اشاریہ اُردو جرائد
اعلیٰ تعلیم کمیشن کے تسلیم شدہ اردو جرائد کا اشاریہ

الماس(اُردو): ۱۳؛ ۲۰۱۲ء ؛ شعبہ اُردو؛ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی، خیر پورسندھ

آغاز:۱۹۹۹ئ؛ اوّلین/موجودہ مدیر: ڈاکٹر یوسف خشک کل شمارہ جات:۱۳

۱
تا
۹
فیض کی شاعری معانی کی بلاغت اورجامعیت کے ساتھ ترسیل کرتی ہے۔فیض دوسرے شاعروں کے الفاظ مہارت،انفرادیت اورموزونیت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔انھوں نے روایتی رموزو علائم کونئے معانی دیے جس سے ان کی معنویت فزوں تر ہوئی ۔یہ مقالہ کلام فیض میں مستعمل علامتی الفاظ وتراکیب کوزیربحث لاتاہے۔
ڈاکٹررشیدامجد
فیض کاعلامتی نظام
۱۔
۱۰
تا
۱۷
۱۱/۹ واقعہ نے جہاں''نئی عالمی ترتیب''کے مفروضے کوچیلنج کیاوہاں بڑی طاقتوں کوقدرتی وسائل اور سمندری راستوں پر قبضہ گیری کاموقع فراہم کیا۔فیض احمدفیض نے بحیثیت شاعروادیب ہمیشہ محروم طبقے کے لیے بلاامتیازرنگ ونسل اور مذہب آوازبلندکی۔یہ مقالہ، فیض احمد فیض کی تخلیقات سے ایسی مثالیں پیش کرتاہے جوحالات حاضرہ کی نئی معنویت سے ترجمانی کرتے ہیں۔
پروفیسرڈاکٹر یوسف خشک
خیرپور،پاکستان
۱۱۔۹کے بعد کی دنیااورکلام فیضؔ
۲۔
۱۸
تا
۴۳
''دریائے عشق''میرتقی میر(۱۷۲۲ئ۔۱۸۱۰ئ)کی ایک مشہوررومانی مثنوی ہے جوابتداًفارسی نثرمیں لکھی گئی تھی ۔ امتیازعلی عرشی نے ۱۹۶۲ء میں ''دریائے عشق''(فارسی نثر)کے مکمل متن کورضالائبریری رام پورکے ایک مسودہ سے لے کر شائع کیا۔یہ مقالہ ''دریائے عشق''کی ادبی،ثقافتی اورتاریخی اہمیت کواجاگرکرتاہے۔
ڈاکٹرشہاب الدین ثاقبؔ
علی گڑھ، انڈیا
نثردریائے عشق: ایک جائزہ
۳۔
۴۴
تا
۵۸
اپنے ہم عصروں اورمعاشرہ کے بارے میں یگانہ کے طنزیہ خیالات نے انھیںادبی حلقوں میں خاصانامقبول بنادیاتھا۔انہوں نے معاشرے کے کچھ دقیانوسی رواجوں کوچیلنج کیاجس کے سبب انھیں عمربھراس کامنفی ردعمل سہناپڑا ۔یہ مقالہ، صحتِ ریکارڈ کے ساتھ اس کہانی کوبیان کرتاہے جب انہیںان کی کچھ متنازعہ رباعیات کے سبب گوشہ نشیںہوناپڑااورپھرمسلمان ہجوم کے ہاتھوں بے توقیربھی ہوناپڑاجس سے ا نھیں شدیدذہنی اذیت سے دوچارہوناپڑا۔
ڈاکٹرنجیب جمال
اسلام آباد
مشق ستم کانشانہ یگانہ
۴۔
۵۹
تا
۷۱
جوش ملیح آبادی کے تصورِ حسن اور روایتی تصورِحسن میں تفاوت ہے۔اوران کایہ منفرداختلاف ان کی غزل میں مسحورکن اندازمیں جھلکتا ہے ۔ان کی غزل ان کے ذاتی تجربے کی حامل ہے۔اگرچہ انھوں نے اردوغزل پرتنقیدآرا ئی کی تاہم ان کی غزلیات بھی کلاسیکی غزل کاپرتولیے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹرمنصوراحمد قریشی
ملتان،پاکستان
جوش کی غزل
۵۔
۷۲
تا
۷۸
فیض احمدفیض ؔکے مجموعہ کلام''سرِوادی سینا''کے آخری حصہ میں رسول حمزہ کی نونظموں کااردوترجمہ پیش کیاگیاہے جہاں کیپشن میں ''داغستان کے ملک الشعراء رسول حمزہ کے افکار''کی توضیح نوشتہ ہے۔ان مترجمہ نظموں میں سات مترجمہ نظمیں ہوبہووہی ہیں جوقبل ازیں ایک تصنیف''منظوم تراجم۔ظ انصاری''میں مطبوعہ ہیں ۔یہ کتاب سابق سوویت یونین کے عہد۱۹۷۴ء میں ''دارالاشاعت ،ماسکو''سے طبع ہوئی تھی۔واقعتاً اب یہ ایک معما ہے،جسے حل ہونا چاہیے۔
حیدرقریشی
جرمنی
رسول حمزہ کی نظموں کے تراجم:اصل ترجمہ نگارکون؟
۶۔
۷۹
تا
۸۹
بیسویں صدی میں اقلیم سخن کے افق پرراشد ایک ایسانام ہے جس کی شاعرانہ ہنرکاری اورکردارنگاری دنیائے شاعری میں ایک دائمی رویے کے طورپرسامنے آئی۔ان کی شاعری کردارنگاری کے اختصاصی پہلوسے مزین ہے جس کے توسط سے وہ دلوں میں اثرانگیزنقش چھوڑتے ہیں۔وہ کردارنگاری کے ذریعے محروم طبقے کے لیے اولین شعرکہنے والوں میں سے ہیں۔
ڈاکٹرسعدیہ طاہر
اسلام آباد ،پاکستان
ن م راشد کی نظموں میں افسانوی آہنگ
۷۔
۹۰
تا
۹۷
اس مقالہ میں ن م راشدپرسلیم احمد کی علمی کاوشوں کاجائزہ پیش کیاگیا۔یہ مابعدالانتقادیات ،نہ صرف سلیم احمدکی انتقادی سوچ اورمعیارکوواضح کرتاہے بلکہ ن م راشد کی شعری تخلیقیت اوراردوادب میں ان کی خدمات کوبھی اجاگرکرتاہے۔
طارق حبیب
سرگودھا،پاکستان
راشدشناسی میں سلیم احمدکامقام
۸۔
۹۸
تا
۱۰۵
''تمناکے تار''ان کی سائنسی طرزفکر کی ایک خوب صورت نظم ہے جس میں سائنسی شعوراورشعری جمالیات کوسلیقہ سے ہم آہنگ کیاگیا ہے ۔مریخ اورزمین زادگان کے مابین لڑائی کاتصوراگرچہ نیانہیں تاہم جس اندازمیں راشدنے ان دونوں دنیاؤں کے باسیوں کی منافقت کوبیان کیاوہ قابل تحسین اورمتاثرکن ہے۔یہ مقالہ،نظم''تمناکے تار''میں برتے گئے سائنسی طرزفکراورشاعرکی فنکارانہ شان کامطالعہ پیش کرتاہے۔
سعیداحمد
فیصل آباد، پاکستان
''تمناکے تار''۔ایک مطالعہ
۹۔
۱۰۶
تا
۱۱۷
یہ مقالہ گیت نگاری ،غنائی شاعری کی تاریخ اورفن پرروشنی ڈالتاہے نیزیہ بھی واضح کرتاہے کہ جدیداردوشاعری میں غنائی شاعری کی کیااہمیت ہے ۔یہ اس تلازمے کوحیطہ تحریرمیں لاتاہے جسے جدیدگیت نگاروں نے گیتوں کے لیے استعمال کیا۔ فلمی گیت نگاری کے حوالے سے جونام زیربحث آئے،ان میںشکیل بدایونی، ساحرلدھیانوی،منیرنیازی،قتیل شفائی اورتنویرنقوی شامل ہیں۔
ڈاکٹرنفیس اقبال
لاہور،پاکستان
جدیداُردوشاعری میں گیت نگاری
۱۰۔
۱۱۸
تا
۱۲۸
عبدالرحمان آزادؔ۔(۱۹۰۶ئ۔۱۹۶۹ئ) ریاست بہاول پورکے ایک ہردل عزیزاورکلاسیکی روایت پسند شاعرتھے۔ انہوں نے اپنی شاعرانہ زندگی کاآغاز۱۹۲۸ء میں کیا۔بعدہ ٗ۱۹۴۲ء میں انہیں ریاست بہاول پورکے چیف جسٹس سرعبدالقادرنے ''امیرالکلام''کے خطاب سے نوازا۔آزادنے بہت سے مقامی شعرا کی سرپرستی کی۔عبدالرحمان آزاداگرچہ کلاسیکی روایت کے شاعرتھے تاہم انہوں نے اپنے کلام میں جدیدافکارکوبھی سمویا۔
ڈاکٹرنذرخلیق
راولپنڈی،
پاکستان
عبدالرحمان آزادؔ۔کلاسیکی روایت کاجدیدشاعر
۱۱۔
۱۲۹
تا
۱۳۸
''بانگ دُھل'' مجموعہ کلام میں مزاح پیداکرنے کے لیے جس اسلوب کو توقیر کے ساتھ استعمال کیاگیا،وہ''پیروڈی'' ہے ۔ اس شعری مجموعے میں امام دین گجراتی ایک خوب صورت پیروڈی نگارکی حیثیت سے جلوہ گرہوتے ہیں۔یہ مقالہ امام دین گجراتی کے فن پیروڈی نگاری کو بالتفصیل بیان کرتا ہے نیرپیروڈی اوراس کے متعلقات کوبھی زیربحث لاتاہے۔
ڈاکٹرمزمل حسین
لیہ،پاکستان
امام دین گجراتی کی پیروڈی نگاری۔ ایک مطالعہ
۱۲۔
۱۳۹
تا
۱۴۸
رائے زادہ دونی چندعرف بالی بارہویں صدی ہجری کے ایک فارسی گوشاعراورمؤرخ تھے۔ خارجی ذرائع سے ان کے بارے میں معلومات مفقودہیں تاہم'' کیگوہرنامہ'' میںان کے اپنے بیان کے مطابق وہ میگھراج کے فرزند تھے ۔مقالہ میںان کی غیر مطبوعہ مثنویوں میں سے ایک مثنوی ''سسی و پنوں ''کوایڈٹ کرتے ہوئے پیش کیاگیا جو دونی چندکی فارسی دانی اورشاعری میں استادانہ مہارت کی عکاس ہے۔
ڈاکٹرمحمدناصر
وڈاکٹرمحمدصابر
لاہور،پاکستان
رائے زادہ دونی کی غیرمطبوعہ مثنوی سسی وپنوں
۱۳۔
۱۴۹
تا
۱۶۶
فارسی شاعری ایک طویل اورپیچیدہ سفرسے گزری ہے۔اس میں ہمہ قسم تلمیحات خواہ ایرانی ہوں یا سامی، موجودملتی ہیں۔لسانی زاویۂ نظرسے فارسی شاعری میں تلمیحات کااہم کردارہے۔ہرعہدمیں ان تلمیحات میں تبدیلیاں وقوع پذیرہوتی رہیں۔ یہ مقالہ فارسی شاعری میں تلمیحات کے کردارکوا جاگر کرتاہے۔
ڈاکٹروفایزدان منش
تہران،ایران
فارسی شاعری میں تلمیحات کاسفر۔کلاسیکی دورسے معاصرتک
۱۴۔
۱۶۷
تا
۱۷۴
یہ مقالہ سندھ کے معروف شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی شاعری کے بارے میں ہے جس میں ان کی شاعری کے مختلف موضوعات اوران کے اسلوب کااحاطہ کیاگیا۔اس میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کے متنوع پہلوؤں کو اجاگرکیاگیاہے۔
ڈاکٹرروبینہ ترین
ملتان
شاہ لطیفؒ کی شعری کائنات
۱۵۔
۱۷۵
تا
۱۸۶
مختلف ادوارمیں سچل سرمستؒ کی سرائیکی شاعری کومرتب کیاجاتارہا لیکن ان مطبوعہ تصانیف میں متنی الجھنوں کے سبب سچل ؒکے کلام کادرست ابلاغ نہ ہوسکا۔یہ مقالہ سچل سرمستؒ کے مطبوعہ سرائیکی کلام کی تصانیف کاتقابلی جائزہ پیش کرتاہے۔
نسیم اختر
ملتان، پاکستان
سچلؔ سرمست ؒکا سرائیکی کلام: مطبوعہ نسخوں کاتقابلی جائزہ
۱۶۔
۱۸۷
تا
۱۹۳
تشبیہ،شاعری کومعنویت اور شفافیت کے اعتبار سے ثروت مندبناتی ہے۔ شاعرسچل سرمستؒکی شاعری جوچارزبانوں :سندھی،سرائیکی،اردواورفارسی میں ہے،یہ تحقیقی مقالہ واضح کرتاہے کہ کس طرح سچل سرمستؒ نے اپنی شاعری میں رنگ بھرنے کے لیے تشبیہات کا استعمال کیا۔تشبیہات کی مددسے انہوں نے اللہ کی مخلوق سے محبت ،باہمی افہام و تفہیم اور حقیقی محبت کوواضح کیاہے۔
مہرخادم
خیرپور،پاکستان
سچل سرمستؒ کی شاعری میں تشبیہات
۱۷۔
۱۹۴
تا
۲۰۲
سرور نازؔ زندگی کے بارے میںاپنے قائم کردہ خیالات سے انتہائی مخلص تھے اوراس ضمن میں کسی سے مصالحت پرآمادہ نہ ہوتے تھے۔ان کی شاعری زندگی کے بارے ان کے تصورات کی آئینہ دارہے۔وہ پاکستان کے غریب لوگوں اورانسانیت کے ترجمان شاعرہیں۔
عاصمہ رانی
بہاول پور پاکستان
ریاست بہاول پورکابھولابسراشاعر
۔سرورناز
۱۸۔
۲۰۳
تا
۲۲۲
ماہرین السنہ نے سرائیکی کو پاکستان کی قدیم زبانوں میں شمارکیااور سنسکرت سے جوڑتے ہوئے ،اسے دراوڑی زبان سے ملایا۔بھکردریائے سندھ کے مشرقی کنارے پرآبادایک پرامن علاقہ ہے جہاں کی تہذیب وثقافت خالصتاً سرائیکی ہے۔ بھکر کاعلاقہ ،جہاں حملہ آوروں کی گزرگاہ رہاوہاںیہ سرائیکی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بھی اہم رہاہے۔اس علاقے کے شعراء نے ہردورمیں سرائیکی شاعری کے متنوع اور خوب صورت رنگ بکھیرے۔یہی اس مقالے کا موضوع ہے۔
ڈاکٹرمحمداشرف کمال
بھکر،پاکستان
سرائیکی زبان اوربکھرکے سرائیکی شعرا
۱۹۔
۲۲۳
تا
۲۳۴
مواداورہئیت کے مابین شستگی کا فقدان مختلف سطحوں اورمتنوع زاویوں پر وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے۔ ''ہئیت''اس اصطلاح کوکہتے ہیں جس میں کسی ادبی کاوش کے اسلوب،فنی طریقے سے ساخت کو بیان کیا جاتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس''مواد'' اس کاوش کے جوہرکی دلالت کہتے ہیں۔مقالہ یہ وضاحت کرتاہے کہ یہ دونوں اصطلاحات غیرمنقسم ہیں تاہم ان کی الگ الگ جانچ اورتجزیہ کیاجاسکتاہے۔اس طرح دونوں اصطلاحات باہم مربوط ہیں۔
یٰسین آفاقی
اسلام آباد (پاکستان)
مواداورہئیت
۲۰۔
۲۳۵
تا
۲۴۸
''لغات ِ سعیدی''جوباراول ۱۹۲۹ء میں کانپورسے شائع ہوا،فارسی،عربی اورترکی الفاظ کااردومیں توضیح پیش کرتا ہے۔یہ کسی قدیم فارسی لغات پرمبنی ہونے کے موجب ،فارسی لغت کے حوالے سے اہم تصنیف ہے جس میں تلمیحات،استعارات، محاورات اوراصطلاحات ملتی ہیں جن کااردومیں استعمال ہوتاہے۔ یہ مقالہ لغات کے ضمن میں قاری کو اس کمی سے متعلق ضروری معلومات فراہم کرتاہے۔
ڈاکٹررؤف پاریکھ
کراچی،پاکستان)
''لغاتِ سعیدی''اوراس کی چندتلمیحات واستعارات
۲۱۱۔
۲۴۹
تا
۲۶۰
تحقیق کے ضمن میں حواشی،تعلیقات اورتخریج ناگزیرعنصر ہیں۔یہ مقالہ ان کی اہمیت کوواضح کرتاہے۔
ڈاکٹرفداحسین انصاری
کراچی،پاکستان
حواشی، تعلیقات وتخریج
۲۲۔
۲۶۱
تا
۲۸۴
پاکستانی ادب وتنقیدمیں قومی شعور قراردادپاکستان کے پس پردہ دوقومی نظریہ ہے۔دوقومی نظریہ کے معنی:دوالگ مذاہب،دوتہذیبیں،دوثقافتیں اور ان کازبان وادب ہے۔یہ قطعی واضح ہے کہ تقسیم برصغیر کے بعدپاکستانی اہل قلم نے بالارادہ اپنے رسومات ورواجات کی پیروی کی۔یہ مقالہ اہم پاکستانی ناقدین کی تحریروں میں''قومی شعور'' کا مطالعہ پیش کرتاہے۔
