عبید اللہ بیگ : اب انہیں ڈھونڈ

زاہدہ حنا

 

عبیداللہ بیگ سیلانی تھے ۔ موجود تھے تو دریاؤں ، جھیلوں اور نہروں کی لہروں پر سفر کرتے تھے ، معدوم ہوئے تو فنا کے سمندر کی سیر کو نکل گئے ۔ وہاں سے وہ نہ سفر کی روداد بھیجیں گے ، نہ کوئی فلم آئے گی ۔
دنیا انہیں عبیداللہ بیگ کے نام سے جانتی ہے لیکن انہوں نے اپنے سفر کا آغاز حبیب اللہ کے نام سے کیا ۔ وہ بھی اس طرح کہ ان کی کہانیوں کا راوی مہر سنگھ تھا اور تحریر حبیب اللہ کی تھی ۔ یہ کہانیاںِ ’’الشجاع ‘‘ میں شائع ہوئیں ۔ پسند کی گئیں توُ ’ انسان زندہ ہے ‘ کے نام سے کتابی شکل میں سامنے آئیں ۔ یہ تقسیم کی وہ کہانیاں ہیں جو ہمیں حیوان اور انسان دونوں کی صورتیں دکھاتی ہیں ۔ کچھ ہی دنوں بعد لکھنے والے نے اپنا رشتہ ہوا کے دوش پر سفر کرنے والی آوازوں سے جوڑ لیا۔ انہوں نے ریڈیو کے لیے فیچر اور ڈرامے لکھے ، اپنی پُر اثر آواز میں کہانیاں سنائیں لیکن کسی ایک مقام پر قیام شاید ان کے مزاج اور مقدر میں نہ تھا ۔ ٹیلی ویژن آیا اور اسلم اظہر نے ان کی آواز اور عکس کا رشتہ ادب سے جوڑ دیا ۔
’’ کسوٹی ‘‘ ایک ایسا علمی ، ادبی اور تہذیبی پروگرام بن کر سامنے آیا جس کے روح رواں عبیداللہ بیگ ، قریش پور اور افتخار عارف تھے ۔ ’’ کسوٹی ‘‘ واقعی ایسی کسوٹی بن گئی جس پر دیکھنے والوں کا ذوق کسا گیا تو وہ کھرا سونا ثابت ہوا ۔ بیس سوالوں کے دائرے میں عبیداللہ بیگ ، قریش پور اور افتخار عارف سوال کرنے والے کو یوں گھیرتے کہ دیکھنے والوں کو لطف آ جاتا ۔ ’’ کسوٹی ‘‘ کھیلنے والے ان لوگوں میں سب ہی اپنی اپنی جگہ کمال کے لوگ تھے ۔ بعد میں افتخار عارف رخصت ہوئے تو ان کی جگہ غازی صلاح الدین نے لی ۔ متنوع مطالعے کی وسعت ، حافظے کے کمال اور ذہانت کی لپک نے عبیداللہ بیگ کو راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا ۔ آج ہم یہ سمجھنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں کہ سوقیانہ باتیں کرنے والے ہی ’’ سیلے بریٹی ‘‘ ہیں لیکن یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارے زمانے میں عالم ، ادیب اور ادب دوست ’’ سیلے بریٹی ‘‘ شمار ہوتے تھے ۔
