اشاریہ اردو جرائد

جرنل آف ریسرچ (اردو) : ۲۰ ؛ دسمبر ۲۰۱۱ ء ؛ شعبہ اردو ؛ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ، ملتان

آغاز : ۲۰۰۱ ء؛ اولین مدیر:ڈاکٹر انواراحمد،ڈاکٹر شیرین زبیر؛ موجودہ مدیر: ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹرقاضی عبدالرحمان عابد؛ کل شمارہ جات : ۲۰

۱
تا
۱۰

irony اس تحقیقی مقالہ میں اسلوب کے فنی امر کے تحت احمد ندیم قاسمی کے مشہور افسانے 'سفارش‘ کا تجزیہ کیا گیاہے اور اس حوالے سے ساختیاتی مطالعہ کرتے ہوئے اپنے تحقیقی نتائج کو پیش کیا گیا ہے۔احمد ندیم قاسمی اپنے خاص موضوعات اور بیانیہ انداز کی بنا پر اُردو افسانہ نگاری کی روایت میں ایک اہم مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ یہ تحقیقی مقالہ احمد ندیم قاسمی کے دیگر افسانوں اور اسی طرز پر اُردوفکشن کے بیش قیمت سرمائے کو نئے طریق ہائے پڑھت کے ذریعے پڑھنے کی دعوت دیتا ہے

ڈاکٹر آسمان بیلن اوزجان

انقرہ(ترکی )

طرز بیاں کا ایک فنی رمز irony اور احمدندیم قاسمی کا افسانہ'سفارش ‘  

۱ ۔

۱۱  
تا
۳۴

اس شراکتی تحقیقی مقالے میں بال جبریل کے اُس غیر مطبوعہ کلام کو پیش کیا گیا ہے جو متروک مصرعوں اور اشعار کی صورت میں بیاضِ بالِ جبریل پنجم اور مسودہ بالِ جبریل میں موجود ہے جنھیں عموماً نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، اقبال کی فکر کو سمجھنے اور اُن کے اس مجموعہ کلام کی مجموعی اثر پذیری کے قائم رہنے کے لیے ان محذوف مصرعوں اور اشعار کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔

محمد یوسف اعوان ، ڈاکٹر محمد یوسف خشک  

خیرپور(پاکستان )

بالِ جبریل: غزلوں کے غیر مطبوعہ محذوف مصرعے اور اشعار

۲ ۔

۳۵
تا
۴۶

اس تحقیقی مضمون میں ریاست بہاول پور کے دو شعراء عبدالعزیز جاوید اور ابن الامام شغترکے، جنھوں نے ریاست بہاول پور کے زمانے میں نہ صرف آنکھ کھولی بلکہ اسی عہد میں لکھنا شروع کیا ، کلام کو تنقیدی نقطۂ نگاہ سے پرکھتے ہوئے اس کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موجودہ بہاول پور کے زندہ حوالوں میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے پہلے اُن کے کلام کو دیگر ہم عصروں کی طرح اہم جانتے ہوئے موضوعِ بحث نہیں بنایا گیا ۔مقالے میں اُن دونوں کے درمیان پائی جانے والی مماثلتوں کو موضوع بحث بنایا گیاہے۔

عاصمہ رانی ،

ڈاکٹر شفیق احمد

بہاولپور(پاکستان)

ریاست بہاول پور کے دو شاعر

۳ ۔

۴۷
تا
۷۴

اُردو افسانہ نگاری کی روایت پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ اسے آگے بڑھانے میں ہر علاقے یا زبان سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں کی خدمات شامل ہیں۔ اس تحقیقی مقالے میں بلو چ اہل علم کی اُردو افسانہ نگاری کے حوالے سے ادبی خدمات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور اردو افسانے کی روایت میں ان کے مقام و مرتبے کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔

غلام قاسم مجاہد ملک، ڈاکٹر محمد یوسف خشک

خیرپور(پاکستان )

اُردوافسانہ نگاری میں بلوچ اہل علم کی خدمات

۴ ۔

۷۵
تا
۸۸

اس تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر فخرالحق نوری نے بیسویں صدی میں اردو نظم کے دو متوازی دھاروں' ترقی پسندی‘ اور 'جدیدیت‘ کا جائزہ لیا ہے۔ ان دونوں دھاروں نے بظاہر مخالف اور متضاد ہونے کے باوجود اردو شاعری کو بے حد ثروت مند بنایا۔ ان دونوں دھاروں پر چلتے ہوئے جدید اُردو نظم نے اب کافی سفر طے کر لیا ہے اور مقالہ نگار نے اسی سفر کا جائزہ ارتقائی انداز میں لیا ہے۔

ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری لاہور(پاکستان )

'' ترقی پسندی‘‘ اور ''جدیدیت‘‘ بیسویں صدی کی اردو نظم میں دو متوازی دھارے  

۵ ۔

۸۹
تا
۱۰۲

اس تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی تدوین کو موضوع بناتے ہوئے اس ضمن میں اُن کی خدمات پر ایک تحقیقی نظر ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بطور مؤرخ ، محقق اور نقاد اپناایک منفرد مقام بنایا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے اُردو کے بیش قیمت شعری و نثری سرمائے کی تدوین کے بعد اُسے مبسوط مقدمے کے ساتھ منظرِ عام پر لائے جس میں اُردو کی اولین مثنوی 'قدم راؤ پدم راؤ‘ بھی شامل ہے۔ اس مضمون میں اُردومیں تدوین کی روایت میں جالبی صاحب کے مقام و مرتبہ کا تعین بحیثیت مدون کرنے کی کوشش کی ہے۔

ڈاکٹر روبینہ رفیق،

ڈاکٹرعقیلہ شاہین

بہاولپور(پاکستان)

ڈاکٹر جمیل جالبی بحیثیت مدون

۶ ۔

۱۰۳
تا
۱۱۲

اس تحقیقی مقالے میں اردو صحافت کی پہلی خاتون ایڈیٹر محمدی بیگم زوجہ شمس العلما مولوی ممتاز علی کی حیات اور صحافتی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انھوں نے ہفت روزہ 'تہذیب نسواں‘ کو مستحکم کرنے کے علاوہ ۳۰ سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں ۔ انھوں نے صحافت کی دنیا میں اس وقت قدم رکھا جب خواتین اس حوالے سے سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔یوں اُردو صحافت کی دنیا میں ایک نیاباب وا کرنے کے حوالے سے اُنھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔یہ مضمون اس تناظر میں ان کو اخراج تحسین پیش کرتا ہے۔

ڈاکٹر ریحانہ کوثر

لاہور(پاکستان )

محمدی بیگم زو جہ شمس العلما مولوی ممتاز علی ،اُردو صحافت کی پہلی خاتون ایڈیٹر

۷ ۔

۱۱۳
تا
۱۴۰

اس تحقیقی مقالے میں میرانیس کے مرثیے 'جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے‘ کا تحقیقی جائزہ ارسطو کے مشہور تنقیدی تصورالمیہ کی روشنی میں لیا ہے۔ارسطو نے 'المیہ‘کا تصور اپنی معروف تصنیف 'بوطیقا‘ میں پیش کیا اور کسی بھی عہد کی شاعری کی عظمت کے لیے قائم ہونے والے معیارات میں ارسطو کے اس تصور کو آج بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اُردو شاعری کی تنقیدکی تاریخ جس بھی عہد میں لکھی جائے گی ،ارسطو کے خیالات و افکار کو اُن میں اولین سطح کا درجہ حاصل ہوگا۔ مقالہ نگار نے اس مضمون میں میر انیس ؔ کے مرثیے کی اُس المناک فضا کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کرنے کی سعی کی ہے جو اسے فن کی بلندی کی طرف لے جاتی ہیں۔

رانا غلام یٰسین
راجن پور (پاکستان)

ارسطو کے تصور المیہ کی روشنی میں میر انیس کے ایک مرثیے،'' جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے‘‘ کا تجزیہ  

۸ ۔

۱۴۱
تا
۱۴۸

سرسید احمد خاں نے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو قوت اور بہتری عطا کرنے کے لیے جو کردار ادا کیا ہے اس تحقیقی مضمون میں اس کا جائزہ بالخصوص ادب کے حوالے سے لیا گیا ہے۔ سرسید تحریک کے زیراثر رونما ہونے والے ایسے تغیرات جنھوں نے جدید اردو ادب کو جنم دینے میں معاونت کی اور نہ صرف نئے فکری رجحانات کو فروغ دیا بلکہ اُردو نثر اور شاعری میں بھی نئے طرز کو متعارف کرایا، اس مضمون میں ان کا محاکمہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈاکٹرشمیم طارق

