ادبیات
مرتب: علی اکبر ناطق
یاد ایام عشرت فانی
مرزا فرحت اللہ بیگ


جغرافیہ ایک لالہ جی پڑھاتے تھے۔ چیچک نے ان کے منہ پر الو کر دیا تھا ۔ ایک آنکھ بھی جاتی رہی تھی۔ مگر پڑھاتے ایسا تھے کہ تعریف نہیں ہو سکتی ۔ خود انٹرنس تک تعلیم پائی تھی مگر بیسیوں لڑکوں کو بی ۔ اے کراد یا ۔ ہر بات اس طرح ذہن نشین کراتے تھے کہ کوئی بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھول سکتا تھا۔ مار پیٹ بھی یہاں کم تھی۔ اگر کوئی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی تو پھر سمجھائی پھر سمجھائی یہاں تک کہ اس کے دل میں جم گئی۔ اس وقت جا کر آگے بڑھے۔ سب سے زیادہ قابل غور یہ چیز تھی کہ باوجود آریہ ہونے کے ہندو مسلمان سب کو برابر چاہتے تھے ۔ میرا ان سے بعد میں اکثر ملنا ہوتا رہا۔ میں نے ان کی طبیعت میں کوئی فرق نہ دیکھا۔وہ مر گئے مگر ان کے شاگردوں کے دلوں میں ان کی وہی عظمت و وقعت باقی ہے۔ مدرسہ میں سب سے زیادہ زور حساب کے مولوی صاحب کا تھا۔ لڑکے تو لڑکے ماسٹر بھی ان کے نام سے گھبراتے تھے۔ انہی کی وہ ٹٹوانی تھی جس پر قبضہ کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی تھی۔ صدر دروازے کے اوپر جو بارہ دری تھی اس میں بیٹھتے تھے ۔ جیسا پڑھانے میں استاد تھے۔ ویسا مارنے میں مشاق تھے۔ چھوٹا سا قد۔ کسرتی بدن ۔ گوری رنگت فرنچ فیشن کی داڑھی ۔ چالیس پینتالیس برس کی عمر ،ٹخنوں سے اونچا شرعی پاجامہ، نہایت اچھے کپڑے کی اچکن سر پر، کبھی دلی کی گول چندوے کی ٹوپی۔ کبھی چھوٹا سا عمامہ ان کی جماعت میں جاتے ہوئے لڑکے ذراہچکچاتے تھے۔ ان کے ہاں بس دو ہی کام تھے۔ یا حساب نکالے جاؤ یا پٹے جاؤ۔ مار مار کر سب کو سیدھا کر دیا تھا۔ میزکی دراز میں چھوٹی سی بیت رہتی تھی۔ کسی نے حساب میں غلطی کی اور انہوں نے بیت نکالی۔ موٹھ کی طرف سے مارتے تھے۔ ہر غلطی کی سزا ایک بیت تھی۔ بائیں ہتھیلی پر مارتے تھے۔ تا کہ دایاں ہاتھ لکھنے میں کام دیتا ہے۔ انہوں نے سوال دیا لڑکو ں نے نکالا۔ اور سلیٹ اوندھا کر بنچ کے نیچے رکھ دی، جب سب سوال نکا ل چکے تو یہ بیت لے کر اٹھے۔ جن کے جوابات صحیح ہوئے ان کو شاباش دی ۔ جن کے غلط ہوئے ان سے کہا ہاتھ آگے بڑھاؤ۔ لڑکے نے ہاتھ آگے بڑھایا او ر انہوں نے تڑ سے بیت دی۔ ایک غلطی ہوئی تو ایک اور دو ہوئیں تو دو ۔ اگر پٹتے وقت کسی نے ہاتھ کھینچ لیا تو پھر ایک سے گنتی شروع ہوئی۔ مگر یہ ضرور ہے کہ انہوں نے ساری جماعت کی جماعت کو حساب میں طاق کر دیا تھا۔ انہوں نے مدرسہ میں اکھاڑا کھول رکھا تھا۔ یہ بھی وہاں لڑنت کرتے بعض لڑکے بھی کرتے۔ غرض ان کی بدولت مدرسہ میں دیسی ورزش کا بہت شوق ہو گیا تھا ۔ ان کا جسم بہت گھٹیلا تھا۔ اس لئے مدرسہ بھر میں مولوی خوٹئی کے نام سے مشہور تھے ۔ گھربار کے جھگڑوں سے مستغنی تھے۔ نہ کوئی بیوی تھی نہ کوئی بچہ ۔ اور نہ کوئی گھر ۔ جہاں چاہا پڑرہے۔ اوررات گزار دی۔ زیادہ تر ہمایوں کے مقبرہ یا منصور کے مقبرہ میں جا کر سوتے تھے۔ ان کے متعلق عجیب عجیب قصے مشہور تھے۔ کہا جاتا تھا کہ کئی دفعہ جنوں سے مولوی صاحب کی لڑائی ہوئی اور یہ ہمیشہ جیتے ۔ اس میں سے ایک قِصّہ دلچسپ ہے۔ وہی لکھتا ہوں۔
فراشخانہ کی کھڑکی کے پاس پولیس کے تھانہ کے بالکل سامنے ایک نیا مکان تھا۔ اس پر جنوں نے قبضہ کر لیا۔ مالک مکان بھی اس میں رہے، کرایہ دار بھی آئے مگر جنوں نے ان لوگوں کو اتنا ستایا کہ سب کو گھر چھوڑ کر بھاگ جانا پڑا ۔ مکان میرا بھی دیکھا ہوا ہے۔ مکان ضرور ہے اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ قصہ کی صحت کی ذمہ داری نہیں لیتا ۔ دو منزلہ پختہ مکان ہے، اندر دو چار درخت بھی ہیں۔ باہر سنگ مر مر کی تختی پر سنہ تعمیر لکھا ہوا ہے۔
پے تاریخ ایں فرخ عمارہ
نجف منزل نجوانس پنچ پارہ ۱۳۰۰
مشرقی دیوار پر نہایت جلی قسم میں دوسری تاریخ لکھی ہوئی ہے۔
دوبارہ کن سنہ این بقعہ نور
آلہا بادوائم چشم بد دور
کچھ عرصہ سے اس مکان میں ایک مطبع آ گیا ہے۔بہر حال جب سب لوگ ان جنوں کے ہاتھوں سے تنگ آگئے ۔ تو گنڈ سے تعویذ شروع کئے۔ فتیلہ جلائے۔ دھونیاں دیں۔ مگر وہ اس بلا کے جن تھے کہ نہ نکلنے تھے اور نکلے۔ کسی نے ہمارے مولوی صاحب سے بھی کہا، یہ اپنا اوڑھنا پچھونا لے ۔ ایک دن اس خالی مکان میں۔ اڈا لے او ر مصلے بچھا نماز پڑھنی شروع کر دی۔ رات کے کوئی بارہ بجے ہو ں گے کہ سامنے کے پیڑ سے ایک نہایت بد ہیت جن اتر کر ان کی طرف آیا۔ انہوں نے انگلی سے مصلے کے گِرد حصار باندھ دیا۔ وہ حملہ کرتا یہ ایک گُھٹنے کے بل اٹھ سیدھا آگے بڑھا شہادت کی انگلی سے اس کو کچوکے دیتے وہ بھاگ جاتا ۔ دوسرا آتا ۔ دوسرے کو بھی اسی طرح شکست دیتے۔ غرض صبح ہوتے ہوتے انہوں نے سینکڑوں جنوں کو زخمی کر دیا صبح اپنا بستر لپیٹ صحیح سلامت باہر نکل آئے۔ لوگوں کو بڑا تعجب ہوا، لوگوں نے پوچھا انہوں نے حال بتایا اور کہا کہ اس مکان کو چھوڑ ہی دو تو اچھا ہے۔ اس گھر میں جنوں کی فوج کی چھاؤنی ہے۔ فوج جب خود ہی کوچ کرے گی اس وقت یہ مکان پا ک صاف ہو گا۔ ہماری رائے میں تو یہ واقع صحیح معلوم ہوتا ہے۔ جب مولوی صاحب نے بڑے بڑے شیطانی لونڈوں کو مار مار تکلہ کے سے بل نکال دیا تو پھر بیچارے جنوں کی کیا ہستی ہے۔ شاہ جنات بھی آتا تو تھوڑی دیر میں اپنی بیت کی مٹھیا سے ٹھیک بنا دیتے۔
