وطن کی کہانی۔۔ ندیم نظموں کی زبانی

ڈاکٹر ناہید قاسمی

 

احمد ندیمؔ قاسمی کی سبھی تحریریں اور سبھی تخلیقات ، شاعری، افسانہ، مضامین اور کالم ان کی انسان دوستی کے ساتھ ساتھ ان کی انتہائی پرخلوص حب الوطنی کا بھی متاثر کن اظہار ہیں۔ اپنے ہی وطن کی قدر نہ کر سکنے والے اور ساری دنیا سے محبت رکھنے کا دعویٰ کرنے والے، وطن کا ذکر کرنے کو خامی تصور کرتے ہیں جبکہ حب وطن کی اصل پہچان رکھنے والے، اسے ایک قابل احترام اور قابل قدر خوبی مانتے ہیں۔ اہم ناقدین نے تسلیم کیا ہے کہ ندیم کے فن کی نمایاں ترین صفت، خلوصِ نیت سے تشکیل پانے والی ان کی سچی تڑپ ہے جو دل سے ابھر کر دلوں میں اتر جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر وطن کے ذکر کے وقت اپنی تاثیر کی انتہاؤں پر ہوتی ہے۔
میں یہاں ندیم کے افکارِ وطنیت یا تصور قومیت پر بات نہیں کروں گی بلکہ ندیم کی اپنے وطن سے انوکھی عقیدت اور گہری محبت کے عہد بہ عہد انداز کی تھوڑی سی جھلکیاں دیکھوں اور دکھاؤں گی۔
ندیم ؔ نے بتا رکھا ہے کہ :
" اپنے نقطۂ نظر کی عالمگیریت کے باوجود مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں کیونکہ مجھے اسی مٹی نے پیدا کیا اور انہی ہواؤں نے پالا ہے۔ پھر میں جس حسن و توازن کا پجاری ہوں، اس کا تصور مجھے یہیں سے ملا ہے۔ اس لیے مجھ پر اس سرزمین کے خاص حقوق ہیں اور میں امن و آشتی کا پرستار ہونے کے باوجود اس کے ناموس اور تحفظ کے لیے لڑ بھی سکتا ہوں اور اس کی آن پر مر بھی سکتا ہوں۔ حد سے بڑھی ہوئی عالمگیریت والے مجھ پر تنگ خیالی کا الزام بھی دھر سکتے ہیں مگر میں اس ماں کو کیسے بھولوں جس نے مجھے جنم دیا اور جس کے قدموں میں میری جنت ہے۔"
پشاور ریڈیو سے وابستہ خاطر غزنوی اور فارغ بخاری اور ساتھ ہی محسن احسان بتاتے ہیں کہ تحریک آزادی کی کامیاب تکمیل کے موقع پر ۱۳اور ۱۴ اگست۱۹۴۷ ء کی درمیانی رات کے بارہ بجے آل انڈیا ریڈیو پشاور سے یہ نیا اعلان ہوا کہ "یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس پشاور ہے۔ اب آپ جشن آزادی کے سلسلے میں احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا ترانہ سنیں گے۔ "پاکستان بنانے والے ، پاکستان مبارک ہو ۔۔۔" یہ تھا وہ پہلا نیا قومی نغمہ جو اس رات ہمارے پاکستان کی آزاد فضاؤں میں گونجا۔ اس رات ندیمؔ کے تین قومی نغمے نشر ہوئے جنھیں خود سٹیشن ڈائریکٹر اور اپنے عہد کے اہم ماہر موسیقی سجاد سرور نیازی نے اپنی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں، خود اپنی ہی آواز میں یہ نغمے کا کر پاکستان کی آزاد فضاؤں کو پہلا خراج تحسین اور پہلا شکرانہ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔"
پاکستان ہی کے حوالے سے مجھے یاد آ رہا ہے کہ مقبول دانشور اور نامور افسانہ نگار اشفاق احمد نے کہا تھا کہ :
