قدرت اللہ شہاب

قائداعظم کے تین روپ

ریاست جموں و کشمیر میں جب شیخ محمد عبداللہ نے مسلم کانفرنس سے ناتا توڑ کر نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی تو مسلمانان ریاست کے لیے یہ بڑی تشویش اور آزمائش کا لمحہ تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے تمام وسائل، مہاتماگاندھی کی ساری مقناطیسی کشش اور پنڈت جواہر لال نہرو کی سیاسی مہارت شیخ صاحب کے ایک ایک اشارے پر ہر خدمت اور امداد کے لیے حاضر تھی۔ اس وقت جبکہ چوہدری غلام عباس مسلم کانفرنس کے بکھرے ہوئے شیرازے کو از سر نو منظم کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھے تو ان کی ہمت بڑھانے اور ان کی دشوار گزار منزل کو اپنی رہنمائی کی مشعل سے روشن کرنے قائداعظم بھی بنفس نفیس جموں تشریف لائے تھے۔
وہاں ان کا پر جوش استقبال ہوا اور شہر کی چیدہ چیدہ راہگزاروں پر ان کا نہایت شاندار جلوس نکالا گیا۔ جب یہ جلوس ریذیڈنسی روڈ پر سے گزر رہا تھا تو مجھے دور سے قائداعظم محمد علی جناح کی پہلی جھلک نظر آئی۔ ایک کھلی چھت کی موٹر کار میں قائداعظم اور چوہدری غلام عباس شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ آگے پیچھے، دائیں بائیں رضا کاروں اور جاں نثاروں کے پہرے لگے ہوئے تھے اور چاروں طرف دور دور تک مسلم کانفرنس کے نام لیوائوں کا ہجوم ہی ہجوم نظر آتا تھا۔ ''اللہ اکبر'' اور ''زندہ باد'' کے نعرے فضا میں گونج رہے تھے اور قائداعظم مسکرا مسکرا کر دایاں ہاتھ پیشانی تک اٹھا کر لوگوں کے سلام و نیاز کا جواب دے رہے تھے۔ کبھی جب جوش و خروش حد سے زیادہ بڑھ جاتاتھا تو قائداعظم اپنا بازو چوہدری صاحب کے بازو میں ڈال کر سر کی ہلکی سی جنبش سے ان کی طرف اشارہ کرتے تھے، گویا زبان حال سے کہہ رہے ہوں۔
یہ چوہدری غلام عباس ہیں۔ مجھے ان پر انتہائی اعتماد ہے جتنا کہ آپ کو بھی ہے۔ قائداعظم کے سر کی جنبش دیکھ کر سارے کا سارا مجمع اور بھی جوش میں آ جاتاتھا اور آس پاس کی فضا ''قائداعظم زندہ باد، چوہدری غلام عباس زندہ باد'' کے بلند نعروں سے گونجنے لگتی تھی۔ عوام الناس کی عقیدت اور قائداعظم کی خوشنودی کے اس مظاہرے پر چوہدری صاحب دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر عجزو انکساری سے سر جھکا لیتے تھے۔ جموں کی سڑکوں نے یہ جاں پرور نظارہ کئی گھنٹے تک دیکھا۔ قائداعظم کے اس دور کے جلوس کے بعد مجھے ان کی دوسری زیارت نئی دہلی میں نصیب ہوئی۔ ۱۹۴۶ء کے وسط میں جب یہ ظاہر ہو گیاکہ ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہے اور پاکستان کا قیام بھی اٹل ہے تو کانگریس کی ہائی کمان نے ہندو اکثریت کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنانے شروع کر دیے۔ اس زمانے میں میری پوسٹنگ اڑیسہ کے دارالخلافے کٹک میں تھی اور میں وہاں ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سیکریٹری کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ صوبہ اڑیسہ میں کانگریس کی وزارت برسراقتدار تھی اور شری ہرے کرشن مہتاب وزیر اعلیٰ تھے۔ مہتاب صاحب بڑے نیک دل، بے تعصب اور منصف مزاج انسان تھے۔ جس وقت سارا ہندوستان ہندو مسلم فسادات کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا، اڑیسہ ان چند خوش قسمت علاقوں میں سے تھا جو اس ہولناک آگ کے شعلوں سے کافی حد تک محفوظ رہے تھے۔ اس کی بڑی وجہ مسٹر ہرے کرشن مہتاب کی اپنی بے تعصبی تھی۔ اس زمانے میں اڑیسہ کا چیف سیکریٹری آئی۔ سی۔ ایس۔ کا ایک انگریز افسر مسٹر کیمپ تھا۔ یہ صاحب عجیب ذات شریف تھے! اپنی آنکھوں سے صاف دیکھ رہے تھے کہ ہندوستان پر انگریزی سلطنت کا آفتاب غروب ہو رہا ہے، لیکن ان کا دل اس حقیقت کو قبول کرنے سے سراسر انکار ہی انکار کر رہا تھا۔ گومگو کے اس عالم میں ان کا ذہن پریشانی اور ان کے دفتری کام انتشار میں بری طرح مبتلا رہتے تھے۔ مہتاب صاحب اگر چاہتے تو چشم زدن میں مسٹر کیمپ کی جگہ کسی اور اچھے افسر کو چیف سیکریٹری کے عہدے پر فائز کر سکتے تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ آئی ۔سی۔ ایس ۔ کے انگریز افسر اب محض چراغ سحری ہیں، اس لیے وہ از راہ مروت طرح دیتے گئے اور مسٹر کیمپ بدستور ان کے چیف سیکریٹری رہے، البتہ شری ہرے کرشن مہتاب نے چپکے سے مجھے ہدایت دی کہ چیف سیکریٹری کو آرام سے اپنے دن پورے کرنے دوں اور ان کا ضروری اور اہم کام حکمت عملی سے میں خود دیکھتا رہوں خاص خاص کاغذات اور فائلیں میں ہی ان کے پاس لے کر آیا کروں۔
مجھے ڈر تھا کہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ ڈپٹی سیکریٹری کے براہ راست رابطے کا شاید چیف سیکریٹری صاحب برا منائیں، لیکن عضو معطل بن کر الگ تھلگ پڑے رہنا غالباً مسٹر کیمپ کو بھی راس آیا۔ ایک روز عجیب ہی میٹھی میٹھی تلخی کے ساتھ انھوں نے مجھے کہا:
''مجھے تبخیر معدہ کی شاید شکایت تھی۔ اب بہت افاقہ ہے''۔
''مبارک ہو!'' میں نے رسماً کہا۔
''کس کا علاج ہے؟ ''مسٹر کیمپ نے بے ساختہ جواب دیا۔
''تمہارا'' میں نے تعجب سے پوچھا۔
''وہ کیسے!'' مسٹر کیمپ بولے۔
''تمہاری حرکت سے اب ہر روز کانگریسی وزیر اعلیٰ کی صورت نہیں دیکھنی پڑتی''؟
ان دنوں تقریباً ہر ماہ کسی نہ کسی جگہ کانگریس ہائی کمان کے خفیہ اجلاس ہوا کرتے تھے۔ شری کرشن مہتاب کا قاعدہ تھا کہ وہ جب ان دوروں سے واپس آتے تو کاغذات کی ایک کالے رنگ کی آہنی صندوقچی ، جو اکثر ان کے ساتھ رہاکرتی تھی، مع چابی، میرے حوالے کر دیتے اور کہتے۔
''سرکاری اور سیاسی کاغذات کو چھانٹ کر الگ الگ کر لینا، سرکاری کاغذ دفتر میں لے جانا، سیاسی کاغذ پانڈے جی کے حوالے کر دینا۔'' شری دیس راج پانڈے ایک فربہ اندام، لیکن نحیف الدماغ کٹر ہندو کانگریسی تھے جو مہتاب صاحب کے پولیٹکل سیکریٹری کہلاتے تھے۔ ان کی تنخواہ ، جو صوبائی کانگریس کمیٹی سے ملاکرتی تھی، بہت قلیل تھی، اس لیے وہ اکثر دھمکی آمیز لہجے میں مجھے طعنہ دیا کرتے تھے۔