ڈاکٹرروبینہ شہناز
اسلام آباد (پاکستان)
پاکستانی ادب و تنقید میں قومی شعور
(اہم ناقدین کے نظریات کا مطالعہ)
۲۳۔
۲۸۵
تا
۲۹۷
مقالہ برصغیر کے مختلف اداروں کے شعبہ جات اردومیں پڑھائے جانے والے مضمون''تدریس تنقید''پربحث کرتاہے۔اس ضمن میں مقالہ میں متعدد مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے۔یہ مسائل: تنقیدکی تعریف،تاریخ اورنظریات سے متعلق ہیں۔ آخر میں چندتجاویزبھی پیش کی گئی ہیں۔
ڈاکٹرقاضی عابد
ملتان(پاکستان)
تدریسِ تنقید ۔ نیاتناظر
۲۴۔
۲۹۸
تا
۳۲۴
عین الحق فریدکوٹی کاخیال ہے کہ اردوزبان کے آغازکاتعلق عہدسنسکرت سے قبل کی السنہ دراوڑی اورمنڈازبانوں سے ہے۔ان زبانوں کے بولنے والے مقامی لوگ،قدیم ہندوستان کے مختلف علاقوں بالخصوص شمال مشرقی اورمرکزی ہندوستان میں منتشرحالت میں بودوباش رکھتے تھے۔عین الحق فریدکوٹی نے اردوزبان کی جڑوں کو''ہڑپائی تہذیب''میں تلاش کیااوردعویٰ کیاکہ اردوایک دراوڑی زبان ہے۔
ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری
پشاور(پاکستان)
عین الحق فریدکوٹی کے لسانی تصورات کاتحقیقی وتنقیدی جائزہ
۲۵۔
۳۲۵
تا
۳۵۴
اس مقالہ میں برطانوی استعماری تعلیمی پالیسی کے تجزیہ کی سعی کی گئی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ استعماری حکمران اگرچہ ایک نیانظام تعلیم مروج کرنے میں کامیاب رہے۔ اس نے برصغیرمیں ان کے حسبِ منشاایک نیاتعلیم یافتہ طبقہ پیداکیالیکن اسی طبقہ نے سامراجی بالادستی کوچیلنج بھی کیا۔ استعماری حکمرانوں کی نئی تعلیمی پالیسی ہندوستانی زبانوںاورادبیات پردور رس اثرات کی حامل تھی۔ تاہم جدید ادب نے برصغیر کے اُن لوگوںکے خوابوں اورتصورات کی تصویرکشی بھی کی جو ان سے مختلف تھے بلکہ برطانوی حکومت کے استعماری منصوبوں کے خلاف برسر پیکار بھی تھے۔
ڈاکٹرعلمدارحسین بخاری
ملتان (پاکستان)
جدیدادب کاتعلیمی وعلمی سیاق وسباق
۲۶۔
۳۵۵
تا
۳۷۳
مقالہ میں خانقاہی ادب کی سماجی اہمیت اور سماجیات کی تعریفیں پیش کی گئی ہیں۔وہ عناصرجوانسانی کردارکی تعمیراورمعاشرتی ترقی کے لیے ناگزیرہوتے ہیں،ان کوبحوالہ خانقاہی ادب بیان کیاگیاہے۔اس میں جن نظائرکوپیش کیاگیا،ان سے مترشح ہوتاہے کہ خانقاہی ادب بمثل عمومی ادب،فردکی تعمیر، کرداراورمعاشرہ کی اجتماعی سماجی ترقی کے لیے یکساں طورپرمعاون ہے۔
ذوالفقارعلی دانش
کراچی،پاکستان
خانقاہی ادب کی سماجی اہمیت
۲۷۔
۳۷۴
تا
۳۹۰
منشی محمدالدین فوقؔ،فروری۱۸۷۷ء میں سیالکوٹ میں پیداہوئے۔انھوں نے اپنی عملی زندگی کاآغاز ۱۸۹۷ء میں''پیسہ اخبار''سے کیا۔اقبالؒ سے ان کی شناسائی ،ان کے نام اقبال کے مکاتیب ،سے عیاں ہے۔یہ مقالہ ان مکاتیب کی روشنی میںان کے باہمی تعلقات کاتجزیہ پیش کرتا ہے۔
ڈاکٹرمحمدسفیان
مانسہرہ،پاکستان
اقبال ؔبنام منشی محمدالدین فوقؔ (تحقیقی وتوضیحی مطالعہ)
۲۸۔
۳۹۱
تا
۴۰۳
سلطنت عثمانیہ میں پہلی عالمی جنگ کے موقع پر ہندوستانی مسلمانوں اوردیگر ہندوستانی آزادی پسندوں کی ایک بڑی تعداد استنبول وارد ہوئی۔ استنبول میں کچھ ہندوستانی مسلمانوں نے اردو اخبارات شائع کیے اورنصب العینِ آزادی کے لیے تنظیمیں قائم کیں۔ عبدالرزاق ملیح آبادی انہی ہندوستانی آزادی پسندوں میں سے ایک تھے جو پہلی عالمی جنگ کے موقع پراستنبول آئے اورکوشش کی کہ وہ عثمانی فوج کاحصہ بنیں۔یہ مقالہ استنبول میں ان کے انہی ایام کی سرگرمیوں کااحاطہ کرتاہے۔
ڈاکٹرخلیل طوق أر
استنبول ،ترکی
آزادی کی تلاش میں ایک ہندوستانی قوم پرست عبدالرزاق ملیح آبادی استنبول میں
۲۹۔
۴۰۴
تا
۴۱۴
اُردوکے بنگالی ترجمہ نگاروںکودوگروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ (۱)وہ ترجمہ نگار جنھوں نے بنگلہ دیش کے قومی شاعرقاضی نذرالاسلام کی نگارشات کاترجمہ کیا۔(۲)وہ ترجمہ نگارجنھوں نے بنگلہ دیش کے دیگرشعراء اورادباء کی تصنیفات کااردوترجمہ کیا۔وہ اہم ترجمہ نگارجنھوں نے بنگالی ادباء وشعراء کی نگارشات کااردو ترجمہ کیا،درج ذیل ہیں:
غلام سرور، مرزاظفرعلی،یونس احمر،احسن احمداشک ،راحت عذرابیگم ، سعدمنیر،رفیع احمدفدائی، عبدالرحمٰن بے خود،سلیم اللہ فہمی۔بنگلہ اُردو ترجمہ نگاری مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔
ڈاکٹرمحمدمحمود
الاسلام
ڈھاکا،بنگلہ دیش
بنگلاسے اردوتراجم: ایک تجزیہ
۳۰۔
۴۱۵
تا
۴۲۷
مرزاقلیچ بیگ(۱۸۵۳ئ۔۱۹۲۹ئ)جدیدسندھی زبان وادب کی تاریخ نگاری کے ایک نابغہ تھے۔انھوں نے سندھی نثرکونیاادبی رجحان اورنئی ذہنی ساخت عطاکی۔وہ ناول نگار، ڈراما نگار،مضمون نگاراورسندھی ادبی ذہانت میں نہ جانے کیاکیاکچھ تھے۔انھوں نے انگریزی نثرکا ایک وقیع اثاثہ سندھی میں ترجمہ کیا۔ تقریباً ۴۵۷ کتب لکھیں جن میں زیادہ ترسندھی ہیں۔
ڈاکٹرشاہداقبال کامران
اسلام آباد، پاکستان
جدیدسندھ کی ذہنی تشکیل میں مرزاقلیچ بیگ کاحصہ
۳۱۔
۴۲۸
تا
۴۴۲
سندھ میں اردوشاعری واقعاتی تسلسل،روایتی اورثقافتی لحاظ سے بھی ہم آہنگ رہی ہے۔اس طرح یہ غیرممکن ہے کہ بغیر وسیع مطالعہ ،سندھ میں اردوشاعری کے دائرہ کارکی درست تناظر میں تفہیم کی جاسکے ۔ سندھ میں اردوشاعری کے دورانیے کوپانچ ادوار میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ جس کاعہداول:۱۷۰۰ء ۔۱۷۴۷ئ؛ عہددوم: ۱۷۴۷ئ۔۱۸۳۴ئ؛ عہدسوم: ۱۸۳۴ئ۔۱۹۰۰ئ؛ عہدچہارم: ۱۹۰۱ئ۔۱۹۴۸ء اورعہدپنجم:آزادی پاکستان اورما بعدکاعہدہے۔اس مقالہ سے یہ آشکارہوتاہے کہ سندھ میں اردوشاعری اپنی کامل فنی اورعلمی خصوصیات کے ساتھ،جملہ مسائل حیات کی بڑے شدومدکے ساتھ عکس بندی اورتوضیح کرتی رہی ہے۔
فرزانہ بیگم
کراچی،پاکستان
سندھ میں اردوشاعری کا تاریخی پس منظر
۳۲۔
۴۴۳
تا
۴۸۹
یہ مقالہ بلوچ قوم کیعہدقدیم سے عصرحاضرتک اردو زبان وادب کی طرف پیش رفت کااجمالی جائزہ پیش کرتا ہے جو ایران سے ہوتے ہوئے برصغیرتک پہنچے۔ بلوچ آبادی جب مکران اور سبی بلوچستان کے علاقوں میں پہنچی تورفتہ رفتہ اردوآشناہوئی۔بلوچ پندرہویں صدی عیسوی میںوسیع پیمانے پرسندھ، پنجاب اور ہندوستان میں داخل ہوئے۔اس طرح اپنی مادری زبان بلوچی کوترک کرکے مقامی بولیاں بولنے لگے۔مقالہ اسی تناظرمیں، اردونگار پاکستانی بلوچوں کی کاوشوں کااجمالی جائزہ پیش کرتا ہے۔
ڈاکٹرغلام قاسم مجاہدبلوچ
ڈیرہ غازی خان،پاکستان
بلوچوں میں اردوگوئی کا ارتقائ۔ایک اجمالی جائزہ
۳۳۔
۴۹۰
تا
۴۹۷
۱۹۹۲ء میں خدابخش اورئینٹل پبلک لائبریری پٹنہ، انڈیا سے ایک انگریزی کتاب مع اردوترجمہ بہ عنوان: Aesop's Fables شائع ہوئی۔اس کے دیباچہ میں لائبریری کے ڈائریکٹرنے یہ دعویٰ کیا کہ یہ'' Aesop''وہی شخصیت ہیں جو مشرق میں ''لقمان''کے نام سے معروف ہیں۔اس مقالہ میں اس رائے سے اختلاف کیاگیاہے کہ''عیسوپ'' اور ''لقمان'' دو مختلف شخصیات ہیں۔
ڈاکٹرریحانہ کوثر
لاہور،پاکستان
لقمان اورحکایاتِ لقمان
۳۴۔
۴۹۸
تا
۵۰۷
اگرچہ کتابی ڈراما،(Closet Drama)سٹیج یاتھیٹرکے لیے نہیں لکھاجاتاتاہم نقاداسے مغالطے میں ڈراما ہی تصورکرتے ہیں۔اس مقالہ میں یہ واضح کرنے کی سعی کی گئی کہ کتابی ڈرامہ،فنی اعتبارسے،ڈرامہ کی بجائے،محض فکشن کی ایک نوع ہے۔اس طرح ممکن ہے کہ کبھی ''کتابی ڈرامہ''ادب میں کوئی نیانام پاجائے اوراس کی شناخت فکشن کے ایک الگ روپ کے طورپرہونے لگے۔
محمدنعیم بزمی
لاہور،پاکستان
کتابی ڈرامے کی شناخت کامسئلہ (ایک تنقیدی مغالطے کاازالہ)
۳۵۔
۵۰۸
تا
۵۳۱
یہ مضمون اردومیں نئے ادبی اصناف کا ارتقاء اورسامراجی بالادستی کوواضح کرتاہے۔استعماری حکمرانوں نے مقامی ادب پرقدغنوں کے اطلاق کاایک باقاعدہ نظام وضع کیا۔مشرقی ادب کواپنی مطلوبہ حدودمیں رکھنے کے لیے انھوں نے مقامی نوکرشاہی کے ذریعے لفظ ''اصلاح''مشتہرکرایانیزپبلک انسٹرکشن ڈیپارٹمنٹ کے زیرانتظام، مقامی ادب میں شامل ،مزاحمتی عناصرکوحکمت عملی سے، ایک فاصلے پررکھا۔
محمدنعیم
سرگودھا ،پاکستان
اردوناول کاآغازاور استعماری نگرانی
۳۶۔
۵۳۲
تا
۵۴۱
صادق ہدایت(۰۳ ۱۹ئ۔۱۹۵۱ئ)جدیدفارسی ادب کاایک رجحان سازافسانہ نگارتصورکیاجاتاہے۔قدیم ایرانی تہذیب ،وطن کی کشش اورمذہب بیزاری نے ان کے خیالات کے تانے بانے کومہمل بنادیا۔مذہب سے فرار،ان کی باطنی شکست وریخت اورزندگی کولایعنی سمجھنے کے تصورات انہیں بالآخرزندگی سے برگشتگی اورخودکشی تک لے گئے۔یہ مقالہ متذکرہ عوامل کی روشنی میں صادق ہدایت کے تصورمذہب کاتنقیدی تجزیہ پیش کرتاہے۔
ڈاکٹرجوادہمدانی
اسلام آباد پاکستان
صادق ہدایت کی تخلیقی کائنات اور تصورمذہب
۳۷۔
۵۴۲
تا
۵۵۰
کوئی بھی اہل قلم اپنی تخلیقات میں زبان کی فنی مہارت کو بروئے کارلائے بغیرحُسن،وسعت اورگہرائی پیدانہیں کرسکتا۔اس لیے ضروری ہے کہ زبان بامعنی،متاثرکن اورمختلف جذبات کے تاثرات کوبیان کرنے پرقدرت رکھتی ہو۔جمالیاتی قدریں روحِ زبان کوتروتازگی بخشتی ہیں۔یہ مقالہ اردوافسانہ میں زبان کے استعمال اورجدیداردوافسانے کی لسانی تشکیل پرروشنی ڈالتاہے۔
فوزیہ رانی
لاہور،پاکستان
افسانے کی لسانی تشکیل۔تقاضے اور امکانات
۳۸۔
۵۵۱
تا
۵۶۱
مزاح عموماًسنجیدگی سے تخلیق کیا جاتا ہے۔یوسفی صاحب کے مزاح میں ''سوچ''کاعنصرنمایاں رہتاہے۔ان کے نزدیک مزاح بغیرخیال،سچائی اوردانش کے سطحی ہوتا ہے۔یہ مقالہ یوسفی کی نگارشات میںمزاح کے عنصرکوکھوج کرپیش کرتاہے۔
ڈاکٹرمحمدیارگوندل
سرگودھا
پاکستان
یوسفی۔ایک فکری مزاح نگار
۳۹۔
5-15
فلپ پُل مین کا" His Dark Materials Trilogy"نوجوانوںکے روحانی اورمذہبی مسائل سے بحث کرتاہے۔وہ یہ سوال کرتاہے کہ اس کہانی کاکیابنے گا جب بالآخر''فردوس گم گشتہ''کے وہی باغی فرشتے سچے ثابت ہوجائیں جواظہارِآزادی ٔرائے کے علم بردارتھے۔ یہ سہ نثریہ مثالی ''روحانی جمہوریہ'' کے قیام کی نویدپراختتام پذیرہوتاہے جہاں لوگ اپنے روحانی اور اخلاقی نصب العین کو تعمیر کرنے میں باہم معاونت کرتے ہیں۔
Dr. Stephen Bigger Worcester WR26AJ (UK)
Reflecting on Religion through Story: Philip Pullman's His Dark Materials Trilogy.
۴۰۔
16-22
واخی،پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی ایک غیرتحریری زبان تصورہوتی ہے جس کی شاعری میں مردوخواتین کی الگ الگ شعری اصناف ہیں۔شادی کے گیت،غزلیات،مذہبی شاعری اورقصہ گوئی روایتی طورپرمردوں کااثاثۃ تصورہوتاہے جب کہ ''بُلبلِک''(بُلبل کی آواز)خواتین کی شعری صنف ہے۔بُلبلِک میں تین مصرعے ہوتے ہیں اوراس صنف میں عموماًاداسی کاعنصرشامل ہوتاہے۔مقالہ میں واخی شاعری پرروشنی ڈالی گئی ہے اورتیس سے زائدانگریزی مترجمہ ''بُلبلِک''بھی پیش کیے گئے ہیں۔
Dr. Nadeem Shafiq,
Rawalpindi (Pakistan).
Gender Specific Wakhi: Poetry of Northern Pakistan
۴۱۔
23-27
ہماری ثقافتوں نے ان اقدارکوفراموش کردیاجن کے ذریعے تمام زبانوں کے متون کوکاغذپرشائع کرکے ان سے باہم بہرہ مندہواجاتاتھا۔ باوجودیکہ آج بھی متون کی کاغذپراشاعت کے حق میں بہت کچھ کہاجاتاہے ۔دنیاکی جُملہ زبانوں کی کاغذپراشاعت کی قدر،ماسوائے آزادیٔ ثقافت کے اورکچھ نہیں۔
Dr. Thomas Stemmer
Spain
Languages? - Where do they go?
Languages?- Where should they go?
۴۲

