رپورٹ: نذر حسین کاظمی
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی
کے زیر اہتمام چھٹی عالمی اُردو کانفرنس کا انعقاد

آرٹس کونسل کراچی نے اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گزشتہ برسوں کی طر ح اس برس بھی عالمی اْردو کانفرنس کا انعقاد بھر پور طریقے سے کیا اور اس بار اْردو ادب سے وا بستہ ملکی و بین الاقوامی ادبی شخصیات کی پہلے سے زیادہ تعدادنے شرکت کی۔ عالمی اْردو کانفرنس کی مختلف نشستوں میں تنقید، شاعری اور فکشن کے رحجانات، اْردو طنز و مزاح، اْردو میں جدید سا ئنسی رحجانات، تراجم اور فکری ترا جم کی ضرورت اور دیگر موضوعات پر گفتگو کی گئی اور مختلف مقررین کی جانب سے مقالات پڑھے گئے۔کانفرنس کے دوران کئی کتابوں کا اجرا ء بھی ہو ا اور اس صدی کے نامور شاعروں کے حوالے سے تقابلی جائزے بھی پیش کیے گئے۔اس کانفرنس کے شرکاء نے اس توقع کا اظہار کیا کہ یہ عالمی کانفرنس اْردو زبان کو عالمی سطح پر فروغ اور تقویت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
اس چھٹی عالمی اْردو کانفرنس میں پاکستان، بھارت اور دْنیا کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے شاعروں،ادیبوں، تنقید نگاروں اور ڈرامہ نویسوں نے شرکت کی۔ان تمام ادبی شخصیات نے اْردو زبان کے مسائل اور تخلیقات پر گفتگو کرنے کے علاوہ عصر حاضر کے جدید ادبی اور لسانی تقاضوں پر بھی سیر حاصل بحث کی۔اْردو شاعری اور افسانے کے ارتقاء اور ترقی کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات پر بھی تحقیقی مقالات پیش کیے گئے۔سب سے اہم بات یہ کہ عبداللہ حسین کے تحریرکردہ ناول"اْداس نسلیں" کی پچاسویں سالگرہ بھی منائی گئی۔اْردوزبان کے علاوہ سندھی زبان پر بھی اظہار خیال کیا گیا اور اْردو۔سندھی زبان کے لسانی روابط پر بھی بات ہوئی۔مزید برآں ان عظیم شعراء اور ادباء کی یاد میں بھی تعزیتی اجلاس منعقد کیے گئے جن کاگزشتہ اور رواں سال میں انتقال ہوا۔
اس عالمی کانفرنس میں کتابوں کے اجراء کے علاوہ شاعری کے بھی اجلاس رکھے گئے تھے تاکہ عصر جدید میں ہونے والی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا جاسکے۔مشاعروں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس کے پہلے اجلاس کی صدارت احمد نوید نے کی۔جس میں مختلف شاعروں نے اپنی غزلیات پیش کیں اور سامعین سے داد وصول کی۔غزل کی تکنیک اور فنی محاسن کے پہلوؤں پر بحث ومباحثہ بھی ہوا جس سے نوجوان شاعروں نے مستقبل کے حوالے سے اہم نکات پر ہونے والی بحث سے عمدہ نتائج اخذ کیے۔اجلاس میں پروفیسر سحر انصاری نے عصر جدید کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ آج ہماری شاعری میں نئے عنوانات کا اضافہ ہورہاہے اور روزمرہ مسائل کوبھی جگہ دی جارہی ہے۔ اب جدید موضوعات جیسے عزت کے نام پر قتل،بچوں کی جبری مشقت اور دہشت گردی پر بھی شاعری کی جارہی ہے۔ظاہر ہے کہ ان مسائل پر ہونے والی شاعری سے اْردو ادب میں گرانقدر اضافہ ہوگااور ان ادبی رجحانات کی بدولت اس زبان کی ترقی و ترویج میں بھی مدد ملے گی۔اس اجلاس میں اکیسویں صدی کی شاعری کا بھی احاطہ کیا گیا اور تجزیاتی انداز سے اس کا جائزہ لیا گیا۔اس حوالے سے شاعرہ عنبریں حسیب امبر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
