مابعد جدیدیت(فلسفۂ تاریخ کے تناظر میں)
از: ڈاکٹر اقبال آفاقی

سب سے پہلے مجھے پاکستان فلسفہ کانگریس کے ارباب بست و کشاد کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ خصوصاً اس وقت کے صدر ڈاکٹر عبدالخالق اور سیکریٹری ڈاکٹر نعیم احمد کاممنون ہوں جن کی ایما پر مابعد جدیدیت کے حوالے سے میں نے پہلا مضمون تحریر کیا۔ یہ مضمون شاید کانگریس کے کوئٹہ اجلاس ۱۹۹۷ء میں پیش کرنا تھا۔ چونکہ تمام تر مساعی کے باوجود میں اپنی تحریر سے مطمئن نہیں تھا، اس لیے اسے نذرِ سامعین نہ کر سکا۔ کیونکہ میرے نزدیک سب سے بڑا ظلم علمیت کے نام پر جہالت کا ارتکاب ہے۔ تاہم سچی بات یہ ہے کہ تحت الشعور میں گرہ سی لگ گئی تھی، رائیگانی کے احساس کی گرہ جسے کھولنے کی پیہم کوشش کرتا رہا۔ یہاں اس دوران اردو میں مابعد جدیدیت پر مسلسل لکھنے والے چیدہ احباب کا ذکر ضروری ہے جنھوں نے آرٹ اور ادب کے حوالے سے مضامین اور کتابیں شائع کیں۔ خصوصاً ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی تنقیدی اور تخلیقی بصیرت نے مجھے متاثر کیا۔ اتنے مشکل موضوع کو نوے کی دہائی میں اتنی خوبصورتی اور خوش اسلوبی کے ساتھ اردو زبان میں منتقل کرنا بذات خود معرکے سے کم نہیں تھا۔ اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی تفہیم و تعبیر سے اختلاف بہرحال کیا جا سکتا ہے۔ نئی نسل کے ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا کام بھی نمایاں اور اہم ہے۔ ان کی کتاب جدید اور مابعد جدید تنقید،انجمن ترقی اردو پاکستان نے ۲۰۰۴ء میں شائع کی۔ ان کو جو پذیرائی حاصل ہوئی یہ ان کا حق ہے لیکن بہ ایں ہمہ نشان خاطر رہے کہ ان تمام حضرات نے خود کو مابعد جدیدیت کے ادبی اور تنقیدی فلسفے تک محدود رکھا۔ قصور ان کا نہیں تھا۔ یہ سب لوگ اردو ادب کے نقاد اور محقق ہیں، اس لیے فطری طو رپر انھوں نے ان مغربی مصنفین سے استفادہ کیا جن کا تعلق شعریات، تنقید اور ادبیات سے تھا ۔ چنانچہ میں نے ان بلند پایہ محققین کو جتنا پڑھا اتنی ہی الجھن بڑھی۔ پیاس میں اضافہ ہوا۔ ذہن میں سوالات کا ہجوم بڑھتا چلا گیا۔ میری افتاد طبع ہی کچھ ایسی ہے کہ میں بآسانی مطمئن نہیں ہوتا۔ اس دوران عمران شاہد بھنڈر کی کتاب 'فلسفۂ ما بعد جدیدیت' بھی منظر عام پر آئی۔ تاہم بعض متنازع معاملات پر غیر ضروری فوکس اور خبطِ فضیلت نے کتاب کی افادیت کو مجروح کر دیا۔
میرا مسئلہ مشیخیت کبھی نہیں رہا۔ میں حتمیت کے کسی دعوے کو نہیں مانتا اور نہ ہی بڑہانکنے کا قائل ہوں۔ میرا مقصد نئی ادبی /تنقیدی تھیوری کے کسی نئے ماڈل کو دریافت کرنا بھی نہیں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ فلسفہ ٔ ما بعد جدیدیت کے اس اساسی جوہر کی تفہیم کر سکوں اور ان اختلافی امور کی نشاندہی کر سکوں جو تفکری سطح پر مابعد جدیدیت کو جدیدیت سے ممتاز کرتے ہیں۔ چونکہ یہ کام الگ نوعیت کا تھا اس لیے میں نے طے کر لیا کہ اپنے مطالعہ کو صرف انگریزی زبان میں مابعد جدیدیت کی خالص نظری مباحث پر لکھی گئی کتابوں اور مضامین تک محدود رکھوں تاکہ براہ راست افہام و تفہیم ممکن ہو سکے۔ اب مسئلہ کتابوں کی فراہمی کا تھا۔ اس سلسلے میں چند قریبی دوستوں کی فراہم کردہ کمک کے علاوہ میرے بڑے بیٹے نو خیز نے دبئی سے اور منجھلے بیٹے دلآویز نے لندن سے اس موضوع سے متعلق بہت سی کتابیں ارسال کر کے میری مشکل آسان کر دی۔ میں ان کے لیے دعا گو ہوں۔ اگر یہ کتابیں میسر نہ ہوتیں تو وہ مختصرتحریر جو مضمون نہ بن سکی کتاب کی صورت کیسے اختیار کر پاتی۔ زیر نظر کتاب مابعد جدیدیت کو تاریخ اور فلسفہ کے تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں تاریخِ تصورات کے ارتقائی سفر کو ایک بیانیہ کی صورت دی گئی ہے۔ قرونِ وسطیٰ سے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک یہ سفر خاصا دلچسپ مگر دشوار ہے۔ کتاب میں سہل اور عام فہم اسلوب برتا گیا ہے۔ اس کے باوجود قاری کی توجہ اور ارتکاز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کتاب میں بہت کوتاہیاں ہوں گی۔ اگر آپ ان کی نشاندہی کریں تو یہ آپ کا حق ہے اور فریضہ بھی۔ بہت سے ایسے نکات ضرور ہوں گے جن سے اختلاف نہ کرنا قرین قیاس نہیں۔
ناشر:مثال پبلشرز، فیصل آباد
برقی:misalpb@
gmail.com
……O……
رسائل پر تبصرہ
ماہنامہ حکیم الامت سرینگرکشمیر(خدیجۃ الکبریٰ نمبر)
مبصر:ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
اسلام کے دامن میں دو اور بھی چیزیں ہیں
اک مال خدیجہ کا اک خونِ ابوطالب
تاریخ ِاسلام کے نشیب وفراز اہل ِنظرسے پوشیدہ نہیں ۔جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے ،پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے، کی صدا اس افسوسناک حقیقت میں مضمر ہے کہ دین کو شان وشوکت اور عزت ووقار عطا کرنے والے دین ِمصطفٰی کے حقیقی پرچم برداروں سے وفا تودور کی بات ان کی دین سے وابستگی اور تعلق ہی کو مشکوک کر دیا گیاجسے کل ِایمان نے لُبِسَ الْاِسْلاَمُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوْباً کے الفاظ میں بیان کیاہے کہ اسلام کا لبادہ پوستین کی طرح الٹ دیا گیا۔حسن ِکرشمہ سازنے خردکوجنوں توجنوں کوخرد بنا دیا۔دین ِاسلام کے
پاسدار ابوطالب ؑاور آل ابوطالب ؑکے مقدس خون سے تعمیر ہونے والی بنائے لاَاِلٰہْ کی ایک ایک اینٹ سیدہ خدیجہ طاہرہ کی مرہون ِاحسان ہے ۔
جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خوں میں نے دیا
اب بہار آئی ہے تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
بات یہاں تک رہتی توغربت انتہا کو نہ پہنچتی ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حق تلاش کیا جائے۔متلاشیان ِحق کوہر دور میں روشنی کے ان میناروں کی ضرورت رہی ہے جو حق وصداقت کے علم بردار ہوں اور سچائی کی کرنیںبکھیریں۔ عہد حاضر میں یہ فریضہ ''ماہنامہ حکیم الامت ـــ''سرینگرنے سنبھالا اور کمال ِمہارت کے ساتھ اپنے بلند پایہ عزائم اور مقاصد کے حصول کے لیے بے سروسامانی کے عالم میں فقر بوذروصدق سلمانی کے ساتھ نوائے قنبر کے صدا کیش پروفیسر اکبر حیدری صاحب کشمیری نور اللہ مرقدہ کی زیر ادارت علم وادب کے فروغ اور معارف ِحق
کی تبلیغ و اشاعت کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے۔ ان کے وصال پرملا ل کے بعد یہ فریضہ ان کے فرزند جناب ڈاکٹر ظفر حیدری صاحب سرانجام دے رہے ہیں جن کی لگن اور مقصدمیں انہماک وانصاف جولائی ۲۰۱۳ء کے خَدِیْجَۃُالْکُبْریٰ نمبر کی ابتداو اختتام سے عیاں ہے ۔عمدہ طباعت واشاعت کے ساتھ ساتھ معیاری مقالات اور نظم ونثر کا انتخاب اور حسن ِترتیب آپ کی ادارتی مہارت اور ذوق ِسلیم کی عکاس ہے ۔پاک وہند کے اجل علماواہل ِقلم کے پھولوںسے سجا یہ خوبصورت گلدستہ برصغیر کے تہذیبی ورثے میںگرانقدر اضافہ ہے۔اس کے بانی پروفیسر اکبر حیدر جبکہ مدیر اعلیٰ ڈاکٹر ظفر حیدر ہیں۔
رابطہ: ہمدانیہ کالونی ،بمنہ سرینگر، کشمیر
برقی پتا: akbar_hyderi@yahoo.com
……o……
سہ ماہی قندیل سلیمان
مبصر:محمد ساجد نظامی
مولانا محمد علی ؒ مکھڈی خواجہ خواجگان حضرت شاہ محمد سلیمانؒ تونسوی کے مرید و خلیفہ تھے۔ اپنے پیر و مرشد کے حکم سے ہی مکھڈ جیسی دور افتادہ بستی میں ایک علمی و روحانی درس گاہ کی بنیاد رکھی۔ شمالی ہند، کابل و قندھار اور بخارا و سمرقند سے علمی و روحانی تسکین کے لیے تشنگان صدق و صفا کشاں کشاں کھینچے چلے آتے اور اس منبع فیض سے بہرہ مند ہوتے۔ انھیں تشنگان میں مہاراں شریف سے حضرت خواجہ عابد جی مہارویؒ، سیال شریف سے حضرت خواجہ شمس الدینؒ سیالوی اور انگہ (خوشاب) سے زین الحق والدین ؒ تشریف لائے اور علمی فیوض و برکات سے مستنیر ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق جب مولانا محمد علی مکھڈیؒ کو حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ نے بیعت و خلافت سے نوازا تو، تونسہ مقدسہ میں عرصہ دراز سے مقیم درویشوں نے مل کر حضرت غوثِ زماں کی بارگاہِ عرش پناہ میں عرض کی کہ حضور ہم مدت سے جس کی خواہش کو دل میں رکھے آپؒ کی بارگاہ میں حاضر ہیں، مولانا محمد علیؒ مکھڈی تھوڑے عرصے میں ہی اس منزل کو حاصل کر لیتے ہیں۔ حالانکہ ہم اس لطف و عنایت کے زیادہ مستحق ہیں۔ ہم پر کرم نہیں ہوا اور مولاناؒ پر انوار و تجلیات کی بارشیں ہو گئیں۔ تو جواب میں شاہ محمدسلیمان تونسویؒ نے فرمایا کہ ''مولوی صاحب مکھڈی نے اپنے چراغ کا سب سامان تیار کیا ہوا تھا۔ میں نے صرف فتیلہ کوآگ لگا کر روشن کر دیا ہے۔''
بحوالہ: تذکرۃ الولی، مولانا محمد الدینؒ مکھڈی، ص: ۳۷)
ہم غلامانِ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمانؒ تونسوی و حضرت مولانا محمد علیؒ مکھڈی ''قندیلِ سلیماں'' کی ضیاپاشیوں سے اپنے اور احبا کے قلوب و اذہان کو منور کرنے کے لیے یہ سلسلہ محبت شروع کر رہے ہیں۔ سہ ماہی ''قندیلِ سلیماں'' کے کتابی سلسلے کا پہلا شمارہ آ پ کے ہاتھوں میں ہے۔ جس میں اہل علم و نظر کی خدمت میں چند جواہر پارے پیش کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔
گر قبول افتدز ے عزو شرف
حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمانؒ تونسوی کے انوار و تجلیات نے کائنات میں جہاں جہاں اپنی کرنوں کو بکھیرا ہے ان کا تذکرہ ''قندیلِ سلیماں'' میںپڑھنے کو میسر ہو گا۔ یہ شمارہ جن احباب اور اساتذہ کی تخلیقات اور مضامین سے مزیّن ہے، میں ان کا ممنون ہوں اور آئندہ بھی ان سے تعاون کا سوالی ہوں۔ آخر میں اللہ رب العزت کی بارگاہِ بے کس پناہ میں دست بہ دعا ہوں کہ وہ اپنے پیارے حبیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے اس سلسلہ کو ابد الآباد تک قائم و دائم رکھے۔ آمین بجاہ نبی الامی۔
ناشر: نظامیہ دارالاشاعت، خانگاہ معلی حضرت مولانا محمد علی مکھڈی، مکھڈ شریف، اٹک
برقی پتا: qandeel-e-suleman@gmail.com
……o……
مجلہ تحقیقی زاویے ، شمارہ:۱ جنوری تا جون۲۰۱۳
مبصر: صفدر رشید
