محمد رضا کاظمی

ماتمِ صفدر

سوداؔ اور شادؔ کے بعد صفدرؔ حسین مرثیہ کے تیسرے نقاد شاعر تھے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۳۰ء میں تنقید نگاری سے ہوا۔ جس سال نجمؔ آفندی اور زائرؔ سیتاپوری نے جدید مرثیے پیش کیے اسی سال نگار میں ڈاکٹر صفدرؔ حسین مرحوم کا مقالہ ''مرثیہ بعد انیس'' قسط وار شائع ہوا۔ انھوں نے دیگر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کا اصل شعری کارنامہ ان کے مراثی ہیں۔ ان کے مجموعۂ مراثی'' لبِ فرات'' میں معتبر ناقدین نے ان کی مرثیہ نگاری کا محاکمہ کیا ہے۔ اس کا اعادہ یہاں مناسب نہیں اس لیے صرف باقی ماندہ نکات یہاں درج کیے جار ہے ہیں۔
مرحوم اس دور کے چند مبارزشعراء میں سے تھے اس لیے مداحوں کے ساتھ انھوں نے معترضوں کو بھی بہت جمع کیا تھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ حریفوں کے اعتراضات سے زیادہ ان کے ذہن کے تنقیدی سانچے نے ان کو پابستہ کر دیا تھا ع
سکھا دیا مجھے بچ بچ کے راستہ چلنا
ڈاکٹر صفدرؔ حسین مرحوم مرثیہ کے بڑے حساس نقادوں میں تھے۔ مرثیہ نگاروں کے انفرادی رنگ ازبر تھے اور وہ خود انفرادیت کے قدر شناس تھے۔ کم کہو اپنا کہو اچھا کہو کی دُھن انھیں رہی اس لیے ڈاکٹر صفدرؔ کی جدّت نسبتاً بزرگ شاعروں کے متوازی نہیں ہے۔ اضافی ہے، مگر جو جدت ہے وہ معتبر ہے مثلاً منظر نگاری اور ماحول سازی کے ذیل میں یہ بند دیکھیے۔ یہ آواز دوسروں کی آوازوں میں گم نہیں ہو سکتی ؎
سر ساحل جو ٹہلتے تھے صلح شور جواں
ان کو تکتی تھی حقارت سے ہر اک موجِ رواں
روشنی چاند کی دھیمی وہ میان میداں
سحر نور کا جیسے ہو دھندلکے میں سماں
یک بیک دور سے بڑھتے ہوئے سائے دیکھے
کچھ جری دوش پہ مشکیزہ اٹھائے دیکھے
جناب سیدصفدر حسین نے باصرار جدید مرثیہ میں مناظر جنگ کا اہتمام کیا دیکھیے کہ جدید رجحانات کو کس عمدگی سے، مشّاقی سے مرکب کیا ہے ؎
فوج عاجز تھی جلالِ علی اکبرؓ کی قسم
سر نموداروں کے خَم تھے سر سرور کی قسم
مورچے ٹوٹ کے ابتر ہوئے حیدرؑ کی قسم
حسن تہذیب نکھر آیا پیمبرؐ کی قسم
کان تک آئی جو فریاد و فغاں کی آواز
رُک گئی تیغ جری سن کے اماں کی آواز

فوج اماں مانگتی ہو جب تو کریں کیا اکبرؓ
بیچ لشکر میں رُکے روک کے گھوڑا اکبرؓ
چار سو فوج کے دل اور تن تنہا اکبرؓ
جھوم کر کھانے لگے نیزے پہ نیزہ اکبرؓ
اک شکن بھی تو جبیں پر نہ نمودار ہوئی
مسکراتے تھے کہ برچھی کی انی پار ہوئی
ایسے بہت سے جواہر ریزے ہیں جو''لبِ فرات'' کے ہر مرثیہ میں پائے جاتے ہیں۔
پاکستان کے تمام مرثیہ نگاروں میں میرے ذاتی مراسم سب سے زیادہ مرحوم سے تھے۔ ان کی وفات سے کچھ قبل یہیں کراچی میں ملاقات ہوئی تھی پھر اچانک برسر منبران کے انتقال کی خبر آئی۔ ابھی تقریباً ایک سال کے عرصے میں میں ان کی مرثیہ نگاری پر تبصرہ کرنے پر طبیعت کو موزوں نہیں پا رہا ہوں۔ ان کی وفات نے مؤلف کو زندگی میں پہلی بار شعر گوئی پر مجبور کیا اور میں نے درج ذیل چار مصرعے کراچی میں منعقدہ ان کی مجلس ایصال ثواب میں پڑھے تھے ؎
چلے جو سوئے جناں اس جہان سے صفدرؔ
قدم تھے خُلد کی جانب بہ زینۂ منبر
قبول مدح سرائی بنا جو زاد سفر
''لب فرات '' سے پہونچے ہیں وہ لبِ کوثر
٭٭٭٭
میر انیس کے مرثیوں سے منتخب اشعار

مسلم کا خوشا اوج زہے بخت ، خہے رائے
زندہ ہے وہی راہِ محبت میں جو مر جائے

ایذا بھی زیادہ ہوئی رتبے بھی بڑے پائے
وہ کام کاہے کام پہ مولا کے جو کام آئے

لاکھوں سے لڑے نام کیا تیغ زنی میں
داخل ہوئے دربار رسولؐ مدنی میں

سر کٹ کے جو تن سے مرا نیزے پہ چڑھے آج
تو فخر کروں میں کہ ملا رتبۂ معراج

لاشہ رہے میرا کفن و گور کا محتاج
ناموس مرے قید ہوں گھر ہو مرا تاراج

اس سوچ میں پھرتی سراسیمہ و مضطر
اس کا بھی نہ تھا ہوش کہ کب گر گئی چادر

رخ زرد تھا دل کانپتا تھا سینے کے اندر
دھڑکا تھا کہ اب کیا کہیں گے آن کے سرور

یا رب نہ سنوں میں کہ جدا ہو گئے عباسؓ
یہ غل ہو کہ بھائی پہ فدا ہو گئے عباسؓ

پیاسے ہو بہت تم جو سمجھائیں ستم گر
پانی تمہیں دیں شمر سے مل جائو جو آ کر

دیجیو یہ جواب ان کو کہ اے قوم بد اختر
اللہ نے بخشا ہے ہمیں چشمۂ کوثر

نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لعل
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال

پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں کیوں تم نے سر کے بال
میں لُٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال