لیری ڈائمنڈ
ترجمہ: اعزاز باقر
جمہوری دور کی صبح کا طلوع
سرد جنگ نے دنیا کو متحد نہیں کیا؛ اس کے نتیجے میں دنیا منقسم اور لہورنگ ہوگئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اکتوبر ۱۹۶۲ء میں یہ ایک بڑی تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ امریکہ نے چار عشروں پر مشتمل عالمی مسابقت کے دوران عالمی سطح پر کمیونزم کے خلاف جنگ اور ’’آزادی کے دفاع‘‘ کے نام پر ۱۹۵۳ء میں ایران، ۱۹۵۴ء میں گوئٹے مالا اور ۱۹۷۳ء میں چلّی میں (دیگر خفیہ مداخلتوں کے بیچ میں) جمہوری طورپر منتخب حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کے اقدامات کی حمایت کرنے کے ساتھ ہی دائیں بازو کی بہت سی ایسی فوجی اور آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کرکے جو ہمارا ساتھ دے رہی تھیں، اکثر و بیشتر اپنی ہی جمہوری اقدار کو جھٹلانے اور کھوکھلا کرنے کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ اگر سردجنگ کے دوران قومی مفاد کو آگے بڑھانے کے اس ’’حقیقت پسندانہ ‘‘ نظریے کو ، خواہ اس کے تحت ہمیں کتنے ہی ناپسندیدہ آمر کو گلے لگانا پڑا ہو، ایک جملے میں بیان کرنا مقصود ہو، تو پھر فرینکلن روز ویلٹ کی طرف سے نگارا گوا کے آمر اَناستازیو سوموزا کے کردار کی ظاہری حقیقت کے ان الفاظ میں بیان سے بڑھ کر اور کچھ بھی کہنا مشکل نظر آتا ہے کہ ’’ہوسکتا ہے وہ کُتیا کا پِلّا ہو، مگر وہ ہمارا کُتیا کا ہی پِلّا ہے۔‘‘تاہم ابھی بھی امریکہ کے سردجنگ کے دوران اپنائے گئے کردار کی حمایت میں مزید ایک زیادہ اصولی مؤقف موجود تھا۔ ۱۹۶۱ء میں اپنے اختتامی خطاب کے دوران اس کا اظہار صدر جان ایف کینیڈی نے اس وقت کیا جب اُنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’ وہ آزادی کی بقا اور کامیابی کے لیے کوئی بھی قیمت چکانے، کوئی بھی بوجھ اُٹھانے، کوئی بھی تکلیف برداشت کرنے، کسی بھی دوست کی حمایت کرنے، کسی بھی دُشمن کی مخالفت کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔‘‘ اگر ان الفاظ کی تشریح اُسی طرح کے ’’حقیقت پسندانہ نظریے‘‘ کے طورپر کی جائے، یعنی کمیونسٹوں کے خلاف کسی بھی حامی کو قبول کرنا تو کینیڈی اس معاملے میں اور بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ امریکہ حقیقی آزادی کے لیے مصروفِ عمل نئی نو آباد ریاستوں کی حمایت کرے گا۔ اگرچہ ان سے ’’اپنے نظریات کی حمایت‘‘ کی مستقل توقع نہیں رکھے گا۔ اُس کا امریکہ دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی مدد آپ کرنے ’’بڑے پیمانے پر پائی جانے والی تکلیفوں سے نجات حاصل کرنے‘‘ میں معاونت فراہم کرے گا۔ وہ امریکہ میں ’’ترقی کے لیے مشترکہ کوششوں‘‘ کا آغاز کرے گا جس کا مقصد غربت کا خاتمہ ہوگا اور ’’اُمید کے پُرامن انقلاب‘‘ کی راہ ہموار کرے گا۔
کینیڈی کا مثالی تصور بڑی حد تک اس کے کمیونسٹ توسیعی عزائم کے خلاف جنگ کی ناگریزی (imperatives) کے حوالے سے پائے جانے والے ادراک کی بنا پر پاش پاش ہوگیا تھا، ایک ایسی جنگ جو اُسے (اور ملک کو) ویت نام کے اندر تباہ کن طور پر مسلسل اُلجھائے چلی جا رہی تھی جس کے نتیجے میں فوجی قوت، معاشی وسائل، سفارتی توانائیاں اور اخلاقی طاقت وغیرہ سب کچھ دباؤ میں تھا اور جنھیں یکجا کرکے دنیا میں آزادی کو حقیقی معنوں میں تحفظ اور توسیع عطا کی جا سکتی تھی۔ اُس کے قتل سے وہ راستہ اور بھی قریب ہوگیا جسے تبدیلی کا راستہ کہا جا سکتا تھا اور جس کے نتیجے میں اپنے دور کی دو انتہائی شکی مزاج اور سرد مہری کی حد تک حقیقت پسندانہ صدارتیں (بین الاقوامی صورت حال کے حوالے سے) منظر عام پر آئیں، یعنی لنڈن جانس اور رچرڈ نکس کی صدارت تاہم امریکی قوم کے اس جمہوری اور مثالی جذبے کو کہ ہمیں دنیا میں کسی نہ کسی مقصد کا ساتھ دینا چاہیے اور یہ کہ کسی بھی مقصد کے پس پردہ ہمارا آزادی پر بنیادی یقین کا اُصول کارفرما ہونا چاہیے۔۔۔ ختم نہ کیا جا سکا۔ اس کا اظہار سب سے پہلے صدر جمی کارٹر کی طرف سے انسانی حقوق کے تصور کے فروغ اور دفاع کے آغاز کار سے ہوا تھا، اور اس کے بعد صدر رونالڈریگن کی جمہوریت کو فروغ دینے کی اور بھی پُرعزم پالیسی کی صورت میں جس کے نتیجے میں بہت سے ادارے، اُصول اور پیش قدمیاں سامنے آئیں جو بعد میں آنے والے صدور کے زمانے میں بھی قائم رہیں۔ اس کے باوجود بھی مختلف صدارتی ادوار کے دوران دنیا میں امریکہ کے کردار کے حوالے سے دو مختلف تصورات یعنی حقیقت پسندانہ کردار اور مثالی کردار کے درمیان کشمکش جاری رہی ہے۔
آزادی کے لیے عالمی سطح پر جستجو کے حوالے سے میری اپنی دلچسپی کا آغاز صدر کینیڈی کے افتتاحی خطاب اور ملک اور باقی دنیا سے اُس کی جرأت آمیز عرضداشت کے ساتھ ہوا۔ ایک نوسالہ بچے کی حیثیت سے میں اُس کی ’’طویل مبہم جدوجہد کا بوجھ برداشت کرنے ، برسہا برس اُمید سے سرشار رہتے ہوئے اور مصیبت میں صبر کرتے ہوئے۔ انسانیت ، جبر، غربت، بیماری اور بذات خود جنگ کے خلاف جدوجہد‘‘ کی پکار سے بہت زیادہ (اور جیسا کہ بعد میں ظاہر ہوا ، ثابت قدمی کی حد تک) متاثر ہوا تھا۔ اگرچہ اُس وقت میں یہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ ان سب باتوں کا دراصل کیا مفہوم تھا مگر میرا یقین تھا کہ کمیونزم ایک بُرائی تھی، یہ کہ آمریت خواہ کسی شکل میں ہی کیوں نہ ہو ناقابلِ برداشت تھی ، اور یہ کہ ہر جگہ لوگوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ آزادی اور وقار کے ساتھ زندگی گزاریں۔ کینیڈی کی پکار نے مجھے دنیا کے بارے میں پڑھنے پر اُکسایا۔ میں اُس زمانے میں کہلائی جانے والی تیسری دنیا کے نئے سیاسی رہنماؤں سے اور ایشیا اور افریقہ کے بے شمار ممالک میں جو یورپی نوآبادیاتی تسلط کی زنجیروں کو توڑ رہے تھے جمہوریت کی آزادی کی جانب پیش قدمی سے بہت ہی مسحور ہو چلا تھا۔ میں تیسری دنیا کے رہنماؤں مثلاً جواہر لعل نہرو، سوئیکارنو اور کامے نکروما (Kwame Nikrumah) کی ذاتی داستانوں کے سحر میں گرفتار ہوگیا تھا۔
میرا کالج کا زمانہ ویت نام کی جنگ اور اس جنگ کے خلاف پورے امریکہ کی یونیورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر اُبھرتی ہوئی تحریکوں سے بھرپور زمانہ تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ کمیونزم کے اثرات کو روکنے کی ایک عظیم کوشش کس طرح قوم پرست اور نوآبادیاتی نظام کی مخالف طاقتوں کو نظرانداز کرکے محض امریکہ کی ثابت قدمی یا اُصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کے تصور کو برقرار رکھنے کے خبط میں مبتلا تھی جو کہ ایک المناک صورت حال تھی۔ اس کا نتیجہ اخلاقی، انسانی اور جغرافیائی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔ جیسے ہی میرے مشاہدے میں آیا کہ امریکہ ایک آمریت کی پشت پناہی کر رہا ہے تاکہ کسی دوسری آمریت کے خطرے کو ٹال سکے، دیہاتوں کو تباہ کر رہا ہے تاکہ اُنھیں محفوظ رکھ سکے تو میرے ذہن میں اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سوالات اُبھرنے لگے اور میں نے قومی مفاد کے ان مسخ شدہ پیمانوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جن کے نتیجے میں ہمیں پوری دنیا میں اتنی زیادہ ’’دوستانہ‘‘ آمریتوں کو گلے لگانا ، بلکہ اقتدار میں بھی لانا پڑ گیا تھا۔ میرا یقین ہے کہ اگر ہم اپنے کمیونسٹ حریفوں کو بڑے باوثوق اور مؤثر طریقے سے آزمائش میں ڈالنا چاہتے تھے تو پھر ہمیں خود اپنے حلیف ممالک میں بھی جمہوریت اور ذمہ دار حکومتوں کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے تھا۔ پھر میں نے اپنے کالج کے زمانے کے آخری برسوں میں دیکھا کہ لاطینی امریکہ میں امریکی مداخلت کی طویل المناک تاریخ کے ایک نازک موڑ پر چلّی کی مُسلّح افواج نے سوشلسٹ صدر سلواڈورالاندے (Salvador Allende) کی منتخب حکومت کا تختہ بڑی بے رحمی سے اُلٹ دیا، اور پھر جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ ایسا نکسن انتظامیہ کی حمایت سے ہوا تھا۔ کینیڈی کے اختتامی خطاب میں جو بھرپور گزارش کی گئی تھی وہ ایک سنگین مذاق کی صورت اختیار کر گئی تھی اور میری حکومت پوری دنیا میں جو سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی اس سے میری بیگانگی یا لاتعلقی میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اگرچہ میں اخلاقی اور سیاسی حوالوں سے عالمی واقعات میں دلچسپی لیتا رہا تھا مگر میں نے ابھی تک دنیا کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ جون ۱۹۷۴ء میں گریجویشن کرنے کے بعد میں اس حوالے سے پُرعزم ہوگیا اور ان ممالک کا چھ ماہ کے دوروں کا پروگرام تیار کر لیا جو میری توجہ کا مرکز بن چکے تھے۔ میں نے اسی برس اکتوبر کے اواخر میں پرتگال کے دورے سے آغاز کیا جہاں چھ ماہ پہلے ہی فوجی بغاوت کے ذریعے ایک نیم فسطائی آمریت کا تختہ اُلٹ دیا گیا تھا جو کہ وہاں پچاس برس سے قائم تھی۔ اُس کے بعد اس ملک میں ایک بار پھر نئی طرز کی آمریت کی خواہش مند کمیونسٹ اور بائیں بازو کی دیگر انقلابی طاقتوں اور جمہوری مستقبل کا خواب دیکھنے والی دیگر مختلف النوع سیاسی جماعتوں کے مابین تکلیف دہ کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ وہاں سے میں نے نائیجریا کی طرف سفر کا آغاز کیا جہاں تیل کی فراوانی کے اثرات اپنا بھرپور رنگ دکھا رہے تھے اور توقع تھی کہ یہاں جمہوری دور جلد ہی واپس آجائے گا، مگر اس کے برعکس فوجی آمر یعقوب گوون نے دسمبر ۱۹۷۴ء میں میرے وہاں پہنچنے سے کچھ ہی عرصہ قبل تبدیلی کے اس مرحلے کو مؤخر کر دیا۔ میں نے سفر جاری رکھتے ہوئے مصر اور اسرائیل کا رُخ کیا جیسا کہ یہ دونوں ممالک ہی ۱۹۷۳ء کی جنگ کے ناٹک سے باہر نکل کر منظر عام پر آرہے تھے، اور وہاں سے پھر تھائی لینڈ کا رُخ کیا جہاں نئی نئی جمہوریت اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کر رہی تھی (جس میں آخر کار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا) ، وہاں سے پھر تائیوان جو کہ معجزوں کے حامل مشرقی ایشیاکے اندر آمرانہ طرز کی حامل اہم ریاستوں میں سے ایک ہے۔
پرتگال میں نومبر ۱۹۷۴ء میں میرا ایک ماہ اسی سمجھ اور فہم کے حوالے سے یادگار سفر کا حقیقی آغاز ثابت ہوا کہ جمہوریت روح کن اجزا سے تشکیل پائی ہے اور اسے کس طرح پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔ وہاں میں نے جمہوریت کے حوالے سے ایک جاندار سیاسی جدوجہد کا پہلی مرتبہ بذاتِ خود مشاہدہ کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ امریکی یونیورسٹیاں اور معاشرہ ہنگاموں اور شورش کی زد میں تھے۔ ایک طلبا تنظیم کے رہنما کے طورپر منتخب ہونے اور اپنے ہی کالج کے کیمپس میں جنگ مخالف تحریک کے اندر متعصبانہ ، مارکسی انقلاب کی لہروں کے خلاف جدوجہد کرچکنے کی بنا پر میں نے لزبن کی سیاسی فضا میں بھی اسی طرح کاسیاسی ارتعاش محسوس کیا۔
تاہم امریکہ میں ۱۹۶۰ء کی دہائی کے اواخر اور ۱۹۷۰ء کی دہائی کے آغاز میں مفادات یا دلچسپیاں صرف یہاں تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں: ایک گمراہ کن جنگ میں ہماری کمزور پڑتی ہوئی مداخلت کا خاتمہ، لازمی فوجی بھرتی کے قانون کا خاتمہ، ایک زیادہ مساویانہ معاشرے کا قیام اور امریکی زندگی کی توانائیوں اور بھرپور امکانات کا دو نسلی اقلیتوں اور قوانین کے لیے واکردینا۔ اس سے آگے ’’انقلاب‘‘ کی حیثیت محض ایک خوش کن تصور سے زیادہ نہ تھی؛ یہ (انقلاب ) درس گاہوں کو تہہ و بالا کرکے رکھ دینے، پُرامن تبدیلی کی جستجو کا اعتماد ختم کر دینے اور ملک میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان خلیج وسیع کرنے کے بھرپور امکان کا حامل تھا مگر اس سے ہمارے جمہوری اداروں کو کبھی بھی کوئی سنجیدہ خطرہ لاحق نہیں رہا۔
