ڈاکٹر عبدالسلام خورشید

قائداعظم… چند یادیں

پینتیس برس ادھر کی بات ہے میٹرک کا امتحان ہو چکا تھا اور ہم بے کار بیٹھے تھے۔ سوچا ایک انجمن کیوں نہ بنائی جائے دوستوں سے مشورہ کیا اور سروینٹس آف اسلام لیگ کی بنیاد رکھ دی۔ جب انجمن بن گئی تو بیان بازی کی نوبت آئی اور ہمارا نام اخبارو ں میں آنے لگا۔اس زمانے میں چوہدری رحمت علی کیمبرج سے تحریک پاکستان چلا رہے تھے۔ وہ یہاں اخبار پڑھتے اور ایسے نوجوانوں کی تاک میں رہتے تھے جو یہی آواز برعظیم میں بھی اٹھائیں ۔ چنانچہ انہوں نے مجھے اپنا پمفلٹ (Now or never)بھیج دیا۔ اس کے صفحہ اول پر ایک طرف ہندوستان کا نقشہ بنا تھا۔ اس کے اندر پنجاب ، سرحد، سندھ،بلوچستان اور کشمیر کے علاقوں میں سبز رنگ لگا تھااور اس پر لکھا تھا ۔''پاکستان '' اس نقشے نے ہمارا من موہ لیا۔ ہم نے تصور کی دنیا میں پاکستان قائم کر لیا اور سوچنے لگے۔ اس مملکت کا رنگ روپ کیسا ہو گا ۔ پمفلٹ کے مضمون کی انگریزی ذرا سخت تھی۔ اس لیے اس کی صرف اتنی سمجھ آئی کہ یہ علاقے ماضی بعید میں ہندوستان سے الگ تھے۔ اب بھی الگ ہونے چاہیئیں۔ کیونکہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان کا فرض ہے کہ اپنے دین ، اپنی ثقافت کی حفاظت کریں۔اس وقت ذہن میں کچھ ایسا نقشہ بیٹھا کہ اس مملکت کے خدوخال کا صحیح تصور کر سکتے اس لیے ذہن میں کچھ ایسا نقشہ بیٹھا کہ اس مملکت میں خلافت راشدہ کا سا نظام قائم ہوگا۔
آپ پوچھیں گے کہ اتنی بالغ نظری کیسے پیدا ہوگئی اور خلافت راشدہ کے تمام نظام سے آشنائی کیسے ممکن ہوئی عرض یہ ہے کہ میری مراد صرف اتنی ہے کہ خلفائے راشدہ پر جو چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھ رکھی تھیں ان سے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ان دنوں عدل کا دور دورہ تھا۔ عوام خلیفہ کے کردار پر اللہ کے احکام کی روشنی میں نکتہ چینی کر سکتے تھے اور دولت نہیں، تقوی عظمت کا معیار تھا بس ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان بنا تو یہی کیفیت ہو گی۔ چوہدری رحمت علی سے پہلے ۱۹۳۰ء کے آخر میں حضرت علامہ اقبال خطبہ الہ آباد میں علیحدہ مسلم مملکت کے تصور کو نظریاتی رنگ میں بیان کر چکے تھے۔ لیکن میں اور میرے ہم عصر طلبہ اس خطبے سے عملاً نا واقف تھے۔ ہاں مجھے اتنا یاد ہے کہ جب چوہدری رحمت علی کا پمفلٹ میں نے والد مرحو م مولانا عبدالمجید سالک کو دکھایا تو انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے یہ مقدمہ حضرت علامہ اقبال پیش کر چکے ہیں اور اب تک اس کے حامی ہیں ۔ ویسے اس دور میں اصل چرچا قائداعظم کے چودہ نکات کاتھا جو مسلمانوں کے قومی مطالبات قراردیے جاتے تھے۔ ان کا ملخص یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے جدا گانہ حق انتخاب تسلیم کیا جائے، صوبوں کو اندرونی خود مختاری دی جائے۔ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کو قانونی طور پر تسلیم کیا جائے۔ سندھ کوبمبئی سے الگ کر کے ایک باقاعدہ صوبے کی صور ت دی جائے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں دوسرے صوبوں کی طرح آئینی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ مسلم اقلیتی صوبوں میں جو وزارتیں بنیں، ان میں ایک تہائی وزیر مسلمان ہوں۔ مرکز میں مسلمانوں کو ایک تہائی نیا بت دی جائے اور جو قانون مسلمانوں کو متاثر کرتا ہو اسے صرف اس صورت میںنافذ العمل سمجھا جائے کہ مرکزی اسمبلی کے مسلمان ارکان کی تین چوتھائی اکثریت اس پر متفق ہو۔ ان نکات کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مرکز کمزور ہو اور چھ ہندو اکثریتی صوبوں کے مقابلے پر پانچ مسلم اکثریتی صوبے ہوںاور اس طرح ہندوستان کی دونوں قوموں کے درمیان ایک توازن پیدا ہو جائے۔ آئینِ حکومت ہند ۱۹۳۵ء کی رو سے چند مطالبات تسلیم ہو چکے تھے۔ مثلاً جدا گانہ انتخاب نافذ ہو چکا تھا۔ سرحد کو آئینی اصلاحات مل چکی تھیں۔ سندھ بمبئی سے الگ ہو چکا تھا۔ پنجاب میں مسلم اکثریت ایک خاص لحاظ سے مانی جاچکی تھی۔ رہے باقی مطالبات تو ان کے لئے جدوجہد جاری تھی۔
وقت گزرتا گیا ہم اسلامیہ کالج لاہور میں داخل تھے۔ وہاں حساس طلبہ میں ملکی سیاست پر تبادلہ خیالات ہوتا۔ ہم نے پاکستان کا بیج بونے کی کوشش کی۔ لیکن زمین بنجر پائی،ناچار کانگرس کی مذمت اور مسلم لیگ کی حمایت کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ اتنے میں پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے۔ ان کی سامراج دشمن تحریک کے بارے میں سن رکھا تھا ۔ تقریر سنی تو لوٹ پوٹ ہو گئے اور کچھ عرصہ ذہن پر سوشلزم سوار رہا ۔ حمید نظامی مجھ سے ایک سال سینئر تھے۔ ان کی رائے بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ بلکہ ایک دن کیا ہوا کہ موصوف گاندھی ٹوپی پہن کر کالج آ گئے۔ مجھے ہنسی آ گئی۔ پوچھا۔ '' نظامی صاحب یہ کیا ہے۔ ؟''بڑی سنجیدگی سے بولے ''خاموش رہو۔میں کانگریس سوشلسٹ ہوں۔'' یاد رہے کہ اس زمانے میں مسٹر جے پرکاش نارائن اور مسٹریوسف مہر علی نے کانگریس کے اندر ایک سوشلسٹ پارٹی بنا رکھی تھی اور اس پارٹی کے حامیوں کو کانگرس سوشلسٹ کہا جاتا تھا۔ ۱۹۳۷ کے موسم بہار میں نئے آئین کے ماتحت عام انتخابات ہوئے۔پنجاب میںیونینسٹ پارٹی کی جیت ہوئی۔ مسلم لیگ کے صرف دو امیدوار کامیاب ہوئے ۔ ایک ملک برکت علی دوسرے راجہ غضنفر علی خاں۔ راجہ صاحب دوسرے ہی دن یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو کر پارلیمانی سیکرٹری بن گئے ۔ لیگ کی نمائندگی کے لیے ملک برکت علی یکہ و تنہا رہ گئے اور ایک اخبار نے ان پر لالۂ صحرائی کی پھبتی کسی اِنتخابی مہم کے دوران میں ہم نوجوانوں کے خیالات نے پلٹا کھایا۔ قائد اعظم اور حضرت علامہ اقبال کی پر کشش شخصیتوں سے متاثر ہو کر ہم مسلم لیگی بن گئے ۔یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ علالت کے باوجود صوبہ مسلم لیگ کی صدارت پر حضرت علامہ فائز تھے۔
