''سائے کی آواز'' ایک تنقیدی جائزہ از: اکرام اللہ

مبصر:محمد ساجد
اکرام اللہ کا ناول ''سائے کی آواز'' ایک بوڑھے آدمی کی کتھا ہے جو زندگی کو کچھ ایسے ڈھب سے گزارتا ہے کہ یہ کہانی اس کی آپ بیتی سے جہان بیتی کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔
جہیڑی بیتی سی اُو میں لکھ دِتی
اندے وچ نئیں کوئی کمال میرا
ناول کی فضا اتنی سحر انگیز ہے کہ تحریر کے آغاز میں ہی قاری اس کے سحر میں آ جاتا ہے۔ وہ پڑھتاجاتا ہے اور عالم حیرت کدہ کے دروا ہوتے جاتے ہیں۔
ناول کا ہیرو ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہے۔ نام کمال احمد، فالج زدہ اور تمام دنیا سے کٹا ہوا۔ دوست احباب کب کے مٹی کا رزق بن گئے ہیں۔ اس کی بیوی مر چکی ہے وہ اپنے اکلوتے بیٹے اور نام کی بہو ثمینہ کے ساتھ زندگی کے دن بیتا رہا ہے۔
کمال احمد، لان کے ساتھ بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں الگ تھلگ رہتا ہے۔ تنہائی اور بے بسی نے اس کاناتا باہر کی دنیا سے ختم کر دیا تو خود کلامی (Monologue)نے اس کے اندر اک جہاں آباد کر دیا ہے۔
اس کے دل میں ایک نئی دنیا وا ہوتی ہے۔ یہ دراصل ایک آرٹ گیلری کی دریافت ہے۔ جو دل میں بنتی ہے۔ نو، خوب صورت پوٹریٹ کی آرٹ گیلری۔ اُن نو عورتوں سے اس کی وابستگی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پہ رہی ہے۔ یہ نو، اس کی دیویاں ہیں اور یہ ان کا پجاری۔
اس بد نصیبی میں، یہ خوش نصیب۔ ''نو'' کا ہندسہ زندگی کی آدرشوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جس سے ناول کے ہیرو کی علم النجوم سے دلچسپی کا پتا چلتا ہے۔
ان نو عورتوں سے اس کا تعلق دس سال کی عمر سے لے کر تئیس برس کی عمر تک مختلف مراحل میں قائم ہوا۔
فیروزہ، اس آرٹ گیلری کی پہلی مکمل تصویر ہے۔ جس سے اس کا تعلق جسمانی سے زیادہ روحانی نوعیت کا تھا۔ وہ ایک رنڈی تھی اور چکلہ اس کا ٹھکانہ تھا۔
دوسری تصویر''کلی'' کی ہے۔ جو قابل رحم یتیم لڑکی تھی۔''پشپا'' ایک پاگل اور ''روی'' کے عشق میں دیوانی عورت تھی۔ ''ماریٹنا'' اینگلو انڈین ڈانسر تھی ۔ ''امرت'' امیر خاندان کی مغرور پینٹر لڑکی تھی۔ ''میرا جی'' شادی شدہ بنگالی عورت تھی اور سنگیت کے فن کی ماہر تھی۔ ''رقیہ'' غریب دیہاتن تھی۔ جو بعد میں اس کے سید زادے دوست شاہ جی کی بیوی بنی۔ ''کسم'' کسی مہارجے کی دھتکاری ہوئی دورپار کی رشتہ دار اور بہترین ادا کارہ تھی جب کہ نسیمہ، کالج سطح کی مقرر تھی۔
کمال احمد کا ان نو میں سے اصل جذباتی تعلق فیروزہ، مارٹینا، امرت اور رقیہ سے تھا۔ یہ تعلق عجیب سطح پر اس کی زندگی میں قائم ہوا لیکن زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو مجموعی صورت حال پھر کچھ یوں واضح ہوتی ہے۔
رقیہ اس کے لڑکپن کی محبت اور جسمانی قرب کی ایسی نشانی تھی جو اسے اپنی رسیلی آواز کے بل بوتے لبھاتی رہی۔ امرت اس کے جسم و جاں کے قریب تھی۔ اس کی اعلیٰ مصوری ، کمال احمد کے لیے زندگی کا اک خوبصورت سامان تھی۔
مارٹینا کی سادگی اور ناچ میں ماہرانہ پن اس کے لیے گیان دھیان کا ذریعہ تھا۔ فیروزہ رنڈی کے پیشے سے وابستہ تھی اور اس کے عشق میں مبتلا ہو چکی تھی۔ کلی ، دیہات کی معصوم پھول اور پرندے بنانے والی لڑکی اسے تخیل کے کنارے کھڑی ملتی۔ پشپا کا سودائی پن اور دستار نوازی اس کے لیے زندگی کا سندیسہ تھی۔ کسم اپنی اداکاری اور نسیمہ اپنی بہترین گفتگو کے باعث اس کی زندگی کا حاصل بنی رہیں۔
یہ نو کی نو عورتیں اس کے سنہرے ماضی کا حصہ ہیں۔ اس کی زندگی کی حسین یادیں انہی سے وابستہ ہیں۔
بیتا سکھ بھی دکھ لگتا ہے
جب یادیں آتی ہیں
فیروزہ کمال احمد کے لیے دیوانگی کی سبھی حدیں پار کر چکی تھی۔ دونوں شادی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ کمال احمد اپنے دوست شاہ جی کی کہی پر گائوں گیا اور پیچھے فیروزہ کو ایک جیرا نام بدمعاش نے قتل کر دیا۔ کمال احمد بزدل آدمی تھا۔ اگر وہ گائوں سے انتظام کر کے بھی لوٹتا تو نکاح کے دو بول نہ پڑھواتا۔ اس عمل سے پہلے ہی فیروزہ اس کے عشق کی بھینٹ چڑھ گئی۔ کمال احمد کے بقول جب تک وہ زندہ رہی اس نے اس کی محبت کو بزدلی کے لبادہ میں رکھا۔ اب اس کی موت کے بعد خود اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔
نوکی نو عورتیں جو کسی نہ کسی فن میں یکتا تھیں۔ اب اس کے بڑھاپے میں اس کی بیساکھیاں بن چکی ہیں۔ بہو کا ناروا رویہ اسے اب اس خواہش پر اکساتا کہ وہ جلد ہی اپنی زندگی سے نجات پا لے لیکن سرد رات میں لان کی ویرانی اور اس کی تنہائی اسے موت کی دہلیز پر لا کر خود پیچھے ہٹ گئے۔ وہ گھر والوں کی بے حسی کا نشانہ بن کر سردی میں بے یارو مددگار پڑا رہا کہ صبح اس کی بہو اسے بڑی کوفت سے زندگی کی نوید سناکر بچا لیتی ہے۔
اکرام اللہ کے ناول میں نو سٹلجیا کی فضا رچ بسی ہوئی ہے۔ ایک بوڑھا شخص جو موت کی خواہش کرتا ہے۔ مگر بڑھاپنے کی آخری سیڑھی پر ہونے کے باوجود موت اس کو یخ سردی میں بھی دھوکہ دے جاتی ہے۔ یہ ناول ''سائے کی آواز'' بڑھاپے میں رجعت پسندی کی طرف ایک اشارہ ہے۔
……o……