خبر نامہ
سرسید نے تعلیم کو عام کر کے شعوری بیداری سے ملت اسلامیہ کو خود اعتمادی سے لیس کیا، ڈاکٹر انوار احمد
برصغیر پاک و ہند میں ملت اسلامیہ کی خود شناسی کا آغاز سرسید احمد خاں سے ہوا۔ سر سید نے اپنی فراست ، محنت، اولوالعزمی ، علمیت اور شخصی جاذبیت سے مسلمانوں کی سوچوں کا رُخ موڑ دیا۔ اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انکی ہمہ جہت شخصیت متنازعہ فیہ رہی۔ اہلِ نقد و نظر فکری اختلاف کے باوجود اس امر پر متفق ہیں کہ سرسید کی شخصیت ایک تہذیبی ادارے اور انجمن کی سی ہے جس نے ہماری زندگی کے رخ کو موڑنے، اس میں نئے مزاج کو سمونے اور اسے زمانے کے ساتھ آگے بڑھانے، اپنی ذات سے بلند ہو کر مسلسل کوشش کرنے کی طرح ڈالی۔ یہ وہی فکر اور تحریک ہے جس کے ساتھ ہم نے تبدیلی کا ایک طویل سفر طے کیا ۔ یونیورسٹی آف گجرات نے سرسید کی بازیافت کے حوالے سے ان کے ایک سو چورانوے یوم پیدائش پر فکر انگیز سیمینار کا اہتمام کیا ۔ جامعہ گجرات کے مرکز مطالعہ تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات (CHIP) کے زیر انتظام منعقدہ سیمینار کی صدارت صدرنشین مقتدرہ قومی زبان ڈاکٹر انوار احمد نے کی جبکہ مذہبی عمرانیات کے ماہر LUMS کے ڈاکٹر باسط بلال کوشل اور کالم نگار خورشید ندیم مہمان مقررین تھے۔ سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے رئیس الجامعہ ڈاکٹر محمد نظام الدین نے کہا کہ سر سید نے اپنی فکر اور تحریک کے ذریعے مایوسی، غلامی اور تقلید کی زنجیروں میں جکڑے لوگوں کو ایک نئی زندگی کی بشارت دی۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک ہم اندھی تقلید کی زنجیروں کو نہ توڑیں گے اصلاح کا کوئی کام نتیجہ خیز ثابت نہ ہو گا ۔ اسی طرز فکر کے باعث ان پر کفر کے فتوے لگے لیکن ان کے کفر نے ایمان کے نئے راستے کھول دیئے۔ ہمارے معاشرے میں عمل اور حرکت کی ایک موج پیدا ہوئی ۔ آج بھی ہم جن سماجی و فکری اور سیاسی و مذہبی مسائل کا شکار ہیں اس کے تدارک کے لیے بھی ہمیں سر سید جیسی ہمہ جہت، اعتدال پسند، روشن خیال اور منطقی شخصیت و فکر کی ضرورت ہے ۔ اسی ضرورت و تناظر کے پیش نظر آج کے سیمینار کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔ ڈاکٹر انوار احمد کا کہنا تھا کہ سر سید احمد خاں روح عصر کے نمائندہ مصلح تھے وہ اپنے عہد کا بہتر شعور رکھنے والے انسان تھے۔ سر سید نے مجتہدانہ انداز فکر اور حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کیا اور مسلمانان ہند کو جینے کے آفاقی اطوار اپنانے کی تلقین کی ۔ سر سید جنگ آزادی کے بعد کی مایوسی کے عالم میں خضر راہ بن کر ابھرے اور تعلیم کو عام کرکے شعوری بیداری سے بر صغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کو خود اعتمادی سے لیس کیا ۔LUMS لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر باسط بلال کوشل نے کہا کہ حقیقی کامیابی شناخت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ آج کی عالمگیریت نے اقوام و افراد کو شناخت کا بحران دیا ہے ۔ سر سید ایسے دور بیں اور دور اندیش انسان تھے کہ انہوں نے انیسویں صدی میں اکیسویں صدی کی گلوبلائزیشن میں ملی و انفرادی شناخت کے ساتھ جینے کی تیاری شروع کرنے کی تلقین کی ۔ کامیابی محض بے معنی ہے ۔ فرد اور اقوام کی حقیقی ترقی شناخت کے ساتھ نسبت رکھتی ہے ۔ سرسید بے مہار جدیدیت کی بجائے ملی شناخت کے ساتھ جدید ہونے کا درس دیتے رہے ۔ آج فکر سر سیدہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم آفاق میں اپنا مقام تلاش کریں مگر اپنی شناخت گم کیے بغیر ۔ یہی فکر سر سید کی عہد حاضر میں حقیقی مطابقت ہے۔ کالم نگار ، ادارہ تحقیقات اسلامیہ بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے مشیر خورشید ندیم نے سر سید کی مذہبی فکر کا جائزہ لیااو رکہا کہ سر سید کے افکار و اعمال کا مطالعہ اور جائزہ تقاضا کرتا ہے کہ آج سر سید احمد خاں کی دریافت نو ہی قوم کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ سر سید نے ۵۲ مسائل میں اختلاف کیا ان میں سے ۴۱ ایسے ہیں جن میں دیگر آئمہ و علماء میں پہلے سے اختلاف ہے صرف گیارہ مسائل ایسے ہیں جن پر سر سید نے نیا اختلاف کیا ۔ اختلاف کرنا اور شاذ رائے رکھنا اہل علم کے نزدیک عیب نہیں ہے ۔ سر سید کا دل محبت و خلوص سے سرشار تھا وہ دین اسلام پر فخر کرنے والے مسلمان تھے ۔سر سید کی جدوجہد کا سبق یہی ہے کہ انسانوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی انقلاب سے نہیں اصلاح و ارتقاء سے آتی ہے سر سید کا خیال متحرک تھا وہ فکر تازہ سے جہان نو آباد کرنے کے آرزو مند تھے ان کے خیال میں تعلیم اور شعور کی بیداری ہی اقوام کی ترقی کا کامیاب نسخہ ہے ، کمزور اقوام کو پہلے خود علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کامیابی سے مستحکم ہونا ہو گا اسکے بغیر موت کو گلیمرائز کر کے قوم کو لڑانا مناسب نہیں۔ آج ہمیں سر سید جیسے اصحاب فکر و عمل کو دریافت کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ڈائریکٹر CHIP پروفیسر سید شبیر حسین شاہ نے کہا کہ سر سید احمد خان مسلمانوں کے دور ابتلاء کے دانشور ہیں جب نو آبادیاتی نظام جڑیں پکڑ چکا تھا۔ سر سید کے افکار کو سمجھنے کے لیے جمال الدین افغانی اور محمد عبدہٌکو سمجھنا ہو گا ان دونوں نے اپنے اپنے علاقوں میں نو آبادیاتی جبر کے خلاف مسلمانوں کی حکمت عملی کا لائحہ عمل پیش کیا۔ رجسٹرا رجامعہ گجرات محمد اکرم بھٹی نے کہا کہ غیرمعمولی بصیر ت کے حامل سر سید نے ۱۸۵۷ء کے فوراً بعد کے زمانہ کی تاریکی سے نکلنے کا راستہ سمجھایا۔ یہ پر آشوب زمانہ ایک ناکام انقلاب سے پیدا ہوئے اضطراب و اذیت سے عبارت تھا اور اس کام کے لیے انہوں نے ہوشمندانہ حکمت عملی اختیار کی جس کے سہارے ایک دم توڑتی روایت کی ۔ دلدل اور مصنوعی جدیدیت کے بھنور دونوں سے ہی بچا جاسکتا تھا ۔ آج مسلمان ایسی ہی ملتی جلتی کیفیت میں پر آشوب دور سے پھر گزر رہے ہیں مگر افسوس کہ آج ہمارے درمیان کوئی سر سید نہیں ہے ۔ سیمینار میں سر سید کی حیات و خدمات پر پرویز اور زبیر امانت کی تیار کردہ دستاویزی فلم بھی دکھائی جسے شرکاء نے پسند کیا اور خوب داد دی ۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ایڈیشنل رجسٹرار میڈیا شیخ عبدالرشید نے سر انجام دیے۔
علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن ، امریکہ کا سالانہ مشاعرہ
علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں بھی بھرپور جذبے کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ اس تنظیم کا قیام۱۹۷۵ء میں عمل میں آیا اور اس کے روح رواں ڈاکٹر عبداللہ اپنے رفقاء کے ہمراہ اسے فعال رکھنے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی مشاعروں کا انعقاد کرتی ہے جس میں پاکستان او ربھارت کے نمایا ں شعراء کے علاوہ مقامی شعراء بھی شریک ہوتے ہیں بلکہ تنظیم مسلمان طلباء و طالبات کے لیے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کی خاطر وظائف بھی فراہم کر رہی ہے۔ تاہم علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کی اصل پہچان وہ سالانہ مشاعرے ہی ہیں جن کا کامیابی کے ساتھ مسلسل اہتمام اس تنظیم کے لیے یقیناً باعث افتخار ہے۔ ایسے ہی ایک مشاعرے کا اہتمام ۱۲؍ اکتوبر کو میری لینڈ کی یونیورسٹی آف شیڈی گروو کے ہال میں کیا گیا جس کی صدارت پاکستان سے آئے ہوئے معروف شاعر افتخار عارف نے کی۔ مشاعرے کے آغاز میں ایسوسی ایشن کے اراکین نے علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ گایا جسے اسرارالحق مجاذ نے لکھا تھا۔ اس ترانے کے دبیز الفاظ اور مدھم سروں نے حاضرین پر ایک عجب کیفیت طاری کر دی۔ ترانے کے بعد ڈاکٹر معظم صدیقی نے نامور علیگیرین ڈاکٹر موہن کے بارے میں چند واقعات سے حاضرین کو متعارف کرایا۔ ایسوسی ایشن کے روح رواں ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ ایسوسی ایشن کی روایت کے مطابق پاکستان اور بھارت بھی دو دو شعراء کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ پاکستان سے افتخار عارف اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو دعوت دی گئی۔بھارت سے آنے والے شعراء میں اشوک نرائن اور نذیر باقری شامل تھے۔ان کے علاوہ مشاعرے میں جمیل عثمان، ڈاکٹر رضی الدین، رشمی سانند، بانو ارشد، ڈاکٹر صبیحہ صبا، اکرم محمود اور ڈاکٹر سلمان اختر نے اپنا کلام سنایا۔
۔۔۔ شبیر جیلانی
پاکستان میں سبکدوش ہونے والے ایرانی سفیر اور نئے کلچرل قونصلر کا دورۂ مقتدرہ
پاکستان سے سبکدوش ہونے والے ایرانی سفیر محترم ماشا اللہ شاکری نے اپنے وفد کے ہمراہ مقتدرہ قومی زبان کا دورہ کیا اور صدر نشین مقتدرہ ڈاکٹر انوار احمد سے الوداعی ملاقات کی ۔ ایرانی سفیر نے اپنے اعزاز میں دی گئی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو قومیں اپنی مادری زبان میں تعلیم اور سرکاری امور سرانجام دیتی ہیں وہ قومیں دنیا میں سربلندہوتی ہیں۔ اقبال نے اُمت مسلمہ کی بیداری کا جو خواب دیکھا تھا وہ دنیا کے مختلف حصوں میں تبدیلیاں لارہاہے یا تبدیلیوں کا موجب بن رہا ہے ۔ خود انقلاب ایران کا سرچشمہ فکر اقبال ہے اس موقع پر انھوں نے اقبال کی دو نظموں شمع و شاعر اور طلوع سحر سے اشعار بھی پڑھ کر حاضرین کو سنائے ۔ مقتدرہ کے صدر نشین ڈاکٹر انوار احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی ارتباطِ علمی کو بڑھانا چاہیئے اوراردو کے ساتھ فارسی زبان و ادب کوبھی فروغ دینا چاہیئے ۔ تقریب میں افتخار عارف ، احسان اکبر ، جلیل عالی ، بشیر حسین ناظم اور دیگر دانشوروں اور ادیبوں نے بھی شرکت کی۔قبل ازیں ایرانی سفارت خانہ کے سبکدوش ہونے والے کلچرل قونصلر آقائے نوری اور پاکستان میں نئے تعینات ہونے والے قائم مقام ایرانی کلچرل قونصلر اور مرکز تحقیقات فارسی پاکستان کے ڈائریکٹر قھرمان سلیمانی نے مقتدرہ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر انوار احمد نے نئے کلچرل قونصلر اور ان کے وفد کو مقتدرہ میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان کے ثقافتی تعلقات بہت پرانے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فارسی اور اردو ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث ہیں اور فارسی زبان میں سائنسی علوم میں جو کام ہو رہاہے اس سے مقتدرہ استفادہ کر نا چاہتا ہے۔ نئے ایرانی کلچرل قونصلر نے مقتدرہ کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ زبان کی ایک علمی صورت ہوتی ہے اور دوسری ظاہری۔ ظاہری صورت اس زبان کے رسم الخط سے عیاں ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو اور فارسی میں ایک قدر مشترک ہے وہ ہے رسم الخط ایران میں خوش نویسی ایک باقاعدہ علم کے طور پر موجود ہے اور انجمن خوش نویسیان بہت متحرک ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے خوشنویس اس ضمن میں ایک دوسرے کے فن سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔
تین سائنس دانوں کے لیے نوبل انعام برائے طب /فعلیات
اس سال طب /فعلیات کا نوبل انعام مشترکہ طور پر تین سائنسدانوں کو دیا گیا جن میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے بروس بیوٹلر فرانس کے جیولس ہاف مین اور کینیڈین نژاد امریکی سائنسدان رالف اسٹائن مین شامل ہیں۔ ان تینوں سائنسدانوں نے بنیادی طور پر انسانی جسم کے مدافعتی نظام کی صلاحیت کے مختلف پہلوؤں پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ سائنسدان ایک طویل عرصے سے انسانوں اور دیگر جانوروں کے مدافعتی ردِ عمل کو جاننے کی جستجو میں تھے کہ کس طرح اس نظام کی مدد سے کوئی جاندار ، بیکٹیریا اور دیگر خرد بینی جانداروں کے خلاف اپنا دفاع کرسکتا ہے۔ بروس بیوٹلر اور جیولس ہاف مین نے ان در آور (Receptor) پروٹین کو دریافت کیا جو خرد بینی جانداروں کو شناخت کر کے فطری مدافعتی نظام کو فعال حالت میں لانے کا سبب بنتی ہیں۔ کسی بھی مدافعتی نظام کو فعال حالت میں لانا ہی درحقیقت اس نظام کی تمام سرگرمیوں کا پہلا قدم شمار ہوتا ہے۔ رالف اسٹائن مین نے مدافعتی نظام کے شجری خلیوں (Dendritic Cells ) سے مراد عصبیوں کے شجریوں میں سے بال کی مانند باریک کوئی شاخ جس کے ذریعے عصبی خلیات کے جسمیوں کوحسی پیغامات پہنچتے ہیں) اور ان کی اس منفرد صلاحیت کو دریافت کیا ہے جس کی بنیاد پر توافقی مدافعت (Adaptive Immunity) کو سرگرم اور باقاعدہ بنایا جاسکتاہے۔ توافقی مدافعت ، مدافعتی ردِعمل کا وہ مرحلہ ہے جہاں کسی بھی خرد بینی جاندار کو جسم میں سے ختم کردیا جاتا ہے۔ ان تینوں سائنسدانوں کی دریافت کردہ معلومات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی مدافعتی ردعمل کے فطری اور توافقی مراحل کس طرح سرگرم ہوتے ہیں اور یہ مراحل کسی بھی بیماری کی وجوہات کو گہرائی تک جاننے کے لیے اہم ذریعہ ہیں۔ان تینوں سائنسدانوں کی تحقیق نے طب کی دنیا میں ایک باب کا اضافہ کیا ہے۔ ان کی تحقیق کی مدد سے کینسر، سوزشی امراض ، انفیکشن کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کی روک تھام اور ان کے علاج معالجے کے سلسلے میں نئے امکانات سامنے آئے ہیں۔
