خالد شریف

محسنؔ نقوی

معروف شاعر محسن نقوی کی برسی کے حوالے اُن کی کلیات سے خالد شریف کے مضمون سے انتخاب ''سنگ میل پبلیکیشنز'' لاہور کے شکریے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔
تخلیق کے کرب زار میں لفظوں کے دوش پر سفر کرنے والے ایک الگ دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ وہ سود و زیاں کو عام زمانی پیمانوں سے نہیں ماپتے۔ وہ اپنے اندر سے اٹھنے والی آواز کی رہنمائی میں روز و شب بِتاتے ہیں اور نہالِ تخلیق کی آبیاری کرتے ہیں۔ان کی شعری ریاضت کا نقطۂ عروج…''بندِ قبا'' سے شروع ہو کر ''خیمۂ جاں'' پر ختم ہونے والا یہ سفر مکمل بھی ہے اور ادھورا بھی۔ مکمل اس لحاظ سے کہ پندرہ سو سے زائد صفحات پر محیط یہ کلیات اردو شاعری کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کرے گی۔ ''بندِ قبا'' کے اشعار کو خود انھوں نے نوجوانی کے منہ زور جذبوں کی ''ساون سندھ روانی'' سے تعبیر کیا ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا اہم سنگِ میل ''برگِ صحرا'' ہے جس کی ہر غزل شاہکار اور ہر شعر پُروقار ہے۔ ''برگِ صحرا'' میں محسنؔ نے فن کے بے ستوں سے فکر کی جوئے شیر نکالتے ہوئے تسلیم کیا کہ وہ نہ روایت کے منکر ہیں، نہ جدت کے باغی بلکہ ان کے پائوں ماضی کی سنہری خاک میں دھنسے ہوئے ہیں اور سر مستقبل کے روشن خلائوں کی زد میں ہے۔ اس لیے ان کی شاعری بھی دونوں زمانوں کے ذائقوں کی شاعری ہے۔
''برگِ صحرا'' کی اشاعت اور مقبولیت کے بعد محسنؔ نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ۱۹۹۵ء تک ان کے شعری مجموعے ''ریزۂ حرف''، ''عذابِ دید''، ''طلوعِ اشک''، ''ردائے خواب'' اور ''رختِ شب'' کے علاوہ ''موجِ ادراک'' اور ''فراتِ فکر'' بھی شائع ہو چکے تھے کہ ۱۵ جنوری ۱۹۹۶ء کی خون آشام شام کو انھیں ہم سے چھین لیا گیا۔ فکر و فن کا سورج غروب ہو گیا اور خدا جانے کیا کچھ اور کتنا کچھ اَن کہا رہ گیا۔ ان کی باقی ماندہ شاعری ''خیمۂ جاں'' اور ''حق ایلیا'' کی صورت میں محفوظ کر لی گئی۔ میں نے آغاز میں محسن کے شعری ریاضت کے سفر کو مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ ادھورا بھی کہا تھا۔ ادھورا اس لیے کہ ابھی تو وہ اپنی عمر کے نصف النہار تک پہنچے ہی تھے۔ ابھی تو انھوں نے بہت لکھنا تھا اور بہت اچھا لکھنا تھا۔ اگر وہ صرف بیس برس میں ہمیں اتنا کچھ دے گئے تو باقی عمر میں کیا کیا گہرہائے گرانمایہ نہ تخلیق کرتے لیکن انھیں تو کیٹس، شیلے، مصطفیٰ زیدی اور پروین شاکر کی طرح ہمارے درمیان بہت تھوڑا وقت گزارنا تھا۔
اب کچھ باتیں ذاتی حوالے سے ۔ میری محسنؔ سے پہلی ملاقات ۱۹۷۳ء میں مری کے آل پاکستان مشاعرے میں ہوئی جس کا ماحول بقول محسنؔ شنیدنی سے زیادہ دیدنی تھا۔ یہ پہلی ملاقات ۳۳ برس پر یوں پھیلی کہ یہ سارا وقت جیسے ایک پل میں گزر گیا۔ ۱۹۷۷ء میں میری لاہور آمد اور یہاں ماورا کے دفتر کے قیام کے بعد ہم نے ''برگِ صحرا'' کو کسی آسمانی صحیفے کی طرح پیار اور عقیدت سے شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے آٹھ برس بعد جب میرے اصرار پر''بندِ قبا'' کا دوسراایڈیشن شائع ہوا تو محسنؔ نے اس کے دیباچے میں لکھا:
''پھر میں نے بندِ قبا کو بھلا دیا یہاں تک کہ میرے اپنے پاس بھی اس کا کوئی نسخہ محفوظ نہ رہا۔ یہ تیرہ سال پہلے کی بات ہے جب میرا نام بِکتا تھا نہ کلام… اس کے بعد ۱۹۷۸ء میں میرے کلام کا دوسرا مجموعہ ''برگِ صحرا'' مارکیٹ میں آیا۔ یہ مجموعہ ''ماورا پبلشرز'' کے زیرِ اہتمام شائع ہوا اور اس کی اشاعت میں میرے دیرینہ دوست خالد شریف نے اپنے حسنِ خیال کی تمام رعنائیوں کی دھنک بکھیر کر رکھ دی۔ فی الحقیقت ''برگِ صحرا'' ادبی دنیا میں میری پہچان کا وسیلہ ثابت ہوا اور اس کا کریڈٹ مجھ سے کہیں زیادہ خالد شریف کو جاتا ہے۔''
یہ محض ان کی بڑائی تھی کہ وہ مجھ پر اس درجہ مہربان رہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ میں فنِ اشاعت کو بھی تخلیق کاحصہ سمجھتاہوں اور تخلیقی مرحلے اگر محبت سے طے کیے جائیں تو ان میں نکھار اور برکت پیدا ہو جاتی ہے۔ میری پہلی کتاب ''نارسائی'' کا دیباچہ انھوں نے لکھا اور مجھے میری ذات کے ایسے پہلوئوں سے آشنا کرایا جس سے میں خود بھی ناواقف تھا۔ میری دوسری کتاب ''بچھڑنے سے ذرا پہلے'' کا انتساب ''محسنؔ نقوی کے نام'' ہے۔ ''طلوعِ اشک'' میں ''خالد شریف کے لیے ایک ادھوری نظم ''میری زندگی کا سب سے بڑاسرمایہ ہے۔ میری تیسری کتاب''وفا کیا ہے'' کی اشاعت پر انھوں نے جو نظم لکھی اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟
کلام محسن نقوی
حَد سے بڑھنے لگی بدگمانی مِری
آپ نے چھیڑ دی پھر کہانی مِری
ایک پل کو ٹھہر جا غمِ دو جہاں
مشورہ چاہتی ہے جوانی مِری