مجھے لزبن میں مانوس انقلابی نعروں اور جوش و جذبے کی، اور کھلے اور تنگ ذہنوں کے درمیان، انصاف اور سماجی ترقی کے لیے دو اقسام کی کوششوں کے درمیان جدوجہد کی وہی فضا نظر آئی۔ ایک بے رحمانہ نظریاتی یقین کے ذریعے یا پھر ایک لچکدار ، باہمی برداشت پر مبنی مکالمے، ترغیب اور سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے قیام کے ذریعے۔ تاہم وہاں، ملک کا سارا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا۔ جمہوریت کا مستقبل غیر یقینی تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ نتیجہ کیا نکلے گا؟ مگر جب میں نے ایک ماہ تک مشاہدہ اور مکالمہ کیا تو دو چیزوں سے مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ ایک تویہ کہ نہ صرف کمیونسٹ پارٹی کی بے کیف، کٹر اور شک کی گنجائش سے محروم فضا بشمول لینن اور سٹالن کی بوجھل پن کے حامل خشمگیں خدوخال اور دوسرے بڑی جمہوری پارٹیوں، سوشلسٹ پارٹی، دی پاپولرڈیموکریٹک پارٹی اور دی سوشلسٹ ڈیموکریٹک سینٹر کے دفاتر، جلسوں اور جلوسوں میں زندگی اور رنگوں کی لہر، بے ساختگی اور بے تکلفی، مثالی تصور اور عملیت پسندی، آزادی اور دانش ورانہ تجسس اور ہنگامہ خیز تخلیقی ماحول سے بھرپور فضا میں نہ صرف پروگرام اور نظریے کا فرق تھا بلکہ جذبوں کا بھی نمایاں فرق تھا۔ دوسرے یہ کہ میری جمہوری پارٹیوں کے جن ارکان سے ملاقاتیں ہوئیں ان کے اندر عزم، ذہانت اور قوت برداشت کے علاوہ آزادی کے جذبے کا عنصر نمایاں تھا۔
اگر اور کچھ نہیں تو اس تجربے نے مجھے وہ کچھ سکھایا جس کو بعد کی بہت سی تحقیقات، مطالعے، سفر اور سوچ بچار کی بنا پر استحکام حاصل ہوا: یہ کہ جمہوریت کو محض تجریدی، تاریخی و ساختیاتی قوتوں سے تحریک نہیں ملتی۔ یہ بہترین مفہوم میں ’’سیاست‘‘ کے انسانی کرداروں کی جدوجہد، حکمتِ عملی، اختراعی صلاحیت، تصور، جرأت، ایمان، سمجھوتے اور چناؤ کی گنجائش یا صلاحیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ کچھ حد تک ایسی چیز ہے جس سے میری مراد جمہوری روح ہوتی ہے۔
آخر کار پرتگال میں جمہوریت پسندوں کو فتح نصیب ہوئی، جو کچھ حد تک سوشلسٹ پارٹی کے رہنما اور جمہوریت پسند ماریوساریز (Mario Soares)کی ثابت قدمی، جرأت اور مہارت کا ، جو بعد میں وزارتِ عظمیٰ اور آخر کار صدارت کی کرسی پر جلوہ افروز ہوگئے تھے، اور کسی قدر مغربی جمہوریتوں کی طرف سے جمہوری جماعتوں کی حمایت میں کی گئی بھاری سرمایہ کاری کا نتیجہ تھا۔ آزادی کے تصور کو فروغ دینے کے لیے اس طرح کا عالمی بھائی چارہ اور اتحاد اس امر کا غماز تھا کہ مستقبل میں اس حوالے سے کوششیں اور بھی تیز ہو جائیں گی اور مزید یہ جمہوری جذبے یا روح کے ایک اور پہلو کو سامنے لاتا تھا۔
میرے اندر پرتگال کے تجربے اور میرے تھائی لینڈ اور نائیجریا کے تجربے کی بنا پر جہاں جمہوریت اتنے واضح طریقے سے اور اتنے پُراُمید انداز میں جڑیں پکڑ رہی تھی، جمہوری امکانات کا ایک مضبوط احساس پیدا ہونے کے ساتھ ہی ان علمی نظریات کے حوالے سے فطری شکوک و شبہات پیدا ہوگئے جن کے تحت سبھی طرح کے ممالک میں ان جمہوری امکانات کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ میں نے اس کے نتیجے میں گریجویٹ سکول میں ایک ایسا انتخاب کیا جس کا مضحکہ اُڑانے میں میرے پیروکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو اُس وقت بڑی آسانی رہی۔ بجائے اس کے کہ میں اقتصادی ترقی کے مراحل، ریاست کی تعمیر، یا انقلاب ،یا’’بین الاقوامی انحصار باہمی‘‘ (اور کثرت سے کیے جانے والے اضافے کی بدولت بین الاقوامی سرمایہ دارانہ’’ استحصال‘‘) کی طاقتوں کا مطالعہ کرتا جو خود کار ترقی کی راہ میں مزاحم تھیں، میں بذات خود جمہوریت کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ میں اس نظریے کا قائل نہیں تھا کہ نائجیریا میں جمہوریت محض ایک دکھاوا تھی جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں تھا، یا یہ کہ ہمیں غریب ممالک میں جمہوریت کے حوالے سے اُمید ترک کر دینی چاہیے تھی۔ اگر بھارت میں کئی عشروں سے جمہوریت قائم دائم (صرف تھوڑے عرصے کے عدم تسلسل کے ساتھ) رہ سکتی تھی تو نائیجریا میں کیوں نہیں؟ دونوں ہی ممالک غریب، گہری لسانی بنیادوں پر منقسم اور برطانوی نوآبادیاتی روایات کے حامل تھے۔ نائیجریا میں جمہوریت ۱۹۶۰ء کی دہائی کے وسط میں تعطل کا شکار کیوں ہوگئی اور اس کے نتیجے میں تکلیف خانہ جنگی کیوں شروع ہوگئی ؟ جمہوری سرگرمیاں پرتگالی انقلاب کے بعد چوتھائی صدی کے دوران اپنے عروج پر رہیں۔ یہ عروج یا تیزی جسے سیموئیل ہٹنگٹن عالمی جمہوری پھیلاؤ (۱)کی تیسری لہر کہلاتا ہے، جو آہستہ آہستہ اور غیر محسوس طریقے سے پرتگال ، سپین اور یونان میں جمہوریت کی سمت تبدیلی کے ذریعے شروع ہوئی اور پھر وہاں سے لاطینی امریکہ اور پھر اس سے بھی آگے طول و عرض تک پھیلتی چلی گئی۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے وسط تک ہر پانچ میں سے دو ریاستیں جمہوری نظام کی حامل تھیں۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی کے وسط تک جب دیوارِ برلن گر چکی تھی اور سوویت یونین کے ٹکڑے ہو چکے تھے ہر پانچ میں سے تین ریاستیں جمہوری ہو چکی تھیں۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائیوں نے جمہوری روح کو ایک تیسرے مفہوم میں ظاہر کیا۔ ان دو عشروں کے دوران جمہوریت "Zeitgeist" بن گئی، جس کا لفظی مفہوم (جرمن زبان میں) ’’زمانے کی روح یا جوہر‘‘ہے۔ اگرچہ یہ اصطلاح ایک دور کے پورے ثقافتی اور علمی ماحول کا احاطہ کرتی ہے، مگر سیاسی طورپر اس کا مطلب ہے ’’قومی حدود سے ماورا یہ مشترکہ احساس کہ ایک مخصوص (سیاسی شکل میں) نظام سب سے زیادہ پسندیدہ ہے‘‘، جس (احساس) کو روایتی انداز میں ایسی طاقتور ریاستوں کے توانائی یا دیگر متحرک کرنے والی قوتوں کے (مبنی بر اِدراک) نظریے (Dynamism) سے تقویت ملتی ہے ’’جو ایک خاص قسم کے نظام حکومت کے ساتھ کامیاب ہیں۔‘‘(۲) جس طرح جنگ کے دوران کے زمانے کا جوہر فسطائیت نظر آرہی تھی اسی طرح بیسویں صدی کے آخری دو عشروں کا جوہر جمہوریت تھی۔ جہاں ۱۹۹۵ء کے بعد مجموعی طورپر جمہوریتوں کی تعداد کم یا زیادہ، مستحکم ہوگئی، وہاں اسی عرصے کے دوران ۹۰ سے زیادہ جمہوریتوں کا منظر عام پر آنا اس امرکی علامت ہے کہ دنیا کی تاریخ میں ریاستوں پر حکمرانی کرنے کے انداز میں زبردست تبدیلی آ رہی ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی کے وسط تک مجھ پر میرے بہت سے دوسرے رفیق کار حضرات کی طرح جو جمہوریت کے لیے عالمی جدوجہد میں دلچسپی رکھتے تھے یہ واضح ہو چلا تھا کہ اگر دنیا کی پانچ میں سے ہر تین(۵/۳) ریاستیں (جن کی اکثریت غریب اور غیر مغربی تھی ) جمہوریہ بن سکتی تھیں ، تو اس امر میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں تھی کہ باقی دُنیا بھی اسی راستے پر گامزن ہو سکتی تھی۔ تاہم، اگر تبدیلی کے اس عمل کو مکمل کرنا ہے تو ہمیں پوری دنیا میں جمہوریت کی راہ میں حائل تاریخی اور ساختیاتی رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ ان عوامل کو بھی شناخت کرنا ہوگا جن کی بدولت نہ صرف جمہوریت ا سکے بلکہ اسے پائیدا ر اور فعال بھی بنایا جا سکے۔ تاہم اس صورت حال کو ذہن میں لانا مفید رہے گا جس سے دنیا ۱۹۷۰ء کے وسط میں گزر رہی تھی اور یہ سوچنا بھی کہ تاریخی دور کے ماضی قریب کے زمانے میں جمہوریت کے امکانات اتنے غیر حقیقی کیوں لگ رہے تھے۔
۱۹۷۴ء کا زمانہ
