوڑیں مگر زبان کی بنیاد سنسکرت کو قراردیں؟۔ مذکورہ نظریہ آریا نسل اور ان کی زبان سنسکرت جوانگریزوں کا دان کیا ہوا ہے کو اپنی حرز جان بنالیں اورانگریزوں کی دی ہوئی روش پر چلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیں۔ ایسے میں ہم دو قومی نظریے یا نظریہ اسلام یا اپنی خالص تہذیبی وثقافتی اساسات کا تحفظ کیسے کرسکتے ہیں اور ان کو کیسے اپنا سکتے ہیں؟
عین الحق فرید کوٹی اپنی تصنیف اردو زبان کی قدیم تاریخ کے صفحہ نمبر۵۸ پر بیان کرتے ہیں کہــ''انیسوی صدی کے اوائل میں بعض ماہرین لسانیات نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ برصغیر کے شمالی حصے کی زبانیں دراوڑی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن اردو اور پنجابی کا دراوڑی زبانوں کی صرف ونحو اور سرمایہ الفاظ سے اس قدراختلاف ہے کہ اس نظریے کو کوئی وقعت نہیں دی جاسکتی آخر میں یہ نتیجہ نکالا کہ جب تحقیق وتدقیق کے بعد یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ صحیح معنوں میں سنسکرت اور دراوڑی زبانوں میں سے کوئی بھی اردو کی جدامجد قرار نہیںدی جاسکتی۔ توہمارے لیے یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ اردو زبان کا حقیقی سرچشمہ خود وادی سندھ کی وہ قدیم زبان ہے جو کہ آریائوں کی آمد سے قبل رائج تھی'' ماہرین لسانیات کا یہ نتیجہ نہ صرف درست ہے بلکہ تاریخ کے تمام ادوار کے شواہد اس بات یا نظریہ کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کا سب سے زندہ تحقیقی ثبوت یہ ہے کہ حافظ محمود شیرانی مرحوم اپنی تصنیف'' پنجاب میں اردو''(مقدمہ) جلد ج میں بیان کرتے ہیں کہ :
''اردو اپنی صرف ونحو میں ملتانی زبان کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماء کے خاتمے پر الف آتا ہے۔ دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے۔ یہاں تک کہ جمع کے جملوں میں ایک ہی قاعدہ جاری ہے۔ دونوں زبانیں تذکیر وتانیث کے قواعد اور افعال مرکبہ اور توابع میں متحد ہیں'' واضح رہے کہ حافظ محمود شیرانی نے دونوں زبانوں میںساٹھ فی صدسے زائد الفاظ مشترک ہیں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جب بھی پنجاب اور سندھ سے اردو کی تولیت کا دعویٰ کیاجاتا ہے تو ملتانی زبان(سرائیکی زبان) کو ضرور نتھی کیا جاتا ہے۔ ملتانی یا سرائیکی زبان نہ تو جدید پنجابی ماجھی لہجے کاکوئی انگ ہے اور نہ ہی سندھی جدید کے وچولی لہجے کا کوئی حصہ ہے۔ سرائیکی ہی وادیٔ سندھ کی قدیم زبان ہے اور قائم بالذات ایک مکمل زبان کے روپ میں ساڑھے پانچ ہزار سال سے چلی آرہی ہے اور یہی زبان اردو کی جد امجد ہے اور دنیا کی دو ابتدائی زبانوں میں سے ایک ہے اور ملک کے چاروں صوبوں میں بولی جاتی ہے۔
قدیم دور ہو یا عربوں کا دور ہو سعد سلمان سے لے کر گورونانک کا دور ہو۔ گورونانک سے لے کر بلھے شاہ کا دور یا پھر حضرت فرید الدین گنج شکر سے لے کر فقیر قادربخش بیدل(روہڑی سندھ) تک کا دور ہو۔۱۵۷۲ء کی تصنیف خیرالبیان پیر روشاں صوبہ خیبر پختونخوا ۱۶۷۰ء کی صراط مستقیم ازاں شاہ عمادالدین، قرآن پاک کا ہندی ترجمہ۹۱۔۱۷۹۰ء ہو یا مولوی عظیم اللہ بہاری کی منتخب المسائل۱۸۳۵ء کے علاوہ بے شمارلاتعداد دیگرہندوستانی تصانیف میں ہندوستان کی زبان کو ہندی بتایا گیا۔ ہندی زبان پورے ہندوستان کی لنگوافرنیکاتھی ہرجگہ بولی اور سمجھی جاتی تھی اور اسی ہندی پر ملتانی یا سرائیکی زبان کا بڑا گہرا اثر موجود تھا۔ ہمہ قسم مذہبی موضوعات، تصوف کے کلام کے علاوہ کافی، مثنوی، دوہے، کہہ مکرنیاں، مرثیہ، نظم جیسی صنفیں موجود تھیں۔ زبان کا یہ فطری دھارا پورے ملک کی لسانی یکجہتی اور ایکتا کا مظہر بھی تھا۔ زبان کے اس فطری دھارے کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ایک طرف تو کلی مقامیت کواس نے اپنی طرف سمویا ہوا تھا تو دوسری طرف عربی وفارسی زبان کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے بین الاسلامی ادب سے بھی یہ دھارا پوری طرح منسلک تھا۔
دوسری طرف مغلوں کے دور انحطاط میں فارسی گریز رجحانات سے نمٹنے کے لیے ہندی زبان کو فارسی زبان کے قالب میں ڈھالنے کی تحریک چلی ۔ جسے عرف عام میں ''فارسیت کی تحریک'' بھی کہا جاتا ہے۔ تحریک کے بڑے ناموں میں میر عبدالواسع، خان آرزوؔ، شاہ ظہورالدین جانمؔ، میرتقی میرؔ، مرزا غالبؔ، آتشؔ وناسخؔ ہیں۔ انہی بزرگوں میں سے کچھ نے فارسی زبان کے قالب میں ڈھالی جانے والی زبان کے لیے اردو کا نام استعمال کیا۔ اگرچہ مذکورہ بالا بزرگوں نے نیک نیتی سے زبان ہندی میں اصلاحات کا بیڑا اُٹھایا مگر چونکہ مصنوعیت کے عمل کا سہارا لیا گیا تھا۔ خود میر ومرزا نے فارسی زبان کی سنگلاخ زمینوں کو خیرباد کہا۔ فورٹ ولیم کالج کی تحریک نے عربی وفارسی کے ثقیل حصوں کو ختم کرنے کی سعی کی۔ سرسیداحمدخان کی تحریک سلاست نگاری نے عام فہم اور آسان اردو کی طرح ڈالی۔ مصنوعیت کے عمل سے جو فطری تھاوہ تو جذب ہوگیا اور باقی کی ملمع سازی، اجتہادی عمل اور مذکورہ بالا تحریکوں کے نتیجے میں اتر گئی۔ مگر ان بزرگوں کے بعد کے آنے والوں نے خصوصاً دہلی اور لکھنؤ کے دبستان ہائے ادب نے ان اصلاحات کی بناء پر زبان اردو پر اپنی ملکیت کی چھاپ لگا دی اور ساتھ ہی اہل زبان ہونے کا دعویٰ کردیا۔ اس طرح زبان ہندی جس میں چند اصول وتبدیلیاں کرکے اسے اردو کا نام دے دیا گیا۔ اردو نام انیسویں صدی کے پہلے ربع میں رائج ہوا۔ نام اصولوں واصلاحات کی بناء پر زبان اردو پر غاصبیت کا آغاز ہوا۔یہ نیادھارا بھی فطری دھارے کی طرح ہندی سے ہی اخذشدہ تھا۔ زبان کی اس غاصبیت پر رد عمل بہت دیر بعدآیا۔اس غاصبیت پر علامہ اقبال کے فکرانگیزبیانات موجود ہیں۔ فطرت اور مصنوعیت کی چشمک پر علامہ اقبال نے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا جیسا کہ عبدالمجید سالک نے اس اجمال کی تفصیل اپنی تصنیف ''ذکراقبال'' کے صفحات۲۸تا۳۰طبع سوم جولائی۱۹۹۳ء میں پیش کی ہے۔
''علامہ اقبال عام طورپر عروض وزبان کی بحثوں سے بہت گھبراتے تھے اورکہا کرتے تھے مجھے محاورات اور قواعد کے فن کا زیادہ علم نہیں لیکن حقیقت میں یہ محض ان کا انکسار تھا۔ بعض اہل زبان ان کے کلام پر نکتہ چینی کرتے یا اودھ پنج اپنے مخصوص انداز میں ان کی فارسی ترکیبوں یا جدیداسالیب بیان کا مضحکہ اڑاتا تو وہ ٹس سے مس بھی نہ ہوتے بلکہ اپنے نیازمندوں کو بھی اس قسم کی تنقیدوں کا جواب دینے سے منع فرمادیتے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں یہ کیفیت نہیں تھی۔۱۹۰۳ء کا ذکر ہے کہ کسی صاحب نے کسی اخبار میں تنقید ہمدرد کے نام سے اقبال اورناظر کے بعض اشعار پر زبان وفن کی بناء پر چند اعتراضات کیے اس پر اقبال نے ''اردو زبان پنجاب میں'' کے عنوان سے ایک نہایت معقول اور دندان شکن جوابی مضمون لکھا جومخزن اکتوبر۱۹۰۳ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔ چند ابتدائی کلمات کے بعد اقبال نے ایک نہایت کام کی بات کہی جو ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
ہمارے دوست'' تنقید ہمدرد'' اس بات پر مُصر ہیں کہ پنجاب میں غلط اردو کے مروج ہونے سے بہترہے کہ اس صوبے میں اس زبان کا رواج ہی نہ ہولیکن یہ نہیں بتاتے کہ غلط اور صحیح کا معیار کیا ہے۔ جو زبان بہ ہمہ وجوہ کامل ہواور ہر قسم کے ادائے مطلب پرقادر ہو اس کے محاورات والفاظ کی نسبت اس قسم کا معیار خود بخود قائم ہوجاتا ہے۔ لیکن جو زبان ابھی زبان بن رہی ہو اورجس کے محاورات اور الفاظ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقتاًفوقتاً اختراع کیے جارہے ہوں اوراس کے محاورات وغیرہ کی صحت اورعدم صحت کا معیار قائم کرنا میری رائے میں محالات میں سے ہے، ابھی کل کی بات ہے کہ اردو زبان جامع مسجد کی سیڑھیوں تک محدود تھی۔ مگر چونکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے اس میں بڑھنے کا مادہ تھا اس واسطے اس ''بولی'' نے ہندوستان کے دیگرحصوں کو بھی تسخیرکرناشروع کیا اور کیا تعجب ہے کہ تمام ملک اس کے زیرنگین ہوجائے۔ ایسی صورت میں ممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس کا رواج ہو وہاں کے لوگوں کا طریق معاشرت ان کے تمدنی حالات اور ان کا طرز بیان اس پر اثرکیے بغیررہے۔ علم السنہ کا یہ اصول ہے کہ جس کی صداقت وصحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں ہے کہ اس اصول کے عمل کو روک سکے۔ تعجب ہے کہ میز کچہری، نیلام وغیرہ فارسی اورانگریزی کے محاورات کے لفظی ترجمے تو بلا تکلف استعمال کرو لیکن اگرکوئی شخص اپنی اردو تحریر میں کسی پنجابی محاورے کا لفظی ترجمہ یا کوئی پُرمعنی پنجابی لفظ استعمال کرے تو اس کو کفر وشرک کا مرتکب سمجھو اور باتوں میں اختلاف ہو تو ہو مگر یہ مذہب منصوص ہے کہ اردو کی چھوٹی بہن یعنی پنجابی کا کوئی لفظ اردو میں گھسنے نہ پائے۔یہ قید ایک ایسی قید ہے جو علم زبان کے اصولوں کے صریح مخالف ہے اور جس کا قائم رکھنا کسی فرد بشر کے امکان میں نہیں۔ اردو ہی ابھی کہاں کی علمی زبان بن چکی ہے۔ جس نے انگریزی سے کئی ایک الفاظ بازار، لوٹ، چالان وغیرہ لیے ہیں اور بھی روزبروز لے رہی ہے''۔
علامہ اقبال کے مذکورہ بالاخیالات(۱۹۰۳) سن کے ابتدائی دور سے متعلقہ ہیں لیکن ۱۹۳۲ء کے ایک مکتوب میں علامہ اقبال نے تحریر کیا ہے کہ ''اردو کے حوالے سے غالباً پنجاب میں کچھ پرانا مصالحہ موجود ہے اگر اس تک کسی کی رسائی ہوگئی تومؤرخ اردو کے لیے نئے سوالات پید اہوںگے''چونکہ علامہ کا مقصود نظر برصغیر کے مسلمانوں کی بیداری اور مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ تھا اس لیے ایسے تحقیقی امور کی طرف توجہ نہ کی اور اشارہ کردیا۔ سرائیکی زبان درحقیقت شمالی ہندوستان کی تمام زبانوں کی ماں ہے۔ چاہے قدیم دور ہویا جدید دور جیسا کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی گراں قدرتصنیف ''تاریخ ادب اردو'' جلد اول صفحہ نمبر۵''تمہید'' میں جارج گریرسن مؤلفہ لینگواسٹک سروے آف انڈیا کا ایک بیان نقل کیا ہے کہ ''ہندوستان کی تمام نیوآرین زبانیں اپ بھرنش کے بچے لگتے ہیں'' اور بالکل یہی بات ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنی تصنیف ــ''مباحث'' میں البیرونی کی ''الہندیہ''جسے پروفیسرذخائو نے ورنیکلر ہندوستانی کے نام سے مخصوص کیا ہے کے متعلق کم وبیش یہی نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ ورنیکلرہندوستانی نہ صرف تمام نیو آرین زبانوں پر اثر انداز ہوئی بلکہ یہ بھی تحریرکیا کہ لامحالہ اس کا مرکز ملتان وشمالی سندھ ہوگا۔چھٹی صدی ہجری سے لے کر انیسویں صدی عیسوی کے آخرتک دستیاب ہونے والے نثر وشعر کے نمونوںسے خصوصاً شمالی ہندوستان اور جنوبی ہند کے وہ مراکزجن پر مسلمان حکمران تھے نہ صرف حافظ محمود شیرانی کی تحقیق کی نہ صرف تصدیق کرتے ہیں بلکہ اردو قدیم یعنی ہندی زبان پر سرائیکی زبان کے مسلم اثرات کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ گورونانک کا ایک شعرنمونے کے طورپر پیش ہے جو حافظ محمود شیرانی نے ''پنجاب میں اردو'' کے صفحہ نمبر۱۹۵پر دیا ہے۔
کوٹھے منڈپ ماڑیاں باھروں چتویاں
ڈٹھیاںکم نہ آونی وچوں سکھنیاں
الفاظ وتراکیبیں ملتانی یعنی سرائیکی زبان کی ہیں گورونانک کے وقت ادبی زبان کا لہجہ اور معیار یہی تھا۔ ڈاکٹر انور سدید اپنی تصنیف'' اردو ادب کی تحریکیں'' صفحہ نمبر۲۶۶پر رقمطراز ہیں کہ ''اہم بات یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفربرج بھاشا اودھی، ہندی اور پنجابی سے بھی مانوس تھے اور مؤخرالذکر دو زبانوں میں انھوں نے شاعری بھی کی۔ ظفر کے دوہے پنجابی اور اردو کی پیوندکاری کا نمونہ ہیں اور یہ اس اجتہادی عمل کو سامنے لاتے ہیں جو ریختہ کے ابتدائی زمانے میں امیر خسرو نے فارسی وہندی کے امتزاج سے پید اکرنے کی کوشش کی تھی۔ دوہے بطور مثال پیش ہیں۔
گہری گہری کوک تھی پہلے مینڈھے ساتھ
کن دوتا بہکا دیا جو دھر گئے کانن ہاتھ

