حاصل مطالعہ


ہندی سے اردو

اُردو کی سماجی و سیاسی تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر طارق رحمان کی یہ تازہ کتاب اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلی کتاب ہے۔ اس میں اُردوزبان کی جائے پیدائش ، اس کے مختلف ناموں، لسانی ورثہ کے علاوہ دو صدیوں پر مشتمل مسلمانوں اور ہندوؤں کی لسانی شناخت کا ماہرانہ تجزیہ پیش کیاگیا ہے۔اِس ز بان کے ملازمت، تعلیم، طباعت و اشاعت،ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن جیسے سماجی شعبہ جات میں استعمال پر بھی تاریخی لحاظ سے پہلی بارروشنی ڈالی گئی ہے۔اِس کتاب میں مصنف نے زمانی طورپر مسلمانوں اور ہندوؤں کی زبان سے تشکیل پانے والی فارسی زدہ اُردو اور سنسکرت زدہ ہندی پر بھی تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے او راس کے منجملہ مضمرات اور محرکات کا خاکہ نہایت عمدہ طریقے سے کھینچاہے۔اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
پشاور سے بنگال تک گیارھویں صدی عیسوی میں مختلف بولیاں پائی جاتی تھیں جنھیں مسلمانو ں نے ’’ہندوی‘‘ یا ’’ہندی ‘‘کے نام سے پکارنا شروع کیا۔ان تمام زبانوں میں ترکی کے زیر اثر کئی الفاظ شامل ہوگئے۔دیگر علاقوں کی بہ نسبت دہلی کے علاقوں نے زیادہ ترالفاظ اپنے مقامی بولیوں کے اندر سمو لیے جسے’’ کھڑی بولی‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اس کے بعد چودھویں صدی عیسوی میں صوفیانہ تحریروں کی وجہ سے اس زبان کو کبھی دہلوی ، کبھی دکنی اور گجراتی کہاجانے لگا۔اٹھارھویں صدی عیسوی میں جب یورپ سے لوگ آئے تو یہ زبان ’’ریختہ ‘‘کے نام سے مشہور ہوچکی تھی او ر اسے ہندوستان کی زبان کے علاوہ کچھ عرصہ تک’’ مورز‘‘ کے نام سے بھی پکاراجاتا تھا۔تیرھویں صدی عیسوی سے اٹھارھویں صدی عیسوی تک اس زبان کا ذخیرہ الفاظ بہت حد تک ترکی، فارسی اور عربی زبان کا مرہون منت رہا۔کبھی اس زبان کو ’’اُردو ئے معلی‘‘ اور کبھی اسے ’’مسلمانی بھاشا‘‘کے الفا ظ سے نوازاگیا۔اس کا رسم الخط موجودہ صورت میں ہی تھا۔
اس کے مقابلے میں ہندی زبان، جس میں فارسی اور عربی کے بیشتر الفاظ موجودتھے ، کے چاہنے والوں نے انھیں سنسکرت زدہ کردیااور نئی ہندی کو دیوناگری رسم الخط میں لکھاجانے لگاتاکہ جدید اُردو سے اسے ایک الگ شناخت دی جاسکے۔ اس میں فارسی و عربی کارسم الخط واضح طورپر دکھائی دیتا تھا۔ یہ مسلم ہندی شناخت کے مسائل تھے جن کو سیاسی تناظر اور مذہبی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔عربی و فارسی کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔سب جانتے ہیں کہ وہ اپنے اس لسانی ورثہ کو دل سے عزیز رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہندوؤں نے بھی اپنی عصبیت کو خوب اچھالااور مذہب کے نام پر زبان کی خصوصیات کو قربان کرڈالا۔اَب قابل غور بات یہ ہے کہ ہندوجس زبان کو’’ ہندی‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں ، اسی زبان کو مسلمان ’’اُردو‘‘کہتے ہیں ۔ان دونوں زبانوں میں عربی،فارسی اور ترکی زبان کے کثیر الفاظ موجود ہیں۔
مغلوں نے عدالت و سرکار کی زبان ’’فارسی ‘‘کو قرار دیااورہندوستان کے علاوہ بنگال اور تامل میں بھی اسی زبان کو رائج کرکے اپنی حکومت کو چلایا۔جب انگریزوں نے اپنی حکومت کے قیام کے لیے ابلاغ کی ضرورت کو محسوس کیا توانھیں بھی جنوب ایشیائی زبانوں سے اُردوکا انتخا ب کرنا پڑا۔انھوں نے سیاسی اور عوامی رابطہ کے لیے مختلف محاذوں پر لسانی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی کتابوں کی اشاعت اور تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ہندوؤں نے انگریزسرکار کے اس رجحان کو پسند نہ کیا اورلسانی تعصب کی بنیاد رکھتے ہوئے ’’اُردو ہندی‘‘ کے تنازع کوہوا دینا شروع کردی۔رسم الخط کی اساس پر ہندو مسلم جھگڑا پیداکیاگیااور یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے دوقومی نظریے نے جنم لیا۔ہندوقوم پرست لیڈروں نے اسے’’ مسلم زبان ‘‘قرار دے دیا اور مسلمانوں نے یہ اعتراض محبت کے ساتھ قبول کرتے ہوئے قومیت کا نعرہ بلند کردیا۔
