کتاب میلہ


چہرے اور مہرے از : مسعود مفتی
دوست پبلی کیشنز ، اسلام آباد۔ ۲۰۱۱ء
مسعود مفتی نامور افسانہ نگار تو ہیں ہی مگر انھیں پاکستان کے دو لخت ہوتے وقت ڈھاکہ میں کمشنر ہونے کا دل دوز شرف بھی حاصل ہے اور پھر جنگی قیدی ہونے کا اذیت ناک تجربہ بھی ، مگرشاید سرکاری ملازم ہونے کے سبب وہ ’ چہرے ، ہم نفس ‘، ’لمحے ‘اور ’ریزے ‘ کے ذریعے بالواسطہ بعض باتیں کہتے رہے مگر اب انھوں نے اس سلسلے کو پہلی کتاب ’ چہرے ‘میں اہم اضافے کر کے ’ چہرے اور مہرے ‘ کے نام سے شا ئع کی ہے۔ جس کے بعض اقتباسات دیکھئے :
’’
آج ۱۵ دسمبر ۱۹۷۱ء ہے ۔۔۔ میری کھڑکی کے تقریباً نیچے ریڈیو پاکستان گورستان کی طرح خاموش ہے۔ ذرا آگے سابقہ شاہ باغ ہوٹل کی عمارت اپنے ماتھے پر ریڈکراس چپکائے دعا میں ڈوبی ہوئی راہبہ کی طرح پر سکون ہے اورویران چوراہے پر سکوت کا سایہ ڈال رہی ہے(ص ۱۹) ۔۔۔اب دشمن کے ہوائی جہاز اس انداز میں ٹہلتے ہیں جیسے جاگیردار اپنے علاقے میں گھومتا ہے۔ ۔۔۔میں کیمرے کا بٹن دباتا ہوں اور ڈھاکہ کے سینے میں نئے دھوئیں تلاش کرنے لگتا ہوں۔(ص ۲۰ ) ۔۔۔مگر یہ چہرے ایسے حالات میں گھرے ہوئے ہیں کہ وقت نے ان کے سارے نقاب نوچ کر پھینک دیے ہیں اور انھیں ابھی یہ مہلت نہیں ملی کہ مستقبل کے لیے نئے نقاب کا انتخاب کرسکیں۔(ص ۲۱ ) ۔۔۔شاہ نعمت اللہ کی آٹھ سو سال پہلے کی پیشن گوئیوں کا سہارا لے کر آخری دم تک معجزے کاانتظار کر رہے ہیں۔ ۔۔۔افسوس یہ ہے کہ کسی چہرے پر وہ غرور اور فخر نظر نہیں آتا۔ جو اپنے ملک کی بقا کے لیے آخری دم تک لڑکر ہارنے میں ہوتا ہے۔(ص ۲۷) ۔۔۔دیکھئے صاحب ! سزا اور جزا کا مسئلہ اپنے پاس رکھئے۔ مجھے معلوم نہیں قوموں کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔۔۔ میں تویہ جانتا ہوں کہ اپریل میں میرا دوسالہ بچہ مارا گیا۔۔۔اور اس عمر میں ان کے اعمال کیا ہیں ؟ ۔۔۔اور اگر یہ قوم کو سزا ہے تواس کے لیے ہر دفعہ میرا ہی گھرانا کیوں چناجاتا ہے ؟ (ص ۳۴) ،ایک خاتون نے کچھ آیات پڑھنے کے بعد دیوانِ غالب کھولا ، اور فال لی ۔ ساتویں لائن پر یہ شعر تھا :
پیکرِ عشاق سازِ طالعِ ناساز ہے
نالہ گویا گردشِ سیارہ کی آواز ہے (ص ۳۸ )
۔۔۔ وہ بتاتا ہے کہ یہاں کے فوجی کمانڈروں نے ہتھیار ڈالنے کے متعلق جنرل مانک شاہ کا الٹی میٹم منظور کرلیا تھا۔ مگر ان سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم نہ ہوسکا۔ تب انھوں نے ریڈ کراس سے بات کی اور ہم نے امریکن سفارت خانے کی وساطت سے نئی دہلی کو اطلاع دی ۔ وہاں سے انڈین گورنمنٹ نے اپنے کمانڈروں کو بتایا۔ اس وقت جہاز حملے کے لیے اڑ چکے تھے۔ وہ واپس بلوا لیے گئے ۔۔۔ اب قصہ ختم ہوچکا ہے۔ اب ہم بنگلہ دیش میں بیٹھے ہیں ۔۔۔ خدا معلوم آزاد بنگلہ دیش یا ہندوستان کا ایک صوبہ ۔۔۔ پھر ہمیں ہدایت دی جاتی ہیں۔ جن کے تحت اب یہاں رہنا ہوگا اور آخر میں یہ بتایا جاتا ہے کہ غیر جانبدار علاقے کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں سیاسی پناہ مل سکے۔ بلکہ صرف اتنا ہے کہ یہاں حتی الامکان جنگ نہیں ہوگی۔ اس لیے اس ملک کی قانونی حکومت اگر کسی شخص کو مانگتی ہے تو ریڈ کراس کو اس کی تعمیل کرنا ہوگی۔ (ص ۵۳) ۔۔۔ آپ بہت خوش ہیں آج میں اس سانولے سلونے دلکش چہرے سے پوچھتا ہوں ۔ وہ میری آنکھوں میں سیدھے دیکھتے ہوئے کہتی ہے ’’ جے بنگلہ ‘‘ ۔ (ص ۶۵) ۔۔۔ بعض کاغذات لے لیے گئے ۔ مگر ’’ چہرے ‘ کے اوراق اس لیے بچ گئے کہ وہ دیگر سامان میں لپیٹنے کے لیے ردی کاغذوں کی پڑیاں بنے ہوئے تھے۔ کسی ورق میں تیل کی شیشی لپٹی تھی اور کسی میں ٹوتھ پیسٹ یا دوائی کی گولیاں۔ ۔۔۔ ان اوراق نے کچھ عرصہ تکیے میں گزارا ۔ کچھ عرصہ کمرے کی چھت کی کڑیوں میں اور کچھ عرصہ پلاسٹک لفافے میں لپٹ کر غسل خانے میں فلش کی اونچی ٹینکی میں پانی میں تیرتے رہے۔ (صفحہ ۸۵) ۔۔۔ ’چہرے‘ کا مکمل مسودہ کیمپ کی انتہائی مختصر ڈائری اور’’ریزے‘‘ کے بیشتر افسانے کاغذکے انہی مخفی پرزوں کے ذریعے پاکستان پہنچے۔ یہاں پہنچ کر کاغذات برآمد کرتے ہوئے کیمرے سے ان کی تصاویر لیں ۔ جو،اب۔۔ شامل کی جارہی ہیں۔ (ص ۸۸) ۔۔۔ شاید یہ رپورٹ اسی طرح مخفی رہتی لیکن ۲۰۰۰ء میں یہ کسی طرح ہندوستان نے حاصل کرلی اور اس کا متن قسط وار ہندوستانی اخبارات میں شائع ہونے لگا۔ مجبور ہو کر جنرل مشرف کی فوجی حکومت نے اسے محدود انداز میں اس طرح غیر مخفی کردیا کہ اس کے کچھ حصے کیبنٹ ڈویژن (Cabinet Division) میں رکھ دئیے گئے ۔ جہاں جا کر اسے دیکھا جاسکتا ہے مگر اس طریق کار میں بھی کافی پابندیاں تھیں۔ اس کا اعلان بیسویں صدی کے آخری دن ۔۔۔۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء ۔۔۔ پاکستانی اخبارات میں ہوا۔ بعدازاں کسی وقت اس کی پہلی جلد کا ایک حصہ خاموشی سے وین گارڈ بکس (Vanguard Books) نے لاہور سے شائع کردیا۔ (صفحہ ۱۲۱۔۱۲۲)۔۔۔ زیر نظر کتاب میں حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی بنیادی اور ضمنی رپورٹ کے پانچویں حصہ سے صرف ان ابواب کا ترجمہ شامل کیا گیا ہے، جن میں اخذ کردہ نتائج کا خلاصہ (Conclusion) اور کمیشن کی سفارشات (Recommendation) ہیں۔ (ص ۱۲۲ )
مبصر : انوار احمد
جذبوں کی ڈالیوں پر
از : ڈاکٹر فقیر ا خان فقری ؔ جدون
گوہر پبلی کیشنز ، لاہور۔ ۲۰۱۱ء
’’
صورت شکل سے خوشحال خان خٹک کا لشکری دکھائی دینے والا ڈاکٹر فقیرا خان فقریؔ ایک عجیب سوگوار لَے میں جب کہتا ہے :
جذبوں کی ڈالیوں پر
دکھ درد کھل رہے ہیں
فولاد کے بدن بھی
غم سے پگھل رہے ہیں
تو میرا جیسا روایتی ملتانی بھی ٹھٹھک جاتا ہے ، اصل میں شاعر ہونا ہی غم کو گلے لگانا ہے۔ ابنِ انشاء کیا شگفتہ انسان تھا، آخری وقت میں مزاح نگار تو جواں مردی سے لکھ رہا تھا ،’بیمار کا حال اچھا ہے‘ جبکہ شاعر کہہ رہا تھا’ اب عمر کی نقدی ختم ہوئی ‘، یا’ انشا جی اٹھواب کوچ کرو سو، پشاور یونیورسٹی کا یہ قدآور استاد ، محقق، نقاد اور مزاح نگار بھی جب اپنا شعری مجموعہ ایک دل دوز عنوان ’’ ہم دہر کے مردہ خانے میں ‘‘ کو ساتھ لے کر آتا ہے تویوں لگتا ہے کہ کوئی سپاہی کی شباہت رکھنے والا زرہ بکتر کھول کر ہمیں اپنے ان گنت زخم دکھا رہا ہے۔
فقری ؔ کے ہاں موت اور پھر تدفین کا خوف ، سب سے بڑا تخلیقی تجربہ بن جاتا ہے ، تب اس کا متکلم ایک ڈرا ہوا بچہ بن جاتا ہے ، جو کسی (شاید اپنی ) دکھیا ماں کی آواز میں بین کرتا ہے ، بدقسمتی سے ہمارا یہ خطہ خود اذیتی ،علم کشی اور غیروں کی کفش برداری کے ہلاکت خیز کھیل کی آماج گاہ بن گیا ہے ، اس لیے یہ دہر کا مردہ خانہ دکھائی دینے لگا ہے ، وگرنہ یہ تو حسن وعشق ، سبزہ وگل اور آبِ نشاط انگیز کی صدائے طرب کی نغمہ گاہ تھی ، فقری ؔ غریب کیا کرے ، پیاروں کی لاشوں کے ٹکرے اور زخموں کی کرچیاں چننے اور انھیں شعر مالا میں پرونے کے سوا؟
چند اشعار ملاحظہ ہوں :
دل سے میں توڑ کر تارے لایا
شامِ غربت کو سجانے لوگو

جب پرندے نے شکاری دیکھا
گر گئے چونچ سے دانے لوگو
***
دوڑ کر خال پکڑ لیتے ہیں
ہاتھ کی ڈال پکڑ لیتے ہیں
جان سے جان رگڑ لیتے ہیں
ران سے ران رگڑ لیتے ہیں
چٹکیاں لوگ لیے جاتے ہیں
چھید ٹی۔ وی میں کیے جاتے ہیں
(
ماڈل گرل )
لوگ ٹوٹی ہوئی قبریں جبکہ
دہر لگتا ہے ویرانہ مجھ کو !

