سردار عبدالرب نشتر
قائد اعظم اور پاکستانی پرچم

۳ جون ۱۹۴۷ء کو بر صغیر ہندو پاک کی تقسیم کا اعلان ہوا۔ اس کے بعد تقسیم کے کام کے لیے پاکستان اور بھارت کے نمائندوں پر مشتمل کئی کمیٹیاں مقرر کی گئیں۔ ایک کمیٹی وزراء کی تھی جس کی صدارت گورنر جنرل کیا کرتے تھے۔ اس کمیٹی میں بھارت کی طرف سے آنجہانی پٹیل اور بھارت کے صدر بابو راجندر پرشا د ممبر تھے اور پاکستان کی طرف سے لیاقت علی خان اور میں۔ چند یوم کے بعد جب سندھ کی صوبائی اسمبلی نے اعلان تقسیم کی شرائط کے مطابق تقسیم کے حق میں تجویز پاس کی تو پاکستان کی طرف سے قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ اور بھارت کی طرف سے پنڈت جواہر لال نہرو بھی اس کمیٹی میں شامل کئے گئے ۔کمیٹی کے اجلاس عام طور پر صبح کے وقت وائسرائے کے گھر پر ہوا کرتے تھے او ر سہ پہر کو پاکستانی نمائندے قائداعظم کے مکان واقع اورنگ زیب روڈ دہلی پر مشورہ کے لیے جمع ہوتے تھے۔وہاں پر صبح کے نتیجے اور آئندہ جلسے کے ایجنڈے پر غور کیا جاتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ دیگر مسائل کے متعلق بھی فیصلے کیے جاتے تھے چنانچہ ایک دن قائداعظم نے فرمایا:۔
وائسرائے نے ان کے ساتھ پاکستان کے پرچم کے متعلق بحث چھیڑی اور کہا کہ بھارت کے نمائندے تو اس بات پر رضامند ہیں کہ باقی نوآبادیوں کی طرح اپنے جھنڈے میں پانچواں حصہ برطانوی پرچم یعنی '' یونین جیک '' کے لیے مخصوص کر دیں۔ وائسرائے نے قائداعظم سے پاکستان کے رویہ کے متعلق استفسار کیا۔ انھوں نے جواب دیا کہ اپنے رفقائے کار سے مشورہ کر کے وائسرائے کو مطلع کریں گے ۔ میں نے عرض کی کہ :۔
ہمیں یہ تجویز ماننی نہیں چاہیے کیونکہ ہماری کیفیت باقی برطانوی نو آبادیوں سے جد ا ہے وہ ممالک برطانوی لوگوں کے قبضہ میں ہیں انہیں قدرتاً برطانوی جھنڈے سے خاص تعلق ہے۔ ہم تو برطانیہ کے قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور برطانیہ کے ساتھ نہ ہمارا نسلی تعلق ہے نہ مذہبی۔ ہماراملک ایک اسلامی ملک ہو گا اور اس ملک کے پرچم میںایک ایسے جھنڈے کو جگہ دینا جو ہماری غلامی کی یادگار رہے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں صلیب موجود ہے ہماری قوم کو کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے۔
ہم سب اس پر متفق تھے کہ وائسرائے کی تجویز قبول نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ قائداعظم نے وائسرائے کو اطلاع دے دی کہ بھارت کا جو بھی رویہ ہو پاکستان متعددو جوہ سے یونین جیک کو پرچم میں جگہ نہیں دے سکتا۔ اس کے بعد یہ پوچھا گیا کہ:
''جھنڈے کے متعلق پاکستان کی کیا تجویز ہے؟''
چنانچہ اس سوال کو بھی قائداعظم نے ایک دن سہ پہر والے اجتماع میں پیش کیا۔ سب کی رائے یہ تھی کہ چونکہ مسلم لیگ کے جھنڈے کے نیچے ہی حصول پاکستان کی تحریک کامیابی کے ساتھ چلائی گئی ہے۔ اس لیے پاکستانی پرچم میں اس کو تو رکھناچاہیے لیکن اقلیتوں کی نمائندگی کی بھی کوئی صورت نکالنی چاہیے۔ بالآخر یہ طے پایا کہ:۔
چونکہ پاکستان میں کئی اقلیتیں ہیں۔ اس لیے سب کی نمائندگی کے لیے علیحدہ علیحدہ رنگ یا نشان کے پرچم رکھے گئے تو موزوں نہ ہو گا۔بجائے اس کے ایک حصہ سفید رکھا جائے جو سب رنگو ں کا مجموعہ ہے۔ اس طرح ایک تو سب اقلیتوں کی نمائندگی ہو جائے گی اور دوسرے پاکستانی پرچم میں سفید رنگ کا موجود ہونا ہمارے اسلامی ملک کی امن اور صلح کی پالیسی کا بھی مظہر ہو گا۔جب اس سلسلے میں قائداعظم نے وائسرائے سے گفتگو کی تو اس نے مشورہ دیا کہ نیوی والے پرچم تجویز کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں کہا جائے کہ پاکستانی نمائندوں کے فیصلہ کے مطابق پرچم تجویز کریں۔