کوئی نئیں غمخوار اساڈا کھاں کس دے نال
شوق رنگ اپنے رب سوکہیے جوہے اپنا حال
ریختگی کا یہ عمل امیرخسرو کے زمانے سے نہیں بلکہ حضرت فرید الدین گنج شکر کے زمانے سے بھی پہلے کا ہے۔ ایک شعر بطور نمونہ تصنیف ''اردو کی ترقی میں اولیائے سندھ کا حصہ'' ازڈاکٹر وفاراشدی سے گنج شکر رضی اللہ عنہ کا ایک شعر
چو تنہا روی زیر ایہو زمین
نیک عمل کن کہ ایہہ ڈات ہے
ان جیسی سینکڑوں ہی نہیں ہزاروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیںجو کہ سرائیکی زبان کے واضح اثرات کی نشاندہی کرسکتی ہیں۔ پورے ہندوستان بھر بشمول دہلی ولکھنئو میں غزل گوئی جب عروج پر تھی تو علامہ نے اس عمل پر شعر کی زبان میں تنقید کی ۔
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کوخوابیدہ اور بدن کو بیدار

ہند کا شاعر صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بچارے کے اعصاب پر عورت سوار
ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی تصنیف ''مطالعہ اقبال کے چند نئے رخ'' صفحہ نمبر۷۸۔۱۷۷ پر بیان کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کا یہ کہنا ہے کہ میری لسانی عصبیت میری دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں'' ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری کے تہذیبی مزاج پر گفتگو کرتے ہوئے خود ہی اپنے شعر کے مادہ اولی اور اس کے عناصرامتزاجی کا تجزیہ درج ذیل الفاظ میں کردیا ہے کہ ''میری تہذیب مرکب تہذیب ہے اس کی روح عربی ہے مگر اس کا لباس ترک وتاتار خوانسار اوراصفہان نے تیار کیا ہے میں جو اردو لکھتا ہوں وہ میری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے اور میں اس کوچھوڑ نہیں سکتا۔ شان جلالت رعب ودبدبہ اس کے اوصاف خاص ہیں، میں ہندی سے متاثر نہیں ہوں میرے الفاظ کا ذخیرہ عرب سے پھر ثمرقند وبخارا سے ماخوذ ہے''۔(ڈاکٹر سید عبداللہ)
'' اقبال نے ہمیں جو زبان دی یا اسلوب عطاء کیا وہ رومانی وکلاسیکی کا امتزاج سمجھ بھی لیا جائے تو بھی وہ نہ رومانی ہے اورنہ کلاسیکی زیادہ سے زیادہ اسے ہم ایک ایسا طوفان خیز اسلوب کہہ سکتے ہیں۔ جس میں انقلاب پیدا کرنے کی پوری پوری صلاحیت اورتوانائی پائی جاتی ہے جو روایت کے توانا حصے کی ترجمانی کرسکے اور کسی نئے انقلاب کی پیشرفت کا بوجھ اُٹھاسکے'' ۔ (سید عبداللہ)
قدیم وادی سندھ اورموجودہ پاکستان کے ادب میں روایت کے توانا حصہ میں قرآنی الفاظ، قرآنی قصص، آیات واحادیث مبارکہ اوران کی تمثیلات کا حوالہ نظری اساسات کے حوالے سے بکثرت پایاجاتا ہے۔ جس میں اساسی نظریات بحیثیت انسان بطور اشرف المخلوقات، مسلمان بحیثیت مومن، فرد بحیثیت ریاست کے خادم انسان دوستی، مساوات، حب الوطنی اور تہذیبی ایکتا کا تصورجاگزیں ہے۔ جس سے نہ صرف فرد میں مذہبی وتہذیبی شعور کی لہر برآمد ہوتی ہے بلکہ مسلم امہ میں عظیم اتحاد کا جذبہ بھی خود بخود ابھر آتا ہے اور یہ سب کچھ تصوف کی شاعری سے برآمد ہوتا ہے۔ مذکورہ روایت کے توانا حصے کو ہندی زبان سے پہلے فارسی زبان نے اپنایا اوریوں عالم اسلام کی بڑی زبانوں عربی، فارسی، ترکی اورہندی نے تصوف کی اس شاعری کو اپنے اندرسمولیا جس سے نہ صرف ان زبانوں کے درمیان باہمی تال میل اس حد تک بڑھا کہ تصوف کی شاعری عالم اسلام کی مشترک میراث بن گئی اور علامہ اقبال نے ایسی ہی شاعری اور ادب سے بصیرت حاصل کی اور بلاکم وکاست بتادیا کہ ''میرا جو فلسفہ ہے وہ قدیم مسلمان صوفیا وحکماء کی تعلیمات کا تکملہ ہے۔ بلکہ باالفاظ دیگریوں کہنا چاہئے کہ یہ جدید تجربات کی روشنی میں قدیم متن کی تفسیر ہے''۔
( حوالے کے لیے دیکھیں تصنیف ''ولی سے اقبال تک''صفحہ نمبر۱۶۶ ڈاکٹر سید عبداللہ)
تصوف کی شاعری کا بیشتر حصہ سرائیکی زبان میں ہے اورہندوستان بھر میں بولی جانے والی ہندی کے مذہبی لٹریچر پر سرائیکی زبان کے اثرات اساسی نوعیت کے ہیں۔ علاوہ ازیں روایت کے توانا حصے میں ہندی وسرائیکی زبان کے ساتھ ساتھ قدیم وادیٔ سندھ اور موجودہ خطہ پاکستان کے شاعروں نے فارسی زبان میں بیک وقت شاعری کی ہے اور اقبال نے خطہ پاک کی اس روایت کااتباع بھی کیا ہے ۔
انگریزوں نے اپنی لسانی سازشی پالیسی کے تحت زبان کے ان دونوں دھاروں میں اختلاف سے فائدہ اُٹھایا۔ ان دونوں دھاروں میں نہ صرف اختلاف کی وسیع خلیج حائل کی بلکہ ہندی کے فطری دھارے کو اپنی تحقیق وتدقیق میں سرے سے پھٹکنے ہی نہیں دیا کیونکہ اس میں جاندار اور مقصدیت سے پرادب تھا۔ اس میں نہ صرف نظریاتی اساسات موجود تھیں بلکہ اس کا تعلق عالم اسلام کے مشترکہ ادب کی میراث سے بھی تھا جو کہ انگریزوں کے سامراجی نظام کے لیے زہرقاتل تھا۔ جبکہ دوسرے دھارے میں غزل عشقیہ بیان کے لیے جبکہ قصیدہ امراء کی کاسہ لیسی کے لیے مخصوص ہوچکے تھے۔ انگریزوں نے اپنے سامراجی وسازشی عزائم کے تناظر میں زبان کے اس دھارے کی سرپرستی کی ۔ایک طرف تو انگریزوں نے اردو یاہندی کی معاون زبانوں عربی، فارسی اور سرائیکی زبان پر اپنی لسانی پالیسی کے تحت کاری ضرب لگائی بلکہ ہندو مسلم اختلاف کو ثقافت وتہذیب میں سموتے ہوئے ایک نئی زبان ''ہندی'' کی بنیاد رکھ کر زبانوں کو صوبوں کی سطح تک اپنے سامراجی وسازشی عزائم کی بناء پرتقسیم کردیا۔ اس تمہیدی پس منظر کے بعد انگریزوں کی لسانی پالیسی کاجائزہ لیتے ہیں۔
معاہدہ الہ آباد۱۷۶۴ء عیسوی کی رو سے انگریزوں نے ۲۶لاکھ روپے کے عوض بنگال وبہار کی دیوانی حاصل کی۔ اس معاہدے کی رو سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دفاتر وعدالتوں کی زبان فارسی رکھی گئی۔ معاہدے کی لسانی شق کوسرچارلس گرانٹ ایک غلطی قرار دیتا ہے اور۱۷۹۷ء میں کمپنی کاڈائریکٹر بن جاتا ہے۔ اس نے مسلمانوں اورہندوئوں میں روشنی پھیلانے کے لیے یہ فکر انگیز تجویز پیش کی۔
''تاریکی کا اصل علاج ہندوئوں اورمسلمانوں میں روشنی پھیلانا ہے۔ اس کی اشاعت کے دوطریقے ہیں اول علاج خود ان ممالک کی زبان کے ذریعے ہو، دوسرے ہماری زبان روشنی پھیلانے کا ذریعہ قرار دی جائے۔ تعلیم یافتہ افراد کے لیے ایک غیر ملکی زبان کا سیکھنا چنداں مشکل کام نہیں اس کے لیے انگریز معلم ہندوستان کی زبان میں تعلیم دینے کے لیے جلدتیار ہوسکتے ہیں۔ بہ نسبت اس کے ہندوستانی ہماری زبان میں تعلیم پانے کے لیے تیار ہو۔ اس طریقے میں ہمارے لیے نفع کی بات یہ ہے کہ ہم زیادہ احتیاط کے ساتھ انتخاب کرسکیں گے کہ کن چیزوں کی تعلیم دی جائے''۔
( حوالہ مضمون: صوبہ سندھ اورانگریزوں کی لسانی پالیسی مطبوعہ اخباراردو ،مارچ اپریل،۲۰۰۳، صفحہ نمبر۵۰)
مذکورہ بالا بیان سے ظاہر ہے کہ کن چیزوں کی تعلیم دی جائے کہ ڈاکٹرائن کے مطابق اردو اور دیگر زبانوں کی صرف ونحو اور گرائمر پر اولین کتابیں یورپی مصنفین نے لکھیں جیسا کہ جان جوشواکیٹلر، جان شیکسپیئر، گلکرسٹ ، ولیم ٹیٹ، برمی ٹن، پلیٹ ڈاکٹر ٹرمپ، اے جیوکس، سپرنگر، بلومہارٹ، گارساں دتاسی، پینزرجارج گریرسن وغیرہ اور لاتعداد اہل علم انگریزوں نے خود ساختہ ومن گھڑت تحقیق بعینہٖ سنسکرت کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ ہندوستان کی لسانی یکجہتی اورایکتا کو توڑتے ہوئے زبان ہندوستان ہندی کو نہ صرف تقسیم کیا بلکہ اس کا دائرہ کارصوبوں تک پھیلا دیا گیا۔ مذکورہ مضمون سید مصطفی علی بریلوی کے صفحہ۴۷ پر تحریر ہے کہ
