اردو ایک ہشت پہلو زبان

سمیرا امین

 

روئے زمین کی جملہ مخلوقات انعامات خداوندی سے فیض یاب ہو رہی ہیں مگر انسان جس کو زمین پر خدا کا خلیفہ ہونے کا شرف حاصل ہے واحد مخلوق ہے جس کو دیگر انعامات کے ساتھ ساتھ قوتِ گویائی بھی عطا کی گئی ہے۔ تمام اعضائے جسمانی اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروفِ عمل ہیں۔ چشم بشر، یہاں تذکرہ ان ’’غزال آنکھوں‘‘ کا نہیں جو شعراء کرام کے کلام کا محبوب حصہ ہیں بلکہ عام انسانی آنکھ جس کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں پھیلی تمام تر رعنائیوں کو خود میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
’’آنکھ‘‘ اپنے چاروں اطراف میں پھیلی اس وسیع کائنات کا نظارہ کرتی ہوئی اس کے سفر میں محو ہے، ذہن ان ہی نظاروں سے سوچ کے گوہر اور تخیل کے جواہر تخلیق کرتا ہوا علوم و معارف کو سوچ کے اوراق پر رقم کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔
مگر چشم بشر اور دماغ دونوں اور ان کے ساتھ باقی کے تمام اعضائے جسمانی اپنے تمام اعمال و افعال کو الفاظ میں تبدیل کرنے کے لیے زبان کے محتاج ہیں۔ آنکھ دیکھ سکتی ہے دکھا سکتی ہے مگر اپنے مفہوم سے آشنا نہیں کروا سکتی، دماغ سوچتا ہے ہر لمحہ تخیل کی رتھ پر سوار خیالات و افکار کے نئے جہانِ معنی صفحۂ قرطاس پر اجاگر کرتاہے اور ایک ایک خیال پر سوچ کے ہزاروں دَر وا کرتاہے مگر اس تخیل کے پنچھی کو پرواز کے لیے پَر فراہم نہیں کر سکتا، سوچ اور فکر کے نو آموز خزینوں کو بیان نہیں کر سکتا، سوچ کے موتیوں کو لڑی میں پرونے اور ان کو حروف اور الفاظ میں تبدیل کرنے کے لیے زبان کے سامنے ہاتھ باندھے، با ادب سر جھکائے کھڑا ہے۔ گویا زبان وسیلۂ اظہارِ خیالات وافکار ہے۔
تجسس(Curiosity) انسان کی سرشت میں شامل ہے اور یہ ہی قوت ہے جو اس کو سوچنے، جاننے اور مشاہدہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مشاہدات اور پھر آگے چل کر تجربات انسان کو بہت کچھ سکھاتے اور آشنائی کے نئے دَروا کرتے ہیں۔ اسی تجسس کے زیر سایہ انسان تخیل سے نئے جہان کشید کرتاہے اور پھر اس سوچ کو الفاظ اور معنی کے رنگین پیراہن میں ملبوس کرنے کے بعد اوراق کی زینت بناتا ہے۔
الفاظ انسان کے سب سے بڑے مددگار اور ساتھی ہیں۔ انسان اپنے محسوسات کو الفاظ کی صورت میں ڈھال کر اپنا مافی الضمیر بیان کرتاہے۔ بولتی آنکھیں، ہلتے ہونٹ اور ان سے جھڑتے الفاظ انسان کی ذات کو سامع کے سامنے آشکار کر کے اس کی ذات کے مخفی گوشوں کو ہویدا کرتے ہیں۔ غالب نے اسی مضمون کو اپنے کلام کا حصہ یوں بنایا ہے۔
کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
اگر یہ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے الفاظ اور انداز تخاطب سے اپنے حلقۂ احباب میں پہچانا جاتا ہے تو بالکل درست ہے۔ انسان کی زبان سے ادا ہوتے الفاظ اس کی سوچ اور خیالات کے ترجمان ہونے کا فریضہ انجام دینے پر فائز ہیں۔ بلاشبہ خاموشی اور بعض دفعہ سننا اور صرف سنتے رہنا ہی کافی ہوتا ہے۔ ’’تزکیۂ نفس‘‘ میں سب سے بڑا اوراہم عنصر خاموشی ہی ہے۔ انسان اپنی ہی ذات سے بے خبر ہے، انسان کی ذات ایک ایسا معمہ ہے جس کی ہر پرت میں کئی دنیائیں چھپی ہیں۔ تزکیۂ نفس اور خاموشی کا یہ عالم انسان کی اپنی ہی ذات کے گرد طواف کے دوران ان اسرار کی پردہ کشائی کا موجب بنتا ہے جو اس سے پہلے پوشیدہ تھے۔