جب ۲۵۔اپریل ۱۹۷۴ء کو پرتگال کی مسلح افواج نے تقریباً پچاس برس سے چلّی آنے والی آمریت کا تختہ اُلٹ دیا تو کسی کے پاس بھی اس طرح کی توقع کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ اقدام دنیا میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ثابت ہوگا۔دنیا میں جمہوریت کے لیے یہ ایک وحشت انگیز دور تھا۔ محض گزشتہ اکتوبر میں ہی چلّی کی فوج نے کمیونسٹ توسیع پسندی کے خلاف سردجنگ کی کشمکش کے خبط میں مبتلا امریکی انتظامیہ کے ایما پر ایک خونی اور اذیت ناک بغاوت میں الاندے (Allende) حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ اس کشمکش کے انتہائی سفاک ترین محاذ میں امریکہ ویت نام کی جنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس میں اُٹھاون ہزار سے زائد امریکی اور کئی لاکھ ویت نامی مارے گئے تھے۔ امریکہ کی طرف سے جنوبی ویت نام کی بدعنوان اور سفاک حکومت کو سہارا دینے کی کوشش ناکام ہوتی نظر آ رہی تھیں؛ اپریل ۱۹۷۵ء تک سائیگان پر شمالی ویت نام کی فوج اور ویت کا نگ کی مشترکہ کمیونسٹ طاقتو ں کا قبضہ ہو چکا تھا، جس کے نتیجے میں شہر سے امریکی افواج کا تیز تر اور ذلت آمیز انخلا ناگزیر ہونے کے ساتھ ہی ایک بڑی جنگ میں امریکی فوج کی پہلی شکست اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ دنیا بھر میں روسی (اور چینی) طاقت اور خود اعتمادی میں کمیونسٹ طاقتوں کی طرف سے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں پے در پے مارکسی اور قوم پرستانہ بغاوتوں کی حمایت کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جیسے ہی جنوبی ویت نام میں کمیونسٹ راج کا آغاز ہوا تو اس کے ساتھ ہی لاؤس اور کمبوڈیا بھی ان کے زیرتسلط آگئے اور مؤخرالذکر میں کھمبرروج (Khmer Rogue) کی قیادت میں بیسویں صدی کی انتہائی خونخوار حکومتوں میں سے ایک حکومت قائم ہوگئی جس کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ کم از کم دس لاکھ کمبوڈین (کمبوڈیا کی کل ستر لاکھ آبادی میں سے) باشندوں کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے۔ سوویت یونین اور شمالی یورپ میں اس کی طفیلی ریاستوں میں کئی عشروں تک آمرانہ طرز حکومت محفوظ نظر آتا رہا۔ ۶ برس سے کچھ کم عرصہ قبل الیگزنڈر ڈیوبسک (Alexaneder Dubcek) کی طرف سے چیکوسلواکیہ میں سوشلسٹ نظام میں مزید آزادی عطا کر کے اور ’’انسانی چہرے کا حامل سوشلزم‘‘ تخلیق کرکے ترمیم و اصلاح کی کوششیں روسی ٹینکوں تلے کچل دی گئی تھیں ۔ جبکہ ادھر امریکی جمہوریت واٹر گیٹ جیسے رُسوا کن واقعے کی دلدل کی گہرائی میں دھنس چکی تھی، کیونکہ صدر نکسن اقتدار سے چمٹے رہنے کی شدید خواہش کی بنا پر انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اپنے آئینی اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے جیسی حرکات کے مرتکب ہوئے تھے۔
اپریل ۱۹۷۴ء میں دنیا میں جمہوریت نہیں آمریت کا رواج تھا۔ محض ایک چوتھائی آزاد ریاستوں میں ہی حکومتِ وقت کا چناؤ، آزادانہ مسابقت اور غیرجانبدارانہ خصوصیات کے حامل انتخابات کے ذریعے عمل میں لایا جاتا۔ ان میں سے زیادہ تر ریاستیں سرمایہ دارانہ نظام کے حامل دولت مند مغربی ممالک کی ریاستیں تھیں جبکہ کچھ چھوٹے چھوٹے جزیرہ نما ممالک کی ریاستیں تھیں جنھیں برطانوی نو آبادیاتی نظام ورثے میں ملا تھا۔ کوسٹاریکا، وینزویلا اور کولمبیا کو چھوڑ کر لاطینی امریکہ میں سفاک فوجی حکومتیں یا پھر بھرپور فوجی اثرات کی حامل بدعنوان جمہوری حکومتیں قائم تھیں۔ برازیل میں کئی عشروں سے فوجی حکومت قائم تھی اور اس کے جدید دور کے تقاضوں سے آشنا آمر حکمرانوں کے زیرنگرانی ترقی کے ’’معجزے‘‘ کو بڑھتی ہوئی غیرملکی سرمایہ کاری کے ساتھ مختلف حلقوں کی جانب سے سراہا جا رہا تھا۔ اس سے گزشتہ برس، ارجنٹائن کے سابق مقبول آمر جوآن پیرن نے اٹھارہ برس کی جلاوطنی کے بعد ببونس آئرس واپس آ کر بائیں بازو کی منتخب جمہوری حکومت کے صدر کے طور پر اور اس کی شریک حیات ازابیل نے نائب صدر کے طور پر عہدہ سنبھال لیا تھا۔ پرتگال میں اپریل انقلاب کے بمشکل دو ماہ بعد پیرن کا انتقال ہوگیا اور اس کی بے بس شریک حیات نے بڑھتی ہوئی بدعنوانی، بائیں بازو کی گوریلا کارروائیوں اور دائیں بازو کی دہشت گرد کارروائیوں اور دائیں بازو کی دہشت گرد کارروائیوں کے درمیان ملک کی باگ ڈور سنبھال لی، جس کے نتیجے میں ۱۹۷۶ء میں فوجی حکومت پھر واپس آگئی۔