" میں سمجھتاہوں کہ قاسمی صاحب کو خدا نے ایک ایسی برتری ودیعت کی ہے جو بڑی مشکل سے اور خال خال ہی لکھنے والے کو، ایک کری ایٹوآرٹسٹ کو نصیب ہوتی ہے۔ (وہ یہ ہے کہ) ہر ملک ، ہر بستی، ہر معاشرہ اور ہر قوم کا ایک ادیب ہوتا ہے۔۔۔ قوم، معاشرہ ایک ادیب کو ، ایک شاعر کو طے کر لیتا ہے کہ "یہ ہمارا نمائندہ ہے۔"تو ہمارے ملک کا نمائندہ ادیب اور اس میں نمائندہ شاعر بھی شامل ہے، وہ ہے احمد ندیم قاسمی۔ "
میں آج کل ندیم کی نظموں کا تفصیلی مطالعہ کر رہی ہوں۔ اور میں نے محسوس کیا ہے کہ سادہ اور رواں لیکن پُرتاثیر، سنجیدہ اور پروقار انداز میں اور ہماری اکثریت کی سمجھ میں آنے والی زبان یعنی پاکستانی اردو زبان میں، اپنے وطن سے سچی اور حقیقی محبت کی جھلکیاں ندیم کے ہاں آغاز کلام سے نمایاں اور متاثر کن ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ندیم کی ۱۹۳۱ء میں پہلی شائع ہونے والی نظم، ہمارے ایک قومی رہنما مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں تھی جو انھوں نے چودہ پندرہ برس کی عمر میں لکھی تھی۔
ندیم کے پہلے مجموعہ کلام " جلال و جمال" میں بالکل آغاز کی اور نومشقی کے زمانے کی کچھ چیزیں بھی شامل ہیں جبکہ ۳۶۔۱۹۳۷ء میں ندیم نے ۱۹، ۲۰ برس کی عمر میں، انگریزوں کی حکومت کے دوران نظم " عزم نو" کہی اور "چڑیوں کوکرگسوں سے لڑانے اور انسان کو آسمان پر بٹھانے" کا عزم ظاہر کیا جبکہ ۲۳ برس کی عمر میں ۱۹۴۰ء میں نظم بعنوان " قصرِ فردا" میں نہایت جوش و جذبے سے اور بڑی خودداری کے ساتھ ایسے ارادے باندھے جن پر پورا عمل کرنے کی سعی انھوں نے آخری دم تک جاری رکھی ، کہ:
لکھوں گا غریبوں کی بغاوت کے قصیدے
اور بھول کے بھی مدحتِ سلطاں نہ کروں گا
یہ جنس گرانمایہ ہے شاعر کا دفینہ
غیرت کو کبھی سربگربیاں نہ کروں گا
سوکھی ہوئی ٹہنی پہ میں جل جاؤں گا لیکن
قسمت سے طلب موسم باراں نہ کروں گا
ندیم نے تحریک پاکستان میں عملی حصہ لیا اور یوں حالات کے مختلف اتار چڑھاؤ کا گہرا مشاہدہ بھی کیا۔ ۱۹۴۷ء کے شروع میں ، تحریک آزادی کے نقطۂ عروج تک پہنچنے کے زمانے میں، اپنی نظموں میں ندیم نے خبردار کیا تھا کہ غلامی سے نجات اور آزادی کے حصول کا وقت قریب آ رہا ہے۔ ایسے میں فتح حاصل کرنے کے لیے اورشکست سے بچے کے لیے رہنماؤں اور عوام کو بہت محتاط رہنا ہو گا کیونکہ انگریزوں اور ہندوؤں کی پرفریب چالیں بھی انتہا پر ہیں اور وہ پرکشش پیش کشوں کے پیچھے گھنے جال پھیلانے میں لگے ہیں جو نظم رفتار زمانہ میں اور نظم کھری کھری میں کہا۔
سنبھل سنبھل کے چلے آ رہے ہیں تیر انداز
شکار گاہ میں آہو بھی ہے پلنگ بھی ہے
("رفتارِ زمانہ")
ڈالیاں مجھ کو بلاتی ہیں گلوں سے لد کر
پھول روتے ہیں کہ میں راز چمن جانتا ہوں
جن کے دم سے الم آلود ہوا میرا شعور