قومیت کے اس نعرہ نے ان دونوں زبانوں کی دو صدیوں پر محیط رفاقت کو ختم کرڈالا۔ہم سب لوگ اپنی تاریخ کی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہم نے ثقافت اور تہذیب کی صدیوں پرانی روایت کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔بے شک قیام پاکستان کے مقاصد میں اسلام اور زبان کے کردار کوایک نمایاں مقام حاصل رہاہے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں یہ مقاصد کھو کر رہ گئے اور طاقت و اختیارکی ایک طویل جنگ شروع ہوگئی۔دوسری طرف دُنیا کے کئی ممالک میں جب برصغیر کے لوگ باہمی طور پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو وہ ایک ہی زبان بولتے ہیں جسے مسلمان ’’اُردو‘‘اور ہندو ’’ہندی‘‘کہتے نظرآتے ہیں۔فرق صرف رسم الخط کا ہے لیکن ہم نے برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ان دونوں فارسی زدہ اُردو اور سنسکرت زدہ ہندی کو بھی تقسیم کرڈالا ۔ دونو ں ممالک نے اپنی لسانی بنیادوں اور تشکیلات کو مذہبی بنیادوں پرازسرنو مرتب کرنا شروع کردیا اور خاص طورپر آمرانہ حکومتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔حالانکہ زبان تو کلچر اور ثقافت کی نمائندہ ہوتی ہے۔
ہمیں اس رجحان کو روکنے کی ضرورت ہے تاکہ ان ممالک کی موجودہ عوام دشمنی کے اثرات کو ختم اور امن او رہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکے ۔ہمیں مخلوق خدا کے لیے اچھے ہمسائے کی طرح زندگی گزارنے کا موقع دینا چاہیے اور امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی تمام تر ذمہ داری دونوں ممالک کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ رسم الخط کے قطع نظر اُردو اور ہندی ایک ہی زبان کی طرح بولی جاتی ہے۔اس کے ثقافتی رشتے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور آج بھی ہماری شادی بیاہ اور دیگر رسموں کی ادائیگی کے موقع پر یہ نظارہ بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ 
ترجمہ و تلخیص (باب۵): نذر حسین کاظمی
****
اور آوازیں 
ایک عرصے سے اردو ذرائع ابلاغ اور منظر عام پر آنے والی کتب محض یکسانیت اور کوتاہ بینی کا شکار نظر آرہی ہیں۔ ان مباحث کے پس پردہ مختلف قسم کی غیر حقیقت پسندانہ فاتح عالم بننے کی خواہش اور ماضی پرستی شامل ہے۔ یہ نقطۂ نظر اس حد تک تقویت پکڑ چکا ہے کہ اردو پریس اور اشاعتی ادارے اس کے برعکس کچھ اور سننے کو سرے سے تیار ہی نہیں ہیں۔
محض چند ایک لکھنے والے ایسے ہیں جنھوں نے اردو اخبارات میں اس دقیانوسیت کو اپنے عالمانہ کام اور مضبوط دلائل کے ساتھ للکارا ہے۔ انھوں نے اپنے دلائل کی بنیاد عقلیت اور معروضیت پر رکھی ہے۔ اگرچہ اس عدم رواداری کے طوفان پر اثر انداز ہونے کے لیے یہ بہت کم آوازیں ہیں تاہم عدم برداشت اور تشدد کے اس کلچر میں حصول علم اور حتمی سائنسی سچائیاں تلاش کرنے میں یہ آوازیں بھی امید کی کرن ہیں۔ پروفیسر مبارک حیدر کی نئی کتاب’’مغالطے مبالغے‘‘ ان کی پہلی کتاب ’’تہذیبی نرگسیت‘‘ اردو میں ہماری اجتماعی نفسیات کا ایک متبادل مطالعہ پیش کرتی ہے جو ایک طویل عرصے سے ناقص نقطۂ نظر فرضی تاریخی حقائق خود توقیری اور بے بنیاد خوشامدانہ ان پر مشتمل ہے۔