ہم خطروں سے گھری دنیا کے باسی ہیں جہاں ہمیں بیماریاں پیدا کرنے والے خرد بینی جانداروں(بیکٹیریا) ، وائرس، فنجائی اور طفیلی جانداروں سے مسلسل خطرات درپیش ہیں لیکن ہم فطری طور پر ایک مضبوط مدافعتی سے بھی لیس ہیں۔ اس مدافعتی نظام کے کام کی صلاحیت کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ مدافعتی نظام کا پہلا سلسلہ فطری مدافعتی نظام پر مشتمل ہے۔ جو جسم میں داخل ہونے والے کسی خرد بینی جاندار کو نہ صرف ختم کرتے ہیں بلکہ سوزش پیدا کرکے ان کی یورش کو روک دیتے ہیں۔ اگر خرد بینی جاندار اس فطری مدافعتی نظام کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس صورت حال میں توافقی مدافعت کا نظام فعال حالت میں آجاتاہے۔ یہ نظام اپنے ٹی (T) اور بی (B) خلیوں کی مدد سے ضد حیاتیہ (Antibodies) اور قاتل خلیوں کو جنم دیتا ہے جو انفکیشن کی وجہ سے بننے والے خرد بینی جانداروں کو تباہ کردیتے ہیں ۔ توافقی مدافعت کا یہ نظام نہ صرف خرد بینی جانداروں کے حملوں کا مقابلہ کرتا ہے بلکہ مدافعتی یادداشت کا ایک ایسا نظام بھی وضع کرتا ہے جو ایسے ہی خرد بینی جانداروں کے دوسری بار حملہ کے موقع پر ایک زیادہ تیز اور مضبوط مدافعتی قوتوں کو فعال کرتا ہے۔ مدافعتی نظام کے یہ دو سلسلے بنیادی طور پر حفاظت کا بہتر ین ذریعہ ہیں۔
۔۔۔ عظمت زہرا
یوٹیوب (U-tube) کا اردو سائنس چینل
اپنے بچوں کو انتہائی آسان فہم انداز میں سائنس سمجھانے کے لیے ادارہ تحقیق و تخلیق کے منتظم کا اردو سائنس چینل جاری کیا ہے۔درج ذیل عنوانات کے تحت یوٹیوب چینل چلائیں اور وطنِ عزیز کے نونہالوں کو عام فہمِ سائنس کے ذریعے تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں سے بہرہ مند کریں۔سائنس برائے جماعت سوم ،سائنس برائے جماعت ششم ،سائنس برائے جماعت ہشتم ۔علامہ اقبالؒ کی بچوں کی نظمیں انتہائی دلچسپ انداز میں بصری ریشے برائے ایم ایس سی و الیکٹرانکس کے متفرق کورسز کمبیشی (کمی +بیشی) برائے ایم ایس سی و دیگر کورسز، جانوروں کا انسائیکلو پیڈیا (بچوں کے لیے) ،اردو مزہ حصہ اول تا چہارم ،پنجابی مزا حصہ اول تا چہارم ،اردو محاورات اور ضرب الامثال کی دلچسپ ویڈیوز، پنجابی محاوروں کی دلچسپ ویڈیوز، محترمہ ثروت سلیم صاحبہ (ماہرِ تعلیم) کا انٹرویو ، اج آکھاں وارث شاہ نوں ، شرابِ کہن پھر پلا ساقیا (کلام اقبال منفرد انداز میں)،تجھے یاد کیا نہیں ہے میرے دل کا وہ زمانہ (کلامِ اقبال) سائنس برائے جماعت سوم مکمل، سائنس برائے جماعت پنجم مکمل ، فزکس برائے جماعت نہم و دہم مکمل ، فزکس برائے جماعت گیارہویں و بارہویں، مٹی دی خوشبو، سائنسی لغت اور بہت کچھ جو تعلیمی میدان میں آپ کی زبردست رہنمائی اور معاونت کرے۔زیادہ تر کورسز مائیکروسافٹ پاور پوائنٹ کی شکل میں ہیں۔ایک ایک لفظ کی وضاحت جدید ترین تصویروں اور متعلقہ ویڈیو فلموں کے ذریعے کی گئی ہے۔یہ تمام کورسز tahqeeqotakhleeq. blogspot. com سے مفت داؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔
مقتدرہ اور گجرات یونیورسٹی کے درمیان علمی منصوبوں پر مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
مقتدرہ قومی زبان اور گجرات یونیورسٹی گجرات کے مابین ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے جس کے مطابق دونوں ادارے باہمی دلچسپی کے امور پر مل کر کام کریں گے ۔جن میں مشترکہ اشاعتی منصوبے ‘ تحقیقی پراجیکٹ سیمیناروں؍ کانفرنسوں اور ورکشاپوں ، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے تعاون کی راہیں تلاش کرنا ،موجودہ سہولتوں اور تجربات تک ایک دوسرے کی رسائی کو آسان کرنا ، مقتدرہ قومی زبان گجرات یونیورسٹی میں اردو میں علاقائی زبانوں کا شعبہ یا مرکز قائم کرنے میں معاونت فراہم کرے گا ،گجرات یونیورسٹی کی لائبریری میں مقتدرہ قومی زبان کی کتب کا ایک شعبہ قائم کرنا ، گجرات یونیورسٹی میں کتاب میلہ کا انعقاد کرنا تاکہ کتاب کلچر کو فروغ ملے ،اس کے علاوہ باہمی دلچسپی کے دیگر امور شامل ہیں ۔ مفاہمت کی اس یادداشت پر مقتدرہ قومی زبان کی طرف سے مقتدرہ کے صدر نشین ڈاکٹر انوار احمد اور گجرات یونیورسٹی کی طرف سے وائس چانسلر ڈاکٹر نظام الدین نے دستخط کیے ۔
