اقبال اور فیض کا لسانی اجتہاد

اسلم کمال

جنوری ۲۰۱۲ء کی ایک یخ بستہ شام تھی۔ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ سے کافی آگے لیکن حسین چوک سے ذرا پیچھے بائیں ہاتھ گلی کے اندر چوتھا یا پانچواں گھر دائیں ہاتھ ۲۱۔سی۔۲ گلبرگ III ہے۔ اس میں چار دہائیوں پر محیط فروغِ فکر اقبال کی روایت کے امین ’’اقبال انٹرنیشنل فورم‘‘ کا ماہانہ اجلاس تھا۔ صدارت ڈاکٹر عطیہ سید کی تھی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر شہزاد قیصر ادا کر رہے تھے۔ تقریب کے باقاعدہ آغاز کے بعد واقعہ یہ ہوا کہ اظہا ر خیال کی دعوت راقم کو دی گئی۔
میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے یہاں بطور مصور علامہ اقبال اور فیض احمد فیض پر گفتگو کی دعوت دی گئی ہے ۔ آپ سب مجھے سننے کے لیے تشریف لائے ۔ میں سپاس گزار ہوں اور ربِ قدیر و قادر کا شکر بجا لانے میں ہمیشہ کی طرح عاجز آج بھی ہوں کہ یہ اسی کی شان ہے کہ مجھے اس نے ان دو عہد آفریں شعراء کو مصور کرنے کی صلاحیت کے ساتھ مہلت کار بھی عطا کی۔
میں کوئی مؤرخ ، محقق اور نقاد نہیں ہیں۔ میں اول و آخر ایک مصور ہوں اور اس سلسلے میں بھی معذرت عرض ہے کہ یہاں آج میں شعر اور تصویر پر گفتگو کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ البتہ اس حوالے سے ایک لمبے عرصہ میں ’’جہانِ اقبال‘‘ اور ’’دنیائے فیض‘ کے آسمانوں کے شمس و خورشید کی شعاعوں اور ضیاؤں نے میرے نگار خانے کی کھڑکی سے میرے رنگوں کو جس طرح گھولا اور جس طرح میرے موقلم کو اکسایا اور یکے بعد دیگرے میرے کینوس پر جو ظلال و عکوس اتارے، ان کے ہیولوں میں سے اقبال اور فیض کے بارے میں لسانی سطح پر جو کچھ مجھ پر منکشف ہوا ، وہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
These are cuts and pieces of my perceptions and intutions.
یہ میرے ادراک و وجدان کے حصے اور پرزے ہیں جن کے مابین رشتہ و ربط کے فقدان کا گمان آپ کو گزر سکتا ہے لیکن میں ایک تجرید کو دوسری تجرید کے ساتھ جوڑنے کے لیے غیر تجریدی گوند کے حق میں نہیں ہوں۔
یہ جوکتاب میرے ہاتھ میں ہے اس کا نام ’’اسرارِ خودی‘‘ ہے جو پہلی جنگ عظیم کے شروع میں ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔ علامہ اقبال کا یہ پہلا مجموعہ کلام ہے جو فارسی زبان میں ہے۔ اس کتاب کے اندرونی سرورق کی پشت پر مولانا روم کی ایک غزل کے ۳ اشعار دیے گئے ہیں ؂
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست
زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت
شیرِ خدا و رستم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
ترجمہ: کل شیخ چراغ لے کر شہر کے گرد گشت کر رہا تھا اور کہتا تھا کہ میں درندوں اور چوپایوں کی صحبت سے رنجیدہ ہوں اور مجھے انسان کی تلاش ہے۔ میرے ساتھیوں کے وجود جن عناصر کے مرکب ہیں وہ نہایت بیکار ہیں اور میں ان سے بیزار ہوں۔ میں تو شیرِ خدا اور رستمِ داستاں کا متلاشی ہوں۔ میں نے کہا کہ جس کی تجھے تلاش ہے وہ تو نایاب ہے۔ اس نے کہا کہ جو نایاب ہے مجھے اسی کی تلاش ہے۔