''شہاب جی! ذرا آزادی کا دن آنے دو، کایا پلٹ جائے گی۔ دیس راج پانڈے کی تنخواہ آئی۔ سی۔ ایس۔ کی تنخواہ سے روپے سوا روپے زیادہ نہ ہوئی تو گنگاجی میں ڈوب مروں گا۔ '' جب میں مہتاب صاحب کی صندوقچی چھان پھٹک کر ان کے سیاسی کاغذات الگ کر لیتا اور انھیں پانڈے جی کے حوالے کرنے جاتا تو وہ بے اختیار چھی چھی چھی کی گردان کرتے اور اپنا ہاتھ دو تین بار ماتھے پر مار کر کہتے۔
''شہاب جی! ذرا سوچو تو۔ مہتاب جی کی تو عقل ماری گئی ہے۔ کانگریس کے سارے خفیہ کاغذ آپ کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ آپ آدمی تو اچھے ہیں لیکن مسلمان ہیں، اس لیے پاکستانی ہیں۔پانڈے جی کو جب بھی موقع ملتا، وہ کرید کرید کر مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ کہیں میں مہتاب صاحب کے سیاسی کاغذات تو نہیں پڑھا کرتا۔ میں ہر بار انھیں ٹال دیا کرتا۔ ایک بار جب انھوں نے کوئی خاطر خواہ جواب لینے کے لیے بہت ہی اصرار کیا تو میں نے کہا:
''پانڈے جی! ایسی باتیں پوچھا نہیں کرتے ۔''
''کیوں نہ پوچھیں؟'' پانڈے جی نے زور دیا۔
''اس لیے کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں یہ کاغذات نہیں پڑھتا تو آپ کو یقین نہیں آئے گا اور اگر کہوں کہ پڑھتا ہوں تو آپ شور مچائیں گے اور شکایتیں لگائیں گے۔'' حقیقت یہ ہے کہ میں مہتاب صاحب کے تمام سیاسی کاغذات نہایت ذوق و شوق اور غور سے پڑھا کرتا تھا اور کسی کسی اہم دستاویز کی نقل بھی اپنے پاس رکھ لیا کرتا تھا اور ایک بار جب وزیر اعلیٰ کانگریس کی ہائی کمان کی میٹنگ میں شرکت کر کے کٹک واپس آئے تو ان کی صندوقچی سے ایک لفافہ برآمد ہوا جس پر کئی جگہ ''بے حد خفیہ'' (Top Secret)، ''صرف مکتوب الیہ اپنے ہاتھ سے کھولے '' کی بڑی بڑی مہریں ثبت تھیں۔ اندر ایک نو دس صفحات کا خط تھا جس میں کانگریس ہائی کمان نے اپنے صوبائی وزرائے اعلیٰ کے نام نہایت مفصل ہدایات جاری کی تھیں۔ ان ہدایات کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہے۔ ہندو اکثریت کے صوبوں میں کانگریس وزارتوں کو فوراً ہی حفاظتی اور دفاعی تدابیر پر عمل شروع کر دینا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے مسلمان افسروں کو کلیدی عہدوں سے تبدیل کردیں۔ پولیس کے مسلمان عملے کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں تھانوں سے ہٹا کر پولیس لائن میں رکھیں۔ جہاں تک ہو سکے ان لوگوں کو غیر مسلح رہنے دیں۔ جن صوبوں میں ایسی ملٹری پولیس موجود ہے جن کے گھوڑ سوار مشرقی سرحدی صوبے سے بھرتی کیے گئے ہیں، ان کے رسالوں کو جلد از جلد توڑ دیا جائے۔ آئندہ سے اس قسم کے دستوں میں صرف ہندو سپاہی بھرتی کیے جائیں۔ بڑے بڑے مسلمان زمینداروں، تاجروں اور صنعتکاروں کے مال و املاک کی اصلی دستاویزات کو محکمہ مال اور دوسرے محکموں کی تحویل میں مقفل رکھا جائے۔ آئندہ ہدایا ت جاری ہونے تک ایسی دستاویزات کی نقول دینے میں جلدی نہ کی جائے وغیرہ وغیرہ۔ کانگریس ہائی کمان کے اس خفیہ مراسلے کو پڑھ کر میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ پاکستان تو مسلمان اکثریت کے صوبوں میں بنے گا، پھر ہندو اکثریت کے صوبوں میں کس طرح کی حفاظتی اور دفاعی تدبیروں کی ضرورت ہے جن پر عمل کرنے کے لیے پولیس کے مسلمان عملے کو غیر مسلح کر کے لائن حاضر کرنا اس قدر ضروری ہو گیا ؟ مسلمانوں کی زمینداریوں، فیکٹریوں اور تجارتی فرموں کی اصل دستاویزات کو دفتروں میں دبا کر رکھناچہ معنی دارد؟
جب اس قسم کے سوالوں نے ابھر ابھر کر مجھے پریشان کیا تو ایک روز میں نے دس دن کی چھٹی منظور کروائی، بہت سی کانگریسی دستاویزوں کی نقول کو سمیٹا جو پہلے سے میرے پاس جمع تھیں، اس تازہ ترین خفیہ خط کا اصل مراسلہ جیب میں ڈالا اور اللہ کا نام لے کر دہلی روانہ ہو گیا۔
نئی دہلی پہنچ کر قائداعظم کی جائے قیام کا طواف شروع کر دیا، معلوم ہوا کہ قائد بے حد مصروف ہیں۔ مسلم لیگ کے کئی مشہور لیڈر کئی دنوں سے آئے بیٹھے ہیں، لیکن انٹرویو کی باری تک نہیں آئی۔ دو تین روز کی تگ و دو کے بعد مجھے رسائی حاصل ہوئی۔ ہدایت ملی کہ پندرہ منٹ سے زیادہ اندر ٹھہرنے کی کوشش نہ کروں۔
کمرے میں قائداعظم برائون رنگ کا دیدہ زیب سوٹ پہنے اور ایک شیشے والی عینک لگائے کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں میز کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ سلام کیا تو عینک اتار کر میری طرف دیکھا اور انگریزی میں کہا۔
''ویل! جو کہنا ہے، جلدی کہو۔'' میں نے کچھ کہے بغیر کاغذوں کی فائل ان کے سامنے رکھ دی۔ شروع میں کچھ نقلیں تھیں۔ قائداعظم نے کسی قدر بیزاری سے سرسری طو رپر انھیں دیکھا اور جلد جلد ورق الٹتے گئے۔ جب کانگریس کے ہائی کمان کے خفیہ ترین مراسلے کی اصل دستاویز آئی تو ٹھٹک گئے اور میری طرف گھور کر دیکھا اور کہا۔
''بیٹھو۔''
میں شکریہ ادا کر کے کرسی پر بیٹھ گیا۔ قائداعظم غور سے مراسلہ پڑھنے لگے۔ ایک دفعہ پوراپڑھنے کے بعد اس کے چند حصوں کو دوبارہ دیکھا اور فرمایا۔
''یہ دستاویز کیسے ملی؟ میں نے مختصر طور پر سارا واقعہ سنایا۔
''کیا میں اس خط کی ایک نقل بنوا کر رکھ سکتا ہوں؟' قائداعظم نے پوچھا۔
''جناب! نقل کیسی؟'' میں نے عرض کیا۔
''میں یہ اصلی دستاویز آپ ہی کے لیے لایا ہوں۔ قبول فرمائیں۔''
''تھینک یو! '' قائداعظم نے فرمایا۔
''تم بے شک جائو۔'' میں سلام کر کے کمرے کے دروازے تک واپس پہنچا تو قائداعظم نے پیچھے سے آواز دے کر مجھے روک لیا اور کہا۔
''کیا تم جانتے ہو، یہ حرکت کر کے تم نے کس قسم کا خطرہ مول لیا ہے؟''
''جی جناب اور بالکل بقائمی ہوش و حواس!'' میں نے قانونی اصطلاح استعمال کی۔ قائداعظم مسکرائے۔
''ویل بوائے! دوبارہ ایسی حرکت نہ کرنا۔''
