جمشید عالم
پاکستان میں صوبوں کا نظام حکومت

باب نمبر ۱ وفاق پاکستان کی اکائیاں

۱۔ وفاقی جمہوریہ کے علاقے:
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے جو چار وفاقی اکائیوں اور دیگر علاقوں* پر مشتمل ہے۔ ہر وفاقی اکائی کو صوبہ کہتے ہیں۔ ان چارصوبوں اور دیگر علاقوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ صوبہ بلوچستان ، صوبہ پنجاب، صوبہ خیبرپختون خوا اور صوبہ سندھ؛
۲۔ دارالحکومت اسلام آباد کا علاقہ؛
۳۔ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے؛ اور
۴۔ ایسی ریاستیں اور علاقے جو الحاق کے ذریعے یا کسی طریقے سے پاکستان میں شامل ہوجائیں۔ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) بذریعہ
قانون وفاق میں نئی ریاستوں یا علاقوں کو ایسی قیود و شرائط پر داخل کرسکے گی جو وہ مناسب سمجھے۔
وفاق پاکستان کی اکائیاں (صوبہ جات)

۲۔ وفاقی بنیادی ادارے:
ایک جدید ریاست کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وفاقی سطح پر ریاست کے تین بنیادی ادارے ہیں۔
۱۔ مقننہ (قانون ساز ادارہ) : مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) جو صدرمملکت اور دو ایوانوں (سینیٹ و قومی اسمبلی) پر مشتمل ہے۔
۲۔ انتظامیہ: وفاقی حکومت ؛وفاق کے تحت قبائلی علاقہ جات کی انتظامیہ اور علاقہ دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ
۳۔ عدلیہ : عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان)
صوبائی بنیادی ادارے:
(۱) وفاق پاکستان کے تین بنیادی اداروں کی طرح، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی رُو سے ہر صوبے میں بھی تین بنیادی اداروں کی تشکیل کی گئی ہے۔
۱۔مقننہ (یک ایوانی قانون ساز ادارہ): صوبائی اسمبلی
۲۔انتظامیہ : صوبائی حکومت
۳۔ عدلیہ : عدالت عالیہ (ہائی کورٹ)
(۲) ہر صوبے کا آئینی سربراہ گورنر ہوتا ہے۔ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہر صوبے کے عوام صوبائی اسمبلی کے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں۔ صوبائی سطح پر قانون سازی کی ذمہ دار یک ایوانی صوبائی اسمبلی ہے ۔ ان منتخب ارکان کی اکثریت وزیراعلیٰ کا انتخاب کرتی ہے۔ وزیراعلیٰ صوبائی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے، وہ صوبے کے منتظم اعلیٰ کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ وزیراعلیٰ کی سربراہی میں صوبائی وزراء پر مشتمل کابینہ، آئینی اہتمامات کے مطابق گورنر کے فرائض منصبی کی انجام دہی میں، اس کی معاونت کرتی ہے اور اسے مشورہ دیتی ہے۔
(۳) صوبائی حکومت کے سرکاری کام انجام دینے کی ذمہ داری محکموں * پر ہوتی ہے۔ ان محکموں کو مجموعی طور پر صوبائی سیکریٹریٹ کہتے ہیں۔ صوبائی سیکریٹریٹ کا سربراہ چیف سیکریٹری **ہوتا ہے۔ چیف سیکریٹری صوبائی کابینہ کے سیکریٹری ***کے فرائض بھی ادا کرتا ہے۔ وہ تمام محکموں کی سرگرمیوں کو مربوط کرتا ہے اور ان کی نگرانی کرتا ہے۔
(۴) صوبائی محکمہ کو ایک واضح اور مخصوص دائرہ کار میں سرکاری کام کا تعین کیا جاتا ہے۔ یہ تعین وزیراعلیٰ کرتا ہے۔ وزیراعلیٰ کوئی محکمہ یا اس کا کوئی حصہ یا کئی محکمے کسی وزیر کی تحویل میں دیتا ہے۔ تمام سرکاری اُمور کی انجام دہی صوبائی قواعد کار اور ہدایات معتمدی کے مطابق کی جاتی ہے۔

صوبائی انتظامی ڈھانچا


باب نمبر۲ گورنر: صوبہ کا آئینی سربراہ

آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ء کے مطابق وفاق کی طرح صوبوں میںبھی پارلیمانی اصول رائج کیا گیا ہے۔ وفاقی ملکوں میں عام طور پر جس طرح کا نظام وفاقی حکومت میں تشکیل دیا جاتا ہے اسی طرح کا حکومتی ڈھانچا وفاقی اکائیوں میں بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں گورنر وفاقی حکومت کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔
۲۔ شرائط تقرر : گورنر کی شرائط تقرر مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱) وہ شخص قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل ہو؛
(۲) کم از کم عمر پینتیس (۳۵) سال ہو؛
(۳) ایک رجسٹر شدہ ووٹر ہو؛
(۴) متعلقہ صوبے کا رہائشی ہو؛
۳۔ میعاد عہدہ:
گورنر صدر کی خوشنودی حاصل رہنے تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔ وہ صدر کے نام اپنی دستخطی تحریر کے ذریعے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے سکتا ہے۔
۴۔ عہدے کا حلف:
گورنر، عہدے پر فائز ہونے سے قبل، عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کے سامنے آئین پاکستان کے جدول سوم میں درج شدہ عبارت میں حلف اٹھائے گا۔
۵۔ شرائط عہدہ : گورنر کی شرائط عہدہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(الف) گورنر پاکستان کی ملازمت میں کوئی منفعت بخش عہدہ یا کوئی دوسری ایسی حیثیت قبول نہیں کرے گا جو خدمات کی انجام دہی کے صلہ میں معاوضہ کے حق کی حامل ہو۔
(ب) گورنر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے انتخاب کا امیدوار نہیں ہوگا۔
(ج) اگر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کے کسی رکن کو گورنر مقرر کیا جائے تو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)یا صوبائی اسمبلی میں اس کی نشست اس دن خالی ہوجائے گی جس دن وہ اپنے عہدے پر فائز ہوگا۔
۶۔ قائم مقام گورنر :
جب گورنر پاکستان میں عدم موجودگی یا کسی اور وجہ سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے سے قاصر ہو تو گورنر کی پاکستان میں واپسی تک یا کسی اور وجہ سے اپنے فرائض منصبی نہ سنبھالنے تک اسپیکر صوبائی اسمبلی گورنر کی عدم موجودگی میں بطور گورنر فرائض انجام دے گا۔اسپیکر کی عدم موجودگی میں کوئی شخص جسے صدر نامزد کرے، گورنر کے فرائض انجام دے گا۔
۷۔ گورنر کابینہ یا وزیراعلیٰ کے مشورے پر عمل کرے گا: دستور کے تحت اپنے کارہائے منصبی کی انجام دہی میں گورنر کابینہ یا وزیراعلیٰ کے مشورے کے مطابق عمل کرے گا۔ تاہم ۱۵ یوم کے اندرگورنر کابینہ یا وزیراعلیٰ کو مذکورہ مشورے پر دوبارہ غور کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ کابینہ یا وزیراعلیٰ کے دوبارہ غور کے بعد، گورنر دیے ہوئے مشورے کے مطابق دس یوم کے اندر عمل کرے گا۔
۸۔ صوبائی اسمبلی کی تحلیل:
(۱) آئین کے آرٹیکل ۱۱۲ کی رُو سے اگر وزیراعلیٰ مشورہ دے تو گورنر صوبائی اسمبلی تحلیل کردے گا۔ بصورت دیگر صوبائی اسمبلی وزیراعلیٰ کی طرف سے ایسا مشورہ دیے جانے کے بعد اڑتالیس گھنٹے کے اختتام پر تحلیل ہوجائے گی۔ وزیراعلیٰ سے مراد ایسا وزیراعلیٰ نہیں ہے جس کے خلاف صوبائی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کی کسی قرارداد کا نوٹس دے دیا گیا ہو لیکن اس پر رائے دہی نہ کی گئی ہو، یا جس کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی قرارداد منظور ہوگئی ہو۔
(۲) گورنر بھی اپنی صوابدید پر لیکن صدرمملکت کی پیشگی منظوری سے صوبائی اسمبلی تحلیل کرسکے گا۔ گورنر یہ صوابدیدی حق ایسی صورت میں استعمال کرے گا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ منظور ہوچکا ہو اور صوبائی اسمبلی کا کوئی دوسرا رکن آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد نہ رکھتا ہو اور یہ صورت حال اس غرض کے لیے بلائے گئے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں معلوم ہوئی ہو۔
(۳) جب صوبائی اسمبلی اپنی میعاد کے اختتام سے پہلے تحلیل کردی جائے تو اسمبلی کا انتخاب تحلیل کی تاریخ سے نوّے یوم کے اندر ہوگا اور انتخاب کے نتائج کا اعلان رائے دہی کے اختتام سے زیادہ سے زیادہ چودہ یوم کے اندر کیا جائے گا۔
۹۔ نگران کابینہ: (۱) اپنی میعاد مکمل ہونے پر یا آئین کے آرٹیکل ۱۱۲ کی رُو سے تحلیل ہونے پر، صوبے کا گورنر، آئین کے آرٹیکل ۲۲۴ کی رُو سے، نگران کابینہ کا تقرر کرے گا۔
(۲) نگران وزیراعلیٰ اور نگران کابینہ کے تقرر کا تفصیلی طریق کار*باب نمبر ۲۴ میں بیان کیا گیا ہے۔
۱۰۔ صوبائی اسمبلی سے خطاب: گورنرصوبائی اسمبلی سے خطاب کرسکے گا اور اس مقصد کے لیے ارکان کی حاضری کا حکم دے سکے گا۔
۱۱۔ مسودہ قانون (بل)کے لیے گورنر کی توثیق: جب صوبائی اسمبلی کسی بل کو منظور کرے تو اسے گورنر کی توثیق کے لیے پیش کیا جائے گا۔گورنر دس دن کے اندر بل کی توثیق کردے گا، یا کسی ایسے بل کی صورت میں جومالی بل نہ ہو، بل کو اس تحریری پیغام کے ساتھ صوبائی اسمبلی کو واپس کردے گا کہ بل پر یا اس کے کسی حصہ پر دوبارہ غور کیا جائے اور پیغام میں تصریح کردہ کسی ترمیم پر غور کیا جائے۔ واپس بھیجے جانے ولے بل پر صوبائی اسمبلی دوبارہ غور کرے گی اور اگر صوبائی اسمبلی کے حاضر ارکان کی اکثریت کے ووٹوں سے، ترمیم کے ساتھ یا بلاترمیم، بل دوبارہ منظور کرلے تو اسے دوبارہ گورنر کو پیش کیا جائے گا اور گورنر دس دن کے اندر بل کی توثیق کرے گا۔ اگر گورنر نے مقررہ مدت میں ایسا نہ کیا تو یہ توثیق شدہ تصور کیا جائے گا۔ گورنر کی توثیق کے بعد، یہ بل صوبائی اسمبلی کا ایکٹ بن جائے گا۔
۱۲۔ گورنر کے حوالے سے وزیراعلیٰ کے فرائض منصبی:
(۱) صوبائی انتظامیہ سے متعلق تمام معاملات اور آئین کے آرٹیکل ۱۳۱ کے تحت قانون سازی کی ایسی تمام تجاویز پر گورنر کو مطلع رکھے گا جنھیں صوبائی حکومت صوبائی اسمبلی کے سامنے لانے کا ارادہ رکھتی ہو۔
(۲) صوبے کے انتظام اور تجاویز قانون سازی سے متعلق کابینہ کے فیصلوں سے گورنر کو آگاہ کرے گا۔
(۳) ایسے معاملہ کو کابینہ کے سامنے دوبارہ غور کے لیے پیش کرے گا جس کے بارے میں گورنر نے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل۱۰۵ کے مطابق دوبارہ غور کرنے کی ہدایت کی ہو۔

باب نمبر ۳ صوبائی اسمبلی

صوبائی اسمبلی کی تشکیل : ہر صوبے کے لیے ایک یک ایوانی صوبائی اسمبلی تشکیل دی گئی ہے۔ ہر صوبہ کی آبادی کے تناسب سے اس صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد کا تعین کیا گیا ہے۔ صوبائی اسمبلی عام نشستوں ، خواتین اور غیرمسلموں کے لیے مخصوص نشستوں پر مشتمل ہے جیساکہ ذیل میں وضاحت کی گئی ہے۔
نام صوبہ عام خواتین غیرمسلم کل تعداد
بلوچستان ۵۱ ۱۱ ۳ ۶۵
خیبرپختون خوا ۹۹ ۲۲ ۳ ۱۲۴
پنجاب ۲۹۷ ۶۶ ۸ ۳۷۱
سندھ ۱۳۰ ۲۹ ۹ ۱۶۸
۲۔ ووٹ دینے کا حق: کسی بھی ایسے شخص کو ووٹ دینے کا حق ہوگا
اگر
(الف) وہ پاکستان کا شہری ہو؛
(ب) وہ اٹھارہ سال سے کم عمر کا نہ ہو؛
(ج) اس کا نام متعلقہ صوبے کے کسی حلقے کی انتخابی فہرست میں درج ہو؛
(د) اسے کسی مجاز عدالت کی طرف سے فاترالعقل قرار نہ دیا گیا ہو۔
۳۔ انتخابی حلقہ: کسی صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے لیے
(ا) عام صوبائی نشستوں کے لیے انتخابی حلقہ ایک رکنی علاقائی حلقہ ہوں گے اور مذکورہ نشستوں کو پُر کرنے کے لیے ارکان بلاواسطہ اور آزادانہ ووٹ کے ذریعے منتخب کیے جائیں گے۔
(۲) صوبوں کو خواتین اور غیرمسلموں کے لیے تعین کردہ مخصوص تمام نشستوں کے لیے ہر ایک متعلقہ صوبہ واحد انتخابی حلقہ ہوگا۔
(۳) کسی صوبے کو تعین کردہ خواتین اور غیرمسلموں کی مخصوص نشستوں کو پُر کرنے کے لیے قانون کے مطابق ارکان سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی فہرست سے، متناسب نمائندگی کے ذریعے، صوبائی اسمبلی میں ہر ایک سیاسی جماعت کی طرف سے حاصل کردہ عام نشستوں کی کل تعداد کی بنیاد پر منتخب کیے جائیں گے۔ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے حاصل کردہ عام نشستوں کی کل تعداد میں وہ کامیاب آزاد امیدوار شامل ہوں گے جو سرکاری جریدے میں کامیاب امیدواروں کے نام کی اشاعت کے تین دن کے اندر باضابطہ طور پر مذکورہ سیاسی جماعت میں شامل ہوجائیں۔
۴۔ صوبائی اسمبلی کی میعاد: کوئی صوبائی اسمبلی،اگر وہ قبل از وقت تحلیل نہ کردی جائے، اپنے پہلے اجلاس کی تاریخ سے پانچ سال کی میعاد تک برقرار رہے گی اور اپنی میعاد کے اختتام پر تحلیل ہوجائے گی۔
۵۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب: کسی عام انتخاب کے بعد کوئی صوبائی اسمبلی اپنے پہلے اجلاس میں، اپنے ارکان سے ایک اسپیکر اور ایک ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کرے گی۔
۶۔ صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب اور برخاست کرنا: گورنر وقتاً فوقتاً
(الف) صوبائی اسمبلی کا اجلاس ایسے وقت اور مقام پر طلب کرسکے گا جسے وہ مناسب خیال کرے۔
(ب) صوبائی اسمبلی کا اجلاس برخاست کرسکے گا۔
۷۔ صوبائی اسمبلی کی تحلیل: (۱) آئین کے آرٹیکل ۱۱۲ کے مطابق گورنر صوبائی اسمبلی تحلیل کردے گا۔ اگر وزیراعلیٰ اسے ایسا مشورہ دے اور صوبائی اسمبلی، بجز اس کے کہ اس سے قبل تحلیل کردی گئی ہو، وزیراعلیٰ کی طرف سے ایسا مشورہ دیے جانے کے بعد اڑتالیس گھنٹے کے خاتمے پر تحلیل ہوجائے گی تاہم اس آرٹیکل میں وزیراعلیٰ سے مراد ایسا وزیراعلیٰ نہیں ہے جس کے خلاف صوبائی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کی کسی قرارداد کا نوٹس دے دیا گیا ہو لیکن اس پر رائے دہی نہ کی گئی ہو یا جس کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کوئی قرار داد منظور ہوچکی ہو۔
۲۔ گورنر بھی اپنی صوابدید پر لیکن صدر کی ماقبل منظوری کے تابع، صوبائی اسمبلی تحلیل کرسکے گا جبکہ وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ منظور کیے جانے کے بعد، صوبائی اسمبلی کاکوئی دوسرا رکن صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان کی اکثریت کا اعتماد نہ رکھتا ہو۔

