کرم کی آس از: شاہین زیدی

مبصر:منزہ مبین
کہانی کہنے اور سننے والے کا صدیوں کا ساتھ ہے۔ ایک حیات اور ماورائے حیات کی گواہی دیتا رہا دوسرا اس کی تصدیق کرتا رہا۔ ابتداء میں کہانی کہنے والا اپنے حقیقی تجربات اور تکنیکی واردات کو سادگی اور تفصیل سے بیان کرتا تھا مگر رفتہ رفتہ اسے کہانی سننے والے کے تخیل، شعور اور ذوق کے بارے میں حسن ظن پیدا ہوتا گیا۔ شاہین زیدی اپنے عہدکی مقبول افسانہ و ناول نگار ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین افسانہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں خدیجہ مستور، ممتاز شیریں، اختر جمال، زاہدہ حنا، خالدہ حسین، نشاط فاطمہ، بانو قدسیہ، سائرہ ہاشمی، فریدہ حفیظ، شمع خالد، تسنیم کوثر وغیرہ شامل ہیں لیکن شاہین زیدی کے ہاں انفرادیت پائی جاتی ہے۔ ان کے موضوعات روزمرہ زندگی سے اخذ کردہ ہیں۔ شاہین زیدی کی کہانیوں میں عورت پنگھوڑے سے قبر تک استحصال کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ بے اجر خدمت کرتی ہے۔ بے فیض محبت کرتی ہے۔ اجرت کے طو رپر یا تو دھتکار ملتی ہے یا پھر صرف دلاسہ نصیب ہوتا ہے۔ اس افسانوی مجموعے کے افسانوں کے تجزیے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مصنفہ نسوانی فطرت اور اس کی داخلی و خارجی نفسیات کا گہرا شعور و ادارک رکھتی ہیں۔ متوسط طبقے کی عورت کی خواہشات ، محسوسات، جذبات کا انتہائی باریک بینی سے خوبصورت پیرائے میں اظہار کیا گیا ہے۔ عورت کے بدن اور روح کی وہ طاقت جس سے گھر، گھریلو رشتے، اپنائیت ایثار تحفظِ کااحساس پروان چڑھتاہے اور جو بھٹکے قدموں اور بہکے ارادوں کی خطا پوش بن کر گرتوں کو تھام لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بہرحال شاہین زیدی کے افسانوں میں عورتوں کی مظلومیت کا اثر اس طور پر ہوتا ہے کہ بے اختیار افسانہ نگار کی صنف کا احساس نمایاں ہو جاتا ہے۔ مصنفہ کی افسانہ نگاری ان کے علمی و ادبی شوق کا مظہر ہے۔ اس کی افسانہ نگاری میں مقصدیت کا پہلو نمایاں ہے۔ وہ اپنے تئیں معاشرے کی اصلاح و درستی ، فلاح و بہبود کا ایک اہم فریضہ سر انجام دے رہی ہیں۔ میری طرف سے شاہین زیدی کو ان کے اس افسانوی مجموعے''کرم کی آس'' کی اشاعت پر بہت بہت مبارک باد۔
……o……