معیدرشیدی(بھارت)
moidrasheedi@gmail.com
نظم اور کلام موزوں:فکرآزاد ؔ کی نظری اساس
آزاد میں نقد کا مادہ مطلق نہ تھا۔نظر مشرقی حدود میں پابند تھی۔وہ لکیر کے فقیر تھے،باریک بینی اور آزادیِ خیال سے مبرا۔انگریزی لالٹینوں کی روشنی ان کے دماغ تک نہیں پہنچی تھی۔۱
اس زمانے میں مغرب کی طرف نظریں اٹھ رہی تھیں۔سب سے پہلے آزاد نے اس طرف توجہ کی تھی اور لوگوں کی توجہ دلائی تھی۔۲
دونوں اقتباسات کلیم الدین احمد کے ہیں۔دونوں میں جو تضاد ہے، وہ اظہرو من الشمس ہے۔آزاد مشرقی روایات کے امین تھے۔ان کے کمال علم میں کلام نہیں،لیکن شعر و ادب کی تفہیم،توضیح،تعبیر،تجزیے اور تقابل کے معائر ان کے ہاں مخصوص سیاق میں تھے،جسے کلیم الدین احمد ’مشرقی حدود‘سے تعبیر کرتے ہیں،مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان کی حیثیت مجتہد کی تھی۔انھوں نے ادب کی تفہیم و تعینِ قدرمیں نظری مباحث کی ضرورت محسوس کی اور اپنی تحریروں میں انھیں چھیڑا بھی۔وہ اپنے پیش روؤں سے کئی قدم آگے تھے۔آزاد اور حالی مخصوص معنوں میں اپنی روایات کے باغی بھی تھے۔اس عہد میں بغاوت کی یہ لے سرسید کے ہاں سب سے تیز تھی۔دنیا بدل رہی تھی۔نئی قدریں پرانی قدروں پر غالب آرہی تھیں۔ہند ایرانی/ہند اسلامی تہذیب کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔۱۸۵۷ء میں ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔نو آبادیات کی سائکی نئے تجربات کے ہمراہ متنوع تغیرات بھی لائی ۔ان تبدیلیوں نے مغرب کی تفہیم کے لیے راہ ہموار کی۔محمد حسین آزاد کی ذہنی پرورش مشرقی ماحول میں ہوئی تھی،لیکن نہ وہ لکیر کے فقیر تھے،اور نہ ہی آزادیِ خیال سے مبرا۔اگر وہ مشرقی حدود ہی میں پابند رہنا چاہتے، تو ان کی نظر مغرب کی طرف کیوں کر اٹھتی، اور وہ کیوں کہتے :
اس سے یہ نہ سمجھنا کہ میں تمھاری نظم کو سامان آرائش سے مفلس کہتا ہوں۔نہیں[،]اس نے اپنے بزرگوں سے لمبے لمبے خلعت اور بھاری بھاری زیور میراث پائے۔مگر کیا کرے کہ خلعت پرانے ہوگئے اور زیوروں کو وقت نے بے رواج کر دیا۔تمھارے بزرگ اور تم ہمیشہ سے نئے مضامین اور نئے انداز کے موجد رہے مگر نئے انداز کے خلعت و زیور جو آج کے مناسب حال ہیں۔وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیں[،] کہ ہمارے پہلو میں دھرے ہیں اور ہمیں خبر نہیں۔ہاں [ ، ] صندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہے۔۳
بڑی بات یہ ہے کہ آزاد وقت کے تقاضوں سے با خبر تھے۔وہ عربی اور فارسی کے بڑے عالم تھے،اوربھاشا کی باریکیوں کے ساتھ سنسکرت کی روایات کا بھی درک رکھتے تھے۔انگریزی سے کماحقہ واقف نہ تھے،لیکن’ ہم وطن انگریزی دانوں‘اور بعض انگریز دوستوں/ شاگردوں سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ان کی صحبت میں انگریزی ادب اور اس کے متون کی تفہیم کی کوشش کرتے تھے۔حصولِ علم کا جنون اور نئے میدانوں کی سیر کا جذبہ انھیں ہمہ وقت بیدار، رکھتا تھا۔کرنل ہالرائڈ (Holroyd)اور ڈاکٹر لائٹنر (Leitner)سے انھیں قربت تھی۔’نیرنگ خیال‘اور’نظم آزاد‘کا انتساب ہالرائڈ ہی کے نام ہے۔نبیرۂ آزادآغامحمدطاہرنے آزاد کی تصنیف’کائناتِ عرب‘کے دیباچے میں ڈاکٹر لائٹنرسے آزاد کے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔آزاد کی عمر کا ایک بڑا حصہ لائٹنرکے ساتھ گزرا۔لائٹنرجب سنٹرل ایشیا گئے توآزادبھی ان کے ساتھ تھے۔آغا محمدطاہرکا بیان ہے کہ’’ڈاکٹر لٹنر[لائٹنر]صاحب کا قاعدہ تھا کہ اپنی رائے کا اظہار کردیتے۔مولانا اس مضمون کو بنا سنوار کر لے جاتے۔ڈاکٹرصاحب کو پسند آیا تو بہت خوب۔ورنہ مولوی صاحب دوبارہ لکھیں۔۴ لائٹنرسے آزاد کی جس قدر قربت تھی،بعدمیں اختلاف بھی اتنا ہی ہوگیا،لیکن اختلافی امور اور ان کی وجوہ کی طرف توجہ نہ کرکے سردست اس بات پر توجہ دینی ہے کہ آزاد نے انگریزی/مغربی فکر و فلسفے کی تفہیم کے لیے انگریزی متون کا کتنا مطالعہ کیا ،اور انگریزی صندوقوں‘سے کس قدر خلعت و زیور حاصل کیے۔انھوں نے مغربی ا صولوں کی پیروی تو کی،لیکن کیا وہ ان اصولوں کی تہ تک پہنچ پائے تھے،اور کیا انھوں نے ان کے متون سے براہِ راست استفادہ کیا تھا؟اس ضمن میںآزاد کا کوئی ٹھوس بیان نہیں ملتا۔انشا پردازی کے رنگ کو برقرار، رکھنے میں وہ اکثر گول مول باتیں کہہ جاتے ہیں۔یہ ان کا سب سے بڑا عیب ہے۔ان کے معاصر حالی اور شبلی انگریزی سے واقف نہ تھے،مگرآزاد کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ان کے بعض جملے(جو مبہم ہی صحیح)اور اسلم فرخی کے بعض بیانات اس باب میں رہنمائی کرتے ہیں۔پھر اس سلسلے میں ان کی کتاب’نیرنگ خیال‘خود ہی اہم حوالہ ہے۔آزاد لکھتے ہیں :
