نقطۂ نظر از: عابد حسن منٹو

۱۹۸۳ء میں جب میں دوسری مرتبہ قید میں تھا، تو نقطۂ نظر کے مضامین کو کتابی طور پر شائع کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ اس خیال کے محرک اور اس کو عملی جامہ پہنانے والے، تسنیم منٹو اور ہمارے تینوں بچے تھے، تب بھی یہ بات زیر بحث رہی تھی کہ کیا سنہ پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں لکھے گئے مضامین میں سے ایسے مضامین جو خالص نظریاتی مباحث پر مبنی ہیں، برمحل بھی ہیں، یا نہیں … اس وقت ان مضامین کو کئی مرتبہ پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ نہ صرف بر محل ہیں،بلکہ ضرورتِ وقت بھی۔ اس کا کچھ اظہار میں نے کتاب کے دیباچے میں کیاتھا۔
یہ ۸۶۔۱۹۸۵ء کی بات ہے۔ اُس وقت دنیائے سیاست میں اور نظریات کے میدان میں بھی بعض تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ پھر سوویت یونین اور سوشلسٹ بلاک کا خاتمہ ہو گیا، سرد جنگ کا عہد بھی ختم ہوا، اقتصادیات میں منڈی اور آزاد معیشت کی بنیاد پر قائم گلو بلائزیشن (عا لمیت) کو حرفِ آخر قرار دیا گیا۔ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اسی عالمی نظام کے معاشی، سیاسی، نظری اور تہذیب مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگی …… یہ نیا عالمی نظام ۹۰ء کی دہائی سے جاری و ساری ہے… نئے عالمی نظام کے معاشی اور سماجی نظریات کا کامیابی اور حتمیت(Finality)کے پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ یہ اعلانات بھی جاری کیے گئے کہ ''سوشلسٹ معیشت'' پر مبنی ریاستی ڈھانچوں کی شکست و ریخت کے ساتھ ہی مارکسی نظریہ اور فلسفہ بھی قصۂ پارینہ ہوا۔
صنعتی سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت اب کم و بیش چار سو برس پرانا ہے۔ ان تمام سالوں میں سرمایہ دار ممالک بار بار معاشی بحرانوں اور شدید اندرونی اور بیرونی تضادات کا شکار ہوتے رہے۔ ان تضادات کو سامراجی پھیلائو (Imperialist expansion)، چھوٹی اور بڑی جنگوں اور نو آبادیاتی نظام کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ تاہم یہ تمام کوششیں اگر چند ملکوں کے لیے وقتی طو رپر مسائل کاحل پیدا کرتی تھیں تو کئی دوسرے ملکوں کے لیے محکومی اور سماجی پسماندگی اور بے شمار انسانوں کے لیے تباہی اور بربادی کا پیغام لاتی تھیں … دو عالمی جنگوں کی ہلاکت خیزی اور دنیا کی چند ترقی یافتہ اور سو سے اوپر پسماندہ اور نیم ترقی یافتہ اقوام کے درمیان تقسیم اسی سرمایہ دارانہ نظام کی دِین ہے… اقتصادی اور سیاسی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا میں افراط و تفریط اور ظالمانہ لوٹ، قبضے اور منافع خوری کا جو سلسلہ جاری کیا، اس نے صنعتی عہد کے آغازمیں ابھرنے والے جمہوریت اور آزادی کے تصورات کو بھی مشکوک بنا دیا ہے … جمہوریت اور آزادی اب صرف ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا حق ہے، باقی تمام دنیا اسی قدر آزادی اور اسی نوعیت کی جمہوریت کی حقدارہے، جو ترقی یافتہ صنعتی ممالک اور نئے عالمی نظام (یا نو سامراجیت) کے قائد امریکا کی ضروریات کے مطابق ہو… یہ ضروریات بنیادی طور پر اُن معاشی اور