بعد میں جو بھی کرو سو کر لو
چار دن سوگ منانا میرا

اس طرف پار بڑے ٹیلے پر
خاک میں جسم دبانا میرا
گم جو دیکھیں گے تو آجائیں گے
کوئی کتبہ نہ لگانا میرا

دندناتا ہوا جس روز نکل آئے گا
شہر کا بھوت مرے کھیت نگل جائے گا
آک ٹیلوں پہ رہیں گے نہ شجر کیکر کے
دل گڈریا ہے کہاں روز غزل گائے گا ؟
بچایا میر ؔ صاحب نے زمانے سے جسے فقریؔ
سو اس گرتی ہوئی دستار کا بھی مرثیہ ہوں میں
مبصر : انوار احمد
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات
"Climate Change and Natural Disasters in Pakistan"
موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے سیارے کے لیے ایک ابھرتا ہوا خطرہ ہیں۔ ان تبدیلیوں نے دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے ان ممالک کی سماجی اور معاشی تصویر کا رخ ہی بدل دیا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا نہایت واضح طور پر جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی واضح مثالیں پاکستان میں ۲۰۱۰ء کے سیلاب اور ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۷ء کے سمندری طوفان اور موسمی شدت میں اضافہ ہیں۔ یہ واقعات ہمیں اس بات کا شدت سے احساس دلاتے ہیں کہ مستقبل میں ان موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
ادارہ استحکام شرکتی ترقی ان موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے نبٹنے کے لیے نہ صرف لوگوں کو تیار کرنے اور ان میں شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے بلکہ اس حوالے سے استعدادِ کار اور قابلیت میں اضافے ، باہمی تعاون ، جائزے اور ریلیف سے متعلق کئی منصوبے بھی چلا رہا ہے۔
’’
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اورقدرتی آفات ‘‘ نصیر میمن کے ان کالموں کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے ان موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے حوالے سے مختلف نظریات وافکار کو اپنا موضوع بنایا ہے، آپ گزشتہ ۱۲ سال سے ماحولیات سے متعلق تنظیموں سے وابستہ ہیں اور قدرتی آفات سے نبٹنے کے سلسلے میں آپ کی تحقیق اور مشاہدہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ ان تبدیلیوں کا بنیادی محرک انسان خود ہے۔ آبادی کے بڑھنے ، صنعتوں اور شہروں کے قیام ، رکاز ایندھن کے جلنے اور جنگلات ختم کرنے نے ان تبدیلیوں کے لیے نقطہ آغاز فراہم کیا ہے۔ زمین کے اوسط درجہ حرارت کے بڑھنے سے گلیشئر ز نے پگھلنا شروع کردیااور تمام قطع�ۂ ارض پر موسموں کے مجموعی اثرات نے تبدیل ہونا شروع کردیا ۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پانی اور خوراک کی کمی ، جزیروں کے سمندر میں غرق ہونے ، موسمی شدت میں اضافے سے ہونے والی اموات اور تباہی اور حیاتیاتی تنوع اورفطری ماحول میں بگاڑ جیسے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم ان اثرات سے متعلق آگاہی کو عام کر کے ہر شخص کو اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ مستقبل میں ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے بہترین حکمت عملی کو بروئے کار لاسکے۔ نصیر میمن کی یہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو یہ دعوتِ فکر دیتی ہے کہ ان موسمیاتی تبدیلیوں سے پریشان ہونے کے بجائے اپنی صلاحیتوں میں مثبت اضافہ ہی اصل مسئلے کا حل ہے۔ مختلف قومی اخبارات میں لکھے گئے ان کالموں میں انھوں نے کئی موسمیاتی مسائل سے متعلق تکنیکی نکتے بھی واضح کیے اور کئی مقامات پر پیشہ وارانہ غفلت کی بھی نشاندہی کی جس نے آفت کے اصل حجم کو کئی گنا بڑھا دیا۔ یہ کالم انگریزی زبان میں تحریر ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کالموں کے اُردو تراجم ضرور شائع کیے جائیں تاکہ عام آدمی تک ان معلومات کو پہنچایا جاسکے اور شعور کی بیداری اور آگاہی کا سفر زینہ بہ زینہ طے کیا جاسکے۔
مبصر:عظمت زہرا
تنقیدی اصطلاحات : توضیحی لغت
از: ڈاکٹر سلیم اختر
سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور۔ ۲۰۱۱ء
اُردو کے نام ور استاد اور تنقید نگار ڈاکٹر سلیم اختر کی کتاب " تنقید ی اصطلاحات : توضیحی لغت " چھپ گئی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ اردو میں رائج تنقیدی اصطلاحات کا لغت ہے جس میں اصطلاحات پر وضاحت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے ۔ قبل ازیں اس سلسلے کی بعض کتابیں یا لغات دستیاب تو تھیں مگر جہاں ان میں دور از کار اصطلاحات کی بھر مار تھی وہاں جدید اصطلاحات اور لفظیات کی کمی بھی ان کی افادیت گہنا دیتی تھی۔ ڈاکٹر سلیم اختر جہاں اردو کے نام ور استاد ہیں وہاں تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی ان کا نام سند کا درجہ رکھتا ہے۔ اردو ادب کی مختصر تاریخ ، اردو ادب کی مختلف اصناف ، تنقیدی دبستان اور مشرق و مغرب میں رائج اصناف سخن کے حوالے ہوں یا غالب و اقبال کی تفہیم کا معاملہ درپیش ہو ڈاکٹر سلیم اختر نے جم کر کام کیا ہے۔ خاص طور پر اردو زبان و ادب کے سکالر ڈاکٹر سلیم اختر کے نام سے بخوبی واقف ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے پیش نظر کتاب میں اردو ادب میں رائج تنقیدی اصطلاحات کا انتخاب عالمانہ نقطہء نظر سے کیا ہے اور ان کی وضاحت کچھ ایسے دل نشیں پیرائے میں کی ہے کہ کتاب کسی انشائیے یا افسانے سے کم دل چسپ ہر گز نہیں اوراضافہ یہ کہ تحقیقی حوالوں سے اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب کے علمی ، تحقیقی و تنقیدی مقام و مرتبے کی خوش بو برابر آرہی ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے لغت میں خاص طور پر مختلف اصناف ادب کے حوالوں سے تسلی بخش اور کافی مواد فراہم کر دیا ہے جب کہ مزید تفصیلات کے لیے حوالے کی کتابوں کی نشان دہی بھی کی ہے جس کے باعث یہ کتاب کسی انسائیکلو پیڈیا کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ کتاب کے ہر اندراج کے حوالے سے دستیاب تمام ضروری معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ ان معلومات کے سلسلے میں لغات وغیرہ کی اسناد فراہم کرنے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بعض اصطلاحات اور لفظوں پر اعراب لگا کر ان کی قرأت آسان بنا دی ہے تاہم بعض مقامات پر کمپوزنگ کی غلطی سے اعراب غلط ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے طلبہ گمراہ ہو سکتے ہیں۔ یقیناً یہ بات ڈاکٹر صاحب اور پبلشر کے پیش نظر ضرور ہو گی اور جلد ہی اغلاط دور کر لی جائیں گی۔ اس مختصر مضمون میں ان مقامات کی نشان دہی کرنا ممکن نہیں ہو گا تاہم بعض غلطیاں ایسی ہیں جن کی اصلاح بے حد ضروری ہے مثلاً حروف تہجی کے ذیل میں صفحہ ۔۱۱۱ پر حروف کی قیمتیں فراہم کرتے ہوئے جہاں ضظغ لفظ لکھا جانا تھا وہاں غلطی سے کچھ اور لفظ لکھا ہوا ہے ۔ اسی طرح جہاں ثخذ ہونا چاہیے تھا وہاں تخز لکھا ہوا ہے اور جہاں سعفص ہونا چاہیے وہاں سحفص لکھا ہوا ہے۔ گویا حروفِ تہجی کی جو ترتیب طلبہ کو بتانی مقصود ہے وہی غلط ٹائپ ہو گئی ہے اور پروف ریڈنگ میں نقص کے سبب یہ غلطیاں ویسی کی ویسی چھپ گئیں۔ توقع ہے آئندہ ایڈیشن میں ضرور درست کر لی جائیں گی۔
عام طور پر اس نوعیت کی اصطلاحات کی کتابوں میں اتنی ضروری تفصیلات نہیں ملیں جتنی پیش نظر کتاب میں فراہم کر دی گئی ہیں۔ بعض اصطلاحات کے بارے میں تو مفصل مضامین تک فراہم کر دیے گئے ہیں مثلاً ادب لطیف کے لیے سات صفحات سے بھی زیادہ مواد فراہم کیا گیا ہے، اسی طرح جن اصطلاحات و الفاظ کے لیے نسبتاً زیادہ مواد فراہم کیا گیا ہے یا ان کے بارے میں زیادہ معلومات دی گئی ہیں ان میں آزاد غزل ، ادب لطیف ، اسلوبیات ، انشائیہ ، تحقیق ، ثلاثی ، جدیدیت ، حروف تہجی ، حمد ، دوہا، ڈراما ، رباعی ، رومانویت ، ریختی ، شہر آشوب، علامت، غزل ، کلاسیکیت ، مابعد جدیدیت، مزاحمتی ادب، نثری نظم، لغت ، وزن اور ہائیکو شامل ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اصناف ادب کے بارے میں مختصر مگر جامع اور کافی معلومات کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر صاحب نے طلبہ کو بہت ہی وقیع ، مگر بے حد دل چسپ پیرا ئے میں معلومات فراہم کی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ کارنامہ اردو ادب میں تادیر یاد رکھا جائے گا۔
مبصر : ڈاکٹر راشد حمید
کشورِ نعت از : چوہدری محمد یوسف ورک قادری
نعت پبلی کیشنز ، لاہور۔ ۲۰۱۱ء
کتاب ’’ کشورِ نعت ‘‘ ان خطوط اور تبصروں پر مشتمل ہے جو اس کتاب کے مؤلف جناب چوہدری محمد یوسف ورک قادری کے نام ان کی مرتب کردہ فہرست کتب نعت لائبریری شاہدرہ کی اشاعت کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے قارئین حضرات نے لکھے۔ کتب کی فہرست مجمل ہو یا مفصل ہمیشہ اہل تحقیق کی رفیق راہ ہوتی ہے بلکہ ایسے جویانِ حقیقت کو اپنی منزل تک پہنچنے میں آسانیاں پیدا کرتی ہے۔
اسلامی دنیا میں کتب کی فہرست سازی کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس سلسلے میں شہرہ آفاق مؤلف ابن ندیم کی ’’ الفہرست ‘‘ ایک کلاسیکل روپ کا درجہ رکھتی ہے۔ جناب یوسف ورک نے کتب نعت کی فہرست مرتب کر کے اسلامی معاشرہ کی اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ ان کی یہ کوشش یقیناًلائق تحسین ہے۔ کشورِ نعت میں د رج مشمولہ تبصرہ جات خطوط کے ذریعے اہل نظر واہل علم نے ان کی اس کاوش کو انتہائی سنجیدگی سے سراہا ہے۔
مبصر : محمد انور سرور
دل آئینہ ہوا از : رفیع الدین راز
رنگِ ادب پبلی کیشنز ، کراچی ، ۲۰۱۱ء