اسلام آباد(پاکستان)

سرسیّد تحریک اور ادبی تغیرات

۹ ۔

۱۴۹
تا
۱۶۴

اس مضمون میں ہیئتی تنقید کی تعریف کا تعین کرتے ہوئے مقالہ نگار نے اس کے اصول و ضوابط ،اس کی حدود ،اس کے اجزاء اور متن کے تنقیدی مطالعے میں اس کے طریق کار اور اہمیت کا جائزہ لیا ہے۔ روسی ہیت پسندی کی تحریک جو کہ ہیئتی تنقید کی پیش رو ہے اور جس نے اپنے بعد آنے والے تمام تنقیدی نظریات بالخصوص ہیئتی تنقید پر اپنے اثرات مرتب کیے، کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ مقالہ نگار نے اُردو کے اُن ناقدین کی خامہ فرسائیوں کا بھی جائزہ لیا ہے جنھوں نے اس تنقیدی رجحان کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف نظری مباحث میں اپنا حصہ ڈالا۔

یٰسین آفاقی

اسلام آباد(پاکستان)

ہیئتی تنقید

۱۰ ۔

۱۶۵
تا
۱۷۴

اس مضمون میں مقالہ نگار نے نہ صرف وہ تاریخی اور سیاسی اسباب بیان کیے ہیں جن کی وجہ سے فیض احمد فیض کو جلا وطنی اختیار کرنا پڑی بلکہ کئی عشروں تک پاکستانی درس گاہوں کے دروازے بھی کلام فیض پر بند رہے اور اب سرکاری سطح پر ان کی پذیرائی جن سوالات اور خدشات کو ابھارتی ہے ان کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ترقی پسند شعراء میں فیض کو ممتاز کرنے والی رومانویت اور کلاسیکی رچاؤ کا بھی بطور خاص ذکر کیا گیا ہے اور کلام فیض کی مثالوں کو نظام استدلال سے منسلک کیاگیا ہے۔

ڈاکٹر انواراحمد

اسلام آباد(پاکستان)

جلاوطن کی واپسی

۱۱ ۔

۱۷۵
تا
۱۸۰

اس تحقیقی مقالہ میں نہ صرف اس امر کا جائزہ لیا گیا ہے کہ پاکستانی جامعات کے شعبہ ہائے اردو کے نصاب میں فیض فہمی کا رواج کس طورپر ہوابلکہ فیض کے حوالے سے مختلف سطحوں پر اُس وقت ہونے والے تحقیقی کا م کا،جب پاکستانی جامعات میں ترقی پسندی، جدید ادب اور فیض کا نام لینا بھی جرم تھا اور فیض ایک معتوب کردار تصور کیے جاتے تھے، پر تجزیہ بھی اس مقالے کا اہم پہلو ہے ۔

ڈاکٹر روبینہ ترین

( پاکستان ) ملتان

پاکستانی جامعات میں مطالعۂ فیض کی روایت

۱۲ ۔

۱۸۱
تا
۲۰۲

اس تحقیقی مقالے میں شعریات فیض ؔ کا جائزہ نوآبادیاتی تناظر میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئے سیاسی اور معاشی حالات جو نئی شعریات کو جنم دیتے ہیں انھوں نے فیض ؔ کے ہاں بھی اپنی اثر پذیری ظاہر کی، فیض ؔ نے تقسیم سے پہلے اوربعد کے ادوار ہی نہیں بلکہ پاکستان میں مختلف آمروں کی حکومتوں کے دوران بھی جن کٹھن حالات میں زندگی کی گزران کا مرحلہ طے کیا انھوں نے یقینی طور پر نظریات سازی میں اہم کردار ادار کیا۔ مقالہ نگار نے شعریاتِ فیض کا جائزہ اسی تناظر میں پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیئر

لاہور(پاکستان )

