ندیم کا شعری خصوص

جلیل عالی

 

ایسے شاعر کم کم ہوتے ہیں جن کی تخلیقات کے پسِ پردہ ایک مرکزی تخلیقی واردات کار فرما ہو ، اور زندگی ، معاشرے اور کائنات کے بارے میں ان کے جملہ روییّ اور افکارو خیالات اسی سے مرتب ہو رہے ہوں ۔ اردو ادب میں اس طرح کی سب سے بڑی مثال اقبال کی عظیم اور منفرد شعری واردات ہے ۔ اقبال کی شاعری ہماری فکری و تہذیبی روایت کی جملہ جہتوں کا بھر پور اظہار کرتی ہے ۔ حیات و کائنات کی ایک ایسی مربوط ، جدید اور جامع تعبیر سامنے لاتی ہے، جو انسان کو تضادات اورپیراڈاکسس کے درمیان زندگی کرنے، عمل خیر سے ہم رشتہ رکھنے اور حقیقی معنوں میں ایک زندہ و متحرک وجود میں ڈھالنے کا محرک بنتی ہے ۔
اقبال کے بعد ہماری فکری و تہذیبی روایت کی زیادہ سے زیادہ جہتوں کو اپنی شعری واردات کا حصہ بنانے والوں میں مجید امجد اور احمد ندیم قاسمی کے نام سرفہرست ہیں ۔ دونوں کے ہاں ایسے بہت سے اشارے موجود ہیں جو بڑی حد تک ایک مربوط فکری نظام کے نقوش اجاگر کرتے ہیں ۔ دونوں کی اپنی اپنی ڈکشن اور اپنا اپنا انداز بیان ہے۔ شعری لطافتوں اور اظہار و بیان کی خصوصیات کے حوالے سے دونوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے اپنے اپنے دائرے ہیں ۔ تاہم دونوں کے ہاں جزوی حقیقت کی بجائے کلی تصورِصداقت کی کارفرمائی نمایاں ہے ۔ دونوں کی شاعری اقبالی روایت کے تسلسل میں روح و مادے کی ثنویت کی بجائے وحدتی فکر و احساس ابھارتی ہے ۔مگر جہاں تک لب و لہجے کے شکوہ اور بیان کے صوری و صوتی خدوخال کا تعلق ہے، ندیم کے طرز اظہار میں اقبال کے اسلوبی سلسلے ہی کے چند نئے امکانات رونما ہوئے ہیں ۔ اقبال نے جس انداز میں اپنے سماجی و سیاسی اور معاشی و اجتماعی خیالات کو اپنی فکری و تہذیبی روایت کے ازلی و ابدی سرچشموں سے سیراب کیا ہے ، اسے ایک خاص انداز کی روحانی ترقی پسندی کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ یہاں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ اقبال کی جامع اور توانا فکر نے مذہب پر ملائیت کی اجارہ داری ختم کر کے رکھ دی تھی مگر خیر سے ہمارے کچے پکے ترقی پسندوں کی مذہب سے بے اعتنائی بلکہ معاندت اور آمروں کے استحصالی حربوں نے اسے پھر سے وہی حیثیت دلا دی ۔ ترقی پسندوں میں ندیم کو یہ خصوص حاصل ہے کہ وہ اس طرح کی فکری معذوری کا شکار نہیں ہوا بلکہ اس نے ابتداہی میں مذہب سے پیچھا چھڑانے کے سجاد ظہیری مطالبے پر اپنے صائب مؤقف کا واضح اور برملا اظہار کر دیا تھا کہ ، اس کا مذہب اسے محنت کشوں اور زیر دستوں کی حمایت سے نہیں روکتا ۔ چنانچہ اپنی اس روحانی ترقی پسندی کی وجہ سے وہ عمر بھر نام نہاد دائیں اور بائیں بازو کی برہمی کا ہدف بنتا رہا۔
ع اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش !
ندیم کی غزلوں ، نظموں اور نعتوں پر محیط تمام کلام کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہماری فکری و تہذیبی روایت کی جتنی جہتیں ندیم کی شاعری میں سامنے آئی ہیں اتنی کسی دوسرے ترقی پسند شاعر کے ہاں دکھائی نہیں دیتیں ۔ اگرچہ یہ الگ بات ہے کہ فیض اس عظیم روایت کی صرف انسان دوستی اور انقلاب و رومان کے تال میل سے جیسی شائستہ و پرکار اور دلپذیر شاعری کر گیا ویسی کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی ۔
بات ندیم کے خصوص کی ہو رہی تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی توحید پرستی ، اس کی نعت گوئی ، اس کی انقلابیت ، اس کی حق گوئی و بے باکی ، اس کی استعمار دشمنی ، اس کا احساس جمال ، اس کی ناقابل شکست رجائیت اور اس کی ہمالیہ سے بھی بلند و مضبوط پاکستانیت ۔ غرضیکہ اس کے تمام موضوعات اور ان کے اظہار کے قرینے ہماری فکری و تہذیبی روایت ہی سے آبیاری حاصل کرتے ہیں ۔ اس کی شاعری کا مرکزی کردار ایک صوفی مجاہد کے خدوخال ابھارتا ہے ۔ ان حوالوں سے ندیم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
ہم نے سجدہ کیا صرف ایک خدا کے در پر
ہم سرافرازگزرتے رہے درباروں سے
خدا کے ذہن کا فن پارۂ عظیم ہوں میں
کہ کائنات کا دولھا ہوں مَیں ندیم ہوں مَیں

جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں
سورج کو غروب سے بچاؤں
اگر گھنا ہو اندھیرا اگر ہو دور سویرا
تو یہ اصول ہے میرا کہ دل کے دیپ جلاؤں

ٹوٹا تو کتنے آئنہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
حکم ہے سچ بھی قرینے سے کہا جائے ندیم
زخم کو زخم نہیں پھول بتایا جائے
ندیم جن کے ارادوں میں ڈھل رہی ہے حیات
ہم ایسے فن کے اماموں سے وہ عوام بھلے

سنتے ہیں سمندروں کے اس پار
اقوام کی ایک انجمن ہے
آج اس کے اصول کے مطابق
ظالم ہے وہی جو خستہ تن ہے
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
تاج سر پہ رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں

اِس رشتۂ لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تُو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا
یاد آئے ترے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہئ فن یاد آئی
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا

بیزار ہے جو جذبۂ حب الوطنی سے
وہ شخص کسی سے بھی محبت نہیں کرتا
یہ خطۂ زمین معنون ہے تیرے نام
دے اس کو اپنی رحمتیں اور بے شمار دے
اس نے تاریخی ادبی جریدے ’’ فنون ‘‘ کے ذریعے جینوئن تخلیق کاروں کو متعارف کرانے اور صحت مند ادبی جمالیاتی قدروں کو فروغ دینے کا غیر معمولی کام کیا ۔ اس نے دیباچوں اور فلیپوں کے توسط سے تخلیق کاروں کے اصل جوہرکو بڑھاوا دیا۔ قومی و تہذیبی حوالوں سے ندیم کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اس نے تحریک پاکستا ن میں پوری سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا۔ وہ علاقائی ثقافتوں کے وجود کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ پورے شرح صدر سے مجموعی پاکستانی ثقافت اور تشخص کا بھی قائل رہا۔ وہ سقوط ڈھاکہ پر ٹوٹ کر رویا ۔ وہ اس جانکاہ قومی المیے کی ذمہ دار اندرونی اور بیرونی قوتوں پر شدید تنقید کرتا رہا۔ وہ جنگ ستمبر کے دوران وطن عزیز کے دفاع میں شعلہ فشاں ہو گیا۔ وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے کے لیے مجاہدین کشمیر سے واضح اظہار یک جہتی کرتا رہا ۔ وہ تمام پاکستانی زبانوں کے احترام کے ساتھ اردو کو قومی زبان مانتا رہا ۔ وہ اپنے قومی وجود اور تشخص کے خلاف سرخ و سفید دونوں سامراجوں کی ریشہ دوانیوں کو کھل کر بے نقاب کرتا رہا۔
زندگی کی جملہ جہتوں میں اپنے روحانی ترقی پسندانہ نقطۂ نظر کی بنا پر دائیں اور بائیں دونوں کیمپوں کی طرف سے ندیم پر مسلسل اعتراضات کی یلغار ہوتی رہی ، مگر پوری استقامت کے ساتھ اپنے نظریات پر قائم رہا اور اپنی شاعری ، تنقیدی مضامین اور تحریر و تقریر کی دیگر صورتوں میں ان کا بھرپور اظہار کرتا رہا ۔ آج جب کہ ہمارے بیشتر ترقی پسند احباب کشمیر و فلسطین ، عراق و افغانستان ، بوسنیا اور چیچنیا میں عالمی سامراج کے خلاف مزاحمت کرنے والوں سے اظہار یک جہتی کی بجائے این ۔ جی ۔ اوز کی کمیں گاہوں میں آسودۂ مال و منال ہو چکے ہیں ، قومی و تہذیبی غیرت و حمیت اور استقامت فکر وعمل کے حوالے سے کلام ندیم کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