چند یوم کے بعد بحریہ والوں نے چھوٹے چھوٹے پرچم بناکر بھیج دیے کسی میں سفید رنگ دونوں طر ف اور درمیان میں مسلم لیگ کا جھنڈا تھا۔ کسی میں سفید رنگ لکڑی کی طرف اور مسلم لیگ کا پرچم دوسری طرف اور کسی میں اس کا الٹ ،چنانچہ ایک سہ پہر کو آخری انتخاب پرچم کے لیے چند نمونے پیش ہوئے، دونوں طرف سفید رنگ او ر بیچ میں مسلم لیگ کے جھنڈے والا نمونہ تو بھلا نہیں لگتا تھا اس لیے اس کو رد کر دیا گیا۔ باقی ۲ نمونوں پر بحث ہوئی بالآخر موجودہ پرچم کا انتخاب کیا گیا۔ علاوہ دیگر وجوہات کے اس کی تائید میں یہ دو باتیں بھی تھیں کہ ایک تو مسلم لیگ کے جھنڈے والا حصہ اس طرف رہے گاجو ہوا میں اڑتا ہے کیونکہ یہ خوبصورت نظر آئے گا اور دوسرے جو کپڑا جھنڈے کی لکڑی پر چڑھایا جاتا ہے۔ وہ سفید رنگ کا ہوتا ہے اس لیے اس کے تسلسل میں سفید رنگ والا حصہ ہونا چاہیے۔
دوران گفتگو قائداعظم نے فرمایا کہ یہ بہتر نہ ہو گا کہ پاکستان کے پانچ صوبوں کی نمائندگی کے لیے پرچم میں پانچ ستارے رکھے جائیں۔
میں نے عرض کیا کہ پاکستان کے ساتھ ریاستوں کا الحاق ہو گا۔ نیز اور کئی وجوہات سے ہمارے صوبوں میں کمی بیشی کا امکان ہے۔ اس لیے اگر یونٹوں کی تعداد میں تبدیلی واقع ہو گی تو وقتاً فوقتاً ستاروں کی تعداد بدلنا پڑے گی اور اگر نہ بدلیں تو پانچ ستارے بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔
اس پر قائد اعظم نے مسکراکر فرمایا:۔
'' ایسی صورت میں ہم پانچ ستاروں کی توجہیہ یہ کریں گے کہ ان سے مراد '' پنج تن'' ہیں۔''
آخر کا ر یہی طے پایا کہ ایک ستارہ ہی رہے گا ۔کیونکہ مسلم لیگ کے جھنڈے میں ایک ہی ستارہ ہے۔
بحریہ والوں کو اس انتخاب کی اطلاع دی گئی اور انھوں نے وہ فارمولا تیار کر کے دیا۔ جس کے مطابق پاکستان کا پرچم بنایا جاتا ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء کو کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو لیاقت علی خاں نے یہ فارمولا اسمبلی کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا۔ ان کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھوٹا سا نمونے کا پرچم بھی تھا۔ جس کی نسبت یہ طے پایا کہ اسے بطور یادگار محفوظ رکھا جائے۔کچھ عرصہ کے بعد ایک اور نئی مشکل پیش آئی ۔ غالباً اس وقت قائد اعظم رحلت فرما چکے تھے۔ پاکستان کے ٹکٹوں کے لیے مختلف حضرات سے تجاویز مانگی گئیں، اس سلسلے میں ایک صاحب نے وزارت مواصلات کو اطلاع دی کہ چاند کی وہ صورت جو پاکستان کے پرچم میں ہے۔ ہلال کی صورت نہیں بلکہ اس وقت کی ہے جب چاند زوال پر ہوتا ہے ۔ یعنی قمری مہینہ کے آخری ایام کی۔ یہ بات لیاقت علی خاں مرحوم کے علم میں لائی گئی۔ چنانچہ انھو ں نے وزراء کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا۔ وہاں یہ طے پایا کہ کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں کیونکہ ایک تو پرچم میں تبدیلی مناسب نہیں ،دوم تبدیلی کے لیے معاملہ ہر دستور ساز اسمبلی کے سامنے پیش ہو گا تیسرے اگر ہم پاکستان کو اردو رسم الخط کے طرز پر دیکھیںیعنی جھنڈے کو دائیں طرف رکھ کر تو چاند ہلال کی صورت میں نظر آئے گا۔ البتہ اگر اسے انگریزی رسم الخط کے طرز پر دیکھیں تو وہ اعتراض وارد ہوتا ہے جس کا اوپر ذکر آیا۔ چنانچہ پرچم کو اسی صورت میں رہنے دیا گیا۔ جس طرح مجلس دستور ساز میں فیصلہ کیا گیا۔
( بشکریہ'': شاہکار'' کتاب نمبر۲۳از سید قاسم محمود )