باب نمبر۴ صوبائی حکومت اور صوبے کا انتظامی اختیار

۱۔ وزیراعلیٰ:
اسمبلی کے عام انتخاب کے بعد اکیسویں دن صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہوگا، تاہم گورنر اس سے پہلے اجلاس طلب کرسکتا ہے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد صوبائی اسمبلی ، کسی اور کارروائی کے بغیر، اپنے ارکان میں سے وزیراعلیٰ کا انتخاب کرے گی جو صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت کے ووٹوں سے منتخب کیا جائے گا۔ گورنر منتخب کردہ رکن وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے لیے کہے گا اور وہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے آئین کی جدول سوم میں دیے گئے فارم میں گورنر کے سامنے حلف اٹھائے گا۔
۲۔ عہدے کے لیے میعادوں کی تعداد:
وزیراعلیٰ کے عہدہ کے لیے میعادوں کی تعداد پر پابندی نہیں ہوگی۔ وزیراعلیٰ گورنر کی خوشنودی کے دوران عہدے پر فائز رہے گا۔ اگر گورنر کو یہ اطمینان ہو کہ وزیراعلیٰ کو صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں رہا ہے تو وہ صوبائی اسمبلی کااجلاس طلب کرے گا اور وزیراعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم دے گا۔
۳۔ وزیراعلیٰ کا استعفیٰ :
وزیراعلیٰ گورنر کے نام اپنی دستخطی تحریر کے ذریعے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے سکے گا۔
وزیراعلیٰ کا عہدے پر برقرار رہنا: گورنر وزیراعلیٰ سے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے کہہ سکے گا تاوقتیکہ اس کا جانشین وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز نہ ہوجائے۔
۴۔ وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ:
وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی قرارداد، جسے صوبائی اسمبلی کی کل تعداد کے کم از کم بیس فی صد نے پیش کیاہو، صوبائی اسمبلی کی طرف سے منظور کی جاسکے گی۔ یہ قرارداد جس دن اسمبلی میںپیش کی گئی ہو، اس دن سے تیس دن کی مدت کے خاتمے سے پہلے یا سات دن کی مدت کے بعد ووٹ نہیں لیے جائیں گے۔ اگر اس قرارداد کو صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور کرلیا جائے تو وزیراعلیٰ عہدے پر فائز نہیں رہے گا۔
۵۔ کابینہ :
وزراء کی ایک کابینہ ہوگی جس کا سربراہ وزیراعلیٰ ہوگا۔ کابینہ اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں گورنر کی مدد کرے گی اور مشورہ دے گی۔
۶۔ تعداد ارکان کابینہ :
کابینہ کی کل تعداد * پندرہ ارکان سے زیادہ نہیں ہوگی یا کسی صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کا گیارہ فی صد ہوگی، جو بھی ان میں زیادہ ہو۔
۷۔ کابینہ کی مجموعی ذمہ داری :
کابینہ مجموعی طور پر صوبائی اسمبلی کو جوابدہ ہوگی۔
۸۔ صوبائی وزراء :
(۱) گورنر وزیراعلیٰ کے مشورے پر صوبائی اسمبلی کے ارکان میں سے صوبائی وزراء کا تقرر کرے گا۔ عہدے پر فائز ہونے سے پہلے کوئی صوبائی وزیر آئین کی جدول سوم میں دی گئی عبارت میں گورنر کے سامنے حلف اٹھائے گا۔ کوئی صوبائی وزیر گورنر کے نام اپنی دستخطی تحریر کے ذریعے اپنے عہدے سے مستعفی ہوسکے گا یا گورنر وزیراعلیٰ کے مشورے پر اسے عہدے سے برطرف کرسکے گا۔
(۲) کوئی وزیر جو مسلسل چھ ماہ کی مدت کے لیے صوبائی اسمبلی کا رکن نہ رہے، مذکورہ مدت کے اختتام پر وزیر نہیں رہے گا اور مذکورہ اسمبلی کے تحلیل ہونے سے پہلے اسے دوبارہ وزیر مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک وہ اس اسمبلی کا رکن منتخب نہ ہوجائے۔ اس شرط کا یہ مطلب نہیںکہ وزیراعلیٰ یا کسی دوسرے وزیر کو کسی ایسی مدت کے دوران جب صوبائی اسمبلی تحلیل کی جاچکی ہو اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا حق نہ ہوگا اور نہ ہی کسی ایسی مدت کے دوران کسی شخص کو بطور وزیراعلیٰ یا وزیر مقررکرنے کی ممانعت ہوگی۔
۹۔ مشیران اور خصوصی معاونین:
وزیراعلیٰ کے مشیران اور خصوصی معاونین ہوں گے، جن کا تقرر وزیراعلیٰ کرے گا۔ ان مشیروں اور خصوصی معاونین کے فرائض منصبی کا تعین وقتاً فوقتاً کیا جائے گا۔
۱۰۔ پارلیمانی سیکریٹری کے فرائض منصبی:
(۱) وزیراعلیٰ کے جاری کردہ کسی عمومی یا خصوصی حکم سے مشروط، کسی محکمہ کا پارلیمانی سیکریٹری محکمہ سے متعلق ایسے پارلیمانی کام یا متعلقہ فرائض انجام دے گا جو محکمہ کا انچارج وزیر اس کے سپرد کرے گا۔
(۲) پارلیمانی سیکریٹری سے کوئی ایسا کام نہیں لیا جائے گا جس سے اس کی محکمہ ، اس کے ملحقہ محکمہ یا علاقائی دفتر کے داخلی کام یا انتظام میں مداخلت ہو۔
۱۱۔ ایڈووکیٹ جنرل :
(۱) ایڈووکیٹ جنرل صوبے کا سب سے بڑا افسرِقانون ہوتا ہے۔
(۲) ہر صوبے کا گورنر کسی ایسے شخص کو، جو عدالت عالیہ کا جج بننے کا اہل ہو، صوبے کا ایڈووکیٹ جنرل مقرر کرے گا۔
(۳) ایڈووکیٹ جنرل کا فرض ہوگا کہ وہ صوبائی حکومت کو ایسے قانونی معاملات پر مشورہ دے اور قانونی نوعیت کے ایسے دیگر فرائض انجام دے، جو صوبائی حکومت کی طرف سے اسے بھیجے جائیں یا اسے تفویض کیے جائیں۔
(۴) ایڈووکیٹ جنرل گورنر کی خوشنودی حاصل رہنے تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا اور اس عہدے پر فائز رہنے کے دوران پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرے گا۔
(۵) ایڈووکیٹ جنرل گورنر کے نام اپنی دستخطی تحریر کے ذریعے اپنے عہدے سے مستعفی ہوسکے گا۔
۱۲۔ صوبے کا انتظامی اختیار :
(۱) اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ۱۳۷ کے مطابق صوبے کے انتظامی اختیار کا اطلاق ان معاملات پر ہوگا جن کے بارے میں صوبائی اسمبلی کو قوانین بنانے کا اختیار ہے۔
(۲) کسی ایسے معاملے میں جس کے بارے میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور کسی صوبے کی صوبائی اسمبلی دونوں کو قوانین بنانے کا اختیار ہو تو صوبے کا انتظامی اختیار اس انتظامی اختیار سے مشروط اور محدود ہوگا جو آئین یا مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے بنائے ہوئے قانون کے ذریعے وفاقی حکومت یا اس کی ہیئت ہائے مجاز کو صراحت کے ساتھ تفویض کیا گیا ہو۔
۱۳۔ ماتحت ہیئت ہائے مجاز کو فرائض کی تفویض:
صوبائی حکومت کی سفارش پر، صوبائی اسمبلی کسی قانون کے ذریعے صوبائی حکومت کے ماتحت عہدے داروں یا ہیئت ہائے مجاز کو اپنے فرائض تفویض کرسکے گی۔
۱۴۔ انتظامی اختیارکار کا استعمال :
صوبے کا انتظامی اختیار وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء پر مشتمل صوبائی حکومت ، گورنر کے نام پر بروئے کار لائے گی۔ صوبائی حکومت وزیراعلیٰ کے ذریعے اپنے فرائض ادا کرے گی۔ اپنے کارہائے منصبی انجام دینے کے لیے وزیراعلیٰ براہ راست یا صوبائی وزراء کے ذریعے عمل کرے گا۔

باب نمبر۵ صوبے میں سرکاری اُمور کی انجام دہی

۱۔ گورنر کے نام پر انتظامی اقدامات کی انجام دہی :
(۱) آئین کے آرٹیکل ۱۳۹ کے رُو سے صوبائی حکومت کے تمام انتظامی اقدامات گورنر کے نام سے کیے جائیں گے۔
(۲) صوبائی حکومت قواعد کے ذریعے اس طریقے کی وضاحت کرے گی جس کے مطابق گورنر کے نام سے جاری کیے ہوئے احکام اور تکمیل کی ہوئی دیگر دستاویزات کی توثیق کی جائے گی۔ اور اس طرح توثیق شدہ کسی حکم یا دستاویز کے جواز پر کسی عدالت میں اس بناء پر اعتراض نہیں کیا جائے گا کہ اسے گورنر نے وضع یا مکمل نہیں کیا تھا۔
(۳) آئین نے ہر صوبائی حکومت کو اپنے کام کے تعین اور انجام دہی کے لیے قواعد وضع کرنے کا اختیار دیا ہے۔
۲۔ قواعد کار : (۱) آئین کے آرٹیکل ۱۳۹ کی رُو سے عطاکردہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر صوبائی حکومت نے قواعد کار وضع کیے ہیں۔ ان قواعد میں صوبائی سطح پر محکموں کی تشکیل و تنظیم اور ان کی فہرست، محکموں کے درمیان تقسیم کار، صوبائی حکومت کے کام کی انجام دہی کے لیے رہنما اصول، صوبائی محکموں کے درمیان مشاورت ، وزیراعلیٰ اور گورنر سے رجوع کرنے کا طریق کار، قانون سازی کا طریقہ کار اور صوبائی اسمبلی سے تعلقات کار وغیرہ شامل ہیں۔
(۲) قواعد کار کے تحت، صوبائی حکومت میں وزیراعلیٰ تمام پالیسی معاملات کو مربوط کرے گا اور کوئی پالیسی فیصلہ وزیراعلیٰ کی منظوری کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ کی طرف سے کیا گیا پالیسی فیصلہ وزیراعلیٰ سے مشورہ کے بغیر نہ تو تبدیل کیا جائے گا اور نہ ہی اس کی خلاف ورزی کی جائے گی۔ وزیر کا یہ فرض ہوگا کہ پالیسی کی تشکیل میں وزیراعلیٰ کی مدد کرے۔ وہ اپنے محکمہ سے متعلق پالیسی کا ذمہ دار ہوگا اور کسی ایسے اہم معاملہ کے بارے میں جسے اس نے وزیراعلیٰ سے رجوع کیے بغیر نمٹایا ہو، وزیراعلیٰ کو آگاہ کرے گا۔
ہدایات معتمدی:
ہر صوبہ کے قواعد کار کے تحت، صوبائی سیکریٹریٹ میں سرکاری کام کی انجام دہی کے لیے متعلقہ محکمہ نے تفصیلی ہدایات جاری کی ہیں۔ ان ہدایات میں مختلف سرکاری عہدے داروں کے فرائض منصبی اور ذمہ داریاں بیان کی گئیں ہیں۔ کسی سرکاری محکمہ میں کوئی معاملہ ابتدا سے لے کر حتمی فیصلہ تک جن مراحل سے گزرتا ہے ان کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئیں ہیں۔ محکموں میں ڈاک کی وصولی پر اس کا اندراج کرنا اور کارروائی شروع کرنا، مختلف موضوعات پر مسلیںیعنی فائلیں کھولنا، فائلوں پر کیفیت نگاری کرنا، اعلیٰ عہدے داروں کو فیصلہ کے لیے فائلیں پیش کرنا، فیصلہ کے بعد احکامات جاری کرنا،مسلوںیعنی فائلوں کی نگہداشت کرنا اور ان کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات کرنا، ان تمام امور اور دیگر متعلقہ معاملات کے لیے ہدایات معتمدی میں تفصیلی طریق کار بیان کیا گیا ہے۔
۳۔ زبانی احکامات:
(۱) صوبائی حکومت میں تمام جاری کردہ احکامات تحریری ہوں گے۔ زبانی احکامات کی صورت میں، وصول کنندہ مذکورہ احکامات کو تحریری طور پر قلم بند کرے گا اور جتنا جلد ممکن ہو، احکامات جاری کنندہ حاکم مجاز کو احکامات کی تصدیق کے لیے پیش کرے گا۔
(۲) اگر جاری کیا گیا کوئی حکم قانون، قواعد و ضوابط یا حکومتی پالیسی کے خلاف ہو تو اگلے ماتحت افسر کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ حکم جاری کنندہ حاکم مجاز کو اس بات کی نشاندہی کرے ۔ اگر مذکورہ حاکم مجاز اس بات سے اتفاق نہیں کرتا تو وہ مناسب فیصلہ کے لیے حاکم مجاز بالا کو معاملہ پیش کرے گا۔
۴۔ احکامات و دستاویزات، سمجھوتے اور معاہدات: (۱) سوائے ان معاملات کے جہاں ایک افسر کو خصوصی طور پر وزیراعلیٰ نے حکومت کی جانب سے کسی حکم یا دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے اختیار دیا ہو، ہر حکم یا دستاویز پر سیکریٹری، خصوصی سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری، سیکشن افسر، افسربکارخاص یا کوئی اور افسر جس کے بارے میں متعلقہ محکمہ نے رسمی طور پر اعلان کررکھا ہو، دستخط کرے گا اور ایسے دستخط مذکورہ حکم یا دستاویز کی صحیح توثیق خیال کیے جائیں گے۔
(۲) محکمہ قانون و پارلیمانی امور کو اختیار ہے کہ وہ معاہدات اور جائیداد کی یقین دہانیاں تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے بارے میں ہدایات جاری کرے۔

باب نمبر ۶ صوبائی سیکریٹریٹ اور دیگر صوبائی دفاتر

۱۔ صوبائی سیکریٹریٹ:
(۱) صوبائی سطح پر سرکاری امور انجام دینے کی بنیادی ذمہ داری محکموں کو تفویض کی گئی ہے۔ ان محکموں کو مجموعی طور پر صوبائی سیکریٹریٹ کہتے ہیں۔ صوبائی سیکریٹریٹ ان محکموں پر مشتمل ہوتاہے جو صوبائی قواعد کار کے شیڈول اول کے دوسرے کالم میں درج کیے گئے ہیں۔
(۲) صوبائی سیکریٹریٹ کا سربراہ چیف سیکریٹری *ہوتا ہے۔
۲۔ چیف سیکریٹری: چیف سیکریٹری کے فرائض منصبی مندرجہ ذیل ہیں۔
(الف) صوبائی کابینہ کے سیکریٹری **کے فرائض انجام دیتا ہے؛
(ب) امن عامہ پر اثرانداز ہونے والے تمام معاملات کا عمومی طور پر ذمہ دار ہوتا ہے؛
(ج) تمام محکموں کی سرگرمیوں کو مربوط کرتا ہے اور ان کی نگرانی کرتا ہے؛
(د) کسی محکمہ ، ملحقہ محکمہ، علاقائی دفتر یا ضلع حکومت سے کوئی معاملہ یا معلومات طلب کرنے کا اختیار ہے؛
(ر) وزیراعلیٰ کو محکموں کی طرف سے پیش کردہ تمام معاملات چیف سیکریٹری کے ذریعے واپس ہوتے ہیں۔
۳۔ محکمہ***:
'محکمہ' سے مراد صوبائی سیکریٹریٹ کی ایک جامع اور مکمل انتظامی اکائی ہے جو واضح اور مخصوص دائرہ کار میں صوبائی حکومت کا کام کرنے کی ذمہ دار ہے۔ کسی انتظامی اکائی کو محکمہ کی حیثیت دینے کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے رسمی طور 'اعلان' جاری کیا جاتا ہے۔ اور صوبائی قواعد کار کے شیڈول اول میں اس کا اندراج کیا جاتا ہے۔مثلاً محکمہ مالیات، محکمہ صحت، محکمہ خوراک وغیرہ
(۲) وزیراعلیٰ نئے محکمے بناسکتا ہے، موجودہ محکموں کی نئی تشکیل کرسکتا ہے اور ان کی تعداد میں کمی یا اضافہ کرسکتا ہے۔
(۳) ملحقہ محکمہ اور خودمختار ادارے صوبائی سیکریٹریٹ کا حصہ نہیں ہوتے۔
۴۔ ملحقہ محکمہ ****:
پالیسی مسائل کے تکنیکی پہلوؤں پر ماہرانہ مشورہ دینے اور حکومت کی تشکیل کردہ پالیسی پر عمل درآمد کرنے کے لیے حسب ضرورت ہر محکمہ کے ملحقہ محکمہ جات قائم کیے جاتے ہیں۔ یہ ملحقہ محکمے براہ راست اپنے متعلقہ محکمہ کے تحت کام کرتے ہیں۔ ملحقہ محکمہ کا ذکر ہر صوبہ کے قواعد کار کے شیڈول اول میں کیا گیا ہے۔مثلاً محکمہ داخلہ کا ملحقہ محکمہ: نظامت شہری دفاع اور محکمہ صحت کا ملحقہ محکمہ: نظامت خدمت صحت۔
۵۔ خودمختار ادارہ * : صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے ذریعے یا پبلک لمٹیڈ کمپنی کے طور پر یا ٹرسٹ ایکٹ کے تحت قائم کردہ ادارہ جو مختلف النوع سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ قواعد کار حکومت پنجاب شیڈول اے اول میں مختلف محکموں کے خودمختار اداروں کا ذکر کیا گیا ہے، مثلاً زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، پنجاب زرعی تحقیقاتی بورڈ، ادارہ ترقیات لاہور وغیرہ۔
۶۔ کمپنی * : سرکاری شعبہ میں حکومت پنجاب کی تشکیل کردہ کمپنی جس کا ذکر قواعد کار حکومت پنجاب کے شیڈول اے میں کیا گیا ہے مثلاً محکمہ حمل و نقل /ٹرانسپورٹ کے تحت لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی، محکمہ تعمیر مکانات، شہری ترقی و صحت عامہ؛ انجینئرنگ کے تحت پنجاب ترقی ٔ اراضی کمپنی وغیرہ۔
۷۔ علاقائی دفتر* : علاقائی دفتر سے مراد ہے ایسا دفتر جس کے بارے میں پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہو۔
۸۔ خصوصی ادارہ*: صوبہ پنجاب کا ایسا ادارہ جس کا ذکر قواعد کار حکومت پنجاب، ۲۰۱۱ء شیڈول اول میں کیا گیا ہے؛ مثلاً حکومت پنجاب کے محکمہ مالیات کا خصوصی ادارہ: پنجاب پنشن فنڈ بینک؛ محکمہ اعلیٰ تعلیم کا خصوصی ادارہ: ایچیسن کالج،لاہور؛ حکومت پنجاب کے محکمہ صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری کا خصوصی ادارہ: ادارہ تکنیکی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت (ٹیوٹا)**

