تحقیق میں قومی زبان کا لسانی استحقاق

اﷲ کے نام سے جس نے اپنے نبی ٔ اُمّی کو افصح العرب بنایا اور آپؐ کوجوامع الکلم بھی عطا فرمائے۔
ادارہ فروغ قومی زبان سے جب ایک تحقیقی جریدہ کے اجراء کا فیصلہ ہوا تو سب سے پہلے یہ طے کیا گیا کہ محکمہ قومی زبان کے مقاصد کے حصول کے لیے مجلہ میں عملی زندگی سے متعلق موضوعات پر لسانی تحقیق سامنے لائی جائے گی۔اس کے پس منظر میں یہ حقیقت کارفرما تھی کہ قبل ازیں ہمارے ہاں جن علمی شعبہ جات میں تحقیقی مقالات اردو میں لکھنے کا رجحان رہا ہے، وہ زیادہ تر لسانیات اور فنون یعنی آرٹس سے متعلق ہیں۔ اس وقت ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے شعبہ ہائے اردو کے جرائد میں صرف ادبی تحقیقی مقالات شائع کیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس محکمہ قومی زبان کے وسیع تر مقاصد کے حصول ؛ میدان کار میں وسعت لانے اور تکرار کار سے بچنے کی خاطر مجلہ میں ادبی کے بجائے جُملہ علوم و فنون کے طبع زاد مقالات شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ قومی زبان کے ہمہ جہت لسانی مسائل کو فرداً فرداً تحقیق کی بنیاد پر مستقلاً حل کیاجاسکے۔ مجلہ کے تشکیلی مزاج کا منطقی تقاضا بھی تھا کہ ہم تحقیق میں قوم کے لسانی حقوق کی جانب محققین کی توجہ دلائیں۔مجلہ کو 'علم و فن' کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہی تھی۔
آپ کا یہ بھی مشاہدہ ہوگا کہ ہمارے ہاں جامعات اور پوسٹ گریجویٹ کالجوں میں آرٹس کے مضامین کے علاوہ پیشہ وارانہ تحقیقی اداروں تک میں بھی تحقیقی مقالات حتیٰ کہ تحقیقی رپورٹیں بدیسی زبان، انگریزی، میں لکھنے کا رجحان محض اس لیے پایا جاتا ہے کہ ان کے معیاری ہونے کی سند مل جائے۔ گویا معیاری تحقیق انگریزی کا ہی دوسرا نام ہے۔ اس کے باعث انگریزی الفاظ اور اصطلاحات ہمارے معاشرے میں تیزی سے فروغ پارہی ہیں۔ اردو متن میں انگریزی ہندسوں کی جگہ اردو ہندسے بدلنے کی تو ہم نے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ یوں ہمارے نظام تحقیق میں تحقیق کی زبان بھی انگریزی بنادی گئی ہے۔ عروج اسلام میں تحقیق کے اعلیٰ ترین معیارات جیسے تابناک ماضی کے باوجود اب ہماری تسوید مقالہ بھی جدید بین الاقوامی تحقیقی اسالیب اور تکنیکی مہارتوں سے عاری ہوتی ہے۔ حوالہ جات کے اندراج کا بھی کوئی ثقہ طریقہ رائج ہے نہ معیار مقرر ہے۔ البتہ کچھ عرصے سے معدودے چند محققین کے ہاں اس طرز تحقیق میں تبدیلی کی تڑپ ضرور پائی گئی ۔ چنانچہ علم و فن میں جدید خطوط پر اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق جُملہ علوم و فنون کے تحقیقی مقالات کی اردو میں اشاعت کا ایک نیا تجربہ کیا گیا ہے۔
کیا واقعی یہ ایک حقیقت ہے یا ہماری علمی کم کوشی کہ اردو جیسی توانا زبان کے ہوتے ہوئے ہم ایک بدیسی زبان پر اس قدر انحصار کرنے لگے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فطری طور پر کسی خطے یا ملک میں تحقیق کی زبان بننے کا حق کس زبان کو حاصل ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کیا طریق کار اختیار کرتے ہیں؟ ہمیںاس کے لیے اپنے جیسے لسانی کم مائیگی کا شکار ممالک کے بجائے دنیا کے ترقی یافتہ اور لسانی طور پر طاقت ور ممالک کے قومی رویوّں اور پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔
مشاہدہ یہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ اور بالغ لسانی شعور رکھنے والے ممالک میں محققین اپنے تحقیقی مقالات تو اپنی قومی زبان میں ہی لکھتے ہیں۔ البتہ بین الاقوامی تقاضوں کی خاطر مقالے کا خلاصہ انگریزی میں دے دیا جاتا ہے۔ یوں مقالے کے بین الاقوامی تقاضے پورے ہوجاتے اور اصل تحقیق اپنی زبان میں ہونے سے اپنی زبان کا تحفظ بھی برقرار رہتا ہے۔ اندریں صورت بیرونی ممالک کے ماہرین متعلقہ محققین سے رابطہ کرتے یا مقالے کی زبان سے آگاہی یا مترجم کے ذریعے استفادہ کی راہ نکالتے ہیں۔یوں تحقیقی ضروریات کے پیش نظر اصل محقق کے ساتھ اس کی قومی زبان کی بھی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