حمد ونعت ،منقبت ، اسلام کے مجموعہ کلام سے پہلے جناب رفیع الدین راز کی مذہبی شاعری پر مبنی کتاب ’’ روشنی کے خدوخال ‘‘ شائع ہوچکی ہے جس میں شاعر موصوف نے دین اسلام کی تاریخ کو دو حصوں میں منظوم کیا ہے۔ پہلے حصے میں دورِ جاہلیت سے آغاز اسلام تک اور دوسرے حصے میں دور نبوت سے اسلام کے عروج تک کے واقعات کو شامل کیا ہے۔ یہ منظوم تاریخ اسلام مسدس کی ہیئت میں تخلیق کی گئی ہے جس کے شعری محاسن کو پر کھنے کے بعد رواں صدی کے جید ومعتبر نقاد ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی نے اسے ایک شاعرانہ انجیل قرار دیا ہے۔
اسی شاعرانہ انجیل کے خالق جناب رفیع الدین راز کو قدرت نے ایک سعادت اور بخشتے ہوئے ایسا قلم عطا کیا ہے جس میں نور کی روشنائی بھری ہوئی ہے اور اسی نورانی روشنائی سے شاعر موصوف نے دل آئینہ ہوا میں حمد، نعت ، منقبت اور سلام جیسی روحانی شعری تخلیقات کو یکجا کردیا ہے۔
مبصر : محمد انور سرور
کلامِ مرتجز ا ز : مخدوم سید محمد مرتجز بخاری
اللہ کے اعلیٰ ترین اور ابتدائی نام سے ابتدا ہے۔ تمام حمد اس خدا کے لیے جو ہر حمد کا خدا ہے۔ اس سے لی ہوئی طرز گفتار کو اسی کی عطا کردہ قوتِ تحریر میں ڈھال کر بحیثیت شاعر میں کتاب ’’ کلام مرتجز ‘‘ اور اس کے لکھاری مخدوم سید محمد مرتجز بخاری کا تعارف بیان کرتا ہوں۔ آپ کا گھرانہ نہایت عبادت گزار ہے۔ آپ دربار حضرت سخی پیر شاہ عیسیٰ ؒ اچ بلوٹ شریف کے سجادہ نشین اور صاحب کرامت شخصیت ہیں۔ آپ کے درس فقر کی بدولت نہ صرف پاکستان بلکہ کئی ممالک میں لوگوں نے کلمۂ حق پڑھا اور راہِ فقرمیں نام پیدا کیا۔
آپ نے جو کلام لکھا اس میں سے کچھ حصہ بصورتِ ’’ کلام مرتجز ‘‘ پیش نظر ہے۔ شاعر نے’’ فقر‘‘ کو بہت خوبصورت لفظوں میں بیان کیا ہے۔ شاعر نے اپنی شاعری میں بہت خوبصورت اور عمدہ استعارے استعمال کیے ہیں۔ حضرت بہلول کی شان میں جو نظم لکھی ہے ۔ اس میں انتہائی خوبصورت استعارے کا استعمال کیا ہے کہ جب آپ اسے پڑھتے ہیں تو ایک عجب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ سارا منظراپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
کل جو تاریخ بغداد کی سیر کی، وہاں دیکھے محلوں کی میناربھی وہاں جبرو تشدد کی چیخیں بھی تھیں عیش وعشرت کے نغموں کی جھنکار بھی، و ہاں بے فیض ملاں بکاؤ بھی تھے اور ہارون ومامون کی سرکار بھی۔ اُردو غزل اور نظم کے علاوہ قارئین کو اس کتاب میں کچھ کلام سرائیکی کا بھی ملے گا۔
مبصر : محمد انورسرور
نورِ بصیرت از : میاں نور احمد
نشریات پبلی کیشنز ، لاہور۔ ۲۰۱۱ء
نور بصیرت، میاں نور احمد کی کتاب ہے جو اقبالیات کے موضوع پر ایک مفید اضافہ ہے۔ مصنف نے اقبال کے ساڑھے تین سو اردو اشعار منتخب کر کے ان کی تشریح کی ہے۔ جن موضوعات کے تحت اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے وہ مصنف کی جانب سے فراہم نہیں کیے گئے بلکہ علامہ اقبال کی نظموں کے عنوانات ہیں۔ اگر ان عنوانات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ میاں نور احمد نے اپنی تشریح و توضیح کو عصر حاضر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، عنوانات یہ ہیں :
ایک ہمدرد اور حقیقت پسند شارحِ اقبال، زندگی، چیونٹی اور عقاب، توحید، ہندی مسلمان، جہاد، قوّت اور دین، تصوّف ، ہندی اسلام، غزل، شکست، وحی، مستیئ کردار،مردان خدا، مومن دنیا میں، جنت میں ، تقدیر، اے روحِ محمد ﷺ، مرد مسلمان، آزادی، لَا و اِلّا، امرائے عرب سے، احکامِ الہٰی، زمانۂ حاضر کا انسان، اقوام مشرق، مغربی تہذیب، ہندی مکتب، تربیت، طالب علم، مدرسہ، اساتذہ، عورت،عورت کی حفاظت، عورت اور تعلیم، نفسیاتِ غلامی، آج اور کل، خواجگی، محراب گل افغان کے افکار، ابلیس کی مجلس شوریٰ ۱۹۳۶ء، پہلا مشیر، دوسرا مشیر، تیسرا مشیر، ابلیس (اپنے مشیروں سے)، آواز غیب، حسین احمد۔
علامہ اقبال کہنے کو تو شاعر ہیں مگر ان کی شاعری اپنے اندر فکر و فلسفے کی ایسی گہری رمزیں پنہاں رکھتی ہے کہ اس کے مطالعے اور تفہیم کے لیے وسیع مطالعے اور تاریخ عالم سے آشنائی کی اشد ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر شخص تمام علوم اور تاریخ سے ایسی آگاہی کا حامل نہیں ہو سکتا لہٰذا تشریخ و توضیح کی ضرورت سے انکار نہیں ہو سکتا۔ علامہ اقبال کا کلام شعری تاریخ میں قطعی طور پر مختلف اور منفرد ہے کیوں کہ فکر و فلسفے کے جتنے حوالے اور جس قدر سوالات اس میں دستیاب ہیں شاید کسی ایک شاعر یا فلسفی کے ہاں فراہم نہیں ہوتے۔ دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات کے علامہ اقبال کے ہاں جوابات بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ عام قاری کے لیے ان گراں قدر حوالوں ، تمثالوں اور الٰہیات کے پیچ در پیچ سلسلوں تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ایسے صاحبانِ علم کی ضرورت پیش آتی ہے جو اقبالیات سے کماحقہٗ واقف ہوں اور کلامِ اقبال کی تشریح کر سکیں۔ میاں نور احمد صاحب کی پیش نظر کتاب نور بصیرت (کلامِ اقبال کی روشنی میں) اسی سلسلے میں ایک حد تک کامیاب کوشش ہے جسے عام قاری کے لیے مفید کہا جاسکتا ہے۔ شعروں کی تشریح کے دوران میں میاں صاحب نے کلامِ اقبال ہی میں سے دوسرے حوالے فراہم کر کے مربوط تشریح کا اہتمام کیا ہے۔ سوا تین سو صفحات سے زیادہ ضخامت کی یہ کتاب نشریات، لاہور نے شائع کی ہے۔