باب نمبر ۷ محکموں کے درمیان سرکاری کام کا تعین

۱۔ کارسرکار کا تعین:
(۱) صوبائی سطح پر سرکاری امور کی انجام دہی محکموں کی ذمہ داری ہے۔ ہرمحکمہ کے لیے ایک واضح اور مخصوص دائرہ کار میں سرکاری کام کا تعین کیا گیا ہے۔ صوبائی قواعد کار کے شیڈول دوم میں علیٰحدہ علیٰحدہ ہر محکمہ کو تعین کردہ کام کی تفصیل دی گئی ہے۔
(۲) وزیراعلیٰ کو اختیار ہے کہ وہ قواعد کار کے شیڈول دوم میں کسی محکمہ کو تعین کردہ کوئی موضوع یا معاملہ کسی دوسرے محکمہ کے سپرد کردے۔
(۳) وزیراعلیٰ کوئی محکمہ، کسی محکمہ کا ایک حصہ ، مختلف محکموں کے حصے یا ایک سے زیادہ محکمے کسی وزیر کی تحویل میں دے سکتا ہے۔
(۴) کوئی محکمہ یا کسی محکمہ کا کوئی حصہ جو کسی وزیر کے سپرد نہیں کیا گیا ، وزیراعلیٰ کی تحویل میں ہوگا۔
۲۔ ضلع حکومت کو تفویض اختیار: وزیراعلیٰ پنجاب کوئی فرض منصبی، موضوع یا معاملہ، کلی طور پر یا جزوی طور پر ، کسی ضلع حکومت کو تفویض کرسکتا ہے تاکہ پنجاب مقامی حکومت آرڈیننس، ۲۰۰۱ء (۲۰۰۱ء کا ۱۳) کے تحت قائم شدہ ضلع حکومت کے دفاتر یہ کام انجام دے سکیں۔
۳۔ تعین کار میں اختلاف : اگر اس بارے میں کوئی شک پیدا ہو کہ کوئی معاملہ مناسب طور پر کس محکمہ سے تعلق رکھتا ہے، تو اس معاملہ کے بارے میں چیف سیکریٹری سے رجوع کیا جائے گا۔ اگر ضروری ہوا، تو چیف سیکریٹری وزیراعلیٰ کے احکامات حاصل کرے گا اور اس طرح سے جاری کردہ احکامات حتمی ہوں گے۔
۴۔ محکمہ خدمات و عمومی انتظام :
(۱) محکموں کو تعین کردہ کام کی وضاحت کے لیے محکمہ خدمات و عمومی انتظام کی مثال پیش خدمت ہے۔ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں اسے محکمہ خدمات و عمومی انتظام کہتے ہیں جبکہ صوبہ خیبرپختون خوا میں اس کا نام محکمہ عملہ و انتظام ہے۔ اس محکمہ کے لیے مندرجہ ذیل سرکاری امور کا تعین کیا گیا ہے۔
(الف) معاملات عملہ * : صوبائی حکومت کے ملازمین کے ایسے تمام معاملات کی ضابطہ بندی جن کا اطلاق صوبائی امور سے متعلق سول اسامیوں پر ہوتا ہے۔ یہ محکمہ معاملات عملہ کے لیے بنیادی دفتر کے طور پر کام کرتا ہے۔ ان معاملات میں ملازمین کی بھرتی، ملازمت کی شرائط و قیود، طرزعمل اور نظم و ضبط، سرکاری ملازمین کے قانونی حقوق و مراعات، صوبائی وزراء کے ذاتی عملہ کی تعداد اور قیود و شرائط اور وفاقی حکومت میں مستعار خدمتی پر تعیناتی کے لیے صوبائی ملازمین کا انتخاب شامل ہے۔ کل پاکستان ملازمتوں کے ارکان کی وفاقی حکومت کے نام عرض داشتوں پر ضرور کارروائی کرنا بھی اس محکمہ کی ذمہ داری ہے۔
(ب) وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ **: یہ محکمہ صوبائی چیف سیکریٹری کی سربراہی میں صوبائی وزیراعلیٰ کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ وزیراعلیٰ کو پیش کیے جانے والے تمام معاملات چیف سیکریٹری کے ذریعے محکموں کو واپس جاتے ہیں۔
(ج) کابینہ سیکریٹریٹ *: یہ محکمہ صوبائی کابینہ کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ چیف سیکریٹری کابینہ سیکریٹری کے فرائض انجام دیتا ہے۔ کابینہ میں معاملات پیش کرنے کا طریق کار باب نمبر ۱۲ میں بیان کیا گیا ہے۔
(۲) محکمہ خدمات و عمومی انتظام کی رضامندی کے بغیر کسی محکمہ کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ مندرجہ ذیل امور کے بارے میں کوئی احکامات جاری کرے۔
(الف) قواعد کار کے شیڈول دوم میں تصریح کردہ کسی محکمہ کے فرائض کار میں کمی یا توسیع یا ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ کو فرائض کی منتقلی؛
(ب) کسی محکمہ، ملحقہ محکمہ اور محکمہ کے زیرانتظام علاقائی دفتر کی تنظیم نو یا اس کی حیثیت میں تبدیلی؛
(د) سرکاری ملازمین کی ملازمت کی شرائط و قیود یا قانونی حقوق و مراعات میں کوئی تبدیلی؛
(۳) اس محکمہ کی پیشگی رضامندی کے بغیر محکمہ مالیات میں ملازم کسی افسر کے مشاہرے، ترقی یا شرائط ملازمت کے بارے میں کوئی احکامات جاری نہیں کیے جائیں گے یا محکمہ مالیات کے اخراجات کے بارے میں کوئی تجویز منظور نہیں کی جائے گی۔ ان معاملات کے بارے میں چیف سیکریٹری مالیات فرائض انجام دے گا۔

باب نمبر ۸ صوبائی محکموں کی داخلی تنظیم

۱۔ ہر محکمہ اپنے وزیر، سیکریٹری اور دوسرے ایسے اہل کاروں پر مشتمل ہوگا جن کا حکومت تعین کرے گی۔ ایک ہی شخص ایک سے زیادہ محکموں کا وزیر یا سیکریٹری ہوسکتا ہے۔
۲۔ سرکاری سربراہ :
محکمہ کا سرکاری سربراہ سیکریٹری ہوتا ہے۔ ایک ہی شخص ایک سے زائد محکموں کا انچارج ہوسکتا ہے۔
۳۔ سرشعبہ جات :
(۱) ہر محکمہ کو سرشعبہ جات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر سرشعبہ (ونگ) صیغوں/سیکشنوں اور برانچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر سرشعبہ (ونگ) کا سربراہ عام طور پر ایڈیشنل سیکریٹری *ہوتا ہے۔
(۲) ہر ایڈیشنل سیکریٹری کے تحت ایک یا ایک سے زیادہ ڈپٹی سیکریٹری کام کرتے ہیں۔ ہر ڈپٹی سیکریٹری کے تحت متعدد سیکشن افسر کام کرتے ہیں۔
(۳) کسی صوبے میں بعض اوقات سیکشن افسران براہ راست ایڈیشنل سیکریٹری کے تحت کام کرتے ہیں۔
۴۔ صیغہ جات :
سیکشن (صیغہ) ہر محکمہ کی بنیادی انتظامی اکائی ہے جس کا سربراہ افسر صیغہ (سیکشن افسر) ہوتا ہے۔
۵۔ برانچ :
محکمہ کی ابتدائی اکائی ہے جو سپرنٹنڈنٹ کی نگرانی میں کام کرتی ہے۔ برانچ کا انچارج سیکشن افسر ہوتا ہے۔ بعض اوقات ڈپٹی سیکریٹری براہ راست سیکشنوں/برانچوں کا انچارج ہوتا ہے۔ برانچ عام طور پر غیرمعمولی تنظیمی اکائی ہوتی ہے؛ مثلاً وصولی و اجراء برانچ ، حسابات برانچ
۶۔ محکموں کی داخلی تنظیم کی وضاحت کے لیے تنظیمی چارٹ اگلے صفحہ پر دیا گیا ہے۔

محکموں کی داخلی تنظیم


باب نمبر ۹ محکمہ کے مختلف عہدے داروں میں سرکاری کام کی تقسیم

۱۔ وزیر کے فرائض :
(۱) صوبائی وزیر کے فرائض مندرجہ ذیل ہیں۔
(الف) پالیسی معاملات اور محکمہ کو تعین کردہ کام کی انجام دہی کا ذمہ ہوگا؛
(ب) قواعد کار کے تحت وزیراعلیٰ کو معاملات پیش کرے گا؛
(ج) وزیراعلیٰ کو ایسے اہم معاملات کے بارے میں مطلع رکھے گا جو اس نے وزیراعلیٰ کو پیش کیے بغیر نمٹائے ؛
(د) اپنے محکمہ سے متعلق اسمبلی کے معاملات انجام دے گا۔
(۲) وزیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے محکمہ سے متعلق اہم سیاسی، معاشی اور انتظامی معاملات میں وزیراعلیٰ سے مشاورت کرے۔
۲۔ سیکریٹری کی ذمہ داریاں:
(۱) سیکریٹری کے فرائض منصبی مندرجہ ذیل ہوں گے۔
(الف) سربراہ ِ محکمہ ہونے کی حیثیت سے سیکریٹری *اپنے محکمہ کے مؤثر انتظام کا ذمہ دار ہوگا۔
(ب) سیکریٹری قواعد کار کے تحت محکمہ کو تعین کردہ سرکاری امور اور ان امور کی انجام دہی میں قوانین و قواعد بشمول قواعد کار کی پابندی کا ذمہ دار ہوگا۔
(۲) سیکریٹری کی ذمہ داری ہے کہ حکومت کے عمومی یا خصوصی احکام کے تحت:
(الف) اپنے ماتحت افسران کو اختیارات تفویض کرے اور ایسا کرتے ہوئے ان اختیارات کی زیادہ سے زیادہ حد کا تعین کرے اور معاملات کی نوعیت کی وضاحت کرے۔ ان اختیارات پر مبنی واضح مستقل احکامات جاری کرے اور محکمہ میں معاملات نمٹانے کا طریق کار طے کرے۔
(ب) ضلع حکومت کو تفویض کردہ کام کی انجام دہی کے لیے اپنے افسران کو خصوصی احکامات اور ہدایات جاری کرے۔
۳۔ سیکریٹری اور وزیر کے تعلقات کار:
(۱) سیکریٹری ، محکمہ کو تعین کردہ سرکاری امور کے لیے وزیر کو جواب دہ ہے۔ سیکریٹری کی ذمہ داری ہے کہ وہ محکمہ کی کارکردگی اور ایسے
اہم معاملات جو وزیر کو پیش کیے بغیر نمٹائے گئے ہوں، کے بارے میں وزیر کو مطلع رکھے؛
(۲) سیکریٹری پالیسی سازی میں وزیر کی معاونت کرے گا؛ اور ایسے معاملات کے بارے میں وزیر کو آگاہ کرے گا جو وزیراعلیٰ کو پیش کرنا ضروری ہیں؛
(۳) سیکریٹری کی ذمہ داری ہے کہ وزیر کی منظوری سے، کابینہ کو قانون سازی کے لیے تجاویز پیش کرے۔
(۴) سیکریٹری محکمہ میں نمٹائے جانے والے اہم معاملات کے بارے میں چیف سیکریٹری کو مطلع رکھے گا۔
۴۔ وزیرانچارج کو معاملات پیش کرنا:
کوئی معاملہ وزیر کے احکامات کے لیے پیش کرتے ہوئے سیکریٹری ایک متعین لائحہ عمل تجویز کرے گا۔
۵۔ سیکریٹری اور وزیر میںاختلاف کی صورت میں طریق کار:
(۱) اگر وزیر کے احکامات کسی قانون، قواعد و ضوابط یا حکومت کی پالیسی کے خلاف ہوں تو سیکریٹری وزیر کو دوبارہ معاملہ پیش کرے گا اور وزیر کی توجہ متعلقہ قانون، قواعد و ضوابط یا حکومت کی پالیسی کی طرف مبذول کرائے گا۔ اگر وزیر سیکریٹری سے اتفاق نہ کرے تو سیکریٹری مذکورہ معاملہ پر احکامات کے لیے وزیراعلیٰ سے رجوع کرسکتا ہے۔
۶۔ منظور دہ پالیسی پر عمل درآمد:
سیکریٹری منظور شدہ پالیسی پر عمل درآمد کا ذمہ دار ہوگا۔
۷۔ ایڈیشنل سیکریٹری *:
ایڈیشنل سیکریٹری سرشعبہ/ونگ کا انچار ج ہوتا ہے اور سیکریٹری بطور سربراہ مستقل احکامات کے ذریعے اس کے فرائض منصبی کا تعین کرتا ہے۔
۸۔ ڈپٹی سیکریٹری: سیکریٹری مستقل احکامات کے ذریعے ڈپٹی سیکریٹری کے فرائض منصبی کا تعین کرتا ہے۔ اس کے تحت متعدد سیکشن کام کرتے ہیں۔ ڈپٹی سیکریٹری ایسے تمام معاملات نمٹاتا ہے جن میں پالیسی کا کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہ ہو یا قواعد اور مستقل احکامات کے تحت وہ ان معاملات کو نمٹانے کے لیے بااختیار ہو۔
۹۔ افسرصیغہ (سیکشن افسر) : سیکشن کا انچارج افسر صیغہ ہوتا ہے۔ صوبوں میں عام طور پر افسرصیغہ ایسے تمام معاملات نمٹاتا ہے جہاں واضح نظائر موجود ہوں اور ان نظائر سے انحراف کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو یا قواعد اور مستقل احکامات کے تحت اسے یہ معاملات نمٹانے کا اختیار دیا گیا ہو۔


باب نمبر ۱۰ محکموں میں باہمی مشاورت

۱۔ عمومی ہدایات:
(۱) جب کسی معاملہ کا موضوع ایک سے زائد محکموں سے متعلق ہو تو محکمہ انچارچ دوسرے متعلقہ محکمہ سے مشاورت کا ذمہ دار ہوگا۔ کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے یا کوئی معاملہ وزیراعلیٰ یا کابینہ کو پیش کرنے سے پہلے تمام متعلقہ محکمے اس معاملہ پر غور کریں گے۔ اشد ضروری معاملات کو، وزیراعلیٰ کی منظوری سے، اس قاعدے سے مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے مگر اس کے بعد جتنا جلد ممکن ہو یہ معاملہ متعلقہ محکموں کے علم میں لایا جائے گا۔
(۲) محکموں کے درمیان اختلاف رائے کی صورت میں، بنیادی طور پر متعلقہ وزیر یہ معاملہ وزیراعلیٰ کو پیش کرے گا؛ تاہم اشد ضروری معاملہ کی صورت میں بنیادی طور پر متعلقہ وزیر کسی بھی مرحلہ پر وزیراعلیٰ کو معاملہ پیش کرسکتا ہے۔
۲۔ مخصوص محکموں سے مشاورت کے لیے ہدایات:
مندرجہ ذیل محکموں سے مشاورت کے لیے قواعد کار میں تفصیلی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
۱۔ محکمہ خدمات و عمومی انتظام (صوبہ بلوچستان، صوبہ پنجاب، صوبہ سندھ)/محکمہ عملہ و انتظام (صوبہ خیبر پختون خوا)
۲۔ محکمہ مالیات
۳۔ محکمہ قانون و پارلیمانی امور
۴۔ محکمہ داخلہ (صوبہ سندھ، صوبہ خیبرپختون خوا)
۳۔ محکمہ خدمات و عمومی انتظام :
(۱) محکمہ خدمات و عمومی انتظام مندرجہ ذیل امور کا ذمہ دار ہوگا۔
۔ سرکاری ملازمین کے لیے قواعد و ضوابط کے بنیادی اصولوں بشمول سرکاری ملازمین کی بھرتی، شرائط ملازمت اور نظم و ضبط کا تعین کرے گا؛
۔ سرکاری ملازمین کی شرائط ملازمت میں مطابقت کی غرض سے، تمام محکموں کے تحت ملازمتوں کی پالیسی کو مربوط کرے گا؛
۔ کسی قانون کے تحت سرکاری ملازمین کو عطا کیے گئے حقوق و مراعات حاصل کرے گا؛
۔ وزراء کے ذاتی عملہ کی تعداد اور شرائط ملازمت کا تعین کرے گا۔
۔ ''کل پاکستان ملازمتوں'' کے ارکان کی طرف سے وفاقی حکومت کو تحریر کردہ عرضداشتوں کو نمٹانا ؛
۔ سیکریٹری اور بالا کے عہدے کے علاوہ، وفاقی حکومت کے تحت تقرر کے لیے افسران کا انتخاب کرنا؛
۔ وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے لیے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرنا؛
۔ مشترکہ مفادات کونسل اور بین الصوبائی رابطہ سے متعلق معاملات پر اقدام کرنا۔
(۲) کوئی محکمہ، محکمہ خدمات و عمومی انتظام* کی رضامندی کے بغیر،ایسے احکامات کی منظوری نہیں دے گا جو درج ذیل معاملات کے بارے میں محکمہ خدمات و عمومی انتظام کے دیے گئے عمومی یا خصوصی اختیارات کے تحت جاری کردہ احکامات کے علاوہ ہوں:
(الف) شیڈول دوم میں صراحت کردہ کسی محکمہ کے فرائض منصبی کے دائرہ عمل میں تخفیف یا توسیع یا ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ کو ایسے فرائض منصبی کی منتقلی؛
(ب) محکموں، ملحقہ محکموں اور کسی محکمہ کے براہ راست زیرانتظام علاقائی دفاتر کی تنظیم نو یا حیثیت میں تبدیلی؛
(ج) محکمہ مالیات کی طرف سے جاری کردہ قواعد و احکامات کے علاوہ ملازمتی امور سے متعلق قواعد و احکامات کی تعبیر؛
(د) سرکاری ملازمین کی شرائط و قیود یا آئینی حقوق و مراعات میں تبدیلی؛
(۳) محکمہ خدمات و عمومی انتظام *کی پیشگی رضامندی کے بغیر، محکمہ مالیات میں ملازم کسی افسر کے مشاہرہ، ترقی یا شرائط و قیود ملازمت کے بارے میں کوئی احکام جاری نہیں ہوں گے اور اخراجات کی کوئی تجویز منظور نہیں کی جائے گی۔ ان معاملات کے بارے میں چیف سیکریٹری محکمہ مالیات کے سیکریٹری کے فرائض منصبی ادا کرے گا۔
۴۔ محکمہ مالیات سے مشاورت:
(۱) کوئی محکمہ ، محکمہ مالیات کی پیشگی مشاورت کے بغیر، کوئی احکامات، سوائے ایسے احکامات کے جو محکمہ مالیات کی طرف سے عمومی یا خصوصی تفویض شدہ اختیارات کے تحت جاری کیے جائیں، جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھے گا جو بلاواسطہ یا بالواسطہ صوبے کی مالیات پر اثرانداز ہوں یا جو خاص طور پر درج ذیل سے متعلق ہوں۔
(الف) حقیقی یا امکانی محاصل سے دست برداری، معافی یا تفویض یا اس پر ضمانت دہی؛ اراضی ، معدنیات، جنگل یا پن بجلی، پٹے پر دینا؛
(ب) اخراجات جن کے لیے میزانیہ میں گنجائش نہ ہو؛
(ج) کسی اسامی کے بنیادی پیمانہ تنخواہ کی تعداد یا نام یا سرکاری ملازمین کی شرائط و قیود یا ان کے آئینی حقوق و مراعات میں تبدیلی جو مالیاتی مضمرات کے حامل ہوں؛
(د) ٹیکس، ڈیوٹی، فیس اورسیس (مقامی محصول) عائد کرنا؛
۔ قرضوں کا اجراء
۔ رقوم میزانیہ کے اندر ازسرنو مدبندی؛
۔ مالیاتی طریق کار،حسابات یا تخمینہ جات میزانیہ کے طریقۂ تدوین میں تبدیلی؛
۔ محکمہ مالیات کے وضع کردہ قوانین کی تعبیر؛
(۲) محکمہ مالیات سول ملازمتوں کے قواعد میں کوئی ترمیم یا ان کی کوئی تعبیر، جو مالیاتی مضمرات کی حامل نہ ہو، محکمہ خدمات و عمومی انتظام کی پیشگی رضامندی کے بغیرنہیں کرے گا؛
(۳) کسی ایسی تجویز پر کارروائی نہیں ہوگی جس کے لیے قواعد کے تحت محکمہ مالیات کی پیشگی مشاورت کی ضرورت ہے اور محکمہ مالیات نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اگرکابینہ اس بارے میں فیصلہ کرے تو پھر بھی اس تجویز پر رسمی احکامات صرف اسی وقت جاری ہوں گے جب محکمہ مالیات تجویز کی تفصیلات پر اپنی جانچ پڑتال مکمل کرلے گا۔
(۴) سوائے ایسی صورت کے جہاں محکمہ مالیات کے وضع کردہ قواعد کے تحت محکموں کو اختیار تفویض کیے گئے ہوں، انتظامی محکمہ کا ہر حکم، جس کے ذریعے محکمہ کو آڈٹ عمل درآمد کے لیے منظوری دی گئی ہو، آڈٹ حکام کو محکمہ مالیات کے ذریعے ارسال کیا جائے گا۔
۵۔ محکمہ قانون و پارلیمانی امور سے مشاورت:
(۱) درج ذیل معاملات میں محکمہ قانون و پارلیمانی امور سے مشاورت کی جائے گی۔
۔ اصل قانون سازی سے متعلق معاملات؛
۔ ایسے معاملات پر جن کا تعلق تفویض شدہ قانون سازی سے ہو؛ مثلاً قواعد و ضوابط ، ضمنی قوانین/سمجھوتے، مفاہمت کی یادداشتیں؛
۔ اصل یا تفویض شدہ قانون سازی کی تعبیر؛
۔ کسی معاملہ پر اٹھنے والے تمام قانونی سوالات پر؛
۔ کسی قانونی عدالت میں حکومت سے متعلق کوئی دیوانی کارروائی شروع کرنے سے قبل؛
۔ جب حکومت کے خلاف دیوانی کارروائی عمل میں لائی جائے؛
(۲) کسی مجوزہ قانون سازی، اصل یا تفویض کردہ، کے لیے محکمہ قانون و پارلیمانی امور سے مشاورت کی جائے گی؛
(۳) محکمہ قانون و پارلیمانی امور کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ قانون سازی، اصل یا تفویض شدہ ، کا آغاز کرے۔ اس محکمہ کا صحیح فرض منصبی یہ ہے کہ مجوزہ قانون سازی کو صحیح قانونی شکل دے۔
(۴) اصل قوانین کی تدوین، موجودہ قوانین کی یک جائی کے لیے قانون سازی یاصرف رسمی نوعیت کی قانون سازی؛ مثلاً بلوں کی تنسیخ یا ترمیم اور مختصر عنوان کے بلوں کے لیے محکمہ قانون و پارلیمانی امور شروعات کرسکتا ہے۔ تاہم محکمہ قانون و پارلیانی امور متعلقہ محکمہ سے مشاورت کرے گا۔ متعلقہ محکمہ نظم و نسق پر مجوزہ قانون کے اثر پر غور کرے گا، ضروری معلومات حاصل کرے گا، مشاورت کرے گا اور پھر محکمہ قانون و پارلیمانی امور کو اپنی رائے دے گا۔
۶۔ ایڈووکیٹ جنرل سے مشاورت:
(۱) ایڈووکیٹ جنرل سے مشاورت کا خواہش مند محکمہ متعلقہ موضوع پر ایسے واضح نکات تیار کرے گا جن پر ایڈووکیٹ جنرل کی رائے درکار ہے۔ محکمہ ایڈووکیٹ جنرل سے مشاورت کے لیے ایک مکمل مراسلہ محکمہ قانون و پارلیمانی امور کو ارسال کرے گا۔ تاہم فوری نوعیت کے معاملات میں یا مفادعامہ کا تقاضا ہو تو متعلقہ محکمہ فوری ضرورت سے متعلق وجوہات، تحریری طور پر قلم بند کرنے کے بعد، مذکورہ واضح نکات قانونی رائے کے لیے براہ راست ایڈووکیٹ جنرل کو ارسال کرے گا۔
(۲) ایسے معاملات جن میں متعلقہ محکمہ کی خواہش ہو کہ محکمہ قانون و پارلیمانی امور کے ذریعے ایڈووکیٹ جنرل سے مشاورت کی جائے تو محکمہ قانون و پارلیمانی امور مذکورہ قانونی نکات پر اپنی جامع رائے قلم بند کرے گا اور پھر ایڈووکیٹ جنرل کو اپنی رائے تحریر کرنے کے لیے وہ معاملہ ارسال کرے گا۔
(۳) اگر ایڈووکیٹ جنرل اور محکمہ قانون و پارلیمانی کے درمیان اختلاف رائے ہوجائے تو دونوں کی لفظ بہ لفظ رائے متعلقہ محکمہ کو ارسال کی جائے گی۔ اگر متعلقہ محکمہ محکمہ قانون و پارلیمانی امور کی رائے قبول نہیں کرتا تو کابینہ میں فیصلہ کے لیے معاملہ وزیرقانون و پارلیمانی اُمور کو پیش کیا جائے گا۔
(۴) ہائی کورٹ، وفاقی شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ میں کسی معاملے پر نمائندگی کے لیے، محکمہ قانون و پارلیمانی امور کی پیشگی اجازت اور ایڈووکیٹ جنرل کی منظوری سے، کوئی محکمہ پرائیویٹ قانونی مشیر کی خدمات حاصل کرے گا۔
۷۔ سیکریٹریوں کی کمیٹی:
(۱) کسی محکمہ، وزیر یا وزیراعلیٰ کی طرف سے ارسال کردہ معاملات پر غور کرنے کے لیے سیکریٹریوں کی ایک کمیٹی ہوگی تاکہ زیرغور موضوع پر سینئر افسروں کے تجربے اور اجتماعی فراست سے استفادہ کیا جاسکے۔
(۲) اگر کوئی سیکریٹری چاہتا ہے کہ سیکریٹریوں کی کمیٹی میں کسی خاص معاملہ پر غور کیا جائے تو وہ محکمہ خدمات و عمومی انتظام کو اپنے ارادے سے مطلع کرے گا اور ایک مختصر نوٹ مذکورہ محکمہ کو ارسال کرے گا۔ یہ نوٹ کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کی بنیاد بنے گا۔
(۳) محکمہ خدمات و عمومی انتظام کمیٹی کے اجلاس سے کافی پہلے، اجلاس منعقد کرنے کی اطلاع دے گا اور ساتھ ہی اجلاس کا پیش نامہ (ایجنڈا) بھی ارسال کرے گا۔ تاہم اہم معاملات پر مختصر نوٹس کے ذریعے بھی اجلاس طلب کرکے غور کیا جاسکتا ہے۔
(۴) سیکریٹریوں کی کمیٹی کے اجلاس میں تمام سیکریٹری شرکت کریں گے۔
(۵) ایسے معاملات کے سوا، جہاں روداد تحریر کرنے کی ضرورت نہ خیال کی جائے، کمیٹی کے اجلاس کی روداد قلم بند کی جائے گی اور وزیراعلیٰ کی منظوری کے بعد یہ متعلقہ شرکاء اجلاس کو ارسال کی جائے گی۔
(۶) قواعد کے مطابق، سیکریٹریوں کی کمیٹی کی سفارشات پر متعلقہ محکمہ مطلوبہ کارروائی کرے گا۔