مبارک حیدر نے اس میں وہ موضوعات چھیڑے ہیں جن کا تعلق نظامِ حکومت، توضیح تاریخ، معاصر سیاست اور نظریۂ علم سے ہے۔سانجھ پبلیکیشن لاہور کی شائع کردہ اس کتاب میں اسلامی سلطنت، تقدیسِ خلافت، اسلام سے غیر منطقی خوف، مغربی تہذیب، لا مذہبیت ، حصول علم، آزاد میڈیا اور عدلیہ وغیرہ جیسے تصورات کا جائزہ لیا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں سائنسی خیالات اور دانشورانہ مباحث کے مابین باہمی عمل ایک عجیب و غریب رخ اختیار کر چکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونے والے عوام تو اپنے نقطۂ نظر سے ایک انچ بھی ہٹنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔وہ ان خیالات کی یکسر نفی کرتے ہیں جن کی بنیادمحض نرگسیت، ابہام اور حقائق سے روگردانی پر ہے۔
الیکٹرانک میڈیا جیسے ادارے، جو جدید ترقی کی علامت ہیں، بھی جنگ جویانہ اور جارحانہ طاقتوں کا آلۂ کار بن چکے ہیں۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ باخبر رکھنے کی بجائے میڈیا ایک ایسے کلچر کو فروغ دے رہاہے جو خود فریبی، تشدد، نفرت اور نئی فکر و سوچ کے خلاف ایک سخت مزاحمتی رویہ پر مبنی ہے۔ یہ جمہوری کلچر کو بڑی تیزی سے تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور عسکریت پسندانہ پُر تشدد و سیاسی رجحانات کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ نہ ختم ہونے والی منافقت ہوتی ہے جو ذاتی مفادات کا تحفظ تو کرتا ہے لیکن معاشرے میں متحرک سماجی و سیاسی مباحث کی معمولی سی امید کو بھی تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
ایک اور اہم جہت جسے یہ کتاب واضح کرتی ہے، وہ حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے خود فریبی کا شکار ہو کر اپنے آپ کو ہر دم درست سمجھنے کی عادت ہے۔اس کی سب سے اہم مثال یہ ہے کہ ہم خود کو دنیا کی بہترین قوم سمجھتے ہیں جبکہ ہم ثبوت کے طو رپر خود کو عظیم قوم کے طو رپر ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی پیش نہیں کر سکتے۔ ہم ان ملکوں کی معاشی امداد پر انحصار کرتے ہیں جن کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے۔ ہم پوری دنیا پر حکومت کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم ان ہی سے ہتھیار لیتے ہیں جن کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا پر اپنے نظریات کے تحت حکومت کریں جبکہ ہم اپنے ملک کو ٹھیک سے چلانے میں بھی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔
مستقبل کے بارے میں ناقص منصوبہ بندی اور عصر حاضر کے مسائل کے حل میں ناکامی اس خود پسندانہ، کوتاہ بین اور خود فریبانہ طرز فکر کا نتیجہ ہے۔ہمارے نظام تعلیم نے ہمارے بچوں کو ایک طرف تو تاریخ کے اصل حقائق سے محروم رکھا ہے تو دوسری طرف انھیں جدید تنقیدی انداز میں سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ہم نے بلاشبہ ایک چوں چوں کا مربہ اور خلاف فطرت نظام تعلیم اپنا رکھا ہے جو ہمیشہ ہمارے بچوں کو اپنی شناخت کی تلاش کے چکر میں ہی الجھائے رکھے گا۔
اس سلسلے میں ’’مغاطے اور مبالطے‘‘ جیسی کتابیں ایک مثبت سمت کی طرف رہنمائی میں اہم ثابت ہو سکتی ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں اس نرگسیت (خود پسندی) کے جال سے نکلنے اور خود کو تلاش کرنے کے لیے اور بہت کچھ بھی کرنا پڑے گا۔ ایک حقیقی آزاد ، متجسس، بردبار دانشورانہ ماحول بنانے کے لیے تاریخ کو علم کے اصل ذرائع تک رسائی کو آسان بنانا ہو گا بجائے اس کے کہ ان کو بے دلیل و ثبوت خود ساختہ تاریخ تک محدود کیا جائے۔ مزید برآں تاریخ و ادب سے وابستہ حکومتی ادارے تاریخ و ادب کے بنیادی مآخذ کو چھاپیں اور انھیں اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو مہیا کریں۔ لوگوں کو براہ راست استفادہ کرنے دیں اور خود ہی نتائج اخذ کرنے دیں بجائے اس کے کہ ان کو مجبور کیا جائے کہ حقیقت سے دور تر ایک ایسی تاریخ پر التفا کریں جس کا کوئی سرپیر ہی نہ ہو۔ تعلیمی نظام کی بنیاد مدبرانہ استفسار، تحقیق اور تلاش پر ہونی چاہیے اور نامعلوم سچائیوں کو تسلیم کرنے پر ہونا چاہیے۔ ایک ایسے معاشرے کی اصلاح کے لیے ، جو حقائق کی غلط تشریح کے نشے میں مدہوش ہو، ایسی محض چند ایک کتابیں بلاشبہ کافی نہیں ہیں۔
