اقبال اور فیض
ایک مرشد ، ایک مونس
یہ گنبدِ مینائی، یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی !
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلہ سینائی ، میں شعلہ سینائی !
تو شاخ سے کیوں پھوٹا ، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی ، ایک لذتِ یکتائی !
غواصِ محبت کا اللہ نگہبان ہو
ہر قطرہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اُٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
ہے گرمیِ آدم سے ہنگامہ عالم گرم
سورج بھی تماشائی ، تارے بھی تماشائی
اے بادِ بیابانی!مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی ، سرمستی و رعنائی !
میرا سٹوڈیو آوازوں سے بھر جاتا ہے۔ اتنی آوازیں ازل سے ابد کو رواں دواں، آوازیں ہی آوازیں۔ کسی کے ہونے کی آوازیں۔ کسی کے اقرار کی آوازیں اور کسی کے اثبات کی ۔ اقرا۔ اقرا وربک الاکرم۔ مَیں ’’بال جبریل‘‘ کھولتا ہوں اور مسجد قرطبہ کا ایک ورق نکال کر کینوس کے وسط میں چسپاں کرتا ہوں۔ پڑھتا ہوں اور سوچتا ہوں۔ یہ شاعری ہے یا پیغمبری؟ اور اس سوال کے ساتھ ہی کینوس پر چسپاں ورق پر حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے شاعری اپنے تمام محاسن سمیٹ کر حاشیہ میں جمع ہو جاتی ہے اور خالی کردہ جگہ پر ایک کھڑکی نمودار ہو جاتی ہے۔ اس میں اس شاعری کا متن ایک ایسا منظر بن کر پھیل جاتا ہے جس میں فرش سے عرش کی جانب عظمت پذیر خاک زادے کو شمس و قمر و نجوم سجدہ کرتے اور کرّوبیاں مبارک باد کہتے نظر آتے ہیں۔ یہاں الہام اور القا آپس میں ایک ہوتے ہوتے پھر جدا ہو جاتے اور جدا ہو کر پھر ہم آہنگ ہونے کی تگ و دو میں دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ایک معرکہ وجود کے ہر طور سینا پر تجلی کا منتظر کلیم دکھائی دیتا ہے۔ اچانک یہاں خودی کے ایک ٹیلے کی اوٹ سے میرا مرشد حکیم نَے نواز نکل کر میرے آگے آگے چلنے لگتا ہے اور میں اس کے نقش قدم پر چلتا ہوا اس کے دشتِ جنوں میں داخل ہو جاتاہوں۔ اقبال میرا مرشد ہے اور میرے مرشد کے دشت جنوں میں ’’جبریل زبوں صیدے‘‘ اور ’’یزداں بکمند آوراے ہمت مردانہ‘‘ کا نعرہ مستانہ گونجتا ہے۔ میرا مرشد دانائے راز ہے۔ وہ کائنات کے ناتمام ہونے کاشعور رکھتا ہے۔ وہ رنگ و بو کے قافلے کا مدعا اور منتہا جانتا ہے۔ وہ عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور بھی جو زمانے ہیں، جن کا کوئی نام نہیں، وہ انھیں دیکھتا ہے اور جو حادثہ رونما ہونے کے لیے ابھی پردہ افلاک میں ہوتا ہے اس کے عکس سے اپنے آئینہ ادراک میں دیکھ لینے والا دیدۂ بینا ہے۔ وہ پرندوں کے سینوں میں ہاوہو کی صورت میں اپنے لیے آواز پہچانتا اور برگ لالہ پر لکھا ہوا اپنے نام پیغام پڑھ لیتا ہے۔ اس لاشریک کا پیغام جس سے ہم کھوئے گئے ہیں جو ہماری جستجو میں ہے۔ ایسی ہی بالا (Above)اور ماورا (Beyond)کی منزلوں میں اقبال میرا مرشد ہے۔ میں اس کا ایک مرید ہوں میں ایک اُمّی اور اس کا مصور ہوں۔ میں ابھی خاموشی و دل سوزی اور سرمستی و رعنائی کے لیے باد بیابانی کی چشم عنایت کا منتظر ہوں۔ مجھے سکوت لالہ و گُل سے کلام کرنے کی زبان ابھی نہیں آئی ہے اور ابھی اس قابل نہیں ہوں کہ کہہ سکوں ع
میں صورتِ گل ’’دستِ صبا‘‘ کا نہیں محتاج