مبصر: ڈاکٹر راشد حمید
فیض احمد فیض: انسانی اقدار کا عظیم شاعر
از : شیخ عبدالرشید
جامعہ گجرات، گجرات۔ ۲۰۱۲ء
شیخ عبدالرشید کی مرتب کردہ کتاب ’’فیض احمد فیض:انسانی اقدار کا عظیم شاعر‘‘ جامعہ گجرات کے زیر اہتمام چھپ گئی ہے۔ یہ کتاب جامعہ گجرات کے شعبہ تصنیف و تالیف نے شائع کی ہے۔ شیخ عبدالرشید جامعہ کے ایڈیشنل رجسٹرار ہیں لیکن اپنی انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ علمی شوق و ذوق اور دل چسپیوں کے سبب جامعہ کی عزت و توقیر میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔ پیش نظر کتاب اردو کے شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی صد سالہ تقریبات کے ضمن میں جامعہ گجرات کے زیر اہتمام عالمی سیمینار ’’موجودہ عالمی استعماری صورت حال اور فیض کی شاعری‘‘ کے موضوع پر پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔ سالِ فیض کی نسبت سے یہ کتاب فیض فہمی کے سلسلے کی بے حد اہم کتاب ہے جو اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ اس میں مطالعۂ فیض کی نسبت سے تمام مضامین تازہ ہیں۔ مقالہ نگاروں میں سید شبیر حسین شاہ، ڈاکٹر محمد نظام الدین، آئی اے رحمان، ڈاکٹر علی جاوید، راحت سعید، سعید حسن خان، مسرور جاوید، عمران شاہد بھنڈر، ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی، ابن حسن، چودھری محمد یوسف اور شیخ عبدالرشید شامل ہیں۔ اسی طرح مقالات کے موضوعات میں بھی ایسا تنوع ہے کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، موضوعات یوں ہیں۔
فیضؔ اور اُس کا عہد، ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیماں بھی ہے، فیض احمد فیضؔ ، انسانی اقدار کا عظیم شاعر:فیضؔ ، دنیا کے بے سہارا مفلوک الحال بے زبانوں کی آواز،کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، ازبکستان اور روس میں فیض احمد فیضؔ ، فیض احمد فیض کی سیاسی بصیرت، فیض کی شعری جمالیات اور تصور آفاقیت، معاشرتی نشوونما میں طلباء کا کردار اور فیضؔ ، ہم عصر حقیقت نگاری اور فیضؔ ،ہم کہ ٹھہرے سازشی، فیض احمد فیضؔ اور صحافت۔
مرتب نے اس سلسلے میں منعقدہ تقریب کی تفصیلی رپورٹ بھی کتاب میں شامل کر لی جس سے کتاب کی افادیت دو چند ہوگئی ہے۔ علاوہ ازیں شیخ عبدالرشید نے فیض صاحب کا تفصیلی کوائف نامہ اور سیمینار کی تصاویر فراہم کر کے کتاب کو بے حد مفید اور دل چسپ بنا دیا ہے۔
سالِ فیض کے حوالے سے جتنی کتابیں شائع ہوئیں ان میں تازہ تحریریں بے حد کم کتابوں کا حصہ بنیں۔ بہت سے احباب نے پرانی تحریروں کو انتخاب کی ترتیب اور تعداد تبدیل کر کے مجموعے شائع کر دیے جس سے کتابوں کی تعداد میں اضافہ تو ہو گیا لیکن فیض صاحب کے حوالے سے نئے مواد میں کچھ زیادہ بہتری نہیں آئی۔ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ ابھی فیض صاحب کے احباب میں سے کتنے لوگ ہم میں موجود ہیں مگر نئے تناظر میں نئی گفتگو کا ماحول نہ بن سکا، ایسے میں کیسے توقع رکھی جائے کہ کل کلاں بہت وقیع اضافے ہو سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ فیض فہمی کے سلسلے میں ابھی تک بنیادی مآخذ ہی پوری طرح سامنے نہیں آئے چہ جائے کہ فیض فہمی کے حوالے سے جامع منظر نامے کی نمود کی کوئی صورت پیدا ہو۔ ایسی کیفیت میں جامعہ گجرات کی یہ کاوش مبارک باد کی مستحق ہے اور رئیس الجامعہ ڈاکٹر محمد نظام الدین بجا طور پر قابل ستائش ہیں کہ انہوں نے سماجی علوم کے اس شعبے کو اتنی اہمیت دی۔ انہوں نے فیض صاحب کے حوالے سے سیمینار منعقد کر کے ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا اور پھر شیخ عبدالرشید صاحب نے اس سیمینار میں پڑھے گئے مقالے یک جا کیے اور خوب صورت انداز میں مرتب کرا کے یقیناًقومی خدمت سرانجام دی ہے ۔
مبصر : ڈاکٹر راشد حمید
فکر اقبال کا المیہ از: ڈاکٹر صلاح الدین درویش
پبلشر، فکشن ہاؤس لاہور
یہ کتاب دو حصو ں پر مشتمل ہے۔ نقدو نظر بحوالہ اردو کلام اقبال ، نقدو نظر بحوالہ نشکیل جدید الہیات اسلامیہ ، اس کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر روش ندیم نے لکھا ہے جس میں فکری رحجانات کو چار حصوں میں مصنف کے مطابق’’یہ کتاب اقبال شکنی کے لیے نہیں بلکہ اقبال فہمی کے حوالے لکھی گئی ہے۔ اگر کہیں اقبال شکنی کا تاثر نمایاں ہوتا ہو تو اسے میرے اسلوب کی کوتاہی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے (ص۱۰ )
