نیلگوں از: شہاب صفدر

مبصر:محمد اظہار الحق
یہ موضوع کہ مضافات میں بہتر شاعری ہو رہی ہے اب پامال ہو چکا ہے یوں بھی جغرافیائی فاصلوں سے شاعری کو ماپنا اور جانچنا غیر منطقی ہے۔ یہ کوئی ماحولیات کامسئلہ نہیں کہ شہروں میں آلودگی زیادہ اور مضافات میں کم ہے۔ اچھا شاعر کہیں بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ عرفان صدیقی لکھنؤ میں تھاثروت حسین کراچی میں اور غلام محمد قاصر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں لیکن جغرافیائی تنوع شاعری کے معیار میں آڑے نہ آ سکا۔ یہ اور بات کہ مصافات سے اقتصادی وجوہ شعراء کو ان بڑے شہروں میں لے آتی ہیں جو قریب واقع ہوتے ہیں۔
یہ تمہید اس لیے باندھنا پڑی کہ چند دنوں پہلے محبِ گرامی جناب خالد احمد کے ''بیاض'' کا تازہ شمارہ دیکھ رہا تھا ایک شعر پر نظر پڑی اور وہیں ٹھہر گئی:
پھر اس کے بعد کہاں دیکھ پائوں گا خود کو
میں اپنا آخری دیدار کرنے آیا ہوں
پوری غزل پڑھی اور کئی بار پڑھی۔ تیمور کے کئی شہر شکوہ سے آراستہ تھے اس غزل کے کئی شعروں میں طنطنہ نظر آیا:
ہے شہرِ جور مری تیغِ عدل کی زد پر
تمام قصۂ دربار کرنے آیا ہوں

کیا تھا جس نے مری بے کسی کو خاک بسر
میں اُن کلاہ پہ اک وار کرنے آیا ہوں

بلند و پست کو ہموار کرنے آیا ہوں
چہار سُو چمن آثار کرنے آیا ہوں
میری شہاب صفدر سے ملاقات نہیں ہے۔
ایک با ر(غالباً کوہاٹ) مشاعرے میں اسے سُنا، مجھے نہیں معلوم شہاب صفدر کا خاندانی پس منظر کیا ہے اس کا گھرانہ علمی ہے یا کاروباری یا فیوڈل اسے شاعری ورثے میں ملی ہے یا اس نے اس گوہر بیش بہا کو خود تلاش کیا ہے۔ میں اس کے گرد وپیش سے بھی ناآشنا ہوں جہاں وہ رہ رہا ہے۔ سندھ کے کنارے آباد اس کے شہر میں چند مواقع پر میرا جانا ہوا ہے لیکن خدا کاشکر ہے سکہ بند پیشہ ور نقاد نہیں ہوں کہ شاعری کو ان سارے ثانوی محرکات سے مربوط کروں اور زبردستی نتیجے نکالوں۔ اچھی شاعری سے محظوظ ہونے کے لیے یہ سارے Factorsکچھ خاص اہمیت نہیں رکھتے۔
شہاب صفدر کا پہلا مجموعہ ''لہریں لیتی پیاس'' ۲۰۰۰ء میں منظرِ عام پر آیا اور ''تکلم'' اس کے چھ سال بعد … اس شاعری میں محبت کی اذیتیں بھی ہیں اور زمانے کی تلخیاں بھی، حسن کی نارسائیاں بھی ہیں اور سماجی اور سیاسی ناہمواریوں کے جان سوز تذکرے بھی۔ یہ سب کچھ ایک حساس دل اور رموزِ فن سے آشنا قلم ہی بیان کر سکتا ہے …