مقدمہ ء شعریاتِ فیض

۱۳ ۔

۲۰۳
تا
۲۱۶

یہ تحقیقی مقالہ فیض کے کلام میں موجود استعمار دشمن معنویت کے حامل استعاروں سے بحث کرتا ہے۔ فیض کی شاعری میں جو استعمار دشمن رویہ ملتا ہے اس کے اظہار کے لیے فیض ؔ نے نت نئے استعارے تخلیق کیے ، ان استعاروں کی تخلیق کے مضمرات کیا تھے اور ان میں استعماریت اور سامراجی یلغار کے شدتِ اثر کا اظہار کس حد تک اور کس طور پر ملتا ہے ، اس کا محاکمہ اس تحقیقی مضمون میں پیش کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ضیاء الحسن

لاہور(پاکستان )

فیض کے استعاروں کی استعمار دشمن معنویت

۱۴ ۔

۲۱۷
تا
۲۳۲

اس مضمون میں فیض ؔ کے چند ایسے ناقدین مثلاً ڈاکٹر وزیر آغا، فتح محمد ملک اور انیس ناگی، جن کے خیال میں فیض کی شاعری فکر اور خیالات کے انجماد کا شکار ہے،اُن کے اس نظریے کا رد تحقیقی انداز میں کلامِ فیض کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے داخلی اور خارجی شواہد کی روشنی میں پیش کیا گیاہے۔مقالہ نگار کے نزدیک فیض انجماد نہیں بلکہ فکری استقامت اور ارتقاء کی اعلیٰ جمالیاتی مثال ہیں اور مذکورہ ناقدین نے بوجوہ فیض ؔ کو کسی انجماد کی مثال قرار دینے کی کوشش کی ہے، ظاہر ہے اُن کا اشارہ فیض ؔ کی نظریاتی وابستگی کی طرف ہی ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر قاضی عابد

ملتان(پاکستان)

فیض۔انجماد، ارتقا، فکری استقامت؟

۱۵ ۔

۲۳۳
تا
۲۵۲

اس تحقیقی مقالے میں فیض کا مطالعہ نئے نو آبادیاتی نظام کے تناظر میں کیا ہے۔مقالہ نگار کے نزدیک اقبال ؔ کے بعد فیض احمد فیض ؔ ہی وہ شاعر ہیں جنھوں نے نو آبادیاتی نظام کی نہ صرف روح کو سمجھا بلکہ اس کے خلاف فکری ، عملی اور تخلیقی مزاحمت بھی کی۔اس مضمون میں فیض ؔ کی شعری و نثری تحاریر کو سامنے رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نو آبادیاتی نظام کے خلاف فیض کے ردِ عمل کو موضوعِ تحقیق بنایا ہے۔

ڈاکٹر محمد آصف

ملتان(پاکستان)

فیض اور نیا نوآبادیاتی نظام

۱۶ ۔

۲۵۳
تا
۲۶۲

فیض احمد فیض کا مجموعۂ خطوط 'صلیبیں مرے دریچے میں‘ جو نہ صرف زندانی ادب میں خاص اہمیت کا حامل ہے بلکہ فیض کے تخلیقی عمل تک پہنچنے کے لیے بھی اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اس تحقیقی مقالے میں شعریاتِ فیض اور ان کے نفسیاتی محرکات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ان خطوط کا مطالعہ ناگزیر قرار دیتے ہوئے تفہیم فیض کے چند نئے زاویے ان خطوط کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

حماد رسول

ملتان(پاکستان)

صلیبیں میرے دریچے میں - تفہیم فیض کے چند زاویے

۱۷ ۔

۲۶۳

فیض احمد فیض نے نہ صرف تخلیقی بلکہ سیاسی سطح پر بھی ایک مخصوص فکر کی ترویج میں نہایت فعال کردار ادا کیا۔سیاست کے خارزار میں علمی سطح پر سرگرم رہنے کا امتیاز اُردو کے چند ہی مشاہیر کو حاصل ہے ۔ اس تحقیقی مقالے میں فیض ؔ کی عملی سیاست کا انجمن ترقی پسند مصنفین ، کمیونسٹ پارٹی اور ٹریڈ یونینز کے حوالے سے ایک تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فیض ؔ کی زندگی میں نہایت اثر پذیری کے حامل پنڈی سازش کیس کا بھی تحقیقی انداز میں مطالعہ کرتے ہوئے چند نتائج پیش کیے گئے ہیں ۔

خاور نوازش
ملتان (پاکستان)

 

فیض ؔ کی عملی سیاست ایک مطالعہ

۱۸ ۔