ڈاکٹر انوار احمد کے اعزاز میں تقریب
صدرنشین مقتدرہ کے اعزاز میں ہوٹل اکبر انٹرنیشنل راولپنڈی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت نامور شاعر حلیم قریشی نے کی۔ڈاکٹر انوار احمد نے کہا کہ مقتدرہ قومی زبان کے جریدہ اخبار اردو کو نئے خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ معین راستوں سے ہٹ کر ادبی نگارشات کو بھی جگہ دی جا رہی ہے۔ کتابوں پر تبصروں کے لیے تمام اہل قلم کو دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ خصوصاً نئی کتابوں پر سیر حاصل گفتگو کریں تاکہ اہل قلم کی کتابوں کی تشہیر ہو سکے اور قاری خود کتاب کے مصنف تک پہنچنے کی کوشش کرے ۔ اخبار اردو پہلے زیادہ تر اعزازی بھیجا جاتا تھا مگر اب یہ سلسلہ بند کر دیا گیا ہے اور اس کا دائرہ یونیورسٹیوں کے طالب علموں اور اساتذہ تک بڑھایا جا رہاہے۔ اخبار اردو کی ممبر سازی کے لیے آپ میری مدد فرمائیں۔ صاحب صدر شاعر حلیم قریشی نے ڈاکٹر انواراحمد کے خیالات کی نہ صرف تائید کی بلکہ تعاون کے لیے ممبر بننے کا اعلان کیا ۔ سحر صدیقی نے ڈاکٹرانوار احمد کی مقتدرہ کے لیے مساعی کی تفاصیل بیان کیں کہ وہ کس طرح اخبار اردو کے لیے مخیر حضرات تک پہنچ رہے ہیں۔ تقریب سے علی تنہا، ڈاکٹر روش ندیم، مصباح مرزا، نواز شاہد، اشکر فاروقی، خالد سردار اور میزبان پروفیسر شوکت مہدی نے بھی اظہار خیال کیا۔
نائب معتمد مقتدرہ ڈاکٹر راشد حمید کے لیے
قومی صدارتی اقبال ایوارڈ۲۰۰۸ء
وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے ایوانِ اقبال میں اقبال اکیڈمی پاکستان کے زیرِ اہتمام ’’قومی صدارتی اقبال ایوارڈ کی تقریب ‘‘میں مقتدرہ قومی زبان کے نائب معتمد ڈاکٹر راشد حمید کو ان کی کتاب ’’ اقبال کا تصور تاریخ‘‘پر قومی صدارتی اقبال ایوارڈ ۲۰۰۸ء دیا ۔ اس موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان نے ڈاکٹر راشد حمید کے تحقیقی کام کو بہت سراہا اور فکرِ اقبال پر تحقیقی کام کوآگے بڑھانے پرتعریف کی ۔
اطالوی مصنفہ ڈاکٹر سبرینالی پروین شاکر سمیت پاکستانی شاعری اور ادیبوں کی تخلیقات کا اطالوی میں ترجمہ کر یں گی
اطالوی سکالر ڈاکٹر سبرینالی پروین شاکر سمیت پاکستانی شاعروں ادیبوں کی تخلیقات کااطالوی زبان میں ترجمہ کریں گی۔ پروین شاکر ٹرسٹ کی چیئر پرسن ڈاکٹرپروین قادر آغا نے اس امر کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ کسی اطالوی سکالر کی جانب سے پروین شاکر کی شاعری کا اطالوی میں ترجمہ ہونا بڑی پیش رفت ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر سبرینالی قبل ازین بھی علامہ اقبال سمیت متعدد پاکستانی شاعروں اور ادیبوں کی کتب کا اطالوی زبان میں ترجمہ کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر لی جو کہ نو مسلم اطالوی فلاسفر اور محقق ہیں، روم میں ایک تحقیقی ادارے کی بانی دائریکٹر بھی ہیں۔