مولانا رومی ۳۰ ستمبر۱۲۰۷ء (بمطابق ۶ ربیع الاول ۶۰۴ھ) کو پیدا ہوئے اور ۱۷ ستمبر ۱۲۷۳ء (بمطابق ۵ جمادی الاول ۲۷۲ھ) کو وفات پا گئے۔ ان کی حیات کی امین تیرھویں صدی عالمی منظر نامہ میں صلیبی جنگوں سے عبارت ہے۔ اہل صلیب کے ہاں ان صلیبی جنگوں کا مقصد فلسطین کا حصول تھا کیونکہ یہ صلیبی جنگیں سوائے فلسطین کے ہر جگہ لڑی گئیں۔ چنانچہ مولانا رومی کا عہد غیر معمولی طور پر پر آشوب تھا۔ قدامت پسند قوتوں میں زندگی کی نئی روح پھونکنے کا جو کام امام غزالی نے گیارھویں صدی میں کیا وہی کام تیرھویں صدی میں مولانا روم نے کر دکھایا۔
’’اسرارِ خودی‘‘ کے آغاز میں مولانا رومی کے مندرجہ بالا اشعار کے حوالے سے ان کے مدعائے عظیم یعنی انسانِ کامل کی آرزو مندی محض ایک رومانوی شغل نہیں ہے بلکہ ایک طلبِ صادق اور سعیِ وقیع ہے۔ سالہا سال کی ریاضت اور مراقبے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ انسانِ کامل کوئی سراب نہیں اور نہ اُسے غار کی خلوتوں یا جنت کی بلندیوں میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے بلکہ وہ تو اپنی ہی ذات کی گہرائیوں میں جھانکنے سے مل سکتا ہے اور یہ ایک غیر معمولی اعلیٰ شعور ہے جو پیغمبر سے کم کسی روح پر کم کم افشا ہوتا ہے۔
مولانا روم بلخ (خراسان) میں پیدا ہوئے۔ بائیس برس کے ہوئے تو قونیہ چلے آئے۔ روایت کے مطابق قونیہ شہر کی بنیاد دو فرشتوں نے رکھی تھی اور اس بنا پر اس شہر کا ہر باشندہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ فرشتوں کے شہر میں رہتا ہے۔ فرشتوں کے اس شہر کو مولانا روم کا مولد بننے کی سعادت تو نہ مل سکی لیکن یہ شہر ان کا روحانی مولد ثابت ہوا۔ مولوی صاحب نے قرآن کو پہلوی زبان میں اسی شہر میں لکھا۔ جس کے ایسے گہرے اثرات آئندہ صدیوں پر مرتب ہوئے کہ فارسی زبان کی شُدبُد رکھنے والے ہر صوفی اور ہر صوفی شاعر نے مولوی صاحب کو اپنا مسلمہ مرشد تسلیم کیا ہے۔
علامہ اقبال مولانا روم کو اپنا مرشد اور اپنے آپ کو ان کا مرید کہتے ہیں اور مریدبھی ایسا مرید باصفا ثابت ہوا کہ شاید ہی دنیا کی تاریخ میں کسی مرشد کو ایسا مرید میسر آیا ہوگا۔ مثنوی اسرارخودی سے ارمغانِ حجاز تک سارا کلامِ اقبال مرشدِ رومی کے ذکر و فکر سے منور ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے انسانِ کامل کی تلاش میں دن کو چراغ لے کر شہر کے گرد گشت کرنے والے شیخ کا جو تصور مولانا روم پر اترا تھا اس کا نہ صرف مجسم شیخ محمد اقبال کی صورت میں ۹ نومبر ۱۸۷۷ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہو گیا بلکہ مولانا رومی کی انسانِ کامل کی آرزو بھی تیرھویں سے بیسویں صدی تک کتنی صدیوں کو حیرت انگیز طو رپر عبور (transcend)کرتی اس کے مرید کی تخلیقِ اسرار خودی کے آخری شعر میں اپنے ہونے کا اعلان کرتی صاف سنائی دیتی ہے ؂
سازم از مشتِ گلِ خود پیکرش
ہم صنم اور اشوم ہم آذرش