اسی دوران (جاپان کو چھوڑ کر) مشرقی ایشیا میں غیر جمہوری آمرانہ ریاستوں نے اقتصادی تبدیلیوں کا عمل شروع کر دیا تھا۔ ۱۹۷۴ء کے عشرے میں جنوبی کوریا ، تائیوان اورسنگاپور میں آمرانہ حکومتوں کے زیرانتظام حیرت انگیز اقتصادی ترقی کی منازل طے کی جا رہی تھیں جو بہت سے دانشوروں اور مبصرین کے خیال میں تیز رفتار ترقی کے کلیے سے مالا مال تھیں: ریاستی اختیارات کے ذریعے بچتوں کی شرح میں اضافہ کرنا، سرمایہ کاری کا رُخ اہم یا بنیادی صنعتوں کی جانب موڑنا، مزدور انجمنوں پر پابندیاں نافذ کرنا، اجرتوں کی شرح کم سطح پر رکھنا، سیاسی استحکام کو ’’یقینی بنانا‘‘ اور یوں بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری ملک کے اندر لانا۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے وسط میں انڈونیشیا نے بھی جنرل سوہارتو کے ’’نئے نظام‘‘ کے تحت اسی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ غیرکمیونسٹ ایشیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ تحریک کو انتہائی خونخوار قسم کی مہم کے ذریعے کچل دینے کے بعد ، جس میں شاید کئی لاکھ افراد کو اپنی جانوں سے محروم ہونا پڑا، سوہارتو کی آمریت نے بڑی تیزی سے ’’ایک منظم ترقی کی نئی لہر‘‘ پیدا کر دی جو کہ جنوب مشرقی ایشیا کی محصور ترقی (Arrested Development) کی ایک بڑی نمایاں مثال کی حیثیت رکھتی تھی۔
فوج خود بھی نئے انداز میں جلوہ گر ہونا یا اپنے آپ کو اس مستعد قسم کی ’’افسرشاہانہ آمریت‘‘ کے رنگ میں رنگنا چاہتی تھی۔ یہ ماڈل انتہائی پُرکشش تھا نہ صرف ترقی کے تمنائی ایشیائی معاشروں کے لیے بلکہ امریکی پالیسی سازوں کے لیے بھی جو امریکی معیار سے مطابقت رکھنے والی کامیابی کی داستانوں کے لیے سخت بے تاب رہتے تھے تاکہ انھیں کمیونسٹ خطرے کو دور رکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فلپائن کے صدر فرڈیننڈمارکوس نے (دوسری اور آخری مدت کے بعد برسراقتدار رہنے کے لیے قانون میں تبدیلی میں ناکامی کے بعد) ۱۹۳۵ء کا قانون منسوخ کرکے اور اپوزیشن کے ۳۵۰۰۰ ارکان کو جیل میں ڈال کر آمرانہ اختیارات سنبھال لیے تو امریکہ کے ساتھ اس کا اتحاد اور بھی مضبوط ہو گیا۔ مگر یہ صرف امریکہ کی مایوسانہ یا سنکی قسم کی سازباز کا نتیجہ نہیں تھا کہ فلپائن میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ ’’مارکوس ۱۹۷۲ء میں جس چیز کی ترجمانی کرر ہا تھا وہ ایک قسم کا سارے جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک میں پایا جانے والا وہ احساسِ تنفر تھا جو جمہوری سیاست کے نتائج کے حوالے سے پایا جاتا تھا۔ ‘‘
اسی طرح سے انتظامی صورت حال کو بگڑنے سے بچانے اور اقتصادی ترقی کے نام پر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے جون ۱۹۷۵ء میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بساط لپیٹ کر جمہوری انتخابات اور شہری آزادیوں کو ہنگامی حالت نافذ کرکے معطل کر دیا تاکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو غیرمؤثر بنا دیا جائے جس کے تحت اس (اندراگاندھی) کے اپنے انتخاب کو غیرقانونی قرار دے کر اسے عہدے سے ہٹایا جا سکتا تھا۔ دو برس سے بھی کم عرصے میں اندراگاندھی کو ان انتخابات میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا جو اس نے حد سے بڑھی ہوئی خوداعتمادی سے منعقد کروائے تھے، مگر ہندوستان کے جمہوری اداروں کو جتنی آسانی سے نظرانداز کر دیا گیا تھا وہ اس عشرے کے درمیان میں جمہوری احکامات کے لیے ایک اور سنجیدہ دھچکا تھا۔