انہی مولوی صاحب کی سفارش پر خلیفہ خبن مدرسہ کے ورزش ماسٹر مقرر ہوئے تھے۔ خلیفہ خبن بڑے تکڑے آدمی تھے۔ قد تو چھوٹا تھا۔ مگر جسم فولاد کا بنا ہوا تھا۔ سانولا رنگ۔ منڈا ہوا سر ، خشخاشی ڈاڑھی ، سر پر چھوٹا سا پھنٹا، گلے میں کبھی اچکن کبھی انگرکھا، ٹخنوں سے اونچا پاجامہ ،بڑے زناٹے کی آواز، باہر جو صحن تھا۔ اس میں قواعد کراتے تھے۔ اس زور سے آرڈر دیتے تھے کہ تمام مکان گونج اٹھتا تھا۔ ان کو اس سے غرض نہ تھی کہ میری اس جرنیلی آواز سے سامنے کی جماعت والوں کی پڑھائی میں حرج ہوتا ہے یا نہیں۔ قواعد کے چند آرڈر خداجانے کہاں سے یاد کر لئے تھے۔ مگر انگریزی لفظ ایسے بگاڑ کر بولتے تھے کہ شاید انگریز بھی نہ سمجھیں کہ یہ انگریزی میں آرڈر دیا جا رہا ہے یا ترکی میں ۔ میرا جہاں تک خیال ہے ان کو قواعد کے صرف پانچ لفظ یاد تھے۔ ’’روٹ بوٹ ٹرن ‘‘ (Right About Turn)رائٹ ہنیڈ سیلوٹ (Right Hand Salute) Attention کوک مارچ Quick Marchسٹینڈ پر Stand atآرزوAs you wereبس انہیں پانچ لفظوں پر ساری قواعد ختم ہو جاتی۔ ہاں ایک چیز ایسی تھی جو اس ساری قواعد سے بڑھ کر تھی۔ تھوڑی دیر انہوں نے قواعد کرائی اور لڑکو کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا ۔ سامنے بل ڈنٹر لاکر رکھ دیا گیا۔ دو دو لڑکے لئے جاتے ہیں۔ ایک ادھر کھڑا ہے ایک ادھر، باری باری سے ایک ایک کر کے ڈنٹر پیلتے ۔ یہاں تک کہ ان میں ایک تھک کر ہٹ جاتا ۔ اس کے بعد دوسری جوڑی آتی اور اس طرح ساری جماعت ڈنٹر پیلتی۔
ڈنٹروں کے بعد بیٹھکوں کا نمبر آتا ۔ اس میں بھی اسی طرح مقابلہ سے بیٹھکیا ں لگائی جاتیں پانچویں جماعت والوں کو مگدر بھی ہلانے پڑتے۔ بہرحال اس کے ایک گھنٹہ میں بہت اچھی کسرت ہو جاتی۔ چونکہ مقابلہ پر کام کرنا ہوتا تھا۔ اس لئے ہر لڑکا اپنی بساط سے زیادہ محنت کرتا۔ واقعی اچھی چیز تھی۔ اب محض ہاتھ نچانے رہ گئے ہیں۔ نتیجہ دیکھ لو، مدرسہ کا جو لڑکا ہے سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے۔ ہڈیاں ہی ہڈیاں ہیں۔ پھونک مارو تو دم نِکل جائے، جو موٹے ہیں ان میں بس ہوا ہی ہوا بھری ہے ۔ کس نام کو نہیں ۔ بھلا ایسی ورزش کرانے سے کیا حاصل۔ جس میں سکت آنی تو درکنار پسینہ تک نہ آئے۔
