غزلیات

نعت
یہ بھی کرم ہے مجھ پہ رسالت مآبؐ کا
اب کوئی غم نہیں مجھے روز حساب کا

جب سے حضورؐ میرے تصور میں آئے ہیں
عالم بدل گیا ہے مرے اضطراب کا

روشن ہے اس قدر رُخِ سرکار کا جمال
عنوان بن گیا ہے خدا کی کتاب کا

دل میں یہ آرزو کہ مدینہ ہو سامنے
منظر مری نگاہ میں رہتا ہے خواب کا

بدلے گا ہر نظام، نظامِ رسولؐ سے
صدیوں سے انتظار ہے اس انقلاب کا

سرکارؐ خود ہیں مہرِ رسالت کی آب و تاب
جھکتا ہے ان کے سامنے سر آفتاب کا

فیصلؔ کرم حضورؐ کا ہے مطمئن ہوں میں
اندیشہ آخرت میں نہیں ہے عذاب کا
پروفیسر فاروق فیصل
…o…
سلام حضرت امام حسینؓ
بزم خیال اور سراپا حسینؓ کا
پڑھنے لگی نگاہ صحیفہ حسین ؓکا

اب کون ہے جو مجھ سے نگاہیں ملائے گا
آنکھوں میں بس گیا ہے سراپا حسینؓ کا

مظلومیت کو ظلم کی بیعت نہیں قبول
تاریخ بن گیا ہے یہ نعرہ حسینؓ کا

ہر عہد میں یزید سے ہو گا مقابلہ
ہر دور میں ملے گا سہارا حسینؓ کا

جس کی حدوں کو چُھو نہ سکا کوئی تجزیہ
تھا کس قدر عظیم وہ سجدہ حسین ؓکا

جو بات دل میں تھی وہی تحریر بن گئی
فیصلؔ مرے قلم پہ ہے سایہ حسینؓ کا
پروفیسر فاروق فیصلؔ
…o…
نذرانۂ عقیدت
(ڈیڑھ سو برس پہلے عزادارانِ اہل بیت نثار حویلی نواب صاحب میں پڑھے گئے شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کے مرثیے سے کچھ اشعار:۔بشکریہ :سید محمد انور کاظمی ، راولپنڈی)
جاتا تھا مجریٔ سرور کہاں کہاں
پھرتی تھی روح احمد و حیدر کہاں کہاں

پھرتا تھا نیزے پر سرِ سرور کہاں کہاں
تھا آفتاب حشر سے محشر کہاں کہاں

کوفے میں دَر بدر کبھی دربارِ شام میں
پھرتے تھے اہل بیتِ پیمبر کہاں کہاں

رن سے کٹا کے سر گئے شیریں کے گھر میں شاہ
وعدہ وفائی کر گئے مر کر کہاں کہاں

دیکھے جو لاشۂ ہائے شہیداں تو خلد سے
روئے ہیں رن میں آ کے پیمبر کہاں کہاں

مشکیزہ بھر کے نہر سے عباسؓ لے ہی آئے
کہتے ہی رہ گئے وہ ستمگر کہاں کہاں

بدر و حنین و خیبر و خندق سے تا اُحد
دستِ خدا نبیؐ کا تھا یاور کہاں کہاں

نُورِ بصر جو رن میں سناں کھا کے گم ہوا
پھرتے تھے ڈھونڈتے شۂ مضطر کہاں کہاں

کہتے تھے رو رو اہل حرم راہِ شام میں
پھرتے ہیں خاک چھانتے بے گھر کہاں کہاں

رہوے غلام آپ کی خدمت میں یا امام
آزاد ہو کے جائے گا دَر دَر کہاں کہاں
…o…
غزل
کچھ اس لیے بھی میرا چہیتا مریض تھا
اب میرے وارڈ میں وہ اکیلا مریض تھا

رستہ بنا رہا تھا سبھی کے لیے سو اب
وہ آخری قطار میں پہلا مریض تھا

اتنوں میں عشق روگ کے دو ہی مریض تھے
پہلا مریض میں تھا وہ دوجا مریض تھا

بس ایک وہ تھا جس کو تھا اس بات کا سراغ
پکے علاج میں بھی وہ کچا مریض تھا

انجام کار وہ بھی اکھڑتا چلا گیا
آغاز میں وہ کتنا چہکتا مریض تھا

پر آخری دنوں میں بدل سا گیا تھا وہ
سب جانتے ہیں وہ بڑا سچا مریض تھا

سارے مریض اس کی محبت میں تھے اسیر
وہ مرضِ لا علاج کا تنہا مریض تھا

پھر یوں ہوا کہ اس کی طبیعت بگڑ گئی
حالانکہ اب وہ اور بھی چنگا مریض تھا

کچھ اس لیے بھی خود سے پشیماں ہیں ڈاکٹر
سب جانتے ہیں وہ بڑا اچھا مریض تھا

اب ہے نہیں تو، خاک کیا جائے تذکرہ
میں کیا کہوں کہ کتنا سیانا مریض تھا

اب کیا کہیں کہ کون سی تکلیف تھی اسے
اب کیا بتائیں دوستو کس کا مریض تھا

اب خیر اس کے ساتھ ہی وہ طرز بھی گئی
وہ اپنے قاعدے کا انوکھا مریض تھا

صحبت سے اس کی ہم بھی سبھی ٹھیک ہو گئے

در اصل جعفری وہ مسیحا مریض تھا
ڈاکٹر لیاقت جعفری
…o…
غزل
بہت کم زندگی ہے، تو کیوں ہے؟
یہ عالم جائے فانی ہے، تو کیوں ہے؟