’’ کسوٹی ‘‘ کے بعد عبداللہ بیگ ’’ سیلانی ‘‘ بنے ۔ انہوں نے ’’ سیلانی‘‘ دستر خوان تو نہیں بچھایا ، لیکن کیمرے کی آنکھ سے پاکستان اور بطور خاص سندھ کے بھولے بسرے علاقوں کے حسن کو اس طرح فلم کے فیتے پر منتقل کیا کہ وہ منظر ہماری نگاہوں میں کُھب گئے ۔ یوں جیسے کوئی ہنر مند گدڑی میں چھپا ہوا لعل ڈھونڈ نکالے ، یا کسی کسان کی شرماتی ہوئی بیٹی کا حسن نیم رخ دکھائی دے ۔ انہوں نے درجنوں ڈاکو منٹری فلمیں بنائیں ، ملکی اور غیر ملکی اعزاز سمیٹے ۔ ڈرامے لکھے اور ان میں بھی کمال کو پہنچے ۔
وہ ایک ماہر شکاری تھے ، انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ وہ کون سی گھڑی تھی جب ایک شکاری شیر ، چیتل ، مارخور ، بارہ سنگھے اور برفانی ریچھ کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کا محافظ بن گیا اور ماحولیات کی تباہی ان کا ذاتی مسئلہ ٹھہری ۔ کبھی نوری جام تماچی کی کہانی کے ساتھ کینجھر جھیل کی لہروں پر سفر کیا اور کبھی اوزون کے غلاف کی رفوگری کے خواہاں ہوئے ۔ ملکہ نور جہاں سے ایک روایت منسوب ہے جس نے آگرہ شہر میں کسی بے مثال رفو گر کی تلاش میں کنوؤں میں بانس ڈلوا دیے تھے ۔ عبیداللہ کے بس میں ہوتا تو وہ اوزون کا غلاف رفو کرنے کے لیے کوئی نادرہ کا ررفوگر تلاش کرتے ۔ عبیداللہ نے داستان امیر حمزہ ، طلسم ہوشربا ، ایرج نامہ اور تورج نامہ پڑھے تھے ۔ خوابوں کی ایک دنیا تھی جو ان داستانوں میں آباد تھی ۔ ان ہی داستانوں نے انہیں خواب دیکھنا سکھایا ۔
ادبی محفلوں میں ان سے بار بار ملاقاتیں رہیں ۔ ایک ہنس مکھ ، بذلہ سنج اور شگفتہ انسان ۔ دو مرتبہ ’’ کسوٹی ‘‘ کے پروگرام میں ان سے آمنا سامنا ہوا ہے ۔ ان کی بیگم سلمیٰ بھی شائستگی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے اور ان کی بیٹیوں نے یہ سانحہ کس طور جھیلا ہو گا ۔
وہ ادیب تھے ، علم پرور تھے ، قاموسی مزاج رکھتے تھے جس کی پرورش ان کے وسیع مطالعے نے کی تھی ۔ مغلوں کو راجپوتوں سے جو وابستگی رہی یہی سبب راجپوتوں سے ان کے گہرے قلمی تعلق کا تھا ۔ اسی نے ان سے آخری برسوں میں ’’راجپوت ‘‘ ایسا ناول لکھوایا ۔ اس داستان میں مسلمان ، ہندو ، انگریز سب ہی روا داری ، دلداری اور دشمن داری کے ایسے دھارے میں بہتے ہیں جس سے ہماری موجودہ نسل نا آشنا ہے۔
نواب مرزا شوق نے لکھا ہے’ موت سے کس کو رستگاری ہے ‘ ہم میں سے کسی کو نہیں ہے ، عبیدا للہ کو بھی نہیں تھی ۔ صدمہ اس بات کا ہے کہ وہ معدوم ہوتی ہوئی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس کی جھلک اب ہم کبھی نہیں دیکھ سکیں گے ۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
بشکریہ : ایکسپریس ۲۷؍ جون ۲۰۱۲ء

