اشاریہ اردو جرائد

معیار (اردو) : ۷ ؛ جنوری- جون ۲۰۱۲ ء ؛ شعبہ اردو؛بین الاقوامی یونیورسٹی ، اسلام آباد

آغاز : جون ۲۰۰۹ ء ؛اولین مدیر:ڈاکٹر معین الدین عقیل،ڈاکٹر نجیبہ عارف؛ موجودہ مدیر: ڈاکٹر رشید امجد، ڈاکٹرسعدیہ طاہر ؛کل شمارہ جات : ۱۸

۹
تا
۱۴

مقالے میں اردو اور فارسی کے شاعر مرزا غالب کی شخصیت اور فن کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگرچہ غالب کو زندگی ہی میں پذیرائی ملی مگر اس کے ساتھ ہی انھیں بہت سے اعتراضات کا بھی سامنا کرنا پڑا جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اگرچہ غالب کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے تاہم ان کی جذباتی زندگی کے بارے میں ابھی کام کی گنجائش ہے۔مقالے میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

ڈاکٹرانواراحمد

اسلام آباد (پاکستان)

غالب کی تخلیقی شخصیت کے چند پہلو  

۱ ۔

۱۵
تا
۲۶

1857 ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد غالب نے عملیت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے انگریزوں کے قریب آنے کی کوشش کی تاکہ ان کے عتاب سے محفوظ رہیں اور پنشن بحال کرا سکیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ''دستنبو‘‘ تحریر کی اور اسے جلد از جلد چھپوانے کا اہتمام کیا۔ ایسا ہی کچھ مواد ان کے خطوط میں بھی موجود ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ بقا کی جدوجہد کے لیے غالب نے عملیت پسندی کا ثبوت دیا۔مقالہ نگار عملیت پسندی کا ایک خاص مفہوم رکھتے ہیں۔

ڈاکٹرخالد اقبال یاسر لاہور (پاکستان )

اٹھارہ سو ستاون اور غالب کی عملیت پسندی

۲ ۔

۲۷
تا
۵۸

مقالے میں غالب کے متضاد بیانات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ غالب عمر بھر اپنی انا کے خول میں بند رہے۔ اسی لیے ان کی شخصیت اور فن ،بیانات میں تضاد در آیا ہے۔ معاملہ چاہے ان کے عقیدے کا ہو یا کلکتہ کے سفر کا، اردو شاعری کا ہو یا جنگِ آزادی کا، دستنبو کا ہو یا مذہب کا، غرض ہر بیان میں غالب کے ہاں تضادات کا ملنا مشکل نہیں۔

ڈاکٹر محمد یار گوندل سرگودھا
( پاکستان )

غالب کے بعض بیانات کا تنقیدی جائزہ

۳ ۔

۵۹
تا
۶۸

مقالہ سید جمال الدین افغانی ( ۱۸۳۹ ء۔ ۱۸۹۷ ء) کا عمومی طور پر مسلم دنیا اور خصوصی طور پر علامہ محمد اقبال پر اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔ اس ضمن میں تشکیل جدید الہٰیات کو خصوصی طور پر مد نظر رکھا گیا ہے اور جمال الدین افغانی کے مذہبی اور سیاسی افکار کو ''جاوید نامہ‘‘ کی روشنی میں دیکھا گیا ہے۔ انیسویں صدی کا یہ عظیم مفکر اور سیاسی رہنما آج بھی مسلم دنیا کے لیے غیر متعلق نہیں ہے۔

پروفیسرفتح محمد ملک اسلام آباد (پاکستان )

اقبال اور جمال الدین افغانی

۴ ۔

۶۹
تا
۷۸

علامہ محمد اقبال کی تمام تحریروں میں اسلام اور مسلم دنیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال کی تحریروں میں مسئلہ فلسطین ہمیشہ زندہ رہا۔ اقبال کے مطابق اگر فلسطین پر یہودیوں کے حق کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر شمالی امریکہ پر ریڈ انڈینز کا، ہن اور گاؤل اقوام کا برطانیہ پر یا آریاؤں کا حق ایران اور روس پر تسلیم کر لینا چاہیے۔ مقالہ مسئلہ فلسطین پر اقبال کے خیالات کا جائزہ پیش کرتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد منیرعامر