عدو بھی محو حیرت ہیں کہ مجھ پر
خدا کی مہربانی ہے، تو کیوں ہے؟
جہاں میں ہمنوا سب کی زباں پر
تیری میری کہانی ہے ،تو کیوں ہے؟

تیرے ہونٹوں پہ ایک دلکش تبسم
مگر آنکھوں میں پانی ہے، تو کیوں ہے؟

امیرِ شہر تیری سلطنت میں
ستم کی حکمرانی ہے، تو کیوں ہے؟

کبھی سوچا ہے روبینہ کہ دنیا
اگر تیری دیوانی ہے، تو کیوں ہے؟
روبینہ شاد ،بارہ کہو، اسلام آباد
…o…
اُردو
دلوں پر راج کرتی ہے سبھی کے
مری اُردو محبت کی زباں ہے

اسے دشمن بھی ہنس کے بولتے ہیں
یہ ہر لب پر برنگِ گل فشاں ہے
یہاں اسرار کھلتے ہیں بیاں کے
یہ الفاظ و معانی کا جہاں ہے

اسی سے منکشف ہوتے ہیں جذبے
یہ فکر و فن کا چلتا کارواں ہے

سنی جاتی ہے ہر سو گونج اِس کی
یہ باہم ربط و رشتے کا نشاں ہے
ڈاکٹر محمد اشرف کمال
…o…
غزل
ہیں خموش راستے، سردیاں مجھے اوڑھ لے
بڑی کُہر ہے اے نوائے جاں مجھے اوڑھ لے

تجھے پور پور مَیں اپنی سانس کی آنچ دوں
ترے برف برف سے جسم و جاں مجھے اوڑھ لے

مجھے خوف ہے تیری جان ہی نہ نکال دیں
یہ گرجتے ابر، یہ بجلیاں مجھے اوڑھ لے
تو سنبھال کر مجھے اپنے ساتھ سفر میں رکھ
کسی خوف کا ہو کبھی گماں مجھے اوڑھ لے

تیرے پائوں میں کہیں ریت ہو تو بچھا کے سو
کہیں سر پہ ہو کھلا آسماں مجھے اوڑھ لے

میرے موسموں کی کلید سب تیرے ہاتھ ہے
اے وصالِ دل، اے فراقِ جاں مجھے اوڑھ لے
فیصل احمد
…o…
غزل
تیری تصویر بھول جائیں گے!
خواب تعبیر بھول جائیں گے

اے مرے دل ہو تیری جیسی بھی!
کوئی جاگیر بھول جائیں گے

اُن کو تدبیر کیا بنائے گی!
وہ جو تقدیر بھول جائیں گے

نیت شوق گہر رہی یوں ہی!
لفظ تاثیر بھول جائیں گے

آج کا پیار کیا نکھاریں گے!
کل کی جو سیر بھول جائیں گے

یہ جو ہجرت کی ہے خلش آخر!
تیرے دل گیر بھول جائیں گے
طفیل عامر
…o…
لفظ اور تم
اکثر یہ کیفیت بھی
گزری ہے
اس دل ناتواں میں
جاناں!
کہ جب لکھنے بیٹھے
قصے شناسائیوں کے
تری بے وفائیوں کے
اس دل کی تنہائیوں کے
تو لفظ بھی
اک اک کر کے
بہت دور
میری گرفت کی سرحدوں سے بھی دور
جانکلے
لفظ اور تم
اک جیسے ہو
کہ بے وفائی کی روش
انھوں نے بھی پالی ہے
افشاں کرن
…o…
غزل
بکھرے بکھرے کاغذ میرے ، بکھرے خواب خیال
اُکھڑا اُکھڑا لہجہ میرا ، اُلجھے اُلجھے بال

ُگم ُصم راہیں ، آنکھیں نم نم ، تاریکی ، تنہائی
کیا بتلاؤں تیرے ِبن یہ کیسے گزرے سال

تپتا صحرا ، دھوپ کڑی ہے ، زخمی زخمی پاؤں
سایہ سایہ کر دیتی ہے تیری یاد کی شال

ُسونا ُسونا رہتا ہے یہ دن بھر آنگن دل کا
شام ڈھلے تو سج جاتی ہے یادوں کی چوپال

قریہ قریہ غربت دیکھی نگری نگری بھوک
آس ، اُمید کے دیب جلا کر رہتے ہیں خوشحال

عشق میں رُوٹھا یار منانا کب آسان ہوا ہے
دھڑکن دھڑکن تھاپ کے اوپر ڈالی ہجر دھمال
شمیم ظفر رانا