بازیافت (اردو): ۱۹: جولائی تا دسمبر ۲۰۱۱ئ، شعبۂ اردو، یونیورسٹی اوریئنٹل کالج، لاہور

آغاز: جنوری ۲۰۰۲ء اوّلین مدیر: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، موجودہ مدیر: ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری کل شمارہ جات: ۱۹

۹
تا
۲۵
سوات کی پندرہ وادیوں میں سے ایک وادی بحرین ہے۔ یہ وادی پاکستان کے جنوبی علاقہ میں واقع ہے جو سوات کے صدر مقام سیدو شریف سے شمال کی طرف ۶۶ میل کے فاصلے پر ہے۔ اس علاقہ میں بے شمار قبیلے، خیلیں اور زبانیں موجود ہیں۔ اس علاقہ سے متعلق محققین تمام دنیا میں اپنے لسانی جائزہ کی بدولت مشہور ہیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں نمایاں کام کیا ہے۔ اس مضمون میں مضمون نگار نے اس علاقہ کی قدیم زبانوں کے گروپ دردی زبانوں، ان کی تہذیب اور تاریخ کو جانچا ہے۔
محمد پرویش شاہین
منگلور
بحرین کا نسلی اور لسانی جائزہ
۱۔
۲۷
تا
۳۰
کشف المحجوب کا متن بہت سے محققین نے مدوّن کیا ہے ۔اس کتاب کے بہت سے ترجمے کیے جاچکے ہیں۔اس مضمون میں مضمون نگار نے اس کتاب کے ایک منفرد ایڈیشن کی اہمیت بیان کی ہے جسے عبدالعزیز جالندھری اور سید فضل معین معینی نے ۲۰۰۹ء میں شائع کیا ہے۔ یہ ایڈیشن بارہ جلدوں پر مشتمل ہے جس میں فارسی متن کی اصل روح کارفرما ہے۔
ڈاکٹر محمد سلیم مظہر
کشف المحجوب تصحیحِ متن ، تحقیق و ترجمہ صوفی عبدالعزیز- ایک تعارف
۲۔
۳۱
تا
۴۰
حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ کی کتاب کشف المحجوب اپنے اوائلِ اشاعت ہی سے نہایت مستند ہے جو دنیا بھر میں صوفیانہ افکار کا صحیفہ ہے۔ یہ وہ انسائیکلوپیڈیا ہے جو عظیم صوفیا کی تعلیمات سے موسوم ہے۔ اس کتاب کے فارسی متن کے بہت سے نسخے دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔اس مضمون میں اس کا تفصیلی تعارف اور تنقیدی جائزہ کشف المحجوب طبع محمود عابدی (تہران ۲۰۰۴ئ) کے حوالے سے دیا گیا ہے جو کہ بالکل تازہ اورمعتبر نسخہ ہے۔ اس میں ایک جامع مقدمہ، تفصیل اور حاشیہ درج ہے۔
ڈاکٹر معین نظامی
کشف المحجوب - طبع محمود عابدی، تعارف اور جائزہ
۳۔
۴۱
تا
۴۸
اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر تبسّم کاشمیری نے تجزیہ نگاروں اور ناقدین میں اپنا منفرد انداز اختراع کرکے مستقبل میں آنے والے تنقیدنگاروں کے لیے راہ متعین کی ہے۔انھوں نے اپنی مثالی قابلیت سے شاعر کی شخصیت کے سحر سے اس کے شاعرانہ کلام کو الگ کرکے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر تبسّم کاشمیری کا غیرجانبدارانہ شعور انھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ شاعرانہ ادب پارہ کو گہرائی تک دیکھ کر قاری کو اس کے ارفع با معنی تنقیدی شعور سے اس شاعری کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرکے متعارف کرائیں۔
ڈاکٹر نفیس اقبال
ڈاکٹر تبسّم کاشمیری بہ طور نقّاد
۴۔
۴۹
تا
۶۱
یہ مضمون کھڑی بولی میں ابتدائی کلام اور دیوناگری رسم الخط کا جائزہ لیتا ہے۔مغل تجربات سے ہمسری ایک ناگری عالم دارد دیوپال نے کی۔ اس نے ہندو دھرم اور اسلام کی تعلیمات کی آمیزش کی کوشش کی۔ اس نے اور اس کے پیروکاروں نے رخشا کو دیوناگری رسم الخط میں محفوظ کیا۔ اس کا ایک پیروکار بھگت (بھاحد) جس نے پندرہ رباعیاں رخشا میں بھگت خوانی سے بیس سال میں لکھیں۔ بھگت کی رخشا اردو رسم الخط میں پہلی دفعہ اس مضمون کے آخر میں دی گئی ہے۔
امرے بنگھا
شمالی ہندوستان میں کھڑی بولی کا ابتدائی کلام اور دیوناگری رسم الخط میں ادبِ ریختہ
۵۔
۶۳
تا
۷۴
اس مضمون میں مصنفہ کارنامۂ منیر لاہوری کو واضح کرتی ہیں۔ یہ وہ پہلا ادبی شاہکار ہے جو خالص ادبی تنقید میں لکھا گیا۔ مصنفہ ہندوستان کے محققین اور شعرا کے فارسی زبان دان مقامی شعرا کو فوقیت دینے کے رویّے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ منیر لاہوری نے ۱۵۰ نمایاں شعرا کے اشعار سے ثابت کیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ فارسی النسل شاعر غیر فارسی النسل پر فوقیت رکھتے ہیں۔ محض اہل زبان ہونا کسی شاعر کی عظمت و بزرگی کی دلیل نہیں ہے۔
نیلوفر حفیظ
کارنامۂ منیر لاہوری
۶۔
۷۵
تا
۸۸
تلمیح چند مذہبی اعتقادات، تاریخی شہادت یا فرضی داستانوں کا لب لباب ہے جو کہ کلاسیکی اردو شاعری خصوصاً غزل کا لازمی حصہ ہے۔ مضمون نگار کا خیال ہے کہ تلمیح وہ طریقہ ہے جو ہمیں شاعر کی حسیات کی تفہیم دیتا ہے جو دوسرے لفظوں میں فرد کے ذاتی تجربہ میں گہرائی تک پیوست ہوتا ہے اور یوں وسیع تر دنیا کے اعتقادات، تاریخ، فرضی داستانوں اور روایات تک رسائی دیتا ہے۔
ڈاکٹر وفا یزدان منش
شاعری میں تلمیح کا فنی اور معنوی کردار
۷۔
۸۹
تا
۱۰۰
تحقیق میں رموزِ اوقاف کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ماضی میں رموزِ اوقاف کو وہ اہمیت حاصل نہ تھی لیکن عہدِ حاضر میں یہ تحقیقی کام میں بے حد مفید ہے۔ علامتیں نثرپارہ کی تفہیم اور افادیت کو بڑھاتی ہیں۔ ان کا استعمال ہمیں جملے کے آغاز اور اختتام کی راہنمائی دیتا ہے۔ اس مضمون میں رموزِ اوقاف کی اہمیت علمی اور تحقیقی کام کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد ہارون قادر
تحقیق میں رموزِ اوقاف کی ضرورت و اہمیت
۸۔
۱۰۱
تا
۱۰۸
''فسانۂ عجائب'' انیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں ظاہر ہوئی۔ بعدازاں اس کے بہت سے متون دریافت ہوئے اور ایک اختلاف اردو تحقیق میں اس کے اصل متن سے متعلق پیدا ہوا۔اس مضمون میں رجب علی بیگ سرور کی وفات کے دو سال بعد کے متن ، جو ۱۲۸۳ء میں سامنے آیا،کا تعارف کرایا گیا ہے۔ یہاں اس سے متعلق سوالات اور ممکنہ جوابات کی بحث دی گئی ہے۔
ڈاکٹر شفیق انجم
''فسانۂ عجائب'' کا ایک قدیم نسخہ
۹۔
۱۰۹
تا
۱۲۰
یہ مضمون ان چیلنجز کو بیان کرتا ہے جو پاکستان کو اوائل کی دو دہائیوں میں سیاسی، سماجی اور علمی اعتبار سے درپیش تھے۔ اس کے پس منظر میں تقسیم اور سقوطِ مشرقی پاکستان ہے اور یہ بتاتا ہے کہ ان چیلنجز پر فرد اور سماج کی سطح پر کیا ردِّعمل تھا جسے مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناول 'راکھ' میں بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر ناہید قمر
'راکھ' میں تاریخی و سیاسی شعور
۱۰۔
۱۲۱
تا
۱۳۲
علمِ بدیع مشرقی شاعری میں روایتی حیثیت رکھتا ہے۔ نقادوں نے بہت سی صنعتیں بیان کی ہیں۔ کچھ بہت عام ہیں اور کچھ قاری کے لیے بہت مانوس ہیں لیکن کچھ منفرد اور نئی ہیں۔ اس مقالہ میں ایسی صنعتیں دی گئی ہیں جو تحقیق اور تجزیاتی حوالے سے اہمیت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر مزمل حسین
علمِ بدیع کی چند نادر صنعتیں __ایک تحقیقی مطالعہ
۱۱۔
۱۳۳
تا
۱۵۳
یہ مقالہ سید جمیل رضوی کی کتابیات کا احاطہ کرتا ہے۔انھوں نے پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ کتابیاتی کنٹرول اور ادبیات کے ونگ میں اہم کردار اداکیا۔ کتابیات کا اشاریہ تحقیق میں انتہائی اہم ہے۔ان کے بیشتر مقالے مذہبی نوعیت کے ہیں۔ البتہ ان کا ریسرچ کے طریقہ کار اور اشاریے پر کام خصوصا ًخطی نسخوں کی فہرست، حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔
محمد ہارون عثمان
سید جمیل احمد رضوی کا علمی سرمایہ
(کتابیاتی جائزہ)
۱۲۔
۱۵۵
تا
۱۶۰
مضمون نگار نے بتایا ہے کہ رسالہ''کہکشاں'' ایک اہم ادبی رسالہ ہے۔ رسالہ ''کہکشاں'' کا آغاز سید امتیاز علی تاج نے ستمبر ۱۹۱۸ء میں کیا۔ادبی اور معلوماتی مضامین اس کا حصہ بنے۔اس رسالے کی زبان رومانوی تھی۔اس زمانے کی معروف علمی و ادبی شخصیات کے مضامین اس میں چھپا کرتے تھے۔امتیاز علی تاج نے اس رسالے کے ذریعے رومانویت کو فرو غ دیا۔
صفیہ مشتاق
رسالہ کہکشاں کا تعارف و تجزیہ
۱۳۔
۱۶۱
تا
۱۷۶
اردو گرامرکو تین طریقوں سے مرتب کیا جاتا رہا ہے۔پہلی قسم میںاردو کلمے کو اسم، فعل اور حرف میں تقسیم کر کے تجزیہ کیا جاتا ہے۔دوسری قسم میںجملے کے بنیادی حصوں مثلا ً اسم، ضمیر، صفت، فعل اورحرف کو مدنظررکھتے ہوئے بحث کی جاتی ہے۔تیسری قسم میںگرامر بیانیہ زبان کے مطابق لکھی جاتی ہے۔قواعد کنتوری کا تعلق دوسری قسم سے ہے اور اس میں حصہ صرف کو آٹھ حصوں میں جب کہ حصہ نحو کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر غلام عباس گوندل
قواعد کنتوری۔۔۔اردو قواعد کی ایک نادر کتاب
۱۴۔
۱۷۷
تا
۱۸۱
اس مقالے میں اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کے حوالے سے قدیم تاریخ پر بحث کی گئی ہے۔اردو کی سرکاری سرپرستی کے ابتدائی نقوش بہمنی دورمیںملتے ہیں۔اس حوالے سے کوئی سرکاری ریکارڈ دستیاب نہیں البتہ کچھ عام تاریخوں اور ادبی تاریخوںسے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ اردو اس وقت کی مقامی زبانوں اور بولیوں میں لنگوافرینکا کی حیثیت رکھتی تھی۔چودھویں صدی کے نصف میں اردو سرکاری زبان کے طور پر رائج ہو چکی تھی۔
ڈاکٹر فیاض احمد فیاضی؛
ڈاکٹرشفیق احمد
دفتری اردو کے ابتدائی نقوش
۱۵۔
۱۸۳
تا
۲۰۶
اس مقالے میںاقبال کے اردو اور فارسی شاعری میں تانیثی شعور پر بحث کی گئی ہے۔عام طور پر اقبال نے اپنی اردو شاعری میں عورتوں کے حقوق پر زیادہ توجہ نہیں دی البتہ ان کی فارسی نثر اورفارسی شاعری میں اس کے نقوش واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔اقبال نے مسلم خواتین کے چند بنیادی مسائل پر بحث کی ہے اور انھیں مغرب کے وضع کردہ طریقہ کار سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے۔
ڈاکٹر بصیرہ عنبرین
اقبال کا تانیثی شعور
۱۶۔
۲۰۷
تا
۲۲۰
یہ مقالہ فیض احمد فیض کی شاعری کے پہلے ترجمے کا احاطہ کرتا ہے جو وی جی کیرنن نے Poems of Faizکے نام سے کیا۔اس مقالے میں کتاب کے عنوانات کاتجزیہ کیاگیا ہے۔ان اغلاط اور تبدیلیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ترجمے کے دوران وقوع پذیر ہوئی ہیں۔اسی طرح معانی و مطالب بیان کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اسے بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔آخر میں فیض کی نظموں کے ڈاکٹر نذیر احمد کے تراجم پر بھی بات کی گئی ہے تاکہ دونوں کا موازنہ کیا جاسکے۔
عارفہ شہزاد
کلام ِ فیض کی اوّلین مترجم کتاب
(Poems by Faiz)
۱۷۔
۲۲۱
تا
۲۲۸
اس مقالے میں حلقۂ ارباب ذوق کے تحت لکھے جانے والے فکشن پر بحث کی گئی ہے۔حلقے کا قیام ترقی پسند تحریک کے تین سال بعد۱۹۳۹ء میں عمل میں آیا۔اس کے باوجود حلقہ میں فکشن لکھنے والوں کی تعداد زیادہ رہی اور باقاعدگی سے افسانہ اور ناول کے ابواب حلقہ کی نشستوں میں پڑھے جاتے رہے۔
ضیاء الحسن
حلقۂ ارباب ذوق اور افسانہ نگاری
۱۸۔
۲۲۹
تا
۲۳۶
اس مقالے میںمرزا محمد رفیع سودا کی انگریزی میں ترجمہ شدہ غزلیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔یہ مقالہ نہ صرف سودا کی غزلیات کا جائزہ پیش کرتا ہے بلکہ سودا کی شعری عظمت اور غزل کی بو قلمونی کو بھی نمایاں کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمد کامران
مرزا رفیع سودا کی اردو غزلوں کے انگریزی تراجم
۱۹۔
۲۳۷
تا
۲۹۴
یاسمین راشد ، ن م راشد کی بیٹی ہیں۔ ان کی شادی راشد کے بھتیجے سے ہوئی۔راشد اکثر اپنی بیٹی اور داماد کو خط لکھا کرتے تھے۔ان کے ۴۶ خطوط دستیاب ہوئے ہیں جن میں سے اکثر یاسمین کے نام ہیںاور کچھ دونوں کے نام ہیں۔یہ خطوط پہلی مرتبہ شائع کیے جا رہے ہیںجس سے ان کے ذاتی اورگھریلو زندگی کے چند پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔اس سے راشد کے پدرانہ رویے واضح طور پر سامنے آتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری
راشد بنام یاسمین حسن
۲۰۔
۲۹۵
تا
۳۰۷
اس مقالے میں برصغیر کے مسلمانوں کی سماجی تعمیر نو میںعلامہ اقبال کے کردار کو اصلاح کار کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔علامہ اقبال عمومی طور پر فلسفی شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔برصغیر کے لوگوں کی حالت کو بدلنے کے لیے انھوں نے فلسفیانہ فکر اور شاعری کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، تین سماجی ستون بتائے ہیں اور ان کی تعمیر نو کی کوشش کی ہے۔اس مقالے میں ان کے اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
Shagufta Begum
Iqbal as a Reformer
۲۱۔