لاہور (پاکستان )

اقبال کا دلِ دردمند اور فلسطین۔۔۔کل اور آج  

۵ ۔

۷۹
تا
۸۸

بیسویں صدی میں سب سے توانا آواز علامہ اقبال کی تھی جنھوں نے مغرب کو مکالمے کی دعوت دی۔ حالات حاضرہ میں بہتری لانے کے لیے اقبال ضرب کلیم میں عہد حاضر کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں۔اقبال نے یہ اعلان جنگ تین محاذوں پرکیا ہے۔ ایک نااہل مذہبی طبقے کے خلاف، دوسرا مغرب کی جنگی حکمت عملی کے خلاف اور تیسرا عرب قوم پرستی کے خلاف۔

ڈاکٹر شاہد اقبال کامران

اسلام آباد (پاکستان )

دورِ حاضر کے خلاف اقبال کا اعلان جنگ

۶ ۔

۸۹
تا
۱۰۸

دنیا کے دیگر خطوں کی طرح بھارت میں بھی صف اوّل کے دانشوروں مثلاً ڈاکٹر یوسف حسین خان، علی سردار جعفری اور جگن ناتھ آزاد جیسے نام ور ناقدین نے اقبال کے فکر و فن پر قلم اٹھایا ہے۔ جامعات میں بھی محققین اقبال کے فکر و فن پر مسلسل تحقیق ہو رہی ہے اور ادبی جرائد بھی اقبال کا احاطہ کر رہے ہیں۔ مقالے میں مندرجہ بالا حوالوں سے بھارت میں اقبال شناسی کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر شفیق عجمی  

لاہور (پاکستان )

بھارت میں اقبال شناسی

۷ ۔

۱۰۹
تا
۱۲۲

مقالے میں اقبال کے ان اعتراضات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جو انھوں نے آئن سٹائن اور اوس پنسکی کے چار ابعادی تصور پر کیے ہیں۔ آئن سٹائن سے قبل تین جہات طول ، عرض اور عمق کا تصور تھا۔ لیکن اس نے ایک اور جہت ، زمان (Time) کا اضافہ کیا۔ اس طرح روسی مصنف اوس پنسکی کے نزدیک چوتھے بُعد سے مراد کسی سہ ابعادی شے کی ایسی سمت میں حرکت ہے جو خود اس میں موجود نہ ہو۔ اقبال ان دونوں تصورات پر معترض ہیں کیونکہ اس سے نظریہ جبر کو تقویت ملتی ہے۔

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

فیصل آباد (پاکستان )  

آئن سٹائن اور اوس پنسکی کا چار ابعادی تصور اوراقبال: تحقیقی جائزہ

۸ ۔

۱۲۳
تا
۱۳۰

علامہ اقبال کا فلسفہ و فکر کوئی مجرد ذہنی سرگرمی نہیں ہے جس میں زندگی کی حرارت مفقود ہو بلکہ یہ روحانی بصیرت اور شاعرانہ تخیل کا حسین امتزاج ہے۔ اقبال کی شاعری زندگی کے تمام تقاضوں سے بے نیاز نہیں ۔مقالہ نگار کے مطابق اقبال کے ہاں اعلیٰ فکری دانش اور اعلیٰ شاعری اور آرٹ مل کر ایک ہوگئے ہیں۔

ڈاکٹر عزیز ابن الحسن

اسلام آباد (پاکستان )

اقبال : فکرو فن کا ایک امتزاج

۹ ۔

۱۳۱
تا
۱۳۸

مقالے کا مقصد ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالب علموں کے لیے عملی تحقیق کی ایک مشق فراہم کرنا ہے۔ مثال کے لیے یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے کہ نظیر اکبر آبادی ایک سیکولر شاعر تھے۔ بہت سے تذکرے، تواریخ، کتب اور تنقیدی و تحقیقی کتب نظیر کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالتی ہیں، جن سے اس مفروضے کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹرانوار احمد

اسلام آباد (پاکستان )

ڈاکٹر روبینہ رفیق

ملتان (پاکستان )