بشکریہ: ڈیلی’’ڈیٹ لائن اسلام آباد‘‘
از: ڈاکٹر ارشد وحید ترجمہ: صائمہ یوسف

****
ہم اپنی زبان کو پہچانیں
آج آپ کسی ایرانی سے بھی پوچھیں ’’ایرانیوں کی زبان کون سی ہے؟‘‘ آپ کے سوال کا جواب یہ ہو گا: ’’ایران کے لوگوں کی زبان فارسی ہے۔‘‘ ممکن ہے بعض اشخاص یہ کہیں :’’ایران کے لوگوں کی زبان فارسی، دری ہے۔‘‘ ہاں ایرانیوں کی زبان، خراسان سے کردستان تک ، بلوچستان سے خوزستان تک، گیلان وماژندران سے فارس تک ، فارسی ، دری ہی ہے۔ جب ایک شیرزی ماژندران کو جاتاہو تو ماژندران کے دیہاتی کی زبان ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتا۔ اسی طرح اگر ایک تہرانی سمنان جائے تو سمنانی دیہاتی کی زبان بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتا۔ بے شبہ ماژندرانی اور سمنانی دیہاتی فارسی زبان ہی میں بات کرتے ہیں لیکن ان کی فارسی، رسمی (سرکاری) فارسی سے بہت فرق رکھتی ہے۔ فارسی رسمی وہی زبان ہے جس میں کہ آج تمام مصنف کچھ سپرد قلم کرتے ہیں اور تمام شعراء اس میں شعر سرائی کرتے ہیں۔ وہی زبان ہے جس میں گیارہ صدی قبل رودکی، سمرقندی اور آٹھ سو سال قبل سعدی شیرازی اور ملک الشعراء بہار اسی صدی میں شعر کہتے تھے۔ وہ زبان جو سمنانی دیہاتی بولتا ہے، فارسی زبان ہی کا ایک لہجہ ہے۔ ماژندران کا دیہاتی جس زبان میں بات کرتاہے وہ بھی فارسی زبان کا ایک اور لہجہ ہے۔ تمام کی زبان کی اصل ایک ہی ہے لیکن ایران کے بعض مقامات پر لوگ اس طرح بات کرتے ہیں کہ دوسرے مقامات کے ایرانی ان کی بات کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے یا بہت توجہ سے سنیں تو اس کے پلّے پڑے۔ مثلاً فارسی رسمی میں ہم کہتے ہیں: ’’من فردانمی توانم بہ خانۂ تو بیایم۔‘‘ اس فقرے کو تمام ایرانی سمجھتے ہیں لیکن ایک ماژندرانی اسے تقریباً یوں کہے گا۔ ’’من فردانتومبہ بی یم ت سرہ۔‘‘ آپ نے ملاحظہ کیا کہ یہ فقرہ معمول کی فارسی سے بہت مختلف ہے لیکن ہے بہرحال فارسی ہی یعنی معمول کے فارسی لہجوں میں سے ایک لہجہ ہے۔ رسمی زبان نہیں ہے۔ یہ لکھنے پڑھنے کی زبان نہیں ہے اور دوسری تمام زبانیں مثلاً کردی، لُری، سمنانی، ماژندرانی اور گیلکی زبان فارسی کے لہجے ہیں۔
اقتباس از: پیکِ نوجوانان، شمارہ۔۵، برائے دورہ رہنمائے تحصیلی)
****
اقتباسات 
الف) ’’ شہادت کا رتبہ پانے والے نذیر عباسی کی لاش جب لاوارث قرار دے کر ایدھی والے سخی حسن قبرستان میں دفن کر رہے تھے ، تو کسی کے علم میں نہ تھا کہ یہ موت جدوجہد کی ایسی پکار بنے گی جس سے تاریخ ہمیشہ لرزتی رہے گی۔ ‘‘
ب) ’’اگر ہر سال صرف ماہی گیروں کا دن منانا ہی مقصود ہے تو یہ دن ماہی گیروں کے لیے بے معنی ہے۔ بلوچ ساحل سے وابستہ ہزاروں ماہی گیر اپنے بچوں کے مستقبل سے بے خبر گہرے سمندر کی موجوں سے لڑتے رہتے ہیں۔ ان کی اپنی زندگی ایک منجدھار میں قید ہے اور غموں کے سمندر میں ڈولتی ان کی کشتی کو کنارے لگانے والا کوئی بھی نہیں۔ ‘‘
’بلوچ کیس دل کی آنکھ سے‘ از: خورشید مستوئی؛مہر درانسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن ، کوئٹہ ، جون ۲۰۱۱ء
*****
الف ) خلیل جبران کہتا ہے : 
’’ خراب بچوں کوبُرا مت کہو ، اُن کو بُرا کہو جو انھیں نظم وضبط سکھانے میں ناکام رہے ۔‘‘
ب) محترم اساتذہ کرام !