تحقیق نامہ (اُردو): شمارہ ۱۱؛ جولائی ۲۰۱۲ئ؛ شعبۂ اُردو؛ جی سی یونیورسٹی، لاہور

آغاز: ۱۹۹۱ء اولین مدیر: ڈاکٹرسید معین الرحمن موجودہ مدیر : ڈاکٹر شفیق عجمی کل شمارہ جات: گیارہ(۱۱)

۷
تا
۱۷
اس مقالہ میں بتایا گیا ہے کہعبدا لماجد دریا بادی نے جہاں مستشرقین کی بعض مثبت خدمات کا جائزہ لیا ہے ، وہیںاُنھوں نے مشرق شناسی کی اصل فطرت بھی واضح کی ہے کہ یہ اسلام اور حضوراکرم ؐ سے متعلق مغرب کے صدیوں پرانے تعصبات سے مزین ہے۔ اُنھوں نے واضح طور پر دکھایا ہے کہ استشراقی تحریروں کی چمک دار تہ کی زیریں سطح میں ایک بے نور سیاہی مائل تصویرہے جس کی بنیاد حضور اکرمؐ کی یکتاوبے نظیر شخصیت پر ، بلکہ مسلم اُمت میں عیاری سے رنگ، عقائد، قومیت، وغیرہ وغیرہ کے نزاع کا بیج بونے پر ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی
لاہور، پاکستان
مستشرقین کا اسلوبِ سیرت نگاری اور مولانا عبدالماجد دریا بادی
۱۔
۱۸
تا
۲۶
یہ مضمون اقبال کے تصورِ وحدت ملی کو موضوع ِ بحث بناتا ہے۔ اس فلسفے کے تصورات کی بنیاد قرآن اور حدیث پر قائم ہے۔ اقبال ان بنیادی اسلامی مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے تمام مسلم اُ مہ کا ایک نقشہ کھینچنا چاہتے ہیں جو نسلی اور علاقائی حدود سے بالاتر ہو کر ایک بیش قیمت اور قابلِ رشک اتحاد سے بنے۔ اقبال کے اس پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی جتنی اشد ضرورت آج ہے، اتنی اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری
لاہور، پاکستان
اقبال کا پیغامِ وحدتِ ملی اور اس کی فکری اساس
۲۔
۲۷
تا
۳۲
اس مضمون میں کسی خاص متن کی ترتیب کے دوران محقق/ مدون / مرتب کو پیش آنے والی مشکلات اور تدوین متن کی اہمیت سے بحث کی گئی ہے۔ اسلامی طریقۂ تحقیق کے تناظر میں متنی تنقید / تدوین کا طریقۂ کار واضح کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کلاسیکی اور جدید ادبی متنوں سے مختلف مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر شفیق عجمی
لاہور، پاکستان
تدوین متن۔۔اسلامی تحقیقی تناظر میں
۳۔
۳۳
تا
۳۸
اُردو ادب میںایک واضح نسائی عنصر موجود ہے۔ اس مضمون میں ابتدائی خواتین فکشن نگاروں کے ہاں نسائی مباحث کا سراغ لگایا گیا ہے اور پھر چند معروف اُردو شاعرات، مثلاََ فہمیدہ ریاض اور سارا شگفتہ ، وغیرہ کے ہاں بھی تلاش کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں دکھایا گیا ہے کہ مشرقی معاشرے میں خواتین کے معاشرتی مقام کے حوالے سے اُردو ادب میں نسائی ادبی رنگ بڑے افراط سے پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد ہارون قادر
لاہور، پاکستان
اُردو ادب میں فیمینزم۔۔ تحقیقی مطالعہ
۴۔
۳۹
تا
۴۷
نول کشور پریس، جو ۱۸۵۶ء میں قائم ہوا، بہت اہم اشاعتی ادارہ تھا۔ اس ادارے نے متنوع موضوعات پر ہزاروں اُردو کتابیں شائع کیں ۔ مقالہ نگار نے غیر فہرست شدہ کتابوں کو بھی شامل کیا جو چار بکسوں میں بند ایس اے آئی کے کتب خانے میں پڑی تھیں۔ اس مضمون میں اُن کتابوں کی فہرست سازی کے علاوہ اُن کا تعارف بھی کر ایا ہے جس میں اُردو شاعری کی ہر کتاب پر طائرانہ نگاہ ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی
لاہور ، پاکستان
ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ذخیرۂ نول کشور میں شعری مجموعے
۵۔
۴۸
تا
۵۵
ن م راشد وہ آزاد نظم کے اُن معدودے چند شاعروں میں سے ہیں جو آزاد نظم میں تمثال کاری کے کردار کا واضح تصور رکھتے ہیں۔ راشد اس تصور کے موید ہیں کہ آزاد نظم کی ہیئت اور تمثال کاری ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں۔ یہ مضمون آزاد نظم کے ساتھ تمثال کاری/ امیجری کے تعلق کے حوالے سے راشد کے خیالات کا جائزہ لینے کی ایک کوشش ہے۔
محمد نعیم بزمی
لاہور، پاکستان
راشدکا تنقیدی شعور
(آزاد نظم اور امیجری کے باہمی اِرتباط کے حوالے سے)
۶۔
۵۶
تا
۶۰
بصری اور صوتی ہیئت ترکیبی آزاد نظم کی تشکیل میں اہم ترین ذریعہ ہے۔ نظم کی تشکیل میں بصری اور صوتی خصوصیات شامل ہوتی ہیں ۔ موجود ہ مضمون میں نظم کی ساخت کے حوالے سے بصری خصوصیات میں تفاوت پر زور دیتے ہوئے نظم کی ترتیب پر بحث کی گئی ہے۔
یٰسین آفاقی
لاہور، پاکستان
نظم کی وضع
۷۔
۶۱
تا
۶۹
یہ مضمون '' میک ٹیگرٹ کا تصور زماں اور اقبال'' ایک اُستاداور شاگرد کے درمیان تقابلی خیا لات پر روشنی ڈالتا ہے۔ میک ٹیگرٹ، ایک فلسفی اورکیمبرج میں اقبال کے استاد، یہ تصوررکھتے تھے کہ وقت/ زماں غیر حقیقی ہے، کیوں کہ ہر امرِ واقعہ سہ رُخا ہوتا ہے، یعنی ماضی، حال اور مستقبل۔ اقبال کا کہنا ہے کہ یہ تصورِ زماں کے سطحی جائزے کی وجہ سے ہے۔ اصل زمان حقیقی نہیں، بلکہ معروضی/ حسی مشاہدہ ہے۔ اندرونی سطح پر اس میں کوئی ماضی، حال اور مستقبل نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد آصف اعوان
لاہور، پاکستان
میک ٹیگرٹ کا تصور ِ زماں اور اقبال۔۔تحقیقی جائزہ
۸۔
۷۰
تا
۷۵
اس مضمون میں اُردو مزاح سے متعلق موضوعات اور متعلقات پیش کیے گئے ہیں۔ مضمون کے آغاز میں اُردو میں مزاح نگاری کی روایت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے بعد طنز ومزاح کی جمہور پسند طبیعت پیش کی گئی ہے۔ آمرانہ نظام یا شاہی نظام میں طنزو مزاح کو پسند کیا جاتاہے ،نہ اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ طنز ومزاح کو عالمی امن اور خوش حالی کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر وحید الرحمن خاں
لاہور، پاکستان
اُردو طنزو مزاح: مسائل اور امکانات
۹۔
۷۶
تا
۸۶
مستنصر حسین تارڑ کے ناولوں کے مرکزی کردار اپنے فیصلوں اور کھوکھلی مثالیت پسندی کا شکار بنتے ہیں جیسا کہ سنان اور برکت علی۔ کچھ کردار خود شکستگی اور نفی ٔذات کی علامت ہیں۔ چند ایک اجتماعی لاشعور کے مظہر ہیں۔ اس مضمون میں بحوالۂ تصورِ انسان مستنصر حسین تارڑ کے ناولوں کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیاہے۔
سفیر حیدر
لاہور، پاکستان
مستنصر حسین تارڑکی ناول نگاری ( مرکزی کرداروں کا تجزیاتی مطالعہ)
۱۰۔
۸۷
تا
۹۵
محمدی بیگم بیسویں صدی کی پہلی دہائی کی ایک زبردست اَدبی شخصیت تھیں۔ اُنھوں نے مختصر زندگی گزاری۔ اُنھوں نے دو درجن سے زائد قابلِ ذکر کتابیں لکھیں۔ ان میں سے کچھ خواتین کے گھریلو اُمورپر، ایک سوانح حیات، چند ناول اور ایک درجن کے قریب بچوں کے ناول اور نظموں پر مشتمل ہیں۔اس مضمون میں بچوں کے لیے محمدی بیگم کی کتابوں کے بارے میں تفصیلی معلومات مہیا کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر ریحانہ کوثر
محمدی بیگم: بچوں کی ایک گمنام شاعرہ اور ادبیہ
۱۱۔
۹۶
تا
۹۹
ادبی تنقید پر جدید نفسیات کے حد درجہ اثرات ہیں۔ اس مضمون میں یہ دکھایا گیا ہے کہ فرائیڈ، یُنگ، اڈلر وغیرہ کے جدید ادبی تنقید پر گہرے اثرات ہیں۔ خصوصاََ انا، فوق الانا، فکر ، احساس ، حسیات، تجسس وغیرہ کے حوالے سے۔ دراصل جدید ادبی تنقید دبستان علمِ نفسیات کا ممنونِ احسان ہے۔
ڈاکٹر شائستہ حمید خاں
لاہور، پاکستان
تنقید اور نفسیات
۱۲۔
۱۰۰
تا
۱۰۴
''فکاہ'' طنزو مزاح کی ایک اہم قسم ہے۔ اس لفظ کی اصل عربی زبان سے ہے۔''فکاہ'' اُن تمام ادبی اصطلاحات کی جامع ہے جو مزاح کے حوالے سے زیر بحث آتی ہیں۔ طنز ، ظرافت اور مزاح کو اس اصطلاح کے تحت زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔موجودہ مضمون میں ''فکاہ'' کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بیان کیاگیا ہے کہ ظرافت اور مزاح کے مطالعے میں ' 'فکاہ''کیا نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔
شاہین اختر
لاہور ،پاکستان
فکاہ کیا ہے؟۔۔۔ ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
۱۳۔
۱۰۵
تا
۱۱۹
اُردو ادب میں مقامی اور بین الاقوامی زبانوں کے تراجم کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس مضمون میں ہاشم شاہ کی پنجابی شاعری کے تراجم کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ مترجم شفقت تنویر مرزا نے پنجابی شاعری سے ہاشم شاہ کے تصورات اور خیالات کو خوب صورتی سے اور نمایاں طور پر اُردو شاعری میں منتقل کیا ہے۔
محمود الحسن بزمی
لاہور ، پاکستان
کلامِ ہاشم کا منظوم اُردو ترجمہ۔ایک جائزہ
۱۴۔
۱۲۰
تا
۱۲۷
َ فیض احمد فیض کی ادبی شخصیت کے حوالے سے یہ بات خالی از دلچسپی نہیں کہ اُنھوں نے پنجابی میں بھی قابلِ قدر اشعار کہے ہیں۔ اُن کی سات پنجابی نظمیں ان کی اپنی مادری زبان سے محبت کی عکاس ہیں اور مقدار کے حوالے سے یہ تھوڑی نظمیں بھی اُردو نظموں کی مانند ان کے مزاحمتی رویے کی حامل ہیں۔
واصف لطیف
لاہور،پاکستان
فیض احمد فیض کی پنجابی شاعری
۱۵۔
۱۲۸
تا
۱۳۵
۱۹۴۷ء کے بعد لکھی گئی اُردو نثر اپنی سرزمین کی محبت اور فضا سے لبریز ہونے کے سبب الگ شناخت کی حامل ہے۔ بلاشبہ پاکستانی نثر نگاروں کی تخلیقات نے حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دیا ہے۔ پاکستانی ناول ہو یا افسانہ، دونوں نے پاکستان کی محبت اور قومی بقا کے جذبے کو پروان چڑھایا ہے ۔اس تحقیقی مضمون میں حب الوطنی کے احساس کو پاکستانی ادباکی تحریروں کے تناظر میں زیرِ بحث لا یا گیا ہے۔
الزبتھ شاد
لاہور ،پاکستان
قیامِ پاکستان کے بعد نثری ادب میں پاکستانیت
۱۶۔