سیاسی مفادات کا نام ہے جو ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ کا فرق قائم رکھتے ہیں اور دنیا بھر کے انسانوں اور اقوام کے استحصال کو نئے عالمی نظام کا لبادہ پہناتے ہیں… عراق پر اینگلوامریکی حملے اور قبضے نے یہ لبادہ چاک کر دیا ہے … حقیقت یہ ہے کہ اس حملے سے بہت پہلے ہی نو سامراجی معاشی نظام اور اس کے تخلیق کردہ عالمی اداروں (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈبلیو ٹی او) کی حکمت عملیوں کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہو چکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مزاحمتی تحریک خود یورپ اور امریکا ہی میں پیدا ہوئی اور اس میں پیش پیش محنت کشوں کی تنظیمیں اور درمیانے اور نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے دانشور اور دوسرے افراد، این جی اوز اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ اگرچہ نئے عالمی نظام کی استحصالی یلغار کے گہرے اثرات تو تیسری دنیا پر ہی پڑتے ہیں، تاہم اس کی لپیٹ میں یورپ اور امریکا کے عام انسان بھی آئے ہیں۔ ترقی یافتہ مغرب میں معاشی بحران کی ہلکی سی لہر بھی رد عمل پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے … گلوبلائزیشن کا ایک مثبت پہلو ٹیکنالوجی کی ترقی ہے، بالخصوص وہ ٹیکنالوجی جو معلومات کی ترسیل سے تعلق رکھتی ہے۔ چنانچہ گلوبلائزیشن کے نو سامراجی ، معاشی اور سیاسی پھیلائو اور اثرات کے خلاف جدید ٹیکنالوجی ہی نے سارے یورپ اور امریکا میں بڑے پیمانے پر مزاحمتی تحریک کی تیاری میں مدد دی اور اسی کی بدولت عراق کی جنگ کے خلاف عالمی سطح پر تاریخ عالم کے سب سے بڑے مظاہرے ممکن ہوئے۔
یورپ اور امریکا کے مابین تضادات ، ترقی یافتہ مغرب کے حکمران طبقات اور عوام کے درمیان تضادات، تیسری دنیا اور نوسامراجیت کے درمیان تضادات اور تیسری دنیا کے عوام اور حکمرانوں کے درمیان تضادات … بڑھتی ہوئی غربت اور ہوش ربامنافعوں کے درمیان تضادات۔ قومی خود مختاری اور گلوبلائزیشن کی ہمہ گیر طاقت کے درمیان تضادات … یہ ہے اُس دنیا کا نقشہ جو سوویت یونین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نئے عالمی نظام کے عہد کی دین ہے … شاید ہی کوئی معقول شخص ہو گا ، جو اس صورت حال سے مطمئن ہو اور یقیناً دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ جو تیسری، دوسری اور پہلی دنیا کے عام انسانوں پر مشتمل ہے، نئے عالمی نظام کے سامراجی پہلو کو قابل قبول نہیں گردانتا… چنانچہ جدلیات کا عمل اور قانونِ ضِدّین(Law of Contradiction) سماج میں مختلف سطحوں پر جاری ہے اور نوسامراجیت کے نئے نظام کو بدلنے کی تحریک بھی۔
نہ تاریخ کا خاتمہ ہوا ہے (فُوکویاماؔ) اور نہ ہی یہ تہذیبون کے درمیان تصادم ہے (ہنٹنگٹن)… تاریخ نو سامراجیت اور سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات کے راستے پیدا کر رہی ہے اور ستر سالہ سوشلسٹ تجربات نجات کی منزل متعین کرنے میں کلیدی اہمیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نظریہ دراصل اس جدلیاتی عمل کو دنیا کی نظر سے چھپانے کا ایک بھونڈا طریقہ ہے، جس کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے۔ بنیادی تضادات معاشی اور سیاسی ہیں، نو سامراجیت اور ترقی یافتہ سرمایہ داری ایک طرف اور استحصال کا شکار انسان اور اقوام دوسری طرف … یہ انسان اور اقوام مسلمان بھی ہیں، مسیحی بھی اور بُودھ اور ہندو بھی۔ یہ ایشیا میں ہیں، افریقا میں اور لاطینی امریکا میں … اور اب یہ یورپ اور امریکا میں بھی ہیں، یہ عراق کی جنگ کو کفر و اسلام کا کروسیڈ(Crosade)نہیں کہتے، یہ اسے تیل اور سامراجی قبضے کی جنگ قرار دیتے ہیں … خالص معاشی اور سیاسی بالا دستی کے اس عمل میں تہذیب و ثقافت اور نظریات کا بڑا اہم کردار رہاہے … گلوبل معیشت کے ساتھ ساتھ گلوبل (عالمی) تہذیب کی ترویج ، مقامی اور قومی تہذیبوں کلچر اور زبانوں کی پسپائی۔ فلم، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کو نئے عالمی نظام کے مختلف پہلوئوں کی تشہیر کے لیے استعمال کرنا، یہ سب اس معاشی اور سیاسی بالا دستی کی مہم کاحصہ ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، نئے عالمی نظام کے مخالف بھی مختلف سطحوں پر تہذیب و ثقافت، آرٹ اور سائنس کو مزاحمتی تحریک کی ترویج کے لیے استعمال کرتے ہیں … مزاحمت کے کئی رنگ ہیں … وہ بھی ہیں، جو نئے عالمی نظام کے مقابل مذہبی احیاکے نظریات پر کاربند ہیں، وہ نئے نظام کی قوت یعنی اس کی معاشی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کو عہد وسطیٰ کے مذہبی، اخلاقی اور روحانی حوالوں سے شکست دینا چاہتے ہیں، اور بنیاد پرست کہلاتے ہیں … ایسے لوگ بھی ہیں، جو نئے نظام کی کھلی لوٹ اور بددیانتی سے بد ظن ہیں، مگر اسی نظام کی بنیادی قوت یعنی نجی ملکیت پر مبنی منڈی کی معیشت اور اس پر استوار سماجی اور نظریاتی عمارت کو مزید قابل اصلاح نہیں سمجھتے اور سماجی انقلاب کے تصورات رکھتے ہیں۔ بیسویں صدی میں سماجی انقلاب کی طرف پہلا بڑا قدم ۱۹۱۷ء میں اٹھایا گیا، جب روس اور اس کے بعد کئی دوسری ریاستوں میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا،جس کی بدولت پسماندہ زرعی معیشت والی اور نیم صنعتی ریاستیں چند دہائیوں میں جدید صنعتی عہد میں داخل ہو گئیں اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ریاست نے ہر شخص کے روز گار، صحت اور تعلیم کی آئینی ذمہ داری قبول بھی کی اور اسے عملاً نافذ بھی کر دیا … سماج کی پیداواری قوتوں کی نئی شیرازہ بندی نے سرمایہ دارانہ نظام کی منافع خوری کا خاتمہ کیا تو دنیا کی تمام سرمایہ دار قوتیں اس نئے نظام کے خاتمہ کے لیے برسر عمل ہو گئیں … تاہم اس سوشلسٹ ریاست کے قیام نے دنیا بھر میں کئی تحریکات کو نئی قوت اور نئے معانی سے آشنا کیا … سامراج کے خلاف قومی آزادی کی تحریکیں، نظریات، ادب، فنون اور فلسفے میں ترقی پسند رجحانات کی تحریکیں پہلے سے زیادہ وقیع اور وسیع ہوئیں۔ خود سرمایہ دارانہ نظام میں ویلفیئر سٹیٹ کا تصور بھی نئے اشتراکی سماج ہی کے اثرات کا نتیجہ تھا … پھر اشتراکی ریاست بعض داخلی اور بیرونی تضادات کا شکار ہوئی اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا … ستر سالہ اشتراکی ریاست کے تجربات اور اس کے اندرونی تضادات کا تجربہ اور نئے سماجی انقلاب کی راہیں متعین کرنا بھی اس عہد کے ذہنی اور عملی رویوں کاحصہ ہے۔