قائداعظم سے میری آخری ملاقات ۱۹۴۸ء کے شروع میں کراچی میں ہوئی جب چوہدری غلام عباس مرحوم کشمیر کے زنداں خانے سے رہا ہو کر آئے تو سیالکوٹ سے سیدھے کراچی تشریف لائے۔ ان دنوں میرا قیام لارنس روڈ پر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں تھا۔ اس فلیٹ میں دو کمرے اور ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی۔ دونوں کمروں میں فرشی بستر لگے ہوئے تھے اور کوئی بیس بائیس دوست اور عزیز، جو چاروں طرف سے مہاجرین ہو کر آئے ہوئے تھے، وہاں فروکش تھے۔ اس بے سروسامانی کے ماحول میں چوہدری صاحب مرحوم تشریف لے آئے۔ ہم نے فلیٹ کی ایک چھوٹی کوٹھڑی میں چوہدری صاحب کا بستر لگا دیا اور جائے نماز بچھا دی۔ ظہر کی نماز کاوقت تھا۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی چوہدری صاحب نے گورنر جنرل ہائوس فون کر کے اے۔ڈی۔سی۔ کو کراچی میں اپنی آمد کی اطلاع دی۔ کوئی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور اے ۔ ڈی۔ سی نے کہا کہ قائداعظم فون پر چوہدری صاحب سے بات کریں گے۔ کوئی ساٹھ منٹ تک قائداعظم نے چوہدری صاحب سے فون پر بات چیت کی۔ قائداعظم کا ایک جملہ جو دور بیٹھے بھی ہمیں بار بار سنائی دیا، یہ تھا۔
''ویلکم عباس ویری ویری ویلکم!'' اگلے روز کے لیے قائداعظم نے چوہدری صاحب کو لنچ پر مدعو کیا۔ اس روز قائداعظم کراچی کے قریب ملیر کی بستی میں جا کر ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب لنچ پر جانے کا وقت آیا تو میں نے اپنی گاڑی نکالی۔ یہ ایک سیکنڈ ہینڈ پھٹیچر کار تھی جو چلتی کم اور رکتی زیادہ تھی۔ ایک دفعہ رک جائے تو دھکا لگائے بغیر دوبارہ اسٹارٹ نہ ہوتی تھی اور جب اسٹارٹ ہوتی تھی تو موٹر رکشا کی طرح گونجدار شور شرابا کیا کرتی تھی۔ چلنے کو تو میں چوہدری صاحب مرحوم کو اس کار میں بٹھا کر ملیر کے لیے روانہ ہو گیا لیکن مجھے مسلسل یہی دھڑکا لگا رہا کہ اگر کہیں یہ کار قائداعظم کے بنگلے میں داخل ہو کر رک گئی تو پھر اسے دوبارہ چلانے کے لیے دھکا کون لگائے گا۔
ملیر میں قائداعظم بہاولپور کے نواب صاحب کی کوٹھی ''بہاولپور ہائوس'' میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم وقت سے پہلے ہی وہاں پہنچ گئے۔ پورچ میں جا کر گاڑی روکی تو ایک اے۔ ڈی۔سی بھاگا آیا اور چوہدری صاحب سے کہا کہ وہ ابھی گاڑی میں بیٹھے رہیں۔ قائداعظم خود پورچ میں آ کر ان کا استقبال کریں گے۔ ''یک نہ شددو شد۔'' مجھے تردد ہوا کہ اب قائداعظم بھی اس کار کی پھٹ پھٹ سنیں گے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ انجن بند کروں یا چلتا رکھوں کہ یکا یک قائداعظم، محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تشریف لے آئے۔ میں بھی تعظیماً کار سے نیچے اتر آیا۔ قائداعظم نے دیر تک چوہدری غلام عباس مرحوم کو گلے لگائے رکھا۔ جب چوہدری صاحب تعارف کرانے کے لیے آگے بڑھے تو قائداعظم نے کمال شفقت سے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا اور مسکرا کر فرمایا:
''اچھا! تو آپ ہیں۔'' عباس! ''ہم ایک دوسرے سے خوب واقف ہیں۔''
٭٭٭٭