''انگریزوں نے فورٹ ولیم کالج بنیادی طورپر اپنے اہلکاروں کی تربیت کے واسطے کلکتہ میں قائم کیا تھا۔ اہلکاروں کی تربیت کے علاوہ فورٹ ولیم کالج قائم کرنے کے درپردہ مقاصد کاسیاسی امور سے بھی تعلق تھا۔ اس کالج کے ذریعے ملک کی لسانی یکجہتی کا خاتمہ کردیا گیاجو کہ فارسی زبان اور رسم الخط کی وجہ سے صدیوں قائم تھی۔ انگریزوں نے علاقائی ادب کی ترویج کی آڑ میں فورٹ ولیم کالج کے نصاب میں عربی، فارسی، سنسکرت، ہندوستانی (ہندی، اردو) بنگلہ، تلنگی، مرہٹی، پنجابی اور تامل زبانیں شامل کردیں اور ایک نئی زبان تخلیق کی جس کو ہندی کا نام دیا گیا۔ اس زبان کا رسم الخط دیونا گری قرار دیا۔ اس طرح شمالی ہندوستان کی دو زبانیں قرار دی گئیں اور اسے ایک شعبہ کی شکل دے دی گئی …عبدالکریم عابدنے لکھا کہ انگریزوں کی اردو کی اشاعت کااصل مقصد یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان عربی وفارسی زبان ترک کردیں۔ جس طرح انگریزوں نے اسلام دشمن منصوبے کے تحت اردو کی سرپرستی کی بلکہ ایسے ہی معاندانہ عزائم کی بناء پر بنگالی وسندھی وغیرہ کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ انہیں دفتری، تعلیمی اور عدالتی زبان قرار دیا۔ اس سے انگریزوں کا مقصد یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان جوعربی فارسی چھوڑ دینے کی وجہ سے عالم اسلام سے کٹ گئے ہیں اب آپس میں بھی ایک دوسرے سے کٹ کررہ جائیں۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہم لسانی وحدت کی راہ پر گامزن تھے اور ان کے بعد نئی لسانی پالیسوں کے نتیجے میں ہم لسانی انتشار کی راہ پر چل پڑے''۔
مضمون مذکورہ بالا سید مصطفی علی بریلوی کے صفحہ نمبر۴۸سے چند قابل غور اقتباسات ''ڈیوک آف ولنگٹن ۱۸۴۳ء میں لکھتا ہے کہ میں اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کرسکتا کہ مسلمان قوم بنیادی طورپر ہماری دشمن ہے ۔اس لیے ہماری حقیقی پالیسی یہ ہونی چاہئے کہ ہم ہندوں کی دلجوئی کرتے رہیں قدیم رومنوں کا مقولہ لڑائو اور حکومت کرو ہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیے''۔
۱۸۴۳ء کی فتح سندھ کے بعد اس کے انگریز کمشنر کے الفاظ '' ان مقامات پر جہاں ہم عوام کی مرضی سے حکومت نہیں کررہے ہیں ہماری سب سے بڑی پالیسی یہ رہی ہے کہ لڑائو اورحکومت کرو اس لیے ملک بھر کی ایک زبان(ہندی+ہندوستانی+اردو) کو سندھ کی زبان بناناممکن بھی ہوتو اس سے ہم کو فائدہ پہنچنامشتبہ ہے''۱۸۴۷ء میں کمشنر سندھ مسٹرپرنگل لکھتا ہے کہ
''فارسی خاص طورپر مسلمان نیز وہ لوگ پڑھتے ہیں جو سرکاری ملازمت میں شامل ہیں۔ سندھی زبان ہندو اور وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو تجارت میں مشغول ہیں اول الذکر سرکاری زبان ہے جبکہ آخرالذکرمختلف لہجوں میں ملک کی عام زبان ہے۔یہ بات غورطلب ہے کہ کیا عوام الناس کی دیسی زبان سندھی روزمرہ کاروبار سلطنت میں سہولت کے ساتھ آسانی سے استعمال کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ اس منصوبے کے بارآور ہونے اوراس کی افادیت کا کماحقہ اندازہ لگانے کا موقع حاصل نہ ہوسکا ہے''۔
مسٹرپرنگل کی رپورٹ کے بعد ۱۸۴۸ء میں مسٹرکلارک نے اپنی روئیداد میں لکھا''ہم کو سرکاری استعمال کے واسطے ملکی زبان کو متعارف کرانا چاہئے یعنی سندھی۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس طرح ہمارے محکمہ مال اور عدالتوں کے افسران بااثر طریقے سے اپنا کام ایک بیرونی زبان یا انگریزی میں چلا سکیں گے''
انگریزاپنی اس نظریاتی سازش کو عملی طورپر تربیت کے حوالے سے اس طرح بروئے کار لائے کہ میکس مولر Max-Muller جسے رگ وید پراتھارٹی تسلیم کیاجاتا تھااوراس کی شہرت یورپ کے بہت بڑے ماہرلسانیات کے طورپر تھی لیکچرز دیتے ہوئے کہتا ہے کہ:
Remove a language from its native soil tear it away from dialect which are its feeders and you arrest at once its natural growth, there will still be the process of phontic corruption but no longer the restoring influence of dialectic regeneration"
ترجمہ:'' کسی زبان کو اس کے آبائی علاقوں سے ہٹا دیجیے اور اسے ان بولیوں سے جدا کردیجیے اس کی پرورش کرنے والی ہیں۔ آپ گرفت کرلیں گے اوراس کی نشوونمارک جائے گی صوتی توڑپھوڑ کا تو سلسلہ جاری رہے گا۔ مگر بولیوں کی احیائے جدید یعنی فطری ترقی کا اثرباقی نہ رہے گا''۔
(حوالہ لیکچرآن سائنس آف لینگویج بائی میکس مولر ،ایم اے سیکنڈ ایڈیشن،۱۸۶۲ صفحہ نمبر۶۲)
ہندی میں فارسیت کی تحریک نے عربی کو پہلے ہی روبہ زوال سے ہمکنار کیا ہوا تھا اور فورٹ ولیم کالج کے تحت عربی وفارسی کی مشکل تراکیب سے جان چھڑائی گئی اور بالآخر۱۸۳۷ء میں فارسی بحیثیت سرکاری زبان ختم کردی گئی۔ اُردو (ہندی) زبان میں فورٹ ولیم کالج کے تحت مقامی ادب جو کہ مقامیت کو اجاگر کرے داخل کیا گیا تاکہ مقامی طورپر سرائیکی زبان جو کہ مذہبی لٹریچر اورتصوف کی بناء پر صدیوں سے ہندی پر اثر انداز ہوتی آرہی تھی کے اثر کو زائل کیاجاسکے اور علاقائی زبانوں کی ترقی وترویج کی آڑ میں ہندی زبان کو تقسیم درتقسیم کیاجاسکے۔ انگریز اپنی ذہانت وفطانت کے بل بوتے پر اس میں کامیاب ہوئے۔
انگریزوں نے اپنے سامراجی نظام کوپائیدار اور مضبوط بنانے کے لئے مارشل ریسز(Marshal Races) بنیادی نسلوں کی تھیوری اپنائی۔ ٹائون قصبہ کی سطح سے لے کر ضلع کی سطح تک گزٹیئرتیار کرائے گئے۔ چیدہ چیدہ افراد اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے منتخب کئے گئے۔ اسی میں سے ہماری اشرافیہ نواب، خان صاحب، سردار، ملک ،چوہدری، رائے وغیرہ منتخب کئے گئے اور اسی طرح ہماری بیوروکریسی کی تشکیل بھی انگریزوں کے سر ہے۔ بیوروکریسی میں نائب قاصد یعنی چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ افسران تک ہر کوئی اپنے دائرہ کار میں اپنی جگہ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور درجہ بدرجہ ایک دوسرے کا محکوم بھی۔ انگریزوں نے سامراجیت کو مسلط کرنے کے لئے بیورو کریسی اور دیگر مذکورہ کار پردازان کو صوابدیدی اختیارات (Discreationary powers) کو اپنے اپنے دائرہ کار میں استعمال کرنے کی کھلی چھٹی دی۔ دیکھنے کو تویہ امپریلزم (شہنشاہیت) کی تقسیم ہے درحقیقت یہ غلامانہ ذہنیت کی آبیاری ہے جو ایک تناوردرخت بن کر ہمارے نظام، ملکی سا لمیت، ایکتا اور نظریاتی اساس کو بری طرح چاٹ گئی ہے اور انہی لوگوں کو مشاہرے اور تنخواہ دے کر زبان اور زبانوں کی ترقی وترویج کی آڑ میں غلط تحقیق کو پروان چڑھایا گیا کہ کہیں تحقیقی طورپر السنہ کے خاندان تشکیل دیئے گئے اور کہیں جان بیمز کے دور خود ساختہ طورپر بنائے گئے اور کہیں شور سینی پراکرت کا غوغابلند کیا گیا اور زبانوں کو مائوں اور بہنوں میں تقسیم کیا گیا اورنت نئی رشتہ داریاں نکالی گئیں اور کہیں پر لوگوں کو باور کرایا گیا کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے اور ان کوپر فریب جھانسے میں لایا گیا۔ انگریزوں کی آمدسے پہلے مغلوں کے دور میں ہم صرف شیعہ سنی تھے مگر انگریزوں نے ہمیں مذہبی طورپر وہابی، دیوبندی، بریلوی، اسماعیلی واثنا عشری اور قادیانیوں میں بانٹ دیا۔ مسلمانوں کوخصوصی طورپر سیاسی، مذہبی، تہذیبی وثقافتی خانوں میں بڑی چابکدستی سے لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت تقسیم کردیا گیا ہے اورجس کی تفصیل آگے خصوصاً موجودہ پاکستان کے حوالے سے مزید رقم کی جائے گی۔