مدرسہ کے بعد شام کے وقت مکان کے اندر صحن میں جو اکھاڑہ تھا اس میں لڑنت ہوتی تھی۔ ادھر چھٹی کا گھنٹہ بجا اور سب کے سب لڑکے گھر جانے کی بجائے اکھاڑے کے گرد جمع ہو گئے ۔ چند لڑکوں نے اکھاڑے کو گودنا اور ہرا کرنا شروع کیا۔ خلیفہ خبن لنگوٹ باندھ اکھاڑے میں اترے مولوی خوئٹی بھی جانگیہ پہن سامنے آئے کشتی شروع ہوئی، خلیفہ خبن کا بھی ایک خلیفہ تھا ۔ ان کا نام ’’دہنگا‘‘ تھا۔ ٹیکنیکل اسکول میں پڑھتا تھا۔ مگر بڑا دنبہ بنا ہوا تھا۔ یہ لڑکوں کو لڑنت سکھاتا تھا۔ غرض گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اکھاڑے کے کونہ کونہ میں گھتم گتھا ہوتی رہتی تھی۔ اس کے بعد سب نہا دھو کر کپڑے پہن کر اپنے اپنے گھر کا راستہ لیتے۔ ذرا اب تو دیکھیں کہ کوئی مدرسہ کے صاحبزادے کشتی لڑنا تو بڑی چیز ہے۔ اکھاڑہ کو گود تو دیں۔ بات یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں پڑھاتے ہی نہ تھے۔ صحت کا خیال رکھتے تھے۔ صرف ہاتھ پاؤں ہلانا ہی نہیں سکھاتے تھے۔ ہاتھ پاؤں سے کام لینا بھی بتاتے تھے۔ خیر جانے دو۔ میں اس منطق میں کیوں پڑوں۔ مجھے اپنے اصلی مضمون سے غرض، یہ باتیں مدرسہ والے جانیں۔ اور ان کا کام جانے۔
اب صرف ایک ماسٹر صاحب رہ گئے۔ وہ کون کہ ہیڈ ماسٹر صاحب مدرسہ میں ان کانام نامی ’’مسٹر مٹیکنا تھا۔ کوئی پانچ فٹ لمبے اور پانچ فٹ ہی چوڑے آدمی تھے۔ڈھیلا ڈھالہ جُبہ پہنتے اور بڑا منڈا سا باندھتے تھے۔ اس طرح جسم کے جو کونے تھے وہ بھی چھپ جاتے ۔ اور ان کی سڑک کے رولر کی سی شکل ہو جاتی۔ مگر میرے خیال میں مٹکینے سے بہتر ان کے لئے کوئی نام تجویز نہیں ہو سکتا۔ تو ند بہت ہی بڑی تھی۔ لیکن بوائلر کی نسبت سے آواز میں گونج نہ تھی۔ بہت نیچی آواز میں بات کرتے۔ انگریزی پڑھاتے اور بڑے موٹے رول سے خبر لیتے تھے۔ لڑکوں پر ان کا رعب خاک نہ تھا۔ ماسٹر بھی ان کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ مگر بیچارے بھلے آدمی تھے۔ اس لئے لشتم پشتم کسی نہ کسی طرح گذر ہی جاتی تھی۔ مولوی خوئٹی کے پہلو میں جو کمرہ تھا۔ وہا ں بیٹھتے تھے ۔ اس کمرہ کے دو طرف صحن تھے۔ پشت پر جو صحن تھا۔ اس میں ممٹی پر جانے کے لئے چھوٹی سی کھڑکی لگی ہوئی تھی۔ لڑکے اس کھڑکی میں سے ہو کر ممٹی پر جاتے اور وہاں سے دیواروں دیواروں بندروں کی طرح پھرا کرتے۔ دس بجے اور سب کے سب دیواروں پر سے اترپھر جماعت میں آ گھسے ۔ دیواروں پر پھرنے کا فخر صرف پانچویں جماعت کے طالب علموں کا موروثی حق تھا۔ کسی دوسری جماعت کے طالب علم کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس ممٹی پر قدم رکھے۔
