ڈاکٹر زاہد منیر عامر

''لورکا کے آنسو'' کا جواب لکھنے والا ایک مشکل پسند شاعر

مصر کے معاصر ادبی منظر نامے میں صلاح عبدالصبورکو نہایت اہم شاعرکی حیثیت سے جاناجاتاہے۔ میں ایک روز اس کے شعری مجموعوں کی تلاش میں نکلا تو قاہرہ کے مکتبہ مدبولی سے اس کی کلیات الاعمال الشعر یۃ الکاملہ مل گئی جو دارالعودہ بیروت سے شائع ہوئی ہے۔ یہ اس کی طبع کاملہ موثقہ ہے جو ۲۰۰۶ میں اشاعت پذیر ہوئی ۔مدبولی جہاں واقع ہے وہاں قاہرہ کے کچھ اور مہنگے مکتبے بھی واقع ہیں میں یہاں سے نکلا تو دارالشروق پہنچ گیاجو یہاں کا ایک بڑا پرسٹیجیس مکتبہ ہے وہاں سے محمد عفیفی مطر یا صلاح عبدالصبوریا احمد عبدالمعطی الحجازی کے شعری مجموعوں کی نسبت دریافت کیا۔ جواب فوراً نفی میں ملا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہی ادارہ ہے جس نے مطر کی شعری کلیات شائع کی ہے۔ میںنے خود اندر جا کر تلاش شروع کی تو سیڑھیوں میں رکھے شیلفوں میں محمدعفیفی مطرکی تین کتابیں مل گئیں :احتفالات المومیا المتوحشہ، ملامح من الوجہ الامبیذ و قلیسیاور من مجمرۃ البدایات۔ یہ تینوں کتب ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئیں۔ کتابوں کے ناموں سے لے کر ان کے مندرجات تک کے ملاحظے سے اندازہ ہوا کہ مطر ایک مشکل پسند شاعر ہے جسے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ عوام تک اس کا پیغام پہنچتا ہے یا نہیں وہ اپنی سطح اور لفظیات سے نیچے نہیں اترتا ۔وہ انھی دنوں ۲۸ جون ۲۰۱۰ء کو جگر کے عارضے کے ہاتھوں پچھتر برس کی عمر میں قاہرہ میں انتقال کر گیا۔ وہ ۱۹۳۵ء میں پیدا ہوا، اس نے کلیۃ الآداب جامعہ قاہرہ سے فلسفے کی تعلیم حاصل کی اور ایک سرکاری سکول میں فلسفے کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور انوارالسادات کے زمانے میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے عراق چلاگیاتھا ،واپسی پروہ سنابل نامی اخبار سے وابستہ ہوا اوراس نے ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۲ء تک اس اخبارکے چیف ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ اس کے بعد وہ عراقی اخبار Pens کا بھی ایڈیٹررہا( ۱۹۷۷ …۱۹۸۳ء )نوے کی دہائی میںاسے بعث پارٹی سے تعلق کی بنا پر گرفتار کرلیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔جیل سے رہائی کے بعداس نے گرفتاری اور تشدد کے اس تجربے کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایااور اس کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں فاصلۃ ایقاعات النمل، رباعیۃ الفرح، أنت و احدھا و ھی أعضاؤک انتثرت، یتحدث الطمي، والنھر یلبس الأقنعۃ، شھادۃ البکاء فی زمن الضحک، کتاب الأرض والدم، رسوم علی قشرۃ اللیل، الجوع والقمر، من دفتر الصمتاور دوسری کتابیں شامل ہیں۔ یہ تمام شعری مجموعے ۲۰۰۰ء میں دارالشروق قاہرہ سے کلیات کی صورت میں یکجا کرکے شائع کر دیے گئے۔
عفیفی مطر عربی شعری روایت، مشرقی فلسفہ، تصوف اور عرب ضمیر کا شاعر تھا ۔وہ مصر کے صوبے منوفیہ میں نیل ڈیلٹا کے علاقے میں ۱۹۳۵ء میں پیدا ہوا ،وہ معاصر عرب شعرا میں ایک مشکل شاعر کے طور پر جانا جاتاہے جس کا خطاب عام طور سے عوام کی بجائے تنقیدی صلاحیت رکھنے والے قاری سے ہوتا ہے ۔اس نے ایک طویل عرصے تک فلسفے کے استاد اور لٹریری ریویو ایڈیٹرکے طور پر خدمات انجام دیں ۔اس کے تیرہ (۱۳) شعری مجموعے ،تنقیدی مضامین اور تراجم پر مشتمل مضامین کے دو مجموعے شائع ہوئے ۔اس کی ایک شعری تخلیق نوے(۹۰) کی دہائی میں برطانیہ سے چار حصوں میں شائع ہوئی۔یہ ۷۰ء اور ۸۰ ء کی دہائی میں علاقائی، تاریخی اور مذہبی روایت کے پس منظر میں کی گئی شاعری ہے ۔زمین، آگ، پانی اور ہوا اس کے چار حصے ہیں جن میں حیات بعد موت اور تجدیدِ شباب جیسے موضوعات سے اعتنا کیا گیا ہے ۔اسے طویل نظم یامطر کی خودنوشت سوانحی نظم بھی کہاجاسکتا ہے۔ اس تخلیق کے پس منظر میںجو عوامل کارفرما ہیںان میں مصر کا ارضی منظر نامہ ،زرعی زندگی کے مظاہر،توہمات، لوک ادب ادرعوامی تصوف شامل ہیں۔مطر نے اپنی لفظیات بھی انھی مظاہر سے کشید کی ہیں۔مطر پر اثر انداز ہونے والے دوسرے عوامل میں قرآن کریم کا محاورہ اورفلسفے سے ان کا عمر بھرکا تعلق اور مغربی ادب کا مطالعہ شامل ہیں۔
چند برس قبل جب فرانسیسی شاعر لورکا کی صد سالہ تقریبات منائی گئیں تو یہ وہ وقت تھا جب امریکہ کی جانب سے عراق پر معاشی پابندیاں عاید کی گئیں جو بالآخر عراق پر امریکی تسلط پر منتج ہوئیں۔ محمدعفیفی مطرنے اس موقع پر فرانسیسی شاعرلورکا کی نظم ''لورکا کے آنسو'' کا جواب لکھا جس میں بحر الابیض المتوسط Mediterranean Seaکو خون کا سمندر قرار دیا۔
مطرکو متعدد اعزازات بھی ملے جن میں سلطان بن علی الاویس کلچرل فائونڈیشن سٹیٹ پوئٹری ایوارڈ اور مصر سے ملنے والے دو انعامات بھی شامل ہیں جو اسے۱۹۸۹ء اور ۲۰۰۶ء میں دیے گئے ۔ ٭٭٭٭