ان شکستوں کی میں تاریخ نہ دہراؤں گا
("کھری کھری")
۱۴؍اگست کی رات وطن کو حاصل ہونے والی آزادی کی خوشی میں گیت گانے والا محب وطن اور انسان دوست شاعر ۱۶؍اگست کی نظم میں دشمنوں کی بھڑکائی آگ سے پھوٹ پڑنے والے فسادات پر اپنی پر یشانی کا اظہار کرنے لگا۔ سرحدوں کی غلط اور غیر منصفانہ فتنہ انگیز نقشہ بندی پر بھی شاعر غمزدہ ہے اورتھوڑی امدادکی بجائے بہت سا قرض لینے کے آغاز پر افسردہ ہے۔ کہتا ہے :
صرف تاراجی گلزار کا شکوہ تو نہیں
آسماں پر بھی ستاروں کی کمی پاتا ہوں
شفقِ شام ہو، یا صبح کی انگڑائی ہو
سب نظاروں میں بہاروں کی کمی پاتا ہوں
(" بہار آئے گی")
لیکن ندیم نے حسب سابق امید کا دامن نہیں چھوڑا اور نظم" رات بیکراں تو نہیں" میں کہا:
نجوم بجھتے رہیں، تیرگی امڈتی رہے
مگر یقینِ سحر ہے جنہیں اداس نہیں
طلسمِ شب کا یہی توڑ ہے، قدم نہ رکیں
اندھیرا ٹوٹ کے برسے، مگر یہ سر نہ جھکیں
یہ کہہ کر بھی ہمت بڑھائی کہ:
یہ زمیں، یہ خلا کی رقاصہ
آدمِ نو کے انتظار میں ہے
(" آزادی کے بعد")
لیکن ایک تو قائداعظم کے انتقالِ پر ملال کے صدمے سے ملک سنبھل نہ پایا۔ دوسرے، ستم یہ ہوا کہ دشمنوں سے کامیاب نجات حاصل کر لینے کے باوجود صاحبان اختیار نے انتہائی ناقص اور غلط پالیسیاں بنانا شروع کر دیں۔ اہل قلم کے سچ بولنے پر گرفت ہونے لگی۔ شاعر نے " ظلمت شب کے قصیدے کہنے سے انکار" کیا تو آئینہ دیکھنے سے کترانے والوں نے ۱۹۵۱ء میں سیفٹی ایکٹ کے بہانے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ لیکن جابروں کی توقع کے برخلاف ، قید و بند کی یہ سختیاں بھی سچ بولنے سے روک نہ سکیں۔ جیل سے رہائی کے بعد ۱۹۵۲ء کی بہت متاثر کن نظم بعنوان " غم وطن" کے چند اشعار دیکھئے:
میرا غم، صرف مرا غم تو نہیں ، کم کیوں ہو
آدم اس دور میں بھی کشتۂ آدم کیوں ہو
جس کے دانتوں میں مری قوم کے ریشے ہیں ابھی
وہی سفاک مرے دیس کا ہمدم کیوں ہو
جب گلوں تک کو خبر ہے کہ بہار آتی ہے
گلشنِ غیر سے دریوزۂ شبنم کیوں ہو
سینۂ شب میں دھڑکتاہے دل صبحِ جمال
لب ترے خشک ہوں کیوں، آنکھ تری نم کیوں ہو
ہزا دھمکیوں اور ڈراووں کے باوجود ندیم نظم " یہ رات" میں بہادری اور حوصلے سے کہتے ہیں کہ:
اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہی
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گا
شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیمؔ
سحر ملے نہ ملے، رات سے نہ ہاروں گا