اس لیے میں اپنے مرشد سے نظریں بچا کر نکلتا ہوں اور ’’دست صبا‘‘ کی انگلی تھام کر فیض احمد فیض کے پاس چلا آتا ہوں۔ فیض کو پینٹ کرنا ایک اور نایاب تجربہ ہے جس میں تخلیقی عمل کی نشاطِ کار، از خود قلم کی نوک سے ٹپکتی اورشہر قرطاس پر اپنا راستہ آپ بناتی کوئے یار سے سیدھی فراز دار پر جا نکلتی ہے۔۔۔ فیض احمد فیض ایک پوئینر پوئٹ ہے۔ مثلاً اس کی جگہ کوئی شاعر اور ہوتاتو کہتا: ’’جب پڑی تیری راہوں میں شام ستم‘‘ یا پھر یوں کہتا : ’’جب کُھلی تیری راہوں میں شام ستم‘‘ لیکن فیض نے اس کو یوں کہا ہے ۔ ’’ جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم‘‘۔ گویا شعر کیا کہا واٹر کلر میں شام ستم پینٹ کر کے رکھ دی۔
فیض کے کلام میں رنگوں کا ایک جہان آبا د ہے، جس میں نیلے سے پیلا، پیلے سے سرخ اور سرخ سے نیلا مل جل کر یوں بکھر جاتاہے کہ ہجر ووصال کی تفسیر کی بے ساختہ تصویر بنتی چلی جاتی ہے۔ کلام فیض بلاشبہ ایک اوپن پلیٹ (Open Plate)ہے جو مصور کے سامنے خود بخود رنگوں کا ایک خزانہ کھولتی چلی جاتی ہے۔ اندھیرے اور اجالے، دھوپ اور سائے کی ایک دنیا ہے اور محسوس اور نامحسوس کا ایک ایسا طلسمات ہے کہ اشعار لغت کی بجائے کلربکس سے برآمد ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ حروف اور الفاظ دراصل رنگوں کے قطرے ہیں جو قاری کے دل کے ورق پر عجب وارفتگی کے عالم میں خود سپردگی کی ساری منزلیں با تصویر کرتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔ وصل و فراق کے گلی کوچوں میں تیر الزام اور سنگ دشنام کی بارش میں ایک صوفی کی سی سرمستی میں لڑکھڑانا اور سنبھل سنبھل جانا فیض احمد فیض کا وہ شاعرانہ طرز خرام ہے جو پینٹنگ کے محاورے کے غنائیت میں سر اور تال کا پورا پورا ساتھ دیتا ہے۔ فیض احمد فیض کے چہرے پر اطمینان، تحمل اور تشکر کی تجرید کا غازہ کسی عارف اور صوفی جیسا ہے جو کسی بھی مصور کے لیے دل کشی اور دلچسپی کے ہزار سامان رکھتا ہے۔
علامہ اقبال میرے مرشد ہیں۔ مجھے ان کو پینٹ کرنے کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ ایک مخصوص ذوق و شوق میں شرابور ہو کر انفس و آفاق میں پرواز کرتے ہوئے اپنے زمینی ہونے کے ناتے سے فانی ہونے کا کربِ مسلسل سہنا اور آسمانی ہو کر جاودانی ہونے کی آرزو سے ہم کنار ہو جانا بلاشبہ آسمانوں کے اس پار کا عطیہ ہے۔
یہ عطیہ حاصل کرنے کے لیے میں اپنے رنگ اور اپنا ایزل اٹھا کر اس زمین سے بلند ہو کر کسی نامعلوم کی جانب لیکن پر یقین انداز میں اس طرح بڑھتا ہوں کہ بلندیوں کے مناظر مجھے خوش آمدید کہتے سنائی دیتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک نیا آسمان کُھلتا ہے۔ جس پر چاند ستارے اور آفتاب کہکشاں درکہکشاں میرے منتظر اور مشتاق دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔اقبال مجھے بتاتا ہے کہ شوق پرواز کے اس سفر کی اگلی رفعتوں میں بالآخر وہ منزل بھی آتی ہے جہاں انسان ’’زمان خالص‘‘ یا کائناتی وقت سے بہرہ ور ہو کر آواز اور صداکو رنگوں میں دیکھنے لگتا ہے۔ اقبال میرا مرشد اس لیے ہے کہ وہ یہ کائناتی راز بتا کر میرے ایزل پر کینوس کے رنگوں کو شعور گویائی دیتا ہے اور میرے نقش کے ناطق ہو جانے کا آرزو مند ہے۔
شہر جاناں میں کوچہ قاتل سے ہر روز قتل ہو کر آنا بھی ایک ’’عظیم آمد ‘‘ ہے۔ اس کا نشہ اور سرور ایمان و ایقان کا ایک دل کش دروازہ کھول دیتاہے ، جس میں فیض احمد فیض کھڑا یقین بانٹتا ہے اور میں اس کا ایک مصور وہ سارے داغ وہ سارے دھبے جو اس کے لباس پر سرراہ سیاہی ملے جانے سے پیدا ہوئے ان کو اپنے کینوس پر اتار کر فیض کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چل پڑتا ہوں ۔۔۔ فیض میرا دوست ہے میرامونس اور میرا غم خوار ہے۔ وہ مجھے گلی کوچوں میں، مقتلوں میں، زندانوں میں ۔۔۔ وہ مجھے بازاروں میں ، محفلوں اور مجروں میں لیے پھرتا ہے۔۔۔ وہ والہانہ شرحِ فراق اور مدحِ لب مشک بو کرتاہے۔ وہ مجھ سے رنگ پیراہن کا اور خوشبو زلف لہرانے کانام کیونکر ہے؟ کی وجہ تسمیہ بیان کرتا اس ادا سے چلتا ہے کہ رہ یار قدم قدم یاد گار بنتی جاتی سیدھی مقتل شہر میں جا نکلتی ہے۔
