تجمل شاہ۔جاوید اختر ملک
کرنل(ر) مسعود اختر شیخ سے ایک ملاقات
س : پاکستانیوں کے لیے ترکی سیکھنا آسان ہے یا مشکل ؟
ج : پاکستانیوں کے لیے ترکی سیکھنا آسان ہے ۔مگرترکیوں کے لیے اردوسیکھنا مشکل ہے ۔ ترکوں کا رسم الخط مختلف ہے جس کی وجہ سے ترک لوگ اردو سیکھنا شروع کرتے ہیں مگر رومن رسم الخط کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں جس کی وجہ سے بعد میں چھوڑ جاتے ہیں۔ تیس فی صد اردو سیکھنے والے ترک لوگوں کویہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ مگر بہت سارے طالب علم اردو سیکھ بھی جاتے ہیں۔پاکستان میں ترکی جاننے والے بہت کم ہیں۔ میری بیٹی عابدہ ترکی ایمبیسی میں ۲۵سال کام کرتی رہی ہے۔ ماسوائے عابدہ کے کسی بھی پاکستانی رائٹر نے ترکی سکھانے کے لیے کوئی کتاب نہیں لکھی۔عابدہ نے دو کتابیں لکھی ہیں۔
س : ترک قوم نے اپنی زبان کے حوالے سے کیا کیا اقدامات کیے ہیں۔ ترکی رسم الخط کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟
ج : قدیم ترکی زبان میں بے شمار عربی اور فارسی الفاظ تھے۔ پھر رومن تحریر شروع کی گئی۔ میں نے فوج کی ملازمت کے دوران ترکی سیکھنے کا چھ ماہ کا کورس کیا ۔ بہت کم پڑھا اور اول آیا۔ترکی میں اب لوگ عام گفتگو میں فارسی اور عربی الفاظ دوبارہ استعمال کرنے لگے ہیں۔
س : ترکی میں اردو چےئرز کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
ج : ترکی میں اردو چےئر ہماری حکومت کی نا اہلی کا شکار ہے جس کی وجہ سے اہل افراد کا تعین نہیں ہوتا ۔ اس معاملے میں ہماراسفارت خانہ بہت سست ہے۔ ہمارے اسکالر جاتے تو ہیں مگر سفارت خانے میں جو بااختیارہوتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ان کے اپنے لوگ اس سیٹ پرآجائیں۔
س : آپ نے ترکی سے اردو میں تراجم کیے، تراجم کرتے ہوئے کیا ترکی سے اردو میں ترجمہ یا مفہوم تحریر کے مطابق بیان ہو جاتا ہے؟
ج : ترکی سے اردو میں ترجمہ ہو جاتا ہے ۔ مگر بعض مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ترکی میں علم کا معیار یہ ہے کہ وہ کتنا لمبا فقرہ لکھتا ہے جبکہ اردو میں فقرہ مختصر ہوتا ہے۔ میں نے جتنی کتابوں کے تراجم کیے ہیں ان میں سے معلوم نہیں ہوتا کہ پاکستان کی کہانی ہے یا ترکی کی ۔ہمیں اردو زبان اور ترکی زبان کے تہذیبی ورثے کے تراجم کرنے چاہیئیں ۔میں نے اب تک ۱۸کتب کے اردو میں تراجم کیے ہیں۔
س : کیا ترک، اردو زبان کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
ج : اردو زبان ترک لوگوں میں اتنی مقبول نہیں ہے۔ ترک قوم مغلوں کو غیر ترک سمجھتے ہیں۔صرف ایک خاتون تھی جس نے شالیمارباغ کے حوالے سے ایک کتاب لکھی تھی ۔دراصل زبانیں دونوں ممالک کو قریب لاتی ہیں۔
س : آپ کے نزدیک اردو اور ترکی زبان میں کتنی مماثلت پائی جاتی ہے ؟