’’ہم گرمیوں میں سکول آکر اس جیل خانے جیسے کمروں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ گرمی اور پیاس کی وجہ سے ہماری حالت نڈھال سی رہتی ہے اور سردیوں میں ہم اس برف خانے جیسے کمروں میں بیٹھتے ہیں، جن کے سارے شیشے ٹوٹے ہوتے ہیں۔ سرد ہواؤں کی لہروں کی وجہ سے سردی سے لرزتے رہتے ہیں۔ جس سے بیمار ہونے کاامکان ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہمیں آپ صاحبان کی آمد کا انتظار ہوتا ہے۔ کلاس روم میں بیٹھ بیٹھ کر تختہ سیاہ کو دیکھ دیکھ کر ہمارے دل ودماغ سیاہ سے سیاہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں ہمارا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ پھر بھی ہم اس امید کے ساتھ سکول آتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ خدائے تعالیٰ آپ کے پتھر جیسے دلوں کو نرم کردے۔‘‘ 
ج) ’’ ہم بوڑھے جلد ہوتے ہیں ۔ جب کہ ذہین دیر سے ہوتے ہیں ۔‘‘
’پرورش ‘ ؛انجینئر عبدالشکور (شیکوف) ؛ بلوچی پبلی کیشنز ، کوئٹہ ، ۲۰۱۰ء
****
’’ مطالعہ کے لیے تو پوری زندگی درکار ہے لیکن یہ نظریہ عمل سے وابستہ ہونا چاہیے۔ کوئی بھی شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے علم میں کمال حاصل ہے۔ دنیا ہر لمحے بدل رہی ہے۔ عوام ترقی کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی مطالعہ جاری رکھنا چاہیے تاکہ ہم جو کچھ سیکھیں اسے عمل میں لائیں اور عوام کے ساتھ ساتھ چلنے کا یہی ایک لائحہ عمل ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر اعلیٰ تعلیم کا مقصد عوام سے اتحاد اور عظیم مقاصد کی پرداخت ہے۔ مختصر الفاظ میں سائنسی فکر رکھنا اور عوام کی خدمت کرنا یا دوسرے الفاظ میں عوام سے پہلے خود تکلیف برداشت کرنا اور سب سے بعد خوشیاں حاصل کرنا ہے۔ ‘ ‘ ’ہوچی مِن‘
’ہوچی مِن‘؛ ڈاکٹر شاہ محمد مری ؛ مہر درانسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ
پبلی کیشن، کوئٹہ ؛ جون ۲۰۱۱ء 
****
’’سُلطانی ، ملائی اور پیری اقبال کا مقصد یہ تھا کہ ان تینوں کی اصلاح کی جائے مثلاً وہ دینیات کے علوم میں اصلاح کے خواہش مند تھے اور اس ضمن میں ان کی خواہش تھی کہ نیا علم الکلام وجود میں لایاجائے کیونکہ اب جو دور ہے اس میں ا نسان کا تجربہ بہت آگے بڑھ چکاہے۔ بالخصوص سائنس نے جو ترقی کی ہے ، اس کی روشنی میں نئے علم الکلام کی ضرورت ہے اور نئے علم الکلام کے بغیر آپ نئی نسل کے مسلمان کا ایمان مستحکم نہیں کرسکتے۔ اس طرح ان کی خواہش تھی کہ تصوف میں بھی ایک انقلاب آئے۔ چنانچہ جب انھوں نے اپنے ان خطبات کی طباعت کے لیے تعارف لکھا تو وہ اپنے اس انقلابی تصور کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ مطلق العنان حکمرانی کو ختم کر کے جمہوریت کی طرف آیا جائے۔ یہاں ان کا مقصد اسلام کی اصل روح کی پاکیزگی کی طرف لوٹنا ہے۔ ‘‘ 
’ڈاکٹر جاوید اقبال‘؛’’مقالاتِ جاوید ‘‘؛ ترتیب وتدوین: محمد سہیل عمر؛ ، اقبال اکادمی ،لاہور ؛ ۲۰۱۱ء