فاروق حسن کینیڈا میں انتقال کر گئے
اردو کے معروف شاعر، مترجم اور صحافی فاروق حسن کینیڈا میں انتقال کر گئے۔ فاروق حسن اردو کے عہد ساز شاعر م ن راشد کے داماد تھے اور کینیڈا کی میگ گِل یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ انھوں نے ن م راشد کی نظموں کے انگریزی میں تراجم کیے، ان کی اردو شاعری کی کتاب’’اچھی بری نظمیں‘‘ بہت مشہور ہوئی۔ مقتدرہ قومی زبان کے صدرنشین ڈاکٹر انوار احمد ، ممتاز شاعر افتخار عارف اور اسلام آباد کی ادبی تنظیموں نے فاروق حسن کی رحلت کو بڑا قومی نقصان قرار دیا ہے۔
منشا یاد نے نئے لکھاریوں کے لیے ایک راہ متعین کر دی
مرحوم نے ادب پر گہرے نقوش چھوڑے، مقتدرہ کے تعزیتی جلسے میں مقررین کا اظہار خیال
ممتاز ادیب ، شاعر، ڈرامہ نویس و ناول نگار منشا یاد کی یاد میں مقتدرہ قومی زبان میں تعزیتی اجلاس کا اہتمام کیا گیا، جس میں مرحوم کے اہل خانہ کے علاوہ راولپنڈی، اسلام آباد کی علمی و ادبی شخصیات زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی تقریب سے مقتدرہ قومی زبان کے صدرنشین ڈاکٹر انوار احمد،ڈاکٹر رشید امجد، اشفاق سلیم مرزا، احسان اکبر، جلیل عالی، پروفیسر یوسف حسن، سرفراز شاہد، وقار بن الٰہی، علی اکبر، ڈاکٹر عامر شکیل، خلیق الرحمن، فرخ جمیل، مشتاق بھٹی، خرم جمیل، انوار فطرت، منظر نقوی، حمید قیصر، عابدہ تقی سمیت دیگر ادبی و علمی شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ مقررین نے مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہوا کا ایک لطیف جھونکا تھے جنھو نے نہ صرف ادبی میدان میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں بلکہ ایک راہ متعین کر دی ہے جس پر چل کر ادب کی بہتر خدمت کی جا سکتی ہے۔
علی اکبر ناطق کے ساتھ ایک شام
ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن ’’سیفما‘‘ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں اردو کے نوجوان شاعر علی اکبر ناطق کے ساتھ ایک شام منائی گئی جس میں ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’بے یقین بستیوں میں ‘‘ پر تنقیدی مضامین پڑھے گئے۔ تقریب کا اہتمام اشفاق سلیم مرزا نے کیا ۔ جس کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف نے کی جبکہ مہمان خصوصی اقبال آفاقی تھے۔ افتخار عارف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ علی اکبر ناطق اکیسویں صدی کے نوجوان شعراء میں نمایاں طو رپر اپنا اسلوب اور اپنے موضوعات لے کر آیا ہے۔ اس کی شاعری میں کسی کی نقالی کے آثار نہیں ملتے۔ وہ ایک حقیقی اور جاندار شاعر کے طور پر اپنے آپ کو منوا رہا ہے۔ تقریب میں منظر نقوی، اشفاق سلیم مرزا، حارث خلیق، انوار فطرت، اختر عثمان اور ادریس بابر نے مضامین پڑھے۔ تقریب کے آخر میں صاحب تقریب علی اکبر ناطق نے اپنے کلام کے ذریعے سامعین کو محظوظ کیا۔
محمد اسلام نشتر کے والد محترم انتقال کر گئے
اردو کے ممتاز سکالر ، محقق اور مقتدرہ قومی زبان کے نائب ناظم محمد اسلام نشتر کے والد محترم ۸؍نومبر ۲۰۱۱ء منگل کی صبح لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال پر مقتدرہ قومی زبان کے افسران اور عملہ نے دلی رنج و غم کا اظہار کیا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت کرے ،ان کے درجات بلند کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے۔