دوسری طرف برصغیر کی لنگوافرنیکا ہندی جس سے فارسی کے قالب میں ڈھالی جانے والی اردواور اقبال کی مرکب اردوکو انگریزوں نے ہندو قوم کو دان کردیا حالانکہ اس ہندی کے بنانے اور سنوارنے کے عمل میں غالب حصہ برصغیر کے مسلمانوں کا تھا اور موجودہ پاکستان اور قدیم وادی سندھ کی زبان سرائیکی جو کہ صدیوں ہی نہیں ہزاروں سالوں سے اثر انداز ہوتی چلی آرہی ہے اور زبان کی بنیاد بھی ہے۔ جیسا کہ حافظ محمود شیرانی نے ''پنجاب میں اردو'' کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ یہ انگریزوں کی لسانی چیرہ دستی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ سافٹ ہندوئوں میں جذبہ قومیت کو ابھاراجائے اور ہندو ذہن میں رچی بسی صدیوں کی غلامانہ ذہنیت کو محوکیاجائے۔ اس طرح ایک نئی زبان ہندی جس کا رسم الخط دیونا گری قراردیاگیا کومعرض وجود میں لایا گیا تاکہ ہندوئوں کونظری اساس فراہم کی جاسکے۔ زبان ایک جذباتی اورحساس معاملہ ہوتا ہے اور کسی بھی قوم کی دکھتی رگ بھی ہوتی ہے۔ انگریزوں نے نوزائیدہ دان کردہ ہندی کی سرپرستی کی اوراس کے نتیجے میں ۱۸۶۷ء عیسوی تک ہندو قوم کو اتنا منظم کیاجاچکا تھاکہ اس نے اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ داغ دیا۔ اس مطالبے پر مسلمانوں کی طرف سے رد عمل فطری طورپر اورجائز طورپر آیا۔ چنانچہ علی گڑھ تحریک کے تحت سرسید احمد خان اوران کے رفقاء نے اردو کا کامیاب دفاع کیا۔۱۸۹۸ء میں سرسید احمدخان کی وفات کے بعد ایک بار پھر۱۹۰۰ء میں یوپی کے گورنر نے اردو کی بجائے ہندی کو سرکاری زبان بنانے کی ٹھانی تو ایک بار پھر علی گڑھ تحریک کے تحت اردو کا کامیاب دفاع کیا گیا۔ اس وقت کے اردو کے دانشوروں اور محققوں کا اس میں کوئی حصہ نہ تھا۔ ہندوستان کی لنگوافرنیکا ہندی، ہندوستانی موجودہ اردو کو انگریز اور ہندو سیاست میں گھسیٹ لائے اور مسلمانوں کی طرف سے فطری اور جائز جواب بھی سیاسی طورپر دیا گیا۔ زبان کے اس بٹوارے نے نہ صرف مسلم ہندو کی تقسیم کی بناء رکھی بلکہ ہندوستان کی تقسیم کی بنیاد بھی رکھ دی گئی اور یہ بیج بعد میں تناوردرخت بن کر تقسیم پر منتج ہوا۔ قصہ مختصر ملک کی لسانی یکجہتی کا خاتمہ انگریز ہندو سازش کے نتیجے میں ہوا۔
لسانیات کی رو سے دیکھا جائے تو اہل زبان کی ''اردو'' کا دھارا اور موجودہ پاکستان میں مروج ''اردو'' کا دھاراجسے علامہ اقبال نے مرکب اردو کہا ہے اور انگریزوں کی جانب سے دان کردہ ''ہندی'' کا دھارا اپنی بنت، ہیئت اورکینڈے کے لحاظ سے ایک جیسے ہیں اور ان تینوں کی اصل ایک ہے۔ اسی نقطہ نظر کا اظہار بھارت کے ایک انتہائی معتبر محقق، ادیب اردو گیان چندجین نے ''ایک بھاشا دو لکھاوٹ'' نامی تصنیف میں کیا ہے۔ بھاشایقینا ایک ہی ہے'' مگرفساد کی جڑ دو لکھاوٹ ہی ہے اورہندو ذہنیت کو اب دوصدیوں بعد ہوش آیا ہے کہ زبان تو ایک ہے مذکورہ محقق اور ادیب گیان چند جین نے اپنے ذہن میں رچے بسے ہندوتعصب کو باہر نکالتے ہوئے اردو کے حوالے سے بھارت کے موجودہ مسلمانوں کو ایسے لتاڑا ہے جیسے وہ بال ٹھاکرے کی مکمل ترجمانی کررہے ہوں تکنیکی طورپر دنیا کی ہرزبان کا رسم الخط کسی جگہ پر جاکر ناقص ہوجاتا ہے۔محض رسم الخط کوبنیاد بنانے یا اختیار کرنے سے کوئی خود ساختہ زبان وجودمیں نہیں لائی جاسکتی اور نہ ہی حقیقت کو بدلا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ دان کردہ ہندی میں سنسکرت کے نامانوس الفاظ داخل کرکے تجربات کئے گئے کہ اس میں سنسکرت کا رنگ نکھرآئے مگر ایسا نہ ہوسکا ۔ عربی وفارسی رسم الخط برصغیر میں صدیوں رائج رہا ہندو اورمسلمان دونوںبرابر اس کا استعمال کرتے رہے۔ اس میں صدیوں تک کوئی خرابی نہیں نکالی جاسکی۔ دیونا گری رسم الخط دان کردہ ہندی کے ساتھ مخصوص کرنا دراصل ہندی قومیت کو ابھارنے اورزبان کے بٹوارے کے لئے سازش کے تحت استعمال کیا گیا۔ مذکورہ بالا تینوں دھاروں کی روزمرہ مروج بول چال میں کوئی خاص فرق نہ ہے۔ ماسوائے چند مذہبی اصطلات وفارسی اصطلات کے اورچندادبی اصناف کے لحاظ سے۔
بنارس کی ہندو یونیورسٹی کے ڈاکٹر پران ناتھ کی ایک تحقیق کا نتیجہ ایک مسلسل مضمون کی صورت میں ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ''رگ وید ہندوستانی کلچر سے بہت پہلے کی کتاب ہے اور دراصل سومیری قوم کے زمانے سے متعلق ہے۔ سمیری قوم شمالی ہندوستان سے لے کر مصر تک پھیلی ہوئی تھی اور ایشائے کو چک فینشیاء وغیرہ میں ان کی بڑی بڑی آبادیاں تھیں ۔ وید کی سنسکرت زبان سمیری، شامی اور مصری زبان سے مرکب ہے۔ لہٰذارگ وید کسی پرانی سمیری تصنیف کا ترجمہ ہے اوربرہمنوں کا تمام تر تمدن شامی ومصری تمدن ہے۔ چنانچہ رگ وید میں سمیری آبادیوں کے تمام بڑے بڑے شہروں کے نام موجود ہیں نیز ان لڑائیوں کے حالات مذکور ہیں جو کہ آریوں فارس اور بابل کی سامی اقوام کے درمیان ہوئیں''۔
ماخذ:(معارف القرآن جلد چہارم، معراج انسانیت، صفحہ نمبر۱۰۰۔۱۰۱ مصنفہ غلام احمد، مدیر طلوع اسلام)
حوالہ:(تصنیف نقش ملتان، مصنف علامہ عتیق فکری، صفحہ نمبر۱۱۸)
علامہ عتیق فکری مذکورہ تصنیف کے صفحہ نمبر ۱۳۴ پر مسٹر ویپر ہو فرائتھ اور ڈاکٹربوہیر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ''ہندوستان کے نہایت قدیم حروف کی ایک خاص تعداد ان حروف سے عملاً مشابہ ہے جو آشور کے اوزان اورنویں ودسویں صدی قبل مسیح کے کتبہ 'میسہ' پر مرقوم تھے۔اس زمانے کے ۲۲سامی حروف کی ایک ثلث کی شکل ہندوستان کے نہایت قدیم زمانے کے ہم آواز حروف سے بالکل مشابہ ہے۔ دوسراثلث کچھ کچھ ملتا ہے اور باقی کا تیسرا ثلث بھی کم وبیش ملایاجاسکتا ہے لیکن بہت مشکل سے اور زیادہ ترکم ''
علامہ عتیق فکری اسی تصنیف کے صفحہ نمبر۱۳۵پر بدھسٹ انڈیا کے مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ''یہ امر ممکن تو ہے لیکن ظن غالب نہیں کہ تاریخ مطلوبہ یعنی اس زمانے میں جب ہندوستان میں طرز تحریر کی ابتداء ہوئی ہندوستان اور جنوبی عرب کے ساحلوں کے درمیان جہاں باہمی مشابہت بہت کم ہے براہ راست تعلقات قائم ہوں گے لیکن کسی شخص کو اس بات کا دعویٰ نہیں کہ اہل ہند اور ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے فلسطین کی حدود پر سنگ میر کا کتبہ کندہ کیا جن سے ہندی حروف کی مشابہت بہت زیادہ ہے۔ براہ راست مراسم تھے لیکن میں اس خیال کی جرأت کرتا ہوں کہ ان تحقیقات کی باہمی مطابقت اور توجیہہ اس طورپر ہوسکتی ہے کہ ہندی حروف نہ تو شمالی ہیں اور نہ جنوبی سامی حروف سے اخذ کئے گئے ہیں بلکہ ان کا ماخذ وہ ہے جن سے خود یہ دونوں ماخوذ ہیں یعنی اس سے قبل جو سامی طرز خط جو کہ وادی فرات میں مروج تھا''۔
۳۵۰۰ ق م کے کتبوں میں عراق کے رہنے والے لوگوں کی زبان کو سوبیری بتایا گیا ہے اور یہ لوگ ہرلحاظ سے سومیریوں سے پہلے آباد کار تھے بعدازاں سومیری عراق میں پہنچے۔ سومیری زبان کی ایک ہم عصرزبان ''ابلائی'' شام سے اس کی لوحیں برآمد ہوچکی ہیں اور یہ ابلائی زبان سامی زبان ہے۔ ابلا سے سومیری اورابلائی زبانوں کی علیحدہ علیحدہ ڈکشنریاں بھی برآمد ہوئیں ہیں اور سو بیری زبان ان دونوں کی پیشرو معلوم ہوتی ہے۔ ابلائی زبان پر تحقیق جاری ہے۔ ابلا کی سامی زبان اور سومیری زبان میں وہی نسبت ہے جو کہ رگ وید کی زبان اور زند اوستا کی زبان میں پائی جاتی ہے۔مؤرخین کی تحقیق کے مطابق طوفان نوح۳۳۰۰ ق م میں آیا تھا اور اس طوفان کے نتیجے میں ۳۱۰۱ ق م میں ہندوستان میں کالی یگ کا آغاز ہوتا ہے اور عراق کی سوبیری نسل ہندوستان میں داخل ہوتی ہے جبکہ سمیری قوم ہندوستان سے ہجرت کرکے عراق میں داخل ہوتی ہے اور۲۷۰۰ ق م کے بعد ایک کشمکش کے بعد سومیری تہذیب کی بنیاد رکھتی ہے۔ اس پر راقم کے پاس قابل قدر شواہد موجود ہیں زبانوں کے اس باہمی تال میل کے علاوہ ان تہذیبوں میں بہت کچھ مشترک ہے۔اس سب کچھ میں رگ وید بھی شامل ہے۔