میں نے انگریزی انشا پردازوں کے خیالات سے اکثر چراغ روشن کیا ہے۔۵
یہ چند مضمون جو لکھے ہیں[،]نہیں کہہ سکتا کہ ترجمہ کیے ہیں۔ہاں[،]جو کچھ کانوں نے سنااور فکر مناسب نے زبان کے حوالے کیا[،]ہاتھوں نے اسے لکھ دیا۔۶
کیسی حسرت آتی ہے۔جب میں زبان انگریزی میں دیکھتا ہوں کہ ہر قسم کے مطالب و مضامین کو نثر سے زیادہ خوبصورتی کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔۷
میں زبان انگریزی میں بالکل بے زبان ہوں اور اس ناکامی کا مجھے بھی افسوس ہے۔۸
مندرجہ بالااقتباسات کی روشنی میں کوئی حتمی فیصلہ ممکن نہیں۔’’میں جب زبان انگریزی میں دیکھتا ہوں۔‘‘۔۔۔صرف یہی جملہ لے لیجیے یا پھر انگریزی خیالات سے چراغ روشن کرنے والی جو بات ہے،اس سے یہی گمان گزرتا ہے کہ انھوں نے انگریزی متون سے براہ راست استفادہ کیا تھا،لیکن جب وہ اپنے(نیرنگ خیال)کے مضامین کو ترجمہ کہنے سے انکار کرتے ہیں ،اور کانوں سے سن کر زبان کے حوالے کرنے کی بات کرتے ہیں تومبہم کیفیت پیدا ہوتی ہے،اور ذہن الجھ جاتا ہے،کہ واقعہ کیا ہے۔جب وہ زبان انگریزی میں بالکل بے زبان ہونے کا اعتراف کرتے ہیں تو مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔اسلم فرخی کا بیان ہے کہ ’’راقم الحروف نے ان کی تحریرکردہ ایک انگریزی درخواست بچشم خود دیکھی ہے۔‘‘۹ ’’انھوں نے سنین اسلام کے عنوان کے سلسلے میں انگریزی میں ایک مضمون بھی لکھاتھالیکن ان کی واقفیت اتنی نہ تھی کہ وہ ایڈیسن اور جانسن کا براہ راست مطالعہ کرتے اوران کے مضامین کو اردو میں منتقل کرلیتے۔‘‘۱۰ اس زمانے میں ایک ایسا شخص جس کی تربیت اور تعلیم مشرقی ماحول اور حدود میں ہوئی ہو،اگر وہ انگریزی میں درخواست اور مضمون لکھنے کی استعداد رکھتا ہے تو یہ کم بڑی بات نہ تھی،(فرخی کا بیان اپنی جگہ)لیکن اس پہلو پر زیادہ اعتبار اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ مثالوں کا فقدان ہے۔ہو سکتا ہے کہ کسی انگریز دوست/شاگرد کی مدد سے وہ درخواست/مضمون لکھا گیا ہو۔بہر حال اتنی بات تو صاف ہے کہ آزاد کو انگریزی سے دلچسپی تھی،اور وہ اس کے حصولِ علم کی کوشش بھی کرتے تھے۔مالک رام کہتے ہیں :
نیرنگ خیال میں جتنے مضمون شامل ہیں[،]یہ دراصل انگریزی سے ترجمہ کیے گئے ہیں۔ان میں سے چھ مضمون جانسن کے ہیں،تین ایڈیسن کے اور بقیہ دوسرے انگریزی ادیبوں کے۔لیکن ان کے ترجموں میں آزاد نے اپنی ذہانت اور سحر بیانی سے اتنا رد و بدل کر دیا ہے کہ ان کا درجہ ترجمے سے بڑھ کر تخلیق کا ہو گیا ہے۔۱۱
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔اول یہ کہ یہ مضامین ترجمہ ہیں یا نہیں۔دوم یہ کہ اس قدر، ردوبدل کی ضرورت کیوں پڑی۔زبان اور انشا کے معاملے میں آزاد اپنے مزاج سے مجبور ہیں۔عام (تخلیقی)تحریر اور ترجمے میں فرق ہے۔دونوں کے تقاضے جدا ہیں۔ذہانت اور سحر بیانی اپنی جگہ،لیکن رد و بدل کی کثرت یہ باور کراتی ہے کہ آزاد میں ترجمے کی صلاحیت مفقود تھی۔ان کے مضامین اور ایڈیسن اور جانسن کے مضامین میں جو مشترک باتیں موجود ہیں، تو اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان کے ساتھ اس کام میں کوئی اور بھی شریک تھا۔اس لیے کہ’’پروفیسر صاحب[آزاد]کو یہ بھی شوق تھاکہ وہ اپنے انگریزی جاننے والے تلامذہ سے کارآمدمغربی خیالات اخذ کرتے اور انھیں اپنے سرور آگیں اور پرکیف طرز میں ڈھال لیتے۔‘‘ ۲ ۱)یہ سچ ہے کہ آزاد نہ محض انگریزی کی وکالت میں پیش پیش نہ تھے،بلکہ اپنے معاصرین میں وہ اس زبان کو سیکھنے اور سمجھنے میں بھی بہت آگے تھے۔انھیں احساس تھا کہ اس زبان کو سیکھے بغیر وہ دنیا سے کٹ جائیں گے،اور عالمی، خصوصاً مغربی ادبیات میں کیا کچھ ہو رہا ہے،اس کے علم سے محروم رہیں گے۔وہ تغیر چاہتے تھے۔ادب میں وسعت کے قائل تھے۔اس لیے انھوں نے احساس دلایا کہ انگریزی، شجر ممنوعہ نہیں ہے۔اپنی محنت سے انھوں نے انگریزی کی شدبد پیدا کی،لیکن انگریزی کے معیاری اور دقیق متون وہ اپنے انگریز دوستوں/شاگردوں سے پڑھوا کر سنتے تھے۔پھر ان پر غور کر کے اپنی زبان میں ڈھال لیتے تھے۔کالج کی ملازمت کے ساتھ وہ انگریزوں کو اردو پڑھایا کرتے تھے۔لائٹنر کی رفاقت میں وہ انگریزی ادب سے آشنا ہوئے،اور یہ آشنائی انھیں نئے جہانوں کی سیر کی طرف لے گئی۔انھیں زبان کے دقیق مسائل میں دلچسپی تھی۔الفاظ کی تشکیل اور ان کے مآخذ کے مختلف حوالوں پر مسلسل غور کرتے رہے۔متعدد ممالک کا سفر بھی کیا۔