عملی تحقیق کے لیے ایک مشق بحوالہ نظیر اکبر آبادی

۱۰ ۔

۱۳۹
تا
۱۵۲

مقالے میں اردو تحقیق کے پیراڈائم کے لیے فلسفیانہ بنیادیں فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلسفہ تحقیق کے رائج تصورات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ فلسفہ تحقیق اثباتیت اور ما بعد اثباتیت دونوں میدانوں میں کارآمد ہے۔مقالہ نگار کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو زبان و ادب میں تحقیق کے اس نقطہ نظر کو اختیار کیا جائے۔

ڈاکٹر عطش دُرّانی

اسلام آباد (پاکستان )

اُردو تحقیق کی فلسفیانہ بنیاد

۱۱ ۔

۱۵۳
تا
۱۶۲

صوفیانہ ادب میں ملفوظات کو خاص مقام حاصل ہے۔ خلاصۃالفوائد خواجہ نور محمد مہروں کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جسے حاجی محمد عمر حکیم نے مرتب کیا ہے۔ مقالے میں اس مجموعے کے نو ( ۹ ) مختلف مخطوطوں کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔

ڈاکٹرعبدالعزیز ساحر

اسلام آباد (پاکستان )

خلاصۃ الفوائد کے نو خطی نسخوں کا تعارفی مطالعہ

۱۲ ۔

۱۶۳
تا
۱۸۰

ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں قدیم مشرقی تحریروں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس مضمون میں ان پینتیس داستانوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو وہاں موجود ہیں۔ یہ تمام داستانیں کم از کم ایک سو بیس سال قبل منشی نول کشور پریس سے شائع ہوئی تھیں۔چند نمایاں داستانیں یہ ہیں: الف لیلہ کی کہانیاں، بیتال پچیسی، سنگھاسن بقیسی وغیرہ

ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی

لاہور (پاکستان )

ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں نول کشور کی چند مطبوعہ داستانوں کا تازہ ذخیرہ

۱۳ ۔

۱۸۱
تا
۲۰۴

مغربی پاکستان لجسلیٹو اسمبلی مغربی پاکستان ایکٹ ۱۹۵۵ ء کے تحت قائم کی گئی۔ اردو کو ایوان کی زبان قرار دیا گیا۔ تاہم ضرورت کے تحت انگریزی، پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی زبانوں کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی۔مقالہ اردو زبان کے حوالے سے اسمبلی کی کارروائی کا جائزہ پیش کرتا ہے۔

ڈاکٹر محمد ارشد اویسی، میمونہ سبحانی

فیصل آباد (پاکستان )  

ون یونٹ کی تشکیل کے بعد مغربی پاکستان  
لیجسلیٹو اسمبلی  

میں نفاذ اردو کی کوششیں( ۱۹۵۶ ء تا ۱۹۵۸ ء )

۱۴ ۔

۲۰۵
تا
۲۱۸

اس مقالے میں چار ادبی رسائل کا تعارف اور تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ چار رسائل نگار (مدیر: نیاز فتحپوری)، نیرنگ خیال(مدیر: حکیم یوسف حسن)، ماہ نو(مدیر: وقار عظیم) اور نقوش(مدیر: حاجرہ مسروراور احمد ندیم قاسمی) ہیں۔

ڈاکٹر اسد فیض

اسلام آباد (پاکستان )

اردو کے اہم ادبی جرائد کے اولین شمارے

۱۵ ۔

۲۱۹
تا
۲۴۶

جنوبی پنجاب ایک منفرد ثقافت کا حامل ہے۔ اس کی لسانیات اور شعری روایت اپنے جغرافیے اور تاریخ سے جڑی ہوئی ہیں۔ مقالے میں اس خطے کی اردو شاعری کاتاریخی، تہذیبی اور لسانی خطوط پر جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹرمحمد امیر ملک

لیہ (پاکستان )

جنو بی پنجا ب کی شعر ی روا یت کا تا ریخی ، تہذیبی اور لسا نی پس منظر

۱۶ ۔

۲۴۷
تا
۲۵۰

مورخین کا سید سلیمان ندوی کی تاریخ ولادت کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض نے شمسی تاریخ اور بعض نے قمری تاریخ اور بعض نے شمسی اور قمری دونوں تاریخیں درج کی ہیں۔ مضمون میں اسی قضیے کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر اختر علی  