افریقہ میں جہاں یورپی نوآبادیاتی نظام کی شکست یا پسپائی کو دو عشروں سے کم عرصہ ہوا تھا صورت حال ابھی بہت وحشت ناک تھی۔ افریقی صحرائے اعظم کے جنوبی علاقوں کی اڑتیس (اُس وقت) ریاستوں میں سے صرف تین ریاستیں جمہوریہ تھیں اور اُن میں سے ہر ایک یعنی بوٹسوانا گمبیا اور ماریشیس کی آبادی دس لاکھ یا اس سے بھی کم تھی۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے دوران افریقہ کی سب سے بڑی اور اُمید افزا امکانات کی حامل جمہوریہ نائیجریا کمزور پڑتے ہوئے نسلی فسادات کے درمیان ناکامی سے دوچار ہوگئی جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جس میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ افراد مارے گئے۔ جنوبی افریقہ بڑی بُری طرح نسلی تعصب کی حامل ریاست کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ موبوتوسیسے سیکو نے زائرے (سابقہ کانگو)میں مغربی جمہوریتوں کی فراخدلانہ حمایت سے جو اس ملک کے وسیع معدنی ذخائر تک رسائی کے لیے بے چین تھیں، دنیا کی انتہائی بے رحمانہ حد تک قزاق ریاست قائم کر دی تھی۔ افریقی آمریتوں کے زیادہ تر سیاسی اور دانشور مخالفین سوشلزم کے لیے نرم گوشہ جبکہ سرمایہ دارانہ مغربی نظام کے لیے گہرے معاندانہ جذبات رکھتے تھے۔ مغربی دانشور بذات خود تنزانیہ کے سحر میں گرفتار تھے جہاں جولیس نیررے کی یک جماعتی سوشلسٹ حکومت قائم تھی اور جو اس امر سے اتنے آگاہ نہیں تھے کہ اُس کے دیہی سوشلسٹ معیشت کے اُصول کسی طرح ملکی معیشت کو بدحالی کی طرف دھکیل رہے تھے۔ آزادی کی جنگیں یورپی نوآبادیات کے آخری وجود پرتگال کو بھی باہر نکال پھینکنے کے مرحلے سے گزر رہی تھیں مگر موزمبیق اور انگولا جیسے ممالک میں صرف مارکسی اور آمرانہ گریکسینی ہی کامیاب ہو رہی تھیں نہ کہ جمہوری۔ پرتگال کی نئی فوجی حکومت نے ۱۹۷۵ء میں جیسے ہی اپنی فوجیں موزمبیق اور انگولا سے واپس بلا لیں، ان ممالک نے ان مارکسی جماعتوں کے زیرسایہ آزادی حاصل کر لی جو کہ امریکی پشت پناہی رکھنے والی نسلی اور نظریاتی قوتوں سے خانہ جنگی کر رہی تھیں۔ ستمبر ۱۹۷۴ء میں جو ان انقلابی فوجی افسرو ں نے جو مارکسی نظریات سے متاثر تھے اور جلد ہی سوویت یونین کے حلیفوں میں شامل ہونے والے تھے تباہ کن طویل خشک سالی اور قحط کے بعد ایتھوپیا کے طویل مدت تک حکومت کرنے والے مغرب نواز شہنشاہ ہیلے سیلاسی (Haile Selassie) کا تختہ اُلٹ کر اُس کی چار عشروں سے زیادہ حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔
جس وقت ہیلے سیلاسی کی حکومت کا خاتمہ ہوا اُس وقت افریقی صحرائے اعظم کے تمام جنوبی ملکوں میں فوجی یا یک جماعتی حکومتیں تھیں۔ یہی حال عرب دنیا کا تھا جہاں صرف لبنان ہی ایسا ملک تھا جہاں جمہوریت تھی اور وہ بھی ملک کے اندر خانہ جنگی شروع ہونے کے ساتھ جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی تھی۔ زیادہ وسیع طورپر مشرق وسطیٰ میں جمہوریتیں تھیں اور اسی طرح اسرائیل اور ترکی میں بھی مگر اسرائیل کو ثقافت اور ترقی کے درجے کے حساب سے مغربی ملک تصور کیا جاتا تھا۔ ترکی جدید ترقی کی راہ پر گامزن اورغیرمذہبی (Secular) مسلمان ملک کے حوالے سے زیادہ حوصلہ کن مثال کی حیثیت رکھتا تھا، مگر اس کی جمہوریت اچھے خاصے فوجی اثرات کی حامل تھی اور ۱۹۷۰ء کی دہائی کے دوسرے نصف کے دوران بڑھتے ہوئے نظریاتی فاصلوں ، تشدد کے واقعات اور دہشت گردی کی دلدل میں دھنسنے کی بنا پر جس میں ستمبر ۱۹۸۰ء کی فوجی بغاوت تک پانچ ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے تھے ترکی کا ماڈل بھی ہلچل کا شکار ہوگیا۔
(
جاری ہے )