ترجمہ: میں اپنی مٹی سے ایک مٹھی لے کر اس کا جسم بناؤں اور اس کے لیے بت بھی بنوں اور آذر بھی، یعنی میں ہی اسے بناؤں اور وہ میری ہی تعلیمات اور مخلصانہ عشق و محبت کا ترجمان بھی ہو۔
اپنی ذات میں خود آپ صنم تراش بن کر خود اپنی مٹی سے اپنے ہی ایک پجاری، مرید یا فرماں بردار یا مقلد کا صنم تراشنے کا احساس، علم، ارادہ ، خیال اور ہنر خودی کے اسرار میں پوشیدہ ہے۔ چنانچہ اسرار خودی کا یہ اختتامیہ شعر خودی کی پیدائش کی نوید اور یہ مثنوی لکھنے کا شاعر کا مقصد واضح کرنے کے ساتھ بڑے بھرپور اور متاثر کن انداز میں اس ’’خودی‘‘ کو ایک حیرت ناک گنجینۂ قدرت و کمالات کے طو رپر بھی ذہن نشین کروا دیتا ہے۔ چنانچہ جو ایک لفظ قاری کا حاصلِ مطالعہ بن جاتا ہے وہ لفظ ’’خودی‘‘ ہے جس کا معنی قاری نے لغت میں غرور اور تکبر پڑھ رکھا تھا۔ صوفی لوگ اس غرور اور تکبر کی تعبیر ’’من‘‘ اور ’’میں‘‘ سے کرتے اور اسے فنا کرنے اور مٹا دینے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اقبال نے لغت اور صوفی دونوں کے منفی معنی مسترد کر کے اس لفظ ’’خودی‘‘ کو خود آگاہی اور خود شناسی کے مضبوط اور مثبت معانی کا حامل بنا کر اس لفظ کا علمی اور روحانی مرتبہ بلند کر دیا ہے۔
لفظ خودی کے جدید اور جیّد معانی کی مشعل تھام کر اب ہم دوسرا مجموعہ کلام یا دوسری مثنوی ’’رموزِ بیخودی‘‘ کی اقلیم میں داخل ہوتے ہیں۔ مرحلہ وار مباحث در مباحث آگے بڑھتے ہوئے حادثۂ کربلا سے گزرتے سورۂ اخلاص کی تفسیر سننے کے بعد بحضور رحمتہ للعالمینؐ ہم اقبال کو امتِ مسلمہ کی در د مندی میں آبدیدہ دیکھتے ہیں۔ پھر مرقدے درسایۂ دیوار کی التجا کرتے سنتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یکا یک ہم تصور سے نکل کر حقیقت میں دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ سایۂ دیوار مدینۂ منورہ سے طویل ہوتا ہوا شہرِ لاہور تک چلا آیا ہے یہ درد مندی کی قبولیت کی نشانی ہے۔ چنانچہ یہ بیخودی دوسرا لفظ ہے جس کے پست سطح لغوی معانی بے ہوشی اور سرمستی کو اقبال نے مسترد کر کے اسے ایثار اور قربانی کے اعلیٰ مفہوم کا حامل بنا کر اس لفظ کا قومی ، ملی ، معاشرتی اور آفاقی مرتبہ بلند کر دیا ہے۔
اسرارِ خودی اور رموزِ بیخودی لکھنے والے شیخ محمد اقبال، مجدد الف ثانی کے ہم جماعت ،ملا عبدالحکیم کے سیالکوٹ کی جن درس گاہوں اور اساتذہ کے طالب علم رہے۔ فیض احمد فیض بھی انہی سے فیض یاب ہوئے۔ سیالکوٹ میں علامہ اقبال کے اعزاز میں ایک تقریب کا آغاز نو عمر فیض احمد فیض نے اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت سے کیا۔ فیض احمد فیض علامہ اقبال کے چھوٹے بیٹے سے تین چار سال بڑے ہیں۔ اقبال اور فیض میں فکر و نظر کا جتنا اختلاف نظر آتا ہے،اتنا تو باپ بیٹے میں بھی ہو جاتا ہے۔ اس حسنِ اعتراف کے ساتھ ہم ’’اسرار و رموز‘‘ کے بعد فیض احمد فیض کے ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو پڑھتے ہوئے اس میں سے گزرتے ہیں۔ پہلے مجموعۂ کلام نقشِ فریادی میں فیض احمد فیض علامہ اقبال کی شاعری کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں ؂