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
اس صورت حال میں ہم جس کی دید و طلب وہم سمجھنے لگے تھے وہ روبرو آتا سر راہ دکھائی دینے لگتاہے۔۔۔ صبح فردا کو پھر دل ترسنے لگتاہے، عمر رفتہ کا اعتبار سا آ جاتا ہے اور میں اپنے ایزل پر نئے کینوس کا رخ مقتل شہر کی جانب کر لیتا ہوں۔ یہاں سے فیض احمد فیض قتل ہو کے آتاہے اور اس کے نقش قدم پر یہیں سے اسلم کمال قتل ہو کے روزانہ آتا ہے۔ ہم دونوں قتل ہو کے ایک دوسرے کے قریب آئے اور ہم دونوں شہید ہو کے ایک دوسرے کے راز داں بنے ہیں۔
فیض میرا دوست ہے میرا مونس ہے۔ میں فیض صاحب سے کہتا ہوں۔ آپ نے جس بت کو چاہا اور اس کی چاہت میں شاعری کی، میں نے بھی اسی بت کو چاہا اور اس کی چاہت میں مصوری کی۔ ہم دونوں ایک ہی محبوب کے دو عاشق اور آپس میں رقیب ہیں۔ ایک شاعر ایک مصور۔ میں اس کی شبیہ پینٹ کرتا ہوں، آپ میرے ایزل کے پاس بیٹھیں۔ آئیں ہم تنہائی گھونٹ گھونٹ پئیں۔ آئیے ہم دونوں مل کر شرح فراق مدح لب مشک بُو کریں۔
آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
فیض صاحب مجھ سے مخاطب ہو کر بولے :
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کانور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
میں پوچھتا ہوں فیض کیا آپ نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ، زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے ۔ فیض صاحب آپ پر اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں۔ تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے؟ میرے استفسار پر فیض نے نیا سگریٹ سلگایا۔ ایک لمبا کش لیا۔فاعلاتَن فَعَلا تن فَعَلَاتن فِع58لَن۔
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
میں نے پوچھا فیض صاحب میں نے آپ کی نظم ’’تنہائی پینٹ‘‘ کی یہیں کہیں پڑی ہو گی۔ آپ کو دکھاتا ہوں۔ میں یہ تصویر تلاش کرنے اٹھا تو محسوس کیا کہ فیض صاحب یک دم بے چین ہو گئے ہیں اور پھر وہ اٹھے، انھوں نے میرے سٹوڈیو کی کھڑکی سے باہر دیکھا ، رات گہری ہو چکی تھی۔ انھوں نے نیا سگریٹ سلگایا اور کرسی کھینچ کر کھڑکی کے قریب کی اور اس پر بیٹھ کر پھر باہر دیکھنے لگے۔ مجھے کہا، یہاں سے آسماں دیکھو۔ میں نے ان کے اندر کا اضطراب بھانپ کرکہا :
اور کچھ دیر میں لٹ جائے گا ہر بام پہ چاند
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے
عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری
سب ستارے سر خاشاک برس جائیں گے
فیض صاحب بہت زیادہ بے چینی محسوس کرنے لگے۔ انھوں نے ابھی ابھی سلگایا ہوا سگریٹ ایش ٹرے میں دبا کر بجھا دیا۔ فیض کی سلگتی ہوئی دھیمی اور درد ناک آواز اندوہ میں ڈوب کر آلام سے سنورتی اور رسوائی سے رہنمائی پاتی روح میں اتر اتر جاتی ہے اور دلوں کو لہو رلواتی ہے۔
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں
اپنی تنہائی سمیٹے گا، بچھائے گا کوئی
بے وفائی کی گھڑی، ترک مدارات کاوقت
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی !
ترکِ دنیا کا سماں، ختم ملاقات کا وقت
اس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جاؤ گے
اس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں، رہنے دو
کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں، رہنے دو
اور ملے گا بھی تو اس طور کہ پچھتاؤ گے
اس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جاؤ گے
***