قدیم فارسی،عربی اور سنسکرت کے الفاظ میں لسانی اشتراک ڈھونڈتے رہے۔مسلسل غور و فکر کے نتیجے میں ’سخندان فارس‘منصہ شہود پر آئی۔ان سے ڈیڑھ سو سال قبل ٹیک چند بہار اور خان آرزو نے الفاظ کی ماہیت پر غوروفکر کرنے کی بنیاد اردو معاشرے میں ڈال دی تھی۔یہ دونوں بقول آزاد’فلسفی لغتِ فارسی‘تھے۔دونوں فارسی کے ماہر تھے،اور ہندی ان کے وطن/گھر کی زبان تھی۔آزاد نے ان کی روایت کو جلا بخشی،لیکن انھوں نے کوئی لغت تیار نہیں کی،بلکہ زبانوں کے اختلاط کا جائزہ لیا،اور ان کے اثرات کی نشاندہی بڑی چابک دستی سے کی۔اس زمانے میں اس موضوع میں دلچسپی لینے والے خال خال تھے،لیکن آزاد کی علمیت،تحقیقی مزاج اور ذوقِ جستجو نے اردو میں تقابلی لسانیات کے مطالعے کی مستحکم روایت قائم کی،اور’ فیلا لوجیا ‘ (Philology)کے تصورو تعارف سے اپنی بساط کے مطابق اہلِ اردو کو آگاہ کیا۔
نو آبادیات کے مختلف پہلوؤں میں ایک نقطہ لسانی تغیر کا بھی ہے۔ان تغیرات سے آزاد کا ذہن آشنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ علوم کے مختلف شعبوں کی طرف ان کی نظر اٹھ رہی تھی۔انگریز حاکم تھے اور ان کی زبان ہندوستانیوں کے لیے توجہ کا مرکز،مگر ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ ان کی زبان سے بھی نفرت کرتا تھا، کہ کہیں یہ نئی زبان ہماری تہذیب ہی کو غارت نہ کردے۔اکبرالٰہ آبادی اس احتجاج کی سب سے بلندآواز اور نمایاں علامت ہیں۔دراصل معاملہ زبانوں کا نہیں،تہذیبوں کا تھا۔انگریزی سیکھنے میں زیادہ قباحت نہ تھی،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر زبان اپنی تہذیب بھی ساتھ لاتی ہے۔آزاد زبان کے ریفارمر نہ تھے۔وہ ان تصورات و عقائد کے خلاف تھے جو برسوں سے بے منطق اور بغیر مناسب سیاق کے دہرائے جارہے تھے۔سرسید تحریک نے معقولیت اور منطقی جواز کا جو اصول وضع کیا تھا،اس کے اثرات آزاد پر بھی ہیں۔نیچر کی ترجمانی کا سادہ نظریہ ان کے ہاں بھی کارفرما ہے۔نیچر اپنے آپ میں کتنی مبہم،پراسرار اور پیچیدہ ہے،اس سے نیچر کی ترجمانی پر اصرار کرنے والے ادبی ریفارمر نا واقف تھے۔ان کے نزدیک کسی چیز کا ہوبہو پیش کرنا ہی نیچر ہے۔پہاڑ،جنگل،دریا اور کسی موضوع کے خارجی حوالے ہی ان کے لیے نیچر ہیں۔ شبلی اسی کو’ محاکات کہتے ہیں، جو یونانی تصور ہے، اور عرب ناقدین کے وسیلے سے ان تک پہنچا ہے۔ محمد حسین آزاد کی لسانی خدمات کا اعتراف ہر ذی نظر کرے گا، لیکن ان کے روایات کے باغی اور مجتہد ہونے والی جو بات ہے، اس ضمن میں ان کے نظری اختصاص اور نقد و نظر کے معائر پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے، اور یہی پہلو ان کی عظمت کا تاریخی جواز فراہم کرتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل اسلم فرخی کی یہ رائے ملاحظہ ہو :
آزاد کے نظریۂ شعر میں خیالی، ما بعدالطبیعاتی اور افادی سبھی عناصر موجود ہیں لیکن انھوں نے کسی چیز کی وضاحت نہیں کی۔ بہر حال انھوں نے کچھ نئی باتیں ضرور پیش کی ہیں اور مغرب و مشرق کو ہم آہنگ کر نے کی کوشش کی ہے۔ ۱۳
یہاں سے گفتگو نیا موڑ لیتی ہے اور کچھ بنیادی سوال قائم ہوتے ہیں۔پہلا یہ کہ آزاد کا نظریۂ شعر کیا ہے۔دوسرا یہ کہ انھوں نے کون سی نئی باتیں پیش کیں۔تیسرا یہ کہ مغرب و مشرق کو ہم آہنگ کرنے کی ان کی کوشش کہاں تک بار آور ہوئی۔ان کے نظریۂ شعر کی تفہیم میں ان کے دو لکچر بنیادی حوالہ ہیں۔ دیگر کتب بھی اس ضمن میں معاونت کرتی ہیں۔پہلا لکچر انھوں نے ۵اگست۱۸۶۷ء میں دیا تھا جس کا عنوان ہے’نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات‘۔دوسرا لکچر ۱۹اپریل۱۸۷۴ء میں دیا تھا جس کا کوئی عنوان انھوں نے شاید متعین نہیں کیا۔دونوں لکچر’نظم آزاد‘(۱۸۹۹)میں شامل ہیں۔یہ لکچر آزاد نے انجمن پنجاب کے جلسوں میں دیے۔انجمن کا قیام۲۱جنوری۱۸۶۵ء کو سکشا سبھا کے مکان میں ہوا جس میں حکومت کے عہدیدار اور نمائندے بھی شریک ہوئے۔پنڈت من پھول کو صدارت سونپی گئی۔پنڈت جی نے انجمن کا نام’انجمن اشاعتِ مطالبِ مفیدہ پنجاب‘رکھا،جس کے مقاصد میں لٹریچر تیار کرنا، علمی جلسے منعقد کرنا۔۔۔ جن میں تعلیمی، سماجی، تہذیبی، اخلاقی، اصلاحی اور انتظامی امور پر مضامین پیش کیے جائیں،تاکہ اظہار خیال کے لیے فضا ہموار ہو۔لکچروں کا اہتمام کیا جائے تا کہ ذہنی اصلاح ہوسکے۔ڈاکٹر لائٹنر کی تجویز پرآزاد۲۷مارچ۱۹۶۷ء میں انجمن کے سکریٹری منعقد کیے گئے۔سکریٹری بننے کے بعد انھوں نے انجمن کو نئی زندگی دی،اور بقول منظراعظمی محض ایک سال میں انھوں نے چھتیس مضامین،لکچر اور تبصرے پڑھے۔انجمن میں ہالرائڈ کی تجویز پر جدید طرز کے مشاعروں کا انعقاد ہوا جس میں مصرع طرح کے بجائے کوئی عنوان دیا جاتا تھا۔یہی مشاعرے نظم نگاری کی تحریک کا نقطۂ آغاز ہیں، جس میںآزاد اور حالی کی شخصیت اپنی خدمات کے حوالے سے بہت نمایاں ہے۔آزاد کے جن دو لکچروں کا اوپر ذکر کیا گیا وہ نظم نگاری کی تحریک کا منشور قرار پائے۔انھوں نے جو نظری مباحث قائم کیے،انھیں حالی نے زیادہ مبسوط،معروضی اور علمی طرز پر’مقدمہ شعروشاعری(۱۸۹۳))میں پیش کیا۔