ہیڈ ماسٹرکا ایک واقعہ بڑا دلچسپ ہے ۔ کسی نے ان کی گھڑی اڑا دی خدا جانے کوئی طالب علم تھا یا کوئی چپراسی ۔ بہت ڈھونڈا، گھڑی نہ ملی، مسٹر مٹکینے نے حکم بھیجا کہ آج شام کے ساڑھے تین بجے تمام جماعتیں لان باندھ باندھ کر میرے کمرے کے سامنے کھڑی ہوں۔ ان کے کمرے کے اندر ایک اور اندھیرا کمرہ تھا۔ اس میں مدرسہ کا سامان ،ٹوٹے ہوئے بنچ پھٹی ہوئی دریاں بے ٹانگ کرسیاں اور خبر نہیں کیا کیا الا بلا بھری پڑی تھی ،اس کوٹھڑی کے دروازہ پر آکر ہیڈ ماسٹر صاحب ڈٹ گئے۔ سامنے تمام جماعتیں قطار باندھ کھڑی ہو گئیں۔ پہلے ہیڈ ماسٹر صاحب نے چوری کی برائیوں پر لکچر دیا۔ اور کہا کہ دیکھو امریکہ والوں نے ایک آلہ ایجاد کیا ہے جو چور کا ہاتھ پکڑ لتیا ہے ۔ تم سب ایک ایک کر کے اندر جاؤ ۔ سامنے غلاف سے ڈھکی ہوئی مشین رکھی ہے۔ اس کو ہاتھ لگاکر آؤ ۔ جس لڑکے نے گھڑی چرائی ہے اس کا ہاتھ مشین پکڑ لے گی۔ ہاں اگر میری گھڑی کو مشین کے پاس رکھ کر چو ر بھی ہاتھ لگائے گا ۔تو بھی مشین ہاتھ نہ پکڑے گی ۔غرض لیکچر دینے کے بعد انہوں نے مسٹر سپیرے کو ایک دروزہ پر کھڑا کیا۔ دوسرے دروازہ پر آپ کھڑے ہوئے۔ اور لڑکوں کی لین چلنی شروع ہوئی۔ جب لڑَکا ادھر کے دروازہ سے گھس کر اور مشین کو ہاتھ لگا کر دوسرے دروازہ سے نکلتا تو ہیڈ ماسٹر صاحب اس کے ہاتھ سونگھتے اور چھوڑ دیتے ۔ غرض ایک ایک کر کے سب لڑکے اس کمرہ میں سے گذر گئے ۔ نہ کسی لڑکے نے مشین کے پاس گھڑی رکھی اور نہ مشین نے کسی لڑکے کا ہاتھ پکڑا۔ ہم نے بڑے تعجب سے گھر میں اس مشین کا ذکر کیا، سب ہنسنے لگے۔ جب میں نے سبب پوچھا تو ایک بڑی بی نے کہا ’’ بیٹا وہ مشین وشین خاک نہیں ہے۔ غلاف پر عطر مل دیتے ہیں۔ جو چور نہیں بے کھٹکے ہاتھ لگا کر چلا آتا ہے۔ ہاتھ سونگھ لیتے ہیں۔ اگر عطر کی بو ہاتھ میں ہوئی تو چھوڑ دیا۔ نہیں ہوئی تو پکڑ لیا۔ چور ڈر کے مارے ہاتھ نہیں لگاتا ۔ پکڑا جاتا ہے ہماری بھی سمجھ میں یہ بات آ گئی۔ دوسرے روز چھپ چھپا کر اس کوٹھڑی میں گھسے، کیا دیکھتے ہیں کہ کرہ ارض پر غلاف پڑا ہوا ہے۔ اور عطر کی خوشبو مہک رہی ہے، ماسٹر صاحب نے چالاکی تو کی تھی ۔ مگر چور ان سے بھی زیادہ ہوشیارتھا۔ ایک تو گھڑی چرائی دوسرے ماسٹر صاحب کے عطر کانقصان کیا۔