باب نمبر ۱۱ وزیراعلیٰ کو پیش کیے جانے والے معاملات اور طریق کار

۱۔ پیش کیے جانے والے معاملات
درج ذیل معاملات میں وزیراعلیٰ کی منظوری کے بغیر کوئی حکم جاری نہیں کیا جائے گا۔
(۱) ایسا معاملہ جس پر پالیسی فیصلہ درکار ہو؛ایسا معاملہ جس میں پالیسی فیصلہ سے انحراف ہو؛
(نوٹ: پالیسی فیصلہ سے انحراف میں کابینہ یا وزیراعلیٰ کا سابقہ فیصلہ شامل ہے۔)
(۲) صوبائی قواعد کار کے متعلقہ شیڈول میں مذکورہ معاملات؛
(۳) وزیراعلیٰ ، عمومی یا خصوصی طور پر حکم دے سکتا ہے کہ کوئی معاملہ اسے پیش کیا جائے؛
(۴) وزیراعلیٰ کسی محکمہ، ملحقہ محکمہ، علاقائی دفتر یا ضلع حکومت سے کوئی معاملہ یا معلومات طلب کرسکتا ہے۔
۲۔ معاملات پیش کرنے کا طریق کار:
وزیراعلیٰ کو معاملات پیش کرنے کا طریق کار مندرجہ ذیل ہے۔
(۱) وزیراعلیٰ کو احکامات کے لیے پیش کردہ معاملہ مکمل، جامع اور معروضی خلاصہ پر مشتمل ہوگا جس میں متعلقہ حقائق، نکات برائے فیصلہ اور وزیرانچارج کی خصوصی سفارشات شامل ہوں گی اور جہاں مناسب ہو، مراسلہ کا مسودہ خلاصہ کے ساتھ ارسال کیا جائے گا۔
(۲) وزیراعلیٰ کو پیش کیے جانے والے معاملات چیف سیکریٹری کے ذریعے واپس ہوں گے۔
۳۔ معاملات برائے اطلاع:
صوبائی قواعد کارکے متعلقہ شیڈول میں مذکورہ معاملات وزیراعلیٰ کو برائے اطلاع پیش کیے جائیں گے۔
۴۔ محکمہ خدمات و عمومی انتظام * (صوبہ بلوچستان، صوبہ پنجاب، صوبہ سندھ)/محکمہ عملہ و انتظام (صوبہ خیبرپختون خوا) وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا۔ سیکریٹریٹ کاسربراہ چیف سیکریٹری ہوگا۔

باب نمبر ۱۲ کابینہ اور اس کا طریق کار
۱۔ کابینہ :
(۱) وزیراعلیٰ کابینہ کا سربراہ ہوگا۔ کابینہ گورنر کے فرائض منصبی کی انجام دہی میں اس کی معاونت کرے گی اور مشورہ دے گی۔
(۲) چیف سیکریٹری کابینہ کا سیکریٹری ہوگا۔
(۳) محکمہ خدمات و عمومی انتظام* (صوبہ بلوچستان، صوبہ پنجاب، صوبہ سندھ/محکمہ عملہ و انتظام (صوبہ خیبرپختون خوا)کابینہ کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا۔
(۴) کابینہ اجتماعی طور پر صوبائی اسمبلی کو جوابدہ ہوگی۔
۲۔ کابینہ کے سامنے پیش کیے جانے والے معاملات:
(۱) قانون سازی کے لیے سرکاری یا غیرسرکاری تجاویز بشمول مطالبات زر کے مسودات قانون؛
(۲) ہنگامی قوانین کا اعلان اور تنسیخ؛
(۳) سالانہ میزانیہ (بجٹ) اور دوسرے مالیاتی کیفیت نامے پیش کرنے سے قبل میزانیہ کی صورت حال اور تجاویز؛
(۴) نئے ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز؛
(۵) معاملات جن کا تعلق اہم سیاسی، معاشی اور انتظامی پالیسیوں سے ہو؛
(۶) معاملات جو وزیرانچارج کے خیال میں اتنے اہم ہیں کہ انھیں کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے؛
(۷) اہم رپورٹیں اور دستاویزات جنھیں اسمبلی میں پیش کرنا ہو؛
(۸) دوسرے معاملات جنھیں قواعدکار کے تحت کابینہ کو پیش کرنا مطلوب ہو؛
(۹) کوئی معاملہ جس کے متعلق وزیراعلیٰ کو خواہش ہو کہ وہ کابینہ میں پیش کیا جائے؛
(۱۰) آئین کے آرٹیکل ۱۰۵ کے مطابق ایسے معاملات جن پر گورنر کی خواہش پر دوبارہ غور مطلوب ہو۔
۳۔ وزیراعلیٰ کا اختیار:
(۲) وزیراعلیٰ کو اختیار ہے کہ اشد ضروری معاملات میں یا دوسرے استثنائی حالات میں، کسی معاملہ کو کابینہ میںپیش کیے بغیر نمٹانے سے متعلق طریق کار کی ہدایت دے سکتا ہے۔ ایسے نمٹائے گئے معاملات کے بارے ، جتنا جلد ممکن ہو، کابینہ کو مطلع کیا جائے گا۔
۴۔ کابینہ کے معاملات نمٹانے کا طریقہ:
کابینہ کو سپرد کیے گئے معاملات مندرجہ ذیل طریقے سے نمٹائے جائیں گے:
(الف) کابینہ اجلاس میں بحث کے ذریعے؛
(ب) وزراء کے درمیان گردش کے ذریعے؛
(ج) کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں بحث کے ذریعے؛
تاہم کمیٹی کے فیصلوں کی کابینہ سے توثیق ہوگی بجز اس کے کہ کابینہ نے بصورت دیگر اختیار دیا ہو۔
۵۔ کابینہ کمیٹیاں :
کابینہ اپنی مستقل یا خصوصی کمیٹیاں تشکیل دے سکتی ہے اور ہر کمیٹی کو ایک قسم کے معاملات یا کوئی خصوصی معاملہ تفویض کرسکتی ہے۔
۶۔ کابینہ میں معالات پیش کرنے کا طریق کار:
(۱) کوئی معاملہ کابینہ کو پیش کرنے کے لیے، متعلقہ محکمہ کا سیکریٹری ایک جامع اور واضح خلاصہ برائے کابینہ جس میں معاملہ کا پس منظر اور متعلقہ حقائق، نکات برائے فیصلہ اور وزیرانچارج کی سفارشات دی گئی ہوں، چیف سیکریرٹری کو ارسال کرے گا۔ خلاصہ ہر لحاظ سے مکمل ہوگا۔ معاملہ کے صحیح ادراک کے لیے ضروری کاغذات بطور ضمیمہ لگائے جاسکتے ہیں۔
(۳) مجوزہ قانون سازی کی اصولی طور پر کابینہ سے منظوری کے لیے یا مسودہ قانون یا آرڈیننس کی منظوری کے لیے، خلاصہ برائے کابینہ میں ایسی قانون سازی کی نمایاں خصوصیات بیان کی جائیں گی۔
(۴) اگر معاملہ ایک سے زائد محکموں سے متعلق ہو تو جب تک تمام متعلقہ محکمے اس پر غور نہ کرلیں، خلاصہ کابینہ کو پیش نہیں کیا جائے گا۔ اختلاف رائے کی صورت میں، ان محکموں کے درمیان اختلافی نکات خلاصہ میں واضح طور پر بیان کیے جائیں گے۔ کابینہ کو خلاصہ ارسال کرنے کے ساتھ ہی خلاصہ کی ایک نقل پیش کنندہ محکمہ کی طرف سے ہر متعلقہ محکمہ کو ارسال کی جائے گی۔
(۵) اگر خلاصہ برائے کابینہ میں موجود کوئی تجویز مالیاتی مضمرات کی حامل ہو تو محکمہ مالیات کی مشاورت اور اس کی رائے خلاصہ میں شامل کیے بغیر مذکورہ خلاصہ کابینہ کو پیش نہیں کیا جائے گا۔
(۶) تمام مسودات قانون، ہنگامی قوانین یا ایسے احکام جن کا قانونی اثر ہو، محکمہ قانون و پارلیمانی امور سے جانچ پڑتال کے بعد کابینہ کو پیش کیے جائیں گے اور اس محکمہ کے علم میںلائے بغیر ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیںکی جائے گی۔
(۷) کوئی معاملہ کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں شمولیت کے لیے قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ اجلاس سے کم از کم چار مکمل دن قبل چیف سیکریٹری کو موصول نہ ہو، تاہم اگر معاملہ فوری نوعیت کا ہو تو متعلقہ سیکریٹری ایجنڈے میں اس معاملہ کی شمولیت کے لیے چیف سیکریٹری سے درخواست کرسکتا ہے۔ اگر چیف سیکریٹری اس تجویز سے اتفاق کرے تو گردش کے لیے کابینہ کو ایک نوٹ ارسال کیا جائے گا اور اس کے بروقت پیش کرنے کی وجوہات بیان کی جائیں گی۔
(۸) محکمہ خدمات و عمومی انتظام اس امر کی تسلی کرے گا کہ متعلقہ محکمہ کی طرف سے پیش کردہ کاغذات ہر لحاظ سے مکمل اور مناسب صورت میں ہیں۔ اگر معاملہ متعلقہ قواعد یا ہدایات کے تقاضے پورا نہیں کرتا تو عام طور پر معاملہ واپس کردیا جائے گا۔

باب نمبر۱۳ گورنر کو پیش کیے جانے والے معاملات

۱۔ وزیراعلیٰ کے مشورہ پر گورنر کے احکامات:
(۱) قواعد کارکے متعلقہ شیڈول میں مذکورہ معاملات پر گورنر کی منظوری کے بغیر کوئی حکم جاری نہیںہوگا۔ ان معاملات میں سے کسی بھی معاملہ پر گورنر کی منظوری حاصل کرنے کے لیے متعلقہ محکمہ اس امر کے بارے میں خلاصہ بعنوان ''خلاصہ برائے وزیراعلیٰ'' میں ایک پیراگراف شامل کرے گا۔ وزیراعلیٰ ، مناسب مشورے کے ساتھ، گورنر کو معاملہ پیش کرے گا۔ گورنر کے احکامات کے بعد خلاصہ وزیراعلیٰ کو واپس کردیا جائے گا۔
۲۔ معاملات برائے اطلاع:
قواعد کار کے متعلقہ شیڈول میں درج شدہ معاملات وزیراعلیٰ کی وساطت سے گورنر کو برائے اطلاع پیش کیے جائیں گے۔