گوشت پوست سے بنی زبان انسان کے محسوسات کو الفاظ کی صورت میں ڈھال کر ان کو معتبر بنا دیتی ہے گویا بلاواسطہ طو رپر الفاظ انسان کو معتبر بناتے ہیں مگر زبان ان الفاظ کو معتبر مقام دلانے میں بنیادی و کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
زبان بھی دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو وہ جو عضوِ جسمانی ہے اور دوسری وہ جو اس زبان سے الفاظ کی صورت میں بیان ہوتی ہے۔ ہر قوم کی اپنی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے اور بحیثیت پاکستانی اردو ہماری قومی زبان ہے۔ ’’اردو‘‘ ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا لشکر کی جگہ کے ہیں۔ چونکہ یہ زبان مختلف لوگوں کے میل جول اور مختلف زبانوں کے الفاظ سے مل کر بنی ہے اس لیے اسے ’’لشکری‘‘ زبان کا نام دیا گیا اور مخلوط ہونے کے سبب اسے ’’ریختہ‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔
اردو ایک باوقار زبان ہے۔ اس میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ اس میں وسعت بھی ہے اور ہمہ گیری بھی۔ جلال بھی ہے اور جمال بھی۔ الغرض اردو ایک ہشت پہلو زبان ہے ۔ زبان کے بار ے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کیا خوب فرماتے ہیں ہیں۔
’’زبان خیال اور خیال زبان ہے۔ الفاظ ہمیں سوچنے میں ویسی ہی مدد کرتے ہیں جیسی آنکھیں دیکھنے میں۔ زبان کی ترقی درحقیقت عقل کی ترقی ہے۔ یہ نہ صرف انسان کی ذہنی، معاشرتی، سیاسی ، سماجی ترقی میں مدد دیتی ہے بلکہ نظر میں وسعت ، دماغ میں روشی اور خیالات میں تغیر پیدا کرتی ہے بلکہ قوموں کے بنانے میں بھی ایک قوی آلہ ہے‘‘۔
مندرجہ بالا منقش الفاظ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مثبت سوچ، عمیق مطالعہ اور زبان سے دلی وابستگی اور محبت کا نتیجہ ہیں۔ بلاشبہ اردو ایک ایسی زبان ہے جس نے برصغیرپاک و ہند اور گرد و نواح میں ایک ایسی بنیاد رکھی جس نے نہ صرف سوچ اور فکر کے نئے در وا کیے بلکہ اسی سوچ اور فکر سے ایسے ایسے گل کھلائے جن کی خوشبو نے چہار سوکو معطر کر رکھا ہے۔
یہ ایک زندہ زبان ہے اور ہر زندہ زبان کی سب سے بڑی خاصیت ہے کہ وہ تغیر و تبدل کی منازل طے کرتی رہتی ہے۔ اردو ایک میٹھی، مخلوط اور باوقار زبان ہے۔ ہندی و سنسکرت ، بنگالی ،عبرانی، عربی و فارسی وغیرہ مختلف زبانوں کے الفاظ کی آمیزش سے اس کی مینا کاری ہوئی ہے ۔ اس کا ذخیرہ الفاظ، صرف و نحو ،قواعد و صوتیات وغیرہ مذکورہ بالا مختلف زبانوں سے مستعار لی گئی ہیں۔ہندی و سنسکرت نے اس میں اضافے کیے، پنجابی و عربی نے لب و لہجہ اور آہنگ عطا کیا اور فارسی نے اس میں مٹھاس و چاشنی بھر دی ہے۔ اس طرح درجہ بدرجہ اضافوں کے بعد ایک نکھری ہوئی نئی زبان اردو کی صورت میں منظر عام پر آئی ۔
ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق اردو کا پہلا مایہ خمیر پنجاب میں تیار ہوا ۔لہٰذا پنجابی کے اثرات بھی اردو پر نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں
’’پنجابی لہجہ ،آہنگ ، تلفظ اور محاورہ شروع سے ہی اردو زبان کے مزاج اور خون میں شامل رہا ہے۔ اردو کو اہل پنجاب ہی نے اپنے سینے سے دودھ پلا کر پالا پوسا اور بڑا کیا ہے ۔ اردو کی روایت اور تاریخ میں پنجاب اسی طرح شامل ہے جس طرح انسانی رگوں کے اندر دوڑتے ہوئے تازہ خون میں شامل سرخ و سفید جسیمے ۔۔۔‘‘
اردو زبان اپنے آپ میں ایک مقناطیسی کشش رکھتی ہے اور اس کشش کے باعث اطراف میں پھیلے گم شدہ گوہر اپنے آپ ہی اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ گویا نظام شمسی کی مانند اردو زبان سورج ہے جس کی چمک ہر جانب پھیلتی ہے اور اس کے چہار جانب بے شمار سیارے ہیں روشنی حاصل کرنے کے لیے، شب و روز طواف کرتے مدار میں سفر کر رہے ہیں۔ ابتدا سے لے کر آج تک اردو زبان نے ادبی میدان میں ان گنت نگینے تراشے ہیں جنہوں نے اس میٹھی زبان کے زیر سایہ نہ صرف تخیل کے بیش بہا موتی منظر عام پر لائے ہیں بلکہ عصری حقیقتوں پر مبنی موضوعات کے خدو خال بھی تراشے ہیں۔ سخن وروں نے تمام اصنافِ سخن کی قدیم ہیؤں کو نیا رنگ و روپ عطا کیا ہے۔ اگر شاعری کے میدان میں دیکھیں تو شعراء کا ایک جم غفیر ہے جس نے اردو زبان کے زیر سایہ شاعری کو نئے معنی اور آہنگ بخشا ہے اور کتنے ہیں جنھوں نے اردو زبان کے ذریعے اوجِ کمال حاصل کیا ہے ۔ بلاشبہ شاعری کے ساتھ جڑے بڑے بڑے اور قابل تحسین نام اردو ہی کی دین ہیں۔
اردو لسانیات کی دنیا میں فرد ہے
اردو ولیؔ ہے میرؔ ہے سوداؔ ہے دردؔ ہے
اردو زبان آتشؔ ، ناسخ کی پیاس ہے
اردو نہاد ذوقؔ ہے غالبؔ اساس ہے
افراد اور اقوام اپنی زبان سے ہی پہچان پاتے ہیں۔ زبان ہی ہے جو افراد اور اقوام کی ترقی و تنزلی کا باعث و موجب ہے۔ آج اقوام عالم پر اگر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا کہ نقشے پر وہ ممالک جو ترقہ یافتہ ممالک کی صف میں سر فہرست ہیں ان کی تمام تر ترقیوں اور کامیابیوں کی بنیاد ان کی قومی زبان ہے۔ ان کے عروج کی داستان ان کی اپنی قومی زبان سے دلی وابستگی اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کسی بھی قوم کی مثال درخت جیسی ہے اور اس قوم کی ترقی میں زبان کی اہمیت جڑ جیسی ہے اور کوئی بھی درخت تب ہی پھلتا پھولتا اور چھاؤں فراہم کرتا ہے جب اس کی جڑ مضبوط ہو ۔ ورنہ وہ افراد جو اپنی اصل پہچان یعنی قومی زبان کو در خوراعتنا نہیں جانتے ان کا حال بالکل ایسا ہوتا ہے جیسے شاعر نے کہا :
زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
کٹے جو پر تو پرندہ اڑان سے بھی گیا
تغیر و تبدل ہر زندہ زبان کا خاصہ ہے مگر یہ تغیر و تبدل اگر مثبت خیالات کے پیش نظر قیام پذیر ہو تو قابل تحسین ہے ورنہ منفی روش صرف اور صرف تنزلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ افراد اور اقوام اپنی قو می زبان کے محافظ ہیں اور جو قومیتیں محافظ ہونے کا فریضہ انجام نہیں دے پاتیں تو پھر مزاحفت ہی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