محمد حسین آزاد کا کارنامہ محض یہی نہیں ہے کہ انھوں نے ’آب حیات‘(۱۸۸۰)کو تذکروں کے عام معیار سے نکال کر ادبی تاریخ و تنقید کے حصار میں لا کھڑا کیا،بلکہ نظری سطح پر پہلی بار مروجہ موضوعات کے سطحی برتاؤ کے خلاف جرأت آمیز صدا بلند کی ،اورانگریزی ادب کی طرف اذہان کومائل کیا۔اس ضمن میں ان کے شعری مجموعے کے پہلے صفحے کی یہ عبارت ملاحظہ ہو۔۔۔’’نظم آزاد،جو حسن و عشق کی قید سے آزاد ہے۔‘‘’حسن و عشق‘ کو قید سمجھنے اور ان سے آزادی حاصل کرنے کا خیال ان کے ذہن میں کیوں آیا؟ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں ادب کا افادی نظریہ رہا ہو،کہ ادب کو اخلاق درست کرنے کا آلۂ کار ہونا چاہیے، یا ادب سے متعدد نوع کے اصلاحی کام لیے جائیں،لیکن وہ ان زنجیروں کو توڑ دینا چاہتے تھے جن میں اردو شاعری گرفتار تھی۔وہ اپنے ادب کو کم مایہ نہیں،گراں مایہ سمجھتے ہیں۔زورِعبارت،مضمون کا جوش و خروش اور لطائف و صنائع کے اعتبار سے وہ اردو زبان کو دیگر زبانوں سے کسی قدر کم تصور نہیں کرتے۔انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ اردو شاعری بے موقع احاطوں میں محبوس ہوگئی ہے، جس میں معاملاتِ عشق کا بیان ان کے نزدیک سب سے قابلِ اعتراض پہلو ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس شخص نے زندگی میں اتنے دھوکے کھائے ہوں،عتاب کا شکار ہوا ہو۔تحفظِ ناموس کے لیے شہر شہر بھٹکا ہو۔انگریزوں سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے جاسوسی تک کی ہو۔جس کے سامنے اس کے باپ کو سرعام بغاوت کے الزام میں گولی ماردی گئی ہو،اس کے مزاج میں دہشت نہیں تو اور کیا ہوگی؟اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے شخص کے مزاج کی تشکیل میں عشقیہ واردات کہاں سے بار پائیں گی،لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پر آشوب دور میں عشق اپنی معنویت اور جاذبیت کھو بیٹھتا ہے؟زندگی دو پہلوؤں سے عبارت ہے۔۔۔حقیقت اور رومان۔رومانیت محض عشقیہ واردات کا نام نہیں۔یہ تخیل،تجسس اور اسرار پر مبنی ہے۔عشق کی تعریف بھی اپنے اندر گیرائی رکھتی ہے۔اس لیے اس کے سطحی تصور سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہیں۔آزاد کا اعتراض عشقیہ واردات کے اظہار پر نہیں ہے۔وہ تو عشق کے مفہوم/مضمون کو تنگ دائروں میں مقید کرنے کے خلاف ہیں۔ایسے ہی اعتراضات پر حالی نے مقدمہ میں مفصل بحث کی ہے۔وصل کا لطف،بہت سے حسرت و ارمان،ہجر میں آہ و بکا،شراب و ساقی،بہار و خزاں،شکوۂ فلک،اقبال مندوں کی خوشامدجیسے مضامین ہی میں اگر شاعری محبوس ہوجائے، اور فقط نازک خیالی ہی شاعری کا جوہر ٹھہرے، تو پھر شعر کی عظمت،وسعت اور گہرائی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا،اور اس کی اظہارِ ذات والی تعریف میں ذات‘کے معنی بدل جائیں گے۔آزاد موضوعات و مضامین میں تنوع اور تراکیب و لفظیات میں ندرت چاہتے تھے۔وہ اپنے عہد کے سروکاروں کے ساتھ جینا چاہتے تھے۔ان کے خیالات ان کے عصر کے بطن کا زائیدہ ہیں :
اب وہ زمانہ بھی نہیں کہ ہم اپنے لڑکوں کو ایک کہانی،طوطے یا مینا کی زبانی،سنائیں۔ترقی کریں،تو چار فقیر لنگوٹ باندھ کر بیٹھ جائیں،یا پریاں اڑائیں؛دیو بنائیں اور ساری رات ان کی باتوں میں گنوائیں۔اب کچھ اور وقت ہے۔اسی واسطے ہمیں بھی کچھ اور کرنا چاہیے۔۱۴
