'کیمیائی تالیف' پروفیسر محموداحمدخاں کی اب سے کم و بیش چوراسی سال قبل کی ایک ایسی سائنسی نگارش ہے جسے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے جنوری ۱۹۲۸ء میں جاری کردہ سہ ماہی 'سائنس' میں شائع ہونے کا شرف حاصل ہے۔
بابائے اردو برصغیر پاک و ہند میں تصنیف و تالیف کے ذریعے دور جدید کے مطابق علوم و فنون کے فروغ کی شدید تڑپ اپنے دل میں رکھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے جنوری ۱۹۲۸ء سے متحدہ ہندوستان میں انجمن ترقی اردو کے تحت سہ ماہی 'سائنس' کا اجراء کیا۔ یہ رسالہ دسمبر ۱۹۴۰ء تک سہ ماہی رہا جبکہ جنوری ۱۹۴۱ء سے اسے ماہنامہ کردیا گیا۔ اس کا آخری شمارہ ۱۹۴۸ء میں منظرعام پر آیا۔ اس کے اجراء پر نہ صرف ہندوستان بھر کے ماہرین سائنس بلکہ یورپ کے سائنس دانوں نے بھی مسرت کا اظہار کیا اور اپنے سائنسی مضامین ارسال کیے۔ اس رسالہ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے لوگوں میںسائنس کا ذوق اُبھارا اور اردو میں سائنسی موضوعات پر کئی نامور لوگ پیدا کیے۔
سہ ماہی سائنس ، کی ادارت کے لیے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے نہایت قابل اہل سائنس کا انتخاب کیا۔ اس کے پہلے مدیر صدرشعبہ کیمیا جامعہ عثمانیہ ڈاکٹر مظفرالدین قریشی بنائے گئے۔ رسالہ سائنس کی اولین مجلس ادارت میں خود مولوی عبدالحق کے علاوہ فاضل مدیر؛ ڈاکٹر ایس ایس بھٹناگر؛ ڈاکٹر محمد رضی الدین صدیقی؛ ڈاکٹر بابرمرزا؛ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی؛ ڈاکٹر محمدعثمان خاں؛ سیدہاشمی فریدآبادی؛ ڈاکٹر ڈی ایس کوٹھاری؛ ڈاکٹر غلام دستگیر؛ محموداحمدخاں؛ سیدشاہ محمد؛ محشرعابدی؛ آفتاب حسن اور محمدنصیراحمدعثمانی شامل تھے۔ رسالے کا دفتر حیدرآباد دکن میں قائم کیا گیا تھا جہاں جامعہ عثمانیہ کے ماہر اساتذہ نے اس کی ادارت اور تصنیف و تالیف کی خدمات احسن انداز سے انجام دیں۔
سہ ماہی 'سائنس' کی جلد اول سے منتخب کردہ اس مضمون کے مصنف پروفیسر محموداحمدخاں کا تعلق اردو ذریعہ تعلیم والی جامعہ عثمانیہ حیدرآباددکن سے تھا جہاں وہ شعبہ کیمیا میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ گویا انھیں نئی نسل کو سائنس اردو میں سمجھانے کا گُر خوب آتا تھا جو انھیں سائنس کی تصنیف و تالیف میں بھی کام آیا۔ اولین جلد میں ان کے مضامین کے معیار اور اردو میں سائنس کے اظہار بیان پر کامل قدرت کے طفیل بعدازاں ۱۹۲۹ء میں ہی بطور مدیر بابائے اردو کی نظر انتخاب انہی محموداحمدخاں پر پڑی اور انھیں ان کے بعد سائنس کا مدیر مقرر کردیا گیا۔ یاد رہے کہ پروفیسر محمدنصیراحمدعثمانی بھی ایک عرصے تک 'سائنس' نہایت عمدگی اور کمال ِ مہارت کے ساتھ مرتب کرتے رہے۔