آئیے اس مسئلے کو ایک اور نہایت اہم پہلو سے دیکھتے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم آئے روز رونا روتے رہتے ہیں کہ ہماری جامعات تحقیق میں عالمی معیار کی فہرست میں کہیں جگہ نہیں بنا پاتیں۔ بادی النظر میں اس کی تین بڑی وجوہ ہیں اور تینوں میں زبان کا کردار کلیدی ہے۔ اول، یہ کہ ہم تحقیق اپنی زبان میںنہیںکرتے؛ دوم، ہم تحقیق ایک غیرملکی زبان میں کرتے ہیں۔ ان دونوں وجوہ کے باعث جہاں ہم اپنی زبان کے لسانی حقوق و فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں، وہیں غیرزبان میں تحقیق کرکے ہم اس کے تحقیقی و لسانی، ہردو، تقاضے بھی پورا نہیں کرپاتے۔ نتیجتاً ہماری تحقیق سطحی، غیرمعیاری اور ناقابل قبول رہتی ہے۔ گویا ہم گراں قدر سرمایہ؛ خداداد انسانی صلاحیتوں اور انمول وقت، ہر تین، کے ناقابل تلافی زیاں کا باعث بنتے ہیں۔ تیسری وجہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ہمارے ہاں ہونے والا نکاس ذہانت ہے۔ اگر اب کسی تارک وطن کی تحقیق یا ایجاد بین الاقوامی سطح پر درجۂ تسلیم پاتی ہے تو وہ نژادی وطن کی نہیں نئے وطن کا اثاثہ قرار پاتی ہے۔ اس سے وہاں پاکستانی نژاد ماہر اپنے تئیں احساس کمتری اور یہاں اہل وطن کف افسوس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
ہمارے اس طرزعمل کے جو علمی و لسانی نقصانات قوم کو آج تک برداشت کرنا پڑے ہیں، اُن میں اپنی زبان پر عدم اعتماد؛ قومی زبان کے فروغ و ارتقاء میں رکاوٹ؛ مجموعی ملکی ذہانت میں گراوٹ؛ عدم تحفظ قومی زبان؛ املأ و رسم الخط میں شکست و ریخت؛ ارفع خیالات میں پراگندگی؛ زبان اور اصطلاحات میں اجنبیت ؛ لسانی فصاحت و بلاغت میں تنزل؛ زبان کی جامعیت میں انحطاط؛ غیرزبانوں سے اخذ وماخوذ میں رکاوٹ اور بالآخر زبان کی بین الاقوا میت کی راہیں مسدود ہونے جیسے کئی ایک دیگر اُمور بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف ایسا ہم سے ان عالمی حالات میں ہورہا ہے جب بیرونی زبانوں کا طوفانی بہاؤ ترقی پذیر اور غیرترقی یافتہ اقوام کی طرف نہایت تباہ کُن ہے۔ اس لسانی بہاؤ کی وجہ سے ہماری قومی اور دیگر ملکی زبانوں کا فطری لسانی نظام عدم توازن کا شکار نظر آتا ہے۔کیا کوئی قوم اس قدر نقصانات محض اپنی لسانی عدم توجہی کے باعث برداشت کرسکتی ہے؟ آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا۔
اس فرض کی ادائیگی ملکی جامعات اور ملک کے تمام پیشہ وارانہ تعلیمی،تحقیقی و تربیتی اداروں میں ہمارے ذی وقار محققین اپنے تحقیقی مقالات اپنی قومی زبان یا حسب ضرورت اپنی کسی دیگر ملکی زبان میں لکھ کر ہی بجالاسکتے ہیں ۔ہم بین الاقوامی ضروریات کے لیے مقالے کی ابتداء میں صرف خلاصہ انگریزی زبان میں دے کر اپنے مقاصدبآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔
ہم تحقیق کے میدان میں ایسا کرنے میں جب بھی کامیاب ہوں گے تو بلاشبہ قوموں کی علمی ترقی کے ہم قدم ٹھہرائے جائیں گے اور مروجہ طریق کار کے مطابق عالمی درجہ بندی کیا، دنیا میں علم و حکمت کی ہر منزل ہمارے قدموں میں ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم اخلاص، لگن اور محنت سے قومی زبان کے قومی تقاضوں کو پورا کرنے والی قوم بن جائیں۔ ہمارے محققین اور جامعات کے نام بین الاقوامی درجہ بندی میں ازخود آجائیں گے۔ کاش وہ وقت جلد آئے۔
محمداسلام نشتر
مدیر