پاکستان بننے کے بعد،پانچ برس بیت چکے تھے لیکن با اختیار لوگوں کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندیاں بڑھتی گئیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے احکام اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے خواب تہ تیغ کرنے کا عمل جاری رکھا گیا۔ استحصال اور ناانصافی کی انتہا کر دی گئی۔ ایسے میں جو بھی اہل علم و دانش و فن ان خراب حالات کی نشاندہی کی کوشش کرتا تو سچ بولنے تک پرتعزیریں لگ جاتیں۔ اس وقت کی بے حد مقبول انجمن ترقی پسند مصنفین پر بھی پابندی لگا دی گئی جس کا اہم عہدہ (یعنی سیکرٹری جنرل) ندیم ؔ کے سپرد تھا۔ بہر صورت اہلِ شعر و ادب نے تخلیق فن کو اور بالخصوص حقیقت بیانی کو ترک نہیں کیا۔ وجہ یہ تھی کہ آزادی کی سچی تکمیل ہونا ابھی باقی تھی۔ نظم " ایوانِ سحر" میں ندیم نے کہا:
سحر کا ایک ہی مفہوم ہے طلوع سحر
مجھے فریب نہ دیں روشنی کی تفسیریں
شگفتِ گل کو تو ہے انتظار موسم گل
وہ لاکھ نوک سناں سے کلی کا دل چیریں
کچھ اور نام ہے اس کا یہ فصلِ گل تو نہیں
کہ بوئے گل کے لیے ڈھل رہی ہیں زنجیریں
ندیم نے نظم " شباب کے پھول" میں نہایت دکھ اور تشویش سے کہا:
یہاں سے وہ قافلے نہ گزرے، فضا میں گونجی تھی چاپ جن کی
میں عمر بھر منتظر رہا ہوں، گواہ گردش ہے رات دن کی
۱۹۵۳ء میں مشہور و مقبول نظم " دردِ وطن" کہی۔ اب ندیم کے کلام میں مزید نکھار آ گیا۔ ان کا مضبوط لہجہ زیادہ پختہ اور تڑپ کی تاثیر زیادہ گہری ہو گئی:
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اِذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
فقط اِس جرم میں کہلائے گنہ گار کہ ہم
بہر ناموسِ وطن، جامہ تن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہیں نعرے، لیکن
ہم تو اے اہلِ وطن، دردِ وطن مانگتے ہیں
۱۹۵۴ء کی بہت پسند کی جانے والی معنی خیز اور خوبصورت نظم " پابندی" تو یقیناًآپ نے پڑھ سن رکھی ہو گی:
میرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی
راز کیوں کھولتی ہے
اور میں پوچھتا ہوں۔۔۔ تیری سیاست فن میں
زہر کیوں گھولتی ہے
میں وہ موتی نہ بنوں گا، جسے ساحل کی ہوا
رات دن رولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے، کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پَر تولتی ہے
اِک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
۱۹۵۸ء کے مارشل لاء نے پابندیوں اور جبر کی تکمیل کر دی اور یہ سلسلہ مختلف رنگوں کے لبادے بدل بدل کر طویل عرصے تک پورے وطن کو فریب دیتا رہا۔ ندیم نے اس دور میں کئی خوبصورت اور فکر انگیز نظمیں کہیں مثلاً " پتھر"، " جنگل"، " حصارِ فصل گل"، " صدائے بے صدا"، قیامت"، " حکم"، " فرد جرم"وغیرہ۔
۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ نے سوئی ہوئی قوم کو جگا دیا۔ تب ندیم نے کہا:
میری تاریخ کا وہ باب منور ہے یہ دن
جس نے اس قوم کو خود اس کا پتہ بتلایا
امن میں موجۂ نکہت مرا کردار سہی
جنگ کے دور میں غیرت ہوں، حمیت ہوں میں
میرا دشمن مجھے للکار کے جائے گا کہاں
خاک کا طیش ہوں، افلاک کی دہشت ہوں میں
(" چھ ستمبر")
لیکن آمریت نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی۔