ایف اے کا امتحان دینے کے بعد موسم گرما کی چھٹیاں آ گئیں۔ حمید نظامی اداس ہوتے، اپنے شہر سانگلہ ہل سے کچھ دنوں کے لیے لاہور آ جاتے اور اکثر و بیشتر میرے ہاں قیام فرماتے ۔ایک دن سیاسی تبادلہ خیالات کے دوران میں یہ تجویز ابھری کہ ہندو طلبہ کے مقابلے پر مسلم طلبہ کو ایک الگ جماعت کی صورت میں منظم کیا جائے ۔اس کا نام پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن قرارپایا اورفیصلہ ہوا کہ اخبارات کے نام ایک مشترکہ بیان جاری کیا جائے جس میں خط وکتابت کے لیے میرا پتہ دیا جائے۔ گویا میں کنوینر بن گیا۔ مشترکہ بیان حمید نظامی نے مرتب کیا لیکن اس پر دستخط نہ کیے ۔ کیونکہ وہ بعد میں اسلامیہ کالج یونین کے سیکرٹری کی حیثیت سے اس کے حق میں الگ بیان دینا چاہتے تھے۔ مشترکہ بیان کے نیچے ہم نے اپنے اپنے دوستوں کے نام دے دیے جن میں عبدالستار نیازی ، امجد حسین ، عبداللہ بٹ ، اکبر ملک اور چوہدری رحمت اللہ اسلم شامل تھے۔ موخر الذکر وہی سی آر اسلم ہیں جو آج کل نیشنل عوامی پارٹی ( بھاشانی گروپ) سے وابستہ ہیں۔ یہ بیان سب مسلمان اخباروں نے بڑی شان سے چھاپا اور مولانا ظفر علی خاں اسے لے کر بذات خود کاتبوں کے پا س پہنچے اور کہا: اس پر یہ سرخی دو ،'' سوئے ہوئے شیروں کی پہلی انگڑائی۔'' اس کے بعد ہر طرف سے فیڈریشن کے حق میں بیانات کا تانتا باندھ گیا۔ لاہور کی انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ نے اپنے بیان میں یہ بھی لکھا ۔
''ہمارا یقین ہے کہ وہ وقت آچکا ہے ۔ جب ہمیں شمال مغربی ہند کو مسلمانوں کاقومی وطن بنانے کا اعلان کر دینا چاہیے اور ہمیں غیر مبہم الفاظ میں یہ اعلان کرتے ہچکچانا نہیں چاہیے کہ پاکستان مسلم نیشنل سٹیٹ کا قیام ہماری تما م مساعی کا منتہائے مقصود ہے۔ '' (انقلاب ۲۷ اگست۱۹۳۷ئ)
یکم ستمبر ۱۹۳۷ ء کو کارکنوں کا ایک اجتماع ہوا۔ جس کی صدارت میاں محمد شفیع نے کی، پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ڈھانچا کھڑا کر دیا گیا۔ حمید نظامی صدر بنے اور میں سیکرٹری ،ہماری درخواست پر حضرت قائداعظم ، نواب سر شاہنواز خاں نواب آف ممدوٹ ملک برکت علی اور مولانا ظفر علی خاں نے خصوصی پیغام بھیجے ، لیکن حضرت علامہ اقبال سے ملاقات نے ا س تحریک کا رخ پاکستان کی طرف موڑا ، ان سے پہلی ملاقات اگست میں ہوئی ۔ جب ان سے پیغام حاصل کیا تھا ۔ فیڈریشن بننے کے بعد ہم لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال یہ پیدا ہوا کہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا نصب العین کیا ہو۔ اس پر باتیں ہوتی رہیں۔ حضرت علامہ نے کہا ، تم نوجوان ہو ۔اپنا رستہ خود تلاش کرو۔ بڑے بوڑھوں پر تکیہ کرنا چھوڑ دو اور خود سوچو کہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہو۔ یہ ملاقات کچھ نا مکمل سی رہی،اس لیے ہم دو تین دن کے بعد پھر حاضر ہوئے ۔یہ ستمبر ۱۹۳۷ء کے وسط کا ذکر ہے ۔ ابھی آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ لکھنؤ سیشن ہونے میں کچھ دن باقی تھے جس سے لیگ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہونا تھا۔ اس ملاقات میں پھر نصب العین کا ذکر آیا۔ ایک صاحب نے کہا:آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام کا قیام نصب العین قرار دیا جائے لیکن رائے کو مبہم سمجھ کر مسترد کر دیا گیا۔ حضرت علامہ نے کچھ لا ابالیانہ انداز میں فرمایا۔ پھر لکھنؤ سیشن کا انتظار کر لو۔ لیگ جو نصب العین اختیار کرے، وہی تم اختیار کر لینا۔ اس پر میں نے کچھ جسارت کی اور کہا۔ آپ نے تو خود کہا تھا کہ بڑے بوڑھوں پر تکیہ کرنا چھوڑ دو اور اپنا راستہ خود تلاش کرو، پھر ہم لیگ سیشن کا انتظار کیوں کریں۔ خود ہی کیوں نہ فیصلہ کر لیں۔ میرا خیال تھا وہ ناراض ہو جائیں گے ، لیکن وہ مسکرائے اور فرمانے لگے ، بھئی بات تو ٹھیک کہتے ہو ۔ واقعی نصب العین فوراً طے کر لینا چاہیے۔ ہم نے کہا ، آپ تجویز فرمائیں۔ چنانچہ انہی کے ارشاد پر نصب العین کے الفاظ یہ قرار پائے:
''شمال مغربی ہند میں ایک مسلم نیشنل سٹیٹ کا قیام جس میں پنجاب سرحد، سندھ ، بلوچستان اور کشمیر شامل ہوں۔''
ہم نے اس پر فوراً صاد کر دیا۔ سچی بات یہ ہے کہ دو تین سال سے چوہدری رحمت علی کے پمفلٹ ملنے کے بعد ہمارے سینے میںیہ آرزو پرورش پا رہی تھی کہ خدا وہ وقت لائے جب پاکستان بن جائے ،لیکن پبلک طور پر اس تجویز کی حمایت میں آواز بلند کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ لیڈر ا س طرف آتے نہیں تھے۔ ہر طرف کانگریس کا غلغلہ تھا اور خود قائد اعظم بہ ظاہر متحدہ ہندوستان کے قائل تھے۔ حضرت علامہ کی تجویز پر اسے نصب العین قرار دیا گیا تو ہم میں قدرے جرأت پیدا ہوئی اور کسی نے اس پر اعتراض کیا تو ہم نے جھٹ اس کا مناسب جواب دے دیا ، لیکن خواہ آپ کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے جب ہم نے عوامی جلسے کیے اور صوبے کے مختلف مقامات کا دورہ کیا تو ہمیں اپنی تقریروں میں اس کا ذکر کرنے سے حجاب محسوس ہوتا تھا۔ اس لئے ہم عام طور پر کانگریس کی مذمت کرتے تھے۔ لیگ کی حمایت کرتے تھے اور جہاں تک نصب العین کا تعلق تھا ، معاملہ قدرے گول کر دیتے تھے مثلا جلسوں میں کہتے ، ہمیں نہ برطانوی سامراج کی غلامی منظور ہے ، نہ ہندو سرمایہ داری کی اور ہم آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام کے داعی ہیں۔
بہر حال اکتوبر ۱۹۳۷ء میں آزمائش کی گھڑی آن پہنچی ۔ کانگریس نواز لاہور سٹوڈنٹس یونین نے لاجپت رائے ہال میں ایک جلسہ اس غرض سے منعقد کیا کہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جیسی رجعت پسند جماعت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جائے۔ ہم ڈیڑھ سو کے قریب مسلم طلبہ کو لے کر ہال میں جا پہنچے اور وقت مقررہ سے آدھ گھنٹہ پہلے ہم نے تقریباً آدھے ہال پر قبضہ جما لیا ۔ ہندوطلبہ بھی آئے اورہال کھچا کھچ بھر گیا۔ بلکہ کچھ لوگ باہر برآمدے میں بھی کھڑے تھے۔اس جلسے سے کانگریس کے بڑے بڑے لیڈروں کو خطاب کرنا تھا۔ مثلاً دیوان چمن لعل، جو اعلیٰ درجے کے پارلیمانی مقرر تھے۔ ڈاکٹر گوپی چند بھارگو، جو پنجاب اسمبلی میں کانگریس پارٹی کے لیڈر تھے ۔ میاں افتخار الدین ، جو پنجاب پراونشل کانگریس کمیٹی کے صدر تھے اور سب سے بڑھ کر ڈاکٹر سیف الدین کچلو ، جن کی شعلہ بیانی کی داد دشمن بھی دیتے تھے۔ میاں افتخار الدین کے سوا باقی تینوں نے اپنے اپنے مقصد کے لیے قید و بند کی صعوبتیںجھیلی تھیں اور قربانیوں سے کبھی گریز نہیں کیا تھا۔ ان کے سامنے ہم لوگوں کا ڈٹ جانا چھوٹا منہ بڑی بات والا معاملہ تھا۔ ہماری تو عمریں بھی سترہ سترہ اٹھارہ اٹھارہ برس سے زیادہ نہ تھیں۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ جو مقرر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی مخالفت کرے، اسے شور مچا کر اڑاتے چلے جائو۔ پہلے چند ہندو طلبہ نے تقریر کا شوق فرمایا اور مجمع کے شور سے گھبراکر سٹیج سے اتر گئے ۔ پھر دیوان چمن لعل آئے۔ انگریزی زبان کے دوچار فصیح و بلیغ اور نہایت چست فقرے بولنے کے بعد فیڈریشن پر نکتہ چینی شروع کی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو ا، چنانچہ بیٹھ گئے۔ میاں افتخار الدین کو دو منٹ میں لڑھکا دیا گیا ۔ ڈاکٹر گوپی چند بھارگو بڑے میٹھے انداز میں اور ہولے ہولے بولا کرتے تھے۔ چونکہ جلسے کا مزاج مختلف تھا، اس لئے انہیں بھی اسٹیج سے روانہ ہونا پڑا۔ اچانک اس افرا تفری کے عالم میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو سامنے آئے۔ وہ نہایت اعلیٰ پائے کے مقرر تھے اور ان کا رعب اتنا ہوتا تھا کہ کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا تھا۔ وہ خود بھی عقل مند تھے اور حاضرین کے مزاج شناس ۔۔۔انہوں نے برطانوی سامراج کے استحصال اور لوٹ مار کے موضوع پر خیالات کا اظہار شروع کیا۔ بھلا ہمیںا س سے کیا اختلاف ہو سکتا تھا۔ ہم مزے سے سنتے رہے۔ اچانک بولتے بولتے انہوں نے اپنی جیب سے پیلے رنگ کا پمفلٹ نکالا۔ ہم پہچان گئے کہ یہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کاکانسٹی ٹیوشن ہے۔ آپ نے بڑی بلند آہنگ آواز سے کہا۔ ''جانتے ہو میرے ہاتھ میں کیا ہے ؟'' حاضرین پر سکوت کا عالم طاری ہو گیا۔ آپ نے کہا ۔''پنجا ب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا کانسٹی ٹیوشن ہے اگر میں تمہیں بتا دوں کہ اس میں کیا لکھا ہے تو تم سب حیرت میں گم ہو جائو گے اور جان لو گے کہ اس جماعت کے پس پردہ کون تار ہلا رہا ہے ۔'' مجمع بے چینی سے انتظار کرنے لگا کہ آگے کیا کہتے ہیں۔ ہم خود قدرے پریشان ہوگئے کہ ہم نے اس میں کون سا بم کا گولہ بنا رکھا ہے جس کا چیلنج دیا جا رہا ہے۔ بولے۔'' اس کے صفحہ ۳ پر (Aims and Objects)درج ہیں جن کی پہلی شق یہ ہے کہ :
ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مسلم قومی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس میں پنجاب، سندھ ، سرحد ، بلوچستان اور کشمیر کے علاقے شامل ہوں۔
انگریز نے فلسطین کے بٹوارے کی تجویز پیش کی۔ یہ لوگ ہندوستان کی پارٹیشن ( partiton)چاہتے ہیں۔ بو لو تمہیں یہ منظور ہے ؟'' ہندو طلبہ نے شیم شیم کے نعرے بلند کئے اور ہم سب بیک آواز پکار اٹھے (We Want Partition)ہم پارٹیشن چاہتے ہیں۔ اور پھر خود بخود یہ نعرہ بن گیا۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان ۔ اور ہال میں چاروں طرف یہی نعرہ گونجنے لگا ۔ یہ تحریک پاکستان کے حق میں پہلا نعرہ تھا جو شہر لاہور میں بلند ہوا۔