مصنف کے خیال میں فکر اقبال کا المیہ یہ ہے کہ عام طور پر تقلیدی انداز اختیار کیا گیا ہے تنقیدی نہیں مصنف نے خود جو پیرایہ اظہار اختیار کیا ہے۔ اس میں اخلاص کے باوجود جارحیت ہے جیسے مادی علوم و فنون کی ترقی کی وہ روایت جو سالت و جامد مذہبی روایت کے متوازی مسلسل ارتقا پذیر رہی اس کے متعلق ان کا علمی رویہ تعصبانہ اور جارحانہ رہا ہے ص ۵۰ پورے کلام اقبال میں اقبال نے عقائد کی کمزوری کے اسباب کو کہیں بھی خود عقا:ئد میں دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی اور سارا ملبہ کم و بیش اپنی شاعری میں جدید علوم ، جدید معاشرت، جدید تہذیب اور مادی تمدن پر گرادیا(ص۵۱ )
اقبال فکری ونظریاتی بحرانوں سے نکلنے کی کوشش کرنے اور کوئی مربوط نظام فکر قائم کرنے کی بجائے اپنے افکار پریشان میں خود بھٹک جاتے ہیں (ص۵۔۵۴ )
اقبال عقل و خرد کی ہنر کاری کا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں جز گمراہی کے اور کچھ نیہیں دھراص۵۷
اقبال نے مسلمانوں کے زوال کا انتقام دانش فرنگ کو بلا جواز ٹھوکر مار کر لیا ہے (ص۶۷ )
فکر اقبال کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں زمینی حقائق سے شعور کی نشو ونما کی جرات اور سلیقہ نہیں ہے ص۹۴
اقبال کے ان خطبات کے حوالے سے یہ محروف بات غلط ہے کہ اقبال نے ان خطبات میں مذہب کو سائنسی زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے در اصل ان خطبات کے ذریعے اقبال نے تو دنیائے مادیات ، سائنس اور عقلی حاصلات کی نفی کام لیا ہے۔ (ص۱۰۹ )
اقبال کی فکر کے اس المیے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ انھوں نے ارتقاء پذیر سائنسی معقولات کا موازنہ مذہبی معقولات سے کرنے کی کوشش کی ہے (ص۱۱۰ )
مصنف نے اپنے افکار کو دلائل کی روشنی میں بیان کیا ہے یہ موضوع ایک اچھی کوشش ہے جس میں مزید نکات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یہ کتاب لکھ کر مصنف نے اقبالیات میں ایک اچھی کتاب اور روایت کا اضافہ کیا ہے۔ کتاب کا گیٹ اپ اچھا ہے البتہ پروف ریڈنگ کی طرف خاص توجہ نہیں دی گئی۔
مبصر :سید حسین عارف نقوی
بے نظیرمعلومات
کتاب کے مرتب محمد نعیم صحافی ہیں وہ کئی اخبارات اور خبر رساں اداروں میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں ان کی زیر نظر کتاب سیاست کے طالب علموں ، صحافیوں ، سیاست بارے دلچسپی رکھنے والے عام افراد کے لیے ایک معلو ماتی نسخہ ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید اور مصروف دور میں کسی ایک موضوع پر معلومات کی ضرورت ور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آج کے دور میں لوگ خاص طور پر سیاست، صحافت اور معلومات عامہ جیسے شعبوں میں دلچسپی رکھنے والے کم وقت میں کسی خاص موضوع پر معلومات حاصل کر سکیں۔ پیش نظر کتاب پاکستان کی پہلی منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی سیاسی ،سماجی، شخصی حالات زندگی اوران کی سیاسی سرگرمیوں کو یکجا کیا گیا ہے۔کتاب میں طلبہ کی دلچسپی کے پیش نظر ایک حصہ سوال جواب کا بھی ترتیب دیا گیا ہے تاکہ معلومات میں اضافہ ہو سکے۔ یہ کتاب’’ کلاسیک ‘‘ لاہور نے شائع کی ہے۔
مبصر: تجمل شاہ
سَدِّ سکندر فی تحقیق لفظ’’ قلندر ‘‘
مولانا نور اللہ نو رو وزیر ستانی کی اپنے علم ، قلم ، ادب تحریر علمی شخصیت کے مالک ہیں وہ لاہور ، کراچی کے اردو حلقوں میں کسی تعارت کے محتاج نہیں۔ گو کہ وہ جامعہ حلیمیہ میں درجہ خامسہ کے طالب علم ہیں اور اسی ادارے میں ایک خادم کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے کر گزر اوقات کرتے ہیں۔ ’’قلندر ‘‘ کا استعمال نظم و نثر میں ہر دور میں بکثرت استعمال کیا گیا ہے ۔ قلندر اصطلاحی معنوں میں بھی مستعمل ہے ، جو شخص مالی اسباب نہ رکھتا ہو اور صرف رزق حلال پہ اس کا مدار ہو تو ایسے شخص کو بھی قلندر کہتے ہیں۔زیر نظرکتاب کا کا پیش لفظ معروف عالم دین مولانا عبدالقیوم حقانی نے تحریر کیا ہے۔ مرتب نے لفظ ’’قلندر‘’ کے بارے لکھے گئے بے شمار مقالے اور مضامین کو یکجا کیا ہے۔ جسے القاسم اکیڈمی جامعہ ابو ہریرہ نوشہرہ نے شائع کیا ہے۔
مبصر:تجمل شاہ
سہ ماہی فنون لاہور
سہ ماہی فنون لاہور ہماری زبان و ادب کی روایت میں ایک ایسا سنگ میل ہے جسے اب ایک نشان منزل کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ گزشتہ چار، پانچ دہائیوں میں رسالہ فنون نے اردو زبان و ادب سے وابستہ کئی نسلوں کی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ فنون کا شمارہ نمبر ۱۳۱ جو خاص شمارہ بھی ہے اب اس کے تازہ دم مدیران نیر حیات قاسمی اور ڈاکٹر ناہید قاسمی کی کاوشوں کا ثمر احمد ندیم قاسمی کی روایت کا ہی تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ ۴۰۸ صفحات پر مشتمل اس تازہ شمارے میں جہاں احمد ندیم قاسمی کا نقش ایک ایک صفحے پر دکھائی دیتا ہے وہیں انھی کی مستقل روایات کایہ شمارہ بھی کچھ سینئر اور کچھ نئے لکھنے والوں کی تخلیقات کے حوالے سے مضبوطی فراہم کرتا ہے۔ رسالے میں کوئی بڑی تبدیلی کیے بغیرمختلف مضامین کا جو سیکشن بنایا گیا ہے اس میں فنون کے ہمیشہ نزدیک آنے والی خصوصیات نمایاں ہو جاتی ہیں۔ اس رسالے میں بھی حسب معمول حمد و نعت کا ابتدائی حصّہ خاصا جاندار ہے اور اس میں بھی کچھ ایسے نام نظر آتے ہیں جو آئندہ ادب کے حوالے سے اپنی پہچان قائم کریں گے۔ دوسرا حصہ احوال متن کے موضوع پر ہے جس میں احمد ندیم قاسمی کی ایک نظم ’غم وطن اور ایک مضمون ’وطن اور اہل وطن سے محبت‘ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ناہید قاسمی کا ایک مضمون بعنوان ’وطن کی کہانی ،ندیم نظموں کی زبانی‘ ندیم کی ان نظموں کے حوالے سے ایک مختصر مگر جامع مضمون ہے جن میں ندیم نے وطن سے محبت کو ایک نئے پن سے روشناس کرایا ہے۔ مضامین کے حصّے میں چار مضامین شامل ہیں جن میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا مضمون ’اردو میں ترجمے کی روایت ، سید مشکور حسین یاد کا مضمون ’ فلسفیانہ ظرافت ایک تجزیہ‘ ، جلیل عالی کا مضمون ’ندیم کا شعری خصوص‘ اور ظفر سپل کا مضمون ’افلاطون ۔ پہلے شہر خیال کا نقش گر‘ ۔ چاروں مضامین مختلف موضوعات پر اختصاص رکھتے ہیں تاہم سید مشکور حسین یاد اور جلیل عالی کے مضامین قدرے تفصیل کے متقاضی تھے۔
مبصر:ڈاکٹر نجیب جمال
خیابان تحقیقی مجلہ ،شعبہ اردو جامعہ پشاور
یہ بات خوش آئندہے کہ کچھ عرصے کے تعطل کے بعد ’خیابان‘ کا بہار ۲۰۱۰ء کا شمارہ شائع ہو گیا ہے۔ امکان ہے کہ ان کی ادارتی ٹیم راہ میں حائل دو برسوں کی اور بہار وں کو بھی پھلانگ لے گی۔ یہ کریڈٹ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر فقیرا خان فقری کو دیا جانا چاہیے کہ انھوں نے وہ جریدہ شائع کر لیا جس کی اشاعت ۱۹۵۶ء میں شروع ہوئی تھی اور جس میں ڈاکٹر محمد شمس الدین صدیقی، ڈاکٹر مرتضیٰ اخترجعفری، ڈاکٹر عبدالستار جوہر پراچہ اور پروفیسر خاطر غزنوی جیسے اساتذہ کی محنت شامل رہی ہے۔ اس شمارے میں مختلف لسانی، علمی اور ادبی موضوعات پر تحقیقی مقالے شائع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر ریحانہ کوثر، ڈاکٹر اظہار اﷲ اظہار، ڈاکٹر مزمل حسین، ڈاکٹر سلمان علی، ڈاکٹر محمد عباس اور ڈاکٹر حنیف خلیل نمایاں مقالہ نگار ہیں۔ ہماری جامعات کے تحقیقی مجلے رفتہ رفتہ ایک معیار کی طرف جا رہے ہیں تاہم ابھی بھی بہت سے مقالہ نگاروں اور مدیروں کو تربیت کی ضرورت ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اردو کے تحقیقی جرائد کو سب سے نچلے زمرے میں رکھتا ہے کہ اردو جرائدکی اشاریہ سازی عالمی اصولوں پرنہیں ہوتی اور نہ ان کے تنقیدی اقتباسات کا کہیں ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور نہ مقالہ نگار کسی جریدے میں شائع ہونے والے کسی معاصر مقالے کا حوالہ دیتے ہیں ۔ بہرطور توقع کی جاتی ہے کہ ’خیابان کی موجودہ ٹیم پاکستان کی اس عظیم دانش گاہ کی تاریخی اور علمی روایت کے تسلسل پر اور توجہ دے گی۔
مبصر: انوار احمد
’’
کہانی گھر ‘‘ ایک معیاری رسالہ
پاکستان میں لکھنے پڑھنے کا رحجان جس تیزی سے کم ہو رہا ہے ۔ وہ ایک تشویش ناک امر ہے۔ عوام کی توجہ یا تو میڈیا کی نعرہ بازی کی طرف منتقل ہو گئی ہے یا پھر انہیں کھانے پینے سے فرصت نہیں کہ کتاب پڑھ لیں۔ بد قسمتی سے مشرق میں پڑھنے والوں کا محدود طبقہ رھا ہے۔ جن کی معاشی حالت ہمیشہ دگر گوں رہی اس کے باوجود انہوں نے اپنا فرضّ طر انداز نہیں کیا۔ حال ہی میں زاہد حسن نے ’’کہانی گھر ‘‘ کے نام سے ایک ادبی مجلہ لاہور سے جاری کیا ہے۔ جو فکشن اور فکشن کی تنقید کے حوالے سے مختص ہے۔ ا س وقت اس کا پہلا شمارہ میرے سامنے موجود ہے ۔ جو اپنے مواد سے لے کر ظاہر ی ہیئت تک سنجیدگی کامظہر ہے۔ ’’کہانی گھر ‘‘ کے اس پہلے شمارے میں تراجم نے گزشتہ نامور افسانہ نگاروں کے انٹرویوز ، اور ان پر تنقیدی حوالے سے کام موجود ہے ۔ علاوہ ازیں موجود ہ دور کے لکھنے والے ادبا کے بعض معیاری افسانے بھی اس میں شامل ہیں۔
ان سب کے ساتھ ساتھ ’’او پندرناتھ اشک ‘‘ سے ہونے والی آصف فرخی کی گفتگو بھی اس شمارے میں شامل ہے جو نہایت دلچسپ ہے ۔ الغرض رسالے کا پہلا شمارہ اس بات کا غماز ہے کہ آئندہ آنے والے شمارے اپنے کام اور نقطہ نظر کے حوالے سے بہت اہم ہونگے۔ کیونکہ اس دور جہالت میں ابھی تک پاکستان میں دو ہی ایسے شمارے سنجیدگی اور دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہیں جن میں ایک ’’آج ‘‘ اجمل کمال کا اور دوسرا آصف فرخی کا ’’دنیا زاد‘‘ہے لیکن اگر کوئی اور شمارہ بھی اس دوز میں شامل ہو تو خوش آئند ہے۔ میں زاہد حسن کو مبارک دینے کے ساتھ اصرار کروں گا کہ اب وہ اس کام کو جاری رکھیں اور سنجیدگی اور معیار پر کبھی مصلحت گوشی کے شکار نہ ہوں اگرچہ انہیں اس میں بہت سی مشکلات پیش آئیں گی۔
ایک سو چھپن صفحات پر مشتمل اس رسالے کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے جو کہ بہت کم ہونے کی وجہ سے قاری پر گراں نہیں گزرتی ۔
اسے آپ زاہد حسن سے رابطہ کر کے خرید سکتے ہیں۔
مبصر: علی اکبر ناطق