محمد حسین آزاد کی شخصیت اسی لیے معتبر ہے کہ وہ استفادے پر زور دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ مغربی ادب کے سامنے اپنے ادب کو مطعون اور بے مایہ ٹھرائیں۔وہ مشرق و مغرب میں امتزاج اور تفاعل کے قائل ہیں۔وہ ان لوگوں میں نہیں ہیں،جن کے نزدیک ۱۸۵۷ء کے ساتھ شاعری بھی ختم ہوگئی۔ان کے لیے دنیا/زندگی بہت وسیع ہے۔اسی لیے وہ اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔مغربی افکار سے چراغ روشن کرنے کے ساتھ انھوں نے مٹی کی خوشبو بھی محسوس کی۔وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اردو پر فارسی کے اثرات کے ذکر میں شعرا کے ذہنی رویوں پر تنقید کرتے ہوئے یہ احساس دلایاکہ ہمیں اس کا بھی احتساب کرنا چاہیے کہ ہم جس مٹی کی پیداوار ہیں،اور جس ماحول میں رہتے ہیں،اس کی عکاسی میں اجتناب کیوں کریں؟وہ بیرونی علامتوں،اصطلاحات اور لفظیات کے منکر نہیں،لیکن اس پہلو پر معترض ضرور ہیں کہ ہمارا شاعر پپیہے/کوئل کی آواز اور چنپا/چنبیلی کی خوشبو کو بھول گیا۔ہزار/بلبل اور نسرین/سنبل جو کبھی نظر سے بھی نہ گزری تھیں،ان کی تعریفیں کرنے لگا۔رستم اور اسفند یار کی بہادری پر نظر ٹھہری اور ارجن کی شجاعت کا ذکر مفقود ہوا۔کوہِ الوند اور بے ستون کے آگے ہمالے کی سرسبز و شاداب پہاڑیاں اور برف سے ڈھکی چوٹیاں توجہ کا مرکز نہ بن سکیں۔جیحوں سیحوں کی روانی نے کہرام مچایا اور ان کے مقابلے گنگا جمنا کی روانی بے لطف رہی۔ہمارا شاعر ایرانی موسموں،تہواروں،رسم و رواج اور روایات کے بیان میں رطب اللسان تھا،لیکن آزاد نے پہلی بار ایوانِ شاعری میں احتجاج درج کیا کہ جس مٹی سے ہمارا خمیر اٹھا ہے،اسے نظر انداز کرنا غیر فطری ہے۔انھوں نے شعرا کا ذہن زمینی وابستگی کی طرف مائل کیا۔ان کا اعتراض بجا تھااور اس کے اثرات دوررس۔شعری وسائل اور صنعتوں کے بے جا استعمال کو وہ غیر مستحسن قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ’’بیشک مبالغے کا زور ،تشبیہ اور استعارے کا نمک زبان میں لطف اور ایک طرح کی تاثیر زیادہ کرتا ہے۔لیکن نمک اتنا ہی چاہیے کہ جتنا نمک۔نہ کہ تمام کھانا نمک۔‘‘۱۵ انھوں نے اردو شاعری کی ندرت اور،رفعت کا اعتراف تو کیا،لیکن حسن و عشق کے مروجہ اسالیب پر جب انھوں نے چوٹ کی تو کچھ جملے کافی سخت بھی ہوگئے۔مثلاً یہی جملہ ۔۔۔’’انجام یہ کہ زبان ہماری ایک دن نظم سے بالکل محروم ہوگی اور اردو میں نظم کا چراغ گل ہوگا۔‘‘۱۶ انگریزی کی پیروی پر زور دینے اور اس نوع کے جملوں کے نتیجے میں اس عہد کے اخبارات میں ان کے خلاف کافی کچھ لکھا گیا۔عشقیہ معاملات کے بیان پر جس طرح انھوں نے اعتراضات کیے،لوگوں کو لگا کہ وہ پوری کلاسکی شاعری پر طنز کر رہے ہیں۔معاملہ اتنا طول پکڑا کہ انھیں ایک اخبار کے مدیر کے نام خط میں وضاحت کرنی پڑی :
بیشک میری بھی یہی رائے ہے کہ بے عشق کے کلام بے مزہ رہتا ہے۔لیکن میرے تمام لیکچر میں یہ کہیں نہیں ہے کہ عاشقانہ کلام کو بالکل ترک کرنا چاہیے۔اور خود انگریزی کلام بھی عشق سے خالی نہیں۔۱۷
کلیم الدین احمد کی اس رائے سے بات شروع ہوئی تھی کہ آزاد میں نقد کا مادہ مطلق نہ تھا۔اس جملے پر اکثر لوگ انھیں تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ان کی یہ رائے کتنی صحیح یا کتنی غلط ہے،اس میں الجھنے سے بہتر ہے کہ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں جہاں سے اردو تنقید کا خمیر اٹھا ہے۔پودا، ایک دن میں درخت نہیں بن جاتا۔فصل ایک دن میں نہیں اگ آتی۔کھیت کے لہلہانے سے قبل کے مراحل پر نگاہ رکھنا بھی ضروری ہے۔تنقید کی وہ شکل جو محمد حسن عسکری،کلیم الدین احمد اور شمس الرحمن فاروقی کے ہاں ہے،اس کی بنیاد میں تذکروں کی وہ روایت بھی شامل ہے،جہاں ذوق ہی شعر کی پرکھ کا پیمانہ تھا۔آج یقیناًشعر کی پرکھ کے معیار بدلے ہیں،لیکن وہ کلیتاًکہیں سے امپورٹ نہیں کیے گئے،اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔اردومیں تنقیدی اصولوں کے ڈانڈے عربی فارسی شعریات میں پیوست ہیں۔نظری مباحث کے سرے بھی عرب فلسفیوں کے ہاں موجود ہیں۔افلاطون،ارسطو،لونجائنس،ہوریس،دانتے،کولرج،میتھیو آرنلڈ،کروچے،آئی۔اے۔رچرڈس،ازراپاؤنڈسے لے کر ٹی۔ ایس۔ الیٹ تک کے افکار سے ہم انگریزی ادب کے وسیلے سے بہرہ ور ہوئے۔آج ہماری تنقید جس بصیرت سے مالامال ہے،اس میں عربی فارسی شعریات کے ساتھ مغربی شعریات سے استفادہ بھی شامل ہے۔آزاد کے زمانے تک اردو میں تنقید کوئی مستقلDisciplineنہیں بنی تھی۔تبصرے/ریویواور تنقید میں کوئی فرق نہ تھا۔اصول سازی پر توجہ نہ تھی۔بین اللسانی اور بین العلومی مطالعے کا چلن نہ تھا۔آزاد نے سب سے پہلے ادبی استحکام کے لیے مشرق و مغرب کے امتزاج پر زور دیا :
اردو اپنی زبان ہے اور انگریزی کنجی خدا نے دی۔ہم اور ہمارے ساتھی پرانی لکیروں کے فقیر،جو کچھ کرنا تھاسو کرچکے۔نہ ان میدانوں میں اب ہم سے کچھ ہو سکے۔چقماق کے دونوں جزوں کو ٹکراؤ کہ آگ نکلے۔اون اور شیشے کو رگڑو کہ ایلکٹرسٹی[الکٹرسٹی] کے فوائد حاصل ہوں۔لیکن فقط پتھر ہو،تو پتھر ہی ہے اور فقط شیشہ،ڈر کا گھر۔اپنی زبان کے زور سے اس میں اس طرح جان ڈالو کہ ہندوستانی کہیں:سودا اور میر کے زمانے نے عمر دوبارہ پائی۔اس پر انگریزی روغن چڑھاکر ایسا خوش رنگ کرو کہ انگریز کہیں:ہندوستان میں شیکسپیر کی روح نے ظہور کیا۔۱۸