****
’’تاریخی لحاظ سے علم کے چار پلیٹ فارم تھے ، جو مردوں کے لیے پروان چڑھے۔ مکتب یعنی لکھنے والا اسکول ، یہاں نارمل تعلیم کی بات ہوتی ہے ۔ اس کے بعد حلقہ تھا ، استاد درمیان میں بیٹھے تھے اور سامنے نیم دائرے میں شاگرد بیٹھے تھے ، ذہین اور عزیز شاگرد استاد کے قریب بیٹھتا تھا۔ پھر محلاتی اسکول تھے جن میں بادشاہوں کی اولادوں کو علم ، فنونِ حرب اور فنونِ لطیفہ سکھائے جاتے تھے ۔ لیکن یہ بھی شاہی خاندان کے مردوں کے لیے تھے ، عورتوں کے لیے نہیں۔ اگر وہاں کوئی عورت شاعری ، موسیقی ، رقص میں مصروف نظر آتی ہے ، وہ کون سی عورت ہے ؟ یہ بہت تلخ حقیقت ہے اور تکلیف دینے والی بات بھی ہے۔ گیارھویں، بارھویں ، تیرھویں صدی میں جو آزاد عورت نظر آتی ہے وہ کنیز ہے۔ خوبصورتی، علم ، ذہانت کے حوالے سے جن کا نام رہ گیا ہے۔ خیز راں ، یہ ایک باندی تھی۔ ان عورتوں کو تعلیم بھی دی جاتی تھی ، ذہنی طور پرانھیں چست وچالاک بنایا جاتا تھا۔ وہ عالمانہ مباحث میں حصہ بھی لیتی تھیں لیکن گھرکی عورت جو اشرافیہ میں سے تھی، اسے تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ خوف یہ تھا کہ اگر عورت کے پاس علم کا ہتھیار آگیا تو پھر وہ سوال کرے گی جبکہ بغیر تعلیم کے وہ تو محل میں بند بیٹھی ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر طاہرہ خان ’پہلا حمزہ واحد یادگاری لیکچر‘ ۲۰۰۱ء ؛’ عورت اور عالم‘؛ارتقاءانسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز۔
****
منتخب شعری مجموعے 
پڑے ہیں خواب شہر التوا میں 
صحیفے کارروائی میں پڑے ہیں 

یاد رکھنے کے بھول جانے کے 
اب کے احکام تک نہیں آئے 

مرے رستوں پہ میرے ساحلوں پر 
لگا رکھی ہے تو نے گھات واجہ 
’ برف پر چلتے دئیے ‘ افضل مراد، قلات پبلشرز، کوئٹہ ، ۲۰۰۷ء 
*****
شاعر مشرق نے پھونکا صور، انسان جاگ اٹھا
اور کانوں میں وہی آنے لگی بانگ درا
مسلک گم گشتہ سالک کو نظر آنے لگا
نشۂ عرفاں میں صوفی رقص فرمانے لگا
عزم جو لوٹا اُجڑے تکیے قال و قیل کے
آدم خاکی کو گویا پر ملے جبریل کے
’راہ آورد‘؛ از: پروفیسر عبدالعزیز جاوید ، رحیم یار خان، ۲۰۱۰ء
*****
جونہی باہر آنے جانے لگتا ہے 
بیٹا ماں سے راز چھپانے لگتا ہے 

بے سبب اس کو نہ ڈھانا چاہیے 
گھربنانے کو زمانہ چاہیے
مجھے رہنے نہیں دیتی ہیں تنہا 
تمنائیں مرِی ہمسائیاں ہیں 
تمہارا جب سے آنا ہوگیا ہے 
مرِا گھر بھی گھرانہ ہوگیا ہے 
’کچھ خواب سرمثرگاں‘تسنیم صنم ، ساگر پبلی کیشنز ، لاہور ، اپریل ۲۰۱۰ء
****
ادبی مباحث کے تقاضے
ادبی مباحث میں یہ امر غور طلب ہے کہ معاصر متغیر زمانے میں ادب کی افادیت کو بخوبی بروئے کار لایا جا سکتا ہے کیوں کہ انسانی تاریخ میں ادب نے ذریعۂ اظہار کے طور پر ہمیشہ رہنمائی کی ہے۔ اس لیے اسے موجودہ دور میں بشریاتی تقاضے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتاہے۔ تاہم یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ تقاضے کیا ہیں؟ اور ایک وسیلے کے طو رپر ادب ہمارے تہذیبی ، ثقافتی اور سماجی علوم کے علاوہ معاشرتی خدوخال کو کہاں تک آشکار کر سکتا ہے۔ انہی سوالات میں ادبی بشریات کا جواز مضمر ہے۔ یہی ذوق سعی ہمیں میر تقی میر، اسد اللہ غالب اور اقبال کے بعد کے تخلیق کاروں سے رسائی اور آشنائی کے مراحل میں لے آیا ہے۔ سچائی تک پہنچنے کے لیے قرأت کرنے کے بجائے اب ہم رموز کش(Decoder)کے طور پر قرأت کرتے ہیں۔ بار برا جانسن نے بتایا ہے کہ قرأت اور قرأت مکرر کی ساری کارروائی میں ہمارا پالا دراڑوں اور بے یقینیوں سے پڑتا ہے۔ ’’مغرب کی تاریخ پر اثر انداز ہونے والے مصنفوں اور تاریخ دانوں کی کتب کی قرأت نو سے ہم شاید اس کاٹ چھانٹ، تحذیفات، تضادات اور لفظی اغلاط کا ادراک کر سکیں جو بغیر نشان دہی کے ان متنوں میں کارفرماہی ہیں اور جوان کتابوں کی روایتی قرأت پر مبنی تعین پر شک کا سایہ ڈاتی ہیں۔‘‘ تحیر کا عمل خلا میں عمل پذیر نہیں ہوتا بلکہ اس کا سیاق و سباق ہوتا ہے۔ ایک ثقافتی نظام سے دوسرے میں ترجمہ کرنا کوئی غیر جانبدار، معصوم اور شفاف کارروائی نہیں ہے بلکہ ترجمہ تو ایک پُرہیجان دخل اندازی کا عمل ہے۔ ترجمہ اور ترجمانے کی سیاست پر ماضی کے مقابلہ میں اب زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ثقافتی تغیر میں ترجمہ کا بنیادی کردار رہا ہے۔ ترجمہ کی کارروائی تاریخ کے جائزہ سے ہمیں ماخذی ثقافتوں کی نسبت ہدفی ثقافتوں کے مؤقف کی بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ’’نہایت کم عمری میں ہی آپ نے مجھے بولنے سے منع کیا تھا اور یہ تنبیہہ کی تھی کہ ایک لفظ بھی اس کے خلاف مت بولنا‘‘ یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کیا جو آج تک میرے تصور میں ویسے ہی بلند ہے۔‘‘
مخزن ۲۱، قائداعظم لائبریری، لاہور
’’اپنے باپ کے نام خط‘‘ از :فرانز کافکا، مشمولہ ’’کافکاکہانیاں‘‘ مترجم محمد عاصم بٹ، لاہور: جنگ پبلشرز، ۱۹۹۲ء ص:۴۶
مسلم جدیدیت: عوامی تخیل کے اظہارات
معروف سماجی محقق ایمن بی ساجو نے ۲۰۰۸ء میں ایک دلچسپ کتاب مرتب کی تھی جس کا عنوان تھا ’’مسلم جدیدیت: عوامی تخیل کے اظہارات۔‘‘ انھوں نے اس کتاب میں جدیدیت کے بارے میں مسلمانوں کے رویے کا تجزیہ کیا ہے۔ اس میں یہ دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ کم و بیش ہر مسلم اکثریتی ملک میں جدیدیت کو رد کرنے سے پہلے خود اپنے ہی کچھ مقامی منکرین کو رد کیا گیاہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں سر سید احمد خاں اور علامہ اقبالؒ کے خیالات کو رد کرنا ضروری قرار پایا تاکہ طالبان اور القاعدہ کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔
بحوالہ:خالد احمد، ماہنامہ’نوائے انسان‘ لاہور جون ۲۰۱۱ء
****
سرحد ادراک سے آگے(تاثرات عمرہ)
’’سرحد ادراک سے آگے‘‘ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ کا سفرنامہ حجاز ہے۔اس کی تفریظ پروفیسر فتح محمد ملک ریکٹر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آبادنے لکھی ہے ۔ اپنے اس سفرنامے میں قرۃ العین نے نہایت رواں اور خوبصورت اردو میں سفر کی روداد ، عمرے کی ادائیگی کے تمام مرحلے اور وہاں وارد ہونے والی روحانی کیفیات کوبیان کیا ہے۔ان کا اندازبیان دلنشیں اور جاذب نظر ہے۔دو سو بیس صفحات کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے قاری خود انہی مقامات کی زیارات سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ اسے روہیل پبلشر، کمیٹی چوک‘‘راولپنڈی ہیں۔ 
****
SHIFTING SANDS 
برزخ، ساتواں در ، فشار ، ذرا پھر سے کہنا ، اس بار، بارش کی آواز ، سحر آثار ، ساحلوں کی ہوا ، پھر یوں ہوا ، یہیں کہیں نزدیک، کے خالق امجد اسلام امجد کی منتخب اُردو شاعری ، انگریزی ترجمے کے ساتھ ۶۰۰ سے زائد صفحات پرمحیط کتاب SHIFTING SANDS کے نام سے شائع ہوگئی ہے ، اس کے ذیلی عنوان میں لکھا ہے محبت کی نظمیں اور دوسری شاعری ، اس کا ترجمہ کینیڈا کی مینی ٹوبا یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر بیدار بخت اور رائل ملٹری کالج کینیڈا کی ڈاکٹر ماری آئے ایر کی نے مل کر کیا ہے اور اسے پیکیجز کے ادارے نے شائع کیا ہے ، کتاب میں شامل اس ماہیے کا ترجمہ دیکھیے: 