سرگودھا (پاکستان )

سید سلیمان ندوی کی تاریخ ولادت کا مسئلہ

۱۷ ۔

۲۵۱
تا
۲۶۰

اشاریہ کی مدد سے رسائل و جرائد، کتب اور اخبارات کی ورق گردانی کی بجائے مختصر وقت میں اپنے مطلوبہ مواد تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔مقالے میں اشاریہ سازی کے ان اصولوں کو بیان کیا جارہا ہے جن کو مد نظر رکھ کر اشاریہ سازی کی جانی چاہیے۔

محمد حامد علی

لاہور (پاکستان )

اشاریہ سازی اورادبی رسائل و جرائد کے مطبوعہ اشاریوں کا  

تحقیقی و تنقیدی جائزہ

۱۸ ۔

۲۶۱
تا
۲۷۶

مقالے میں کلاسیکی اور لوک موسیقی کے عروج و زوال کو بیان کیا گیا ہے۔ نیز وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تکنیکی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ دھرپد اور خیال جیسے راگ خاص طور پر زیر بحث لائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر جواز جعفری

لاہور (پاکستان )

کلاسیکی موسیقی :دُھرپَدسے خیال تک

۱۹ ۔

۲۷۷
تا
۲۹۰

اردو میں ادبی اور لسانی تحقیق کے اصولوں، تکنیکوں اور طریقوں کے بارے میں کافی کچھ سامنے آچکا ہے۔ اس مقالے میں ڈاکٹر عطش درانی کی کتاب ''اصول ادبی تحقیق‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے

ڈاکٹر روبینہ شہناز

اسلام آباد (پاکستان )

ڈاکٹر عطش درانی کی ''اصولِ ادبی تحقیق‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ

۲۰ ۔

۲۹۱
تا
۲۹۸

ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی اردو ادب کی تاریخ ایک اہم ادبی تاریخ کا درجہ رکھتی ہے۔اس مضمون میں ڈاکٹر نسیم کاشمیری کی ''اردو ادب کی تاریخ‘‘ کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیاہے اور اس کے اہم پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے۔

اظہر علی سیّد

قصور (پاکستان )

ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی ''اُردو ادب کی تاریخ‘‘کا تکنیکی مطالعہ  

۲۱ ۔

۲۹۹
تا
۳۱۲

خواب سرشار‘‘ محسن خان پوری کا مزاحمتی اور ہجویہ قصیدہ ہے جو ۱۹۰۶ ء میں شائع ہوا۔ اس مقالے میں اس قصیدہ کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹرنذرخلیق راولپنڈی (پاکستان

خوابِ سرشار :تحقیق و تنقید

۲۲ ۔

۳۱۳
تا
۳۲۰

فرید الدین فراہی کی اصل شہرت ایک عالم دین کی ہے۔ آپ عربی اور فارسی میں شعر بھی کہتے تھے۔ اس مقالے میں فراہی کے فارسی دیوان کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر شاہد نوخیز اعظمی

حیدرآباد(بھارت)

فارسی کا فراموش شدہ صاحب دیوان شاعر۔ حمید الدین فراہی

۲۳ ۔

۳۲۱
تا
۳۳۲

'' تفسیر محمدی‘‘ قرآن پاک کی پہلی پنجابی تفسیر ہے۔ اس کے مصنف حافظ محمد لکھوی ہیں۔ تفسیر سات جلدوں میں ہے۔ اس مقالے میں ''تفسیر محمدی‘‘ کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر بتول زہرا

فیصل آباد (پاکستان )  

'' تفسیرِمُحمدی ‘‘ کا تنقیدی جائزہ  

۲۴ ۔

۳۳۳
تا
۳۵۰

سرسید پر سائنس اور عقل پرستی کا غلبہ تھا۔ اس کا اظہار تفسیر میں بھی ہوا۔ مقالے میں سرسید کے عقلی اور سائنسی تصور کی ہی روشنی میں تفسیر سرسید کا فنی، ادبی اور لسانی جائزہ لیا جارہا ہے۔

ڈاکٹر محمد سلیم خالد  

چکوال(پاکستان )  

تفسیرِ سر سید کا فنی ، ادبی اور لسانی مطالعہ

۲۵ ۔

۳۵۱
تا
۳۶۰

اس مقالے میں ''ابن الوقت‘‘ پر ہونے والی تنقید کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس ناول سے متعلق زیادہ تر تنقید ناول کو محض سماجی اور سرسید کے پس منظر میں دیکھتی ہے جو کہ مکمل سچائی نہیں ہے۔

محمد نعیم

سرگودھا(پاکستان )  

ابن الوقت پر تنقیدکا تجزیاتی مطالعہ

۲۶ ۔

۳۶۱
تا
۳۷۲

غزل میں دور کے تقاضوں کو سمیٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستانی غزل اپنے اسلوب اور موضوعات کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتی ہے۔ اس مقالے میں پاکستانی غزل پر مختلف نظریات اور تحریکوں کے اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد

اسلام آباد (پاکستان )

پاکستانی اردو غزل :رجحانات اور امکانات

۲۷ ۔

۳۷۳
تا
۳۸۲

بیسویں صدی روایت پسندی اور جدیدیت کے سنگم پر کھڑی ہے۔ جدید شعرا کے یہاں مغربی خیالات پروان چڑھنے لگے۔ نیما بو شیخ نے مغربی لب و لہجے میں شاعری کی داغ بیل ڈالی۔ ایسے دور میں اقبال نے مغربی افکار کا رد کیا اور مشرقی روایت کی عظمت کی بات کی۔

ڈاکٹر جواد ہمدانی  

اسلام آباد (پاکستان )

بیسویں صدی میں فارسی شاعری کے رجحانات

۲۸ ۔

۳۸۳
تا
۴۰۴

بیسویں صدی میں مختلف رجحانات اور تحریکات کی بدولت اردو افسانے نے خاص اہمیت حاصل کی۔ اردو افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں میں فرائڈ، یونگ اور ایڈلر وغیرہ کے نظریات کو اپنی کہانیوں میں برتا۔ اردو افسانہ ان رجحانات سے کس کس طرح متاثر ہوایہی اس مقالے کا موضوع ہے۔

ڈاکٹر عبدالکریم خالد

لاہور(پاکستان )  

افسانوی ادب اور نفسیات

۲۹ ۔

۴۰۵
تا
۴۱۲

بیسویں صدی کے ادب نے دیگر فنون لطیفہ میں نمایاں ہونے والے بعض رجحانات کے اثرات قبول کیے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم فن مصوری ہے۔ جدیدیت کی تحریک نے مصوری کے جن رجحانات سے اثر قبول کیاان میں تمثال کاری، تاثریت اور اظہاریت شامل ہیں۔ اس مقالے میں جدیدیت کی تحریک کے پس منظر میں اردو غزل پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر عابد سیال

اسلام آباد
( پاکستان )

جدید غزل میں تمثال کاری اور پیکرتراشی کا رجحان

۳۰ ۔

۴۱۳
تا
۴۴۲

مضمون میں ان بلوچ مصنفین کا تعارف کروایا گیا ہے جنہوں نے سفرناموں کی صنف استعمال کر کے تمام دنیا کے علاقوں کی، بہ شمول پاکستان کے مختلف مقامات کی تصویر کشی کی ہے۔

غلام قاسم، مجاہدبلوچ، ڈاکٹر محمد یوسف خشک

خیرپور(پاکستان )  

اُردوسفرنامہ نگاری میں بلوچ اہل قلم کی خدمات

۳۱ ۔

۴۴۳
تا
۴۵۰

مضمون میں ادب کی تنقید اور نظریاتی نظام[تھیوری] میں استعمال ہونے والی اہم اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے۔ مغرب میں ان نظریات کے استعمال کی ابتداء کے نصف صدی کے اندر ہی اردو میں ان تنقیدی اصطلاحات کا استعمال شروع ہو گیا تھا۔ تاہم، تا حال ان کی اردو شرح بیان نہیں کی گئی۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، چند اہم اصطلاحات کو متعارف کروایا گیا ہے۔