عبیداللہ بیگ جنھیں ان کے دوست احباب پیار سے ’’اوبی‘‘ بھی کہا کرتے تھے ایک مکمل ماہر ماحولیات اور فطری طو رپر ماحول دوست انسان تھے۔ عالمی انجمن ، آئی یو سی این میں وہ سینئر ترین عہدے پر تھے ، لیکن یہ بھی ان کا کمال تھا کہ وہ سامنے والے پر اپنی علمیت ہرگز ظاہر نہ کرتے اور اس خوب صورت طریقے سے پیش آتے کہ سامنے والا ان کا گرویدہ ہو جاتا۔
معروف صحافی اور دانش ور غازی صلاح الدین کی عبید اللہ بیگ سے طویل رفاقت ۵۵ برسوں پر محیط رہی۔ اس ضمن میں غازی صاحب کا کہنا ہے:
’’یادوں کا ایک سلسلہ ہے، جو ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا۔ بیگ صاحب کو عوامی سطح پر جو شہرت اور عزت ملی، وہ ان کے علم کی وجہ سے ہے۔ ان کا کام ’’کسوٹی‘‘ پروگرام تک ہی محدود نہیں بلکہ انھوں نے اردو کی ترویج کے لیے بھی بہت کام کیا۔ ان کے دونوں ناول’’انسان زندہ ہے‘‘ اور ’’راجپوت‘‘ اردو ادب میں ان کا مقام متعین کرنے کے لیے کافی ہیں‘‘۔ غازی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’عبید اللہ بیگ کا ماحول کے حوالے سے بھی کام کم نہیں۔ وہ فطرتاً ماحول دوست تھے۔ پودوں، پرندوں، جانوروں، جھیلوں اور جنگلوں سے انھیں عشق تھا جو ان کے کام میں بھی نظر آتا ہے اور لوگ عبید اللہ بیگ سے جو محبت کرتے ہیں، وہ دراصل علم سے محبت کا اظہار ہے کیونکہ بیگ صاحب کا حوالہ علم تھا اور لوگ ان کے مدبرانہ ، شفیق اور اساتذہ والے انداز ہی سے متاثر ہیں‘‘۔
(بشکریہ: جنگ، سنڈے میگزین، شبینہ فراز کے مضمون سے ایک اقتباس)
میرا مرشد بشیر حسین ناظم بھی چلا گیا ، وہ طریقت کا چلتا پھرتا استعارہ تھا ۔ جذب و مستی میں ڈوب کر رہنے والا مرد درویش، وہ گیا تو ساتھ اپنے پورا عہد سمیٹ کر لے گیا ۔ اس کی کس کس بات کو یاد کروں۔ شاعر ہفت زباں ، عربی ، فارسی ، اردو ، پنجابی اور انگریزی کا بے بدل عالم ۔ ادیب ایسا کہ حرف و بیاں اس کی میراث کہلاتے تھے۔ گفتگو کا دھنی گویا نطق کو سوناز تھے اس کے لب اعجاز پر ۔۔ میں اس کا نیاز مند تھا اور خوشہ چین بھی ۔ وہ دینیات و ادبیات کا انسائیکلوپیڈیا تھا۔لسانیات و ساختیات کا ایسا عالم کہ پل بھرمیں لغت کی طرح حرف و معنی کے سارے اسرار کھول کر رکھ دیتا ۔ یادداشتوں کا پٹ کھولتا تو قطار اندر قطار واقعات و حوادث کا جم غفیر لگ جاتا۔ اسے اپنے عہد کی روداد، پس منظر و پیش منظرکی تاریخ بیان کرنے کا پورا ملکہ حاصل تھا۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو اور لہجہ گئے دنوں کے بزرگوں کی یاد تازہ کر دیتا تھا ۔ جدید علوم و فنون بالخصوص فلسفہ اور سائنس پر ایسے ایسے اسرار منکشف کرتا کہ روح تازگی کا حظ اٹھانے لگتی ۔ تصوف اور طریقت پر بات کرتے ہوئے وہ رومی ؒ کا بالکا لگتا تھا ، بالکل اسی طرح کہ :
سہ نشانی عاشقاں را اے پسر
رنگ زرد و آہ سرد و چشم تر