باب نمبر ۱۴ صوبائی ملازمتیں

۱۔ ملازمتوں میں امتیاز کے خلاف تحفظ :
آئین کے آرٹیکل ۲۷ میں درج ذیل اعلان کیا گیا ہے:
(الف) پاکستان کی ملازمت میں تقرر کی اہلیت کے حامل کسی شہری کے ساتھ کسی تقرر کے سلسلے میں صرف نسل ، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا مقام پیدائش کی بنا پر امتیاز نہیں کیا جائے گا؛
(ب) آئین کے یوم نفاذ سے زیادہ سے زیادہ چالیس *سال کی مدت تک کسی طبقے یا علاقے کے لوگوں کے لیے اسامیاں محفوظ کی جاسکیں گی تاکہ پاکستان کی ملازمت میں ان کو مناسب نمائندگی حاصل ہوجائے۔ پاکستان کی ملازمت میں کسی طبقہ یا علاقہ کی کم نمائندگی کا ایسے انداز میں ازالہ کیا جائے جیسے مجلس شوریٰ۔
(ج) اگرمخصوص اسامیوں یا ملازمتوں میں ایسے فرائض اور کارہائے منصبی کی انجام دہی ضروری ہو جو دوسری جنس کے افراد کی جانب سے مناسب طور پر انجام نہ دیے جاسکتے ہوں تومذکورہ ملازمت کے مفاد میں ایسی اسامیاں یا ملازمتیں کسی ایک جنس کے افراد کے لیے محفوظ کی جاسکیں گی۔
(د) مذکورہ بالا تحفظ میں کوئی امر کسی صوبے کی حکومت یا اس کے کسی ادارے کو اپنی کسی اسامی یا ملازمت پر تقرر سے قبل امیدوار کے لیے اس صوبے میں زیادہ سے زیادہ تین سال رہائش کی شرط عائد کرنے میں مانع نہیں ہوگا۔
۲۔ صوبائی پبلک سروس کمیشن:
(۱) آئین کے آرٹیکل ۲۴۲ کی رُو سے کسی صوبے کی اسمبلی اس صوبے کے امور سے متعلق ، قانون کے ذریعے، پبلک سروس کمیشن کے قیام اور تشکیل کے احکام وضع کرسکتی ہے۔
(۲) کسی صوبے کے امور سے متعلق تشکیل کردہ صوبائی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کا تقرر، وزیراعلیٰ کے مشورے پر گورنر کرے گا۔
۳۔ ہر صوبے نے اپنے متعلقہ صوبے کے لیے مندرجہ ذیل پبلک سروس کمیشن قائم کیے ہیں۔
(الف) پنجاب پبلک سروس کمیشن آرڈیننس، ۱۹۷۸ء
(ب) سندھ پبلک سروس کمیشن آرڈیننس ،۱۹۷۳ء
(ج) شمال مغربی سرحدی صوبہ *پبلک سروس کمیشن آرڈیننس، ۱۹۷۳ء
(د) بلوچستان پبلک سروس کمیشن ایکٹ، ۱۹۷۴ء
۳۔ صوبائی پبلک سروس کمیشن کے کارہائے منصبی:
ہر صوبے میں قائم شدہ پبلک سروس کمیشن کے عمومی فرائض مندرجہ ذیل ہیں۔
(الف) صوبے کے امور سے متعلق صوبائی ملازمتوں اور اسامیوں پر ابتدائی تقرر کے لیے ٹیسٹ اور امتحانات منعقد کرنا؛
(ب) صوبائی حکومت کی قائم کردہ کسی کارپوریشن، خودمختار ادارے یا تنظیم کی اسامیوں پر بھرتی کے لیے ٹیسٹ اور امتحانات منعقد کرنا؛
(ج) صوبائی ملازمت کے ارکان یا صوبے کے امور سے متعلق اسامیوں کے حامل اشخاص کی قیود و شرائط سے متعلق معاملات پر حکومت کو مشورہ دینا۔
۴۔ سالانہ رپورٹ:
کمیشن کے لیے لازمی ہے کہ اپنی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ گورنر کو پیش کرے اور گورنر کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس رپورٹ کی ایک نقل صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کا اہتمام کرے۔
۵۔ صوبائی سول ملازمین ایکٹ:
(۱) صوبوں کی ملازمت میں اشخاص کے تقرر اور ان کی ملازمت کی شرائط و قیود کو ضابطے میں لانے اور ان سے متعلقہ ذیلی امور کے بارے میں احکام وضع کرنے کے لیے ہر صوبائی اسمبلی نے اپنے صوبے کے لیے مندرجہ ذیل سول ملازمین ایکٹ منظور کیے،
(الف) پنجاب سول ملازمین ایکٹ ، ۱۹۷۴ء
(ب) سول ملازمین ایکٹ سندھ ، ۱۹۷۳ء
(د) سول ملازمین ایکٹ خیبرپختون خوا،۱۹۷۳ء
(د) سول ملازمین ایکٹ بلوچستان ، ۱۹۷۴ء
(۲) ہر ایکٹ میں ضروری اصطلاحات کی تعریف کی گئی ہے۔ سول ملازمین کی ملازمت کی شرائط و قیود بیان کی گئی ہیں۔ ہر صوبے کا ایکٹ سول اسامیوں پر تقرریوں، تقرریاب افراد کی آزمائشی مدت، ان کے تقدم، ترقی، تعیناتی اور تبادلے، اختتام ملازمت، ملازمت سے ریٹائرمنٹ، طرزعمل، کارکردگی اور نظم و ضبط، تنخواہ، رخصت، پنشن انعامیہ (گریجویٹی) ، سرمایہ کفالت، فلاحی سرمایہ و گروہی بیمہ اور اپیل/عرض داشت کے حق کے بارے میں وضاحت کرتا ہے۔
۶۔ صوبائی سول ملازمین کے لیے متفرق قوانین و قواعد:
(۱) ہر صوبے کی حکومت نے اپنے سول ملازمین کے ملازمتی اُمور کے سلسلے میں اپنی متعلقہ اسمبلی کے ذریعہ مختلف موضوعات پر ایکٹ نافذ کیے ہیں۔
(۲) صوبائی سول ملازمین ایکٹ کے تحت تفویض شدہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر صوبائی حکومت نے تقرروشرائط ملازمت، ترقی و تبادلہ، اہلیت و نظم و ضبط، طرزعمل، رخصت اپیل/عرض داشت وغیرہ کے بارے میں تفصیلی قواعد وضع کیے ہیں۔

باب نمبر ۱۵ صوبائی مالیات

۱۔ صوبائی مجموعی فنڈ :
صوبائی حکومت کے وصول شدہ تمام محاصل، اس حکومت کے جاری کردہ جملہ قرضہ جات اور کسی قرضہ کی واپسی کے سلسلے میں اسے وصول ہونے والی تمام رقوم ایک مجموعی فنڈ کا حصہ بنیں گی جس کا نام صوبائی فنڈ ہوگا۔
۲۔ سرکاری حساب :
دیگر تمام ایسی رقوم صوبے کے سرکاری حساب میں جمع کرائی جائیں گی جو
(الف) صوبائی حکومت یا اس کی طرف سے وصول ہوں؛ یا
(ب) عدالت عالیہ یا صوبے کے اختیارات کے تحت قائم شدہ کسی دوسری عدالت کو وصول ہوں یا اس کے پاس جمع کرائی گئی ہوں۔
۳۔ سالانہ کیفیت نامہ میزانیہ
صوبائی حکومت ہر مالیاتی سال کے بارے میں، صوبائی حکومت کی اس سال کی تخمینی آمدنی اور مصارف کا کیفیت نامہ صوبائی اسمبلی کے سامنے پیش کرے گی۔ سالانہ کیفیت نامہ میزانیہ میں مندرجہ ذیل رقوم علیٰحدہ علیٰحدہ ظاہر کی جائیں گی۔
(الف) ایسی رقوم جو ان مصارف کو پورا کرنے کے لیے درکار ہوں جنھیں آئین میں صوبائی مجموعی فنڈ پر واجب الادا بیان کیا گیا ہے؛ اور
(ب) ایسی رقوم جو ایسے دیگر مصارف کو پورا کرنے کے لیے درکار ہوں جن کی صوبائی مجموعی فنڈ سے ادائیگی کی تجویز کی گئی ہو؛
اور محاصل کے حساب میں سے ہونے والے مصارف اور دیگر مصارف میں تفریق رکھی جائے گی۔
۴۔ صوبائی مجموعی فنڈ پر واجب الادا مصارف:
(۱) مندرجہ ذیل مصارف صوبائی مجموعی فنڈ پر واجب الادا ہوں گے۔
(الف) گورنر کو قابل ادائیگی مشاہرہ اور اس کے عہدے سے متعلق دیگر مصارف۔ مشاہرہ جو مندرجہ ذیل کو قابل ادائیگی ہوگا:۔
(ب) جج عدالت عالیہ
(ج) اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر؛ صوبائی اسمبلی
(۲) عدالت عالیہ اور صوبائی اسمبلی کے دفاتر کے انتظامی اخراجات بشمول ان مشاہروں کے جو ان کے عہدے داروں اور ملازمین کو واجب الادا ہوں؛
(۳) جملہ واجبات قرضہ جن کی ادائیگی صوبائی حکومت کے ذمہ ہو، بشمول سود، مصارف سرمایہ بے باقی*، سرمایہ کی بازادائیگی یا بے باقی یا قرضوں کے حصول کے اور صوبائی مجموعی فنڈ کی ضمانت پر قرض کے معاوضے اور انفکاک** کے سلسلے میں کیے جانے والے دیگر مصارف؛
(۴) وہ رقوم جو کسی صوبے کے خلاف کسی عدالت یا ٹریبونل کے کسی فیصلے، ڈگری یا فیصلہ ثالثی کی تعمیل کے لیے درکار ہوں؛ اور
(۵) دیگر ایسی رقوم جن کو آئین کی رُو سے یا صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے ذریعے اس طرح واجب الادا قرار دیا گیا ہو۔
۵۔ سالانہ کیفیت نامہ میزانیہ کی بابت طریق کار:
(۱) سالانہ کیفیت نامہ میزانیہ کے اس حصہ پر جو صوبائی فنڈ سے واجب الادا مصارف سے تعلق رکھتا ہو، صوبائی اسمبلی میں بحث ہو گی لیکن اسے صوبائی اسمبلی کی رائے دہی کے لیے پیش نہیں کیا جائے گا۔
(۲) مطالبات زر : سالانہ کیفیت نامہ میزانیہ کا وہ حصہ جو دیگر مصارف سے تعلق رکھتا ہو مطالبات زر کی شکل میں صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور اس اسمبلی کو کسی مطالبے کو منظور یا نامنظور کرنے، یا کسی مطالبے کو اس میں تصریح کردہ رقم کی تخفیف کے تابع منظور کرنے کا اختیار ہوگا؛
(۳) صوبائی حکومت کی سفارش کے بغیر کوئی مطالبہ زر پیش نہیں کیا جائے گا۔
۶۔ منظور شدہ خرچ کی جدول کی توثیق :
(۱) وزیراعلیٰ اپنے دستخطوں سے ایک جدول کی توثیق کرے گا جس میں حسب ذیل تصریح ہوگی۔
(الف) ان رقوم کی تصریح جو صوبائی اسمبلی نے منظور کی ہوں یا جن کا منظور کیا جانا متصور ہو؛
(ب) ان مختلف رقوم کی تصریح جو صوبائی مجموعی فنڈ سے واجب الادا مصارف پورا کرنے کے لیے مطلوب ہوں لیکن کوئی رقم اس رقم سے متجاوز نہ ہوگی جو اسمبلی میں اس سے قبل پیش کردہ کیفیت نامہ میں دکھائی گئی ہو؛
(ج) توثیق شدہ جدول کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا لیکن اس پر بحث یا رائے شماری کی اجازت نہیں ہوگی۔
(د) صوبائی مجموعی فنڈ سے کوئی مصارف باضابطہ منظورشدہ متصور نہ ہوگا جب تک توثیق شدہ جدول میں اس کی صراحت نہ کردی گئی ہو اور مذکورہ جدول کو آئین میں دیے گئے طریق کار کے مطابق صوبائی اسمبلی پیش میں نہ کردیا گیا ہو۔
۷۔ ضمنی اور زائد رقم :
اگر کسی مالی سال کی بابت یہ معلوم ہو کہ
(الف) مجاز کردہ رقم جو رواں مالی سال کے دوران کسی خاص خدمت پر صرف کی جانی تھی ناکافی ہے یا کسی ایسی نئی خدمت پر خرچ کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے جو اس سال کے سالانہ کیفیت نامہ میزانیہ میں شامل نہیں ہے ؛ یا
(ب) کسی مالی سال کے دوران کسی خدمت پر اس رقم سے زائد رقم صرف کردی گئی ہے جو اس سال کے واسطے اس خدمت کے لیے منظور کی گئی تھی؛ تو صوبائی حکومت کو اختیار ہوگا کہ صوبائی مجموعی فنڈ سے خرچ کی منظوری دے دے، خواہ وہ خرچ آئین کی رو سے اس فنڈ سے واجب الادا ہو یا نہ ہو، نیز صوبائی اسمبلی کے سامنے ایک ضمنی کیفیت نامہ میزانیہ یا زائد کیفیت نامہ میزانیہ پیش کرے گی جس میں مذکورہ خرچ کی رقم درج ہوگی۔
۸۔ حساب رائے شماری:
صوبائی اسمبلی کو اختیار ہوگا کہ وہ تخمینی خرچ کی بابت کسی رقم کی منظوری کے لیے مقررہ رائے شماری کے طریق کار کی تکمیل اور خرچ کی بابت خرچ کی جدول کی توثیق ہونے تک کسی مالی سال کے کسی حصہ، جو تین ماہ سے زائد نہ ہو، کے لیے کوئی منظوری پیشگی دے دے۔
۹۔ اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں خرچ کی منظوری دینے کا اختیار:
صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں، تخمینی خرچ کی بابت رقم کی منظوری کے لیے ، آئین میں مقرر کردہ طریق کار کی تکمیل اور خرچ کی بابت منظورشدہ خرچ کی جدول کی توثیق ہونے تک صوبائی حکومت کسی مالی سال میں کسی مدت کے لیے، جو چار ماہ سے زائد نہ ہو، صوبائی مجموعی فنڈ سے خرچ کی منظوری دے سکے گی۔

باب نمبر ۱۶ محاسب اعلیٰ پاکستان
(آڈیٹر جنرل آف پاکستان)

۱۔ محاسب اعلیٰ کا تقرر:
آئین کے آرٹیکل ۱۶۸ کی رُو سے صدر ایک محاسب اعلیٰ کا تقرر کرتا ہے۔ اپنا عہدہ سنبھالنے سے قبل، محاسب اعلیٰ پاکستان عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان ) کے چیف جسٹس کے سامنے حلف اٹھاتا ہے۔ حلف کی عبارت آئین کی جدول سوم میں درج کی گئی ہے۔
۲۔ صوبوں کے حوالے سے محاسب اعلیٰ کے فرائض و اختیارات:
(الف) حسابات *:
(۱) وفاق کی ذمہ داریوں کے علاوہ، محاسب اعلیٰ صوبوں کے حسابات بھی رکھنے کا ذمے دار ہوگا۔ صدرمملکت کسی صوبے کی طرف سے قائم کردہ کسی خودمختار ادارے کے حسابات رکھنے کا حکم دے سکتے ہیں۔
(۲) گورنر اگر چاہیں تو محاسب اعلیٰ سے صلاح مشورہ کے بعد قواعد کے ذریعے گنجائش پیدا کرسکتے ہیں کہ محاسب اعلیٰ کو صوبے کی کسی خاص سروس یا محکمہ کے حسابات تیار کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا جائے۔
(۳) محاسب اعلیٰ اپنے تیار کردہ حسابات اور سرکاری حسابات رکھنے کے ذمہ دار دوسرے اشخاص کے حسابات سے ہر سال حسابات (بشمول مدبندی حسابات) کا ایک گوشوارہ تیار کرے گا۔ جس میں صوبے کے مقاصد کے لیے سالانہ وصولیاں اور ادائیگیاں درج ہوں گی جن کی مکمل وضاحت متعلقہ مدات میں کی گئی ہوگی۔ پھر ان حسابات کو صوبے کی حکومت کو ایسی تاریخ پر پیش کرے گا جو وہ متعلقہ حکومت کی رضامندی سے متعین کرے گا۔
(۴) محاسب اعلیٰ گورنر کے عمومی یا خصوصی احکام کی تعمیل کرے گا کہ کسی خاص معاملے یا خصوصی نوعیت کے معاملات حسابات میں مخصوص مدات کے تحت دکھائے۔ تاہم اس قسم کے احکامات جن کا اوپر بیان کیا گیا ہے جاری کرنے سے پہلے گورنر محاسب اعلیٰ سے مشورہ کرے گا۔
(ب) عمومی مالیاتی کیفیت نامہ:
محاسب اعلیٰ کا فرض ہوگا کہ وہ ہر سال صدرمملکت کو عمومی مالیاتی کیفیت نامہ پیش کرے۔ اس عمومی مالیاتی کیفیت نامہ میں وہ گزشتہ سال کے بارے میں وفاق اور تمام صوبوں کے حسابات کا خلاصہ اور ان کے بقایاجات کے کوائف اور واجب الادا ذمہ داریاں شامل کرے گا اور اس میں ان کی مالیاتی صورت حال کے بارے میں ایسی تمام معلومات شامل کی جائیں گی جن کو صدرمملکت اس کیفیت نامہ میں شامل کرنے کا حکم دیں گے۔
(ج) محاسبہ (آڈٹ) :
(۱) محاسب اعلیٰ کا فرض ہوگا کہ :
(الف) وہ ان تمام اخراجات کا محاسبہ کرے جو کہ صوبوں کے محاصل سے کیے گئے ہوں اور اس بات کو معلوم کرے کہ آیا حسابات میں اداشدہ دکھائی گئیں رقوم قانونی طور پر دستیاب تھیں اور ان ہی خدمات اور مقاصد کے لیے تھیں جن کے لیے انھیں استعمال میں لایا گیا ہے اور آیا کہ اخراجات اس اختیار سے مطابقت رکھتے ہیں، جس کے تحت خرچ عمل میں لایا گیا ہے؛
(ب) قرض، امانات، بے باقی فنڈ، پیشگیوں ، معلق حسابات اور مرسلہ رقوم سے متعلق تمام صوبائی لین دین کا محاسبہ کرے؛
(ج) کسی صوبے کے گورنر کے محکمے کے تحت رکھے گئے تجارتی، صنعتی اور نفع نقصان کے حسابات اور فردہائے توازن کا محاسبہ کرے؛
(د) صوبے کے قائم کردہ کسی ہیئت مجاز یا ادارے کا محاسبہ کرے اور ہر معاملے میں گورنر کو محاسبہ شدہ اخراجات، لین دین یا حسابات کے بارے میں رپورٹ پیش کرے۔
(۲) محاسب اعلیٰ گورنر کی منظوری سے، یا اگر وہ ایسا کرنے کا حکم دے تو مندرجہ ذیل کا محاسبہ کرے گا اور رپورٹ پیش کرے گا۔
(الف) صوبائی حکومت کے کسی محکمے کے بارے میں؛
(ب) صوبائی حکومت کے کسی دفتر یا محکمے میں رکھے گئے سٹور کے حسابات کے بارے میں
(۳) صوبوں کے حسابات ایسی شکل میں اور ایسے اصولوں اور طریقوں کے مطابق رکھے جائیں گے جنھیں محاسب اعلیٰ صدرمملکت کی منظوری سے مقرر کرے گا۔
۳۔ محاسب اعلیٰ کی رپورٹیں: آئین کے آرٹیکل ۱۷۱ کے مطابق کسی صوبے سے متعلق محاسب اعلیٰ کی رپورٹیں اس صوبے کے گورنر کو پیش کی جاتی ہیں جو انھیں صوبائی اسمبلی میں پیش کرتا ہے۔