ڈاکٹر قاضی عابد
ملتان(پاکستان )

بیسویں صدی میں مستعمل منتخب تنقید ی اصطلاحات

۳۲ ۔

۴۵۱
تا
۴۵۸

زبان ایک ایسا نظام ہے جس میں آواز [فونیم]، حروف اور علامات کا ایک اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے۔ تلفظ ایک معاشرتی فعل ہے جس کا معاشرے کی جڑت سے تعلق ہے۔ ہر لفظ کا تلفظ اس کی ساخت کا ایسا حصہ ہے جسے تبدیل کرنا فرد کا حق نہیں۔ املا کی مدد سے تلفظ کی صحت یقینی بنائی جاتی ہے۔ تاہم بول چال کے دوران تحریراور تلفظ میں کچھ فرق آسکتا ہے۔ اس مضمون میں تحریر اور تلفظ کے باہمی تعلق اور لسانی ارتقا میں اہم کردار کی نشاندہی کی گئی ہے۔

ڈاکٹر محمد اشرف کمال

فیصل آباد
( پاکستان )

زبان میں املا اور تلفظ کی اہمیت  

۳۳ ۔

۴۵۹
تا
۴۶۶

اردو حروف کی آوازوں کے اعتبار سے کئی معاملات قابلِ بحث ہیں۔ ان میں سے ایک اہم نکتہ اردو میں مستعمل آوازوں اور حروف کی تعداد کا ہے۔ اردو لسانیات کے ماہرین کے درمیان اس موضوع پر اتفاق نہیں ہے۔ اس مضمون میں اردو میں مستعمل آوازوں اور حروف کی تعداد کے مختلف اعداد و شمار پر تحقیق کی گئی ہے اور تاریخ کی روشنی میں جدید لسانیات کے نظریات کی مدد سے بحث کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر شفیق انجم

اسلام آباد (پاکستان )

اردو زبان کی آوازیں اور حروفِ تہجی

۳۴ ۔

۴۶۷
تا
۴۷۶

اردو رسم الخط ، عربی ، فارسی ہے۔ جہاں تک اردو زبان کی اصوات کا تعلق ہے اس میں ہندی کی گیارہ ہائیہ آوازیں ہیں۔ اردو رسم الخط میں چھ مزید ہائیہ آوازیں ہیں۔ جو ہندی رسم الخط میں نہیں ہیں۔ اردو رسم الخط میں ہائیہ آوازوں کی چار مختلف شکلیں اور نام ہیں یعنی ہائے حطی، ہائے ہوز، ہائے دو چشمی اور ہائے مختفی۔ ان میں سے صرف ہائے حطی(ح) اور ہائے ہوز (ہ) کا اردو حروف تہجی میں مقام متعین ہے۔ اس لیے انھیں ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرنا غلط ہوگا۔ اس مقالے میں ہائے دوچشمی کی حیثیت اور استعمال کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محمد سلیمان اطہر فیصل آباد (پاکستان )  

اردو رسم الخط میں ہائے دو چشمی (ھ)کی حیثیت اور استعمال:ایک تنقیدی جائزہ

۳۵ ۔

۴۷۷
تا
۲۸۲

گلگت بلتستان سات اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہاں کی مقامی زبان شنا ہے۔ شنا تحریری زبان نہیں ہے۔ یہ مقالہ ہر درے کے قدیم 'کوٹ‘ کا مطالعہ نیز اس خطے کے لوک ادب، شاعری اور قصوں کا جائزہ پیش کرتا ہے۔

حسان اللہ خان

کراچی (پاکستان )

اہل دیامر کالوک ورثہ ،شنا زبان  

۳۶ ۔

۴۸۳
تا
۴۸۸

ن۔ م۔ راشد نے جدید اردو شاعری کو نیا لہجہ دیا۔ راشد نے داستان اور اساطیر سے علامات اخذ کی ہیں۔ اس مقالے میں راشد کی کتاب ''ایران میں اجنبی‘‘ کی نظموں میں داستانی عناصر اور ان کی علامتی حیثیت سے بحث کی گئی ہے۔

ڈاکٹر تبسم کاشمیری

لاہور (پاکستان )