محمد حسین آزادکی دوراندیشی اس اقتباس سے ظاہر ہے۔انھوں نے کہیں بھی اپنی تحریر کو تنقید نہیں کہا۔وہ اوکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ نہ تھے،کہ وہاں کی نہج پر تنقید لکھتے۔ان کی تو زندگی ہی اتنی منتشر رہی، کہ کبھی اطمینان سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع نہ ملا،لیکن شعرو ادب سے شدید وابستگی ہی تھی کہ آخری بیس سالوں کی حالتِ جنون میں بھی لکھتے پڑھتے رہے۔حالی اردو کے پہلے ناقد تسلیم کیے جاتے ہیں،مگر انھوں نے بھی ان سے خاصا استفادہ کیا ہے۔کلیم الدین احمد نے صحیح کہا ہے کہ حالی کام کی باتیں کام کی زبان میں کرتے ہیں،جب کہ آزاد پرانے تذکروں کے رنگ میں ڈوب کر گل بوٹے کھلانے میں رہ گئے،اور کام کی باتیں بھی کام کی زبان میں نہ کرسکے۔بنیادی اعتراض ان کے اسلوبِ بیان پر ہے،نہ کہ ان کے افکار پر۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے افکار پر بھی اعتراض کی گنجائشیں ہیں،لیکن ان سے ہزار اختلاف صحیح،انھوں نے جو’کام کی باتیں‘کی ہیں،ان کے اعتراف سے مفر نہیں۔ان پر جتنی تنقیدیں ہو سکتی تھیں،وہ تنہا کلیم الدین احمد نے کرلیں۔ان کے فقرے چست کرنے کے ڈھب پر انھوں نے واہ واہ کہا،لیکن اسے مغز سے خالی قرار دیا۔یہ سبھی باتیں اپنی جگہ،مگر اپنے مخصوص انداز ہی میں صحیح،انھوں نے جو نظری اساس فراہم کی،اس پر گفتگو ہونی چاہیے،کیوں کہ ان کے نظریے کی تفہیم اسی وقت ہو سکتی ہے،جب ہم ان کے متن سے براہِ راست مکالمہ کریں۔’نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات‘سے مکالمے کے نتیجے میں کئی نکتے ہاتھ آتے ہیں۔پہلا سوال یہی ہے کہ شعر کیا ہے؟ہماری عروض کی کتابیں،فن شاعری کے استاد اورتذکرے یہی کہیں گے کہ شعر کلام موزوں و مقفیٰ کو کہتے ہیں،لیکن آزاد اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کلام کو موزوں و مقفیٰ ہونا کافی نہیں،بلکہ اسے موثر ہونا بھی ضروری ہے۔محض منظومہ ان کے نزدیک ایسا کھانا ہے،جس میں کوئی مزانہیں۔نہ ترش،نہ شیریں۔یہاں اچھی خاصی بحث ہو سکتی ہے کہ شاعری کیا ہے،اور نظم کیا ہے؟شعر کے لیے وزن ضروری ہے یا نہیں؟قافیہ پیمائی اور تخلیقی مراقبے میں کیا فرق ہے؟تاثیر کا ہونا اگر شرط ہے تو اثر سے کیا مراد ہے؟اس کے پیمانے کیا ہوں گے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔عروضی ساخت اور شعری بافت میں پیٹرن کے حوالے سے مناسبت ضرور ہے ،لیکن عروضی مباحث اور مطالبات کی تکمیل کا مطالعہ نقاد کے لیے جتنا اہم ہے،تخلیق کار کے لیے اتنا ہی اہم نہیں۔بہت سے اچھے شعرا عروض سے واقف ہی نہیں ہوتے۔اس لیے موزونیت کی میزان فقط فاعلاتن فاعلات ہی نہیں،بلکہ طبیعت بھی ہے۔آزاد صحیح نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موزونیِ طبع جوہرِخداداد ہے۔ہو سکتا ہے کہ کوئی بہت بڑا عروضی ہو،لیکن وہ شاعری بھی کرلے یہ کوئی ضروری نہیں۔بعض حضرات ایسے بھی ہیں،جوموزوں شعر کو بھی ناموزوں پڑھتے ہیں۔اس لیے طبیعت کی موزونیت لازمی ہے،اور یہی آزاد کا مطمحِ نظر ہے۔
شاعری کسی تجربے کے توسط سے تخیلی پیکر تراشنے کا نام ہے۔شاعری میں موزونیت لازمہ نہیں،خاصہ ہے۔اس لیے تخلیقی عمل میں تخیل کو مرکزیت حاصل ہے۔تخیل پر حالی اور شبلی نے مفصل بحث کی ہے،لیکن آزاد کے ہاں تخیل کی تعریف کا کوئی خاص اہتمام نہیں۔انھوں نے گفتگو کے انداز میں مطالب کا جو سلسلہ چھیڑا تو بات بات میں شعر کی ماہیت سے متعلق بعض بنیادی باتوں پر اظہارِ خیال بھی کرتے گئے۔ادبی تخلیق کی بنیاد تخیل پر ہے۔تخیل (Imagination)کی بہترین تعریف کولرج نے کی ہے۔آزاد کی رسائی کولرج کے خیالات تک نہ تھی،لیکن شاعر کے فکری کینوس کو اجالنے میں انھوں نے تخیل کی اصطلاح استعمال کیے بغیر اس کی اہمیت کا احساس دلایا۔تخیل ذہن میں موجود خیالات کو مکرر ترتیب دینے کا نام ہے۔فینسی (Fancy)اس کی اہم ترین حالت ہے،جو نئی نئی اشیا میں ربط پیدا کرتی ہے۔تخلیقی عمل میں یہ تحرک کا کام کرتی ہے۔آزاد کہتے ہیں :
شاعر اگر چاہے تو اموراتِ عادیّہ کو بھی بالکل نیا کر دکھائے۔۱۹
[
شاعر]تمام عالم میں اس طرح پر حکومت کرتا ہے ۔جیسے کوئی صاحب خانہ اپنے گھر میں پھرتا ہے۔پانی میں مچھلی اور آگ میں سمندر ہوجاتا ہے۔ہوا میں طائر بلکہ آسمان پر فرشتے کی طرح نکل جاتا ہے۔جہاں کے مضامین چاہتا ہے [،]بے تکلف لیتا ہے اور بہ تصرف مالکانہ اپنے کام میں لاتا ہے۔۲۰
