منیر احمد بادینی سے گفتگو
شریک گفتگو: نبلی پیرزادہ، عظمت زہرا


منیر احمد بادینی ممتاز بلوچ ناول نگار ہیں۔بلوچی زبان میں ان کے اب تک نوے سے زائد ناول شائع ہو چکے ہیں ۔ ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ہے اور وہ اس ضلع میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والے پہلے فرد ہیں۔ بادینی صاحب اہم سرکاری عہدوں پر تعینات رہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہء حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ حال ہی میں مقتدرہ آمد پر ان سے خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا گیا، جو قارئین اخبار اردو کے لیے پیش خدمت ہے۔
س:آپ اپنی تعلیم اور تخلیقی کا وشوں کے بارے میں کچھ بتائیے۔
ج:میں ۱۹۵۳ء میں بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پیدا ہوا۔ ہمارا گاؤں نوشکی سے سو کلو میٹر دور واقع ہے ۔ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی سے حاصل کی اور پھر گورنمنٹ ہائی سکول نوشکی سے میٹرک کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں ماسٹر کیا۔ ۱۹۷۴ء سے۱۹۷۶ء کے دوران فلسفہ کے لیکچرار کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں اور پھر سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں ڈپٹی کمشنر ، کمشنر اور سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہا۔ مجھے ساؤتھ ایشیا، سنگاپور ، ملائیشیا ، واشنگٹن ڈی سی اور ہاورڈمیں قیام کا موقع بھی ملا۔ اس کے بعد میں گزشتہ دس سالوں سے صوبائی سیکریٹری تعلیم کے فرائض انجام دے رہا ہوں ۔ میرے سارے ناول گوادر اور پشین کے بارے میں ہیں جہاں میں ڈپٹی کمشنر رہا۔
س:اپنی تخلیقی کاوشوں کے بنیادی محرک کے بارے میں بتائیے۔
ج:ادب سے کسی نہ کسی حوالے سے میرا واسطہ رہا ہے ۔ میں نے زمانہ طالب علمی میں منٹو ، خلیل جبران، عصمت چغتائی، فیض اور دیگر لکھاریوں کی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے اور اسی زمانے سے میں نے ’’ قلمی نام‘‘ سے لکھنے کا آغاز کیا۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ میں ناول لکھ سکتا ہوں ۔ تمام دیگر معاشروں کی طرح ہمارے ہاں بھی کچھ چیزیں اچھی اور بری ہیں ۔ میں نے جب مغربی ادب کا مطالعہ کیا تو ان کے فلسفے نے بے حد متاثر کیا ، اور پھر میں نے ناول لکھنے کا آغاز کیا۔ حکومت پاکستان نے مجھے تمغہ ء حسن کارکردگی سے بھی نوازا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے بھی مجھے دو ایوارڈ دیے ہیں ۔ میں جو کچھ بلوچی معاشرے کے بارے میں سوچتا اور دیکھتا انہی خیالات کو ناول کی شکل میں ڈھال دیتا۔ میں نے بلوچی زبان میں سب سے زیادہ ناول لکھے ہیں، دیگر لکھاریوں کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت آگے جانا پڑے گا۔بڑے ناول نگاروں کی تخلیقات کا کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ محرک تین قسم کا ہو سکتاہے۔ پہلا یہ کہ کوئی بڑا واقعہ یا تجربہ تخلیق کے لیے آپ کو اکساتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تخلیق کار کا کوئی نصب العین ہوتا ہے یا کوئی سوچ ہوتی ہے جس کی جانب وہ قاری کو لانا چاہتا ہے اور تیسرا یہ کہ چند تخلیق کاروں کو بار بار ایک ہی چیز لکھنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ ہر بار اسی ایک شے کو نئے طرز سے تخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادب کے سلسلے میں انسان کے اپنے حالات زندگی کا بھی ایک بڑا کردار ہے۔ ادب تخلیق کرنے کے لیے آپ کا بچپن نہایت اہم ہے۔ آپ کا اپنا ماحول اور مخصوص حالات اس تخلیق پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تخلیق کار اپنے ماحول سے گہری انسیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے ماحول سے باہر نہیں نکل سکتا یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے تمام تخلیقی تجربات بلوچی زبان میں کیے ہیں ۔
س:پاکستانی معاشرے پر ادب نے کیا اثرات چھوڑے ہیں ۔
ج:بہت معذرت کیساتھ لیکن ہم نے ادب کے لیے پاکستانی معاشرے میں کوئی جگہ چھوڑی ہی نہیں کہ یہاں ادب تخلیق ہو سکے۔ لکھنے والے آخر لکھیں تو کیا لکھیں، لکھنے کے لیے آپ کے پاس نہ ہی روایت ہے ، نہ آزادی اور نہ کوئی سوچ اور فکر !