جلسہ افرا تفری میں ختم ہو گیا ۔ دوسرے دن ہم نے فیصلہ کیا کہ اب پرانے حجاب توڑ دیے جائیں۔ لیگ خواہ متحدہ ہندوستان کو نصب العین بنائے، ہمارا اوڑھنا بچھونا تو پاکستان ہی ہو گا ، چنانچہ پہلاعملی قدم یہ اٹھایا گیا کہ ہم نے سندھ ، سرحد اور کشمیر کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشنوں کاالحاق قبول کر لیا ۔ گویا اپنی طرف سے پاکستان قائم کر لیا۔
اگلے سال ۲۹اگست ۱۹۳۸ء کو میں نے قائد اعظم کے نام ایک خط میں ایک تو مسلم لیگ کی تنظیم کو بہتر بنانے کے لئے کچھ تجاویز پیش کیں۔ دوسرے ان سے چوہدری رحمت علی کی تحریک پاکستان کے بارے میں رائے دریافت کی۔ ا س کے جواب میں جو مکتوب مجھے ملا اس کا ترجمہ یہ ہے۔
''مجھے تمہارا ۲۹ اگست ۱۹۳۸ء کا خط مل گیا تھا۔ علالت کی وجہ سے جواب نہ دے سکا ۔ تم نے جو تجاویز پیش کی ہیں۔ وہ میں نے نوٹ کر لی ہیں اور اس کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ تم مجھ سے یہ توقع نہیں کرو گے کہ میں ان مسائل پر خط و کتابت میں بحث کروں۔ میرے نزدیک ابھی مسلمانوں کو سیاسی زبان سیکھنی ہے۔ اور کسی قدر صبر سے کام لینے کی بھی تربیت حاصل کرنی ہے۔ اب مجھے کامیابی کی کچھ امید ہے کیونکہ مسلمان بیدار ہو رہے ہیں ۔ان میں عزت و نفس اور خود اعتمادی پیدا ہور رہی ہے لیکن مکمل طور پر منظم ہونے میں ابھی کچھ اور وقت لگے گا۔''
اس سے میں نے یہی نتیجہ اخد کیا کہ انہیں تصور پاکستان سے اتفاق تو ہے لیکن پہلے اس کے لئے زمین ہموار کرنا چاہتے ہیں ۔ سیاسی زبان سیکھنے اور صبر کی تلقین کا مطلب یہ ہے کہ پہلے آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام اور دو قومی نظریے کے نعرے مقبول کئے جائیں۔ پھر دو وطنی نظریہ بھی ابھر آئے گا ۔ ہمارا طریق کار یہ تھا کہ نصب العین توپاکستان تھا ،لیکن لیگ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے قائل تھے۔ ان دنوں بدنصیبی سے پنجاب کی صوبہ مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اس طرح عضو معطل بن چکی تھی۔ اور کانگریس اور کانگریسی مسلمانوں کا مقابلہ صرف مسلم طلبہ کو کرنا پڑ رہا تھا۔ میں نے ایک خط میں قائد اعظم کی توجہ اس دلخراش صورت حالات کی طرف دلائی ۔ اس پرانھوںنے جو جواب دیا اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
مجھے تمہارا ۳ فروری ۱۹۳۹ء کا خط مل گیا۔ اس کے لئے تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں ،ہاں پنجاب بدقسمتی سے پورے طور پر متحد نہیں لیکن حوصلہ نہ ہارنا۔ ہمارا مقصد صحیح اور انصاف پر مبنی ہے۔ کوئی کام بھی مشکل نہیں ہوتا۔ ہمیں آل انڈیا مسلم لیگ کا کام بھی کرنا چاہیے اور ا س کی حمایت کرنی چاہیے۔ جو معلومات تم نے مہیا کی ہیں وہ میں نے نوٹ کر لی ہیں۔ پنجاب میں اس وقت جو حالت پیدا ہو چکی ہے مجھے بڑے دکھ کے ساتھ اس کا احساس ہے اور میں رائے درست کرنے کے لیے پوری ہمت سے کا م لے رہا ہوں۔''