بھارت سے تشریف لائے ڈاکٹر شمیم حنفی نے اکیسویں صدی کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری اْردو شاعری کی روایت بہت پرانی اور زرخیز ہے۔اس شاعری میں وہ تمام فنی لوازم اور محاسن پائے جاتے ہیں جو دْنیا کی عظیم شاعری کا خاصاہوتے ہیں۔اس عالمی جہت کو مدنظر رکھاجائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارا ادبی اورلسانی ورثہ ہماری موجودہ اورآنے والی نسلوں کی ہمیشہ رہنمائی کرتارہے گا۔اس کانفرنس میں جن شعراء کی کتب پیش کی گئیں ،ان میں احفاء الرحمن،افضل احمداور عزیز احمد مدنی شامل ہیں۔ معروف ادیبہ زاہدہ حنا نے احفاء الرحمن کی زندگی اور فن پر ایک تحقیق مقالہ بھی پیش کیا۔
ڈاکٹر اسلم فرخی نے عزیز احمد مدنی کے شاعرانہ اسلوب اور انداز فکر پر گفتگو کی۔آپ نے اپنے جائزے میں عزیز مدنی کے فن کی جملہ خوبیوں اور اوصاف پر مختلف زوایے سے روشنی ڈالی۔ اس کے علاوہ عزیز مدنی کے بھانجے ظفر سعید سیفی نے بھی شاعر کی ذاتی زندگی کے کئی واقعات پیش کیے اور تخلیقی محاسن پر تبصرہ کیا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس عظیم شاعر کی ذاتی اور فنی خصوصیات قابل تعریف اور تقلید ہیں۔اس موقع پر ایک مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا جس کی صدارت جناب خورشید رضوی نے کی۔اس مشاعرے میں جن شعراء کرام نے اپنا کلام پیش کیا،ان میں انور شعور،صابر ظفر،عنبرین حسیب امبر،امجد اسلام امجد،لیاقت علی عاصم،کشورناہید،احمد نوید اور عقیل عباس جعفری شامل تھے۔
عام طورپر یہ خیال کیا جاتاہے کہ ادبی تنقیداور فکشن کا باہمی تعلق مفقود ہوتا جارہاہے لیکن آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی کی جانب سے منعقدہ چھٹی عالمی اْردو کانفرنس بعنوان "اْردوافسانہ۔ایک صدی کا سفر" نے اس نظریے کو غلط ثابت کردیاہے۔اس کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالات نہایت فکرانگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اْردو ادب کے بہترین شاہکاربھی تھے۔
اجلاس میں اخلاق احمد نے اپنے نظریات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کا فکشن ہوسکتاہے کہ لوگوں کو بے ترتیب اور بے ہنگم محسوس ہوتاہو لیکن درحقیقت یہ ایسی تہ دارادبی نگارشات ہیں جو اپنی فنی افادیت کو مسلمہ ثابت کریں گی۔قارئین جب ان کے مدعااور مفہوم سے آشنا ہو جائیں گے تو وہ یقینا ان کے تخلیق کرنے والوں کو داد دیں گے۔ ڈاکٹر فرخی نے ادب کے رجحانات اور امکانات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم ادب کی جدید و قدیم اصلاحات کی تشکیل نو کرلیں گے تو پھر ان ادبی رجحانات اور امکانات کے مطالب واضح ہونا شروع ہوجائیں گے۔ مقررین نے کہا ہے کہ اُردو افسانہ ہماری معاشرتی زندگی کا ایک حصہ ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج افسانہ کہاں کھڑا ہے۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا سوسائٹی میں انسانی رشتے تبدیل ہو رہے ہیں۔ کیا یہ صورتحال ہمارے ناول اور افسانے میں نظر آ رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار آرٹس کونسل کی عالمی اْردو کانفرنس کے آخری دن کے پہلے اجلاس میں کیاگیا جس کا موضوع "اْردو افسانہ، ایک صدی کا سفر" تھا۔ دیگر مقررین میں انتظار حسین، ڈاکٹر حسن منظر، اسد محمد خان، زاہدہ حنا، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر آصف فرخی، اخلاق احمد اور ڈاکٹر مصطفی حسین شامل تھے۔