زیرنظرمضمون 'کیمیائی تالیف' کے مطالعے سے بیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی ربع پر سائنسی اردو کے اسلوب اور سائنسی اصطلاحات کے استعمال کے طریق کار پرکھا جاسکتا ہے۔ مضمون میں فاضل مقالہ نگار نے اپنے دور میں روزمرہ کی سادہ ترین مثالوں سے جس طرح سائنس کی باریکیوں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، وہ اُن کی اپنے موضوع پر دسترس ، فنی مہارت اور سائنس کو اردو میں ڈھالنے پر کمال قدرت کا پتا دیتی ہے۔ یہ اردو اصطلاحات کے رواج اور سائنسی تحریر کو دلچسپ رکھنے کی ایک نہایت کامیاب کوشش ہے۔ مضمون میں بعض مقامات پر حسب ضرورت انگریزی اصطلاحات کی وضاحت زیرحاشیہ کی گئی ہے۔
مضمون کی زبان سادہ، سہل، عام فہم اور سلیس رکھی گئی ہے تاکہ جہاں نوآموز سائنس دان اور سائنسی ماہر ین میںاپنی زبان میں فروغ سائنس کا ذوق سلیم پیدا ہو، وہاں طالب علم بھی اسے مفید و کارآمد پاکر سائنسی شعور حاصل کریں۔ 'سائنس' اس دور کے رواج کے مطابق ٹائپ میں شائع کیا جاتا تھا لہٰذا ہمیں بعض الفاظ کے املاء میں ذرا اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔ اس سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ بہت سی انگریزی اصطلاحات کے لیے ہمارے ماہرین سائنس اردو اصطلاحات اس دور تک وضع کرچکے تھے جو ابھی تک رائج چلی آرہی ہیں۔ افسوس کہ ہم ان میں سے بیشتر کو استعمال کرنے میں اب بوجوہ عار محسوس کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنی زبان کی ترقی میں خود سدراہ ہیں۔اس دور میں نامانوس یا قدرے مشکل اردو اصطلاح کے ساتھ قوسین میں انگریزی اصطلاح لکھنے کو بھی رواج حاصل ہوا تاکہ ابہام پیدا نہ ہو۔ اردو وضع اصطلاحات میں بعض اوقات باامرمجبوری بالعموم تارید کا اصول ملتا ہے مگر اسمائے معرفہ جیسی اصطلاحات کو من و عن اردو املاء میں اختیار کرنے کا طریقہ بھی رائج پایا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وضع اصطلاحات کے ساتھ ساتھ اس دور کے ہمارے ماہرین انگریزی اسماء کو اردو املاء میں ڈھالنے کا التزام کیا کرتے تھے تاکہ اردو کے محاسن میں فرق نہ آئے اور اردو تیز رفتار ترقی سے ہمکنار ہو۔ گویا لسانی ارتقاء کے اس دور میں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن، انجمن ترقی اردو اودیگرعلمی مراکز پر سائنسی اردو کے گرامری اور لسانی اصول تجربات کی بنیاد پر از خود طے پارہے تھے۔
ہم مضمون ''کیمیائی تالیف'' کے مطالعہ سے بآسانی جان سکتے ہیں کہ جامعہ عثمانیہ اور انجمن ترقی اردو کا وہ عہد اردو کو بالعموم اور سائنسی اردو کو بالخصوص نئے دور سے ہم آہنگ کرنے کا دور تھا۔ قیام پاکستان سے اس میں مزید استحکام آیا اور نئی روایات نے بھی جنم لیا۔ سہ ماہی 'سائنس' جیسے جرائد اور پروفیسر محمود احمد خاں جیسے اہل قلم کے ہی طفیل اردو اس قابل ہوسکی کہ جدید ترین سائنسی خیالات و نظریات کو بیان اور نئے اصول و قوانین کو وضع کرسکے۔ اس انتخاب کا مقصد یہی جائزہ لینا تھا کہ ہم اس روایت کو کس حد تک آگے بڑھاپائے ہیں۔
مدیر
کیمیائی تالیف
از
(جناب مقصود احمد خاں صاحب)