روشنی انسان کی تمنّا بھی ہے ،محبت بھی اور ضرورت بھی۔انسان ساری زندگی روشنی سے محبت کرتا ہے اور روشنی کی تلاش میں رہتاہے۔ رات کے پچھلے پہرہر انسان کے دل ودماغ میں فرشتوں کے قدموں کی چاپ ایسے ہی سنائی دیتی ہے جیسے رات کے سینے میں کوئی جگنو رینگ رہاہو،روشنی جو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، اس کی ہزار شکلیں ہیں ہزار جنم ہیں اور ہزار جسم ہیں۔
کسی غریب کی کٹیا میں جس سے اجالا ہے وہ بھی روشنی ہے اور شاہجہان کے محل میں جو چمک رہی ہے وہ بھی روشنی ہے،مسافر کی لالٹین سے روشنی پھوٹتی ہے اور اسٹریٹ لائٹ سے بھی روشنی۔
روشنی مدھم بھی ہے ،روشنی تیز بھی ،روشنی سرخ بھی ہے،روشنی سفید بھی ،جو آئینے اور پانی میں منعکس ہے وہ بھی ہے روشنی اور جو آتش پاروں میں جھلکتی ہے وہ بھی ہے روشنی۔
سورج کی شعاعوں ،چاند کی کرنوں اورآبشار کے قطروں سے ہر طرف روشنی ہی روشنی پھوٹتی ہے۔
جیسی روشنی عالم آفاق میں ہے ویسی ہی روشنی عالم نفوس میں بھی ہے۔
چراغ بھی روشنی ہے،امید بھی روشنی ہے،قلم بھی روشنی ہے،کتاب بھی روشنی
روشنی شہیدوں کے لہو سے بھی پھوٹتی ہے،روشنی دعا و مناجات سے بھی
روشنی علماء کے قلم سے بھی پھوٹتی ہے،روشنی کشف و کرامات سے بھی
روشنی مومن کے دل سے بھی نکلتی ہے،روشنی انبیاء کے معجزات سے بھی
اور روشنی حورالعین کی آنکھوں سے بھی جھلکتی ہے۔۔۔
انسان کے ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے لیکن اس کے باوجود وہ روشنی کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔
یہ مشرق و مغرب کے سفر ،یہ کتابوں کے انبار،یہ فتوؤں کے ڈھیر،یہ نعروں کی بھرمار ،سرخ و سبز جھنڈوں کی تقسیم، یہ سب روشنی کی تلاش میں سرگردانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جس طرح کاغذ پر بکھرے ہوئے لوہے چون کو مقناطیس دکھایا جائے تو لوہے چون کے ذرّات صف بستہ رقص کرنے لگتے ہیں ایسے ہی انسان کو اگر روشنی کی امید دلائی جائے توانسان بھی رقص کرنے لگتاہے اورجھوم اٹھتاہے۔
آج ہزاروں قمقموں اور سینکڑوں برق پاروں کے باوجودانسان کے آنگن میں ابھی تک روشنی نہیں اتری۔
آج !
انسان مضطرب ہے،
انسان بے چین ہے،
انسان بے سکون ہے،
انسان بے قرار ہے۔۔۔
اس لیے کہ انسان کو روشنی چاہیے۔
انسان کے اضطراب،بے چینی،بے سکونی اور بے قراری کا علاج روشنی ہے۔۔۔
جی ہاں! روشنی۔
روشنی نعروں اور ریلیوں سے نہیں آتی ،روشنی روٹی اور نوکری سے نہیں آتی،چِلے کاٹنے اور منتر پڑھنے سے نہیں آتی۔
روشنی سچ اور حق سے آتی ہے۔۔۔
اگر انسان کو سچ اور حق مل جائے تو اسے روشنی مل جائے گی،سکون مل جائے گا،قرار مل جائے گا۔
فرقوں،بینروں،نعروں اور پھر پوسٹروں پر نہ جائیے،سچ اور حق تلاش کیجیے۔
جسے سچ اور حق مل گیا اسے روشنی مل گئی۔ روشنی انسان کی تمنّا بھی ہے ،محبت بھی اور ضرورت بھی۔انسان ساری زندگی روشنی سے محبت کرتا ہے اور روشنی کی تلاش میں رہتاہے لیکن چمگادڑ۔۔۔
****