جمہوری زبان

پاکستان کے یوم آزادی پر بہت کچھ قابل رشک نہیں مگر پاکستانی قوم کی روح نے اب تک جن آزمائشوں کا ہمت کے ساتھ سامنا کیا ہے اس سے بصیرت اور اُمید کا ایک دیپ جلتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ممکن ہے وہ لوگ بھی مخلص ہوں جنھوں نے ناولوں کو تاریخی شعور کا متبادل سمجھا اور دنیا بھر کو فتح کرنے کے ارادے بنائے اور اپنے سماج میں بھی بنیادی تبدیلیوں کے لیے وقتاً فوقتاً کسی مرد آہن کے مضبوط شانوں کو تلاش کیا تاکہ ان کے رومانوی حل مسائل کی سنگینی کو کم کر دیں مگر قومی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آمریت کے ادوار نے اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا ۔ جمہوریت کا سفر صبر آزما ہوتا ہے مگر بالآخر قوموں کی اجتماعی منشا کے ذریعے وہ ادارے تشکیل پاتے ہیں جن پر لوگوں کا اعتبار افراد سے زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک اردو زبان بھی اپنی آبرومندی کا سفر جمہوریت کے سہارے طے کر سکتی ہے۔ جیسے جیسے پاکستان میں جمہوری ادارے پروان چڑھیں گے پارلیمنٹ ، عدلیہ، انتظامیہ ، ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتیں بھی فعال اور معتبر ہوتے جائیں گے تو بعض لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آتی جائے گی کہ تحریک پاکستان میں اردو زبان کا کیا کردار تھا؟ اب یہ زبان کس طرح وفاق کی تمام اکائیوں میں رابطے اور سہولت کی بڑی زبان بن سکتی ہے؟ اور آخر وہ کون سی’’معاشی‘‘ قوتیں تھیں جن کے سبب پاکستان کا ایک بہت باوقار اور باوسیلہ نیوز چینل اردو کی طرف پلٹنے پر مجبور ہو گیا تھا اور جن کا ڈراوا دکھا کر اردو کو کم اہم خیال کیا جاتاہے۔
ہمیں یقین ہے کہ جو لوگ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ’’ اردو میڈیم‘‘ تنگ نظری ، جذباتیت اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کا موجب ہے وہ دراصل اس زبان کے مزاج اور کردار کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں اور شاید پاکستانی قوم کی اجتماعی امنگوں کا اندازہ کرنا بھی ان کے بس میں نہیں۔

(انوار احمد)