ڈاکٹر حسن منظر نے کہا کہ ادب لکھنا، عشق کا سودا ہے۔ افسانہ آج بھی لکھا جارہا ہے لیکن اس کی ترسیل نہیں ہو رہی۔ انھوں نے کہا کہ اْردو افسانہ ہر دور میں نئی معنویت کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔ اسد محمد خان نے"ایک کہانی و کردار" کے عنوان سے مختصر افسانہ پیش کیا۔ پروفیسر علی حیدر ملک نے کہا کہ بیانیہ افسانے کا دور منٹو کے ساتھ مکمل ہوگیا تھا۔اس کے بعد انتظار حسین کے ساتھ علامتی افسانے کا دور شروع ہوا۔ محمد حمید شاہد نے کہا کہ جس دور میں بھی افسانہ لکھا جائے گا، وہ اس دور کا جدید افسانہ ہوگا۔ ڈاکٹر آصف اسلم فرخی نے کہا کہ آج کل افسانے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے، پڑھنے والوں کا حلقہ بھی محدود ہوگیا ہے۔ منشی پریم چند اور سعادت حسن منٹو اردو افسانے کی شناخت ہیں لیکن دونوں کا انداز نظر مختلف ہے۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ اْردو دْنیا میں رجحان ساز افسانے نہیں لکھے جارہے۔ ڈاکٹر مصطفی خان نے کہا کہ ترجمہ، ایک مشکل فن ہے۔مترجم کا دونوں زبانوں پر عبور ہونا نہایت ضروری ہے۔ ترجمہ ایک محنت طلب کام ہے لیکن بعض ترجمے تو اتنے معیاری ہوئے ہیں کہ ان پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔
کانفرنس کی اختتامی تقریب میں مقررین نے کہا کہ تمام زبانوں کے درمیان تہذیبی اور ثقافتی ہم آہنگی نہایت ضروری ہے، ہمیں اپنے ادبی ورثے سے استفادہ کرنا چاہیے۔ مقررین میں ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، فیصل سبزواری، انتظار حسین اور بھات سے آئے پروفیسر شمیم حنفی شامل تھے۔ آرٹس کونسل کے صدر محمداحمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ بھی پیش کیا اور قراردادیں بھی پیش کیں۔ ڈاکٹر ہما میر نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ مجلس صدارت ڈاکٹر ستیہ پال آنند، رضا علی عابدی، مسعود اشعر، ڈاکٹر خورشید رضوی، فرہاد زیدی، امینہ سید اور حسینہ معین پر مشتمل تھی۔اس موقع پرآرٹس کونسل کے اعزازی سیکریٹری پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے شکریے کے کلمات ادا کیے۔صوبائی وزیر آغا سراج درانی نے کہا کہ احمدشاہ نے آرٹس کونسل میں عالمی اْردو کانفرنس کا اہتمام کرکے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس قسم کی ایک کانفرنس لاڑکانہ میں بھی منعقد کی جائے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کراچی کے اس گھٹن زدہ ماحول میں اْردو کانفرنس کا انعقاد آرٹس کونسل کی ایک اچھی کاوش ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ میں تنہا آیا تھا اور آپ کی یادیں ساتھ لے کر جارہا ہوں۔ میں بہت سی کانفرنسوں میں شریک ہوچکا ہوں، لیکن اتنی منظم اور پررْونق کانفرنس کہیں اور نہیں دیکھی۔ اس کا تمام کریڈٹ آرٹس کونسل کے صدر محمد احمدشاہ کو جاتا ہے۔ انتظار حسین نے کہا کہ آرٹس کونسل نے دہشت گردی کے موسم میں محبت کے پھول کھلائے ہیں۔ یہ ایک یادگار اْردو کانفرنس تھی۔ حیدر عباس رضوی نے کہا کہ اس کانفرنس کی کامیابی کی سند انتظار حسین اور پروفیسر شمیم حنفی جیسے دانشوروں کی آمد ہے۔ بلاشبہ اس کانفرنس سے اْردو زبان کو فروغ ملے گا۔
٭٭٭٭
ایرانی ثقافتی قونصلرتقی صادقی کی ادارہ فروغ قومی زبان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندیم اقبال عباسی سے ملاقات
سفارت اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی قونصلر تقی صادقی نے ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد کا دورہ کیااور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ندیم اقبال عباسی سے ملاقات کی۔ ندیم اقبال عباسی نے ثقافتی قونصلر کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ملاقات کے دوران دونوں سربراہان نے اُردواورفارسی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے مفید گفتگو کی۔ایران کے ثقافتی قونصلر صادقی نے ایران کے ادارے فرھنگستان زبان وادب فارسی کی جانب سے ادارہ فروغ قومی زبان کی لائبریری کے لیے کتب کا تحفہ پیش کیا۔ مذکورہ کتب فرہنگستان کے چیئرمین ڈاکٹر غلام علی حداد عادل فرہنگستان اور ادارہ فروغ قومی زبان کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہونے کے موقع پر لائے تھے۔ یہ کتب پاکستان میں فارسی کے محققین ، طلبہ اور دیگر شائقین کی علمی ضروریات کو پورا کرتی ہیں نیز ایران میں ہونے والی جدید تحقیقات سے آشنائی میںبھی نہایت معاون و مفید ہیں۔ملاقات میں صادقی نے ایران میں فارسی زبان کی ترقی کے حوالے سے مفید اطلاعات فراہم کیں ۔انھوں نے کہا کہ فرہنگستان اور ادارہ فروغ قومی زبان کے مابین طے پانے والی حالیہ مفاہمت کی یادداشت دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے مذکورہ یادداشت کو فعال بنانے کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لانے کااظہار کیا۔ آخر میںانھوں نے ادارے کی چند مطبوعات ثقافتی قونصلر کو پیش کیں۔
کمال فن ایوارڈ کے لیے ادیب و افسانہ نگار ابراہیم جوئیو منتخب
اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے '' کمال فن ایوارڈ۲۰۱۱'' کے لیے سندھ کے ممتاز ادیب ، دانشور اور افسانہ نگار محمد ابراہیم جوئیو کو منتخب کر لیا گیا، اعلان ایوارڈ کمیٹی کے صدر مسعود اشعر نے اکادمی ادبیات پاکستان میں ایوارڈ کمیٹی کے اجلاس کے بعد کیا۔ ''کمال فن ایوارڈ '' ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ جس کی رقم پانچ لاکھ روپے ہے۔ اس بات کا فیصلہ پاکستان کے معتبر اور مستند اہل دانش پر مشتمل مصنفین کے پینل نے کیا۔ اجلاس کی صدارت مسعود اشعر نے کی۔ ''قومی ادبی ایوارڈ'' برائے سال ۲۰۱۱ء کا اعلان چیئرمین اکادمی ادبیات عبد الحمید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اردو نظم کے لیے ''ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایوارڈ'' منظر حسین اختر کی کتاب ''سطر نوح'' کو دیا گیا۔ اردو نثر کے لیے ''بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق ایوارڈ''منشا یاد کی کتاب ''دور کی آواز'' کو دیا گیا۔ پنجابی زبان کے لیے ''سید وارث شاہ ایوارڈ'' ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی کتاب ''موج میلا'' کو دیا گیا۔ سندھی زبان کے لیے ''شاہ عبد اللطیف ایوارڈ'' فضل اللہ قریشی کی کتاب ''کجھ یادوں کجھ گالھیوں'' کو دیا گیا۔ پشتو زبان کے لیے ''خوشحال خان خٹک ایوارڈ'' ڈاکٹر جاوید خلیل کی کتاب ''پشتو او مستشرقین''کو دیا گیا۔ سرائیکی زبان کے لیے ''خواجہ غلام فرید ایوارڈ'' محمد اسماعیل احمد انی کی کتاب ''یادیں دا خواب محل'' کو دیا گیا۔ براہوی زبان کے لیے ''تاج محمد تاجل ایوارڈ'' ڈاکٹر عبد الرحمان براہوئی کی کتاب ''بے بہا'' کو دیا گیا۔ ترجمے کے لیے ''محمد حسن عسکری ایوارڈ'' محمود احمد قاضی کی کتاب ''کتھا نگر'' کو دیا گیا۔ چیئرمین اکادمی عبد الحمید نے ''قومی ادبی ایوارڈ'' برائے سال ۲۰۱۲ء کا اعلان بھی کیا۔جس کے مطابق اردو نظم کے لیے ''ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایوارڈ'' خالد احمد کی کتاب ''نم گرفتہ'' کو دیا گیا۔ اردو نثر کے لیے ''بابائے اردوڈاکٹر مولوی عبد الحق ایوارڈ'' ڈاکٹر وزیر آغا(مرحوم) کی کتاب ''تنقیدی تھیوری کے سو سال'' کو دیا گیا۔ پنجابی زبان کے لیے ''سید وارث شاہ ایوارڈ'' زاہد حسن کی کتاب ''غلیچا اُنن والی'' کو دیا گیا۔ سندھی زبان کے لیے ''شاہ عبد اللطیف ایوارڈ'' ایاز گل کی کتاب ''میلی جی تنہائی'' کو دیا گیا۔ پشتو زبان کے لیے ''خوشحال خان خٹک ایوارڈ'' پروفیسر محمد نواز طاہر کی کتاب ''تمپہ اوژوند'' کو دیا گیا۔ سرائیکی زبان کے لیے ''خواجہ غلام فرید ایوارڈ'' سلیم شہزاد کی کتاب ''گھان'' کو دیا گیا ۔ براہوی زبان کے لیے ''تاج محمد تاجل ایوارڈ'' منیر احمد بادینی کی کتاب ''تیناہیت تین تُن '' کو دیا گیا۔ انگریزی زبان کے لیے ''پطرس بخاری ایوارڈ'' اطہر طاہر کی کتاب ''The Gift of Possession'' کو دیا گیا۔
فن خطاطی کورس کے ذریعے اسلاف کے شاندار ورثے کو فروغ دیا جائیگا۔ ندیم اقبال عباسی
ادارہ فروغ قومی زبان نے اردو فن خطاطی سکھانے کے لیے ۱۳جنوری ۲۰۱۴ء سے نئے داخلوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے نئے داخلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ میں فن خطاطی کورس کے اہتمام سے اپنے اسلاف کے فن کو رواج دے سکیںگے،جس سے نئی نسل اپنے شاندار تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے روشناس ہوگی اوروہ اسے آگے بڑھانے کی اہلیت پیدا کر سکیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس کورس میں اردو رسم الخط کے علاوہ دوسرے رسم الخط بھی شامل ہوں گے ۔ کورس کی تکمیل پر سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیے جائیں گے۔دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات ادارہ فروغ قومی زبان ، پطرس بخاری روڈ، سیکٹر ایچ ایٹ فور، اسلام آباد فون نمبر ۱۳۔۱۲۔۹۲۵۰۳۱۱۔۰۵۱ پر رابطہ کریںیا دفتری اوقات کار میں صبح ۹ بجے سے ۴ بجے تک دفتر تشریف لائیں۔ ٭٭٭٭