رگ وید کی تصنیف وتدوین میں کئی رشی خاندانوں کا حصہ ہے۔ اس میں دو خاندان کا نواں اور کنو کا تعلق ملتان سے ہے۔ کانواں ذات کے لوگ ملتان شہر میں اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جبکہ کنو برادری ملتان کی تحصیل جلالپور پیروالا میں بہت بڑی تعداد میں آباد ہے۔ کنو اورکانواں دونوں ہندو نام نہیں ہیں۔ دراصل رگ وید متعدد ملکوں کے علاوہ ملتان میں بھی تصنیف ہوئی ہے۔ ہندوئوں کے مذہبی دانشور مہابھارت، رامائن اور بدھ چرت کو ''کاویہ'' تصنیف مانتے ہیں۔ کاویہ کی صنف میں دیوتائوں کی حمدوتوصیف پائی جاتی ہے جبکہ وادی سندھ (خصوصاً سرائیکی زبان) میں کافی کی صنف میںمجازی عشق (کے کردار) کے ذریعے عشق حقیقی یعنی خدائے واحد کی حمدوتوصیف تک پہنچا جاتا ہے۔کاویہ اور کافی میں نہ صرف لفظی مماثلت پائی جاتی ہے بلکہ صنفی محاسن بھی تقریباً ایک جیسے ہیں ماسوائے مذکورہ بالا فرق کے جو کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اگرچہ اپ بھرنش جو کہ وی بھاشا یا وی بھرشٹ کی باقیات یا تسلسل کا بیان جو کہ دی ہسٹری اینڈ کلچر آف انڈین پیپل مرتبہ ودیا بھون نئی دہلی کی کئی جلدوں میں آیا ہے کا حوالہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی تصنیف تاریخ ادب اردو جلد اول صفحہ نمبر6-5 پر دیا ہے کہ '' دوہا جو آج تک برصغیر کی کم وبیش ہر زبان کی مقبول عام صنف ہے اپ بھرنش کی ہی صنف ہے'' مگر دی ہسٹری اینڈکلچرآف انڈین پیپل والے ہندی وی بھاشا یا وی بھرشٹ یا اپ بھرنش کی خصوصی صنف کافی کاذکر گول کرگئے۔ اگر رامائن اورمہابھارت کاویہ تصانیف ہیں تو رگ وید کیوں نہیں؟ کیونکہ رگ وید میں بہت سی نظمیں یا حمدیں ایسی بھی ہیں جس میں تسلسل کے ساتھ شروع میں خدائے واحد کی توصیف جاری ہوتی ہے کہ اس میں اچانک دیوتائوں کی توصیف شروع ہوجاتی ہے۔ شودر اور ویش ذاتوں پروید کا سنناخاص کررگ وید کا سننا قابل تعزیر یعنی زبان کاٹنے اورکانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالنا اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ وید دراصل اسر بھاشا میں تھے۔ رگ وید کی نظموں کو توڑ کر مختلف انداز میں توڑ کر جوڑنا زبان کا سرقہ ہے اور اس زبان کاسرقہ جدید سے قدیم تک جاری ہے۔ کیونکہ زائد آوازوں کی وجہ سے اس زبان میں تحریر کرنا مشکل تھا۔ ایک بے ضرر مثال سرائیکی لفظ ـنمانا'' نمانی'' ہیں جدید دور میں اس کو ''دوانا'' اور دوانی بنایاگیا ہے۔ حالانکہ ہندی =اردو ہر لحاظ سے سامی النسل زبان ہے۔
قدیم دور سے متعلق راقم کے دو مقالہ جات اوّل ''وادیٔ سندھ کے سرائیکی لوگ اور ان کی زبان قدیم ترین دور سے برطانوی دور تک'' مطبوعہ ''ماہِ نو'' اکتوبر۲۰۰۰ء ، جبکہ دوم ''ملتان کا پانچ ہزار سالہ قدیم منفرد تمدن (لسانیات اور تاریخ کے تناظر میں)'' مطبوعہ اگست ۲۰۰۳ء ہیں۔
یہ مقالہ جات قدیم دور سے متعلقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی معلومات کا ذخیرہ ہیں۔ دوسرا مقالہ ''ماہِ نو'' کے علاوہ ''ادب لطیف، اخبارِ اُردو، سہ ماہی صحیفہ'' میں بھی شائع ہوچکا ہے۔
پیر حسام الدین راشدی نے سندھی زبان میں مروج چار لہجے بیان کیے ہیں:(۱) وچولی۔ جو کہ وسطی سندھ میں بولی جاتی ہے۔(۲)سریلی یا سریانی۔ جو سندھ کے مشرقی حصے میں بولی جاتی ہے(۳) تھریلی۔ جو تھرپارکر میں بولی جاتی ہے(۴)کھچی۔ جوکچھ اور کاٹھیا واڑ میں بولی جاتی ہے۔ انگریز کمشنر مسٹرپرنگل کایہ کہنا کہ سندھی زبان ہندو اور وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو تجارت میں مشغول ہیں ''واضح طورپر اشارہ وچولی لہجہ کی طرف ہے اور انگریز کمشنر کا یہ کہنا کہ آخرالذکر(سندھی) مختلف لہجوں میں ملک کی عام زبان ہے اور ان مختلف لہجوں میں جو لہجہ اس وقت زیادہ استعمال ہوتا تھا اس کی شہادت بھی خود انگریزوں نے دی ہے۔ لینگواسٹک سروے آف انڈیا کا مرتب جارج گریرسن اپنی پانچویں جلد حصہ تیسرا، پارٹIصفحہ نمبر۳۵۴ پر تحریر کرتا ہے کہ
''ڈاکٹرٹرمپ اپنی سندھی گرائمر کے صفحہ نمبر۱۱پر بیان کرتا ہے کہ سندھ کی جدید بولی سرائیکی کہلاتی ہے اوراس میں یہ وہ اضافہ بھی کرتاہے کہ یہ زبان کی خالص ترین شکل ہے۔ اس ملک کے باشندوں کی رائے بھی یہی ہے کیونکہ ان کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ لاڑ کا عالم سیرو میں گدھا ہے'' سندھ کے ہر ضلع سے سوائے تھرپارکرکے ایک ایسی زبان کے نمونے موصول ہوئے جو سندھی ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ لہندا کی ایک ایسی صورت سے متشابہ ہے جو کہ ڈیرہ غازی خان کی ہند کی سے قریبی مناسبت رکھتا ہے۔ لہٰذا سرائیکی کسی مقام کی کہیں کی بولی نہیں'' واضح رہے کہ ڈاکٹر ٹرمپ نے سندھی گرائمر ۱۸۷۲ء میں مرتب کی تھی جبکہ لینگواسٹک سروے آف انڈیا بہت بعد میں مرتب ہوا سندھ کے ہرضلع سے سوائے تھرپارکر زبان کے نمونے موصول ہوتے ہیں۔ جسے لوگ سرائیکی کہتے ہیں اور اس سے پہلے ڈاکٹر ٹرمپ سندھی زبان کی خالص ترین شکل کوسرائیکی بتاتا ہے۔ اس کے باوجود گریرسن اپنے تئیں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کی مشابہت لہندا کی ایک شکل سے ہے جو کہ ڈیرہ غازیخان کی ہندکی سے قریبی مناسبت رکھتا ہے۔ یہ سب جانتے ہیںکہ ڈیرہ جات کی زبان سرائیکی یا ملتانی سے قریبی علاقہ رکھتی ہے اور ساتھ ہی اچی یا بہاولپوری سے بھی قریبی مناسبت رکھتی ہے۔ ڈیرہ والی ملتانی اچی یا بہاولپوری ماسوائے سرائیکی زبان کے اورکچھ نہیں ہیں۔ سندھی زبان کے وچولی لہجے میں محاورہ لاڑ کا عالم سیرو میں گدھا ہے'' زبان زدعام محاورہ یہ ہے ''لاڑ جو پڑھیو سرے جوڈھگو ہے'' لاڑ سے مراد جنوب ہے جبکہ سرے سے مراد شمال ہے۔ قصہ مختصر۱۸۷۲ء عیسوی سے پہلے اور مابعدتک سرائیکی زبان کا لہجہ سندھی زبان کا مقبول ترین لہجہ تھا اس میں نہ صرف سندھی ادب تمام وادی سندھ کا ادب اورتصوف کا مشترکہ اسلامی ادب موجود تھا جو کہ انگریزوں کے سامراجی عزائم کے لیے خطرہ تھا۔ سندھ کے اکثرشاعروں نے جن میں وہ شاعر بھی شامل ہیں جن کی مادری زبان سرائیکی نہیں تھی نے بیسویں صدی تک سرائیکی میں شاعری کی ان میں سے تو کئی شاعر ایسے بھی تھے جنھیں شاعرہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔جنھوں نے سرائیکی کے ساتھ ساتھ فارسی، سندھی ، مارواڑی، گجراتی، اُردو، راجھستانی، جدید ہندی زبان میں شاعری کی ان تمام شاعروں نے کم ازکم چارزبانوں کوضرور استعمال کیا۔ سرائیکی، فارسی، سندھی (وچولی لہجہ) اور اردو، تصوف کا تمام تراہم اور جاندار ادب سرائیکی لہجے میں پوشیدہ ہے۔ صرف اکیلے سچل سرمست نے ایک لاکھ سے زائد شعر کہے۔
گریرسن کے انکار یا سرائیکی زبان کے وجود سے مکر جانے کی وجوہات تو انگریزوں کی لسانی سازشی پالیسی کے عین مطابق ہیں۔ کسی بھی لہجے کی ترقی وترویج بری بات نہیں ہے۔ مگر ایک مقبول اور جاندار ادب کے حامل لہجے کو جڑ سے اکھاڑ کر نئے لہجے کی سرپرستی کرنا اور وہ بھی مسلط کردہ سازش کے تحت ہر لحاظ سے قابل اعتراض ہے۔۱۸۴۳ عیسوی سندھ کی فتح سے لے کر۱۹۲۷ء تک سندھ صوبہ بمبئی کا حصہ رہا ہے۔ انگریز اور ہندومل کر اس کے سیاہ وسفید کے فیصلے کرتے رہے ہیں۔ انگریزوں نے ایک تیر سے کئی نشانے لگائے اولاً: ہندوئوں کو خوش کرنا اور ہندی قومیت کو ابھارا جائے۔ ثانیاً: سندھ کے عام مسلمانوں کو سندھ واسلام کے ادب سے دور کرنا تاکہ ان کی نظریاتی اساس کمزور ہوجائے۔ثالثا:ً سندھ کے ہندوئوں اور وچولی لہجے بولنے والوں میں سندھیت یا سندھی قومیت پیدا کرنا۔ رابعاً :اردو کے فطری دھارے اورسندھی کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا۔ ہندی قومیت کو تقویت ملی اور مسلم قومیت کمزور تر اور انگریزوں کی اس سازش کے نتیجے میں سندھ کے مسلمان سیاسی وثقافتی طورپر تقسیم کردیئے گئے۔ یہ چاروں تیر اپنی اپنی جگہ کام کرچکے ہیں ۔