تاروں سے بھری راتیں
The Star Filled nights
دل تھام کے سنتی ہیں 
Listen in Awe
ہم تم جو کریں باتیں
to our Conversation
***
خمینی و فردوسی کی سرزمین 
’’خمینی و فردوسی کی سرزمین‘‘ صاحزادہ انوار احمد بگوی کا سفر نامہ ایران ہے۔ اسے ’’شاہکار بک فاؤنڈیشن لاہور‘‘ نے شائع کیا۔زیر نظر کتاب ایران کا ایک اچھوتا سفر نامہ ہے جو مصنف کے ذوق سیاحت اور ان کے شوق سفر کا آئینہ دار ہے۔ موجودہ سفرنامے میں مصنف نے نہ صرف ایرانی تہذیب و تمدن پر روشنی ڈالی ہے بلکہ اس کی ہمارے ملک کی حالیہ زوال پذیر تہذیب سے جس خوبصورتی سے موازنہ کیا ہے وہ بھی قابل دید ہے۔ تحریر میں روانی اور تجسس قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ الغرض کتاب ہذٰا ایک دلچسپ اور قابل داد معلومات سے بھری ہے۔ خوبصورت ہیئت میں ۱۹۱ صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت محض ۳۰۰ روپے ہے۔
****
پروفیسر احمد علی حیات اور ادبی خدمات 
اوریئنٹل کالج لاہور کے جواں سال محقق اور سفر نامہ نگار ڈاکٹر محمد کامران کے ڈاکٹریٹ مقالے کو کتابی صورت میں انجمن ترقئ اردو پاکستان کراچی نے شائع کرایا ہے۔ ۳۰۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب کے پانچ ابواب ہیں اور مفید کتابیات بھی شامل ہے۔ احمد علی ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے تھے مگر بعد میں ان کی خودپسندی انھیں انفرادیت اور تنہائی کی طرف لے گئی۔
****
دانش
مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان کا سہ ماہی ’دانش‘ (شمارہ ۱۰۳) شائع ہو گیا ہے۔موجودہ شمارے میں ’’تنبیہہ السلاطین‘‘ از: سید احمد کاسانی کے قلمی نسخے کا متن ایران کی اسکالر محترمہ حکیمہ دست رنجی کی کوشش سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی و پاکستانی اسکالر صاحبان کے مختلف موضوعات پر مبنی نو مقالات پیش کیے گئے ہیں۔ معاصر ادب میں ایک افسانہ بعنوان ’تلخی‘ اور ایران و پاکستانی شعرأ کا تازہ کلام شامل ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین تسبیحی کی مخمس ’’چھل اسرار‘‘ برصغیر میں فارسی ادب سے متعلق ہے۔ وفیات میں استاد ایرج افشار، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اور شرافت عباس کی خبریں اور ان کے عملی کارناموں کا تذکرہ بھی شامل مجلہ ہے۔ ایران و پاکستان اور دیگر فارسی ادب سے متعلق خبریں بھی مجلے کا اہم حصہ ہیں۔ مجلے کے آخر میں مضامین کا مختصر خلاصہ انگریزی زبان میں بیان کیا جاتا ہے۔
(ڈاکٹر انجم حمید)
****
اردو ، اطالوی محاورات و ضرب الامثال کا مجموعہ
اگوستینو گیتانو بونو، اطالوی سفارت خانے میں کام کرتے ہیں۔ چار سال سے اسلام آباد، پاکستان میں مقیم ہیں۔ اردو زبان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی، ہسپانوی، پرتوغالی(پرتگالی)، فارسی، عربی، انگریزی اور اطالوی پر یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ اردو سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اردو کی نسبت سے انھی جذبات کو اپنی مفید، خوبصورت اور پر کشش کتاب شائع کر کے ظاہر ہے۔کتاب اردو محاوروں، ضرب الامثال، متعلق افعال اور اقوال کا انتخاب ہے۔ 
(ڈاکٹر فوزیہ اسلم)