ج : اردو اور ترکی زبان میں کافی سارے مشترک الفاظ ہیں اور کئی شہروں کے ناموں میں بھی مماثلت ہے ،ترکی زبان میں مذکر مؤنث نہیں ہیں۔اردو اور ترکی کے تقریباََآٹھ نو ہزارالفاظ مشترک ہیں۔ ترکی کے عوام اپنی زبان کو پسندکرتے ہیں اور ان کو صرف اتنا پسند ہے کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے۔ چپل کباب ٹرکش لفظ ہے چاپ اور چاپلہ سے چلا اور چپل کباب بن گیا۔قتلمہ ترکی کا لفظ ہے ۔ اس کا مطلب تہہ در تہہ ہے لیکن پاکستان کے شہر لاہور میں قتلمہ کھانے کی ایک ڈش کا نام ہے۔ بعض الفاظ کے معانی میں فرق آگیا ہے۔ Sسے س کی آواز آتی ہے
ج C ، چ C ، س S ، ش S ،
س : کیا آپ نے ترکی کلاسیکل ادب کے ترجمے کیے ہیں؟
ج : انگریزی لٹریچر سے بہتر ٹرکش لٹریچر ہے میں نے اٹھارہ کتب کے تراجم کیے ہیں۔ جن میں ناول ،شارٹ سٹوری اور شاعری کی کتب کا ترکی سے اردو میں ترجمہ کی ہیں۔نجیب فاضل شیکسپیئر کے برابر کا ڈرامہ نگار تھا۔ بہت پڑھا لکھا آدمی تھا۔ میں نے ان کی کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔
س : اردو اور انگریزی کی زبان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ج : پی ایم اے کے امتحانات عام طور پرانگریزی میں ہوتے ہیں انگریزی زبان میں ٹیسٹ ہونے کی وجہ سے کافی ساری ذہانت ضائع ہو جاتی ہے ۔ ہمیں اردو سے زیادہ واقفیت پیدا کرنی چاہیے۔انگریزی پر بھروسہ کم سے کم کرنا چاہیے۔
س : پاکستان اور ترکی کی ثقافت میں آپ کتنی مماثلت محسوس کرتے ہیں؟
ج : شلوار قمیض بنیادی طور پر ترکی کالباس ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آ گئی مگر دیہات میں اب بھی شلوار قمیض پہنی جاتی ہے جیسے ہماری ہاں آج کل لڑکیاں لمبی قمیض پہنتی ہیں۔ شادی بیاہ میں ہماری طرح وہا ں پر بھی مہندی کی رسم ہوتی ہے تاہم نکاح رجسڑہونا ضروری ہے۔ مذہب کی وجہ سے تمام مسلم ممالک میں کچھ الفاظ سب زبانوں میں مشترک ہیں۔ قبر کا لفظ ترکی ،فارسی اور اردو میں ایک ہے۔وہاں پر فرقہ بازی بالکل نہیں ہے اور نہ ہی تفرقہ بازی ہے۔میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں ’’ Turky is my love‘‘یہ میری آٹو بائی گرافی ہے اس کے علاوہ ترکی ،فارسی، پاکستانی زبانوں کے مشترک الفاظ پرمشتمل ایک کتاب ’’Comman Wisdom‘‘ پر کام کررہاتھا مگرRCDکے ختم ہونے کی وجہ سے منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا کتاب تقریباََ مکمل ہے۔
ٍّس : اردو کے فروغ کے بارے میں آپ کیا تجویز دیتے ہیں؟
ج : اردو کے فروغ کے لیے ’’اخبار اردو‘‘بڑے شہروں نہیں بلکہ دور دراز کے دیہات اور لوگوں تک پہنچنا چاہیے ، اردو وہیں سے واپس آئے گی۔ میں نے بنوں کے پوسٹ گریجویٹ کالج کو کتب اور اخبار اردو عطیہ کیا۔وہاں کے اساتذہ اور طالب علم اخبار اردو سے بہت متاثرہوئے۔’’ اخبار اردو‘‘، اردو زبان کی صحیح ترجمانی کرتاہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنا چاہیے ۔