اس کی طریقت کے سارے راستے عشق رسول ﷺ کی طرف جاتے تھے ۔ اس راہ سے چشم نم اس کی پہچان تھی۔ درود پاک ہمہ وقت ورد زباں رہتا ۔ شریعت کی پاسداری اس کا وطیر ہ تھا ۔ اس کی آنکھ میں ہر وقت تصوف کی چمک رہتی تھی ۔ گھنیری رات کے پچھلے پہر تہجد کی نماز پڑھ کر دربار رسالت ﷺ سے نعت کی توفیق مانگا کرتا تھا ۔ بقول اس کے پھر نعت اس پر یوں اترتی جیسے صحرا پر شبنم اترا کرتی ہے ۔ وہ نعت خوانی اور نعت گوئی دونوں فنون میں یکتا تھا ۔ اپنے لحن میں نعت پڑھتا تو درودیوار رقص کرنے لگتے ۔ تصوف و طریقت کی محفلوں میں تو اس کے سامنے نذرونیاز کے ڈھیر لگ جاتے تھے ۔ عمرہ کے موقع پر ایک ایسی ہی محفل میں اسے ۹۲ ریال ملے تو وہ اپنے من میں دھمال ڈالنے لگا ۔یقیناً دربار رسالت ﷺ سے یہ قبولیت کی علامت تھی ۔ اس کا داخلی اور خارجی ماحول ہمیشہ نعت شریف کی مہک سے معمور رہا ۔ یہی خوشبو وہ لحد میں بھی اپنے ساتھ لے گیا ۔ اللہ اللہ یہ مقام ، لوٹنے کی جائے ہے ۔ اسی لیے قبر میں اس کی پہلی رات معراج شریف کی آئی ۔ این سعادت بزور بازونیست ۔
ادبیات فلسفہ ، سائنس ، دینیات ، لسانیات کون سا موضوع ہے جو در نہ آتا ۔ عہد رفتہ کی یادداشتوں کا سلسلہ چل نکلتا تو پھر ایسے ایسے عجائبات سامنے آتے کہ میں سر دھننے لگتا ۔ مرشد بولتے اور میں سنتا ہی چلا جاتا ۔ گفتگو میں ربط و تسلسل انتہا کا ہوتا ۔ اس موقع پر سخت الفاظ کا مرحلہ درپیش ہوتا تو ہر شخص ڈرنے لگتا کہیں اس کے بولے ہوئے الفاظ کا تلفظ غلط نہ ہو جائے ، کیونکہ صحت الفاظ اور حرف و صوت میں کسی کو کبھی رعایت نہ ملتی ۔ ایسے میں املا کی درستگی بھی ہونے لگتی ۔ نوائے وقت میں ان شاء اللہ کی صحیح املا ا ن شاء اللہ مرشد نے ہی رائج کرائی۔ قدم رنجاں کو قدم رنجہ لکھنا اور پھر نا عاقبت اندیش کو عاقبت نا اندیش کی صحت کے ساتھ املا کرنا مرشد ہی کا فیض نظر تھا ۔ خود میں نے ایک مرتبہ دوئم لکھا تو ناراض ہوئے اور کہا دوم لکھا کرو ۔
میرا مرشد سکہ بند بزرگ نہ تھا بلکہ حد درجہ بزلہ سنج اور لطیفہ گوئی کا رسیا بھی تھا ۔ اس کے لطائف پر ہنس ہنس کر پیٹ دہرے ہو جاتے ۔ لوٹ پوٹ ہونے والوں میں تمام نیاز مند شامل ہوتے ۔ خوش مزاجی کے ساتھ ہر اچھی بری بات سن لینے کا ظرف رکھتا تھا ۔ خوش باشی کی میانہ روی میں نے کم کم لوگوں میں دیکھی ۔ مرشد کا ہر موضوع پر بات کرنے کا اپنا انداز تھا ۔ گفتگو میں مزاح کے پہلوؤں کو پیروڈی کے انداز میں اجاگر کرتا تو کئی فنکاروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ۔ ایسے میں بشری خوبیاں اس کی کمزوریوں پر حاوی ہو جاتیں ۔ یقیناً وہ قد میں ایک بڑا انسان اور عظیم المرتبت لکھاری تھا ۔
بشکریہ: نوائے وقت۱۹ ؍جون ۲۰۱۲ء
یادِ یارِ مہرباں آید ہمی
( تِن سطریاں)
ناظمِ خوش اداے من
موت کے بعد بھی تری
اور سے اور ہے پھبن

ملتی نہیں کوئی نظیر
تیرا سخن تھا دل نشیں
تیرا کلام دل پذیر

رکھا تجھے نگاہ میں
رحمتِ حق نے لے لیا
اپنی تجھے پناہ میں

کرتے رہے ترا ادب
تجھ کو نصیرؔ دے گئے
’’بابائے نعت‘‘ کا لقب

کیسا شرف عطا ہوا
زندگی میں پڑھا درود
چار کروڑ مرتبہ

سارے گناہ دُھل گئے
ذکرِ نبی ﷺ کے فیض سے
نیکیاں بن کے تُل گئے

نعت کا ہے یہی صلہ
تجھ کو خدا کرے ملے
قبر میں قربِ مصطفےٰﷺ

رنج نہ ہو وہاں تجھے
حشر کے دن بھی ہو نصیب
عرش کا سائباں تجھے

تو جو عدم نشاں ہوا
تیرے فراق میں نویدؔ
خستہ و نیم جاں ہوا
بشیر حسین ناظم کی یاد میں۔ ۔۔ محمد نوید ازہر