اسلام آباد

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز ،

شعبہ اردو؛

دریافت :۱۱ ؛

کل شمارہ جات:۱۱

اوّلین مدیر:ڈاکٹر رشید امجد

مدیر: ڈاکٹر روبینہ شہناز؛ڈاکٹر شفیق احمد

آغاز: جنوری ۲۰۰۲ء

۹
تا
۱۷
برصغیر میں فارسی زبان مغربی اور وسطی ایشیا کی طرف سے آنے والے لوگوں کے باعث متعارف ہوئی۔ مقامی زبانوں سے تال میل کے بعد اس خطے میں ایک نئی زبان، اردو نے جنم لیا۔ اس دور میں معروف فارسی متون کے اردو میں تراجم ہوئے۔ پھر تاریخ اس مرحلے پر جب برصغیر میں فارسی کا زوال اور اردو کا عروج شروع ہوا تو کچھ اردو کتابوں کے فارسی میں تراجم کا آغاز ہوا۔ خصوصاً انیسویں صدی کے آخیر میں برصغیر میں ایرانیوں اور افغانیوں کے لیے منتخب اردو تحریروں کو فارسی میں ڈھالہ جانے لگا۔ مگر بیسویں صدی میں خود افغانیوں اور ایرانیوں میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ وہ متون کو فارسی میں ڈھالیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ڈاکٹر سفیر اختر
اردو کتابوں کے فارسی تراجم
۱۔
۱۸
تا
۲۴
منشی پریم چند اردو فکشن کا ایک معروف نام ہے۔ اسی دور میں پریم چند لاہوری کے نام سے بھی ایک صاحب اردو فکشن لکھ رہے تھے۔ پریم چند لاہوری غیرمعروف رہے۔ اس مضمون میں پریم چند لاہوری کے بارے میں چند نئے حقائق منظر عام پر لائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر رشید امجد
پریم چند لاہوری: چند نئے حقائق
۲۔
۲۵
تا
۲۹
امان اللغات اردو کا ایک کم یاب اور منفرد لغات ہے۔ جسے مولوی امان الحق نے ۱۸۷۰ء میں مرتب کیا تھا۔ یہ لغات ان عربی ماخذ والے افغال کا مجموعہ ہے جو اردو اور فارسی میں استعمال ہوتے ہیں مقالے میں ۳۸۳ الفاظ سے بحث کی گئی ہے اور لغت کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
اردو کا ایک قدیم،منفرد اور کم یاب لغت: ''امان اللغات''
۳۔
۳۰
تا
۳۶
اردو ادب میں احتجاج اور بغاوت کے موضوع پر کافی بحثیں موجود ہیں مگر بیشتر نقادوں نے اپنے خیالات کو اپنی وفاداریوں کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ خاص طور پر شاعری کے حوالے سے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس مقالے میں اصل حقائق تک پہنچنے کے لیے چند مسائل اور مشکلات کی نشان دہی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی
بھارت
احتجاجی ادب کے مسائل: شاعری کے حوالے سے
۴۔
۳۷
تا
۴۸
یہ مقالہ علامہ محمد اقبال کی ایک نظم ''پرندے کی فریاد'' کی مابعد نوآبادیاتی پڑھت ہے۔ مقالے کے تین حصے ہیں پہلے حصے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ آیا کہ اقبال کی ذاتی نظم ہے یا ماخوذ نظم۔ دوسرے حصے کا موضوع یہ ہے کہ مابعد نوآبادیاتی ڈسکورس کی شعریات کیا ہیں اور اس نظم کی اس پس منظر میں قرأت کی کیا اہمیت ہے۔ تیسرے حصے میں اس پس منظر میں نظم کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر قاضی عابد
پرندے کی فریاد: ایک ردِنوآبادیاتی پڑھت
۵۔
۴۹
تا
۶۴
جدید اردو تنقید میں محمد حسن عسکری کا نام نمایاں ہے۔ ترقی پسندی کے حذف جدیدیت کی تحریک میں بھی آپ پیش پیش ہیں۔ مقالہ نگار کے مطابق مابعد جدیدیت دراصل جدیدیت ہی کی توسیع ہے اور خواہ مخواہ ان دونوں میں فرق قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور عسکری نقطہ نظر سے اسلوبی و ہیئتی تنقید کے بعد ساختیاتی مباحث دراصل جدیدیت ہی کے شاخسانے ہیں۔
ڈاکٹر عزیز ابن الحسن
ساخیاتی مباحث اور محمد حسن عسکری
۶۔
۶۵
تا
۷۱
اپنے نظریات کو اپنی شاعری میں ڈھالنا ایک شاعر کے لیے ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے تاہم بڑا شاعر استعارے کی قوت سے ایسا کرتے ہی کامیاب ہو جاتا ہے اور جیسا کہ فیض احمد فیض نے کر کے دکھایا۔ اس کی ؟؟؟؟ دیگر ترقی پسند شعرا کے برعکس فیض کو دوام حاصل ہوا۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن
فیض احمد فیض شاعری اور ہمارا عہد
۷۔
۷۲
تا
۸۳
اردو ادب کی تاریخ نگاری میں ادوار بندی قائم کرنا ہمیشہ ہی ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ تاریخ پہلے سے قائم کردہ کسی نظریے کو ذہن میں رکھ کر تحریر کی جاتی ہے۔ اردو میں ادبی تاریخ نویسی کی روایت بہت مضبوط نہیں ہے۔ ادوار بندی کے لیے ایک مجموعی معیار قائم کیا گیا اور ضرورت اس معیار کو تبدیل کرنے کی ہے۔
ڈاکٹر روش ندیم
اردو ادب کی تاریخ نگاری میں ادوار بندی کا مسئلہ
۸۔
۸۴
تا
۹۰
اردو کے نقادوںنے فیض کا مطالعہ ایک مخصوص اور معروف سانخے میں رہ کر کیا ہے۔ احتجاج اور انقلاب کے علاوہ بھی کئی پہلو ہیں جو محققین کی توجہ کے طلب گار ہیں۔ راولپنڈی سازش کیس اور فیض کا مارکسی حوالے نے انہیں ایک متنازعہ شاعر بنا دیا۔ جس کی وجہ سے فیض اس طرح سے نصابات کا حصہ نہیں بن سکے۔ اس مقالے میں فیض کی شاعری کے نئے پیراڈائم کی تلاش پر زور دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر روبینہ ترین/ محمد خاور نوازش
مطالعہ فیض : کے پیراڈائم کی تلاش
۹۔
۹۱
تا
۱۰۲
مجید امجد ایک کثیر الجہت شاعر تھے۔ مجید امجد نے شاعری میں بہت سے عروضی تجربات بھی کیے۔ وہ اردو کے عروضی نظام سے پوری طرح مطمئن نہیں تھے۔ ان کی آخری دور (۱۹۶۸ئ۔۱۹۷۴ئ) کی نظموں کے عروضی تجربات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس مقالے میں ان کے عروضی تجربات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر سید عامر حسین
صورتِ معنی اور معنیٔ صورت کی تفہیم
۱۰۔
۱۰۳
تا
۱۲۰
شکیب جلالی نے غزل کے میدان میں ناصر کاظمی، فیض احمد فیض، شہزاد احمد کے ہوتے ہوئے بھی اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ آپ نے غزل کو جدیدیت اور توازن سے ہمکنار کیا تاہم جدیدیت کے پس منظر میں آپ کے کام کی تفہیم کی زیادہ کوشش نہیں کی گئی۔ مقالے میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد شکیب کا شمار نمائندہ جدید شاعروں میں کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر محمد آصف
ملتان
متوازن جدیدیت کا تمثال آفریں غزل گو۔شکیب جلالی
۱۱۔
۱۲۱
تا
۱۴۸
مقالے میں منیر نیازی کی شاعری میں خوف اور تنہائی جیسے عوامل کے نفسیاتی محرکات جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقالہ نگار کے مطابق قیام پاکستان کے بعد فسادات ، قتل و غارت، ہجرت اور اہل دانش کی بے توقیری نے اس دور کے شعرا اور ادبا کو بہت متاثر کیا اور منیر نیازی کے ہاں تو یہ تلخ تجربات ان کی ذات کا مستقل حصہ بن گئے۔ یہی ان کی شاعری میں ڈر، خوف اور تنہائی کا نفسیاتی پس منظر ہے۔
ڈاکٹر فرحت جبیں ملک
راولپنڈی
منیر نیازی کی شاعری میں ڈر، خوف اور تنہائی کا نفسیاتی پس منظر
۱۲۔
۱۴۹
تا
۱۵۶
مقالہ نگار کے مطابق اس وقت اردو کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، مثلہ بندی، پاکستان کی مقامی زبانیں اور عالمگیریت، پاکستان جیسے کثیر اللسان خطے میں اردو کو بطور تدریسی زبان استعمال کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسری طرف ہماری علاقائی اور صوبائی زبانیں بھی بوجوہ اردو کے قریب نہ آسکیں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہو اس ضمن میں حکومت کی طرف سے زبان کی ایک جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر خالد اقبال یاسر
اردو زبان: مسائل اور امکانات
۱۳۔
۱۵۷
تا
۱۷۰
اردو زبان و ادب کے محققین نے اردو زبان و ادب کی ابتدا کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ اس مقالے میں نظریات سے بحث کی گئی ہے اور اب تک پیش کردہ نظریات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر صلاح الدین درویش
اردو کی ابتدا کے سیاسی نظریات
۱۴
۱۷۱
تا
۱۸۰
جدید لسانیات کی رو سے الفاظ کی حیثیت محض نشان (Signifier) کی ہے۔ اس طرح تحریر مجموعہ علامات ہے۔ فن تحریر اپنی پختہ شکل میں ہم تک بہت سی منزلوں سے ہو کر پہنچی ہے۔ فن تحریرکی تاریخ محض ماہرین لسانیات کی ہی دلچسپی کا شعبہ نہیں بلکہ یہ انسان کی ذہنی تاریخ کا بھی پتہ دیتی ہے۔ مقالہ میں فن تحریر کی تاریخ اور اردو حروف تہجی کی تشکیل کے مدارج سے بحث کی گئی ہے۔
ڈاکٹر طارق ہاشمی
فن تحریر کی تاریخ اور اردو حروف تہجی کی تشکیل و انواع
۱۵۔
۱۸۱
تا
۱۸۷
اردو میں لسانیات اور فن بلاغت کے مباحث کو ہمیشہ ہی خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ زبان، بلاغت، عروض، علم بیان اور بدیع کے بارے میں ایک سخت رویہ رہا ہے۔ ان موضوعات پر مولانا علی محمد شاد کی کتاب ''فکر بلیغ'' ۱۹۲۰ء میں شائع ہوئی۔ مقالہ میں اس کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
شاہین اختر
لسانی و بلاغتی مباحث اور ''فکر بلیغ'': ایک تحقیقی مطالعہ
۱۶۔
۱۸۸
تا
۱۹۷
سمعیاتی صوتیات نسبتاً ایک نیا شعبہ ہے۔ اس کی تکنیکی نوعیت کے باعث عموماً اسے فزکس کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے۔ اردو میں اب اس پر توجہ دی جارہی ہے۔ تاہم اس کے تصورات اور اصطلاحات کے سلسلے میں پوری طرح اتفاق نہیں ہے۔ اس مقالے میں سمعیاتی صوتیات کے چند تصورات اور اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے۔
انیلہ سعید
مبادیات و اصطلاحات صوتیات
۱۷۔
۱۹۸
تا
۲۳۲
اس مضمون میں ضرب کلیم سے متعلق اقبال کے کلام کے ابتدائی نقوش شامل کیے کئے ہیں۔ یہ غیر مطبوعہ نقوش فکر اقبال کی ترجمانی سرگذشت سے آگاہی حاصل کرنے میں بے حد معاون ہیں۔ مضمون نگاروں نے بیاض ضرب کلیم ہفتم اور سورہ ضرب کلیم کا کلام شامل کیا ہے۔
ڈاکٹر محمد یوسف خشک/ محمد یوسف اعوان
ضرب کلیم: نظموں کے غیر مطبوعہ مخذوف مصرعے و اشعار
۱۸۔
۲۳۳
تا
۲۵۴
اندرون ہند اقبال نے مختلف اوقات میں کئی شہروں کا دورہ کیا جن کی نوعیت اور مقاصد مختلف تھے۔ مقالے میں اقبال کے خطوط کی روشنی میں ان اسفار کی نوعیت اور مقاصد بیان کیے کئے ہیں۔
ڈاکٹر محمد سفیان صفی
برصغیر میں اقبال کے مختلف سفر: خطوط کی روشنی میں
۱۹۔
۲۵۵
تا
۲۶۳
مقالے میں علامہ محمد اقبال کے ایک خطبے بعنوان ''Islam as a moral and political Ideal'' کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس خطبے میں اقبال نے بدھ مت، عیسائیت اور زرشتی مذہب کی اخلاقیات کا اسلامی اخلاقیات سے موازنہ کیا ہے۔
منیر احمد یزدانی
علامہ اقبال کے ایک خطبے کا توضیحی مطالعہ
۲۰۔
۲۶۴
تا
۳۰۱
اس مضون میں ہندوستان کے اقبال شناس جگن ناتھ آزاد (۱۹۱۸ئ۔۱۲۔۵…۲۰۰۴ئ۔۷۔۲۴) کے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نام گیارہ خطوط کے متن کو مع حواشی و تعلیقات پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر خالد ندیم
جگن ناتھ آزاد کے چند اقبالیاتی مکاتیب
۲۱۔