سَنگ دِل دوستوں کے حسیں شہر میں
کام آئی بہت سخت جانی مِری
خلقتِ شہر دہرائے گی دیر تک
نغمۂ جاں تِرا، نوحہ خوانی مِری
چیخ اُٹھے بام و دَر ، بول اُٹھی چاندنی
جب بھی حَد سے بڑھی بے زبانی مِری
O
خود وقت میرے ساتھ چلا وہ بھی تھک گیا
میں تیری جستجو میں بہت دُور تک گیا

کچھ اور اَبر چاند کے ماتھے پہ جھک گئے
کچھ اور تیرگی کا مقدر چمک گیا

کل جس کے قُرب سے تھی گریزاں مِری حیات
آج اُس کے نام پر بھی مِرا دِل دھڑک گیا

میں سوچتا ہوں شہر کے پتھر سمیٹ کر
وہ کون تھاجو راہ کو پھولوں سے ڈھک گیا

دُشمن تھی اس کی آنکھ ، جو میرے وجود کی
میں حرف بن کے اس کی زباں پر اٹک گیا

اب کوئی سنگ پھینک کہ چمکے کوئی شرر
میں شہرِ آرزو میں اچانک بھٹک گیا

مت پوچھ فکرِ زیست کی غارت گری کا حال
احساس برف برف تھا لیکن بھڑک گیا

احباب جبرِ زیست کے زنداں میں قید تھے
محسنؔ میں خود صلیبِ غزل پر لٹک گیا
O
اے فکرِ کم نشاں مِری عظمت کی داد دے
تسلیم کر رہا ہوں میں تیرے وجود کو

اے شورِ حرف و صوت مجھے بھی سلام کر
توڑا ہے میں نے شہرِ غزل کے جمود کو

اے وسعتِ جنوں مِری جرأت پہ ناز کر
میں نے بھلا دیا ہے رسوم و قیود کو
٭٭٭٭