ہرشخص اس بات سے واقف ہو گا کہ جب بچے میں ہاتھ پاؤں ہلانے کی سکت آ جاتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی قوت کو چیزوں کے توڑنے پھوڑنے میں صَرف کرتا ہے جو چیز اُس کے ہاتھ میں آتی ہے اُس کو زمین پر دے مارتا ہے، فرش پر پٹک دیتا ہے ۔ اس کو یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ یہ چیز قیمتی یا نایاب ہے یا وہ چیز حقیر اور بے قیمت ہے۔ ہر شے کے ساتھ اُس کا سلوک یکساں ہوتا ہے ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اُس میں ایک نءی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اب وہ چیزوں کو توڑںے کے بجائے جوڑنے لگتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو جمع کر کے طرح طرح سے ترتیب دیتا اور نئی نئی شکلیں بناتا ہے۔ یہ دو مختلف منزلیں جو بچے کو اپنی زندگی مین طے کرنی پڑی ہیں، علم کیمیانے بھی اپنے نشو و ارتقامیں طے کی ہیں۔ پہلی منزل میں کیمیا دانوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ جو اشیا قدرتی طور پر پاءی جاتی ہیں ۔ اُن کو مختلف طریقوں سے توڑ پھوڑ کر وہ سادہ ترین اجزا یا عناصر دریافت کیے جائیں جن پر وہ مشتمل ہیں۔ دوسری منزل میں اُن کا مقصود یہ رہا ہے کہ سادہ تر اشیاء کو جوڑ کر اُن سے مختلف چیز یں جو دُنیا میں قدرتی طور پر پاءی جاتی ہیں تیار کی جائیں۔
توڑ پھوڑ کے اس عمل کو کیمیا کی زبان میں تشریح ۰ کہتے ہیں۔ تشریح سے انسان کی معلومات میں اضافہ ہی نہیں ہوا بلکہ بعض کیمیاءی مسائل کے متعلق زمانۂ قدیم کے کیمیا گروں نے جو عجیب و غریب نظرئیے قائم کر رکھے تھے اُن کی بھی تردید ہوئی ۔اس کے برعکس عمل یعنی مفرد چیزوں کو جوڑ کر مرکبات کا تیار کرنا تالیف+ کے نام سے موسوم ہے۔ کسی کتاب کے مؤلف کو مختلف ذرائع سے مواد فراہم کر کے اپنی تالیف کی تیاری میں جس قدر اہتمام درکار ہے ، کیمیاں داں کو کیمیائی مرکب کی تالیف کے لیے مختلف اجزا کو ترتیب دینے میں اُس سے کچھ کم اہتمام نہیں کرنا پڑتا۔
اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو چیزیں قدرتی طور پر بہ آسانی دستیاب ہو جاتی ہیں اُن کو خود تیار کرنے کی زحمت کیوں برداشت کی جائے؟ مبدء فیض سے جو چیزیں ہمیں عطا ہوئیں ہیں کیوں نہ اُن پر قناعت کی جائے ؟ کیمیائی تالیف کے گورکھ دھندے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب ایک نہایت آسان مثال سے دیا جا سکتا ہے۔
+ تالیف سے مراد Synthesis ہے، جسے بالعموم ترکیب کہتے ہیں لیکن لفظ ترکیب بھی کیمیا میں ایک اور مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
نباتا ت کی غذا کے لیے جو اشیاء درکار ہیں ، اُن میں سے ایک نائٹروجن ہے۔ یہ گیس، ہوا کا جزو اعظم ہے اور اُس میں آکسیجن اور بعض اور گیسوں کے علاوہ پائی جاتی ہے۔ نائٹروجن کی اس کثیر مقدار کے باوجود جو ہوا میں موجود ہے، درخت اور پودے اس سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتے۔ یہ نائٹروجن ہوا میں آزادانہ موجود ہے، کسی دوسری چیز کے ساتھ کیمیائی طور پر ملی ہوئی نہیں ہے اورآزاد نائٹروجن نباتات کی غذا کا کام نہیں دے سکتی۔ جب تک نائٹروجن کسی ایسے مرکب کی شکل اختیار نہ کر لے جو پانی میں حل ہو جاتا ہو وہ پودوں کے لیے کارآمد *نہیں ہو سکتی۔ زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد استعمال کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں ۔ سوڈیم نائٹریٹ جو نائٹروجن کا ایک حل پذیر مرکب ہے، ان اغراض کے لیے بہ کثرت کام میں لایا جاتا ہے۔ یہ شے ملک چلی ( جنوبی امریکا) میں قدرتی طور پر پائی جاتی اور وہاں سے کثیر مقدار میں دُنیا کے مختلف حصوں کو روانہ کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کو چلی کا شورہ بھی کہتے ہیں۔ اگر سوڈیم نائٹریٹ کا صرفہ اسی رفتار سے جاری رہے تو ذکائر کی فروانی کے باوجود اُمید نہیں پڑتی کہ بیس پچیس سال سے زیادہ عرصے تک یہ مقدار کام دے سکے۔ اسی بات سے کیمیا دانوں کو یہ ترغیب ہوءی کہ ہواءی نائٹروجن کے غیر مختقم ذخیرے سے کام لینے کا کوئی طریقہ نکالا جائے۔ اُنھوں نے پے بہ پے تجربے کر کے آخر کار ایسا طریقہ ڈھونڈ نکالا جس سے ہوا کی آزاد نائٹروجن اپنے ایک مرکب کی شکل میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔ یہ مرکب کیلیسم نائٹریٹ ہے اور سوڈیم نائٹریٹ کی طرح کھاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ہوائی نائٹرجن سے تالیفاً تیار کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے عرف عام میں ہوائی شورے کے نام سے موسوم ہے۔ ہوائی شورے کی تالیف کے کامیاب ثابت ہونے سے اب اس بات کا اندیشہ نہیں رہا کہ سوڈیم نائٹریٹ کا ذخیرہ ختم ہو جانے کے بعد ہم اس قسم کی کھاد کے ذرائع سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائیں گے۔
اس مثال سے یہ بغوبی ظاہر ہو گیا ہو گا کہ عمل تالیف کے ذریعے سے ہم کیونکر قدرت کی پیروی کر کے بعض مفید نتائج حاصل کر سکتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ابتدا میں اس قسم کا کام محض علمی تحقیق کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا تھا اور اس سے کسی مالی فائدے کی توقع قائم نہ کی گئی تھی۔
بہت سے کیمیا دانوں نے اپنی عمر عزیز قدرت کے راز ہائے سر بستہ کے انکشاف میں صرف کی ہے۔ اُن کی غرض جلب ملفعت نہ تھی بلکہ اُن کا مقصد نباتا ت کی غذا کے لیے جو اشیاء درکار ہیں ، اُن میں سے ایک نائٹروج صرف حقائق اشیا سے واقفیت پیدا کرنا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اُن کی محنت اور عرق ریزی سے بعض ایسے نتائج مترتب ہوئے جن کی صنعت و حرفت میں کارآمد ہونے کی وجہ سے آگے چل کر لوگوں نے کافی مالی فائدہ حاصل کیا۔ آج کل کیمیا کا تاجرانہ پہلو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ ہر کار خانے کے ساتھ تجربہ خانے کا وجود ضروری ہے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اُس تحقیق و تدقیق کا درجہ جوتاجرانہ اغراض سے کی جاتی ہے اس تلاش و جستجو سے بہت گھٹا ہوا ہے۔