راشد کی شاعری کے داستانی عناصر ایران میں اجنبی‘‘ کے حوالے سے  

۳۷ ۔

۴۸۹
تا
۵۳۰

ن۔ م۔ راشد نے اپنی پہلی بیوی صفیہ سلطانہ کے نام بڑی تعداد میں خطوط تحریر کیے۔ یہ خطوط اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ راشد کی گھریلو اور ازدواجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔ کئی برس پہلے ان میں سے بعض خطوط ایک مجلہ میں شائع ہوئے تھے۔اس مقالہ میں ان خطوط کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری

لاہور (پاکستان )

راشد بنام صفیہ (چندغیرمطبوعہ خطوط )

۳۸ ۔

۵۳۱
تا
۵۴۸

ن۔ م۔ راشد کو ۲۰ ویں صدی کا جدید اردو نظم کا ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو نظم کو کئی جدید اسالیب /پہلوؤں سے روشناس کرایا۔ ان کی نظمیں جدتِ فکر اور صناعئ فن کا حسین امتزاج ہیں۔اس حوالے سے راشدکی نظمیں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں اور یہی چیز انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس مقالہ میں راشد کے اسلوب کی ایک اہم خوبی یعنی تشبیہات کے استعمال پر روشنی ڈالی گئی۔ مقالہ کی تیاری میں ان کی تمام شاعری کا تشبیہات و استعارہ کے استعمال کے حوالے سے بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر سہیل عباس  

مری(پاکستان )  

تشبیہاتِ راشد  

۳۹ ۔

۵۴۹
تا
۵۶۰

مقالہ میں تخلیقی عمل کی نوعیت اور حرکیات کی تفہیم میں ڈاکٹر وزیر آغا کی بے مثال خدمات کو جاننے، سمجھنے اور جائزہ لینے کی کاوش کی گئی ہے۔ عقلی اور نفسیاتی کھوج کے اس سفر میں ڈاکٹر وزیر آغا نے سماجی اور طبیعی علوم کے متعدد شعبوں سے مستعار جدید ترین منہج تحقیق کا استعمال کیا ہے۔

ڈاکٹرسعدیہ طاہر

اسلام آباد (پاکستان )  

ڈاکٹر وزیر آغا اور تخلیقی عمل کے سرچشموں کی تلاش

۴۰ ۔

۵۶۱
تا
۵۷۰

ڈاکٹر وزیر آغا کی خود نوشت ''شام کی منڈیر سے‘‘ ان کی شخصیت و افکار کو سمجھنے کا اہم ذریعہ ہے۔ مضمون سے ان کی شخصیت کے بعض ایسے گوشے سامنے آتے ہیں جن کو کسی اور حوالے سے سمجھنا شائد ممکن نہ ہوتا۔ اس طرح خود نوشت کے حوالے سے شخصیت کے نفسیاتی پہلوؤں کی تفہیم آسان ہوگئی ہے۔

عاصمہ اصغر

لاہور (پاکستان )

شام کی منڈیر سے: ایک نفسیاتی تجزیہ

۴۱ ۔

۵۷۱
تا
۵۸۰

فیض احمد فیض کا شمار ان معروف انقلابی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے مظلوم اقوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی آواز بلند کی۔ انھوں نے فلسطین کی تحریک مزاحمت کو تحریک آزادی سے تعبیر کیا اور اس تاریخی جدوجہد میں ایک نئی روح پھونک دی۔ انھوں نے بیروت میں بیٹھ کر ''لوٹس‘‘ کے لیے لکھا۔ اس طرح تحریک آزادی فلسطین نہ صرف پوری دنیا سے متعارف ہوئی بلکہ اس سے دنیا بھر کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔ یہ تحقیقی مقالہ اس خاص تناظر میں فیض کی شخصیت اور خدمات کا جائزہ لینے کی ایک کوشش ہے۔