شعبۂ اردو ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد

جنوری تا جون ۲۰۱۰ئ

زبان و ادب : ۶

کل شمارہ جات: ۶

اوّلین مدیر: ڈاکٹر شبیر احمد قادری

آغاز: ۲۰۰۶ئ

۷
مضمون نگار نے اس مضمون میں نسیم حجازی سے ذاتی مراسم اور مشاہدات و حقائق کی روشنی میں ان کے سوانحی حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ مضمون نگار کے نزدیک نسیم حجازی واضح اسلامی فکر رکھنے والے سیدھے سادے مسلمان تھے۔بچپن کی تعلیم اور ماحول کے اثرات ان پر تمام عمر حاوی رہے۔ نسیم حجازی کا پسندیدہ موضوع مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان ہے۔ان کے بیش تر ناول اسی تناظر میں لکھے گئے۔
ڈاکٹر ظفر اقبال
نسیم حجازی کی سوانح عمری
۱۔
۲۵
میٹرک کرنے کے بعد راشد کو گورنمنٹ کالج لائل پورمیں داخل کرا دیا گیا۔ مضمون نگار کی رائے میں راشد کی علمی و ادبی شخصیت کو گورنمنٹ کالج ، لائل پور میں نکھرنے کا موقع میسر آیا۔ دورِ طالب علمی میں راشد، کالج میگزین بیکن ((The Beaconکے مدیر مقرر ہوئے، مضمون نگار کی رائے میں مذکورہ ادارے کی علمی و ادبی فضا نے راشد کی تخلیقی شخصیت میں موجودہ تحریر و تسوید کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ یہ مضمون راشد کے دورِ طالب علمی کے ان میلانات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جو بعد میں اسے اردو نظم کا ایک قد آور شاعر بنانے میں معاون ثابت ہوئے۔
ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری
گورنمنٹ کالج لائل پور(فیصل آباد) اور ن ۔م ۔راشد
۲۔
۳۷
مضمون نگار نے اس مضمون میں جدید اردو مرثیہ کے خدوخال نما یاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیگر اصناف کے مانند بیسویں صدی میں صنف مرثیہ میں مختلف نوعیت کے تجربات ہوئے۔ اس صدی میں طویل مرثیوں کے ساتھ ساتھ قومی اور شخصی مرثیے بھی منصہ شہود پر آنے لگے۔ ان مرثیوں میں عصری حسیت بھی ملتی ہے۔مضمون نگار کی رائے میں ہمیں صنفِ مرثیہ کے مزاج و مذاق میں شعوری طور پر کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی۔یہ مضمون مرثیے کے جدید رجحانات کو سمجھنے میں مدد گار ہے۔
ڈاکٹر سید شبیہ الحسن
جدید اردو مرثیہ۔۔۔چند حقائق، چند معروضات
۳۔
۴۹
اس مضمون میں تراجم میں درپیش مشکلات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں مضمون نگار نے پنجابی منظومات کے اردو تراجم کی مثالیں پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دنیا جب گلوبل ویلج کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے تو جدید علوم جو ترجمہ کے ذریعے جغرافیائی سرحدیں توڑ کر دوسرے ملکوں میں پھیل رہے ہیں مختلف علاقوں کے لوگ ثقافتی، ادبی اور تہذیبی ضرورتوں کے پیش نظر یک جہتی کے جذبے سے ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں۔
حنیف چودھری
پنجابی شاعری کے منظوم اردو تراجم میں مشکلات
۴۔
۶۳
جدید افسانہ اپنے موضوعات اور ہئیتی تجربات کی بنا پر ابتداء سے زیرِ بحث ہے ۱۹۶۰ء کے بعد افسانے کے اتار چڑھائو کے حوالے سے مضمون نگار نے بتایا ہے کہ افسانہ نگاروں نے تجرید اور علامت کا سہارا لیا تجریدیت کی بنیاد کسی ٹھوس شئے پر نہیں ہوتی بلکہ اس کی اساس مجرد خیالات و تصورات پر ہوتی ہے جبکہ علامت کسی تجربے کا اظہار ٹھوس خارجی شے کے حوالے سے کرتی ہے۔مضمون نگار نے اختصار سے کام لیتے ہوئے جدید افسانے کے معاملات و مسائل اور رجحانات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر بشریٰ ثمینہ
جدید اردو افسانہ(۱۹۶۰ء کے بعدکے جدید رجحانات اور روایت کا اجمالی جائزہ)
۵۔
۷۹
۱۹۴۷ء سے پہلے اردو کی ملی اور قومی شاعری کے دو اہم ترین شعرا علامہ اقبال اور اکبر الہٰ آبادی کے ہاں تہذیب مغرب پر تنقید اور طنزکا رجحان عام ملتا ہے۔ مغرب کی اساس مادیت ہے جبکہ اسلامی معاشرہ روحانی ترفع کا مظہر ہے۔ اکبر مغرب پر طنز و مزاح کے پیرائے میں بات کرتے ہیں جبکہ علامہ محمد اقبال کے ہاں بقول مضمون نگار جو مجموعی فضا تخلیق ہوتی ہے، وہ سنجیدہ ہے۔
ڈاکٹر شمیم طارق
اکبر، اقبال اور
تہذیبِ فرنگ
۶۔
۸۹
اس مضمون میں فارسی میں علم بلاغت کے ارتقا کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔مضمون نگار کی رائے میں فارسی شاعری میں آغاز ہی سے تشبیہات ، استعارات اور علم بدیع کا استعمال ہونے لگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ فارسی شاعری نے بڑی تیزی سے عربی شاعری کے اثرات قبول کیے اور اپنی خوش مذاقی کی بدولت ان میں بڑے لطیف اضافے بھی کیے تھے۔بلاغت فن پارے کا حسن ہے۔
ڈاکٹر مزمل حسین
فارسی میں علم بلاغت کا ارتقائ(عہد قدیم)ایک تحقیقی مطالعہ
۷۔
۱۰۱
زیر نظر مضمون میں مضمون نگار نے پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں شاعرات کے کلام کا جائزہ لیا ہے۔مضمون نگار کی رائے میں نسائی شاعری کی شعائیں مختلف سمتوں میں منعکس ہوتی نظر آتی ہیں۔ ان کے نزدیک خواتین کی شاعری عصری تقاضوں اور بدلتے ہوئے رجحانات سے ہم آہنگ ہے۔ جذبۂ احساس کی موجودگی نے ان کی شاعری کو مزید دلآویز بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ
پاکستانی شاعرات اور عصری حقائق
۸۔
۱۳۳
عقیدت کی بنا پر نعت پر بحیثیت صنفِ سخن تنقید نہیں کی گئی۔ بیسویں صدی کے آخری عشرہ میں کراچی سے کتابی سلسلہــ''نعت رنگـ'' کے اجرائ(۱۹۹۵ئ) کے بعد اردو نعت پر تنقید کو فروغ دینے کے لیے با ضابطہ کوششیں کی گئیں۔ مضمون نگار نے اشاریہ کو بھی مضمون کا حصہ بنایا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مختصر وقت میں کس درجہ اہم موضوعات پر مضامین لکھے جا چکے ہیں۔
ڈاکٹر افضال احمد انور
اردو ادب میں نعتیہ تنقید کی روایت
۹۔
۱۴۳
مولانا امتیاز علی عر شی نے جو دیوانِ غالب تیار کیا اس پر بوجوہ زیادہ بحث ہوئی ہے۔ مضمون نگار کی رائے نسخہء عرشی ، تحقیق و تدوین کا بہترین امتزاج اور بے شمار خوبیوں کا مرقع ہے۔ اس کا مقدمہ اپنی جگہ ایک مستند تحقیقی کتاب کا درجہ رکھتا ہے مضمون نگار نے مثالوں کے ذریعے واضح کیا ہے کہ ما بعد مرتبین نے بالعموم نسخہء عرشی سے استفادہ کیا ہے۔ مضمون نگار نے بعض فروگزاشتوں کے پیش نظر نسخہء عرشی کی ترتیبِ نو کی ضرورت پر زور دیا۔
محمد سعید
دیوانِ غالب نسخہء عرشی:قدر پیمائی
۱۰۔
۱۶۱
مضمون نگار کے نزدیک اصناف سخن کے اعتبار سے دبستانِ لکھنئو کی شاعری میں غزل کا بڑا حصہ ہے۔ مضمون نگاروںنے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ لکھنوی زبان میں تکلف اور تصنع غالب آگیا۔ لکھنوی معاشرت نے بھی مرثیہ نگاروں اور کچھ حد تک مثنوی اور ڈرامہ چھوڑ کر اردو ادب پر زیادہ منفی اثرات ہی مرتب کیے۔تاہم زبان و ادب کے فروغ میں لکھنوی شعرا کی خدمات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر محمد ہارون عثمانی
اردو ادب پر لکھنوی معاشرت کے اثرات
۱۱۔
۱۷۱
داغ کے ہاں عشقِ حقیقی سے زیادہ عشقِ مجازی کے مضامین موجود ہیں۔ بقول مضمون نگار داغ زیادہ تر محبوب کی سراپانگاری بجائے اس کے حسن و جمال سے مرتب ہونے والے اثرات کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ داغ کے ہاں حسن کی تجسیم میں لوازم کے حوالے سے تصورابھرتا ہے۔ ان کی غزلوں میں عورت کے شرم و حیاء کا ذکر بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مرد کے احساسات کی ترجمانی بھی ملتی ہے۔
ڈاکٹر محمد جاوید پتافی
داغ دہلوی کی غزل میں عورت کا تصور
۱۲۔
۱۷۷
مختار صدیقی نے فکر اقبال سے گہرے اثرات قبول کیے۔ مختار صدیقی کی شاعری میں احساسِ عظمتِ رفتہ کی پیشکش سراسر فکرِ اقبال کی دین ہے۔ موضوعات کے ساتھ ساتھ مختار صدیقی کی منظر کشی ، تمثیل نگاری اور ڈرامائی عناصر کا سلیقہ بھی اقبال سے مستعار لیا گیا ہے۔ مضمون نگار کے الفاظ میں مختار صدیقی نہ صرف براہِ راست اقبال کے اشعار اور مصرعوں کو اپنی نظموں میں اپنے موضوع کے اظہار کی دلیل بناتے ہیں بلکہ اقبال کی تراکیب اور علامات کو بھی موقع و محل کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔
عنبرین منیر
اقبال اور مختار صدیقی کی شاعری میں مشترک احساس عظمتِ رفتہ
۱۳۔
۱۹۱
ایڈورڈ سعید نے ادب ، موسیقی اور ثقافت و سیاست کے بارے میںمتعدد تصانیف سے ادب و ثقافت کا دامن مالا مال کیا اور سماج میں ادیب کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔وہ مشرقی مزاج اور مسائل سے پوری طرح آگاہ تھے اور مغرب کی مشرق دشمنی کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا اور حقائق کی نقاب کشائی کی۔
عاصمہ اصغر
ایڈورڈ سعید۔۔ مشرق اور عصری صورت حال
۱۴۔
۱۹۹
کوئی بھی صنفِ ادب ہو اس کا کوئی نہ کوئی پیمانہ اور اسلوب ضرور ہوتا ہے۔ مقالہ نگار نے اسلوب اور اسلوبیاتی تنقید کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ شعراء کے کلام کے اسلوبیاتی مطالعے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ادبی اظہار بہت کچھ رقص اور موسیقی کی طرح ہے۔ رقص و سرود کی ظاہری سطح پر لطف و نشاط اور کیف و سرور کی مسحور کن فضا چھائی رہتی ہے جس میں ہم خودکو خود فراموشی کے عالم میں گزرتا ہوا محسوس کرتے ہیں ۔ ہر فن پارہ اسلوب اور اسلوبیات کی بنا پر اہم قرار پاتا ہے۔
عاصمہ اصغر
اسلوب: اسلوبیاتی تنقید
۱۵۔