پنجاب میں بھی انگریزوں نے اپنی مسلط کردہ سازش کے تحت جان بوجھ کر سرائیکی لہجے اوراس کی ادبیات کو بڑی بے دردی سے شکار کیا۔ انگریز اس سے بخوبی آگاہ تھے کہ پنجاب کے مسلمانوں کا نظریاتی وتہذیبی ادب اسی لہجے میں ہے۔ مگر جان بوجھ کرارادتاًماجھی لہجہ جو کہ مشرقی پنجاب کے بہت سے اضلاع کا نہ صرف لہجہ ہے بلکہ سکھوں کی کم وبیش آبادی بولتی ہے اور اس کا مرکز امرتسرمانا جاتاہے کو فروغ دیا گیا تاکہ سکھوں کو خوش کیاجاسکے۔ اس سے پہلے باباگورونانک ،بہادر شاہ ظفر کے حوالے سے سرائیکی زبان کے اثرات کی مثالیں پہلے ہی پیش کی جاچکی ہیں۔ کچھ ایسے ہی اثرات کا جائزہ جارج گریرسن، لینگواسٹک سروے آف انڈیا نے بھی لیا مگر اپنی مسلط کردہ سازش کے تناظر میں اس کاکہنا ہے کہ :
''اگر لسانی شہادت کی کوئی قیمت ہے تو اس میں ذرا برابربھی شبہ نہیں ہوسکتا کہ کسی وقت ایک زبان جو لہندا سے قریبی رشتہ رکھتی تھی اس سارے علاقے میں بولی جاتی تھی۔ جہاں کی گفتار کی زبان آج پنجابی ہے''۔
لہندا کی ایک قدیم شکل ایک دفعہ یقیناًپھیل کردریائے سرسوتی کے کنارے تک پہنچی ہے اور یہ اب بھی پنجابی کی بنیاد ہے''۔(حوالہ ملتانی زبان اور اس کا اردو سے تعلق ازڈاکٹرمہر عبدالحق صاحب صفحہ نمبر۹۹۔۱۰۰۔ ماخذلنگواسٹک سروے آف انڈیا پارٹI صفحہ نمبر۶۱۹)
جارج گریرسن پہلے ہی سرائیکی زبان کے نمونے جو سندھ کے ہر ضلع سے سوائے تھرپارکر سے موصول ہوئے تھے کو نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ یہ نمونے لہندا کی ایسی صورت سے متشابہ ہیں جو کہ ڈیرہ غازیخان کی ہندکی سے مناسبت رکھتے ہیں اوریہاں پر بھی ویسا ہی گول مول بیان دیتا ہے '' ایک زبان جو لہندا سے قریبی رشتہ رکھتی تھی مگر زبان کا نام گول کرگیا دوسرے اقتباس میں ارشاد ہے ''لہندا کی ایک قدیم شکل......... اب بھی پنجابی کی بنیاد ہے'' کیا گریرسن کو اس زبان کا پتہ نہ تھا جو سندھ صوبہ سے لے کردریائے سرسوتی تک بولی جاتی ہو اس زبان کا نام گریرسن کبھی بھول ہی نہیں سکتا۔ شمالی ہندوستان وجنوبی ہندوستان کی اکثر زبانوں میں بشمول پنجابی میں سرائیکی زبان کی فکر، ادب، صرف ونحو، مشترکہ سرمایہ الفاظ اور شاندار ترکیبیں اب بھی موجود ہیں۔ کوئی پنجابی صوفی شاعر ان اثرات سے خالی نہیں۔ قصہ مختصر انگریزوں نے پنجاب کے مقبول ادبی لہجے کو چھوڑ کر عام روز مرہ کے لہجے ماجھی کو فروغ دیا تاکہ سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف بیدار کیا جائے اور خوش کیا جائے۔ اس طرح مسلم قومیت کو کمزور کیا۔
سرائیکی زبان تصوف اورمذہبی لٹریچر پر فائق حق رکھتی ہے۔ ہم نے تصوف اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مشترکہ اسلامی ادب کو اغیار اوراپنوں کی تحقیق کے نتیجے میں طاق نسیاں پر رکھ دیا تھا۔ زمانہ حال میں اس کی طرف توجہ دلانے والی شخصیت کا تعلق بھی مغرب سے ہے اس کا کہنا نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ حساس دلوں کے لئے ایک تازیانے سے کم نہیں ہے۔ پروفیسرفتح محمدملک اپنے مضمون اناماری شمل اور پاکستانی ادب'' مطبوعہ اخبار اردو مارچ اپریل۲۰۰۴ء صفحہ نمبر۱۷۵ پر بیان کرتے ہیں کہ:
''یہ عجیب اور حسین اتفاق ہے کہ ہم پیرویٔ مغرب کی دھن میں مسلمانوں کی ادبی روایت کے جن مشترک سرچشموں سے دور ہوئے تھے آج ہمیں مغرب ہی کی ایک دانشور ان سرچشموں پرواپس لانے میں کوشاں ہے۔ چلیے پیرویٔ مغرب کے وسیلے سے ہی سہی ہم ان سرچشموں پرواپس آئے تو سہی، یہی ہے وہ اولین سبب جس کی بناء پر مجھے ڈاکٹرشمل کے کارناموں سے اپنی ادبی دنیا کی غفلت ایک سنگین جرم محسوس ہوتی ہے ۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جس زمانے میں ہم مغربی ادب سے اور مغرب کے طرزفکر واحساس اور اندازگفتار واظہار میں عبادت کی حد تک محو ہیں عین اسی زمانے میں اناماری شمل کی نظموں کا مجموعہReflection of Eastern mirror کے نام سے شائع ہوتا ہے تو ان کی ساری نظموں کے ظاہر و باطن پر قرآنی قصص وحکایات اور سرزمین مشرق کی لوکل عشقیہ داستانوں سے پھوٹتی ہوئی روشنی کا پرتو نمایاں نظرآتا ہے۔ انہیں بلھے شاہ کے مزار پر آئے ہوئے زائرین اور مزار کی زبوں حالی کا غم تحریک شعری دے رہا ہے''۔
صفحہ نمبر۱۷۶مضمون مذکورہ پروفیسر فتح محمد ملک سے ایک اقتباس:
''ڈاکٹرشمل نے مسلمانوں کے ادب میں مادیت وروحانیت اور حقیقت وماورایت کے امتزاج اورہم آہنگی میں کارفرماصوفیانہ تصورات کی نشاندہی جس عمدگی سے کی ہے اتنی ہی عمدگی کے ساتھ انہوں نے اسلامی زبانوں کی ساخت وپرداخت اور اسلامی ادبیات کے مخصوص اصناف، اظہار، شیوہ ہائے گفتار رموز تشبیہات واستعارات ومحاکات کے صوفیانہ سرچشموں کا سراغ بھی لگایاہے۔ مثلاً اردوزبان کی تشکیل وترویج میں صوفیاء کرام کے حصے اور ادب کی فکری وشعری روایت اورتصوف کے تہذیبی اثرات کا کھوج لگاتے وقت ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح شمع وپروانہ کی حکایت اور اس سے متعلقہ گوناگوں تلازمات منصورحلاج کی کتاب ''الطوابین'' سے عطاء کی منطق الطیر میں آئے۔ پھر وہاں سے مختلف مسلمان ملکوں کی زبانوں سے ہوتے ہوئے اردو شاعری میں جلوہ گر ہوئے۔یہاں مسلمانوں کی مختلف زبانوں کی ادبیات پراناماری شمل کی تحسین وتنقید ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ پاکستانی ادب، عرب ادب، ترک ادب وفارسی ادب غرض پورے عالم اسلام کا ادب ایک وسیع وعریض اور ہزار رنگ ادبی روایات کا ثمر ہے۔ یہ حقیقت بھی کہ پاکستانی ادب کی روایت کے عظیم سرچشمے ایک ہیں۔
اہل زبان کی اردو کاتذکرہ بھی ہے اور چرچابھی اورتحقیق کے تما م دھاروں کا رخ بھی اسی کی طرف ہے۔ کس قدر افسوس ناک امر ہے کہ خطہ پاک کی مرکب اردو کے تذکرے اور چرچے سے ہماری تاریخ وادبی تحقیق خالی ہے۔ جب یہ مرکب اردو''اردو زبان'' کی تحقیق میں فطری طورپر مخل ہوتی ہے تو اس پر علاقائیت کا لیبل لگا کراسے پرے کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ زبان اردو کا فطری دھارا ہے اوراپنے جائز حق کا متقاضی ہے۔ اس فطری دھارے کا مطالعہ نہ صرف اقبال فہمی کے لیے ضروری ہے بلکہ اس سے بڑھ کر کہیں زیادہ زبان اردو کی ساخت وپرداخت کی میراث جو صدیوں ہی نہیں ہزاروں سالوں پر محیط ہے اس میں پوشیدہ ہے۔ علامہ اقبال نے زبان کے اس فطری دھارے سے ہی استفادہ کیا ہے اوراسی کے بل بوتے پراقبال دنیا کے چند عظیم شاعروںکی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ انگریزوں نے مسلمانان برصغیر کی مذہبی اور تصوف کی شاعری کواپنی سامراجی لسانی سازشی پالیسی کے تحت سرے سے اپنی تحقیق میں بھٹکنے نہ دیایہ توخیر سے غیر تھے۔ مگر اپنوں نے بھی سامراج کی لائنوں پر چلتے ہوئے ارادی طورپر اس سے اجتناب برتا۔ حالانکہ اسی مذہبی اور تصوف کی شاعری میں ہمارے سیدھے سادھے شانداراساسی نظریات توحید رواداری، مساوات ، بھائی چارے، امن انسانی، عظمت اور انسان دوستی جیسے موضوعات پائے جاتے ہیں۔ تصوف فرقہ واریت، قوم، نسل، مذہب وزبان کی تفریق وفروعات سے عاری ہے اورآج کل ایسے پیغام کی ضرورت ہے۔ آخراقبال نے بھی تو مثبت تصوف کو اپنایا ہے اور منفی تصوف کی نفی کی ہے۔ اقبال کے بعد تصوف کی شاعری کا اتباع نہ ہونے کے برابر ہے۔چند مثالیں تصوف کی شاعری جو کہ وادی سندھ میںموجود تھی۔پاکستان میں مروج تھی۔پیش خدمت ہے۔
بلھے شاہ جن کا زمانہ۱۶۸۰ء عیسوی تا۱۷۵۷ء عیسوی تک ہے۔قرآنی الفاظ کو کچھ ایسے استعمال میں لائے۔
نحن اقرب لکھ دیتوئی
ہوا معکم دا سبق دیتوئی
وفی انفسکم دا حکم کیتوئی
پھر کہیا گھنکھٹ پائیوئی
سیوہن میں ساجن پائیوئی
ہر ہر دے وچ سمائیوئی
سچل سرمست ۱۷۳۹ء تا۱۸۲۷ء کا کلام:
کہا یہ پیر نے مجھ کو نہ خود کو غیر حق جانو
ولاموجود الاہو کایہ نقارہ میں بجائوں گا