آخر وطن کے بے بس بے زبانوں کو زبان اس طرح ملی کہ ملک کے مشرقی اور مغربی دونوں حصوں میں پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں کچھ امیدیں بندھ گئیں نظم " پیش گوئی"میں ندیم کہتے ہیں:
اب تو دھوپ نکلی ہے اب تو برف پگھلے گی
اب تو کہساروں کے خدوخال جاگیں گے
لیکن صاحبان اقتدار و اختیار کی غلط پالیساں اب بھی حسب معمول جاری رہیں۔ جن کے نتیجے میں شکست و ریخت شروع ہو گئی اور بالآخر پاکستان کی تاریخ کے اس سب سے بڑے المیے کا سامنا ہو گیا جس کی تیاری میں ۱۹۶۵ء کے بعد سے سپرپاورز ظاہر میں بھی اور درپردہ بھی ہر طرح سے پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کر رہی تھیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کی شب ندیم شدید ترین صدمے سے تڑپ اٹھے:
میں روتا ہوں اے ارضِ وطن میں روتا ہوں
جب شب کاٹے کٹتی ہی نہیں
میں اپنے لہو کے قطروں کو اپنی رگِ جاں میں پروتا ہوں۔۔۔ میں روتا ہوں
آمیری جلد اتار کے اپنے سارے زخم رفو کر لے
تیرے داَمانِ دریدہ کو میں آبِ سر شک غیرت و غم میں دھوتا ہوں
میں روتا ہوں اے ارضِ وطن میں روتا ہوں
آخر بچے کھچے پاکستان کو بچا لینے کی جستجو میں زخموں پر مرہم رکھے گئے:
دوستو ! آؤ، اپنے ریزے آپ سمیٹیں۔۔۔
بھوبھل میں چنگاری ڈھونڈیں۔۔۔
خون آلود زمیں سے پھول اُگانا سیکھیں۔۔۔
جنوری ۱۹۷۲ء میں معروف نظم " دُعا" کہی۔ ندیم ہر طرف سے مایوس ہو کر مالکِ کل، رحمان اور رحیم رب سے مدد مانگتے ہیں:
یارب مرے وطن کو اک ایسی بہار دے
جو سارے ایشیا کی فضا کو نکھار دے
میداں جو جل چکے ہیں، بجھا ان کی تشنگی
شاخیں جو لٹ چکی ہیں، انہیں برگ و باردے
یہ خطۂ زمین معنون ہے تیرے نام
دے اس کو اپنی رحمتیں اور بے شمار دے
پھر اس طرح سے بھی خود اعتمادی کو جگایا کہ:
اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ۔۔۔
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے۔
(" اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ")
لیکن بدقسمتی سے راہبر حسب سابق ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے رہے:
یہ رہبر ہیں، کسی کو باخبر ہونے نہیں دیں گے
گزر جائے گی شب، لیکن سحر ہونے نہیں دیں گے
زمیں کی قوت روئیدگی برحق سہی، لیکن
کسی بھی شاخ کو وہ بار ور ہونے نہیں دیں گے
(" یہ راہبر")
اور آخر ایک اور مارشل لاء نے پاکستانی عوام کی اکثریتی رائے پر شب خون مارا۔ پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو گرفتار کر لیے گئے۔ ندیم نے ۱۹۷۷ء میں اپنے وطن پر اس ایک اور ستم کے بارے میں نظم بعنوان " ایک فرد۔۔۔ ایک تاریخ" لکھی:
وہی ہوا، جو سدا اہل دل کے ساتھ ہوا
کہ بن گیا ہدف طعن، اس کا چاک قبا
وہ کچھ بھی تھا، مگر اس وقت اک وہی تو تھا
کہ جس نے بڑھ کے مقفل دہن کو کھولا تھا