یہ گیت مثلِ شعلۂ جوالا تندوتیز
اس کی لپک سے بادِ فنا کا جگر گداز
مجموعۂ کلام ’’شامِ شہریاراں‘‘ میں مرثیۂ امام لکھا اور امامِ عالی مقام کے ایک ایک وفا شعار و جانثار کا نام لے لے کر لکھا۔ مجموعۂ کلام ’’غبارِ ایام‘‘ میں شامِ غربت کے عنوان سے بیتِ شبّیر پہ ظلمت کی یلغار کا ماتم کیا ہے۔ اور کلیات کا اختتام نعت سے کیا ہے ؂
اے کہ تو ہست ہر دل محزوں سرائے تو
فیض احمد فیض سے پوچھا گیا۔ آپ کا مذہب کیا ہے؟ فرمایا جو مذہب مولانا رومی کا تھا۔ فیض احمد فیض سے پوچھا گیا۔ زندگی میں کوئی پچھتاوا ہے؟ فرمایا قرآن پاک حفظ کرنے کا شوق تھا۔ مگر چند پارے ہی حفظ کر سکا یہ پچھتاوا ہے۔
کلامِ فیض کو پینٹ کرتے ہوئے فیض صاحب کا ’’قرآن‘‘ حفظ نہ کر سکنے کا تأسف ان کے اشعار میں سے جھانکتا ہوا وقفے وقفے سے مجھے نظر آتا رہاہے۔ مصوری کی ایک اصطلاح Pentimentoہے۔ یہ اطالوی زبان کا لفظ ہے اور معنی ہے پچھتاوا۔ کینوس کی سطح پر کسی مسترد اور نابود کردہ نقش کا کبھی کبھار جو عکس ابھر آتا ہے اس کو pentimento کہتے ہیں۔ چنانچہ میرے موقلم نے محسوس کیا اور مجھے یہ سمجھایا ہے کہ فیض صاحب کے شعری لہجے میں جو دل کو چھو لینے والی کسک ہے وہ اسی تأسف کی دین ہے اور اسی صفت سے فیض کی مضارع میں شاعری بے مثال ہو گئی ہے۔ ہر بڑے شاعر کے ہاں شعری تزکیہ کا عمل ساتھ ساتھ چلتا ہے جس کے زیرِ عمل آ کر فیض صاحب کا تأسف بھی کسی آتش رفتہ کا سراغ دیتا ہے۔ جس کی لپک سے جگہ جگہ کلام فیض میں خارا گدازی کی تاثیر تصدیق کرتی ہے کہ اقبال اور فیض دونوں کا تصور تاریخ ایک ہے، دونوں کا تہذیبی شعور ایک ہے، دونوں ایک ہی شعری روایت کے امین اور دونوں کے ہاں ایک ہی شعری وراثت کا احساس شدید بھی اور جدید بھی ہے۔
آئیے اس حسنِ اعتراف کے ساتھ ہم پلٹ کر اسرارِ خودی کی تمہید میں نظیری نیشا پوری کے شعر سے پھر سفر شروع کرتے ہیں۔ جس میں وہ کہتا ہے کہ میرے جنگل کی سوکھی گیلی کوئی بھی چیز ناکارہ نہیں۔ جس درخت کی لکڑی سے منبر نہیں بن سکتا میں اس سے دار تیار کروا دیتا ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ قدیم وقتوں میں جب ابھی فن تعمیر پیدانہیں ہوا تھا۔ درخت ہی واحد ذریعہ نگہبانی کا تھا۔ مہمانوں کی آمد اور دشمنوں کی پیش قدمی اسی درخت کی بلندی سے دیکھی جاتی تھی۔ درخت اس الارض پر انسان کا اولین دوست ہونے کے حوالے سے اور بھی بہت کچھ تھا۔مگر سادگی کے عمل سے گزرتے گزرتے سولی کی شکل میں باقی رہ گیا ہے اور یہ سولی بھی ایقان و ایمان کے تصوف میں ایسا استعارہ بن گئی جس پر سرفراز ہو کر اہل صفا نور و سُرور و حضور کی رفعتوں پر تماشائے آمدِ بہار اور نظارۂ طلوع صبح نجات کرنے لگتے ہیں۔ بائبل کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا جوواقعہ ہے وہ یورپی مصوری کا ایک مستقل اور مرغوب موضوع چلا آ رہا ہے۔ جس کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کی سولی کے ساتھ دو اور سولیوں پر دو اور مجرموں کو بھی لٹکایا گیا تھا۔ وہ دونوں معمولی انسان تھے ان کی سولیاں اذیت اور عبرت کا آلہ تھیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام ایک غیر معمولی انسان (prodigy)تھا اس کے لیے سولی آلۂ صعوبت بننے کے بعد زینۂ صعود بن گئی تھی۔ جس طرح عیسیٰ علیہ السلام سے بھی چار سو برس پہلے سقراط کے ہاتھوں میں زہر کا پیالہ اس کے سوز یقین سے آئینہ عاقبت نما بن گیا تھا جس میں پسِ مرگ کا حیات افروز عکس وہ دیکھتا تھا اور غمخوار رفیقوں کو حوصلہ دیتا تھا۔ یہ زہر کا پیالہ پی جانے والوں اور سولی پہ چڑھ جانے والوں کا بھی ایک قبیلہ ہے۔ نظیری نیشا پوری نے اپنے اس قبیلے کا تعارف کرواتے ہوئے کہاکہ اس کا فرد ہونے کے لیے مقتول ہونا لازمی ہے ؂
کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ ما نیست
علامہ اقبال کو یہ مصرع اتنا دل کو بھایا کہ انھوں نے بہ آوازِ بلند یہ اعلان کر دیا ؂
بملکِ جم نہ دہم مصرۂ نظیری را
’’کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ ما نیست‘‘
اسرار خودی کی تمہید میں نظیری کے شعر میں جو دار ہے اس تختۂ دار کو ’’فرازِ دار‘‘ کے طو رپر سمجھنے کے لیے خزاں کا وہ تصور چند لمحوں کے لیے اپنے اوپر طاری کر لیں جس میں رنگ اور خوشبو کا چہار سو قحط ایسا ہوکہ الاماں، خوفِ خزاں دل کو چھونے لگے اور آنکھ تابِ نظارہ سے تائب ہونے لگے۔ ایسا عبرتناک ماحول کہ جس میں فیض احمد فیض کا ہمعصر مجروح سلطانپوری جرأت آزما ہو کر کہہ اٹھے ؂
میں فرازِ دار سے دیکھ نہ لوں کہیں قافلۂ بہار نہ ہو
نظیری کے جنگل کی خشک لکڑی اور مجروح کے فرازِ دار کی بات فیض یوں آگے بڑھاتا ہے ؂
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ دارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پہ ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل، دل میں قندیلِ غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے

کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
فیض احمد فیض نے اپنی کلیات’’نسخہ ہائے وفا‘‘ میں قتل، قاتل، قاتلوں، مقتول اور مقتل کے الفاظ اور تراکیب دعوتِ قتل ، قتل گہ، قتل گاہوں، قتل گاہیں، سرِ مقتل، مقتلِ شہر اور مقتلِ خونناک ۴۷ بار استعمال کی ہیں۔ اس تناظر میں یہ الفاظ و تراکیب اپنے مفہوم و معانی کی ہنوز اندر قیدِ کتاب ایک جہت بے مثال کی طرف بڑا روشن اشارہ کرتے ہیں۔ فیض کا زبان زدِ عام شعر ہے ؂
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
اس جاں کی تو کوئی بات نہیں یہ جان تو آنی جانی ہے
اس شعر میں الفاظ ’’دھج‘‘ اور ’’شان‘‘ کی تعبیر و تفسیر اور مصورانہ تصویر کشی اگلے اس شعر میں شاعرنے کیا خوب انداز میں کر دی ہے ؂
زمانے کے انداز بدلے گئے دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آ گیا لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آ گیا