مدرسوں میں ایک چیز بڑی قابل اصلاح ہے۔ لیکن اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ مدرسہ میں سودے والے آتے ہیں ۔ اور لڑکوں کو قرض لینے کی عادت ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے مدرسہ میں بھی یہی مصیبت تھی، مدرسہ کا جو دروازہ تھا۔ اس کے دونوں طرف دو نوں طرف دو صحنچیاں تھیں۔ ایک میں تو پیا تھی۔ اور دوسری میں ایک کاچھی بیٹھتا تھا۔ جب دیکھو کوئی نہ کوئی لڑکا کھڑا کھا رہا ہے۔ زیادہ تر کام قرض پر چلتا تھا۔ جب تک دو تین آنہ کا معاملہ رہا اس وقت تو چپکا رہا۔ اس سے بڑھا تو تقاضہ شروع کیا۔ اس سے بڑھا تو بے عزتی کی نوبت آئی ۔ جہاں چھٹی کا گھنٹہ بجا اور بیچار ے قرض دار لڑکے دروازے کے برابر آدیوار سے چپک کر کھڑے ہو گئے۔ جب لڑکوں کا جھلڑ دروازہ میں سے گزرنے لگا ۔ یہ بھی دبک گئے ۔ اس کاچھی نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ ان لڑکوں کی رکانوں سے خوب واقف تھا۔ جب تک ایک ایک دو دو لڑکے نکلتے تھے ۔ اس وقت تو بیٹھا رہتا ۔ جہاں لڑکوں کا غول آیا اور وہ کھڑا ہوا۔ صحنچی اونچی تھی۔ اس لئے کھڑے ہو کر ایک ایک جانے والے کو دیکھ سکتا تھا۔ جہاں اس نے دیکھ لیا کہ اس بھیڑ میں کوئی لڑکا دبا دبایا جھکا جھکا جا رہا ہے۔ تو وہ لپکا، آتے ہی میاں قرض دار کو پکڑا ،ایسی فضخیت کی کہ توبہ ہی بھلی۔ مگر صاحب بات یہ ہے کہ لڑکے بھی بلا کے ہوتے ہیں۔ نئی نئی ترکیبیں شکست دینے کی نکالتے ہیں۔ بعض وقت خود اس کو بری طرح ذلیل کرتے ہیں۔ مولوی خوئٹی کو اس کاچھی کا رتی رتی حال معلوم تھا ۔ وہ چاہتے تھے۔ کہ کسی طرح یہ بلا مدرسہ کے دروازہ پر سے دفع ہو ۔ مگر بیچارے کیا کرتے، خود ہیڈ ماسٹر صاحب چاٹ پر لگے ہوئے تھے۔ وہ اس کے نکالنے پر کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے۔ کاچھی کو معلوم تھا کہ مولوی صاحب میرے دشمن ہیں۔ یہ بھی جاتنا تھا کہ بڑے بگڑے دل آدمی ہیں۔ ذرامیں نے چین چپاخ کی اور انہوں نے تڑ سے لپڑ دیا۔ لڑکوں کو اس کشا کشی کا علم تھا۔ جس لڑکے پر زیادہ قرضہ ہوتا وہ کیا کرتا کہ مدرسہ کے بعد لڑنت دیکھنے اکھاڑہ کے پاس بیٹھا رہتا۔ جب مولوی صاحب کپڑے پہن کر باہر جانے کو نکلتے یہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مسٹر کاچھی کو دیکھتا اور مسکراتا ہو ا نکل جاتا ۔ بھلا مسٹرنکن ( یہ اس کاچھی کا نام تھا) میں اتنا دم تھا کہ اس وقت ہوں بھی کرتے۔ دوسرے ترکیب یہ تھی کہ جب کوئی قرض دار نکلنے والا ہوتا تو ان کا کوئی دوست نکن کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے دو سا لینے لگتا ۔ مگر اس ترکیب میں اکثر ناکامی ہوتی۔ میرا ایک غریب دوست اس ظالم کے پھندے میں پھنسا ہوا تھا۔ ایک دن نکن نے لڑکوں کے جھرمٹ میں سے اس کو پکڑ کر مارا۔ مجھ کو بہت برا معلوم ہوا۔ دوسرے دن میں نے پانچ سات لڑکو ں سے مشورہ کیا۔ جو ذرا تگڑے تھے۔ اور ان میں کوئی بھی اس قرضہ کی مصیبت میں گرفتار نہ تھا۔ ایک تجویز پاس ہوئی اور اسی روز اس پر عمل ہوا۔ جب چھٹی کا گھنٹہ بجا تو ان لڑکوں نے مجھے بیچ میں لیا۔ میں ذرا اس طرح جھک گیا کہ شکل نہ دکھائی دے۔ جب لڑکوں کا جھلڑ دروازے میں سے گذرنے لگا۔ توہم بھی ان میں مل گئے۔ میاں نکن اپنی صحنچی کی دہلیز پر کھڑے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک لڑکا ذرا جھکا جھکا جا رہا ہے ۔ سمجھے میرا کوئی قرض دار ہے ۔ قلانچ مار لڑکوں کو چیرتے ہوئے مجھ تک پہنچے اور ہاتھ پکڑ کر جھٹکا دیا۔ میں نے گردن اونچی کر کے کہا۔ ’’کیوں خیر تو ہے۔ آخر اس کے کیا معنی۔ بیچارا معذرت کرنے لگا کہ ’’میاں صاحب معاف کرنا ۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ ہیں۔ میں نے سمجھا تھا کہ فلاں صاحب ہیں۔ ‘‘یہاں تو پہلے سے اس ڈرامے کا نقشہ تیار کر کے آئے تھے۔ میرے ارد گرد جو لوگ تھے، بگڑ گئے، کہنے لگے ۔ بد معاش تو شریفو ں کی آبرو ریزی کرتا ہے۔ مٹکینے کے بل پر اچھلتا ہو گا۔ تیرا اور تیرے حمایتی دونوں کا کچومر نکال دیں گے۔ ‘‘ میں کہتا بھی رہا کہ ’’بھئی جانے دو۔ ‘‘ مگر انہوں نے اچھی طرح مسٹر نکن کو ٹھیک بنا دیا۔ دوسرے روز ہیڈ ماسٹر صاحب کے ہاں شکایت پہنچی ۔ ہماری طرف سے مولوی صاحب نے پیروی کی، غلطی نکن کی تھی ۔ اس لئے مقدمہ ہم ہی جیتےْ ۔ تصفیہ یہ ہوا کہ قرضہ وصول کرنے میں اگر جبر کیا گیا تو دکا ن اٹھا دی جائے گی۔ بھلا اس سے کیا نتیجہ نکل سکتا تھا۔ وہ مدرسہ کے دروازے پر کچھ نہیں کہتا تھا۔ راستہ میں کہتا تھا ۔ غرض قرض دار ہمیشہ اس کے ہاتھوں ذلیل ہی ہوتے رہے خدا قرضہ کی بلاسے سب کو محفوظ رکھے۔ یہ مدرسہ پرائمری تک تھا۔ یہاں کی تعلیم ختم کر کے ہم ہائی سکو ل میں داخل ہوئے۔ مجھ سے اگر پوچھو تو مدرسہ کا اصل لطف ہائی اسکول ہی میں آتا ہے ۔ طالب علم نہ تو چھوٹا ہوتا ہے کہ بچہ کہلائے اور نہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ مقطع بن جائے ۔ اس لیے جو جو شرارتیں اس کو یہاں سوجھتی ہیں اور وہ کیا کر بیٹھتا ہے اور جو جو واقعات اُس کو یہاں پیش کرتے ہیں اور اُن کا وہ لطف اٹھاتا ہے۔ وہ نہ پھر نصیب ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے۔ ان واقعات کو میں اس مضمون کے دوسرے حصہ میں لکھوں گا۔