س:پاکستان کی دیگر زبانوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ج : میرے کچھ ڈرامے ہیں جن کے تراجم ہو چکے ہیں ۔ مجھے ہر زبان لکھنے والوں سے محبت ہے ۔ میں پنجابی ادب کو بھی پسند کرتا ہوں ، پشتو،سندھی، سرائیکی سب زبانیں ہی خوبصورت ہیں ۔ میاں محمد بخش کا کلام ہم اپنے اساتذہ سے سنا کرتے تھے۔ اردو یقیناًرابطے کی زبان ہے۔ لیکن دیگر مادری زبانیں بھی انتہائی خوبصورت ہیں اور اپنی مٹی سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچی نہ صرف میری مادری زبان ہے بلکہ میرا اس سے انتہائی محبت کا رشتہ ہے۔
س:آپ کے خیال میں مادری زبانوں کے سلسلے میں کیا پالیسی ہونی چاہیے۔
ج:آپ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی دیں تو وہ یہ سمجھ پائیں گے کہ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ ان کے نظریات واضح ہوں گے۔ وہ زیادہ بہتر طریقے سے اردو اور انگریزی سیکھ سکیں گے۔
س:بلوچستان میں مزاحمتی ادب کی کیا صورت حال ہے۔
ج:میں مزاحتمی ادب کے نظریے پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ اگر کوئی چیز ہے تو وہ ایک خاص نقطہ ء نظر کہلائے گی مزاحمتی نہیں ہے برائی کی قوتو ں کے خلاف تو آپ نے لکھنا ہے۔
س:بلوچستان میں آج کل کن موضوعات پر لکھا جارہا ہے؟
ج:بلوچستان کے موضوعات کا تو میں پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر اپنے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ میرے موضوعات میں انسان ہے ، اس کی بیگانگی ہے ، دوسرے انسانوں کے ساتھ اس کا تعلق ہے ۔ بلوچی معاشرے کے کچھ مسائل ہیں ۔ بیروز گاری اور خواتین کے مسائل ہیں خاص کر ایک قبائلی معاشرے میں عورت کا مقام وغیرہ ۔ ہم تعلیمی لحاظ سے بھی پسماندہ ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو کم درجے پر رکھا گیا ہے جبکہ مہذب معاشروں میں عورت کو یکساں حقوق حاصل ہیں ۔
س:آپ کے خیال میں بلوچستان میں تعلیمی سطح پر کس قسم کے کام کرنے کی ضرورت ہے؟
ج:پرائمری تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس سطح پر داخلے کی شرح کو بڑھانا نہایت ضروری ہے۔ پرائمری تعلیم کے نظام سے وابستہ کمی کو دور کرنا ہو گا، اساتذہ کو تربیت دینی ہو گی۔ جب ان تمام مسائل پر قابو پا لیا جائے گا تو لوگوں کا اعتماد بڑھے گا اور وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجیں گے۔ بلوچستان میں اس سطح پر ڈراپ آؤٹ ساٹھ فیصد ہے۔ زیادہ تر اخراجات تنخوا ہوں کے سلسلے میں ہیں ‘ دیگر سرگرمیوں کے لیے کوئی پیسہ ہی نہیں ۔ وسائل کی کمی ہے۔ پورے بلوچستان میں اس وقت صرف گیارہ ہزار پرائمری اسکول ہیں جبکہ مڈل سکولوں کی تعداد آٹھ سو کے لگ بھگ ہے ۔
میں زبان کے حوالے سے آخر میں پھریہی کہوں گا کہ زبان پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ میرے خیال میں سب کو اپنی مادری زبان پہلے پڑھنی چاہیے کیونکہ اگر آپ اپنی مادری زبان پر نہیں توجہ دیں گے تو آپ کو دوسری زبانوں کو
سیکھنے میں بھی مشکل ہو گی۔ کیا یہ غیر فطری فعل نہیں کہ جو زبان آپ کی ماں آپ کو سکھائے ایک بچہ وہ زبان چھوڑ کر علم حاصل کرنے کے لیے کسی دوسری زبان کا سہارا لے۔