اور اس شعر میں ’’مقتل شہر‘‘ اور ’’دعوت قتل‘‘ کی تراکیب بطور خاص توجہ طلب ہیں۔ ان میں کلید مفہوم تازہ مضمر ہے جو ذرا غور و فکر سے ہاتھ لگے گی اور جس کے انتظار میں آغوش لغت و فرہنگ وا ہوتی چلی جا رہی ہے۔ شہر کے گلی کوچوں میں بازاروں میں، مکتبوں اور مدرسوں میں، معبدوں اور خانقاہوں میں، میخانوں اور شبستانون میں اہل دل، اہلِ نظر، اہل جنوں اور اہل عشق جاں فروشوں، خانہ خرابوں، بے سروسامانوں، افتادگان خاک، چاک گریبانوں اور دریدہ دامانوں کے لیے منجانب مقتل شہر ہوا اور موج صبا دعوت قتل لیے پھرتی اور بانٹتی چلتی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ شہر میں نقد دل و جاں لیے پھرتے سوختہ تن اور آشفتہ سر ہیں تو سہی اور وہ گلے میں خود طوق ڈال کر اور اپنے کاندھے پر دار لاد کر چلنے پر بھی کمربستہ ہیں مگر خال خال ہیں اور شہر میں مجموعی طور پر دمشق میں قحط کے سبب یا ر لوگ عشق فراموش کردہ والی کیفیت ہے۔ جس نے فیض کو لمحہ بھر کے لیے رنجیدہ کر کے پھر سنجیدہ بھی کر دیا اور اس نے اس قحط الرجالی کے خلاف اپنا نعرۂ مستانہ بلند کر دیا ؂
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو!
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

حاکمِ شہر بھی، مجمع عام بھی
تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی
صبح ناشاد بھی، روز ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رختِ دل باندھ لو دلفگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو
’’زنداں نامہ‘‘ کی ایک مشہور غزل کے دو شعر دو ٹوک انداز میں دعوت فکر و فیصلہ دیتے ہیں ؂
سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سر خرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
ہر اک قدم اجل تھا ہر ایک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچۂ قاتل سے آئے ہیں
ترجمہ و تشریح: اے یزید العصر! یہ سب لوگ جو تیرے مقابل سے قتل ہو کر آئے ہیں یہ ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل (منزلِ شہادت) پا کر واپس آئے ہیں۔ انھیں مردہ نہ کہیں کہ تجھے شعور نہیں یہ شہید ہیں کیونکہ قتل ہو کے بھی متحرک وہی رہتا ہے جو زندہ ہوتا ہے۔۔۔ جہاں یہ قتل ہوئے وہاں پر ایک قدم پر موت سے پالا پڑتا ہے تو اگلے گام پر نئی زندگی گلے سے لگا لیتی ہے۔ چنانچہ ہم کوچۂ قاتل میں گھوم پھر کر یعنی وہاں پر ہر دو مقامات (۱۔موت بعد ۲۔ حیات) کے تجرے(شہادت) سے بہرہ مند ہو کر لوٹے ہوئے ہیں۔
جس طرح علامہ اقبال نے الفاظ خودی اور بیخودی دونوں کے مفاہیم و معانی اپنے زورِ کلام سے تبدیل کر کے ان کو ایک سفلی سطح سے اٹھا کر علوی سطح پر فائز کر دیا۔ اسی طرح فیض احمد فیض نے قتل اور مقتول جیسے خون آشام الفاظ کو ان کے خون آلود مفہوم و معانی کی جگہ ’’شہادت‘‘ اور ’’شہید‘‘ کے مفہوم و معانی کا حامل بنا کر ان کا مرتبہ بلند کر دیا ہے۔ چنانچہ اقبال اور فیض کے ہاں شاعری کا یہ انقلابی کردار مستقبل میں ایک عظیم نشاۃِ ثانیہ (Mega Renaissance) کی نوید بن جاتا ہے۔
***