باب نمبر ۱۷ کنٹرولر جنرل حسابات

۱۔ حساب داری:
آئین کے آرٹیکل ۱۶۸ اور ۱۷۰ کی رُو سے حساب داری اور محاسبہ کاری کے فرائض ادا کرنے کی ذمہ داری آڈیٹر جنرل پاکستان کو دی گئی ہے۔ یکم جولائی ۲۰۰۱ء سے ، حسابداری اور محاسبہ کاری کے فرائض علیٰحدہ کردیے گئے*اور حکومت نے فیصلہ کیا کہ صدرمملکت کی طرف سے حسابات گروپ کے اسکیل۔ ۲۲ کے ایک افسر کو کنٹرولر جنرل حسابات مقرر کیا جائے گا۔
۲۔ کنٹرولرجنرل کے فرائض (صوبوں کے حوالے سے):
(۱) صوبوں اور اضلاع کے حسابات تیار کرنے اور رکھنے کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ حسابات صدرمملکت کی منظوری سے، محاسب اعلیٰ کے طے کردہ طریقوں اور اصولوں کے مطابق تیار کیے جائیں گے اور پھر آئندہ حوالے کے لیے رکھے گئے ان حسابات کی دیکھ بھال کی جائے گی۔
(۲) صوبائی حکومتوںکو ان کے مجموعی فنڈ اور سرکاری حسابات سے منظورشدہ میزانیہ رقوم ادا کرنے اور نکالنے کا اختیار دے گا۔
(۳) صوبائی گورنر اپنے صوبے کے تحت قائم شدہ کسی ادارے یا ہیئت مجاز کے حسابات تیار کرنے اور ان کی نگہداشت کی ذمہ داری دے سکتا ہے۔
(۴) صوبائی محکمہ مالیات کی مشاورت سے حکومت کے محکمہ جات کے داخلی مالیاتی کنٹرول کے لیے اصول طے کرے گا؛
(۵) متعلقہ حکومت کی طرف سے شروع کردہ نئی اسکیموں ، پروگراموں یا سرگرمیوں کی حسابداری کے طریق کار پر مشورہ دے گا؛
(۶) ہر مالیاتی سال کے اختتام پر، آڈیٹرجنرل کے مقررکردہ نظام الاوقات کے مطابق، اپنے مرتب کردہ حسابات، آڈیٹر جنرل کے مقررکردہ کسی ذمہ دار شخص کے حوالے کرے گا؛
یہ حسابات متعلقہ مدوں کے تحت ہر صوبے کی سالانہ وصولیاں اور ادائیگیاں ظاہر کرتے ہوں؛
(۷) متعلقہ صوبائی حکومت کی مشاورت سے پنشن، کفالتی فنڈ اور ریٹائرمنٹ کے فوائد کا ایک مؤثر نظام تشکیل دے گا اور اسے درست طریقے سے جاری رکھے گا؛
(۸) محکمہ محاسبی کے مشاہدات محاسبی کے تصفیہ کے لیے متعلقہ محکموں سے رابطہ رکھے گا؛
(۹) اپنے افسروں اور ماتحت عملہ کی تربیت کے لیے سہولتیں فراہم کرے گا، نصاب سازی کرے گا اورتربیتی معیار مقرر کرے گا؛
۳۔ کنٹرولر جنرل حسابات کے ماتحت دفاتر:
متعلقہ صوبائی حکومتوں کے طرف سے اعلان کردہ دفاتر اور ان دفاتر میں کام کرنے والے افسر، صوبہ اور ضلع کی سطح پر، کنٹرولر جنرل کے تحت کام کریں گے۔ فی الحال ان دفاتر میں مندرجہ ذیل حسابداری کے ادارے شامل ہیں۔
(۱) ناظم اعلیٰ محاصل پاکستان اور اس کے ماتحت دفاتر؛
(۲) ناظم اعلیٰ عسکری اور اس کے ماتحت دفاتر؛
(۳) صوبائی ناظم اعلیٰ کے دفاتر اور ان کے ماتحت دفاتر؛
(۴) چیف اکاؤنٹس آفیسر/حسابدار اعلیٰ، دفاتر محکمہ جاتی حسابداری؛
(۵) دیگر محکمہ جاتی حسابداری ادارے اور ان کے ماتحت دفاتر
۴۔ رپورٹیں: کنٹرولر جنرل حسابات ایسے تمام حسابات کے بارے میں جو براہ راست اس کے ماتحت دفاتر یا اس کے ماتحت افسروں کے دفاتر یا دیگر اداروں نے تیار کیے ہوں، طریق کار کے مطابق ہر مالیاتی سال کے بارے میں مقررہ رپورٹیں تیار کرے گا اور آڈیٹر جنرل پاکستان کو پیش کرے گا۔

باب نمبر ۱۸ انتخابات اور نگران کابینہ

۱۔ انتخاب کا انعقاد :
(۱) آئین کے آرٹیکل ۲۲۴ کی رُو سے کسی صوبائی اسمبلی کی پانچ سالہ میعاد، اگر اسمبلی اس سے پہلے تحلیل نہ کردی جائے،کے اختتام پر عام انتخابات اس دن سے عین بعد ساٹھ دن کے اندر کرائے جائیں گے جس دن اسمبلی کی میعاد ختم ہونے والی ہو، اور انتخاب کے نتائج کا اعلان تحلیل کے دن سے زیادہ سے زیادہ چودہ دن کے اندر کردیا جائے گا۔
(۲) جب صوبائی اسمبلی اپنی میعاد کے اختتام سے پہلے تحلیل کردی جائے تو اسمبلی کا انتخاب تحلیل کی تاریخ سے نوّے یوم کے اندر ہوگا اور انتخاب کے نتائج کا اعلان رائے دہی کے اختتام سے زیادہ سے زیادہ چودہ یوم کے اندر کیا جائے گا۔
۲۔ نگران کابینہ :
(۱) صوبائی اسمبلی اپنی میعاد مکمل ہونے کے بعد تحلیل ہونے پر یا آرٹیکل ۵۸ یا آرٹیکل ۱۱۲ کے تحت تحلیل ہونے پر گورنر نگران کابینہ مقرر کرے گا۔ گورنر نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب برخاست کی جانے والی صوبائی اسمبلی کے وزیراعلیٰ اور قائدحزب اختلاف کے مشورے سے کرے گا۔
(۲) صوبائی نگران کابینہ کے ارکان بشمول نگران وزیراعلیٰ اور ان کے قریبی ارکان خاندان (شریک حیات اور بچے) مذکورہ اسمبلی کے فوراً بعد ہونے والے انتخاب میں شریک ہونے کے اہل نہیں ہوں گے۔
(۳) رخصت ہونے والی صوبائی حکومت کے وزیراعلیٰ اور قائدحزب اختلاف کا کسی شخص کے بطور نگران وزیراعلیٰ تقرر پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں، اس اسمبلی کی تحلیل کے تین دن کے اندر، وہ دونوں اپنی طرف سے نامزدکردہ دو دو نام صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے فوری طور پر تشکیل کردہ کمیٹی کو ارسال کریں گے جو رخصت ہونے والی صوبائی اسمبلی کے آٹھ ارکان پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی میں حکومت اور حزب اختلاف کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ ان ارکان کی مساوی نامزدگی وزیراعلیٰ اور قائدحزب اختلاف کی طرف سے کی جائے گی۔ اگر حزب اختلاف کے ارکان کسی بھی اسمبلی میں پانچ سے کم ہوں تو وہ تمام ارکان مذکورہ بالا کمیٹی کے ارکان ہوں گے اور کمیٹی باضابطہ تشکیل کردہ تصور کی جائے گی۔
(۴) اس معاملہ پر رجوع کرنے کے تین یوم کے اندر، آٹھ ارکان پر تشکیل شدہ کمیٹی نگران وزیراعلیٰ کا نام حتمی طور پر طے کرے گی۔ اگر یہ کمیٹی تین یوم میں حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام ہوجائے تو نامزد اشخاص کے نام دو یوم میں آخری فیصلہ کے لیے الیکشن کمیشن پاکستان کو ارسال کیے جائیں گے۔
(۵) نگران وزیراعلیٰ کے تقرر تک، موجودہ وزیراعلیٰ اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔

باب نمبر ۱۹ صوبوںمیں انتظامی تقسیم
۱۔ صوبہ
(۱) پاکستان، بھارت اور کئی دوسرے ملکوںمیں ضلع، حکومت کی مقامی اکائی کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ ریاست کے اختیار اور حکومت کے مؤثر انتظام کی علامت ہے۔
(۲) علاقائی انتظام کے لیے ہر صوبہ کو ڈویژنوں ، ضلعوں، سب ڈویژنوں اور تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ڈویژن کا سربراہ کمشنر، ضلع کا سربراہ ڈپٹی کمشنر، سب ڈویژن کا سربراہ اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیل کا سربراہ تحصیل دار ہوتا ہے۔

۳۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر ۲۷ ڈویژن اور ۱۰۹ اضلاع ہیں۔ ڈویژنوں میں علاقہ دارالحکومت اسلام آباد اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات شامل نہیں ہیں۔

۲۔ صوبہ بلوچستان :

صوبہ بلوچستان میںانتظامی طور پر ۶ ڈویژن اور ۲۷ اضلاع ہیں۔
صوبہ بلوچستان کے ڈویژن اور اضلاع

تعداد اضلاع
نام اضلاع
ڈویژن
۴
کوئٹہ۔ پشین۔ چاغی۔ قلعہ عبداﷲ
کوئٹہ
۱۔
۶
قلات۔ خضدار۔ لسبیلا۔ خاران۔ مستونگ۔ آواران
قلات
۲۔
۴
سبی۔ ڈیرہ بگتی۔ کوہلو۔ زیارت
سبی
۳۔
۳
گوادر۔ پنجگور۔نوشکی
مکران
۴۔
۵
ژوب ۔لورالائی۔ بارکھان۔ قلعہ سیف اﷲ۔ موسیٰ خیل
ژوب
۵۔
۵
نصیرآباد۔کچھی(تربت)۔ جھل مگسی۔ بولان۔ جعفرآباد
نصیرآباد
۶۔

کل اضلاع
۲۷
ہر ضلع کو تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔بلوچستان میں تحصیلوں کی کل تعداد ۷۵ ہے۔

۳۔ صوبہ خیبرپختون خوا:
صوبہ خیبر پختون خوا میں انتظامی طور پر ۸ ڈویژن اور ۲۶ اضلاع ہیں۔
صوبہ خیبرپختون خوا کے ڈویژن اور اضلاع

تعداد اضلاع
نام اضلاع
ڈویژن
نمبرشمار
۲
پشاور۔ نوشہرہ
پشاور
۱۔
۳
کوہاٹ۔ کرک۔ ہنگو
کوہاٹ
۲۔
۳
ڈیرہ اسماعیل خان۔ ٹانک۔ کلاچی
ڈیرہ اسماعیل خاں
۳۔
۷
مالاکنڈ۔ سوات۔ چترال۔ بونیر۔ اپردیر۔ لوئر دیر۔ شانگلہ
مالاکنڈ
۴۔
۳
مردان۔ چارسدہ۔ صوابی
مردان
۵۔
۳
ہزارہ۔ ایبٹ آباد۔ ہری پور
نصیرآباد
۶۔
۲
بنوں۔ لکی مروت
بنوں
۷۔
۳
مانسہرہ۔ کوہستان۔ بٹ گرام
مانسہرہ
۸۔

کل اضلاع
۲۶
ہر ضلع کو تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خیبرپختون خوا میںتحصیلوں کی کل تعداد ۰ ۵ ہے۔

۴۔ صوبہ پنجاب:
صوبہ پنجاب میں انتظامی طور پر ۹ ڈویژن اور ۳۶ اضلاع ہیں
صوبہ پنجاب کے ڈویژن اور اضلاع

تعداد اضلاع
نام اضلاع
ڈویژن
نمبرشمار
۴
لاہور۔ قصور۔ شیخوپورہ۔ ننکانہ صاحب
لاہور
۱۔
۴
راولپنڈی۔ جہلم۔ چکوال۔ اٹک
راولپنڈی
۲۔
۴
فیصل آباد۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ جھنگ ۔چنیوٹ
فیصل آباد
۳۔
۴
سرگودھا۔ میانوالی۔ خوشاب۔ بھکر
سرگودھا
۴۔
۶
گوجرانوالہ۔ گجرات۔ سیالکوٹ۔ نارووال۔ حافظ آباد۔ منڈی بہاء الدین
گوجرانوالہ
۵۔
۴
ملتان۔ وہاڑی۔ خانیوال۔ لودھراں
ملتان
۶۔
۳
بہاولپور۔ بہاولنگر۔ رحیم یار خان
بہاولپور
۷۔
۴
ڈیرہ غازی خاں۔ راجن پور۔ لیہ۔ مظفرگڑھ
ڈیرہ غازی خاں
۸۔
۳
ساہیوال۔ پاکپتن۔ اوکاڑہ
ساہیوال
۹۔

کل اضلاع
۳۶
ہرضلع کو تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پنجاب میں تحصیلوں کی کل تعداد ۱۲۱ ہے۔

۵۔ صوبہ سندھ
صوبہ سندھ میں انتظامی طور پر۵ ڈویژن اور ۲۱ اضلاع ہیں
صوبہ سندھ کے ڈویژن اور اضلاع

تعداد اضلاع
نام اضلاع
ڈویژن
نمبرشمار
۵
کراچی غربی۔ کراچی شرقی۔ کراچی جنوبی۔ کراچی وسطی۔ ملیر
کراچی
۱۔
۵
حیدرآباد۔ دادو۔ بدین۔ ٹھٹھہ
حیدرآباد
۲۔
۴
سکھر۔ خیرپور۔ نواب شاہ۔نوشہروفیروز۔ گھوٹکی
سکھر
۳۔
۳
لاڑکانہ۔ شکارپور۔ جیکب آباد
لاڑکانہ
۴۔
۴
میرپورخاص۔ سانگھڑ۔ تھرپارکر۔عمرکوٹ
میرپورخاص
۵۔

کل اضلاع
۲۱
ہر ضلع کو تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سندھ میںتحصیلوں کی کل تعداد ۱۱۳ ہے۔

کتابیات
۱۔ قواعد کار ۱۹۷۳ء (مسودہ) ؛ حکومت پاکستان ؛ مترجم ؛ قاضی عزیزالرحمن عاصم، نظرثانی: جمشیدعالم؛ اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان۔
۲۔ ایسٹاکوڈ ضابطہ امور عملہ؛ عبدالرحیم خان؛ اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان؛ ۲۰۰۴ئ۔
۳۔ قواعد کار حکومت بلوچستان، ۱۹۷۶ئ۔
۴۔ قواعد کار حکومت پنجاب ۲۰۱۱ء ۔
۵۔ قواعد کار حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ، ۱۹۸۵ئ۔
۶۔ قواعد کار حکومت سندھ، ۱۹۸۶ئ۔
۷۔ ہدایات معتمدی؛ حکومت بلوچستان۔
۸۔ ہدایات معتمدی ؛حکومت پنجاب ۔
۹۔ ہدایات معتمدی؛ حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ ، ۲۰۰۸ئ۔
۱۰۔ ہدایات معتمدی ؛حکومت سندھ۔
۱۱۔ پاکستان کا نظامِ حکومت اور سیاست ؛ ڈاکٹر ایم اے رزاق؛،کراچی، مکتبۂ فریدی؛ ۱۹۷۶ئ۔
۱۲۔ قانونی انگریزی اردو لغت (بلیکس لاء ڈکشنری سے ماخوذ) ؛ نگران ؛ پروفیسر فتح محمد ملک، اسلام آباد؛ مقتدرہ قومی زبان؛ ۲۰۰۲ئ۔
۱۳۔ قومی انگریزی اُردو لُغت؛ تدوین: ڈاکٹر جمیل جالبی ؛ اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،؛ ۱۹۹۲ئ۔
۱۴۔ اوکسفرڈ انگلش اُردو ڈکشنری؛ مرتب و مترجم : شان الحق حقی؛کراچی،اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس؛ ۲۰۰۳ئ۔
۱۵۔ دفتری اصطلاحات (انگریزی۔اردو)؛ عبدالرحیم خان؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان؛ ۲۰۰۶ئ۔
۱۶۔ محکموں اور اداروں کے نام؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۵ئ۔
۱۷۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت؛ محمدسرور، گلزارمحی الدین ؛ علمی کتاب خانہ، لاہور؛ طبع دوم؛ ۱۹۷۴ء


18. Constitution of the Islamic Republic of Pakistan; 1973
19. Constitution (Eighteenth Amendment). Act, 2010
20. Constitution Twentieth. Amendment) Act, 2012
21. Government and Administration in Pakistan; by: Dr Jameel-ur-Rehman; Islamabad؛Government of Pakistan (Establishment Division,)MS Wing, PPRC); 2003.
22. Rules of Business 1973; Government of Pakistan (Cabinet Division); Islamabad.
23. Secretariat Instructions; (Ed:2004)(online) Government of Pakistan;(Cabinet Division); Islamabad: 2004
24. EstaCode, Civil Establishment Code. Vol-I, Government of Pakistan;Establishment Division, ( MS Wing, PPRC, Islamabad); 2007
25. Distribution of Legislative Powers; Lecture by: GM Chaudhary; Ministry of Law, Justice and Human Rights, Islamabad.
26. Pakistan Economic Survey, Government of Pakistan (Finance Division); June, 2012.
27. Pakistan Census Organisation Official Website.