ڈاکٹر عبدالغفور بلوچ،

ڈاکٹر محمد ثانی
کراچی(پاکستان

مسئلہ فلسطین پر فیض احمد فیض کی مزاحمتی شاعری اور اس کے اثرات

۴۲ ۔

۵۸۱
تا
۵۸۶

ساحر لدھیانوی کالج میں اپنی غزل اور نظم کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ محبت کا اظہار ان کے کلام میں نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ محبت اور محبت کے حسن میں یقین رکھتے تھے۔ وہ جدید مصنفین کی تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ وہ ایک مقبول شاعر، ہندی نغمہ نگار اور گیت نگار تھے۔انھوں نے ہندوستانی فلموں کے لیے بے شمار گیت لکھے اور فلم فیئر ایوارڈ (تاج محل ۱۹۶۳ ء ،کبھی کبھی ۱۹۷۶ ء) حاصل کیے ۔ وہ تعمیری فکر کے حامل ایک اچھے انسان اور شاعر تھے جنہوں نے شاعری کے ذریعے امید کے دیپ روشن کیے۔

ڈاکٹر عقیلہ بشیر  

ملتان(پاکستان )  

مثبت قدروں کا امین: ساحر لدھیانوی

۴۳ ۔

۵۸۷
تا
۶۰۰

مولانا محمد علی جوہر ایک کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے انھوں نے نظمیں اور غزلیں بھی لکھیں، مگر بنیادی طور پر آپ غزل گو تھے۔ اس مقالے میں ان کی شاعری کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

ڈاکٹر علی محمد خان

لاہور (پاکستان )

مولانا محمد علی جوہر کی شاعری پر ایک نظر

۴۴ ۔

۶۰۱
تا
۶۱۶

مقالے میں عزیز احمد کا ہند اسلامی تہذیب کے تصور کا مطالعہ پیش کیا جارہاہے۔ اس حوالے سے ان کی کتابوں مثلاً نسل اور سلطنت، برصغیر میں اسلامی کلچر اور برصغیر میں اسلامی جدیدیت کے حوالے سے تجزیہ کیا گیا ہے۔

حمیرا اشفاق،  

اسلام آباد (پاکستان )

ڈاکٹر قراۃ العین طاہرہ

عزیز احمد کا تصورِ تاریخ و تہذیب

۴۵ ۔

۶۱۷
تا
۶۲۸

ڈاکٹر محمود احمد غازی ( ۱۹۵۰ ء۔ ۲۰۱۰ ء) اسلامی دنیا کے ایک بڑے مفکر تھے۔ انھوں نے اردو ، انگریزی اور عربی زبان میں لکھا۔ اس مقالے میں ان کی سوانح بیان کرنے کے بعد اردو زبان میں آپ کی تحریروں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محمد جنید ندوی

اسلام آباد (پاکستان )

اردو زبان میں ڈاکٹر محمود احمد غاز ی کی علمی خدمات : ایک تعارف

۴۶ ۔

۶۲۹
تا
۶۴۸

نقادوں نے رحیم گل کے ناول ''جنت کی تلاش‘‘ پر مناسب توجہ نہیں دی۔ اس مقالے میں ناول میں اٹھائے جانے والے تہذیبی اور فکری سوالات سے بحث کی گئی ہے۔ نیز نقادوں کی بہت سی آراء کو غلط قرار دے کر ان کی تصحیح کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر بلال سہیل

راولپنڈی(پاکستان)

جنّت کی تلاش ‘‘میں تہذیبی وفکری مباحث  

۴۷ ۔

۶۴۹
تا
۶۵۸

حاجی لق لق ایک مزاحیہ کالم نگار اور شاعر تھے۔ اس مقالے میں حاجی لق لق کی سوانح حیات کا تحقیقی مطالعہ کیا گیا ہے۔

شا ہین اختر  

لیہ(پاکستان )  

حا جی لق لق کی سوانح حیا ت: ایک تحقیقی مطا لعہ

۴۸ ۔

۶۵۹
تا
۶۶۹

مشفق خواجہ بنیادی طور پر ایک محقق تھے۔ انھوں نے خطوط بھی ہزاروں کی تعداد میں لکھے۔ اس مقالے میں مشفق خواجہ کے دو خطوط شامل ہیں جو طارق حبیب کے نام لکھے گئے۔

طارِق حبیب  

سرگودھا(پاکستان )  

مُشفق خواجہ کے خطوط

۴۹ ۔