ھوالاوّل ھوالآخر ھوالظاہر ھوالباطن
یہاں بھی وہ وہاں بھی وہ سچل پھر تو کجا ہوگا

مرغ ادب کی تاب ہے اس کی لیکن آپ چھپایا ہے
اس کا ہے ماں باپ نہ کوئی اور نہ وہ کسی کا جایا ہے
فقیر قادربخش بیدل جن کا زمانہ۱۸۱۳ء تا۱۸۷۲ء عیسوی ہے روہڑی میں پیدا ہوئے، کا کلام:
خلق الاشیاء سمجھ اشارت فھوعینھا محض بشارت
بیدل شوق شتاپ سرصحیح سمجھایا

ان الحق آپ کہتا ہے وہی منصور کے اولے
جومارے دم انااللہ کا درخت طور کے اولے

وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن
خودی کے ترک میں مخفی جو ہے جب وہ عیاں ہوگا
صوفیاء نے اپنا کلام یا پیغام کوہندو عوام میں ان کی زبان میں پہنچانے کے لئے کافی کی صنف میں یہ جدت کی کہ اُسے کافی روپ ہوری کا نام دے دیا۔بلھے شاہ کی ایک ایسی ہی کافی کے چند شعر:
ہاتھ جوڑکر پائوں پڑوں گی عاجز ہوکر بیتی کروں گی
جھگڑا کر بھر جھولی لوں گی نور محمد ﷺ

ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
فاذکرونی کی ہوری بنائوں وشکرولی پیا کر رجھائوں

ایسے پیا کے میں بل بل جائوںکیسا پیا سبحان اللہ
ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
فقیر قادربخش بیدل کا کلام کافی روپ ہوری میں پیش ہے:
آج پیا ہوری کھیلن آیا
سیں رنگی بے رنگ سمایا

سیں روپ اروپ سماوت
وحدت کثرت رمز رلاوت

نوع بہ نوع جانی جلوہ پایا
بند رانب نین کھیلے ہوری

شام سندردل لٹ لی زوری
چشم آہدے سانوں جئیک لایا
بلھے شاہ کی کافی روپ ہوری اردو اور ہندی کا آمیزہ لگتی ہے جبکہ بیدل کی کافی روپ ہوری سرائیکی اردو ہندی اور سرائیکی کا آمیزہ ہے۔
ڈاکٹروفاراشدی اپنی تصنیف اردو کی ترقی میں اولیائے سندھ کا حصہ صفحہ نمبر۲۶۶ بیان کرتے ہیں کہ حیرت اور مسرت کی بات یہ ہے کہ لاالٰہ اللہ کے سرنہاں کا یہ ایمان افروز پیغام علامہ اقبال المتوفی۱۹۳۸ء سے کوئی سترسال پیشترسندھ کے ایک عظیم شاعر بیدل(فقیر قادربخش بیدل) عوام کے دلوں میں سموچکے تھے جیسا کہ:
وجودایک ہے بس لا الٰہ الا ھو
نہ کردوئی کی ہوس لا الہ الا ھو

وہی ہے مرغ وہی آشیاں لاہوتی
وہی عین قفس لا الہ الا ھو
وہی ہے قافلہ سلار دشت پیمائی
وہی ہے بانگ جرس لا الہ الا ھو
وہی ہے لیلیٰ و مجنوں وہی ہے بلبل وگل
وہی ہے شگر و مگس لا الہ الا ھو
کلام مذکورہ بالا بیدل کسی کو سنایا جائے اور شاعر کے متعلق نہ بتایا جائے اوراس سے قیاساً پوچھا جائے کہ یہ کلام کس کا ہے تو وہ کہہ دے گایہ کلام اقبال ہے ۔محاسن کلام کی رو سے تشبیہات واستعارات وتراکیب میں بیدل اور کلام اقبال میں مماثلت پائی جاتی ہے۔بے شک علامہ اقبال نے بیدل کے قدیم متن لاالہ الاھو کی جدید تفسیرلاالہٰ الااللہ کے طورپر اپنے عہد کے لحاظ سے ایک جدید اور نئی فکرکے ساتھ کی۔جیسا کہ کلام اقبال:
خودی کا سرنہاں لاالٰہ الااللہ
خودی ہی تیغ فساں لاالٰہ الااللہ

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لاالٰہ الااللہ

کیا ہے تونے متاع غرور کا سودا
فریب سودوزیاں لاالٰہ الااللہ

یہ مال ودولت دنیا یہ رشتہ پیوند
بتان وہم وگماں لا الٰہ الا اللہ

خرد ہوئی ہے زمان ومکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الٰہ الا اللہ

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہارہوکہ خزاں لا الٰہ الا اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الٰہ الا اللہ
اس کے علاوہ اقبال کے مزید شعر پیش خدمت ہیں:
کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ

غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور تیرا
فرنگیوں کا یہ افسوں ہے قم باذن اللہ

تیری حریف ہے یا رب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
سینے میں رہے راز ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر

تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر اس کی خودی
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر

تاثیر میں اکثیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی وتکلیف
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری

نہ مشرق اس سے بری ہے نہ مغرب اس سے بری
جہاں میں عام ہے قلب ونظر کی رنجوری

آتی ہے دم صبح صدا عرش بریں سے
کھوگیا کس طرح تیرا جوہر ادراک

کس طرح ہوا کند ترا نشتر تحقیق؟
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگرچاک

باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیری

رندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات
ہرچند کے مشہور نہیں ان کے کرامات

خود گیری و خوداری و گلبانگ انا الحق
آزاد ہوسالک تو ہیں یہ اس کے مقامات

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری

تیرے دین وادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی اُمتوں کا عالم پیری
خانقاہی نظام میں فی زمانہ علامہ اقبال کی بات درست نظرآتی ہے لیکن تاریخ کے سابقہ ادوار میں اگرحاکم ظلم وجبر کی سند علمائے سو سے یوں لے کہ اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لئے سختی وجبر سے کام لے سکتا ہے تویہ جبر کی ابتدا ہوتی ہے۔ ان کے ظلم کو روکنے کے لیے قدریہ فرقہ جنم لیتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عادل ہے وہ کسی کوظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ عباسیوں کے دور میں قرآن کے خلق یا حادث ہونے کے نزاع نے کیسے کیسے نابغہء روزگار دانشوروں، محققوں سائنس دانوں اور اہل علم شخصیات کو ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتروایا۔ وقت کے حاکم کی اس جبریت میں علمائے سوبرابر کے شریک تھے۔ ایسے نظریات کا اسلام کی فطری تعلیمات سے دور دور کا بھی تعلق نہ ہے۔ اس مذہبی جبریت وکشت خون نے اہل علم اور اہل اللہ کو دو ر دراز کے شہروں، قصبوں، گائوں اورویرانوں میں گوشہ نشین ہونے پر مجبور کردیا۔ جہاں پر انہوں نے اپنی پناہ گاہیں بنائیں جہاں پرلوگوں کو سچی کھری تصنع سے پاک فطری اسلامی تعلیمات ان کی بدولت ان کو نصیب ہوئیں۔ بعدازاں ان کی وفات یا وصال کے بعد لوگوں نے ان کی خانقاہیں تعمیرکیں اوران کی اولادوں کو آباد کیا۔ہربڑی خانقاہ کے ساتھ مسجد اور مدرسہ بنایا گیا اس طرح تصوف کا یہ سلسلہ نظریہ ضرورت کے تحت بڑھتا گیا اور رواج پاتا چلا گیا۔ بعدازاں ان تعلیمات کا دائرہ کار غیر مسلموں کے علاقوں تک بڑھا دیاگیا۔ ان کی سچی تعلیمات کے نتیجے میں غیر مسلموں کی ایک بہت بڑی تعداد حلقہ بگوش اسلام ہوئی۔ اسلام تلوار کے زور پرنہیں ان اولیائے اللہ کی کاوشوں کی وجہ سے پھیلا۔
رہا سوال علامہ اقبال کی اس تنقید کا کہ تصوف کے

 

 

 

 

ادب نے جمود یا رہبانیت کو طاری کیا ہے غلط ہے۔ برصغیر یعنی ہندوستان سے تردید کے لئے دو مثالیں پیش کرونگا۔ سلاطین دہلی کا پورا دور ماسوائے خاندان غلاماں ملتان سے دہلی جاکرقبضہ کرنے والے خاندانوں کا تھا۔ یہ تمام خاندان صوفیاء واولیائے کرام کے معتقد تھے۔ ان خاندانوں کے دور حکومت میں ملتانی فوجوں نے ہندوستان کے دور دراز علاقوں خصوصاً دکن کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرلیجئے۔ حضرت بہائوالدین زکریا ملتانی نے کئی دفعہ اپنی دانش اور حکمت عملی سے ملتان کو منگولوں کے حملے سے محفوظ کیا۔ حضرت بہأالدین زکریا ملتانی کے مدرسہ بہائیہ سے سترہزار طالبعلم علوم وفنون کے زیورسے آراستہ ہوکر نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگرممالک تک پھیل گئے۔ حضرت بہأالدین کے ایسے دو شاگردوں سے علامہ اقبال متاثر ہوئے ان میں سے ایک عراقی جس کا شہرہ سارے عالم اسلام تک پھیل گیا۔ علامہ صاحب عراقی کے فلسفے زمان ومکان سے متاثر تھے اور دوسری شخصیت سید امیرالحسینی کی ہے۔ علامہ نے گلشن راز جدید میںاُٹھارہ سوال اٹھائے ہیں ان میں سے نو کا تعلق یا نوسوال امیرالحسینی کے ہیں واضح رہے کہ عراقی حضرت بہائوالدین زکریا کا داماد تھا۔
حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ ہو یا حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ ہویا پھر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ہو یا ان جیسے دیگر صوفیا ہو نہ تو ان کو حکومت کی سرپرستی اور حفاظت تک حاصل نہ تھی۔ یہ تن تنہا ان علاقوں میں گئے ۔ جہاں مسلمان خال خال تھے۔ مگر انہوں نے اسلام سے سچی لگن کی دھن میں غیرمسلم علاقوں میں اپنی تبلیغ کوجاری رکھا۔ تصوف کے ادب اور ان کے عمل میں حرکت تھی۔ کوئی جمود نہیں پایا جاتا۔ ویسے بھی تصوف کی ابتداء انتہائی قدیم زمانے سے علمائے دین یا مذہبی راہنمائوں برہمنوں، ربیوں اور پادریوں کی مذہب پر اجارہ داری کی بناء پر ہوئی۔ تصوف کیا ہے۔ پہلے حصے میں ایک خدائے واحد کی تلاش یعنی اس پر مضبوط ایقان اور دوسرا اپنی شناخت بطورانسان اشرف المخلوقات، تصوف ہر قسم کی اجارہ داری واستحصال کا مخالف ہے۔ فرنگیوں یا انگریزوں کی سازش کا اقبال کی طرف سے شعروں میں اظہار پر اسی مقالہ کا پچھلے صفحات کی صورت بڑا حصہ نذرکرچکا ہوں۔
دراصل ہر عہد کا اپنا تقاضا ہوتا ہے۔ جس پر ہرنابغہ اپنے طورپر عمل کرتا ہے۔ اقبال کا عہد برصغیر سمیت من حیث القوم مسلمانوں کی محکومی کا دور تھا اور مسلمان محکومی سے نکل کرآزادی کی طرف قدم بڑھانا چاہتے تھے اوراس کے لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کومن حیث القوم خصوصاً برصغیر کے مسلمانوں کو نہ صرف بیدار کیاجائے بلکہ ان کے اندرماضی کی طرح کی روح پھونکی جائے۔ اس مقصد کے لیے علامہ اقبال نے جامد تصوف اور اس کی ادبیات پر تنقید کی کیونکہ علامہ اقبال کے خیال میں کائنات کی تکوین جاری ہے اور کائنات روز بروز وسیع ہورہی ہے۔ اس لیے مسلمان بحیثیت اشرف المخلوقات اس میں اپنا حصہ ڈال کر خداوندتعالیٰ کی ہم رکابی اختیار کریں اس لیے مسلمانوں میں جذبہ جہاد و حریت پیدا کرنے کے لیے خودی کا فلسفہ پیش کیا اورساتھ ہی ساتھ علامہ نے مثبت تصوف کے حق میں بھی دلائل دیے۔ خود کو رومی کا مریدی ہندی نہ صرف کہابلکہ آخری دنوں آخری کلام تک انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ پہلے منصورحلاج پر زبردست تنقیدکی اورآخرمیں ان کو شہید صوفی کہا اور تو اور اپنی فکر و کلام میں صوفیاء کا اتباع کیا اور ان سے بہت کچھ حاصل کیا۔
نورنامہ، کچی روٹی، پکی روٹی اب بھی ہر گھر میں پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں نورنامہ قدیم ہے۔ نور نامہ کا سن تصنیف چھٹی صدی ہجری اس کے متن سے برآمد ہوتا ہے۔
پنج سے سال جو گزرے آھے ہجرت بعد رسولوں
ملاں کہے غریب وجارا کم علماواں کولوں
نیکی عمل نہ کیتم کوئی شامت نفس جہولوں
عمرگذری توں پچھوں تاواں بھر لہاں قبولوں