جمشیدعالم وفاق اور صوبوں کے مابین تعلقات اور طریق کار
جائنٹ سیکریٹری (ر)
باب نمبر ۱ وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات قانون سازی کی تقسیم
۱۔ وفاقی و صوبائی قوانین کی وسعت:
آئین کے تحت، مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) پورے پاکستان یا اس کے کسی حصے کے لیے قوانین (جن میں بیرونِ ملک قابل عمل قوانین شامل ہیں) بناسکے گی اور کوئی صوبائی اسمبلی اس صوبے یا اس کے کسی حصے کے لیے قوانین بناسکے گی۔
۲۔ وفاق اور صوبائی قوانین کے موضوعات : اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے تحت،
(الف) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی امر کے بارے میں قوانین بنانے کا بلاشرکت غیرے اختیار ہوگا؛
(ب) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلی کے پاس قانون فوجداری، فوجداری طریق کار اور اشتہارات کے ضمن میں قوانین وضع کرنے کا اختیار ہوگا*۔
۳۔ صوبائی اسمبلی کااختیار :
صوبائی اسمبلی کو کسی ایسے معاملے میں قانون سازی کرنے کا اختیار ہوگا جو وفاقی قانون سازی کی فہرست میں بیان نہیں کیا گیا۔ یہ اختیار مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو حاصل نہیں ہوگا*۔
۴۔ وفاق کے زیرانتظام علاقہ جات میں مجلس شوریٰ کا اختیار:
مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے پاس ایسے تمام معاملات سے متعلق قوانین وضع کرنے کا مکمل اختیار ہوگا جن کا تعلق وفاق کے ایسے علاقوں سے ہو جو کسی صوبے میں شامل نہ ہوں*۔
۵۔ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی ایک سے زیادہ صوبوں کی رضامندی سے قانون سازی کا اختیار:
اگر ایک یا زیادہ صوبائی اسمبلیاں اس مضمون کی قرارداد منظور کریں کہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کسی ایسے معاملے کو جو آئین کی جدول چہارم میں دی گئی وفاقی قانون سازی کی فہرست میں درج نہ ہو، قانون کے ذریعے منضبط کرے، تو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے لیے جائز ہوگا کہ وہ مذکورہ معاملے کو بجنسہٖ منضبط کرنے کے لیے ایک ایکٹ منظور کرے لیکن اس طرح منظور کردہ کسی ایکٹ میں ایسے صوبے کی بابت جس پر وہ اطلاق پذیر ہو اس اسمبلی کے ایکٹ کے ذریعے ترمیم یا تنسیخ کی جاسکے گی۔
۶۔ وفاقی اور صوبائی قانون میں تناقض:
اگر کسی صوبائی اسمبلی کے کسی ایکٹ کا کوئی حکم مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے کسی حکم سے متناقض ہو جسے مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) وضع کرنے کی مجاز ہو تو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا ایکٹ، خواہ وہ صوبائی اسمبلی کے ایکٹ سے پہلے بنا ہو یا بعد میں، غالب رہے گا اور صوبائی اسمبلی کا ایکٹ تناقض کی حد تک باطل رہے گا۔*

باب نمبر۲ وفاق اور صوبوں کے درمیان انتظامی تعلقات

۱۔ صدر مملکت کا گورنر کو اپنے عامل کے طور پر بعض کارہائے منصبی انجام دینے کا حکم یا اختیار:
صدر کسی صوبے کے گورنر کو حکم دے سکے گا کہ وہ اس کے عامل کی حیثیت سے، بالعموم یا کسی خاص معاملے میں، وفاق کے ایسے علاقوں کی بابت جو کسی صوبے میں شامل نہیں ہیں، ایسے کارہائے منصبی انجام دے جن کی حکم میں صراحت کی گئی ہو۔
۲۔ وفاق کا بعض صورتوں میں صوبوں کو اختیارات وغیرہ تفویض کرنے کا اختیار:
(۱) آئین کے آرٹیکل ۱۴۶ کے تحت ،وفاقی حکومت کسی صوبے کی حکومت کی رضامندی سے کسی ایسے معاملے سے متعلق جو وفاق کے عاملانہ اختیار کے دائرہ میں آتا ہو کارہائے منصبی، مشروط /غیرمشروط طور پر اس حکومت کو یااس کے عہدے داروں کے سپرد کرسکے گی۔
(۲) مجلس شوریٰ کا کوئی ایکٹ، باوجود اس امر کے کہ اس کا تعلق کسی ایسے معاملے سے ہو جس کی بابت کسی صوبائی اسمبلی کو قانون سازی کا اختیار نہ ہو، کسی صوبے یا اس کے عہدے داروں اور ہیئت ہائے مجاز کو اختیارات تفویض کرسکے گا اور ان پر فرائض عائد کرسکے گا۔
(۳) جب کسی صوبے یا اس کے عہدے داروں یا ہیئت ہائے مجاز کو آئین کے آرٹیکل ۱۴۶ کی رُو سے اختیارات اور فرائض تفویض عائد کیے گئے ہوں، تو مذکورہ اختیارات کے استعمال یا مذکورہ فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں صوبے کی جانب سے برداشت کیے جانے والے زائد انتظامی اخراجات کی بابت وفاق کی طرف سے صوبے کو ایسی رقم ادا کی جائے گی جو آپس میں طے ہوجائے، یا طے نہ ہونے کی صورت میں ، ایسی رقم جو چیف جسٹس کے مقررکردہ کسی ثالث کی طرف سے متعین کی جائے۔
۳۔ صوبے کا وفاق کو کارہائے منصبی سپرد کرنے کااختیار:
کسی صوبے کی حکومت وفاقی حکومت کی رضامندی سے کسی ایسے معاملے سے متعلق جو صوبے کے عاملانہ اختیار کے دائرہ میں آتا ہو، کارہائے منصبی، مشروط طور پر یا غیرمشروط طور پر، وفاقی حکومت یا اس کے عہدے داروں کے سپرد کرسکے گی۔ تاہم صوبائی حکومت اس طرح سپرد کردہ کارہائے منصبی کی ساٹھ دن کے اندر صوبائی اسمبلی سے توثیق کرائے گی۔
۴۔ صوبوں اور وفاق کی ذمہ داری:
(۱) ہر صوبے کا عاملانہ اختیار اس طرح استعمال کیا جائے گا کہ اس سے ان وفاقی قوانین کی تعمیل کی ضمانت ملے جو اس صوبے میں اطلاق پذیر ہوں؛
(۲) کسی صوبے میں وفاق کے عاملانہ اختیار کو استعمال کرنے میں اس صوبے کے مفادات کا لحاظ رکھا جائے گا؛
(۳) وفاق کا یہ فرض ہوگا کہ ہر صوبے کو بیرونی جارحیت اور اندرونی خلفشار سے محفوظ رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ صوبے کی حکومت آئینی احکام کے مطابق چلائی جائے۔
۵۔ بعض صورتوں میں صوبوں کے لیے ہدایات:
(۱) آئین کے آرٹیکل ۱۴۹ کے مطابق ہر صوبے کا عاملانہ اختیار اس طرح استعمال کیا جائے گا کہ وہ وفاق کے عاملانہ اختیار میں حائل نہ ہو یا اسے نقصان نہ پہنچائے اور وفاق کو یہ عاملانہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی صوبے کو ایسی ہدایات دے جو اس مقصد کے لیے
وفاقی حکومت کو ضروری معلوم ہوں۔
(۲) وفاق کویہ عاملانہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی صوبے کو ایسے ذرائع مواصلات کی تعمیر اور نگہداشت کے لیے ہدایات دے جنھیں قومی یا فوجی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہو۔
(۳) وفاق کو عاملانہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی صوبے کو ایسے طریقے کی بابت ہدایات دے جس میں اس کے عاملانہ اختیار کو پاکستان یا اس کے کسی حصے کے امن و سکون اور معاشی زندگی کے لیے کسی سنگین خطرے کے انسداد کی غرض سے استعمال کیا جانا ہو۔
۶۔ سرکاری کارروائیوں وغیرہ پر مکمل اعتماد و اعتبار:
ہر صوبے کی سرکاری کارروائیوں اور ریکارڈوں اور عدالتی کارروائیوں کو پاکستان بھر میں پورے طور پر معتبر اور وقیع سمجھا جائے گا۔
۷۔ بین الصوبائی تجارت :
(۱) پاکستان بھر میں تجارت، بیوپار اور رابطہ کی آزادی ہوگی ؛
(۲) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) قانون کے ذریعے، ایک صوبے سے دوسرے صوبے کے مابین یا پاکستان کے اندر کسی حصے میں تجارت، بیوپار یا رابطہ کی آزادی پر، ایسی پابندیاں عائد کرسکے گی جو مفاد عامہ کے لیے درکار ہوں۔
(۳) کسی صوبائی اسمبلی یا کسی صوبائی حکومت کو اختیار نہیں ہوگا کہ
(الف) کوئی ایسا قانون بنائے یا کوئی ایسی انتظامی کارروائی کرے جس میں اس صوبے میں کسی نوع یا کسی قسم کی اشیاء کے داخلے یا اس صوبے سے ان کی برآمدگی کی ممانعت یا تحدید کی گئی ہو؛ یا
(ب) کوئی ایسا محصول عائد کرے جو اس صوبے کی تیارکردہ یا پیداکردہ اشیاء اورپاکستان کے کسی دوسرے علاقے میں تیارکردہ یا پیداکردہ ویسی ہی اشیاء ہوں، کے درمیان اور اول الذکر اشیاء کے حق میں امتیاز پیدا کرے، یا جو اس صوبے سے باہر تیارکردہ یا پیدا کردہ اشیاء کے معاملہ میں، پاکستان کے کسی ایک علاقے میں تیارکردہ یا پیدا کردہ اشیاء اور کسی دوسرے علاقے میں ویسی ہی تیارکردہ یا پیداکردہ شیاء کے درمیان امتیاز پیدا کرے۔
(۴) کسی صوبائی اسمبلی کو کوئی ایسا ایکٹ جو صحت عامہ، امن عامہ، اخلاق عامہ، جانوروں یا پودوں کو بیماری سے محفوظ رکھنے یا اس صوبے میں کسی ضروری شے کی شدید قلت کو روکنے یا کم کرنے کی غرض سے کوئی مناسب پابندی لگاتا ہو، ناجائز نہیں ہوگا، اگر وہ صدر کی رضامندی سے بنایا گیا ہو۔
۸۔ وفاقی اغراض کے لیے اراضی کا حصول:
اگر وفاق کسی ایسی اراضی کو جو کسی صوبے میں واقع ہو، کسی ایسے مقصد کے لیے جو کسی ایسے معاملے سے متعلق ہو جس کے بارے میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو قوانین وضع کرنے کا اختیار ہو، حاصل کرنا ضروری خیال کرے تو وہ اس صوبے کو حکم دے سکے گا کہ وہ اس اراضی کو وفاق کی طرف سے اور اس کے خرچ پر حاصل کرے یا، اگر اراضی صوبے کی ملکیت ہو تو اسے وفاق کے نام ایسی شرائط پرمنتقل کرے جو طے پاجائے یا طے نہ پانے کی صورت میں، چیف جسٹس پاکستان کے مقررکردہ کسی ثالث کی طرف سے طے کی جائیں۔

باب نمبر۳ وفاق اور صوبوں کے درمیان مشترکہ معاملات و مفادات
پر فیصلہ سازی اور تنازعات کا تصفیہ

۱۔ قومی معاشی کونسل:
آئین کے آرٹیکل ۱۵۶ کے تحت صدرمملکت ایک قومی معاشی کونسل تشکیل دیں گے۔ کونسل کے ارکان مندرجہ ذیل ہوں گے۔
(۱) وزیراعظم جو کونسل کا چیئرمین ہوگا۔
(۲) وزراء اعلیٰ ؛
(۳) ہر صوبے سے ایک رکن جس کی نامزدگی وزیراعلیٰ کرے گا۔
(۴) دوسرے چار ارکان جن کی نامزدگی وقتاً فوقتاً وزیراعظم کرے گا۔
۲۔ کونسل کے کارہائے منصبی:
قومی معاشی کونسل ملک کی مجموعی معاشی حالت کا جائزہ لے گی اور وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو مشورہ دینے کے لیے مالیاتی، تجارتی، معاشرتی اور معاشی پالیسیوں کے بارے میں منصوبے تشکیل دے گی اور ایسے منصوبے تشکیل دیتے وقت دوسرے عناصر سمیت متوازن ترقی اور علاقائی مساوات کو یقینی بنائے گی اور پالیسی کے ان اصولوں سے رہنمائی حاصل کرے گی جو آئین کے حصہ دوم کے باب ۲ میں درج ہیں۔
۳۔ کونسل کا اجلاس:
کونسل کا اجلاس چیئرمین بلائے گا یا کونسل کے نصف ارکان کی درخواست پر کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا۔ کونسل کا اجلاس سال میں کم از کم دو مرتبہ ہوگا اور کونسل کے اجلاس کا کورم اس کی کل رکنیت کا نصف ہوگا۔
۴۔ سالانہ رپورٹ :
کونسل مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)کے سامنے جواب دہ ہوگی اور مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ہر ایوان کو سالانہ رپورٹ پیش کرے گی۔
۵۔ بین الصوبائی کانفرنس:
بین الصوبائی کانفرنس کا اجلاس بین الصوبائی رابطہ ڈویژن منعقد کرے گا جس کی صدارت وزیراعظم کرے گا۔
۶۔ کارہائے منصبی:
بین الصوبائی کانفرنس میںمندرجہ ذیل اُمور پیش کیے جائیں گے۔
(۱) معاشی، معاشرتی اور انتظامی دائرہ کار میں صرف قومی اہمیت کے معاملات، جن پر پالیسی فیصلوں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان باہمی گفتگو کی ضرورت ہو، بین الصوبائی کانفرنس میں پیش کیے جائیں گے۔
(۲) اس کانفرنس کا ایک بڑا مقصد قومی مفاد کے تمام معاملات میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان پالیسی کی تشکیل اور اس کے نفاذ میں یکساں انداز نظر کو فروغ دینا ہے۔
(۳) یہ کانفرنس صوبائی حکومتوں کے تجویز کردہ ایسے پالیسی مسائل پر بھی گفتگو کرتی ہے جو ملک کے لیے بحیثیت مجموعی معاشی، معاشرتی یا انتظامی مضمرات کے حامل ہیں۔
۷۔ مشترکہ مفادات کونسل
آئین کے آرٹیکل ۱۵۳ کے تحت ایک مشترکہ مفادات کونسل کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کونسل کی تشکیل صدرمملکت کریں گے اور یہ کونسل مندرجہ ذیل ارکان پر مشتمل ہوگی۔
(۱) وزیراعظم جو کونسل کا چیئرمین ہوگا؛
(۲) صوبوں کے وزراء اعلیٰ؛
(۳) وفاقی حکومت کے تین ارکان جنھیں وقتاً فوقتاً وزیراعظم نامزد کرے گا۔
۸۔ سالانہ رپورٹ:
کونسل مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے سامنے جواب دہ ہوگی اور دونوں ایوانوں کے سامنے ایک سالانہ رپورٹ پیش کرے گی۔
۹۔ کارہائے منصبی اور طریق کار:
کونسل کے کارہائے منصبی اور طریق کار مندرجہ ذیل ہیں؛
(۱) کونسل وفاقی قانون سازی فہرست کے حصہ دوم میں درج شدہ معاملات کی پالیسیوں کی تشکیل اور ضابطہ بندی کرے گی اور متعلقہ اداروں کی نگرانی اور ان پر کنٹرول کرے گی۔
(۲) وزیراعظم کے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے تیس یوم کے اندر کونسل کی تشکیل کی جائے گی۔
(۳) کونسل کا مستقل سیکریٹریٹ ہوگا اور نوے دن میں کم از کم ایک دفعہ کونسل کا اجلاس ہو گا مگر شرط یہ ہے کہ کسی ہنگامی معاملہ کی صورت میں کسی صوبہ کی درخواست پر وزیراعظم اجلاس منعقد کرسکے گا۔
(۴) کونسل کے فیصلوں کا اظہار کثرت رائے سے کیا جائے گا۔
(۵) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اپنے مشترکہ اجلاس میں، قرارداد کے ذریعے ، وفاقی حکومت کے توسط سے کونسل کو عمومی طور پر یا کسی خاص معاملے میں، ایسی کارروائی کرنے کے لیے جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) مبنی برانصاف اور مناسب خیال کرے، وقتاً فوقتاً ہدایات جاری کرسکے گی اور کونسل ایسی ہدایات کی پابند ہوگی۔
(۶) اگر وفاقی حکومت یا کوئی صوبائی حکومت کونسل کے کسی فیصلے سے غیرمطمئن ہو تو وہ اس معاملے میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے مشترکہ اجلاس سے رجوع کر سکے گی جس کا فیصلہ اس بارے میں حتمی ہوگا۔
(۷) اگر وفاقی حکومت کسی صوبے میں بجلی پیدا کرنے کی غرض سے انتظامات کرے اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت میں کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو اس تنازعہ کے حل کے لیے کوئی بھی حکومت مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے معاملہ اٹھا سکتی ہے۔
۱۰۔ آب رسانی میں مداخلت کی شکایات:
اگر کسی صوبے ، وفاقی دارالحکومت یا وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں یا ان کے باشندوں میں سے کسی کے، کسی قدرتی سرچشمہ آب رسانی یا ذخیرۂ آب سے پانی کے حصول کے مفادات پر مندرجہ ذیل امور کی وجہ سے مضر اثر پڑا ہو، یا پڑنے کا امکان ہو؛
(الف) کوئی عاملانہ کارروائی جو زیرعمل لائی گئی ہو، یا قانون جو منظور کیا گیا ہو، یا جس کے زیرعمل لائے جانے یا منظور کیے جانے کی تجویز ہو، یا
(ب) مذکورہ سرچشمے سے پانی کے استعمال اور تقسیم یا کنٹرول کے سلسلے میں کسی ہیئت مجاز کی طرف سے اپنے اختیارات میں سے کسی کو بروئے کار لانے میں کوتاہی ہو تو وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کونسل سے تحریری طور پر شکایت کرسکے گی۔
۱۱۔ وفاقی حکومت کے اختیارات :
کسی صوبے میں بجلی پیدا کرنے کی غرض سے وفاقی حکومت کو مندرجہ ذیل اختیارات حاصل ہیں۔
(۱) پن بجلی /حرارتی برقی تنصیبات:پن بجلی (ہائیڈروالیکٹرک) یا حرارتی برقی(تھرمل پاور) تنصیبات یا گرڈاسٹیشن تعمیرکر یا تعمیر کراسکتی ہے؛
(۲) صوبائی حکومت سے مشاورت:پن بجلی اسٹیشن کی تعمیر کرنے یا کرانے کا فیصلہ کرنے سے قبل، وفاقی حکومت متعلقہ صوبائی حکومت سے مشاورت کرے گی۔
(۳) بین الصوبائی ترسیلی تار: وفاقی حکومت بین الصوبائی ترسیلی تار بچھاسکے گی یا بچھواسکے گی۔
۱۲۔ صوبائی حکومت کے اختیارات : بجلی پیدا کرنے، ترسیل کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے کسی صوبائی حکومت کو مندرجہ ذیل اختیارات حاصل ہیں۔
(۱) بجلی کی بڑی مقدار کا مطالبہ: صوبے کو قومی گرڈ سے جس حد تک بجلی فراہم کی گئی ہو، صوبائی حکومت یہ مطالبہ کرسکتی ہے کہ صوبے کے اندر ترسیل و تقسیم کے لیے بجلی بڑی مقدار میں فراہم کی جائے؛
(۲) بجلی کے استعمال پر محصول: صوبائی حکومت اپنے صوبے کے اندر بجلی کے استعمال پر محصول عائد کرسکتی ہے؛
(۳) بجلی گھر کی تعمیر: صوبے کے اندر استعمال کی غرض سے بجلی گھر اور گرڈاسٹیشن تعمیر کرسکتی ہے؛
(۴) ترسیلی تار بچھانا: صوبائی حکومت بجلی کے ترسیلی تار بچھا سکتی ہے۔
(۵) نرخنامہ بجلی : صوبے کے اندر بجلی کی تقسیم کے لیے نرخنامے کا تعین کرسکتی ہے۔
۱۳۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بجلی پیدا کرنے، ترسیل کرنے اور تقسیم کرنے پر تنازع: بجلی کے کسی معاملے کی بابت وفاقی حکومت اور کسی صوبائی حکومت کے درمیان کسی تنازع کی صورت میں مذکورہ حکومتوں میں سے کوئی بھی حکومت اس تنازع کے حل کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کے پاس جاسکتی ہے۔
۱۴۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن نشریات: (۱) صوبائی حکومت کو نشریاتی کارہائے منصبی کی سپردگی: وفاقی حکومت کسی صوبائی حکومت کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشریات کے بارے میں ایسے کارہائے منصبی سپرد کرنے سے غیرمعقول طور پر انکار نہیں کرے گی جو اس حکومت کے لیے مندرجہ ذیل اغراض کے لیے ضروری ہوں:
(الف) صوبے میں ٹرانسمیٹر کی تعمیر اور اس کا استعمال؛
(ب) وصول کنندہ آلات کے استعمال کے بارے میں حسب قاعدہ فیس مقرر کرنا اور اسے عائد کرنا
(۲) وفاقی حکومت اس امر کی پابند نہیں ہے کہ وہ ان ٹرانسمیٹروں کے استعمال پر، جو وفاقی حکومت یا وفاقی حکومت کے مجازکردہ اشخاص کے تعمیر کردہ یازیرتحویل ہوں، یا اس طرح مجازکردہ اشخاص کی طرف سے وصول کنندہ آلات کے استعمال پر کوئی اختیار کسی صوبائی حکومت کو سپرد کردے۔
(۳) کوئی کارہائے منصبی جو کسی صوبائی حکومت کے سپرد کئے گئے ہوں، وفاقی حکومت کی عائدکردہ شرائط، بشمول مالیاتی شرائط، کے تحت انجام دئیے جائیں گے، لیکن وفاقی حکومت کے لیے کوئی ایسی شرائط عائد کرنا جائز نہ ہوگا جو ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر صوبائی حکومت کی طرف سے یا اس کے حکم سے نشرکردہ مواد کو منضبط کرتی ہوں۔
(۴) ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات کے بارے میں مذکورہ بالا احکام وفاقی قانون کے ذریعے نافذ ہوں گے۔
(۵) اگر یہ سوال پیدا ہو کہ آیا صوبائی حکومت پر عائدکردہ شرائط جائز ہیں یا صوبائی حکومت کو کارہائے منصبی سپرد کرنے سے وفاقی حکومت کا انکار غیرمعقول ہے تو اس سوال کا تصفیہ چیف جسٹس کا مقررکردہ ثالث کردے گا۔