اموراتِ عادیّہ یا کسی بھی تجربے کو ’بالکل نیا کر دکھانا‘ہی تخیل کی تعریف ہے،کہ یہ نقش ثانی ہے،اور افکار کے خزانے کو مکرر ترتیب و تنظیم عطا کرنے سے عبارت ہے۔پھر شاعر کے تخیلی اختیارات کی وسعت کا اقرار تخیل کے اوصاف کی توضیح پر دال ہے۔آزاد جب یہ کہتے ہیں کہ شاعر اگر چاہے تو ’’پتھر کو گویا کردے۔درختان پا در گل کو رواں کر دکھائے۔ماضی کو حال ۔حال کو استقبال کردے۔دور کو نزدیک کردے۔زمین کو آسمان۔خاک کو طلا۔اندھیرے کو اجالا کردے۔۔۔زمین اور آسمان اور دونوں جہان[،]شعر کے دو مصرعوں میں ہے۔ترازو اس کی شاعر کے ہاتھ میں ہے۔جدھر چاہے جھکا دے۔‘‘۲۱تو ایک طور پر وہ Fancyہی کی تعریف کرتے ہیں۔ماضی کو حال،حال کو استقبال،خاک کو طلا اور طلے کو خاک میں بدلنا، فینسی ہی کی مثالیں ہیں۔شاعری کی نظری اساس میں یہ پہلو بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے،لیکن اس کے بیان میں آزاد کے پاس تنقیدی اصطلاحات نہیں تھیں،اور یہ ان کے شعورِ نقد کے اظہاریے کی مجموعی صورتِ حال ہے۔
آزاد شاعری کو الہام تصور کرتے ہیں۔شاعری الہام ہے یا نہیں؟یہ بحث فلسفے پر قائم ہے۔جہاں محض موشگافیاں ہی کی جاسکتی ہیں۔شاعری اگر واقعی الہام ہے تو شاعر کی حیثیت محض ایک منشی کی ہوگی،کہ وہ اس شانِ نزول کو حوالۂ قلم کردے،اور بس۔شاعری میں کسبِ فن کے لیے ریاض کی ضرورت پڑتی ہے۔شاعر اپنے شعر کو خود متعدد ،دفعہ کاٹتا چھانٹتا ہے۔اس عمل میں وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔اس لیے شاعری الہام نہیں،کہ غیب سے اچانک نازل ہوجائے۔کائنات کے اسرار پر فکر کرنا بھی کوئی شے ہے۔البتہ یہ سچ ہے کہ شاعری کسبی نہیں،وہبی چیز ہے،اور اس سے قطعی یہ مراد نہیں کہ بغیر غور و فکر کے کسی پر اشعار اترتے ہیں۔یہ صحیح ہے کہ تخلیق ایک قسم کا مراقبہ ہے،لیکن یہاں بھی غور و فکر سے مفر نہیں۔آزاد شعر کی تعریف میں لکھتے ہیں :
شعر سے وہ کلام مراد ہے جو جوش و خروش خیالات سنجیدہ سے پیدا ہوا ہے اور اسی قوت قدسیہ الٰہی سے ایک سلسلہ خاص ہے۔خیالات پاک جوں جوں بلند ہوتے جاتے ہیں،مرتبۂ شاعری کو پہنچتے جاتے ہیں۔۲۲
اس اقتباس کے دوسرے ٹکڑے پر اعتراضات کا دفتر کھڑا کیا جا سکتا ہے،لیکن پہلے ٹکڑے کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔’جوش و خروش‘اور سنجیدہ خیالات سے شعر مراد لینے میں بحث کے کئی در وا ہوتے ہیں۔حالی نے بھی’سادگی،اصلیت اور جوش‘کو اچھے شعر کا وصف بتایا۔سنجیدگی سے مراد یہی ہے کہ شاعری ایک نوع کے ضبط اور ٹھراؤ کا مطالبہ کرتی ہے،اور جوش و خروش کا مقصود لاابالی پن نہیں، کہ جو اور جس طرح جی میں آئے،باندھ دو۔یعنی بقول غالب؛ شعر قافیہ پیمائی نہیں،معنی آفرینی کا نام ہے۔معنی خیزی کے عمل میں تخلیقی ضبط/سنجیدگی کے ساتھ جوش یعنی بے ساختہ پن اور موثر پیرایے کا بھی دخل ہوتا ہے۔جوش سے حالی آمد مراد لیتے ہیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ آزادنے شعر میں جوش و خروش کی صفت سے اپنے نظریے کو صلابت عطا کی۔محمدحسین آزاد کے مطابق شعر کو موثر،متین اور جوش و خروش سے پر ہونا چاہیے۔یہ بہت اچھی بات ہے،لیکن سب سے بڑا قضیہ ان کے نظریۂ ادب میں اخلاقیات کے تصور کا ہے۔وہ ادب پر اخلاقی قدغنیں عائدکرتے ہیں۔کہتے ہیں :
شاعر کو ایک نسبت خاص عالم بالا سے ہے۔۲۳
فی الحقیقت شعر ایک پر تو روح القدس کااور فیضان رحمت الٰہی کا ہے۔کہ اہلِ دل کی طبیعت پر نزول کرتا ہے۔۲۴
شاعروں کی بدزبانی و بد خیالی سے شعر بھی تہمتِ کفر سے بدنام نہیں ہوسکتا۔در حقیقت ایسے کلام کو شعر کہنا ہی نہیں چاہیے۔۲۵
حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف تو وہ گرد و نواح کے زمینی حقائق کو شعر میں سمونے کی بات کرتے ہیں،کہ ہمارا شاعر گنگا جمناکا ذکر نہیں کرتا۔ہمالے کی بلندی اور ارجن کی شجاعت اسے متاثر نہیں کرتی،اور دوسری طرف اسے ’عالم بالا‘میں پہنچا کر دوسری ہی دنیا کا مخلوق گردانتے ہیں۔یہ بھی فرماتے ہیں کہ برے خیالات کا اظہاریہ شعر ہو ہی نہیں سکتا۔خیالات کا اچھا یا برا ہونا اپنی جگہ،لیکن کوئی خیال مضمون بن کر جب شعر میں آتا ہے تو خواہ وہ برا ہی صحیح،فنی عناصر اس کے معیار کو طے کرتے ہیں۔تخلیق کو اخلاق سے سبق لینے کی ضرورت نہیں۔پھر نیک خیال اور بد خیال کیا ہے؟خیالات کا رشتہ براہِ راست معنی سے ہے،اور شعروادب میں معنی کو کسی مخصوص عینک سے دیکھنا مناسب نہیں۔یہاں ترسیل کے ہمراہ اپنے اپنے طور پر تفہیم کی بھی آزادی ہے۔مسئلہ کسی خیال کے پاک یا ناپاک ہونے کا نہیں،بلکہ اصل معاملہ تخلیقی برتاؤ کا ہے،کہ کس طرح کوئی خیال تخلیقی بنت کا حصہ بنتا ہے اور اس کی ترسیل/تفہیم کے معائر کیا ہیں؟ترسیل میں تخلیقی عناصرسے جوجھنا پڑتا ہے اور یہ عناصر معنی کو انگیز کرتے ہیں۔خیال کا حسن معنی میں ہے،اور معنی کا حسن تجرید میں۔آزاد نے یہ کہہ کر اہم نکتے کو پالیا ہے کہ شاعر معنی کی تصویر دل پر کھینچتا ہے۔۲۶’معنی‘کیفیت کا نام ہے اور ’دل‘سے اشارہ اثر پذیری کی طرف ہے۔