علم اور تحقیق کی دنیا میں ایک تحقیقی مجلے کی اہمیت مسلمہ ہے۔ تازہ ترین تحقیقات پہلے پہل ان رسائل کا حصہ بنتی ہیں اور پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد کتابی شکل میں آتی ہیں۔ اور بہت سی اہم معلومات اور تحقیق تو کبھی کتابوں کی زینت بنتی ہی نہیں۔ اس طرح ایک تحقیقی مجلے / جرنل کو بعض لحاظ سے کتاب پر فوقیت حاصل ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی جامعات سے مختلف شعبہ ہاے علوم کی طرف سے بہت سے جرائد کا اجرا ہوا ہے، جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) بھی ان جرائد کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ جامعات اور پوسٹ گریجوایٹ کالجوں کے شعبہ ہائے اردو کی جانب سے نکلنے والے تحقیقی مجلات کا معیار کافی حوصلہ افزاہے۔ لیکن وہ جرائد جو اعلیٰ تعلیمی کمیشن سے منظور شدہ ہیں ان کی تعداد تقریباً دس ہے۔
کسی چارٹرڈ یونیورسٹی کی جانب سے اردو زبان وادب کے تحقیقی مجلہ کا اجرا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی قومی زبان اور اردو ادب کے فروغ سے غافل نہیں ہیں۔ الخیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو و پاکستانی زبانیں کی طرف سے ''تحقیقی زاویے'' کے نام سے پہلا شمارہ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ مجلسِ ادارت میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ڈاکٹر رشید امجد جیسے معتبر نام شامل ہیں۔ ان دو حضرات کی شمولیت ہی اس شمارے کے معیار کی ضمانت ہے۔ شمارے میںبارہ تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔مجلے کی ایک خوبی اس میں انڈیکس کا اضافہ ہے جس میں ہر مقالے کی تلخیص اردو میں دی گئی ہے۔
ناشر: شعبہ اردو و پاکستانی زبانیں، الخیر یونیورسٹی بھمبرآزاد کشمیر
سہ ماہی عطا ، ڈیرہ اسمٰعیل خان
سہ ماہی ''عطا'' ادبی دنیا کا ایک معیاری ادبی جریدہ ہے۔ یہ سال ۱۹۹۸ء سے باقاعدہ اشاعت پذیر ہے۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان سیاسی، علمی و ادبی حوالہ سے ایک مردم خیز خطہ ہے۔ فارسی کے صاحب دیوان شاعر مرحوم عطاء اللہ خان عطا کا تعلق ڈیرہ سے تھا اور انہی کے نام نامی سے منسوب جریدہ میں علمی و ادبی مضامین کے علاوہ شاعری ، افسانے، خود نوشت ، کتابیات و شخصیات اور تبصرے شاملِ اشاعت ہوتے ہیں۔ ''گوشۂ عطا'' کے نام سے ایک مستقل گوشہ شامل ہے جو عطا مرحوم کی شاعری اور فارسی ادب سے مزین ہوتا ہے۔ مدیران عنایت اللہ خان گنڈہ پور اور انجینئر ذکاء اللہ خان کی کاوشوں سے یہ مجلہ اپنے تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے مضامین کی وجہ سے جامعات میں ادب کے محققین کی ضرورت بن چکا ہے۔ ملک بھر کے ادباء اور شعراء کا مکمل تعاون اس جریدہ کو حاصل ہے۔ جریدہ میں شائع ہونے والے مکتوبات، علمی و تنقیدی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انجینئر ذکاء اللہ خان اپنی پیشہ ورانہ اور منصبی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی نمایاں خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ اُن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ''پاکستان میں اردو غزل پر قومی سیاست کے اثرات '' جلد پایہ ٔ تکمیل کو پہنچنے والا ہے۔
پتا: کمشنری بازار ، ڈیرہ اسٰمٰعیل خان
برقی پتا:qrtrlyatta@gmail.com
……o……
ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل
سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کی نسبت سے شائع ہونے والا فلسفۂ وحدانیت کا ترجمان رسالہ ''مرآۃ العارفین '' لاہور کے نومبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں علامہ اقبال کے حوالے سے تحقیقی مضامین شامل اشاعت ہیں۔ اس رسالے کے مدیر اعلیٰ صاحبزادہ سلطان احمد علی جبکہ مدیر طارق اسمٰعیل ساگر ہیں۔
برقی رابطہ: miratularifeen@hotmail.com
٭٭٭٭