معیار (اُردو):شمارہ:۸؛ جولائی-دسمبر ۲۰۱۲ئ؛ شعبہ اُردو؛ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

آغاز: جون ۲۰۰۹ئ؛ موجودہ مدیر:ڈاکٹر رشید امجد؛ اوّلین مدیر:ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر نجیبہ عارف؛ کل شمارہ جات:۸

۹
تا
۱۶
اس مضمون میں جدیدیت کی مختلف جہات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ روایتی، تاریخی، عینی اور فنی جدیدیت کے حوالے سے مختلف مغربی تصورات کو زیر بحث لایا گیا ہے اور فکرِ انسانی کی تاریخ کو اس تناظر میں پرکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد خاں اشرف
جدیدیت کے چار تناظر
۱۔
۱۷
تا
۲۲
ریاست بہاولپور ادبی حوالے سے زرخیز خطہ رہا ہے۔ مختلف ادوار میںیہاں مختلف ادبی شخصیات موجود رہی ہیں، جنہوں نے اُردو ادب میں بیش بہا اضافے کیے۔
ڈاکٹر نجیب جمال
ریاست بہاولپور میں ادبی اظہار کے قرینے
۲۔
۲۳
تا
۶۲
زیر نظر مضمون میں ہندوستان میں نو آبادیاتی عہد کے نظام تعلیم اور اُردو نصابات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نصابات کی یہ کتب ہائیڈل برگ یونیورسٹی، جرمنی میں محفوظ ہیں۔ مصنف نے ان کتب کا تعارف دینے کے علاوہ نو آبادیاتی تعلیمی منصوبوں کا تحقیقی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر
سائوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ،ہائیڈل برگ یونیورسٹی، جرمنی میں موجود نو آبادیاتی عہد کے اردو نصابات
۳۔
۶۳
تا
۷۲
یہ مضمون فکشن کے نوآبادیاتی پس منظر میں تجزیاتی تحقیق ہے۔ نوآبادیات جس طرح فکشن میں اثر انداز ہوتے ہیں اور اپنی اہمیت اور استعماری حیثیت کو فروغ دینے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کرتے ہیں مصنف نے اس کا تحقیقی جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر علمدار حسین بخاری
نوآبادیاتی تاریخی ڈسکورس اور فکشن: مماثلتیں اور امتیازات
۴۔
۷۳
تا
۸۴
اردو تذکرہ نگاری میں مختلف تذکرہ نگاروں نے مرزا رفیع الدین سوداؔ کا مقام و مرتبہ کس طرح سے متعین کیا ہے، زیر نظر مضمون اس کا ایک تحقیقی جائزہ پیش کرتا ہے۔
ڈاکٹر شبیر احمد قادری
اُردو تذکروں میں ذکرِ سودا
۵۔
۸۵
تا
۱۱۸
مضمون نگاروں نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی؍ قومی اسمبلی میں نفاذِ اردو کے لیے کی جانے والی قانون سازی کی کوششوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ان عناصر کا سراغ لگایا ہے جو نفاذ اردو کے راستے میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔ یہ مضمون ۱۹۸۸ ء تک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کارروائی تک محدود ہے۔
ڈاکٹر ارشد اویسی/
میمونہ سبحانی
تحاریک استحقاق اور نفاذِ اُردو
۶۔
۱۱۹
تا
۱۲۸
پاکستان کے شمالی علاقہ جات کثیر اللسانی علاقے ہیں۔ زیر نظر مضمون'' شیشی کوہ'' میں بولی جانے والی مختلف اور متنوع زبانوں کی تاریخ اور زبانوں کی موجودہ صورت حال سے آگاہی بخشتا ہے۔
محمدپرویش شاہین
زبانوں کی وادی: شیشی کوہ
۷۔
۱۲۹
تا
۱۴۴
ظہور نظر ترقی پسند تحریک کے نمائندہ شعرا کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مصنفین نے اس مضمون میں ظہور نظر کے شعری سرمائے کا تحقیقی جائزہ لیا ہے اور ان کی کلیات کے مرتب کرنے میں درپیش مسائل کے بیان کے ساتھ ساتھ حل بھی تجویز کیا ہے۔
ثوبیہ نسیم/ ڈاکٹرشفیق احمد
کلیات ظہور نظر کی تدوین: ماخذ و مسائل
۸۔
۱۴۵
تا
۱۵۸
اردو تنقید میں تصور روایت کے کئی مباحث موجود ہیں۔ مصنف نے روایت کے اس تصور کو ٹی ایس ایلیٹ اور حسن عسکری کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اور عسکری کے تصور روایات پر دیگر ناقدین کی تنقیدی آراء کا تحقیقی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔
یٰسین آفاقی
اُردو تنقید میں روایت کا تصور
۹۔
۱۵۹
تا
۱۷۴
اردو میں قواعد سازی کا کام سترہویں صدی عیسوی میں آغاز ہوگیا تھا۔ جان جوشوا کیٹلر کو اس ضمن میں پہلا قواعد نگار قرار دیا جاتا ہے۔ محقق نے بعض تاریخی حوالوں سے کیٹلر کی قواعد کے کچھ مخطوطات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر غلام عباس گوندل
کیٹلر کی قواعد: کچھ نئی دریافتیں
۱۰۔
۱۷۵
تا
۱۸۸
غالب کے مختلف قلمی نسخوں اور مطبوعہ دیوانوں کے تقابلی مطالعے کے بعد محقق نے کلام غالب کے دیگر مآخذات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر عظمت رباب
کلام غالب (اُردو) کے مآخذ
۱۱۔
۱۸۹
تا
۲۰۰
زیر نظر مضمون میں مصنف نے بلاد عرب میں انقلابی تبدیلیوں کو کلام اقبال کی روشنی میں جانچا ہے۔ عرب نوجوان کس طرح سے کلام اقبال سے متاثر ہو رہے ہیں اور اسے اپنے انقلابی تصورات کی بنیاد بنا رہے ہیں، صاحب مضمون کی فکر کا موضوع ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک
علامہ اقبال اور آج کی عرب دنیا
۱۲۔
۲۰۱
تا
۲۱۴
ہجرت حبشہ اسلامی تاریخ کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل موضوع ہے۔ محقق نے عربی شعر و ادب کا جائزہ لے کر ہجرت حبشہ کے عربی ادب میں اثرات کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔
ڈاکٹرظہور احمد اظہر
ہجرت حبشہ عربی ادب میں
۱۳۔
۲۱۵
تا
۲۲۴
عربی ادب میں متنبّٰی مؤلدین شعراء کے گروہ سے متعلق ہے۔ مصنف نے عربی ادب کی روایت کا جائزہ لیتے ہوئے متنبی کے مقام و مرتبہ کے تعین کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر عبدالغفور بلوچ/عبدالرحمن یوسف خان
عربی ادب میں متنبی کا مقام
۱۴۔
۲۲۵
تا
۲۳۲
اسلام اور مغرب کے حوالے سے زیر بحث مضمون میں محقق نے ایڈورڈ سعید کے فکری مباحث کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا اوراسلام کے حوالے سے مغربی میڈیا کے متعصبانہ انداز فکر وعمل کو جس طرح ایڈورڈ سعید نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، مصنف نے اس کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے۔
ڈاکٹر رابعہ سرفراز
ایڈورڈ سعید کے تنقیدی نظریات کا تجزیاتی مطالعہ (اسلام، مغرب اور مغربی میڈیا کے حوالے سے)
۱۵۔
۲۳۳
تا
۲۳۸
شیخ سعدی کا شمار فارسی زبان کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے۔ شیخ سعدی کا کلام کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں انگریزی بھی شامل ہیں۔ یہ مضمون شیخ سعدی کے مختلف انگریزی تراجم کے تجزیاتی مطالعے کا احاطہ کرتا ہے۔
ڈاکٹر اصغر علی بلوچ
گلستان سعدی کے انگریزی تراجم
۱۶۔
۲۳۹
تا
۲۵۸
''خوشبو'' تاریخ انسانی میں انسان کے جمالیاتی احساس کی شناخت رہی ہے۔ مذکورہ مضمون خوشبو کی مختلف اقسام، استعمالات اور جدید خوشبویات کی تیاری کے معلوماتی جائزے پر مشتمل ہے ۔ مصنف نے گہرے مطالعے سے احساسات پر خوشبو کے اثرات اور انسانی تاریخ میں خوشبو کے استعمال کا تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر کوثر محمود
خوشبو کی حقیقت: ایک تحقیقی مطالعہ
۱۷۔
۲۵۹
تا
۲۷۲
آزادیٔ اظہار انسان تاریخ کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے۔محقق نے اس مضمون میں تاریخ انسانی میں آزادی اظہار کی مختلف صورتوں اور ان پر لگائی جانے والی پابندیوں کا ناقدانہ تجزیہ کیا ہے۔نیز جدید عہد میں آزادی اظہار کی ضرورت اور اہمیت کا تجزیہ بھی کیا ہے۔
ڈاکٹر ارشد معراج
آزادیٔ اظہار کے جدید تصورات
۱۸۔
۲۷۳
تا
۲۹۲
زبان انسانی ضروریات اور احتیاجات کو پورا کرنے اور اظہار اور رابطے کا نام ہے۔مذکورہ مضمون بلوچستان میں اردو زبان کے فروغ کی سیاسی اور سماجی وجوہات کے جائزے پر مشتمل ہے۔ نیز یہ تجزیہ بھی کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں اردو کن عوامل کے اشتراک سے پنپ سکی ہے۔
ڈاکٹرآغا ناصر
بلوچستان میں اردو کے فروغ کی سیاسی و سماجی وجوہات
۱۹۔
۲۹۳
تا
۳۰۴
زیر نظر مضمون میں محقق نے منٹو کے مضامین کے حوالے سے ان کی عصری صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ مضامین منٹو عہد منٹو کو سمجھنے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔مضمون نگار نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مضامین منٹو کے ذریعے منٹو کا تخلیقی عمل سمجھنے میں زیادہ سہولت میسر ہوگی۔
سیدکامران عباس کاظمی
مضامین منٹو میں عصری آگہی
۲۰۔
۳۰۵
تا
۳۱۸
تنویر سپرا اُردو میں مزاحمتی شاعری کی روایت کا ایک اہم شاعر ہے۔ تنویر سپرا نے شاعری کے ساتھ ساتھ عملی سیاست میں بھی حصہ لیا۔زیر بحث مضمون میں مصنف نے مزاحمتی شاعری کی روایت کا جائزہ لیتے ہوئے سپرا کے شعری موضوعات کا محاکمہ کیا ہے۔
ڈاکٹر محمدآصف
جدید صنعتی مزدور غزل گو: تنویرسپرا
۲۱۔
۳۱۹
تا
۳۲۸
مثنوی کدم رائو پدم رائو کی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ اس مضمون میں مصنفہ نے مثنوی کا تعارفی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔مصنف کے احوال کے ساتھ ساتھ مثنوی کی املا اور جدید املا کا تقابل نیز روزمرہ، محاورات اور ضرب الامثال وغیرہ کا بھی جائزہ لیا ہے۔
فضیلت بانو
مثنوی کدم راؤ پدم راؤ (مرتبہ: ڈاکٹر جمیل جالبی)کی ترتیب و تنظیم: تجزیاتی مطالعہ
۲۲۔
۳۲۹
تا
۳۳۴
اس مضمون میں مصنف نے تاریخ اردو ادب میں نظریاتی مباحث کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ ادب کے کسی عہد کا تجزیہ کرتے ہوئے ادب کی سماجیاتی تشکیل ایک ناگزیز عمل ہے اور کسی بھی عہد کے ادب میں اس عہد کی سیاست، معاشرت، تہذیب اور لسانی ارتقاء وغیرہ کیا اثرات مرتب کرتے ہیں، مصنف نے ان کا جائزہ لیا ہے۔
قاسم یعقوب
ادبی تاریخ نویسی میں نظریاتی مباحث کا مسئلہ
۲۳۔
۳۳۵
تا
۳۶۸
مذکورہ مضمون میں مصنف نے مغربی پنجاب پر دو بڑی تہذیبوں کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مسلم تہذیبی اثرات زرعی سماج کے ساتھ مل کرکس نوعیت کی سماجی تشکیل کرتے ہیں نیز جدید انگریز سماج نے سماجی تشکیل میں کیا تبدیلیاں پیدا کی ہے۔
عمران ازفر
مغربی پنجاب پر مسلم اور انگریز معاشرت کے اثرات
۲۴۔
۳۶۹
تا
۳۷۴
ترجمہ ہمیشہ سے دو مختلف تہذیبوں کے درمیان ایک پل کا کام دیتا رہا ہے ۔ مذکورہ مضمون میں مصنفہ نے ترجمہ اور اس کے مختلف اسالیب کا جائزہ لیا ہے۔
فرخندہ امین
ترجمہ اور تشکیل اسالیب
۲۵۔
۳۷۵
تا
۳۸۰
احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک کے اساسی رکن تھے۔ زیر بحث مضمون میں مصنف نے قاسمی صاحب کے ترقی پسند نظریات کا جائزہ ان کے تخلیقی ادب کی روشنی میں لیا ہے۔
ڈاکٹر روش ندیم
احمد ندیم قاسمی کی ترقی پسند نظم
۲۶۔
۳۸۱
تا
۳۸۴
مصنفہ نے اس مضمون میں قاسمی صاحب کے تخلیقی عمل کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ قاسمی صاحب کے ترقی پسندانہ تصورات سکّہ بند ترقی پسند نظریہ ادب سے کیوں کر متصادم ہیں۔
ڈاکٹر سعدیہ طاہر
احمد ندیم قاسمی: تخلیقی عمل یا تخلیقی واردات
۲۷۔
۳۸۵
تا
۳۸۸
جدید اُردو نظم میں ضیا جالندھری ایک معتبر آواز ہے ۔ زیر بحث مضمون میں مصنف نے کراچی کے پس منظر میں لکھی گئی ضیا جالندھری کی ایک طویل نظم 'بڑا شہر' کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔
علی محمد فرشی
ضیا جالندھری کی نظم ''بڑا شہر'' کا تجزیاتی مطالعہ
۲۸۔
۳۸۹
تا
۳۹۶
مذکورہ مضمون مستنصر حسین تاڑر کے فی الوقت آخری ناول 'خس و خاشاک زمانے' کے موضوعات اور اسلوب کو سمجھنے کی ایک اچھی کاوش ہے۔مصنف نے مذکورہ مضمون میں ناول کے تاریخی اور تہذیبی پس منظر کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خان
خس و خاشاک زمانے اور نئے آدم کی تلاش
۲۹۔
۳۹۷
تا
۴۰۸
یہ مضمون ناول کا مابعد جدید تجزیہ پیش کرتا ہے۔ مضمون نگار نے مضمون میں ناول کے ماورائے فکشن عناصر اور طلسماتی حقیقت پسندی وغیرہ کا تجزیہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر محمد سفیر اعوان
خس و خاشاک زمانے: ایک مابعد جدید تجزیہ
۳۰۔
۴۰۹
۴۱۶
مضمون' بوڑھا اور سمند ر' ناول کا تجزیاتی مطالعہ ہے۔ مصنف نے ناول پر اُردو تنقید کے حوالے سے بعض نئے گوشوں کو دریافت کیا ہے اور ان کاتجزیہ کیا ہے۔
طاہر مسعود
بوڑھا اور سمندر (ہیمنگوے): ایک تجزیاتی مطالعہ
۳۱۔
۴۱۷
تا
۴۳۰
معیار کے شمارہ- ۸ سے اشاریہ سازی کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس شمارے میں اشاریہ کو فقط شخصیات تک محدود رکھا گیا ہے۔شخصیات کی الفبائی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے۔
سیدکامران عباس کاظمی
اشاریہ
۳۲۔