لفظ و معنی کی بحث کا سرا قدیم عربی شعریات کی طرف منتقل ہوتا ہے۔جاحظ،عبدالقاہرجرجانی،ابن رشیق قیروانی وغیرہ نے لفظ و معنی کے ا ختصاص اور منازل کی تعین میں فکرِ بلیغ سے کام لیتے ہوئے متن/لفظ اور معنی کے رشتے پر مبسوط ڈسکورس قائم کیا ہے۔آزاد کو عربی فارسی شعریات کا عمیق درک تھا۔فکرِ آزاد کی تشکیل میں یہ عناصر جز و لا ینفک ہیں۔ان کی تنقید کا ڈھانچہ لفظ و معنی کے مروجہ اسالیب میں حسن و قبح کی تلاش سے عبارت ہے۔معاصر ادبی تنقید میں لسان کو مرکز میں رکھا گیا ہے۔اس تنقیدی تھیوری کے نظامِ کلام (Discourse)میں دریدا (Jacques Derrida) ،اور سوسیور (Ferdinand de Saussure) کے نظریات پر ادراکِ معنی کی کوششیں نمایاں ہیں۔معنی تک رسائی کے پیمانے ہر عہد میں نامیاتی رہے ہیں۔معنی کے سیاق کی جڑیں دور تک پھیلی ہوتی ہیں۔اس لیے شاعر اگر معنی کی تصویر کھینچتا ہے ،تو اس تصویر میں جو سیاق خلق ہوگا،اس کی اساس جدلیاتی ہوگی۔آزاد نے اپنے فکری اور معاشرتی حدود میں شاعری کی تفہیم کے لیے بعض اہم نکتوں کی طرف اشارہ کر دیا ہے،جن پر آئندہ بھی بحثیں ہوتی رہیں گی۔مثلاً ان کا یہی جملہ ،کہ ’’شاعرگویا ایک مصور ہے۔‘‘۲۷مصور کا کام تصویریں بنانا ہے۔وہ تصور سے کام لیتا ہے۔تصور اور تخیل میں فرق ہے۔تصور Mimesisہے، جب کہ تخیلImagination ۔یہاں ذہن افلاطون اور ارسطو کی جانب بھی جاتا ہے۔تصور یعنی نظریۂ نقل (Mimesis)کی بحث بہت قدیم ہے۔ارسطو نے نقل کو ترجمانی کا نام دیا۔تصور ادراک کی منزل ہے،تخیل اس سے بہت آگے کی شے ہے۔شاعری مصوری یا نقل نہیں،تخیلی تجربہ ہے،اپنی وسعت میں بے کنار۔آزاد کے زمانے میں یہ نکتے صاف نہ تھے۔ان کے ہاں تخیل اور تصور ایک ہی چیز کا نام تھا۔آزاد قوتِ واہمہ (Fancy)کی اصطلاح استعمال کیے بغیر اس کی تعریف کرتے ہیں،کیوں کہ ان کے ہاں نظریے کی منطقی تنظیم اس طور پر متشکل نہیں ہوئی تھی،جس طرح آج کے ناقدین کے ہاں ہے،اس لیے ان کی فکریات اور نظری اساس کو ابوالکلام قاسمی کے الفاظ میں اردو تنقید کی شیرازہ بندی کی اولین کوشش کہنا،بالکل بجا ہے۔۲۸
حواشی
ؐ۱۔ کلیم الدین احمد،اردو تنقید پر ایک نظر،۱۹۸۳،سبزی باغ،پٹنہ:بک امپوریم،ص:۵۷
۲۔ ایضاً،ص:۱۰۷
۳۔ محمدحسین آزاد،نظم آزاد،۱۸۹۹،لاہور:مفیدعام پریس،ص:۴
۴۔ محمدحسین آزاد،کائنات عرب،۱۹۲۲،لاہور:آزاد بک ڈپو،ص:۶
۵۔ محمدحسین آزاد،نیرنگ خیال(اول و دوم)،۱۸۷۰،دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:۱۴
۶۔ ایضاً،ص:۱۶۔۱۵
۷۔ محمدحسین آزاد،نظم آزاد،۱۸۹۹ء،لاہور:مفیدعام پریس،ص:۶
۸۔ محمدحسین آزاد،نیرنگ خیال(اول و دوم)،۱۹۷۰ء،دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:۱۵
۹۔ اسلم فرخی،محمد حسین آزاد:حیات اور تصانیف(حصہ دوم)،۱۹۶۵ء ، کراچی،پاکستان:انجمن ترقی اردو،ص:۳۴۸
۱۰۔ ایضاً
۱۱۔ مالک رام،تعارف،مشمولہ:نیرنگ خیال/محمدحسین آزاد ۱۹۷۰ء، دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:۶
۱۲۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی تاریخ سے اقتباس،مشمولہ:محمد حسین آزاد:حیات اور تصانیف/اسلم فرخی(حصہ دوم)،۱۹۶۵ء،کراچی،پاکستان:انجمن ترقی اردو،ص:۳۴۸
۱۳۔ اسلم فرخی،محمد حسین آزاد:حیات اور تصانیف(حصہ دوم)، ۱۹۶۵ء، کراچی،پاکستان:انجمن ترقی اردو،ص:۹۳
۱۴۔ محمدحسین آزاد،نیرنگ خیال(اول و دوم)،۱۹۷۰ء،دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:۱۵
۱۵۔ محمدحسین آزاد،نظم آزاد،۱۸۹۹ء،لاہور:مفیدعام پریس،ص:۳
۱۶۔ ایضاً،ص:۶
۱۷۔ محمدحسین آزاد،مکاتیب آزاد،مرتبہ:فاضل لکھنوی، ۱۹۶۶ء، لاہور، پاکستان : مجلس ترقی ادب،ص:۸۴
۱۸۔ محمدحسین آزاد،نیرنگ خیال(اول و دوم)،۱۹۷۰ء،دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:۲۷
۱۹۔ محمدحسین آزاد،نظم آزاد،۱۸۹۹ء،لاہور:مفیدعام پریس،ص:۲
۲۰۔ ایضاً،ص ص:۴۔۳
۲۱۔ ایضاً،ص ص:۳۔۲
۲۲۔ ایضاً،ص:۸
۲۳۔ ایضاً،ص:۲
۲۴۔ ایضاً،ص:۳
۲۵۔ ایضاً
۲۶۔ ایضاً،ص:۸
۲۷۔ ایضاً،ص:۲
۲۸۔ ابوالکلام قاسمی،مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت،۲۰۰۲ء،نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردو زبان،ص:۲۳۵