ہندوستان کے سات صوبوں میں کانگریسی وزارتوں کی مسلم دشمنی اور دھاندلی نے ہمارے سوچنے سمجھنے والے طبقے کا انداز فکر بدل دیا۔ اب وہ محسو س کرنے لگے کہ کل ہند فیڈریشن ان کے مرض کا علاج نہیں۔ اس سال اکتوبر میں سندھ پراونشل مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا جس کی صدارت قائداعظم نے فرمائی اور اس میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ مسلم اور غیر مسلم فیڈریشنیں قائم ہو ں اور اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک آئینی دستاویز تیار کرے۔ اس قرارداد کی منظوری میں سیٹھ عبداللہ ہارون اور پیر علی محمد راشدی کی مساعی کو خصوصی دخل حاصل تھا۔
رفتہ رفتہ تحریک پاکستان کے حق میں رائے عامہ منظم ہوتی چلی گئی اور وہ مرحلہ آن پہنچا جب مسلم لیگ کو نصب العین کے سلسلے میںدوٹوک فیصلہ کرناتھا۔ میری مراد آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور سیشن سے ہے جو مارچ ۱۹۴۰ کے اواخر میں منعقد ہوا۔ میں اس کے مندو بین میں شامل تھا لیکن لاہور سے نہیں سیالکوٹ سے منتخب ہوا تھا کیونکہ لاہور میں مقابلہ سخت تھا۔ منٹو پار ک میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں خیموں اور شامیانوں کا ایک نیا شہر آبا د ہو گیا۔ ایک پنڈال بنا جس میں ایک لاکھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے ہزاروں سبز پوش رضا کاروں نے رونق دو بالا کر دی ۔ یہ درست ہے کہ قرار دار لاہور میں شمال مغربی ہنداور مشرقی ہند کے مسلم اکثریتی علاقوں کی آزاد ریاستوں کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم سب کے ذہن میں ریاستوں کا نہیں ریاست کا تصور تھا۔ بلکہ قائد اعظم کے ذہن میں بھی ایک ہی آزاد مملکت کا تصور موجود تھا۔ ثبوت کے طور پر قائد اعظم کی اس تقریر سے اقتباس ملاحظہ ہوں جو انہوں نے خطبہ صدارت کے طور پر ارشاد فرمائی۔
''ہم سب کے سامنے واحد راستہ یہی ہے کہ ہندوستان کو خود مختار مملکتوں میں تقسیم کر کے بڑی قوموں کو الگ الگ وطن مہیا کردیں۔''
''قوم کی کسی بھی تعریف کی رو سے مسلمان ایک قو م ہیں اور انہیں اپنا قومی وطن۔ اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ضرور ملنی چاہیے ۔''
پاکستان کے ایک بہت بڑے دانش ور نے پچھلے دنوں کہا کہ نظریۂ پاکستان پچھلے دو سالوں میں ایجاد ہوا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت قائد اعظم کے صرف دو چھوٹے چھوٹے اقتباس پیش کروں گا ۔ ملاحظہ فرمائیے:۔
''اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمان کی اور نہ کسی اور شخص یا ادارے کی ۔ قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست اور معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی کے لیے آپ کو لا محالہ علاقے اور مملکت کی ضرورت ہے۔ (۱۹۴۱ئ)
''پاکستان کے تصور کو جواب مسلمانوں کے لیے عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے ۔ ان کی حفاظت ، نجات اور تقدیر کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔ اسی سے یہ آواز اقصائے عالم میں گونجے گی کہ دنیا میں ایک ایسی مملکت بھی ہے جو اسلام کی عظمتِ گزشتہ کو از سر نوزندہ کرے گی۔(مارچ۱۹۴۴ئ)
٭٭٭٭