ضیائے تحقیق: (۳)؛ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۲ء ؛ شعبہ علومِ اسلامیہ ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد

آغاز: جنوری ۔ جون ۲۰۱۲ء اولین ؍ موجودہ مدیر: ڈاکٹر عمر حیات کل شمارہ جات: ۳

صفحات
خلاصہ مقالہ
مقالہ نگار
عنوان مقالہ
۹ تا ۲۸
اگرچہ قرآن کے ساتھ ساتھ ''حدیث'' بھی رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے جاری ہوئی لیکن دونوں میں فرق قائم رکھنے کے لیے خصوصی اہتمام کیا گیا۔ تاہم مستشرقین و مخالفین اسلام کی طرف سے ذخیرہ احادیث میں سے کچھ باتوں کو قرآن سے منسوب کر کے پیش کیا جاتا ہے جس سے امت کے اندر غلط فہمی، بے چینی اور قرآن کے بارے میں شک و شبہ پیدا کرنا مقصود ہے۔ مضمون ہذا ان روایات کے بارے میں تنقیدی و تحقیقی مطالعے پر مشتمل ہے جن کے بارے میں مستشرقین نے منفی تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر محمد اکرم ورک
گوجرانوالہ پاکستان
قرآن سے منسوب بعض روایاتِ حدیث__نقد و نظر
۱۔
۲۹ تا ۴۴
جو فکر و شعورانسان کو ودیعت ہوا وہ کسی اور مخلوق کے حصے میں نہیں آیا۔ اسی بنا پر انسان ذمے دار بھی ہے اور انجام کار جواب دہ بھی۔مذہب کی توجہ کا مرکز انسان اور اس کی کارکردگی ہے۔ اگرچہ مختلف مذاہب عالم نے اسے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا ہے تاہم اس کی انفرادی اور مرکزی حیثیت کا انکار کسی نے نہیں کیا۔ اس مضمون میں مذاہب عالم کی روشنی میں انسان کی حیثیت کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی
فیصل آباد، پاکستان
انسان __مذاہب کی روشنی میں
۲۔
۴۵ تا ۵۳
اسلام قبول کرنے کے بعد سیدنا عثمان غنی ؓ نے کثرت سے انفاق فی سبیل اللہ کیا جس کی بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ خلیفۂ وقت کی حیثیت سے آپؓ نے عوام کے لیے رفاہی حکمتِ عملی ترتیب دی تاکہ ان کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کی جائیں۔
حافظ محمد سلیمان اسدی
گوجرانوالہ پاکستان
حضرت عثمانؓ ذوالنورین کی رفاہی حکمتِ عملی
۳۔
۵۴ تا۶۸
یہ مضمون علاء الدین ابوبکر بن احمد الکاسانی کی تصنیف ’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘‘ کے بارے میں ہے۔ یہ فقہ کی کتاب سات جلدوں پر مشتمل ہے۔ مضمون میں کتاب کا فکری و فنی جائزہ پیش کرتے ہوئے اس کی وجہ تسمیہ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ مدلل طور پر کتاب کی خصوصیات زیرِ بحث لائی گئی ہیں۔
ڈاکٹر محمد عثمان
جھنگ،پاکستان
’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘‘کا فکری و فنی جائزہ
۴۔

تا

۶۹ تا۸۰

مغربی روشن خیالی کا آغاز سترھویں صدی میں یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے نتیجے میں ہوا تھا جس نے رفتہ رفتہ باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مذہب سے بیزاری کا عنصر شامل ہوگیا چنانچہ یہ تحریک سیکولرازم؍ لبرل ازم میں تبدیل ہو گئی۔ روشن خیالی کا حقیقی تصور دین اسلام پیش کرتاہے جس کا مقصد انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم اور حقیقت کی روشنی میں لانا ہے اور اُس پر اصل مقصد حیات واضح ہوتا ہے۔اس مضمون میں اس حوالے سے جامع بحث کی گئی ہے۔
عابدہ حیات،
فیصل آباد
پاکستان
مغربی فکر میں روشن خیالی کا تصور اور اسلامی نقطۂ نظر
۵۔
۸۱ تا ۹۳
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور اپنے پیروکاروں کو رواداری کا درس دیتا ہے۔ عرفِ عام میں جن لوگوں کو مسلم معاشرے کے اندر صوفیہ کہا جاتا ہے انہوں نے بھی رواداری کے فروغ میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور لوگوں کو امن و محبت کا درس دیا۔ اس مضمون میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے صوفیائے کرام بابا بلّھے شاہ، خواجہ غلام فرید، شاہ حسین اور بابا فرید گنج شکر کی تعلیمات اور ان کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ارشد منیر لغاری؍ ڈاکٹر غلام علی خان
ڈیرہ غازی خان ؍ لاہور ،پاکستان
مذہبی رواداری اور صوفیائے پنجاب
۶۔
۹۴
تا ۱۰۴
اس مضمون میں جوبلی (Jubilee) کے لغوی و اصطلاحی مفہوم پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بائبل کے حوالے سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جوبلی منانے کی روایت کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے اور تاریخِ اسلام میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا
ڈاکٹر عبدالرشید قادری ؍ ڈاکٹر مطلوب احمد رانا فیصل آباد، پاکستان
بائبل اور قرآن کی روشنی میں جوبلی کی روایت کا جائزہ
۷۔
۵
تا
۲۱
یہ مضمون فقہی نوعیت کا ہے جو قیاس کے بارے فرقہ ظاہریہ کے اختلافی دلائل کے تنقیدی جائزے پر مشتمل ہے۔ اگرچہ تمام فقہی مکاتب فکر اور مسلم مفکرین کی بھاری اکثریت قیاس کو قرآن و حدیث اور اجماع کے بعد شرعی احکام کے استنباط کے لیے چوتھے جائز اور قابلِ قبول ماخذ کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ تاہم ظاہری مکتب ِفکر قیاس کی صحت کا انکار کرتا ہے اور اسے ماخذ شریعت کی حیثیت سے رد کرتا ہے۔
Dr. Muhammad Rafiq Habib Scotland (UK)
A critial analysis of Zahiri's Arguments against the methodology of Qiyas
۸۔
۲۲
تا
۳۲
کسی بات کے ثبوت یا عدم ثبوت میں شہادت یا گواہی کا بنیادی کردار ہے۔ خاص طور پر عدالتوں میں پیش ہونے والے مقدمات میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسلامی قانون میں شہادت کے حوالے سے باقاعدہ ہدایات جاری کی گئی ہیں اور گواہ کو ضابطے کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ صرف سچ بولے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہو۔ مضمون ہذا میں اس حوالے سے بھرپور اور جامع وضاحت کی گئی ہے۔
Dr. Humayun Abbas / Hafiz Muhammad Siddique Faisalabad / Islamabad (Pakistan)
Testimony and its importance in Islamic Law
۹۔

سہ ماہی فکر ونظر ، جولائی-ستمبر ۲۰۱۲ئ، ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

آغاز: جولائی-اگست ۱۹۶۳ء مدیر : ڈاکٹر محمد خالد مسعود، خورشید احمد ندیم اوّلین مدیر : ڈاکٹر فضل الرحمن کل شمارہ جات: ۳۵۹

۵
تا
۲۸
سزائے قید ایک معروف اسلامی تعزیر ہے جو دنیا کی معلوم تاریخ کے تمام ادوار میں رائج رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں تعزیر کے پُر تشدد اطلاقات کی وجہ سے اس کے جواز کا مسئلہ اہل علم کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے ہوئے ہے۔ اس مقالہ میں سزائے قید سے متعلقہ قرآنی احکام اور اُن کے بارے میں علماء تفسیر کی مختلف آراء کا جائزہ مفصل دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ قرآن حکیم نے سزائے قید کو منسوخ نہیں کیا بلکہ اس کی تطبیقات کو عدل و انصاف کے ارفع اسلامی معیار اور شرفِ آدمیت کے تحفظ کے ساتھ مشروط کر کے تمام تعزیری جرائم اور مالی و دیوانی معاملات تک اس کی تطبیقات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں سزائے قید کا مقصد افرادِ معاشرہ کے جملہ حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے تاکہ وہ آئندہ قانون و شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے پُرامن زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
افتخار الحسن میاں
اسلام آباد
(پاکستان)
سزائے قید کے قرآنی احکام: علماء تفسیر کی آراء کا جائزہ
۱
۲۹
تا
۵۸
اس مقالہ میں حیوانات کی حلّت و حرمت کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اُن سے اخذ کردہ مذاہبِ اربعہ کے فقہاء کے اصول و قواعد سے بحث کی گئی ہے۔ فقہاء نے حرام قرار دیے گئے جانوروں، درندروں، چرندوں اور حشرت الارض کی حرمت کے جو علل و اسباب چودہ سو برس قبل بیان کیے تھے، مقالہ نگار نے ان کا جدید علم الحیوانات سے موازنہ کر کے ان کی صحت کے قابل قدر دلائل فراہم کیے ہیں۔
ڈاکٹر حافظ
مبشر حسین
اسلام آباد
(پاکستان)
حیوانات کی حلت و حرمت: فقہاء کی آراء اور علم حیوانات
۲-
۵۹
تا
۹۸
مسلمان اہل علم کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ تورات (اسفار خمسہ) کا نزول یک بار ہوا۔ اسی طرح اہل اسلام میں تورات پر تنقید کی جو روایت آگے بڑھی، وہ بالعموم متن کے تضادات اور تحریف کے پہلو تک محدود رہی۔ اس کے برخلاف مغرب میں فروغ پانے والی تنقیدی روایت میں تورات کی تصنیف اور تدوین جیسے معاملات پر متعدد نظریات نے جنم لیا۔ ’’دستاویزی نظریہ‘‘ کے مطابق موجودہ متن کم ازکم چار ذرائع سے روایت ہوا ہے اور اسے موجودہ صورت سیدنا موسیٰ ؑکے انتقال سے کئی صدیوں بعد ملی۔ اگرچہ اس نظریے سے مسلمانوں کے اس تصور کی تائیدہوتی ہے جس کے مطابق تورات میں تحریف ہوئی لیکن اس کے کچھ اور مضمرات بھی ہیں جو مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ مصنف کے نزدیک اہل اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ تورات کے تنقیدی مطالعے کی ایک ایسی روایت کو فروغ دیں جس میں تورات کے متن کی حقیقت کو سمجھا جائے اور ’’اصل تورات‘‘ کی بازیافت کے لیے ایک معیار تشکیل دیا جائے۔
محمد مشتاق احمد
اسلام آباد
(پاکستان)
تورات کی تدوین کا ’’دستاویزی نظریہ‘‘ : ایک تنقیدی جائزہ
۳-
۹۹
تا
۱۲۶
دولت استحصال کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اسلام فرد کے حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن فرد اور اجتماعیت کے مفادات میں ایک توازن پیدا کرتا ہے تاکہ دولت کے پیدا کردہ استحصال سے دونوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ اسلام کا زاویۂ نظریہ ہے کہ دولت و وسائل کا حقیقی مالک اللہ ہے، فرد اسے اللہ کی نیابت میں زیر استعمال لاتا ہے۔ اسے یہ حق نہیں کہ وہ اپنی دولت کے مصرف کا مطلق تعین کرے۔ اگر وہ مسلمہ اخلاقی ضوابط سے انحراف کرتے ہوئے اسے خرچ کرتا ہے یا بدعنوان ہے تو اس کا حق ملکیت چیلنج ہو سکتا ہے۔ شریعت کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ فرد خود کو اور دوسروں کو ضرر سے محفوظ رکھے۔ اس ضمن میں اگر انتخاب دو برائیوں میں ہو تو کم تر کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس پس منظر میں مصنف نے اس مقالے میں ’’اسلام میں عدل اجتماعی‘‘ کے حوالے سے فقہا ء کے خیالات بیان کرتے ہوئے، قرآن و سنت کی روشنی میں اس تصور کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔
احمد زکی یمانی
(سعودی عرب)
عدل اجتماعی اور اس کی اسلامی بنیادیں
۴
۱۲۹
تا
۱۳۳
اس تاریخی خطاب میں شاہ فیصل شہید نے مؤتمر کے رکن ممالک کی توجہ امت کو درپیش داخلی اور خارجی چیلنجوں کی طرف مبذول کراتے ہوئے عام انسانوں خصوصاً مسلمانوں کی فلاح کے ایسے منصوبے تیار کرنے پر زور دیا جن کے باعث ان کی دنیوی زندگی کی مشکلات دور ہو سکیں اور اُخروی زندگی میں نجات کے اسباب مہیا ہو سکیں۔ انھوں نے خاص طور پر کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺکے احکام پر غور و تدبر کر کے اسلامی تشخص کو فروغ دینے اور خود مسلمانوں کی پید اکردہ مشکلات کو حل کرنے کی ضرورت کا احساس اجاگر کیا ہے۔
شاہ فیصل شہید
(سعودی عرب)
نوادرات: مؤتمر عالم اسلامی کے اجلاس (۱۹۶۵ئ) سے افتتاحی خطاب
۵-

تعارف و تبصرے

دینی مدارس: روایت اور تجدید (علما ء کی نظر میں) (ڈاکٹر ممتاز احمد) ، تبصرہ نگار: ڈاکٹرسفیر اختر ؛ معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات (اوصاف احمد، عبدالعظیم اصلاحی)، تبصرہ نگار: پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر منصوری