یہ تمام باتیں جو میں نے ابھی گزارش کی ہیں، محض نظری ، فلسفیانہ اور سیاسی بحثوں کی سطح کی نہیں ہیں … انسانی معاشرے ، وہ مغرب کے ہوں یا مشرق کے، ترقی یافتہ ہوں یا نیم یا غیر ترقی یافتہ … براہ راست اور کبھی بالواسطہ ان معاملات سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک طرف دولت کے انبار اور دوسری طرف غربت اور پسماندگی، عالمی اور قومی دونوں سطحوں پر انسانوں کو متاثر کرتے ہیں … افراط و تفریط کا یہ نظام افراد کی سوچ ، رویوں، نفسیات اور ان کے رد عمل کو متعین کرتا ہے … اور یہی سب کچھ ادب و فن کا مواد ہے۔
''نقطۂ نظر'' کے اکثر مضامین اگرچہ تین دہائیاں پہلے لکھے گئے تھے، تاہم وہ اسی بنیادی کشمکش کے ادراک پر مبنی ہیں، جس کا ذکر ہم عصر عہد کے حوالے سے میں نے پہلے کیا ہے۔ اس کشمکش کے اِدراک کاحوالہ مارکسی جدلیات کا فلسفہ ہے۔
''آج میرؔ و غالبؔ کہاں ہیں'' ، ''ادب کی دائمی قدریں'' اور ''دائمی اقدار کامسئلہ'' … ایک ہی فکری رَو کے مضامین ہیں اور ان کا بنیادی نقطۂ تغیر اور تبدیلی کے عمل کو جدلیات کی روشنی میں سمجھنے اور ادب و فن میں اس کی کارفرمائی کو جانچنے کی کوشش ہے … ''ادب میں نقطۂ نظر کا مسئلہ''، ''آپ معروضی حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے''، ''ترقی پسند نظریہ اور موجودہ ادب''، ''موجودہ دور میں ترقی پسند ادب کے تقاضے''، ''نئی شاعری کے مسائل'' اور ''مذہبی ادب کا مسئلہ'' وغیرہ ایسے مضامین ہیں، جو ترقی پسند ادب کے نظری معاملات اور ادب اور سماج کے رشتے کے موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں … یہ سب مضامین جس نقطۂ نظر کو پیش کرتے ہیں، اسے نئے عالمی نظام کے نظریہ ساز قصۂ پارینہ قرار دیتے ہیں اور وہ سماجی جدلیات اور اس کے تاریخی سفر سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تاریخ اپنی معراج کو پہنچ چکی ہے۔ نو سامراجیت، گلوبل معیشت اور منڈی ہی اب سماجوں کی تشکیل اور تحلیل کا کام کرے گی، جمہوریت، قومی خود مختاری، انسانی حقوق وہی اور اتنے ہی ہوں گے، جس قدر نو سامراجی قوتوں کو قابل قبول ہوں گے … ایک دنیا ہے، جو ان نظریات اور نو سامراجیت کو رد کرتی ہے۔ کچھ مضامین جو ۵۰ء کے ابتدائی دور میں لکھے گئے تھے، پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے وقت دستیاب نہیں تھے۔ اظہر غوری صاحب کی کوششوں سے، ان میں سے چار اب حاصل ہوئے ہیں اور اس ایڈیشن میں شامل ہیں۔ اس ایڈیشن میں بعض ہم عصر لکھنے والوں کے مضامین یا شاعری کے بارے میں میرا تبصرہ جو اُن کے مجموعوں میں دیباچے کی صورت شامل تھا، بھی شائع کیا گیا ہے … مختصر یہ کہ ادب، تہذیب اور سماجی کے حوالے سے ۵۰ء کے زمانے سے میں نے جو سوچا اور جسے ترقی پسند تحریک کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی، وہ اس ایڈیشن میں جمع کر دیا ہے۔
اس سب کام کے لیے اظہر غوری کا شکریہ ادا نہ کرنا بہت ہی زیادتی ہوگی۔
امید ہے ''نقطۂ نظر'' کے مضامین اس نئے جدلی عمل میں نو سامراجی نظریات کے مخالف مزاحمت میں چھوٹا سا کردار ادا کر سکیں گے۔
عابد حسن مِنٹو