باب نمبر ۴ وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم

۱۔ قومی مالیاتی کمیشن:
وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے لیے آئین کے آرٹیکل۱۶۰ کے تحت قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ کمیشن وفاقی حکومت کے وزیرمالیات، صوبائی حکومتوں کے وزرائے مالیات اور ایسے دیگر اشخاص پر مشتمل ہے جنھیں صدر صوبوں کے گورنروں سے مشورے کے بعد مقرر کرے گا۔
۲۔ کمیشن کی سفارشات:
(۱) قومی مالیاتی کمیشن کا فرض ہے کہ وہ صدرمملکت کو حسب ذیل کے بار ے میں سفارشات پیش کرے۔
(الف) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے اختیار کے تحت مندرجہ ذیل وصول شدہ محصولات کی خالص آمدنی (وہ آمدنی جوو صولی کے اخراجات وضع کرنے کے بعد باقی بچے اور اس کی تحقیق و تصدیق آڈیٹر جنرل کی طرف سے کی جائے گی۔ ) کی وفاق اور صوبوں کے درمیان تقسیم:
(اول) آمدنی پر محصولات جس میں محصول کارپوریشن شامل ہے لیکن وفاقی مجموعی فنڈ میں سے اداشدہ معاوضے پر مشتمل آمدنی پر محصولات شامل نہیںہیں؛
(دوم) درآمد شدہ، برآمد شدہ، پیداکردہ، مصنوعہ یا صرف شدہ مال کی فروخت اور خرید پر محصول؛
(سوم) کپاس پر برآمدی محصولات اور ایسے دوسرے برآمدی محصولات جن کی صراحت صدر کرے؛
(چہارم) آبکاری کے ایسے محصولات جن کی صدر صراحت کرے؛
آئین کے آرٹیکل ۱۶۰ میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے یہ اضافہ کیا گیا ہے۔
(پنجم) ایسے دوسرے محصولات جن کی صدر صراحت کرے؛
(ب) وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو امداری رقوم دینا
(ج) وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے قرضہ لینے کے ان اختیارات کا استعمال جو آئین نے عطا کیے ہیں۔
(د) مالیات سے متعلق کوئی اور معاملہ جسے صدر نے کمیشن کو ارسال کیا ہو
(۲) قومی مالیاتی کمیشن کے ہر ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ پچھلے ایوارڈ میں ادا کردہ حصے سے کم نہیں ہوگا۔
(۳) قومی مالیاتی کمیشن کی سفارشات وصول ہونے کے بعد کسی فرمان کے جاری کرنے سے پہلے کسی بھی وقت، صدر، فرمان کے ذریعے، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے بارے میں قانون میں کوئی ایسی ترمیم یا ردوبدل کرسکے گا جسے وہ ضروری یا قرین مصلحت سمجھے۔
(۴) صدر، فرمان کے ذریعے، امداد کے ضرورت مند صوبوں کے محاصل کے لیے امدادی رقوم دے سکے گا اور ایسی امدادی رقوم وفاقی مجموعی فنڈ سے واجب الادا ہوں گی؛
۳۔ سفارشات پر عمل درآمد :
قومی مالیاتی کمیشن کی سفارشات موصول ہونے کے بعد، جتنی جلد ہوسکے، صدر ،فرمان کے ذریعے، کمیشن کی سفارشات کے مطابق، مذکورہ محاصل کی اصل آمدنی کی اس حصے کی صراحت کرے گا جو ہر صوبے کے لیے مختص کیا جائے گا اور وہ حصہ متعلقہ صوبے کی حکومت کو ادا کردیا جائے گا اور وفاقی مجموعی فنڈ کا حصہ نہیں بنے گا۔
۴۔ ایوارڈ پر عمل درآمد:
(۱) وفاقی وزیرخزانہ اور صوبائی وزرائے خزانہ ہر سال دو مرتبہ ایوارڈ پر عمل درآمد کا جائزہ لیں گے اور اپنی رپورٹیںمجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں (سینیٹ و قومی اسمبلی) اور صوبائی اسمبلی کے سامنے پیش کریں گے۔*
۵۔ قدرتی گیس اور پن بجلی:
۱۔ (الف) قدرتی گیس کے سرچشمہ پر عائد کردہ اور وفاقی حکومت کی طرف سے وصول کردہ وفاقی محصول آب کاری اور وفاقی حکومت کی جانب سے وصول کردہ رائلٹی کی خالص آمدنی، وفاقی مجموعی فنڈ کا حصہ نہیں بنے گی اور وہ اس صوبہ کو ادا کردی جائے گی جس میں قدرتی گیس کا سرچشمہ واقع ہو۔
(ب) تیل کے سرچشمہ پر عائد کردہ اور وفاقی حکومت کی جانب سے وصول کردہ خالص آمدنی، وفاقی مجموعی فنڈ کا حصہ نہیں بنے گی اور وہ اس صوبہ کو ادا کردی جائے گی جس میں تیل کا سرچشمہ واقع ہو۔
۲۔ وفاقی حکومت یا کسی ایسے ادارے کی طرف سے جو وفاقی حکومت نے قائم ہو یا اس کے زیرانتظام ہو کسی پن بجلی گھر سے بجلی کی تھوک مقدار میں پیداوار سے کمائے ہوئے اصل منافع جات اس صوبے کو ادا کردیے جائیں گے جس میں وہ پن بجلی گھر واقع ہو۔
۶۔ کسی صوبے کو محصولات سے تفویض کردہ کلی یاجزوی آمدنی سے متعلق قانون سازی پر صدرمملکت کی پیشگی منظوری:
مندرجہ ذیل محصولات پر اثرانداز ہونے والا مسودہ قانون (نیا قانون یا ترمیم) صدرمملکت کی پیشگی منظوری کے بغیر نہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور نہ ہی اس کی تحریک کی جائے گی۔
(۱) ایسا ٹیکس یا ایسی ڈیوٹی عائد کرنا یا تبدیل کرنا جس کی اصل آمدنی کلی یا جزوی طور پر کسی صوبے کو تفویض کی جاتی ہو؛
(۲) ایسا بل جس سے ''زرعی آمدنی'' کی اصطلاح کا وہ مفہوم تبدل ہوتا ہو جو آمدنی ٹیکس سے متعلق وضع کردہ قوانین کی اغراض کے لیے متعین کیا گیا ہو۔
(۳) ایسا مسودہ قانون یعنی بل جو ان اصولوں کو متاثر کرتا ہو جن کی بنیاد پر مندرجہ ذیل صورتوں میں رقوم صوبوں میں تقسیم کی جاتی ہیں یا کی جاسکتی ہیں۔
(الف) قومی مالیاتی کمیشن کی سفارشات پر؛
(ب) قدرتی گیس اور پن بجلی پر وفاقی حکومت کی طرف سے وصول کردہ وفاقی محصول آب کاری اور حق ملکیت پر معاوضہ/رائلٹی ۷۔ پیشوں وغیرہ کے بارے میں صوبائی محصولات :
کوئی صوبائی اسمبلی، ایکٹ کے ذریعے، ایسے ٹیکس، جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی طرف سے منظورشدہ ایکٹ کے ذریعے وقتاً فوقتاً مقررکردہ حد سے تجاوز نہ کریں، ان اشخاص پر عائد کرسکے گی جو پیشوں، کاروبار، روزگار یا پیشہ ورانہ کاموں میں مصروف ہوں، اور اس اسمبلی کے ایسے کسی ایکٹ سے یہ تصور نہیں کیا جائے گا کہ آمدنی پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

باب نمبر ۵ جائیداد کی ملکیت اور اس کے بارے میں اختیارات

۱۔ لاوارث جائیداد :
(۱) آئین کے آرٹیکل ۱۷۲ کی رُو سے ایسی کوئی جائیداد ، جس کا کوئی جائز مالک نہ ہو، اگر کسی صوبے میں واقع ہو، تو اس صوبائی حکومت کی ملکیت ہوگی، بصورت دیگر ایسی جائیداد وفاقی حکومت کی ملکیت ہوگی۔
(۲) تمام اراضیات، معدنیات اور دوسری قیمتی اشیاء جو پاکستان کے براعظمی کنار آب کے اندر یا پاکستان کے علاقائی سمندر کی حد سے باہر، سمندر کے نیچے ہوں، وفاقی حکومت کی ملکیت ہوں گی۔
(۳) صوبہ کے اندر معدنی تیل اور قدرتی گیس یا ان میں علاقائی پانی اس صوبہ اور وفاقی حکومت کی مشترکہ اور مساوی ملکیت ہوں گے، تاہم موجودہ وعدوں اور ذمہ داریوں کو پورا کیا جائے گا۔ *
۲۔ جائیداد حاصل کرنا اور معاہدے کرنا:
(۱) ہر صوبہ کو مندرجہ ذیل انتظامی اختیار حاصل ہے:
(الف) متعلقہ صوبائی حکومت کی ملکیت میںموجود کوئی جائیداد کسی کو عطا کردے، فروخت کردے، بذریعہ دستاویز کسی کو منتقل کردے یا رہن رکھ دے؛
(ب) متعلقہ صوبائی حکومت کی طرف سے جائیداد خریدے یا حاصل کرے اور اس سلسلے میں معاہدات کرے۔
(۲) کسی صوبہ کی اغراض کے لیے حاصل کردہ تمام جائیداد، اس صوبائی حکومت کی ملکیت ہوگی؛
(۳) کسی صوبہ کا انتظامی اختیار استعمال کرتے ہوئے ، تمام معاہدات میں یہ اظہار کیا جائے گا کہ وہ صوبہ کے گورنر کے نام سے کیے گئے ہیں اور مذکورہ اختیار استعمال کرتے ہوئے کیے گئے تمام معاہدات اور تکمیل کی گئی تمام دستاویزات جائیداد پر گورنر کی جانب سے ایسے اشخاص دستخط کریں گے اور ایسے طریقے پر کیے جائیں گے جن کی وہ ہدایت کرے یا اجازت دے۔
(۴) کسی صوبہ کے انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی معاہدہ یا تکمیل کردہ کسی جائیداد کے بارے میں کسی صوبے کا گورنر ذاتی طور پر ذمہ دار نہیں ہوگا۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص جو گورنر کی جانب سے کوئی ایسا معاہدہ کرے یا کسی دستاویز جائیداد کی تکمیل کرے اس سلسلے میں ذاتی طور پر ذمہ دار نہیں ہوگا۔
(۵) انتقال اراضی: وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی طرف سے اراضی کے انتقال کو قانون کے ذریعے باضابطہ کیا جائے گا۔
۳۔ مقدمات و کارروائیاں:
وفاق کی جانب سے اور اس کے خلاف، پاکستان سے مقدمہ دائر کیا جاسکے گا اور کسی صوبے کی جانب سے اور اس کے خلاف اس صوبہ کے نام سے مقدمہ دائر کیا جاسکے گا۔
باب نمبر ۶ متفرق مالیاتی احکامات

مجموعی فنڈ سے عطیات:
کوئی صوبہ کسی غرض کے لیے عطیات دے سکے گا، بلالحاظ اس امر کے کہ غرض وہ نہ ہو جس کے بارے میں کوئی صوبائی اسمبلی قانون وضع کرسکتی ہے۔
صوبائی حکومت کا قرض لینا:
(۱) کسی صوبہ کو صوبائی مجموعی فنڈ کی ضمانت پر، صوبائی اسمبلی کے کسی ایکٹ کے ذریعے مقررہ حدود کے اندر، اگر کوئی ہوں، قرض لینے اور ضمانتیں دینے کا انتظامی اختیار حاصل ہے۔
(۲) کوئی صوبہ وفاقی حکومت کی رضامندی کے بغیر درج صورتوں میںکوئی قرضہ حاصل نہیں کرسکے گا۔
(الف) اگر صوبہ کے ذمہ اس قرضے کا جو وفاقی حکومت کی طرف سے اسے دیا گیا ہو، کوئی حصہ ابھی تک باقی ہو؛
(ب) اگر صوبہ کے ذمہ ایسا قرضہ باقی ہو، جس کی بابت وفاقی حکومت نے ضمانت دی ہو۔
(۳) مذکورہ بالا صورتوںمیں، ایسی شرائط کے تحت جو وہ عائد کرنا مناسب سمجھے، وفاقی حکومت اپنی رضامندی دے سکتی ہے۔
(۴) وفاقی مجموعی فنڈ کی ضمانت پر، ایسی حدود کے اندر اور ایسی شرائط کے تحت جو قومی معاشی کونسل نے طے کی ہوں، کوئی صوبہ ملکی یا بین الاقوامی قرضہ حاصل کرسکے گا۔
۲۔ وفاقی املاک/آمدنی کا صوبائی محصول سے استثنیٰ :
وفاقی حکومت کی املاک یا آمدنی پر کسی صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے تحت کوئی محصول عائد نہیں کیا جائے گا۔
۳۔ صوبائی املاک/آمدنی کا وفاقی محصول سے استثنیٰ :
کسی صوبائی حکومت پر اس کی املاک یا آمدنی پر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے تحت کوئی محصول عائد نہیں کیا جائے گا۔
۴۔ ایک صوبے کی املاک /آمدنی کا دوسرے صوبے کے محصول سے استثنیٰ :
کسی صوبائی حکومت پر اس کی املاک یا آمدنی پر کسی دوسرے صوبے کی صوبائی اسمبلی کے تحت کوئی محصول عائد نہیں کیا جائے گا۔
۵۔ تجارت/کاروبار میں مستعمل املاک اور تجارت /کاروبار سے حاصل شدہ آمدنی پر محصول :
اگر کسی صوبے کی حکومت کسی قسم کی تجارت یا کاروبار، اپنے صوبے سے باہر کرتی ہو، یا اس کی طرف سے کیا جاتا ہو، تو اس تجارت/کاروبارمیں مستعمل املاک، یا اس تجارت/ کاروبار سے حاصل شدہ آمدنی پر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے تحت، یا جس صوبے میں وہ تجارت یا کاروبار کیا جاتا ہو، اس صوبے کی صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے تحت محصول عائد کیا جاسکے گا۔ اس سلسلے میں خدمات پر فیس عائد کرنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔
کتابیات
۱۔ قواعد کار ۱۹۷۳ء (مسودہ) ؛ حکومت پاکستان ؛ مترجم : قاضی عزیزالرحمن عاصم، نظرثانی : جمشیدعالم؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان۔
۲۔ قواعد کار حکومت بلوچستان، ۱۹۷۶ئ۔
۳۔ قواعد کار حکومت پنجاب، ۲۰۱۱ء ۔
۴۔ قواعد کار حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ، ۱۹۸۵ئ۔
۵۔ قواعد کار حکومت سندھ، ۱۹۸۶ئ۔
۶۔ پاکستان کا نظام حکومت اور سیاست؛ ڈاکٹر ایم اے فاروق؛ کراچی،مکتبہء فریدی،؛ ۱۹۷۶ئ۔
۷۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت؛ محمدسرور، گلزارمحی الدین ؛لاہور، علمی کتاب خانہ؛ طبع دوم؛ ۱۹۷۴ء
۸۔ قانونی انگریزی اُردو لغت (بلیکس لاء ڈکشنری سے ماخوذ) ؛ نگران ؛ پروفیسر فتح محمد ملک؛ اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۰۲ئ۔
۹۔ قومی انگریزی اُردو لُغت؛ تدوین: ڈاکٹر جمیل جالبی ؛ اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان، ا۱۹۹۲ئ۔
۱۰۔ اوکسفرڈ انگلش اُردو ڈکشنری؛ مرتب و مترجم : شان الحق حقی؛کراچی، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ۲۰۰۳ئ۔
۱۱۔ پاکستان کا نظامِ حکومت اور سیاست ؛ ڈاکٹر ایم اے رزاق؛ کراچی،مکتبۂ فریدی،کراچی؛ ۱۹۷۶ئ۔
۱۲۔ محکموں اور اداروں کے نام؛ مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۵ئ۔


13. Constitution of the Islamic Republic of Pakistan; 1973
14. Constitution (Eighteenth Amendment). Act, 2010
Constitution (Twentieth Amendment) Act, 2012
15. Government and Administration in Pakistan; by: Dr Jameel-ur-Rehman; MS Wing,(PPRC); Islamabad; 2003.
16. Rules of Business 1973; Government of Pakistan (Cabinet Division); Islamabad.
17.. A Hand book for Drawing & Disbursing Officers; MS Division (PPARC), Islamabad; Revised Edition 1988 (Reprint 1989)
18. Distribution of Legislative Powers;Lecture, by G.M.Chaudhary; Islamabad, Ministry of Law, Justice and Human Rights.
19. Constitutional Integrity and the Constitution of 1973; by M.Amjad Khan; Frontier Post; Dt: April, 9, 2000.
20. Official website Governments of Balochistan, Khyber Pakhtun Khwa, Punjab and Sindh.