تالیفی کیمیا کی اصل ابتدا سنہ ۱۸۲۸ع سے ہوتی ہے، جب کہ ایک جرمن کیمیا داں فریدرش وھار۰ کے اس معرکۃ الآرا انکشاف کی وجہ سے یہ سال کیمیا کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ایک غیر فن داں اس واقعے کی اہمیت کا پورے طور پر اندازہ نہیں کر سکتا بلکہ اگر وہلر کے انکشافات کی طول و طویل فہرست عام لوگوں کے سامنے پیش کی جائے تو وہ یقیناً اس کے بعض اور کارناموں کو دلچسپ اور مفید ہونے کے لحاظ سے یوریا کی مصنوعی تیاری پر ترجیح دیں گے ۔ اگر مدرسے کے کسی طالب علم سے پوچھا جائے تو وہ شاید وہلر کو محض مرکزی تھایو سائینیت کے انکشاف کی وجہ سے مبارک باد خیال کرے گا کیونکہ اُس طالب علم کے لیے اس سے زیادہ دلچسپ بات اور کوءی نہیں ہو سکتی کہ سفید رنگ کی ایک چھوٹی سی گولی صرف دیا سلائی دکھانے پر سانپ بن جائے گی۔ کسی ہوا باز کی رائے دریافت کی جائے تو وہ غالباً آلومینیئم کی تیاری کو وہلر کی سب سے درخشاں کامیابی قرار دے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہلر کی ناموری کا باعث مرکزی تھایو سائینیت یا آلو مینیئم کی تیاری نہیں بلکہ وہ چیز جس سے اس کی شہرت تا ابد برقرار رہے گی یوریا جیسی حقیر شے کا مصنوعی حصول ہے۔
یوریا ایک حیوانی شے ہے جو پیشاب میں پائی جاتی ہے۔ حیوانات کے جسم میں ایسے مادوں کی تحلیل سے جن میں نائٹروجن شامل ہو یوریا بنتا اور فضلے کے طور پر خارج ہو جاتا ہے۔ جوان آدمی پیشاب میں اوسطاً آدھی چھٹانک یوریا روزانہ خارج کرتا ہے۔ وہلر کے زمانے *میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ نباتات اور حیوانات کے جسموں میں جو اشیاء پائی جاتی ہے وہ ایک خاص قوت کے زیر اثر پیدا ہوتی ہے ، جسے "قوت حیات" کہتے ہیں۔ یہ اشیاء بے جان چیزوں سے مصنوعی طور پر تیار نہیں کی جا سکتیں۔ صرف اجسام نامیہ میں قوت حیات کے ذریعے سے بنتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان نباتاتی اور حیوانی ذرائع سے حاصل ہونے والی اشیاء کو نامیاتی مرکبات کے نام سے موسوم کیا گیااور دوسری چیزیں جن کا ماخذ نباتات یا حیوانات نہیں، غیر نامیاتی اشیا کے
+ Urea : اس کیمیائی نام کا اب ایسالید (Carbamide ) ہے۔
۰ Friedrich Wohler
زمرے میں شامل کی گئیں۔جب وہلر نے خاص غیر نامیاتی اشیا سے اپنے تجربہ خانے میںیوریا تیار کر لیا تو قوت حیات کا وہ قدیم نظریہ جس کا ادھر ذکر کیا گیا ہے ، باطل ٹھہرا۔ یعنی یہ ثابت ہو گیا کہ ایسی چیزیں جو جاندار اجسام پیدا کرتے ہیں محض بے جان ذرائع سے بھی مصنوعی طور پر بنائی جاسکتی ہیں۔ وہلر کے بعد اور بے شمار نامیاتی چیزوں کی تالیفی تیاری سے اس کی مزید تصدیق ہوئی اور اب آئے دن نئے نئے نامیاتی مرکبات تالیفاً تیار ہوتے رہتے ہیں۔
اس موقع پر نا مناسب نہ ہو گا کہ وہلر کے اس معرکۃ الآرا انکشاف کا کسی قدر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جائے۔ تاکہ ناظرین کو اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ مختلف کیمیائی عملوں کے ایک سلسلے سے یہ حیوانی چیز کس طرح تجربہ خانے میں مصنوعی طور پر بن سکتی ہے۔ وہ غیر نامیاتی چیز جس کا یوریا سے بہت قریبی تعلق ہے کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن کا ایک مرکب ہے جسے امونیم سائینت* کہتے ہیں۔ وہلر نے یہ دریافت کیا کہ اگر اس چیز کو پانی میں حل کر کے گرم کریں اور پانی کو خشک کر دیں ، تو اس کا بیشتر حصہ خود بخود یوریا میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ پس اگر کسی طرح سے ہم یہ ثابت کر دیں کہ امونیم سائنیت اپنے اجزا سے آغاز کر کے تجربہ خانے میں تیار کیا جاسکتا ہے تو پھر ہم یہ دعویٰ بھی کرسکیں گے کہ یوریا بھی مصنوعی طور پر تیر ہو سکتا ہے۔ امونیم سائنیت کی تیاری کے لیے ایسیٹلین (Acctylene ) سے ابتدا کی جاتی ہے۔ یہ وہی گیس ہے جو بائیسکلوں اور موٹروں وغیرہ کی تندیلوں میں کیلسم کاربائیڈ پر پانی ٹپکانے سے پیدا ہوتی اور روشنی کے کام آتی ہے۔ اس گیس کے اجزا کاربن اور ہائیڈروجن ہیں اور محض ان دونوں چیزوں کو لے کر، کہ یہ دونوں غیر نامیاتی ہیں یہ گیس تیار کی جاسکتی ہے۔
اب اگر ایسیٹلین گیس میں نائٹروجن ملا کر برقی شراروں کے زیر اثر رکھا جائے تو یہ دونوں گیسیں ایک دوسرے کےس اتھ کیمیائی طور پر مل جاتی ہیں اور ہائیڈرو سائینک۰ ترشہ بنتا ہے ۔ ی مرکب ایک سم قاتل ہے ۔ ہائیڈرو سائینک ترشے میں کاوی پوتاش+ ملانے سے پوٹاشیم سائنیفائیڈ پیدا ہوتا ہے جو پوتاشیم ، کاربن اور نائٹروجن کا ایک ٹھوس مرکب ہے۔پوتاشیم سائینفائیڈ کو اگر لوہے کی رکابی میں رکھ کر گرم کریں تو وہ بہت ہی جلد پگھل کر اور اس کے ساتھ ہی ہوا سے کچھ آکسیجن جذب کر کے پوتاشیم سائینت میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ آخر الذکر شے کو پانی میں حل کر کے امونیم سلفیت ++ملائیں تو اجزا کا دو طرفی تبادلہ ظہور میں آتا ہے جس سے امونیم سائنیت اور پوتاشیم سلفیت بنتا ہے ۔ امونیم سائنیت اور یوریا کے متعلق یہ
* Ammonium cyanate
ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ ان دونوں مرکبوں میں نہ صرف ایک ہی طرح کے اجزا پائے جاتے ہیں بلکہ ان اجزا کا تناسب بھی یکساں ہے ۔ فرق صرف اُس تریب میں ہے جس سے یہ اجزا باہم متعد ہیں۔ چنانچہ حل شدہ امونیم سائینت کو گرم کر کے جب پانی اُڑا دیا جاتا ہے تو اجزا کی نوعیت یا مقدار میں کسی تغیر کے بغیر ان کی باہمی ترتیب بدل جاتی ہے اور امونیم سائینت یوریا کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یوریا کی اس تدریجی تالیف میں جو مختلف مراحل طے کرنے پڑتے ہیں، اُن کو مختصراً تعبیر کرنے کا حسبِ ذیل طریقہ شاید سب سے زیادہ عام فہم ہو گا۔
اس موقع پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ یوریا کی متذکرہ بالا تالیف میں کاربن، ہائیڈروجن ، آکسیجن اور نائٹروجن کے علاوہ تین اور مرکب ( یعنی کاوی پوٹاش ، پانی اور امونیم سلفیٹ ) بھی استعمال کئے گئے ہیں ۔ لیکن یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تینوں مرکب بھی اپنے اپنے اجزا ء سے آغاز کر کے تیار کئے جا سکتے ہیں۔ پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یوریا جو حیوانی ذرائع سے قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے ۔ موض اپنے اجزا کے اتحاد سے مصنوعی طور پر تیار کیا جا سکتا ہے۔