مرا جوان وطن، میرا بے زبان وطن
پھٹے پھٹے ہوئے زخمی لبوں سے بولا تھا
وہ کچھ بھی تھا مگر اس دور نو کا بانی تھا
کہ جس میں، سنگ سر راہ، باوقار ہوا
آخر حالات اس حد تک جا پہنچے کہ ندیمؔ نے نظمیں " کرب نامہ" اور " ایک نوحہ" بھی لکھیں لیکن ہر طرح کے اتار چڑھا ؤ میں بھی، ندیم ؔ کی وطن سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وطن کے لیے ایک بہت اچھی طویل نظم میں کہتے ہیں:
سارے رشتے ہیں وطن اور زمیں کے محکم
میں نے اڑتے ہوئے دیکھے ہیں یہ پرچم باہم
یہی مٹی مری جنت ہے، کہ اس مٹی میں
چپے چپے سے جھلکتا ہے گلستانِ ارم
میں تو یہ دیکھ کے پت جھڑ میں بھی ہنس دیتاہوں
ایک پتہ ہے سر شاخ ابھی مستحکم
کچھ طلب ہے تو بس اتنی، کہ وطن زندہ رہے
نہ ہوائے زر و گوہر، نہ غمِ دام و درم
گنگناتے ہوئے چلتے ہیں ہوا کے جھونکے
اور کر جاتے ہیں غزلیں دل شاعر پہ رقم
صبح فطرت کی عدالت جو کھلی، تو دیکھا
خشک پتوں سے بھی کترائی نہیں ہے شبنم
(وطن کے لیے ایک نظم)
۱۹۸۰ء کی ایک حسین نظم بدستور میں ندیم نے کہا کہ یوں تو ہمارا وطن بہت سی خوبصورتیوں اور بہت سے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ :
گردشوں کی رعنائی عام ہی نہیں ہوتی
اپنے روز اول کی شام ہی نہیں ہوتی
کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی لیکن میں اپنا مضمون مارچ ۱۹۸۰ء میں کہی ندیم کی بے حد پرتاثیر نظم "وطن کے لیے ایک دعا "پر روکتی ہوں:
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل، جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے، وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز، کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں سے بھی، روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے۔۔۔ کہ نہ خم ہو سر وقار وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے۔۔۔ کہ مرے ایک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
خدا کرے۔۔۔ کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
آمین ثم آمین!
احمد ندیم قاسمی کی یاد میں

وقت کا نامدار تھا وہ شخص
وصف کا شاندار تھا وہ شخص
اپنی دھرتی سے پیار کرتا تھا
قوم کا غمگسار تھا وہ شخص
ظلمتِ شب سے دشمنی تھی اُسے
اس قدر جان دار تھا وہ شخص
وہ جو لکھتا تھا لوگ پڑھتے تھے
قابلِ اعتبار تھا وہ شخص
جبر کے سامنے جھکا نہ کبھی
صاحبِ اختیار تھا وہ شخص
شِعر کی ایسے آبیاری کی
جیسے ابر بہار تھا وہ شخص
حُریت کا جو پہلا نغمہ تھا
اس کا تخلیق کار تھا وہ شخص
کم ہی لوگوں کو وہ نصیب ہوا
جس یقیں کی پکار تھا وہ شخص
عہد نو کے سخنوروں کے لیے
باعث افتخار تھا وہ شخص
اپنے ہم عصر لکھنے والوں میں
کس قدر باوقار تھا وہ شخص
آج تک لوگ کہہ رہے ہیں ضیاؔ
علم کا تاجدار تھا وہ شخص
آفتاب ضیاء ، اسلام آباد