جو کچھ روئے زمین تے پیدا سب کچھ ہوسی فانی
نام نشان نہ رہسی کائی جز ایمان نشانی
البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ بعدمیں مطابع والوں نے نور نامے کی زبان میں وقتاً فوقتاً تبدیلی کی ہو۔ مگر اس کے قریبی زمانے سے متعلقہ ایک اور ادبی پارہ قصیدہ بردہ شریف جو کہ دراصل عربی میں تھا بعدمیں اس کا ترجمہ اس وقت کی عالم اسلام کی دیگردوبڑی زبانوں فارسی اورہندی میں ہوا۔ اس زمانے کی ہندی ملتانی زبان ہی تھی اورقصیدہ بردہ شریف کا ترجمہ ملتانی یعنی سرائیکی زبان میں ہوا۔ اس ادبی پارہ کا ترجمہ ساتویں یاآٹھویں صدی ہجری میں ہوا۔ زبان کے تسلسل میں کوئی بڑا فرق نہیں ملتا۔ یہ واحد ادبی پارہ ہے جوکہ عربی سے ہندی یعنی ملتانی میں ہوا ایسی مثالیں ہندوستانی ادب میں ناپیدہیں اور ملتانی یاسرائیکی یاپھر اس وقت کی ہندی کا ترجمہ فارسی ترجمے سے محاسن کلام کی رو سے بدرجہا بہتر اور ادب کی زبان میں زیادہ جان دار ہے۔ اس کا صرف ایک شعر پیش خدمت ہے۔
منکر عشق نہ تھیئو دلبر جو آہیں ثابت کیتا
ہک نین ترماون بیاولھے کھاون عشق پیالہ پیتا
لفظ ترمن یا ترماون سے مراد زور دار جھڑی یا بارش کے بعد چھتوں اوردیواروں پر سیم کے نتیجے میں ہلکی ہلکی لکیروں کے نشانات یا باقیات کاملناجو اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ بارش یا جھڑی کس شدت کی تھی۔ لفظ بیا سے مراد مزیدیا اور یا پھرا س کے بعد ولھے کھاونا دیوانگی وپاگل پن کے نتیجے میں بے طور ہوجانا اورایسی حالت میں آنکھوں کا ڈبڈبانہ۔ حوالہ کے لئے نور نامہ ملتانی زبان اوراس کا اردو سے تعلق صفحہ نمبر۳۲۳ ازڈاکٹر مہرعبدالحق، قصیدہ بردہ شریف کے شعر کے حوالے کے لئے سرائیکی زبان دیاں مزید لسانی تحقیقاں صفحہ نمبر۶۵ ازڈاکٹرمہرعبدالحق۔
۱۰۸۶ ہجری کی ملتانی کا نمونہ نجات المومنین جسے عبدالکریم متوطن جھنگ نے تصنیف کیا کا ایک شعرپیش خدمت ہے۔
فرض مسائل دین دے ہندوی کر تعلیم
کارن مرداں امیاں جوڑے عبدالکریم
اس شعر میں وقت کی زبان کو ہندوی کہا گیا ہے نہ کہ ملتانی جبکہ حقیقتاً یہ زبان ملتانی ہی ہے۔ اس وقت تک ملتانی اور ہندی میں کوئی فرق نہ تھا۔ اس سے بہت پہلے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ملتان میں ساڑھے تین سال قیام کرکے زبان ہندی میں مہارت تامہ حاصل کرنے کے بعد اجمیر روانہ ہوئے۔ ان نمونوں کو پیش کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ نور نامہ کی منظوم مسلسل نظم میں جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے کم وبیش وہی اسلوب صدیوں ہندوستان بھر کی ہندی کے نثروشعر میں ہمیں تسلسل کے ساتھ ملتا ہے۔ مذکورہ بالا شعر ملتانی زبان اوراس کا اردو سے تعلق کے صفحہ نمبر۳۳۷ سے لیا گیا ہے۔
بلھے شاہ کا ایک شعرتصوف سرائیکی رنگ میں :
عشق دی جھنگی وچ مور بلینداے
قبلہ تے کعبہ سانوں یار ڈسیندا اے
سچل سرمست کا ایک شعر:
میں یار دی گھڑولی بھردی
ہک اللہ کنوں میں ڈردی
فقیر قادربخش بیدل کا شعر:
مکھ ماہی دا نور تجلی صوت حسن حقانی
مکھ ماہی داقبلہ کعبہ عشق امام حقانی
شاہ حسین کا ایک شعر:
چینڑا انج چھڑیندا یار
بجے اللہ والی تار بجے مرشد والی تار
لفظ جھنگی سے مراد درختوں کا جھنڈیا چھوٹا ساجنگل، جھنگ اسی جھنگی سے ماخوذ ہے۔ آخر میں سرائیکی زبان کے عظیم شاعرخواجہ غلام فریدمٹھن کوٹی کے کلام :
میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں
جس کی گائیکی پرپٹھانے خان کوحسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ مل چکا ہے اور یہ تصوف کا کلام زبان زد عام ہے۔ ایسے ہی تصوف والے کلام کی اہمیت آج کل کے پرآشوب حالات میں بڑھ جاتی ہے۔مگر ہمارے محققوں اور ادیبوں نے نہ تو ماضی میں اور نہ ہی جدید دور میں اپنی ذمہ داری کومحسوس کیا کہ کس طرح انگریزوں نے ہماری قومی وصوبائی زبانوں کے خلا ف طرح طرح کی سازشیں کیں؟۔ ہمیں ہماری تاریخ ثقافت تہذیبی وادبی روایات سے کس طرح اور کیونکر جدا کیا؟ اور نہ ہی انہوں نے کبھی اس پرسوچ بچار کی کہ انگریزوں نے اپنی غلط تحقیق کی روش عطا کرکے ہمیں آپس میں کس طرح بے وقوف بنایا ہے۔ علامہ اقبال نے شعروں کے ذریعے اس سازش کا پردہ بڑی حد تک چاک کرنے کی کوشش کی مگر۔ کسی نے کان نہیں دھرے، زمانہ حال میں ہم پیروی مغرب کی دھن میں مسلمانوں کی جن عظیم ادبی روایات سے دور ہوئے تھے بقول پروفیسر فتح محمدملک مغرب کی ہی ایک دانشور ڈاکٹراناماری شمل(جرمن) ہمیں ان سرچشموں پر واپس لانے میں کوشاں ہے اور ساتھ ہی اس سے زیادہ اہم بات انہوں نے یہ کی کہ''یہی ہے وہ اولین سبب جس کی بناء پرمجھے ڈاکٹرشمل کے کارناموں سے اپنی ادبی دنیا کی غفلت ایک سنگین جرم محسوس ہوتی ہے'' یعنی بات صاف ہے جو تحقیقی کام ہمیں کرناچاہئے تھا وہ ڈاکٹر شمل کررہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے سازش کرکے ہماری قومی وصوبائی زبانوں کو اپنی غلط تحقیق کے نتیجے میں جو تضادات بخشے ہیں ہم آج بھی ان پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اور ان تضادات نے ہماری تحقیق ونظری اساسات پر جمود طاری کیا جس کا تسلسل آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے اور پروفیسر فتح محمدملک کے مذکورہ بالا بیانات اس تسلسل کا ثبوت ہیں۔ ان تضادات اورجمود کے تسلسل کی وجہ سے قومی زبان اُردو کے حوالے سے بنیادی تحقیقی اور قابل قدر کام نہ ہوا ہے۔ ہماری جامعات کے چند پچھلی دہائیوں کے چند مقالات کو چھوڑ کر باقی کے مقالات میں وہی روش کارفرما ہے۔ پرانے تحقیقی مواد پرانحصار کرتے ہوئے اور کچھ اپنے تئیں نیا ڈال کر یوں تحقیق کے کام کو مکمل کیا جاتا ہے۔
آخر میں یہ بات ضروری ہے کہ اردو زبان کے ارتقاء میں جس کا جتنا حصہ ہے اس کو تسلیم کیاجانا ضروری ہے اوریہی سب سے بڑی کلید ہے جو کہ ہماری قومی وصوبائی زبانوں کے سلسلے میں اغیار کی سازش کے نتیجے میں پروان چڑھائے گئے۔ تضادات کا خاتمہ ہمیں صحیح راہ پر ڈال سکتی ہے۔آج کل ''اردو بولنے والے'' کی اصطلاح بھی ایک بار پھر زبان اردو پرغاصبانہ قبضے کی علامت بن سکتی ہے۔ حالانکہ زبان اردو پر کم وبیش برصغیر کی ہرزبان دعویٰ کرسکتی ہے کہ اردو اس سے نکلی ہے چاہیے اس میں ان کا جتنا بھی حصہ ہو۔ اردو سب کی زبان ہے۔ برصغیر کے ہرباشندے کی زبان ہے اور اس کی بنت میں جتنا کردار ملتانی یا سرائیکی زبان کا ہے کسی اور کا نہیں۔ اردو سرائیکی سے نکلی ہے اورسرائیکی قدیم وادی سندھ کی زبان کا تسلسل ہے ۔ اس دعویٰ کو رد نہیں کیاجاسکتا۔ میرا یہ مقالہ تحقیقی حوالوں سے مزین ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں نے غلط تحقیق سے کام لیا ہے یا میرے دعویٰ کورد کیاجاسکتا ہے تو وہ ضرور میدان میں قدم بڑھائے۔ خوش آمدید کہا جائے گا۔ چاہے وہ پاکستان سے ہو، برصغیر کے کسی بھی حصے سے ہو یا چاہے یورپ سے ہو۔
٭٭٭٭